Novel Ki Dunya
February 28, 2025 at 01:40 PM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_24
آپ..،آپ مجھے یہاں کیوں لے آئے" کام دار دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے عرش گھبرائی۔
"تمہیں دیکھنے کیلئے، جی بھر کے دیکھنے کیلئے، دل کے بھرنے تک،" شاہ ارسلان نے اسکی کلائی تھامی۔
وہ پسینہ پسینہ ہوئی۔
"تمہیں پتا ہے؟ تمہیں دیکھ کر کسی نقلی گڑیا کا گمان ہوتا ہے، جس سے کھیلتے کھیلتے میں بولنا سیکھ گیا عرش،" عرش کا ہاتھ عین دل کے مقام پر رکھا اپنے ہاتھ کے نیچے....
عرش ہونق ہوئی، بجائے شرمانے کے وہ حیران ہوئی، وہ اس سے محبت کرتا ہے؟
اس نے اسکے چوڑے سینے پر دبے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ پھر شاہ کی آنکھوں میں...
"ہمارا..واقعی..نکاح ہوا ہے شاہ، مجھے کسی چیز کا یقین نہیں آرہا.." بے یقینی کی کیفیت
ہاں نکاح، وہ بھی ارینج میرج،" اسکے کان کے پاس جھولتی لٹ پیچھے کو اڑستے ہوئے بولا۔
عرش بدمزہ ہوئی، اپنا ہاتھ کھینچا اور دور ہوئی۔ آنکھوں میں تیرتا غصہ...
"تم کیا سننا چاہتی ہو؟" شاہ غصہ ہوا، جیسے ہاتھ کھینچنے کا غصہ
"میں کیا سننا چاہوں گی؟ ویسے بھی یہ ملنا تو لو میرج والوں کو ہوتا ہے، یا وہ کچھ سننے کے متمنی ہوتے ہیں ہماری تو ارینج میرج ہے، سو میں کیا سننا چاہوں گی؟" وہ اپنی جون میں آئی، گردن اکڑائی، کیسے وہ اسے اوپر لایا تھا....
"تم اسلیئے خوش فہمی کا شکار ہو رہی ہو؟ کیونکہ میں تمہیں اوپر ملنے کیلئے لے آیا؟" گردن اوپر کرتے شاہ نے ایک آبرو اٹھایا۔
"میں خوش فہمی کا شکار کیوں ہونے لگی، میں تو آپکو حقیقت بتا رہی ہوں،" عرش نے اپنی کلائی کی جانب اشارہ کیا جو چند لمحے قبل اسکی گرفت میں تھی
"یہ حقیقت نہیں "حق" ہے مائی ڈئیر وائف،" وہ اسکے پاس آیا اس پر جھکا
"تمہاری جگہ کوئی اور بھی ہوتی، تو اسکی زندگی کے ان حسین لمحوں کو یادگار بنانے کیلئے میں، مجھ سے جو ہوسکتا میں کرتا، میرے جیسا انسان حق تلفی کا سوچ بھی نہیں سکتا" کتنا سیدھا تھا نا وہ؟
عرش کے اندر کچھ چھن سے ٹوٹا...
" تو پھر آپ حوصلہ رکھیں، ابھی بہت سال باقی ہیں جب میں آپکی بیوی بن جاؤں گی، ابھی آپ الگ میں الگ، جب میں آپکی ذمےداری بن جاؤں تب اپنے حقوق و فرائض پورے کرلئیے گا، فی الحال بہت شکریہ، بہت یادگار بنائے آپنے اپنی منکوحہ کے یہ خوبصورت لمحے، یاد رکھوں گی" وہ پھنکاری اور میکسی سنبھالتی وہاں سے چلی گئی۔
شاہ نے گردن کو خم دیا اور اسکی ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگا لی، اپنا دایاں ہاتھ عین دل کے مقام پر رکھا، جہاں چند لمحے قبل عرش کا ہاتھ تھا، وہ مسکرایا۔
"یہی جگہ ہے عرش تمہاری" وہ بڑبڑایا اس شیرنی کا دل جلانے میں جو مزہ تھا وہ کسی چیز میں نہیں تھا۔
دروازے پہ دستک ہورہی تھی جو جاتے ہوئے عرش دھڑام کرتے بند کرتی گئی تھی، وہ چونکا
