Novel Ki Dunya
February 28, 2025 at 12:35 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_23
شاہ نے شیشے کو اسکے چہرے پر فوکس کر کے سکون سے بیٹھ گیا اب یہ سفر اسکا چہرہ دیکھتے گزرنا تھا۔ وہ جو آنکھیں موندیں وقفے وقفے سے اسے دیکھتے نظریں چرا لیتی۔
وہ سکون سے بیٹھا شیشہ اسکے چہرے پہ فوکس کر کے اسے تک رہا تھا عرش کی نگاہ پڑی تو وہ نگاہوں کے تصادم پر مسکرایا۔ عرش نے گڑبڑا کر لرزتی آنکھوں کو باہر دیکھنے پر لگا دیا
شاہ لب دانتوں میں داب کر جی بھر کے محفوظ ہوا تھا۔
*****
ائیر پورٹ کی لابی میں چلتے ہوئے وہ اسکے دو قدم پیچھے تھی۔ وہ اسکا سارا سامان بمع اسکے ہینڈ بیگ کے اٹھا کر چل رہا تھا۔
عرش کو اپنا بیگ چاہئیے تھا وہ موبائل نکالنا چاہ رہی تھی۔
تھوڑی قدموں کی رفتار تیز کرتے وہ اسکے ہم قدم ہوئی۔
"میرا بیگ دیں مجھے" آنکھیں سامنے کی طرف دیکھ رہی تھیں
"کیوں پھر سے سیلفی لیکر کہیں گرنا ہے؟" وہ ہنوز چلتا رہا سیدھے ہاتھ میں بیگ اور کوٹ، پکڑا ہوا تھا جو کہ کندھے سے پیچھے ڈھلکایا ہوا تھا۔ محض دو انگلیوں پہ ٹکا ہوا کوٹ اور بیگ۔
عرش کا منہ سرخ ہوا
"مجھے سیلفی نہیں لینی، ٹیکسٹ کرنا ہے، میمونہ کو اسکی شال میرے پاس رہ گئی ہے،" خفا آنکھیں اس پر سے ہٹائیں۔
"اچھا...؟ مگر یہ ضروری تو نہیں، گھر جا کر بتا دینا، میں نہیں دے رہا، ابھی چلو میرے ساتھ" وہ کہتے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
عرش کا منہ کھل گیا، دانت پیستے وہ اسکے پیچھے بھاگی،
"یہ میرا بیگ ہے آپکا نہیں، لائیں دیں مجھے، میں پکڑ سکتی ہوں،" وہ غصے سے گویا ہوئی
شاہ نے رک کر اسے دیکھا، سر کو دائیں جانب خم دیا جیسے کہہ رہا ہو "اوکے" اور بیگ آرام سے اسکی جانب بڑھا دیا۔ اسنے دبوچنے کے اسٹائل میں بیگ لیا اور بڑبڑاتے ہوئے اسکے پیچھے چلنے لگی، چند لمحوں بعد رکی "حق جتاتے ہوئے بھی اچھے لگتے آپ شاہ" لب کاٹتے ہوئے وہ خود سے گویا ہوئی بیگ کو خود میں بھینچ لیا۔ کسی قیمتی متاع کی
"عرش زہرا، نیم اناونس ہوگئے ہیں آنا ہو تو آجانا" وہ پیچھے گردن کرتے اسنے رکی ہوئی عرش کو کہا اور چلنے لگا۔ وہ بھاگی۔
*****
"یہ کیا؟؟" اچھنبھے سے کہتے وہ رک بیٹھتے بیٹھتے رک گئی۔
"کیا ہوا؟
"ہم دونوں کی سیٹ ساتھ ہے؟" وہ خفا نظر آرہی تھی
"کوئی مسئلہ ہے؟" سوالیہ انداز میں ایک آبرو اٹھایا "مجھے نہیں بیٹھنا آپکے ساتھ، آپ یہاں ایزی ہوکر بیٹھ جائیں، میں کسی اور کے ساتھ سیٹ ریپلیس کرلوں گی،" عرش وہ انسان ڈھونڈنے لگی، کوئی لڑکی، آنٹی، جو اسے کہے آو میرے ساتھ بیٹھ جاؤ، کوئی تو ایثاری جذبہ لئیے ہوگا۔
