Novel Ki Dunya
March 1, 2025 at 11:33 AM
#شاہ_اور_زہرا
#تحریر_عظمی_محمد_عثمان
#قلمی_نام_مٹھو_لاڈلی
#قسط_نمبر_27
"تمہیں رات کو کیا ہوا تھا؟" صبح ناشتے کی میز پر میمونہ نے ناشتہ کرتے ہوئے سوال داغا
"مم..مجھے کیا ہونا ہے؟" اسکے ہاتھ سے جیم کا جار گرتے گرتے بچا
"تم نیند میں ہنس رہیں تھیں، یا شاید سوئی ہی نہیں تھیں، مجھے تمہارا مسکرانا محسوس ہوا،اور تم نے فجر بھی پڑھی تھی آج جب میں اٹھی تو تم پڑھ رہیں تھیں" میمونہ اسی کے کمرے میں ٹہری تھی۔
"ہاں کل میں بہت خوش تھی اور خوشی دینے والے سے تو سب سے پہلے شئیر کرنی چاہئے نا؟" وہ مسکرائی
"اوہ گریٹس، کیا بات تھی مجھے بتاؤ؟" مونی کی آنکھیں چمکیں
"اوہ اچھا؟ بتاؤں تمہیں؟" عرش نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
"ہاں نا"
"چپ کر کے ناشتہ کرو، بڑی آئی مجھے بھی بتاؤ" عرش نے اسکی نقل اتاری
"کرلو بیٹا کرلو ہمارے بھی دن آنے ہیں،" وہ بدمزہ ہوئی
"آنے ہیں مگر میرے جیسے دن تو کسی کے نہیں آئے ہونگے" وہ اترائی
"بتاتی ہوں جیجو کو کال کر کے عرش کو قدر ہورہی ہے آپکی" چائے کی شپ لیتے اسے تڑپایا
"خبردار جو تم نے بھانپ بھی نکالی، اچھا ہوا تمہیں کچھ بتاتی نہیں، سب سے بڑی چمچی ہو تم شاہ کی، میری دوست کم انکی دوست زیادہ لگتی ہو" سر جھٹکا
"وہ ہیں ہی اتنے اچھے،ہر ٹاپک پہ اتنے اچھے سے بات کرتے ہیں، اتنی معلومات ہے انکے پاس، اتنے ڈیشنگ، اور سوبر، کہاں تم نری احمق، اور نالائق تم سے بات کرنے سے پہلے ہی میں سوچ رہی ہوتی ہوں اسے کہاں علم ہوگا" میمونہ نے بدلا چکایا
"تم سے بات کر کے ابھی مجھے لگ رہا کہ مجھے آئندہ زندگی میں "نند" کی کمی محسوس نہیں ہوگی"عرش نے دانت پسیجے
ناشتے کے بعد میمونہ اپنی بھابھی کے ساتھ کسی رشتے دار کے گھر چلی گئی اسکا کہنا تھا یہاں آئی ہوں تو امی نے کہا تھا مل لینا،وہ عرش کو بھی ساتھ لے جانے پر بضد تھی مگر عرش نا مانی
میمونہ بھابھی اور نورینہ بیگم ساتھ چلی گئیں۔
عرش نے کل کی تیاری کیلئے کپڑے وغیرہ نکالے پریس کر کر ہینگ کئے شام میں وہ ٹیرس پہ چلی آئی سورج غروب ہورہا تھا ارد گرد اذانیں شروع ہوچکی تھیں۔
وہ ستون سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ بایاں ہاتھ پیشانی کو چھو رہا تھا۔ اسکا لمبا سا دوپٹہ کاندھے پہ جھول رہا تھا۔
ایک سکون کی کیفیت تھی جو دل میں دماغ میں تھی۔
مجسمہ اطمینان...