"بیٹا آپ ادھر؟ کھانا کھانے گئے تھے نا آپ تو؟" نورینہ بیگم بمعہ، میمونہ اندر آئیں تھیں،
"عرش کہاں ہے؟"میمونہ نے اسکی تلاش میں نگاہ دوڑائی، اسے پلان فیل ہوتا محسوس ہوا
"وہ یہاں کہاں ہوگی، مجھے تو تم کھانا دینے کیلئے یہاں بٹھا کے گئیں تھیں، اور کوئی اتاپتا نہیں؟" شاہ نے اسکی بازی سمجھ کر اسی پر پلٹی۔
"میمونہ،، بیٹا شاہ اور اسکے دوستوں کیلئے ایک ساتھ ہی میں نے ٹیبل سیٹ کی تھی، تم اسے یہاں لے آئیں" نورینہ اسی پر خفا ہوئیں
" نہیں آنٹی..وہ..میں.."میمونہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگی، (نجانے کہاں چھپا دیا عرش کو، اتنی مشکل سے آنٹی کو کام سے اوپر لائی، افف کتنا مزہ آتا، ان دونوں پر وہ خفا ہوتیں،" میمونہ نے منہ بگاڑا۔
"تم کچھ کہہ رہی ہو؟"شاہ نے معصومیت کے ریکارڈ توڑے
"نن..نہیں میں نے کیا کہنا چلیں آنٹی، جیجو چلیں، نیچے" دانت پیستے وہ آگے ہوئی
*****
ایک خوبصورت صبح اس بیلوں سے ڈھکے گھر پر چھب دکھلا رہی تھی، اندر جاو تو عرش کے کمرے میں میمونہ اور سر تیار ہورہی تھیں،
"تم میرے نکاح کیلئے آئی تھیں، یا گھومنے پھرنے؟" کان میں ٹوپس ڈالتے عرش نے اسے گھورا، اسنے سفید قمیض اور بلو ٹراؤزر اور بلو پرنٹڈ دوپٹا پہنا ہوا تھا،
"دونوں کام کرنے آئی ہوں، ظاہر سی بات ہے اب ایک نکاح کیلئے تو میں ایک ہفتہ برباد نہیں کروں گی، اور تقریب بھی وہ جس میں ہماری کوئی "عزت" نا ہو مہمانوں کو سیڑھیوں پہ چھوڑ کر ہلے گلے کئیے جائیں،" وہ رات والی بات کا غصہ نکالنے لگی تھی۔
عرش کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ چمکی پھر مسکراہٹ کی جگہ حزن نے لے لی...آہ
"اب چلو جلدی،"حجاب کو اچھی طرح پن اپ کرکے میمونہ نے شیشے میں خود کو دیکھا
"شاہ کو تم نے کہہ دیا ہے نا؟ وہ آرہے ہیں؟" شاہ کا نام نکاح کے بعد پہلی بار لیا تھا
"اوہووووووو...آرہے ہیں؟، واہ بھئی، ترقی ہوگئی،اب فورن ہی تم سے آپ...پھر آپ سے جاناں...پھر سرتاج" میمونہ نے لقمہ دیا
"بکو مت، کال کرو انہیں، اور بلا لو اب، میں تیار ہوں" وہ بلش ہوئی اور بالوں میں میں کلپ ڈالا
"کرتی ہوں کال، ویسے تمہارے گھر والوں کو منانا کسی محاذ سے کم نہیں،پہلے تمہاری امی کو پھردادی کو پھر بابا سے اجازت، اففف.."میمونہ نے کال لگاتے ہوئے جھرجھری لی
" ہاں تو پروقار لوگ ہیں، ایسے ہی نہیں فورن ہتھے دے دیتے"عرش نے گردن اکڑائی
"پروقار لوگ ہیں لڑکی نکاح کے دو منٹ بعد شوہر کا ہاتھ تھامے اسکی بانہوں میں چلتے ہوئے، کمرے میں گھنٹوں گزار آتے ہیں"میمونہ کو رہ رہ کر غصہ آرہا تھا۔
کال لگا کر عرش کو موبائل تھما دیا
وہ گڑبڑائی
"اسلام علیکم"
"وعلیکم سلام کیسی ہو ڈئیر وائف؟" وہ تروتازہ تھا
"الحمداللہ، اور آپ کیسے ہیں؟" تھوک نگلا
"میں بھی ٹھیک ہوں، تیار ہو آپ لوگ؟" غالبا وہ گاڑی میں تھا
"جی تیار ہیں آجائیں آپ" عرش کی نگاہیں جھک گئیں..یہ نکاح کچھ ذیادہ ہی دل میں سمایا تھا۔ اسے آپ بلانا...اور وہ بھی اسکے سامنے....