شاہ نے ناگواری سے نگاہیں پھیلائیں۔
"سنیں آپ یہاں آجائیں، میں آپکو بور نہیں ہونے دوں گی، میرے ساتھ ویسے بھی کسی انکل نے بیٹھنا ہے انکی سیٹ ہے، اور میں اکیلی کراچی جا رہی ہوں" وہ دبلی پتلی گوری رنگت کی لمبے سے ہونٹوں والی لڑکی تھی۔ جو مسکراتی تھی تو یہاں سے وہاں تک مسکراہٹ چلی جاتی تھی۔
ان دونوں کے بلکل پیچھے والی نشست پہ براجمان لڑکی خوش اخلاقی سے بولی۔
عرش نے شاہ کو استہزایہ نظروں سے دیکھا اور اسکی جانب بڑھی۔ ابھی اچھے لوگ باقی تھے دنیا میں، وہ تنی ہوئی گردن لے کر آگے ہوئے
"میں آپکو نہیں سسٹر، ان مسٹر سے کہہ رہی ہوں" وہ لمبے ہونٹوں والی لڑکی مسکرا کر ویسے ہی خوش اخلاقی سے بولی
شاہ نے منہ دوسری جانب پھیرا (ہنسی چھپانے کیلئے)
عرش زہرا تاسف سے سر ہلاتے ہوئے پیچھے کو ہوئی، اس لڑکی کی شکل میں ایک دم کیڑے نظر آنے لگے تھے، کتنی زہر لگ رہی تھی وہ حد سے ذیادہ۔ انسانیت سے تو گویا اعتبار ہی اٹھ گیا
وہ اپنی سیٹ پر جاکر دھم سے بیٹھ گئی، پاس کھڑے شاہ نے اسے دیکھا اور بیٹھنے سے پہلے اسکی آنکھوں میں جھانکا، ایک موقع سا آیا تھا اظہار نکلوانے کا
" جانا ہے کسی اور کے پاس ابھی ہو سکتا ہے کوئی بلا لے؟" آنکھیں چندھیا کر اگلی سیٹ کی بیک پر ہاتھ رکھے اسکی جانب جھکا۔
"نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں،"شرمندگی سے نظریں جھکائی تھیں
"سنو" شاہ نے بھرپور نگاہیں اسکے چہرے پر گاڑیں "جی بولیں؟" عرش نے دل کڑا کر کے اسکی آنکھوں میں جھانکا
"میں بیٹھ جاؤں ادھر؟ اسکے پاس؟" شاہ نے گھمبیر آواز اسکے کانوں میں گھولی، وہ لڑکی بدستور شاہ کو تک رہی تھی
عرش نے نگاہیں چرائیں، اپنے ساتھ والی سیٹ پر رکھا ہوا بیگ اٹھا کر اوپر کیبنٹ میں رکھا سیٹ خالی کی، اور بنا کچھ کہے رن وے پر جہاز دیکھنے لگی،
"میں نے جگہ بنانے کو نہیں کہا، پوچھا ہے؟ میں "وہاں" بیٹھ جاؤں؟" شاہ کے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبانے سے اوپری ہونٹ کا جھکاؤ ذیادہ ہوگیا،عرش کو اسکی موچھیں اسے شرارتی سی لگیں
"نہیں" جھکی ہوئی آنکھیں لرزیں
"جو حکم" سر کو خم دیتے وہ اسکے پاس بیٹھ گیا
کیا لطف تھا، کیا سرور تھا،جو اس "حق"میں تھا۔ "نہیں،" چند گھنٹوں کیلئے بھی اسے کسی اور کے پاس بھیجنا گوارا نہیں تھا۔
"سیٹ بیلٹ باندھ دوں؟" شرارتی سی نگاہ اس پر ڈالی جو گھبرائی ہوئی سی بدستور (حسب عادت) باہر دیکھنے میں مصروف تھی
"میں پہلی بار ٹریول نہیں کر رہی"