"یا اللہ،" بے اختیار آسمان کو دیکھتے عرش کی زبان سے نکلا
اسکا پیشانی کو چھوتا ہاتھ نیچے گیا اور جھولتے ہوئے دوپٹے کو اسنے سر پہ جمایا۔
"اتنی آسانی بھی کسی کی زندگی میں ہوتی ہے؟ میں تو ساری نمازیں بھی ادا نہیں کرتی، میں تو اتنی نیک بھی نہیں ہوں، مجھ ہر اتنی عنایات؟" اسکی آنکھوں سے ایک موتی گرا
"محبت کیلئے انسان روتے ہیں گڑگڑاتے ہیں، مجھے محبت بھی اتنی آسانی سے مل گئی،" وہ روتے ہوئے چونکی
"کہیں میں اتنی گنہگار تو نہیں ہوں، کہ میری دنیا جنت بنادی اور آخرت "وہ لرز گئئ سر تا پا
"نہیں مگر میرے آقا ﷺ کا فرمان ہے،اگر اپنی نیکی تمہیں خوش اور برائی رنجیدہ کردے تو تم مومن ہو،" وہ سنبھلی
"اور اگر ایسا ہوتا تو دھتکارے ہوئے کو تو مہلت شکر بھی نہیں ملتی، انہیں خیال نعمت نہیں آتا، انہیں سجدے میں سر رکھنے کی توفیق بھی نہیں ملتی،" اذانیں اب چاروں طرف ہورہی تھیں،پرندے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹنے کو تھے
"اور دھتکارے ہووں کو تو سکون بھی میسر نہیں ہوتا" موتی کی لڑی پھر بن گئی
"مجھے اللہ نے شاہ کی محبت دی،اس محبت پہ صبر کا پہرہ دیا، اور اتنا دیا، کہ میں نے ظاہر بھی نہیں کیا، پھر روکاوٹیں دیں، امی کے دل میں رحم دیا، میری زندگی دوبارہ دی، پھر مجھے شاہ بھی دے دیئے، اللہ سب سے بڑھ کر مجھے انکی محبت دے دی، وہ کہتے نہیں ہیں، مگر میں محسوس کرسکتی ہوں، میں نالائق ہوں، مجھ سے کتابیں نہیں پڑھی جاتیں،مگر میں ان کی آنکھیں پڑھ سکتی ہوں،
میں انکے وہ آنسو ابھی بھی اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی ہوں جو اس پہاڑ پر گرے تھے،مجھے نا صرف میری محبت دی بلکہ محبت کے دل میں میرے لئیے اتنی محبت ڈال دی، اسے میرا محرم بنا دیا،" وہ ٹیک لگائے بیٹھ گئی دوپٹہ تھوڑا سا سر سے سرک گیا اذانیں رک گئی تھیں،اب قریبی مسجد سے نہایت ہلکی آواز میں تلاوت قرات،اور رکوع سجود کی تسبیحات کی آوازیں آرہی تھیں،
"اور میں تو اپنے رب کی کسی نعمت کو جھٹلا ہی نہیں سکتی، میں اسکے کرم اور عطا کا نمونہ ہوں، جس پر وہ ستر ماووں سے ذیادہ مہربان ہے، مجھ سے بہت محبت کرتا ہے،" اسکے آنسو گرنے لگے اسنے ہتھیلیوں میں جذب کئیے۔
"میں نیت کرتی ہوں اللہ پاک!میں آج سے ساری نمازیں پڑھوں گی، ضروری ہے جن کی محبت ان سے بچھڑ جائے وہی رب کے قریب ہوجائیں؟ نہیں! محبت مل جائے،تب تو سجدہ شکر بھی واجب ہوجاتا ہے، کہ اسکی عطا کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، مجھے استقامت دیں اللہ، مجھے صرف یہاں ہی نہیں دونوں جہان میں آسانی دیں، مجھ پر اپنا کرم بنائے رکھیں" وہ پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی.....
