Novel Ki Dunya
February 28, 2025 at 10:08 AM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_22 چاندی کا تھال اس سیاہ گھنگھور آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ میں آنکھ مچولی کھیل رہا تھا سفید براق روئے کے گولوں جیسے بادل رات کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔ چودہویں کا چاند گویا اٹکلھیاں کر رہا تھا۔ یہاں سے وہاں تک ہر شے کو گویا بقعہ نور بنا رہا تھا، درخت بھی چاندنی میں نہائے ہوئے تھے۔ وہ ہاسٹل کی کھڑکی کھولے بیٹھی تھی۔ بال شانوں پر بکھرے، پشت پر پھیلے ہوئے تھے۔ میمونہ موبائل پکڑے کمرے میں داخل ہوئی (شاہ سے بات کر کے جو آئی تھی)عرش میں جنبش نا ہوئی۔ وہ اسکے برابر کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ وہ ہنوز ہتھیلی میں چہرہ لئیے، آگے کو ہوکر بیٹھی تھی، چہرہ چاند کی اس بے تحاشا روشنی میں روشن تھا...، "تم سوئی نہیں،؟" میمونہ نے کھڑکی کا ایک پٹ موڑا، عرش نے چہرہ گھمایا جیسے وہ چونکی۔ "نہیں سوئی میں، مجھے نیند نہیں آرہی، مجھے سونا بھی نہیں ہے،" وہ واپس کھڑی سے باہر دیکھنے لگی۔ "چڑیل لگ رہی ہو اس طرح بیٹھی ہوئی،" میمونہ نے ماحول پہ چھائی فسوں خیزی کو ختم کرنا چاہا۔ عرش نے گردن گھمائی اور واپس باہر دیکھنے لگی۔ میمونہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔ وہ واقعی ایک آتما لگ رہی تھی..خوبصورت..حسین اور اسرار سے بھری...! "تم اداس ہو؟" میمونہ کو "اسکی خاموشی" حیرت میں مبتلا کر رہی تھی۔ "میں ٹھیک ہو میمونہ، میں اداس بھی نہیں ہوں....میں..میں خود کو بھی نہیں سمجھ پا رہی..مجھے نہیں پتا کیا ہورہا ہے.." کہتے کہتے عرش کی آنکھوں کے کنارے پر موتی چمکے۔ "ائیے...ادھر دیکھو میری طرف،" کندھوں سے پکڑ کر اسے اپنی طرف موڑا، "میں صرف تمہاری دوست ہی نہیں تمہاری بہن بھی ہوں نا؟..مجھے بتاؤ گی نہیں؟ تمہیں پتا ہے عرش..تم نا اپنے تاثرات نہیں چھپا سکتی..مجھ سے تو بلکل بھی نہیں..میں تمہاری آنکھوں میں جھانک کر بتا سکتی ہوں تم اداس ہو یا خوش ہو..میں تمہاری دوست ہوں...پتا نہیں کیوں بہن بھائی کو ہی جسم اور روح کا حصہ کہتے ہیں..ہوتے بھی ہیں وہ، مگر دوست دل کا حصہ ہوتے ہیں یار...ہوتے ہیں نا؟" میمونہ نے اسکے ہاتھ تھامے۔ "ہوتے ہیں، نم آنکھوں سے سر ہلایا وہ اب ترچھی بیٹھی ہوئی تھی چاندنی آدھے رخ پر پڑ رہی تھی۔ "دوسروں کا نہیں پتا مگر میرے تو واقعی دل کا ٹکڑا ہے،" میمونہ کو دیکھتے ہوئے اسنے اعتراف کیا۔ "پھر بتاؤ مجھے کیا بات ہے" میمونہ نے اسکے آنسو صاف کئیے۔ (دوستوں کا یہ مطلب تھوڑی ہوتا ہے ہمیشہ ہنستے ہوئے ساتھ رہیں..دوست تو وہ ہوتے ہیں جو آپکے رونے میں بھی ساتھ ہوں...ضروری نہیں ہنسانے والے ہی بہترین دوست ہوں،ستانے والے بھی کبھی کبھی دل کا ٹکڑا ہوتے ہیں، آپکا دل ہلکا کرنے والے..