"اوکے" مسکراہٹ دبا کر وہ پرسکون ہوگیا اب جہاز ہوا میں تھا
"تم محبت کرتی ہو مجھ سے؟" شاہ نے سامنے دیکھتے سوال کیا
عرش چونکی، جھجکی دل سنبھالا تمام تاثرات کہیں اندر دبائے، چہرے پر ناگواری اور غصے کے تاثرات لائی۔
"بلکل نہیں،" اتنا بولنے والی لڑکی کی زبان سے بس اتنا ہی نکلا
"تم خوش ہو؟ سنڈے کو نکاح ہے "
"ایسے سوالوں کے اچھے جواب وہاں ملتے ہیں جہاں، لو میرج ہو، ارینج میں بس ماں باپ کی خوشی میں خوش ہوا جاتا ہے" اسکا سوال من و عن دہراتے عرش نے قرض چکایا
شاہ مسکرایا، سر کو خم دیا "جی اچھا"
عرش سونے کے کوشش کرنے لگی۔
"سر رکھ لو میرے بازو پر" یہاں وہاں دیکھتے شاہ نے مشورہ دیا
(اب یہ ذیادہ فری ہورہا ہے) عرش کو غصہ آیا
"بہت مہربانی آپکی" درشتی سے کہتے وہ ہلکی آواز میں غرائی۔
"غصہ کیوں ہورہی ہو ایسے ہی پوچھا بس" اسنے تلافی کی
"وہ گہرے سانس لیتی باہر ہوا میں تیرتے بادل دیکھنے لگی
کچھ لمحے یونہی خاموشی سے سرکے
"تمہیں پتا ہے عرش؟ You are the Only thing I Wanna touch" یہ آخری اظہار تھا جو وہ اسکے صبیح چہرے کو دیکھ کر کہتا گیا
بلا اختیار
عرش سرخ ہوئی گردن چہرہ...نچلا ہونٹ کاٹا پھر غصہ آیا بے حد
کچھ کہہ نا سکی اسے بے طرح گھورا
"اچھا سوری، اب میں چپ ہوں کچھ نہیں کہتا" بچوں کے سے انداز میں اسنے ہونٹوں پہ انگلی رکھی
"بہت مہربانی" وہ اب عہد کر رہی تھی نیند نا بھی آئی تو آنکھیں نہیں کھولے گی۔
یہ سارا سفر بھی شاہ نے اسے تکتے ہوئے گزارا۔
*****
جناح ائیرپورٹ کیب انہیں گھر کے باہر ڈراپ کرگئی۔ گھر کے باہر قدم رکھتے وہ حیرت میں مبتلا ہوئی سارا گھر برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا، وہ ساکت ہوئی
شاہ اسکا سامان نکالتے خود بھی رک گیا
"آپ اندر نہیں آئیں گے؟" اسکے ہاتھ سے بیگ لیتے مروت یاد آئی
"نہیں اب پرسوں ہی آؤں گا" شرارت
"امی برا منائیں گی، آجائیں اندر" گڑبڑائی
"کہہ دینا جو میں نے کہا ہے" "سرور
"ہمم ٹھیک ہے خدا حافظ" وہ مسکرائی
"فی امان اللہ، اپنا خیال رکھنا،" دل سے مسکراہٹ ادا ہوئی آنکھوں میں ٹہر گئی
وہ "جی" کہتی اندر بھاگی
****
اندر گئی تو پہلے تائی اماں صدقے واری گئیں، امی نے راستہ روک لیا، "ارے شاہ کہاں ہے؟" وہ چلا گیا کیا؟" باہر کھڑا ہے؟" نورینہ نے اسے بازو سے پکڑ کر سوالات کی بوچھاڑ کردی
"وہ چلا گیا ہے پرسوں ہی آئے گا" بے خودی میں کہتی گئی
اپنا بازو چھڑایا اور اور تائی اماں اور امی کے سوالات ادھورے چھوڑے وہ کمرے میں آئی اور دروازہ بند کردیا۔ گیٹ سے ٹیک لگا لی