روتے روتے دل کو قرار و لذت میسر آئی تو وہ اٹھی اور نماز مغرب ادا کی،اسکے بعد شکرانے آگہی کے اور شکر کے،جو اس پر واجب تھے
محبت کوئی سکہ نہیں جو مانگنے پر سوالی کو عطا ہوجائے، یہ تو نشہ ہے، طلب ہے، ہر بار چاہئے ہوتا ہے،" یہ شکر سے بڑھتی اور ناشکرائی سے دور ہوتی ہے....اسے رضا والے ہی پا سکتے ہیں
بے شک بے شک!
*****
ایک اور دن ایک اور سمندر!
کلفٹن کا ساحل سفید ریت سے سجا ہوا اور مبارک ولیج، یہاں پر سنہری چمکتی ہوئی ریت، جابجا پڑے پتھر، حسن کا شاہکار، سامنے کانچ جیسا نیلا پانی، اور سفید جھاگ، رنگین پتھر سیپیاں....واللہ..سر دھنیئے
اور حد نگاہ کے اختتام پر دیوہیکل جزیرہ....
مدھم سا دکھائی دیتا تھا چرنا آئی لینڈ!
دھند تھی یا بادل واللہ اعلم...!!
یہ ساحل نہیں قدرت کا شاہکار! پہلے ریت، سنہری سی..پھر پتھر،بڑے بڑے، گول چپٹے، اور شفاف پانی، ایسا کہ کھڑے ہوکر انسان اپنا گرا ہوا سکہ بھی اٹھا سکتا ہے،
اسی ساحلی پٹی سے بلوچستان کا پہاڑی سلسلہ، اس پار سندھ اس پار بلوچستان
کچھ عرصہ قبل یہ علاقہ دہشتگردی اور خطرناک علاقوں میں سے ایک تھا مگر آرمی رینجرز کے مسلسل آپریشن ، بلوچی قبائلی جنگجووں سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کے بعد یہ خطہ حسن اب امن و حسن میں اپنی مثال آپ ہے،کراچی کے کسی بھی ٹکڑے سے یہاں آیا جائے، پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا راستہ، اور سیدھی سڑکیں، سناٹےاور اسرار سی بھری.....!
اچانک چلتے چلتے پہاڑوں کا اختتام ہوتا ہے، گاڑی سائڈ میں لگائیں، اور نیلا شفاف سمندر جو اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے آپکے سامنے ہوگا،
بندہ سوچے کہ کس نے دریافت کیا ہوگا کہ ان دیوہیکل پہاڑوں کے پیچھے ایک جنت نظیر سمندر، اور سمندر کے پیچھے بے مثال جزیرہ ہے، جہاں آبی حیات، آبی زندگی انسان چھونے کی حد تک محسوس کر سکتا ہے،
شاہ بلو جینز اور وائٹ ڈریس شرٹ میں تھا، آستین کہنیوں تک فولڈ تھیں، جینز کے پائنچے بھی ٹخنوں سے کافی اوپر تھے۔ بالوں میں جیل نہیں لگائی تھی تو تیز ہوا کی وجہ سے پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔
آنکھوں پر سن گلاسز تھے، وہ اور عرش ساحل پر بیٹھے تھے تھوڑا اونچائی کی جانب، انکی پشت پر پہاڑی پٹی تھی، جو سندھ اور بلوچستان کو ملاتی تھی۔
