Novel Ki Dunya
March 1, 2025 at 07:07 AM
#شاہ_اور_زہرا #تحریر_عظمی_محمد_عثمان #قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی #قسط_نمبر_26 "تم اتنا ڈری کیوں؟" شاہ نے دونوں ہاتھ باونڈری پہ جمائے ہوئے تھے۔ " کب؟" وہ اپنے خیالوں سے چونکی "جب پہراشوٹ میں تھے،" "مجھے لگتا تھا ہماری ارینج میرج ہے، لو میرج نہیں، تو آپ کیوں میری پرواہ کریں گے؟ تو ڈر لگا کہیں میں گر نا جاؤں آپ کیوں بچائیں گے مجھے" اب کی باڑ عرش نے سکون سے بازو سینے پہ لپیٹے اس کی چوری پکڑی۔ "دیکھو اگر،،،" "پلیز اب یہ نا کہیئے گا تمہاری جگہ کوئی اور بھی ہوتی تو میں اپنا حق سمجھتا اسکی پرواہ کرنا،" عرش نے اسکی بات کاٹی۔ شاہ کی چوری پکڑی گئی تھی وہ تھانیدارنی بنی اقبال "جرم" کروا رہی تھی "کتنا بولتی ہو نا تم" اب کی بار شاہ نے آنکھیں پھیریں، وہ منہ پھیر کر مسکرایا تھا۔ "جو بھی بولتی ہوں سچ بولتی ہوں" عرش خفا ہوئی۔ "آپ مان کیوں نہیں لیتے یہ بات؟" "تم منوانا آخر کیوں چاہتی ہو؟ تمہارے اپنے دل میں تو "کچھ"نہیں؟" شاہ نے بمشکل مسکراہٹ لبوں پہ روکی "میرے دل میں ہوگا تو میں آپکی طرح چھپاوں گی نہیں" وہ پانی پہ پڑتی روشنیاں دیکھنے لگی۔ "تو اتنے عرصے سے خاموش کیوں ہو؟"شاہ سیدھا ہوا اور اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ صاف دو ٹوک۔ "مم میں کیوں خاموش ہوں، کیا مطلب؟ میں آپ سے پوچھ رہی آپ مجھ پر ہی بات پلٹ رہے، صاف ظاہر ہے آپ ٹال رہے ہیں" عرش بڑی طرح گڑبڑائی "اگر ٹال بھی رہا ہوں تو تم مجھ سے اگلوا نہیں سکتی عرش، ابھی تمہارا دل اور دماغ اتنے قابل نہیں" سیدھا سیدھا طنز ہی تھا "آپ مجھے بے وقوف کہہ رہے ہیں؟" وہ رونکھی ہوئی اور نفی میں سر ہلاتے دو قدم پیچھے ہوئی۔ "میں کیوں تمہیں بے وقوف کہوں گا، بس تم مجھ سے اگلوا نہیں سکتی" وہ سادگی سے مسکرایا "مجھے یہ چیلنج قبول ہے، مسٹر شاہ ارسلان، میں بہت جلد آپ سے اگلوا لوں گی تمام تر جزئیات سمیت" وہ بھی مسکرائی "تم بھی مان لو گی پھر کہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہو؟" شاہ نے گردن ترچھی کی "منظور ہے" "اب چلیں دودریا؟ اگر آپ لوگوں کی باتیں ختم ہوگئی ہوں؟ مجھے بھوک لگ رہی ہے" میمونہ لدا پھندا بیگ لئیے انکے پاس آئی "کھانے کے علاوہ بھی دنیا میں بہت کچھ ہے" عرش چڑ گئی۔ "مثلا؟" میمونہ نے برگر کی بائٹ لی "اس سے مت پوچھو یہ کہہ دے گی کھانے کے علاوہ دنیا میں محبت بھی ہے بندہ وہ کرلے،" جواب شاہ کی طرف سے آیا "شاہ یہ غلط بات ہے" عرش رکی دانت پسیجے۔ شوہر تھا تو کیا؟ سر پہ ہی چڑھا جا رہا تھا۔ "اچھا چلو باقی باتیں راستے میں کرلینا،" وہ کان لپیٹتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ پھر سارے راستے عرش نے وقفے وقفے سے اسے باتیں سنائیں تھیں، جس پر رتی برابر اثر نا تھا میمونہ اسکی جلی کٹی باتیں سن کر ہنستی رہی۔ ***** "اٹس ریلی امیزنگ یار" میمونہ متحیر رہ گئی۔ نیچے ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اوپر کیبن کی طرز پہ بنے تین اوپن فلور، شام کے ڈھلتے سائے، اور ان ٹوکری نما کیبن میں جلتے فانوس، کسی افسانے، کا متحیر کردینے والا منظر، سورج کا نارنجی گولہ ایسا لگ رہا تھا بس اس کنارے نہیں، نزدیک ہی تو ہے، ہاتھا بڑھایا اور چھو لیا.... اب یہ کرنیں آنکھوں پر نہیں لگ رہی تھیں۔ ان کیبنز کے نیچلی سطح پر نیلے بلب لگے تھے، جو شام ہونے کے سبب اب روشن تھے، کیا منظر تھا،، طلسماتی۔ "ہم سب سے نیچلے فلور پہ بیٹھیں گے،"عرش نے حکم جاری کیا شاہ نے سر کو خم دیا جیسے کہہ رہا ہو جو حکم! "ایسے آپ سر ہلا کے ہاں کہہ رہے ہیں نا تو آپکا اپنا دل بھی وہیں بیٹھنے کا ہوگا ورنہ میں اور میری مرضیاں" عرش ابھی تک جلی بھنی بیٹھی تھی۔ تھوڑا دل کو اعتماد ملا تھا۔ "اب بات مان لی پھر بھی اعتراض؟ " لبوں میں ہنسی دبائے شاہ نے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔ میمونہ دھڑا دھڑ تصاویر اتار رہی تھی۔ "آو بیٹھتے ہیں" اسکی ہتھیلی میں اپنا ہاتھ پھنسا کر وہ اسے لے گیا، اور ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے ہوا بے حد سرد تھی، اور بہت تیز تھی۔ نیچے سمندر کی لہریں شور مچا رہیں تھیں اوپر سکون اور خاموشی تھی۔ "مجھے لگ رہا یہ آپ دونوں کا ہنی مون ہے، اور میں کباب میں ہڈی بن گئی ہوں" کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے میمونہ نے گوہر افشانی کی عرش سرخ ہوتا چہرہ موڑ گئی شاہ مینیو کارڈ دیکھنے لگا گویا ان سنی کر رہے تھے "یہاں ذیادہ تو ینگ جنریشن کیوں ہے؟ اور کالج یونیورسٹی ٹائپ اسٹوڈنٹس کا انبار؟" میمونہ نے شاہ سے پوچھا۔ "کسی سے ٹریٹ، اور ہیوی ٹریٹ لینی ہو، تو کراچی کی نوجوان طبقے کا پہلا آپشن دو دریا ہوتا ہے، تاکہ اگر ٹریٹ دینے والا غریب نہیں بھی ہے تو وہ ہوجائے، میں خود کئی بار یہاں آکر والٹ خالی کروا چکا ہوں" مینیو کارڈ سر کی جانب بڑھاتے اس نے تفصیل بتائی۔ "مطلب مہنگی جگہ ہے یہ؟" میمونہ دونوں ہاتھ ٹیبل پہ رکھے پوری توجہ سے گفتگو میں مگن تھی۔ "ہاں مہنگی کہہ لو یا لگثری" "یہ ٹی وی نیوز ہر جگہ کراچی کراچی کیوں ہورہا ہوتا ہے جیجو؟ مثلا، پاکستان کے تمام شہر ایک طرف اور کراچی، اور کراچی کے مسائل ایک طرف، ایک طرف پورے ملک کو سنوارنے کی بات کی جاتی ہے، تو کراچی کا نام الگ سے لیا جاتا ہے،کہ کراچی کو بنائیں، یہاں کے مسائل سے واقف ہوں، یہاں کے اتنے مسئلے مسائل آخر کیوں بتائے جاتے ہیں؟" میمونہ ذہن میں کلبلاتے سوالوں کو باہر نکال رہی تھی شاہ کی صورت میں اسے جواب مل.