سارے منظر فلم کی طرح چلنے لگے بازو سے لٹکے بیگ سے موبائل نکالا اور میمونہ کو کال لگائی۔
"مونی مونی میری جان، پتا ہے کیا ہوا، پہلے ہم ایئرپورٹ گئے وہاں....." وہ ازسرنو اسے تمام باتیں
باتیں بتانے لگی
بیڈ پر بیٹھ گئی
چہرہ گلنار ہورہا تھا
"ہمم تو مطلب شاہ نے تم سے آخر کہہ دیا کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے؟" میمونہ چہکی
"ارے اسنے ایسا کچھ نہیں کہا، دیکھو کچھ چیزیں سمجھنے کی بھی تو ہوتی ہیں نا، اف اتنی کئیر کرتا ہے وہ میں کیا بتاؤں مونی،اور اسنے پتا ہے مجھے کیا کہا؟" وہ بلش ہوئی
"کیا کہا بتاؤ ذرا،"
"He say to me Monii, you are the only thing I wanna touch,"
"اور اسکی آنکھوں کے تاثرات، اب دیکھو زبان جھوٹ بول سکتی ہے آنکھیں تو نہیں بول سکتیں نا؟" وہ نجانے کس جہاں میں تھی
"ہاں نا"
"تم آرہی ہو نا؟ تم ضرور آو گی نا؟ میمونہ پلیز ماما سے اجازت لینا،" وہ لجاحت پہ اتر آئی
"اچھا بابا آئی ول ٹرائی مسٹ، تم دعا کرو اللہ انکا دل نرم کردے" وہ ہنستے ہوئے بولی
"میں دعا کروں گی، تم میری بات کرواو نا آنٹی سے" عرش بے چین ہوئی
میمونہ نے اپنی ماما کو فون دے دیا آدھا گھنٹہ بات کرلینے کے بعد وہ انہیں میمونہ کو کراچی بھیجنے کے لئیے رضامند ہوگئیں تھیں، ساتھ میں میمونہ کی بڑی بھابھی اور بھائی!
عرش نے چیخوں سے آسمان سر پہ اٹھا لیا....
"ہاں تو پھر میمونہ کراچی آرہی تھی"😉
***
تھا ہفتہ آیا اور تیاریوں میں ہی گزر گیا، ہفتے کی رات میمونہ، اسکی بھابھی، رومیصہ، اور بھائی ارضانش کراچی آگئے، صرف اور صرف عرش کیلئے ، میمونہ عرش کے کمرے میں جبکہ باقی مہمانوں کو کمرے دے دیئے گئے تھے، گو کہ ایک چھوٹی سی تقریب تھی مگر سرور خان کی شادی کے بعد اس نئی نسل کی پہلی اور سالوں بعد آنے والی خوشی تھی قریب قریب کے مہمان بھی کافی ہوگئے تھے، گھر باقاعدہ شادی والا گھر لگ رہا تھا۔ عرش نے مہندی لگوائی تھی کلائیوں سے ذرا اوپر تک رات پوری وہ باتیں کرتی رہیں دن میں نورینہ کی ڈانٹ پھنکار سن کر گھنٹہ گھنٹہ سونے کیلئے لیٹ گئیں،
شام میں بیوٹیشن گھر آئی عرش نے گولڈن میکسی جبکہ میمونہ نے راجھستانی غراراہ پہنا تھا
"عرش سمپل میک اپ میں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی،
ساری تقریب لان میں منعقد تھی، گھر جگمگا رہا تھا،
ساڑھے نو بجے کے قریب، شاہ بمعہ فیملی تشریف لائے، عرش نے پہلی بار شاہ کے بابا کو دیکھا، وہ شلوار قمیض میں کھڑے تھے سب سے پہلے انہوں نے عرش کو منہ دکھائی دی تھی نکاح سے بھی قبل!