عرش نے بالوں کی ٹیل پونی بنائی ہوئی تھی اونچی اور لمبی سی، کمر تک آتی ہوئی..وہ شاہ کی جانب چہرہ کرتی تو بال کندھوں پر جھول جاتے۔ پیچھے ایک ہٹ تھا، لکڑی اور بھوسے سے بنا ہوا جو انہوں نے عارضی رینٹ پر لیا ہوا تھا، جس میں انہوں نے سامان وغیرہ رکھا تھا، یہاں کھانے پینے کی اشیاء والے نا تھے، بلکہ یہاں آنے والے ٹور اپنے ساتھ لیکر آتے تھے،
میمونہ اپنے حجاب کو ٹائٹ کرتی انکی نظروں سے اوجھل تھی، ایک گھنٹہ انکے پاس ضد کر کے گئی تھی "اگر مجھے آپ چرنا نہیں لے گئے، تو میں یہیں رات گزار دوں گی، مجھے سامنے نظر آتے اس جزیرے کی قسم، میں واپس نہیں جاوں گی،" آنکھوں میں آنسو کا کر لہجے میں وہی معصومیت گھولی تھی جو شاہ سے کام نکلوانے کا طریقہ تھا۔ وہ رک رک کر چرنا کو دیکھتی اور انہیں باور کراتی "جانا ہے"
اب نجانے کہاں تھی وہ دونوں اکیلے بیٹھے تھے۔
"اگر تمہیں اتنا پانی فوبیا نا ہوتا تو ابھی میں تمہیں اٹھا کر پانی میں پٹخ دیتا،" ہاتھ میں پکڑا پتھر اس نے دور تک پھینکا۔
"اور میں اگر بچ جاتی تو جیسے آپکو زندہ چھوڑ دیتی" عرش نے ناک چڑائی
"اب میں اپنی بیوی کو جان سے تھوڑی نا مارتا،" شاہ نے اسکی ناک کھینچی
"کیا بھروسہ آپ مار بھی دیں، ویسے بھی کونسا لو میرج ہے،" عرش نے منہ پھیر کر ہنسی چھپائی
"کوئی "اپنی جان"خود لیتا ہے کیا؟" اسکی جانب جھکا اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑیں
عرش نے اسے سیدھا کیا۔
وہ مسکرانے لگی۔
"میں پانی میں کہاں تک جاتی ہوں آپ بس بیٹھ کر دیکھیں،" وہ اٹھ کھڑی ہوئی، جینز اور اوپر اجرک کی کرتی، اس پر بہت سوٹ کر رہی تھی
"تم نہیں جاو گی عرش یہاں اندر پتھر ہیں، اور تمہیں اندازہ نہیں ہے یہ پاؤں میں بری طرح لگ جاتے ہیں، اور تم عادی بھی نہیں ہو، بیٹھو واپس" شاہ نے اسے تنبیہہ کی
وہ ان سنی کرتی آگے بڑھتی گئی،
شاہ سر جھٹک کر رہ گیا "نافرمان بیوی"
وہ اٹھ گیا ڈھلان سے نیچے چلا آیا تاکہ عرش کو دیکھتا رہے،
"تمہیں اگر جانا ہی ہے تو وہاں ریت والی سائڈ سے جاؤ عرش وہاں پتھر نہیں ہیں،" شاہ نے آواز لگائی
"آپ ریلکس رہیں میں اتنی بچی بھی نہیں ہوں،" پانی اسکے گھٹنوں تک تھا۔ ساحل پہ سناٹا تھا جس طرف وہ تھے اکثریت ریت والی سائڈ یا پہاڑوں پر تھے
وہ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ متفکر سا...