بلا جواز آپکا ساتھ نا چھوڑنے والے آپکا غم چٹکیوں میں اڑا کر آپکو ہلکا پھلکا کردینے والے..) عرش نے ہاتھ اپنی ہآنکھوں پر رکھے، بنا آواز پانی گرنے لگا... "میمونہ..میں...بس میں ہی نہیں ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے..اسے زندگی میں کچھ ملے نا ملے..سچی محبت چائیے ہوتی ہے....شاہ..شاہ کو مجھ سے پیار نہیں ذرا بھی نہیں...ہے..اگر اسکی شادی میرے بجائے کہیں اور کردی جاتی تو..تو وہ تب بھی خوش رہتا...ماما تو خوش ہیں سب انکی مرضی کے مطابق ہوا..میرا دل دکھتا ہے..میں نے زندگی میں کسی شہزادے کی تمنا نہیں کی..نا ہی میں نے کسی رانجھے..پنوں..شاہ جہاں..یا رومیو کی تمنا کی..مجھے بس میرا..جو میرا ہو بے شک مجھ سے طوفانی محبت نا کرتا ہو مگر..مگر "محبت"کرتا ہو، میں سمجھتی تھی اسنے میری جان بچائی کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے مگر نہیں، میری جگہ کوئی اور بھی گرتا تو وہ بچانے جاتا..میں بھول گئی کہ وہ ڈاکٹر بن رہا ہے..مسیحا..ساری زندگی اسنے لوگوں کی جانیں ہی بچانی ہیں..." میمونہ نے اسکے چہرے کی جانب دیکھا، جو پورا آنسوؤں سے تر تھا۔ میمونہ کا دل کیا اسے سب سچ بتا دے..مگر نہیں اگر ابھی وہ بتا دیتی تو..عرش ٹوٹ سی جاتی۔ وہ اسے سچ بتا دیتی اسکے سارے گلے دور اور خواہش پوری ہوجاتی...مگر نہیں.یہ وقت نہیں تھا اسے بس تسلی دینی تھی۔ کسی بھی بات سے دی جاسکتی تھی۔ میمونہ سوچ میں پڑ گئی "بہت دل دکھا لیا جیجو آپنے میری معصوم دوست کا تھوڑی سی لیک تو میں کر رہی ہوں، خود ہی نمٹیئے گا" "میں تمہیں کچھ بتانے ہی آئی تھی عرش"اسکے آنسو صاف کئیے۔ مگر پہلے مجھے ایک سوال کا جواب دو، "کیا تم شاہ سے محبت کرتی ہو؟" "بہت" لرزتی پلکیں بند ہوئیں "کب سے؟" "جب میں نے پہلی بار انجانے میں شاہ کی باتیں سنیں تھیں..، وہ ماضی میں کھونے لگی۔........................................................... اردگرد کا ماحول لائیبری کے ماحول میں تبدیل ہوگیا اور ہاتھ میں مگ لئیے سردی میں شال لپیٹے واک کرتی عرش زہر یونیورسٹی میں چوتھا دن، وہ رات اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ براجمان تھی وہ لائبریری کے باہر اور اندر اسٹوڈنٹس کا ہجوم تھا امتحانات قریب تھے اور شاہ وہاں سیڑھیوں پہ بیٹھا تھا۔ جب احمد اسکے پاس آیا۔ اور اسے دیکھتے ہی شاہ کو کوفت ہوئ تھی۔ "شاہ ثنا میر واقعی تم سے پیارکرتی ہے اور سیریس ہے اچھی لڑکی ہے فیملی بھی اچھی ہے اور کیا چاہتے ہو تم؟" "میں اس سے شادی نہیں کرسکتا احمد" اسے جی بھر کے تاو آیا تھا عجیب مصیبت میں جان پھنس گئ تھی "یار شاہ تم سے شادی کیلئے کون کہہ رہا ہے کم سے کم تم اسے پازیٹیو رسپانس تو دے سکتے ہو؟ احمد جیسے ٹھان کر آیا تھا کہ شاہ سے "ہاں" کروا کر ہی جائے گا " میں پازیٹیو رسپانس دے دوں سیدھے سیدھے تمہارا مطلب ہےمیں "ٹائم پاس " کروں اسے آگے تک لے آوں اور بعد میں مجھے شرم سے جھوٹ گھڑ کر بولنے پڑیں کہ میں شادی نہیں کرسکتا؟ یہ مجھے زیب نہیں دیتا" میرے ماں باپ نے مجھے ہمیشہ دھوکہ نا دینے کی تاکید کی ہے احمد مجھے اس میں کوئ دلچسپی نہیں ہے وہ اچھی لڑکی ہے، مگر میرے لیئے ٹھیک نہیں ہے.... یہ جا کر تم اسے کہہ دینا جس نے تمہیں سکھا کر میرے پاس بھیجا ہے" آخری الفاظ احمد کی انکھوں میں جھانک کر ادا کئے تھے اور احمد جیسے پول کھلنے پہ جزبز ہوا تھا آئیں بائیں شائیں کرتے وہ وہاں سے چلا گیا۔ شاہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گیا کافی کا مگ ہاتھ میں لئے پڑھائ سے بے نیاز واک کرتی عرش زہرا نے ساری گفتگو سنی تھی اپنی تمام تر نالائقیوں کے باوجود اسے سمجھ آگئ تھی یہ بندہ بہت ڈیشنگ ہے "خیر مجھے کیا" اسنے کندھے اچکائے تھے اور واک کرنے لگی تھی وہ ماضی سے حال میں آئی چاندنی کی روشنی میں نہائی ہوئی حسین رات... "تب ہی پتا نہیں کیوں میرے دل میں خود ہی شاہ کیلئے جگہ بن گئی تھی..میں نےاسے سوچا...دیکھا...لڑی..اگنور کیا مگر پھر بھی وہ میرے دل سے نہیں نکلا...پھر معجزے کی طرح میری زندگی میں آگیا مگر اسے مجھ سے محبت نہیں رہی" وہ سر جھکا گئی میمونہ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اسے شاہ پہ غصہ اور خود پہ افسوس ہوا جو دوست کی سائیڈ چھوڑ کر اس شاہ ارسلان کی سائیڈ لے لی تھی "عرش دیکھو" میمونہ نے جلدی سے موبائل نکالا، "تم سے کس نے کہا وہ تم سے محبت نہیں کرتا؟،یہ دیکھو ایک گھنٹہ پہلے اس کمرے میں آنے سے پہلے مجھے شاہ کی کال آئی وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے، اسنے مجھ سے ریکوئیسٹ کی کہ میں تم ے اسکی بات کرواوں وہ یہ دن محسوس کرنا چاہتا ہے..وہ تم سے محبت کرتا ہے، عرش تم ٹھیک کہہ رہی ہو ڈاکٹر کا کام زندگی بچانا ہے مگر..عرش ڈاکٹر مریضوں کیلئے رویا نہیں کرتے،" اس نے اسے وہ دیا تھمایا جو وہ گل کر چکی تھی عرش چونکی پہاڑ پر اپنے چہرے پر گرنے والے شاہ کے آنسو وہ محسوس کر سکتی تھی۔ وہ چونکی میومنہ کو دیکھا جو پرسکون تھی..اسکے دل کو قرار سا آیا۔ "مم..میں شاہ سے کل بات کروں گی ابھی مجھے نیند آرہی ہے" وہ آگہی کے اس لمحے میں ہر چیز سے نظریں چراتی بیڈ کی طرف بڑھ گئی "چول" میمونہ مسکرائی۔ کھڑکی سے باہر آنکھ مچولی کرتا چاند بھی مسکرایا تھا۔ ***** اگلے دن میمونہ نے ساری بات اسے بتا دی تھی (سوائے عرش کے اعتراف کے) وہ شاک کے عالم میں سن رہا تھا "عرش زہرا روئی؟؟، وہ بھی اسلیئے کہ اسے لگتا مجھے اس سے محبت نہیں؟" وہ انگلی سینے پہ رکھے پوچھنے لگا۔ حیرت...مسرت..جذبات کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں "بے حد روئی، اور اب آپکو اپنی محبت کا احساس اسے دلانا ہے تو دلائیں..ورنہ خیر ہے...وہ بھی کبھی آپکو دل میں جگہ نہیں دے گی..