اسکے سر سے روپے وار کے صدقہ دیا تھا اور انکے اچھے نصیب کی دعا کی
شاہ کو عرش کے برابر میں لا کر بٹھایا گیا میمونہ دھرادھڑ تصاویر اتار رہی تھی، شاہ کریم کلر کے کرتے جسکے بٹنوں کے گرد نفیس سی کڑھائی تھی، اور کلائی میں قیمتی بٹن لگے تھے دلفریب خوشبو سے مہکا ہوا، وہ عرش کے برابر بیٹھا، بال جیل سے سیٹ تھے، وہ کسی ترک سلطنت کا شہزادہ لگ رہا تھا نفیس اور وجیہہ...!
عرش نے اسے لمحے کے لئیے دیکھا اور آنکھیں جھکا لیں دل گردے کا کام تھا اسکی آنکھوں میں جھانکنا
نکاح شروع ہوا۔
امام صاحب کے پوچھنے پر عرش ہوش میں آئی
یہاں وہاں دیکھا بابا تایا ابو اور شاہ کے بابا، شاہ زمان ایک ساتھ دور کھڑے تھے
"اسکی زندگی سونپی جا رہی تھی،وہ ایسے مواقع پہ اللہ کا نام لیا کرتی تھی۔
"بسم اللہ الرحمن الرحیم"کہہ کر درود پڑھا، اللہ سے اس نکاح کے بابرکت ہونے کی دعا کی" لرزتے لبوں سے آواز نکلی "قبول ہے" امام دوبارہ جملے دوہرانے لگے
اسنے امی کا ہاتھ پکڑا جو اسکے کاندھے پر دھرا تھا
پھر ابو کو دیکھا،آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوا تھا
"بابا میرے پاس آئیں، ادھر بیٹھیں،" اسنے ایک ہاتھ لمبا کر کے سرور خان کو بلایا وہ اسکی جانب آگئے اسکا سر اپنے سینے سے لگا لیا عرش رونے لگی۔ امام دوبارہ کلمات دوہرا رہے تھے
"عرش بیٹا جواب دو " سرور خان کے سینے سے لگی عرش کو جیسے سکون ملا تھا بابا ماما اسکے پاس تھے پھر وہ کیوں اداس ہو؟ "قبول ہے" اسنے دوبارہ ایجاب کیا
تیسری بار پوچھنے پر ،"قبول ہے" کہتے ہی عرش کی آنکھیں بہہ گئیں
حقدار بدلا تھا زندگی کا، اسکا محافظ وہ اسکی منکوح،
اب امام شاہ سے ایجاب و قبول کے مراحل طے کر رہے تھے اسنے جیسے ہی تیسری بار "قبول ہے کہا"مبارک سلامت کا شور سا اٹھا امام نے انکی خوش گسار ازدواجی زندگی کیلئے دعا کی اور یہ دعا شاہ کے بابا نے کروائی۔
شاہ کی دادی جان بھی خوش سی بیٹھی تھیں (بظاہر)
چند لمحوں بعد سب منتشر ہوا بابا اس کا سر چومتے اسے دعا دیتے اٹھے مہمانوں کی تواضع کرنا تھی
اب انکی جگہ میمونہ نے سنبھالی
"چلیں جیجو نیگ نکالیں،" اسنے گھورا
"کس بات کا نیگ" شاہ نے آبرو اٹھائے
"نکاح کا نیگ اور کس چیز کا؟" میمونہ نے شاہ کو آنکھیں دکھائیں۔
"واہ یہ سب شادی پر ہوتا ہے ابھی نہیں"شاہ نے اسے تپایا