پانی اب عرش کی کمر تک تھا جاندار لہر آتی تو وہ لڑکھڑا جاتی، پھر ہنسنے لگتی اور پھر سے توازن بناتی، لائف گارڈز نے آگے نظر نا آنے والا جال لگایا ہوا تھا اسکا مطلب تھا کہ اسکے آگے جانے کی اجازت نہیں! خطرہ ہے
شاہ کا دل چاہا وہ اس سرپھری کے پاس چلا جائے مگر نجانے کیوں وہ اپنے کپڑے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے کوفت سی ہوتی تھی
وہ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا
یکایک ایک لہر آئی اور عرش کا قدم لڑکھڑایا وہ ایک سیکنڈ کیلئے پانی میں ڈوب کر ابھری لہر اسکے قد سے اونچی تھی
شاہ بھاگ کر اسکے پاس پہنچا اسے زبردستی باہر کھینچ آیا۔
عرش کے پاؤں میں پتھر لگا تھا جسکی وجہ سے وہ لڑکھڑائی تھی۔ شاہ بے خبر اسے غصے سے باہر لے آیا وہ پورا بھیگ گیا تھا، سفید شرٹ گیلی ہوکر اسکے جسم سے چپک گئی تھی۔ اسکا کسرتی بدن نمایاں تھا۔
"شاہ میرا پاؤں" وہ کراہی
"کک کیا ہوا" شاہ نے اسکا بازو چھوڑا اور اسکے پاؤں پر جھکا
وہاں انگوٹھے سے خون رس رہا تھا اور غالبا تھوڑا سا ناخن اکھڑ بھی گیا تھا۔ اور پاؤں پلٹنے کے سبب اسکے گھٹنے پر بھی پتھر لگا تھا
"منع کیا تھا نا اندر پتھر ہیں؟ نا جاو یہاں سے؟ تمہاری سمجھ میں عقل کی بات کیوں نہیں آتی؟ کھارا پانی اس زخم کو کتنا خراب کرے گا یہ تمہیں گھر جا کر پتا لگے گا" شاہ کی غصے سے پیشانی کی رگیں تن گئیں، وہ ریت پر بیٹھے تھے وہ اسکے پاؤں پر جھکا تھا اور سیدھے ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
عرش رونے لگی
"بہت درد ہورہا ہے" اسکی آنکھوں سے پانی بہنے لگا
"کیوں تم تو بچی نہیں ہو نا؟ اب درد کیوں ہورہا ہے؟"
"آئم سوری شاہ مجھے..نہیں پتا تھا کہ میرا پاؤں رپٹ جائے گا،" عرش کے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور شرمندگی الگ شاہ کے سامنے دعوے کئیے تھے اور اب چوٹ لگوا بیٹھی تھی نجانے اسی کے سامنے اسکی سبکی کیوں ہوتی تھی۔
"اب اٹھو اندر Hut میں چلو میں اسے منرل واٹر سے صاف کر کے کور کردوں" وہ اسکے آنسو دیکھ کر نرم ہوا۔
اسکا ہاتھ تھام کر اسے اٹھانا چاہا
مگر سر نے اٹھنے سے انکار کردیا
"نہیں اٹھنا یہیں کردیں، بہت درد ہورہا ہے، نیل بھی اور اور گھٹنے پر بھی درد ہے" اسنے روتے ہوئے بتایا
"یہاں کیسے کردوں؟ تھوڑی ہمت کرو اٹھو نا عرش
"وہ موم ہوا پگھل ہی گیا
"ایک منٹ" وہ رکا جھکا اور ریت پر بیٹھی عرش کو اپنے بازووں میں اٹھا لیا۔ اسے ڈپٹنے لگا۔ اردگرد سے بے نیاز اسے بازووں میں اٹھائے وہ دس قدم دور ہٹ میں لے آیا لائف گارڈز بھی اسے دیکھ رہے تھے جو اپنی بیوی کو ڈانٹ رہا تھا ہے سمجھا رہا تھا پھر اسے اٹھا بھی لیا تھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟" ابھی اسے اتارا نہیں تھا وہ اسکی بانہوں میں تھی ہونق بنی عرش زہرا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
عرش نے آنکھیں میچ لیں۔