"جو حکم، ابھی آتا ہوں،" وہ مسکرایا
عرش نے کال کاٹ کر موبائل میمونہ کے حوالے کیا
"ایسے بلاو گی عرش، سر کے بل حاضر ہوجاؤں گا" خود سے باتیں کرتے..اسنے گاڑی فل اسپیڈ پر ڈال کر عرش کے گھر کی جانب موڑی
"جی تیار ہوں آپ آجائیں" واہ...نچلا لب دانتوں میں دابا اور ریش ڈرائیونگ کرتے وہاں پہنچا۔
اندر جاکر پہلا سامنا نورینہ سے ہوا جو اسے زبردستی ناشتے کی میز پر لے آئیں،
اور عرش کو آواز لگائی
" عرش ناشتہ لگاو اور نیچے آجاو دونوں، شاہ آگیا ہے" شاہ کو بے ساختہ وہ دن یاد آیا جب وہ عرش کو دیکھنے کی تمنا لئیے وہ یہاں سے چلا گیا تھا
" نہیں آنٹی میں ناشتہ کر چکا ہوں آپ بس ان دونوں کو بلا دیں،" وہ متامل ہوا
"ارے بیٹا چائے تو پی لو، ہمارے ساتھ" سرور خان بھی وہاں نمودار ہوئے وہ انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا نورینی چائے لے آئیں، سرور خان سے باتیں کرتے ہوئے کپ ختم ہوا اور وہ سیڑھیوں سے چلتی ہوئی نمودار ہوئی۔
سفید سادی قمیض،سارے بال سیدھے کر کے ایک کندھے پر ڈالے ہوئے تھے اور سامنے سے لٹیں موڑ کر کلپ لگائے ہوئے تھے پاوں میں سمپل سوفٹی تھی۔کانوں میں آویزے... اور کلائیاں خالی۔
وہ یک ٹک اسے دیکھتا گیا پھر خود کو ڈپٹا، انہوں اگلے ہی پل یاد آیا وہ اسکی منکوحہ ہے...شرعی و قانونی حق رکھتا ہے وہ اس پر سو دیکھے گیا....
وہ دونوں اسے سلام کر کے باہر چلی گئیں
نورینہ نے اسے اس سر پھری کا خیال رکھنے کی تاکید کی۔
" تو پھر کہاں جانا ہے؟" گاڑی کا بیک ڈور میمونہ کیلئے کھولتے ہوئے وہ بولا
"سمندر...، پہلے سمندر دیکھنا ہے جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا..اس کے بعد باقی جگہیں" آنکھیں بند کر کے زور سے میچتے ہوئے وہ بولی
"ہمم تو مطلب آج بیچ ڈے؟" دروازہ بند کر کے اب کے اس نے عرش کی جانب دیکھا۔ جو گاڑی کی بیک سائڈ طرف بڑھ رہی تھی
" شاہ نے ایک قدم آگے بڑھایا اور اسکا ہتھیلی تھام لی
عرش دمبخود رہ گئی۔
پھر فرنٹ ڈور کھول کر اس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا سائڈ میں ہوگیا۔
وہ اسکا ہاتھ تھامے تھامے اندر بیٹھ گئی شاہ نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر دروازہ بند کیا اور
ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا۔ میمونہ نے کھلے منہ پر ہاتھ رکھا ستائش کے انداز میں ہونٹ موڑے۔
"پہلے ہم کہاں جائیں گے جیجو؟"
"پہلے ہم جائیں گے سی ویو کلفٹن اور دو دریا، آج آپکا پہلا دن ہے تو سمندر، پھر آخری دن بھی سمندر ہوگا اور وہ سمندر جہاں کراچی سے بلوچستان کی ساحلی اور پہاڑی پٹی ملتی ہے،جو ساحل سے اتنی قریب ہے کہ آپ اسے چھو بھی سکتے ہیں،" وہ ڈرائیو کرنے لگا۔
"واو، مطلب شروعات بھی سمندر سے اور اختتام بھی؟"
"ہاں بلکل! اور درمیان کے دنوں میں ہم دوسری جگہوں کا وزٹ کریں گے"
عرش دونوں ہاتھ گود میں رکھے پزل سی تھی، اسکی ہمرای میں سفر...وہ وقتا فوقتا اسے دیکھتی.. پھر باہر دیکھنے لگتی...