"ٹھیک ہے پھر میں آپکی دلہن لے جارہی" اسکے پہلو میں بیٹھی عرش کا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا
"یہ لو بیگ میری بیوی نا لے جاو" شاہ نے والٹ نکال کر عرش کی ہتھیلی پر جمایا
عرش شرم سے گلال ہوئی، کتنا پیارا لگا تھا "میری بیوی" "سو سوئیٹ" اسنے دل میں کہا
"مگر میں والٹ کا کیا کروں شاہ" اب کے اسنے پہلی بار شاہ کی آنکھوں میں جھانکا،
"میمونہ کو دے دیں ڈئیر وائف جو آپ چاہیں جتنے آپ چاہیں، اسے کہیں ہمیں پرائیویسی دے، جتنی آپکو پرائیوسی چاہئیے اتنی رقم اسے دے دیں" شاہ مسکرایا اسکی آنکھوں میں جھانکا
"یہ کام آپ خود کریں،" اسنے والٹ واپس شاہ کو دیا
"سوچ لو" وہ شریر ہوا
"سوچنا کیا؟"
"یہ لو میمونہ پورا والٹ،اب ملاقات کا انتظام کرو" اسنے پورے کا پورا والٹ میمونہ کے ہاتھ پر رکھا،" عرش تو عرش میمونہ کا بھی منہ کھل گیا
"آپ پر ٹرپ بھی ادھار ہے جیجو، یاد ہے نا؟" میمونہ نے آنکھیں گھمائیں
"جی یاد ہے میں نے یونیورسٹی سے سات دن کی چھٹی کی ہے تم بھی سات دن کہیں نہیں جا رہی، میں تم اور عرش، کل سے ٹور پہ ہیں، میرا اکیلے کا سال کیوں ضائع ہو؟ تم دونوں بھی بھگتو"
"کل سے واقعی؟؟" میمونہ چیخی
"ہاں کل سے اور ابھی تم کوئی انتظام کرلو تو اچھی بات ہے ورنہ یہ والٹ واپس کرو میں سر کی کسی کزن سے یہ کام کروا لیتا ہوں" اسنے والٹ لینے کو ہاتھ بڑھایا
"اچھا رکیں،" وہ کہتے ساتھ گئی اور نورینہ بیگم سے اجازت لے آئی
"آئیں آپ دونوں کو کھانا کھلا آؤں یہی کہا ہے میں نے آنٹی سے اوپر چلیں عرش کے کمرے میں" اسنے سر کو تھاما اور آگے بڑھ گئی عرش ہکا بکا سی چلنے لگی
تم کدھر جا رہی ہو؟" شاہ نے میمونہ کو آواز لگائی وہ سیڑھیوں کے عین وسط میں تھے
"اور آرہی ہوں آپ لوگوں کے ساتھ" وہ اچنبے سے گویا ہوئی
"کوئی ضرورت نہیں ہے، میں خود لے جاوں گا بس تم جاو" کہتے ساتھ اس نے عرش کی کلائی تھامی اور اسکی میکسی چٹکی میں پکڑی۔
سیڑھیوں پہ کھڑی میمونہ ہکابکا سی ان دونوں کو جاتے دیکھ رہی تھی شاہ تو شاہ تھا یہ عرش؟؟ عرش کیوں کچھ نا بولی؟؟ اور تو شور دیکھو ذرا کتنی میٹھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی؟؟ اور تو اور کتنے مزے سے اسکے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہوا تھا؟
"ابھی ریٹ پڑواتی ہوں کمرے میں مجھ سے پنگا؟ " وہ جلتی بھنتی سیڑھیوں سے اتری اور رخ نورینہ اور انساء آنٹی کی طرف تھا
#جاری_ہے
❤️
👍
😂
😮
40