کمپرومائز کرلے گی، میں کچھ "ایسی کہانیاں" سناوں گی" میمونہ نے دھمکایا "ایسا ہو سکتا ہے کیا؟" وہ مسکرایا چیلنجنگ مسکراہٹ، "ایسا ہو سکتا ہے، اور ہوگا بھی، کیونکہ اگر آپنے اسے دوبارہ رلایا تو میں ساری بات اسے بتادوں گی آپکے ڈراموں سمیت" ساری کتابیں اکھٹی کر کے میمونہ نے ٹیبل پر بجائیں۔ اور آٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ بھی میمونہ تھی عرش زہرا کی دوست "ارے ارے...دھیرج دھیرج وعدہ کرتا ہوں دوبارہ نہیں رلاوں گا، کال بھی خود کرلوں گا مگر نکاح تک تم اپنا منہ بند رکھنا، اور تمہارا نکاح پر جو کراچی ٹور ہے اسکا سارا خرچ میرے ذمے" شاہ نے اسے "آفر" دی (رشوت لگ رہی،منہ بند رکھنے کی) میمونہ جاتے جاتے رکی اور مسکرا کر پلٹی۔ "سوچ لیں جیجو، کراچی بہت بڑا ہے، اور میں پنجاب کی دھرتی کا وہاں سے موازنہ کرنے وہاں کا چپہ چپہ چھان ماروں گی" دونوں ہاتھ ٹیبل پر جمائے وہ جھکتے ہوئے شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولتی گئی "منظور ہے" ٹیبل سے چابیاں اٹھاتے وہ اٹھا۔ "ابھی عرش کو مت کہنا کچھ بس تین دن رہتے ہیں، نکاح میں کل ہماری فلائٹ ہے امی نے دو دن پہلے آنے کا کہا ہے، اور تم ایک ہفتے والے دن وہاں تشریف لے آنا،" وہ حفاظتی اقدامات کر رہا تھا۔ نہیں بتاوں گی کچھ بھی وعدہ رہا" وہ چلی گئی "اللہ کرے نا ہی بتائے کچھ، ان لڑکیوں کو سنا ہے ہر بات بیسٹی کو بتا کر ہی چین آتا ہے" شاہ بڑبڑایا تھا پھر کتھئی آنکھیں چندھیا کر گاڑی ڈھونڈنے لگا ***** اور پھر شاہ کو موقع ہی نا ملا کال کرنے کا اگلے دن ان دونوں نے ساتھ کراچی جانا تھا وہ پہلے عرش کو اسکے گھر ڈراپ کر کے خود اپنے گھر چلا جاتا وہ اسکے ہاسٹل کر باہر آکر کھڑا ہوگیا لاؤنج سے بہت دور۔ کیونکہ وہاں آتی جاتی لڑکیوں نے مبارکباد دینے کا ایک سلسلہ شروع کردینا تھا کوئی بعید نا تھی کہ میمونہ اور عرش کی دوستیں کوئی رسم ایجاد کرلیتیں، اسے نکاح کیلئے بھیجنے کی، پہل عرش کی ماما کو اعتراض تھا کہ "اچھا لگتا ہے یوں دونوں منگیتر اکیلے سفر کریں، پھر عرش کے بابا بھی غصہ ہونگے،" وہ متامل تھیں نورینہ اور انساء بیگم میں اتنی بے تکلفی تو ہوگئی تھی کہ بلا تامل اپنے تحفظات کا اظہار کرسکیں۔ "ویسے بھی تو عرش اکیلی آیا جایا کرتی فلائٹ میں، نورینہ، تب بھی نجانے کتنے لوگ ہوتے ہونگے، یہ تو بہتر ہے شاہ ساتھ ہوگا تو وہ محفوظ ہوگی" چائے کا کپ ٹیبل پر دھرتے انساء بیگم نے "ساس پنا" دکھایا تھا۔ اور ثابت کیا تھا کہ وہ شاہ کی ماں ہیں اور لاجواب کرسکتی ہیں پھر کچھ پس و پیش کے بعد نورینہ ماں گئیں تھیں۔ اب شاہ اکتا کر گھڑی دیکھنے لگا تھا آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا یوں کھڑے کھڑے، وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دیکھے اور گرلز ہاسٹل کے باہر کھڑا رہنے پر اسکینڈل بنے۔ مگر ان دونوں کو تو جیسے پرواہ ہی نہیں تھی۔ سیاہ شلوار سوٹ پشاوری چپل جیل سے سیٹ کئیے بال اور گھنی مونچھیں۔ وہ پودوں کیلئے بنائی گئی اونچی سی کیاری سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔ دھوپ آنکھوں پر پڑتی تو وہ آنکھیں چندھیا لیتا گھنے ابرو آنکھوں ٹچ ہونے لگتے۔ گیٹ سے عرش زہرا نمودار ہوئی تھی۔ اور اس سے باتیں کرتی میمونہ۔ میرون رنگ کے کرتے شلوار میں دوپٹہ پورے کاندھے پر پھیلائے،پاؤں میں کھسہ پہنے ہوئے تھی۔بالوں کو غالبااسٹریٹ کر کے اسنے سیدھا چھوڑا ہوا تھا، اسکے برعکس میمونہ نے فان کلر کے دوپٹے سے اونچی حجاب بنائی تھی۔ اور لمبے کرتے میں ملبوس تھی وہ حجاب میں ہی رہتی تھی۔ سامان کا ایک کیس لئیے وہ آگے بڑھ رہیں تھیں شاہ کو اچھا نہیں لگا اسکے ہوتے ہوئے دو لڑکیاں سامان اٹھائیں اسنے آگے بڑھ کر خاموشی سے سامان گاڑی میں رکھ دیا اور عرش کے لئیے بیک ڈور کھولا۔ اور انتظار کرنے لگا وہ دروازے کے پاس پہنچ گئیں "اپنا خیال رکھنا، کل آجانا پلیز،" عرش میمونہ سے گلے ملتے لجاحت سے بولی "آجاوں گی دعا کرو ماما اجازت دے دیں، وہ اسٹڈی کو لے کر بہت کانشس ہیں،" "میں دعا کروں گی وہ تمہیں بھیج دیں،میں بہت اکیلا محسوس کروں گی خود کو تمہارے بغیر، آنٹی کو بھی انوائیٹ کریں گی امی، کیا پتا آجائیں،" وہ امید سے بولی "انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا" شاہ انکی گفتگو سننے سے قاصر تھا وہ انتظار کر رہا تھا کہ وہ بیٹھ جائے فلائٹ میں بس آدھا گھنٹہ رہتا تھا "خدا حافظ" عرش گاڑی میں بیٹھی تھی "کل آجانا، پیاری لڑکی ہم تمہارا انتظار کریں گے" شاہ نے عرش کی سائڈ والا ڈور بند کرتے سرگوشی کی تھی "آجاوں گی انشاءاللہ آپ اسکا خیال رکھیئے گا" وہ مسکرائی وہ ارسل کے ساتھ فرنٹ پر بیٹھا عرش بیک پر وہ گاڑی میں بیٹھ گیا، ارسل نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پیچھے مڑ کر عرش کو دیکھا "اسلام علیکم بھابھی، کیسی ہیں آپ؟" وہ شگفتگی سے مسکرایا۔ عرش زہر گڑبڑائی شاہ بھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔ "میں ٹھیک ہوں الحمداللہ" وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی یہ دوسرا سفر تھا جو اس ٹرپ کے بعد شاہ کے ساتھ کر رہی تھی اس نے دل سے سارے لطف کو محسوس کیا جو اسکی ہمراہی سفر میں تھا۔ وہ سیٹ کی پشت میں سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی خیال تھا کہ مری ٹرپ والے سفر کی طرح یہ بھی کھڑکی سے باہر دیکھتے گزار دے گی مگر ارسل، وقفے وقفے سے اسے گفتگو میں شریک کر رہا تھا شاہ نے شیشے کو اسکے چہرے پر فوکس کر کے سکون سے بیٹھ گیا اب یہ سفر اسکا چہرہ دیکھتے گزرنا تھا۔ وہ جو آنکھیں موندیں وقفے وقفے سے اسے دیکھتے نظریں چرا لیتی۔ #جاری_ہے
❤️ 👍 😮 😂 🙏 44

Comments