شاہ نے اسکا گال چوما،اسکی بانہوں میں لیٹی عرش زہرا لرز گئی سر تا پا دل تھا کہ ابھی پسلیاں ٹوڑ کر باہر آجائے گا شاہ نے اسے موڑھے نما چھوٹی سی چارپائی پر بٹھایا اور خود اسکے قدموں میں بیٹھ گیا، وہ ایفیشنٹ سا، نفیس، اور مہذب سا لڑکا اسکے پاؤں کو اپنے گھٹنے پر رکھے ریت سے صاف کر کے اب پانی سے دھو رہا تھا۔
پھر پانی اور ریت سے بچانے کیلئے اسنے پلاسٹ کا ریپر چڑھا دیا،
"گھر جانے تک اسے ایسے ہی رکھنا ہے، اب تمہیں بڑا لگے یا اچھا اس سے بہتر طریقہ پانی اور ریت سے بچنے کا نہیں ہے" شاہ اسکے پاس بیٹھ گیا وہ دونوں گھٹنے کھڑے کئیے، بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے خاموش بیٹھی تھی۔ اسے تک رہی تھی...وہ کچھ کہہ رہا تھا وہ سن رہی تھی..مگر کہہ کیا رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی
"تم سن رہی ہو؟" بنا پلکیں جھپکے وہ اسے کب سے دیکھے جارہی تھی تو شاہ نے اسکا سر ہلایا
" میں یہاں شکرانے ادا کروں، مجھ پر واجب ہوا ہے" عرش نے بھیگی آنکھوں سے ایک بلکل مختلف بات کہی،
"سوری؟ میں سمجھا نہیں؟ " شاہ نے نا سمجھی سے استفسار کیا
"کچھ نہیں!" اور کہتے ساتھ ہی شاہ کا بازو پکڑا اور سر ٹکا لیا۔
شاہ اسے دیکھے گیا، محبوب تھی اور محرم تھی، محبت تھی، اور کرتی تھی، کرم تھا رحم تھا،عطا تھی، وہ اسکی تھی، شاہ مسرور ہوا،
ایک بازو اسکے گرد کھینچ لیا اور اسکے بالوں پر بوسہ دیا۔
وہ مسکراتی رہی آنکھیں بند تھیں، رب رحمان کی نعمتوں کا شمار کر رہی تھی،،
شاہ نے Hut سے ٹیک لگا لی،
"صرف تم ہی نہیں، مجھے بھی شکرانے ادا کرنے ہیں عرش،"شاہ اسکی ادھوری بات کا مفہوم اب سمجھا تھا
"آپ پر بھی واجب ہوا؟" آنکھوں میں محبت کی روشنی لئیے وہ اسے دیکھتی سیدھی ہوئی، اظہار کا نجانے یہ کونسا طریقہ تھا، جو بھی تھا،، بہت خوب تھا
"تم سے پہلے مجھ پر ہوتا ہے، میرے دل اور جسم نے تو نجانے کتنے شکرانے ادا کئیے ہیں اور ابھی کتنے ہی قضا ہو رہے ہیں"
" پھر میں اسے آپکا اظہار سمجھوں؟" شرارتی سی عرش جاگی
"کونسا اظہار؟" وہ اپنے تاثرات چھپا گیا
"یہی جو ابھی اپنے کہا کہ آپ مجھے مجھ سے ذیادہ محبت کرتے ہیں،" عرش نچلا ہونٹ دانتوں تلے دابا۔
"میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا، تم کہہ رہیں تھیں کچھ کیا کہہ رہیں تھیں اب کہو" وہ انجان بنا، پھر ہاتھ اسکی ٹھوڑی پر ٹکا کر اسکا لب دانتوں کی قید سے چھڑایا۔
"میں نے کچھ نہیں کہا،مونی کو ڈھونڈیں اور چلیں اب اسے پارکس، سے سیدھا گھر لے جائیں گے میں تھک گئی بہت، چرنا جانے کی ہمت اور حوصلہ دونوں نہیں" عرش نے موضوع بدل دیا مبادا وہ اسکے اظہار والی بات پکڑ لیتا
"جیسے آپکا حکم" شاہ نے سر کو خم دیا اور ہٹ سے نکل آیا،
مسکراتی ہوئی عرش کی نگاہ اپنے پاؤں پر گئی تو اسکی ہنسی نکل آئی،ریپر سے اسکا پاؤں ڈھکا ہوا تھا،"اب کھسے کیسے پہنوں گی اسے فکر لاحق ہوئی"
کچھ منٹوں بعد شاہ اور میمونہ کی واپسی ہوئی، میمونہ سر تا پا ریت سے اٹی ہوئی تھی، کپڑے اسکے خشک ہوچکے تھے
عرش کا پاؤں دیکھ کر تو پہلے اسے دکھ ہوا پھر شاہ کی زبانی اسکی کارستانی سن کر تو جو وہ بولنا شروع ہوئی الامان!