رہے تھے وہ جو سیاست،مسیحائی، اور محبت پر گہری نظر رکھتا تھا کسی محب وطن پاکستانی کی طرح، ہاں پاکستانی اپنی محبت اور مادرملت سے بہت لگاو رکھتے ہیں "کیونکہ کراچی دنیا آٹھواں بڑا شہر ہے، رقبے اور آبادی کے حساب سے، ڈھائی کڑور کے لگ بھگ آبادی، وسیع رقبہ، اور کاروباری ممالک سے ملتی پانی کی سرحدیں، یہاں نیوی،ائیر فورس، آرمی، سب کے گڑھ ہیں، پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یہاں مقیم ہے،تو ہونا تو یہ چاہیئے تھا،کہ یہاں علاقائی بنیاد پر گورنرز اور وزیر ہوتے، اسے مختلف حصوں کی نگرانی میں رکھا جاتا، تمہیں پتا ہے؟ ذولفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے، جسے ترقی چاہئے ہوتی ہے وہ یہ ترپ کا پتہ استمال کرتا ہے، کراچی کے نام پر ایک بڑا حصہ لیا جاتا ہے، جو کہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے، بہت بڑا شہر ہے اسکے مسائل بھی بڑے ہیں،دنیا کے ہر "بڑے" شہر میں ایسا ہی ہوتا ہے، یہ بات چھوٹے شہروں میں رہنے والے۔ نہیں سمجھ سکتے، یہ روزگار کا شہر ہے یہاں کے رہنے والوں کو پنجاب کی طرح دوسرے شہروں میں نہیں جانا پڑتا، یہاں رزق ہے اللہ کا دیا ہوا اور برکت ہے" وہ دھیمے لہجے میں اپنی بات سمجھا گیا۔ "اوہ آئی سی تب ہی ہم دیکھتے ہیں کراچی کا نام لیکر حکمران سیٹیں تک جیت جاتے ہیں،" وہ ٹیک لگاتے پیچھے ہوئی، جیسے محفوظ ہوئی ہو "یہ ٹی وہ ٹاک شو ختم ہوگیا ہو تو آرڈر کرلیں؟"عرش نے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ وہ بے حد بور ہوئی تھی۔ بلکل ویسے ہی جیسے ملک و ملکی سیاست سے نا دلچسپی رکھنی والی لڑکیاں نیوز چینل دیکھ کر بور ہوتی ہیں " اوہ میں تو بھول گیا میری بیوی کو ان باتوں کی سمجھ کہاں آئی گی"نچلا لب دانتوں تلے داب کر بھنویں اکھٹی کر کے باقاعدہ اس پر نظریں جما کر کہا۔ "سمجھ ساری آتی ہے مگر مجھے ان فضول باتوں میں اپنا دماغ لگانے کی ضرورت نہیں" عرش نے دانت کچکچائے "تم دماغ لگاتی کہاں ہو ویسے؟ کاموں میں یا پڑھائی میں؟" معصومیت کی انتہا...! "کتنا ظالم شوہر ملا ہے، ہر وقت میرے لوز پوائنٹ گنتی کرواتا رہتا ہے" عرش نے جل کر سوچا۔ "میں جہان دماغ لگاتی ہوں نا آپکو بتا دوں گی، ابھی مجھے بھی بھوک لگ رہی ہے آرڈر کریں" اسنے مینیو اسی کی طرف بڑھا دیا "میرا نہیں یہ میمونہ کا ڈنر ہے وہ آرڈر کرے گی،" اسنے کارڈ مونی کی طرف بڑھایا۔ "ڈنر بے شک میرا ہے مگر ڈنر میرے فیاض دل جیجو کی طرف سے ہے اسی لئے میں انکی پسند کا کھانا کھا لوں گی"میمونہ نے اعلان کیا "نوازش" شاہ نے سر کو خم دیا خاموشی سے کھانا کھا کر بل پے کر کے اسنے آئس کریم لانے کو کہا میمونہ پھر سے تصاویر اور سیلفیز لینے لگی وہ اٹھ کر واک کرنے لگے ویٹر نے انہیں آئس کریم تھما دی، تین اسکوپ کی وہ آئس کریم خالی پیٹ کھائی جا سکتی تھی بھرے ہوئے پیٹ نہیں وہ تھوڑی تھوڑی کھاتے رہے "عرش اپنے ہاتھ دیکھو" شاہ نے اسکی کہنیوں کی جانب اشارہ کیا آئس کریم پگھل کر اب اسکی کہنیوں سے ٹپک رہی تھی۔ وہ خجل ہوئی اور آئس کریم شاہ کو تھما دی اس نے ڈسٹ بن میں ڈال دی اور عرش کے پاس آیا تھا "چلو آو واش کر آو" اسکی اسکے ہاتھ تھامے رکو" پہلے ایک سیلفی لینے لینے دو" آئس کریم سے لدی پھندی عرش کو اپنے ساتھ لگایا اور لمحوں میں سیلفی لے ڈالی وہ ہکا بکا رہ گئی۔ "آپ میری اسٹوپڈ پکس لیں گے،؟ ڈلیٹ کریں اسے" اسنے موبائل چھیننا چاہا گندے ہاتھ بھی شاہ کی شرٹ سے صاف کر ڈالے، ابھی بھی کچھ باقی تھی ہتھیلیوں پر چپچپاہٹ "افوہ یہ کیا کیا؟؟" موبائل پوکٹ میں ڈال کر وہ غصہ ہوا نیلی شرٹ پہ گلابی آئسکریم چپکا دی تھی "یہی سزا ہے آپکی" وہ غصے سے مڑی۔ اطراف میں سمندر کی لہروں کا سکون دیتا شور تھا "اے اشو" اسکی کہنی پکڑ اسے اپنی جانب کھینچا "ادھر صاف کرلو،" اسکی ہتھیلیوں کو اپنی شرٹ سے رگڑ ڈالا، اور اسکی ناک چٹکی میں دبائی "اور کوئی سزا دینی ہے؟" اسکی جانب جھکا، اسکی آنکھیں عرش کو لو دیتی محسوس ہوئیں "مم..میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں"وہ گھبرا کر مڑی "کہا تھا نا تم پیار سے ڈرتی ہو" شاہ نے جملہ پھینکا جو اسکے کان تک سرخ کرگیا ***** "آج بھی اندر نہیں آئیں گے آپ؟" گاڑی سے باہر آتے ہوئے عرش نے پوچھا میمونہ اندر جا چکی تھی "نہیں پھر کبھی سہی" وہ مسکرایا "آپ پورچ میں کھڑے ہیں اور اندر نہیں آرہے" وہ خفا ہوئی "پورچ میں کھڑا ہوں تو بلا رہی ہو، نہیں آرہا،اگلی بار جب خود سے بلاو گی، کہیں بھی ہوا، تو چلا آؤں گا" اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے قریب کیا "کیا بھروسہ ہے؟ تب بھی نا آئیں؟" عرش نے جانچنا چاہا "آزما لینا" کہتے ساتھ اسے قریب کیا اور اسے کندھوں سے تھام کر مقابل کھڑا کیا اگلے لمحے عرش کو اپنی پیشانی پر اسکی مونچھیں سرسراتی محسوس ہوئی تھیں، نرم سے لبوں نے اسکی پیشانی پہ مہر محبت ثبت کی وہ متحیر رہ گئی۔ "میری محبت کا پہلا لمس،" وہ دور ہوا پیچھے پھر مسکرایا "اپنا خیال رکھنا، اور میمونہ سے کہنا کل نہیں پرسوں لے جاوں گا چرنا آئی لینڈ، انشاءاللہ" وہ گاڑی میں بیٹھ گیا اسے ہاتھ سے خداحافظ کرتے وہ وہاں سے چلا بھی گیا عرش ویسے ہی کھڑی تھی تشنہ لب، اور سن سی، تھوک نگلا اور انگلیوں سے پیشانی کو چھوا جہاں وہ لمس تازہ تھا ویسی ہی گرماہٹ وہ ٹرانس سے نکلی۔ گہری سانس لی اسکا چہرہ گال سرخ ہوا اور آنکھیں جھک گئیں، وہ اپنے کمرے میں بھاگی۔ ابھی وہ کہیں چھپ جانا چاہتی تھی ******* #جاری_ہے
❤️ 👍 🙏 31

Comments