میمونہ اب موبائل میں مصروف تھی۔
عرش باہر دیکھ رہی تھی شاہ نے عرش کا گود میں دھرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ اسٹیئرنگ پر رکھ لیا۔ عرش بری طرح چونک کر شاہ کو دیکھنے لگی۔ گرے کلر کی ہاف سلیو کالرڈ شرٹ اور بلیک جینز، شرٹ میں سے اسکے کسرتی بازو نمایاں تھے۔ بال سامنے سے مڑے ہوئے پیچھے کی جانب کر کے جیل سے سیٹ تھے۔
وہ سامنے دیکھ رہا تھا ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتے دوسرے ہاتھ میں اسکے ہاتھ ہر گرفت سخت کئیے۔
عرش نے ہاتھ نکالنا چاہا، اسکا لمس اسے پگھلا رہا تھا۔ مگر بے سود
"ابھی تو لو میرج نہیں ہے" عرش بڑبڑائی تھی۔
******
کلفٹن کے اس خوبصورت ساحل پر سفید ریت...اور ریت کے اختتام پر پاکستان کا ایک خوبصورت ترین پارک بن قاسم پارک خوبصورتی اور ہریالی میں اپنی مثال آپ،، پاکستانی 60فیصد ڈراموں کے اہم سین یہاں فلمبند کروائے جاتے ہیں، اسی پارک میں یا اسکے اطراف، یہاں کی ہاوسنگ سوسائٹی میں پروڈکشن ہاؤس ہیں اور کئی اداکاروں، سیاستدانوں، اور دیگر نامور لوگ یہاں مقیم ہیں،
پارک کی دائیں جانب کھڑا بحریہ آئکن....ڈالمن مال، اور ٹوئن ٹاورز، یورپ سے کسی طور کم نہیں
وہ ساحل پر آنے سے قبل اس پارک میں آئے پیلے پتھروں سے بنی باؤنڈری اور اسکے ساتھ ایک ٹریک...ماربل سفید ماربل سے بنا ہوا،
"یہ ساحل جیسی جگہ پر یہ سنگ مر مر لگانے کی کیا تک...." میمونہ بینچ پہ بیٹھتے تصاویر اتار رہی تھی۔ کیا ویو آتا تھا باؤنڈری سے جھانکتا ٹھاٹھیں مارتا سمندر..جسے دیکھ کر خدائی یاد آجاتی...
"پہلے یہاں تک سمندر ہوا کرتا تھا جہاں اب یہ ٹریک ہے،اس ٹریک پر چل آسانی سے مزار تک پہنچا جا سکتا ہے،" سن گلاسز لگاتے ہوئے شاہ نے اسے مطلع کیا،
"مزار؟ کون سے مزار؟" میمونہ اچھنبہ ہوئی
"عبداللہ شاہ غازی کا مزار،" جواب عرش کی طرف سے آیا تھا۔ وہ میمونہ کے ساتھ بینچ پر بیٹھی تھی
"ہم نے تو نہیں دیکھا مزار، مجھے بھی جانا ہے،" اس نے بچوں کی طرح ہونٹ لٹکائے،
"واپسی پر فاتحہ پڑھ لیں گے،ابھی اینجوائے کرو،"
شاہ نے ٹالا
"چلو بیچ پر چلتے ہیں،" وہ اٹھ کھڑی ہوئی،
شاہ اور میمونہ نے اسکی تقلید کی
"ساحل پر پہنچ کر میمونہ کی حالت دیکھنے والی تھی جیسے ہی اس نے پانی میں پاوں رکھا اور
اور میمونہ کو لگا وہ گول گھوم گئی ہے یا گرنے والی ہے، وہ بھاگ کر ان دونوں کے پاس آئی جو اس پر ہنس رہے تھے
"مجھے لگا میں گر جاوں گی، اسلئیے لڑکھڑا گئی، آپ دونوں کو مجھ پر ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے" وہ تلملائی
" محترمہ پانی میں پاوں رکھتے ہیں اور لہر آجائے، تو ریت پھسل جاتی ہے، ادھر کی ادھر، ادھر کی ادھر، کھڑے ہوئے انسان کو لگتا ہے وہ گھوم گیا ، یا دنیا گھوم گئی،" شاہ نے ہنستے ہوئے اسے سمجھایا
عرش اسے دیکھے گئی جو ہنستا تھا تو ستارے رقص کرتے تھے...اسکے بلکل پاس کھڑا کسی آسمان کے چاند کا ٹکڑا ......
#جاری_ہے
❤️
👍
😢
😮
58