"اگر تم میں عقل نہیں تو جن میں ہے انکی بات مان لیا کرو،، تم نے طے کیا ہوا ہے، ہر جگہ جاکر چوٹ لگواو گی اور میرے معصوم سے جیجو کو جی بھر کے پریشان کرو گی" وغیرہ وغیرہ، وہ بولتی جا رہی تھی شاہ ہنسی روکنے کے چکر میں ہٹ سے باہر نکل آیا مبادا عرش اسکی دیکھ کر اس پر خفا ہوتی
*****
پھر شاہ ان دونوں کو آلہ دین پارک لے گیا تھا وہاں سے سفاری، پھر گھر،اگلا دن آخری تھا، ہفتے کی شام انہوں نے چلے جانا تھا پھر یونیورسٹی اسٹارٹ تھی۔ سندباد،پھر گھر
نورینہ بیگم دہائیاں دے رہیں تھیں،"میرے بیٹے کو گھن چکر بنایا ہوا ہے، روز ان مفتیوں، کو لے کر یہاں وہاں خوار ہوتا رہتا ہے"شاہ کیا کہتا؟
"انساء بیگم سمجھاتیں، "کوئی بات نہیں، نورینہ یہی تو دن ہیں گھومنے پھرنے کے، پھر شاہ باہر چلا جائے گا اسپیشلائزیشن کیلئے،پھر آنے کے بعد انکی شادی تو گھومنے پھرنے دو انہیں،" شاہ امی کا مشکور ہوتا جنکی وجہ سے وہ عرش کے ساتھ ساتھ تھا۔
"میرا نمبر نہیں سیو کرو گی؟ یا ابھی میں تم سے بات کرنے کیلئے میمونہ کا سہارا لیا کروں؟" انکے گھر سے نکلتے ہوئے شاہ نے پوچھا
"لائیں میں سیو کروں،" وہ ہنسی
شاہ نے اسے نمبر سیو کروایا،
"نام کیا رکھوں؟"
"اپنی مرضی کا رکھو، میں تو تمہارا نام، کیا ہوا سیو،" شاہ نے بتایا
"مجھے بتائیں کیا سیو ہے؟" وہ پرجوش ہوئی
"کوئی ضرورت نہیں ہے،تم اپنا دماغ لگاو، اور کرو سیو، میں جارہا ہوں، جب بات کرنی ہو کال کرلینا، لو میرج تو ہے نہیں جو میں تمہیں روز کال کرتا پھروں،" جاتے جاتے وہ اسے ستا گیا۔
وہ ہنس پڑی
فی امان اللہ!
نوازش" شاہ نے سر کو خم دیا
وہ چلا گیا۔
عرش وہیں کھڑی،اونگے بونگے نام سیو کرنے لگی،کبھی سائلنٹ بوائے، کبھی ہبی، کبھی مسٹر ایٹیٹیوڈ ، کبھی کیا تو کبھی کیا...
مگر دل مطمئن ہی نہیں ہورہا تھا
پھر وہ رک گئی، اردو کیبورڈ لگایا اور "زندگی" کے نام سے محفوظ کیا،
اب وہ مطمئن تھی،
اس نے موبائل، سینے سے لگایا.....
" اونہوں میری زندگی بس!
*****
جاری ہے
❤️
👍
😂
🙏
17