𝐌𝐚𝐳𝐡𝐚𝐫 𝐐𝐚𝐝𝐫𝐢
February 18, 2025 at 05:07 PM
*لڑکا،کاہن،راہب اور بادشاہ* ایک بادشاہ کا ایک کاہن تھا جو اس کے لئے کہانت کرتا تھا۔ ایک دن اس کاہن نے کہا مجھے ایک ذہین وفطین بچہ دو تا کہ میں اسے علم سکھاؤں مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میرے مرنے کے بعد میرایہ علم ختم نہ ہو جائے اور تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا شخص نہ رہے جو اس علم سے آشنا ہو۔ انہوں نے اس کے لئے ایک ذہین لڑکا متعین کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ اس کاہن کے پاس کہانت سیکھنے جایا کرے۔ وہ لڑکا حصولِ علم کے لئے کاہن کے پاس جانے لگا اس کے راستہ میں ایک گرجا تھا جس میں ایک راہب اقامت گزیں تھا۔ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا اس سے مختلف سوالات کرتا ۔ راہب اسے جوابات دیتا۔ ایک دن راہب نے کہا میں تو صرف خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کرتا ہوں۔ اب لڑکا اس راہب کے پاس ہی جانے لگا۔ کاہن نے لڑکے کے گھر والوں سے شکایت کی کہ وہ لڑکا اس کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتا۔ لڑکے نے راہب کے پاس کا ہن کی اس شکایت کا تذکرہ کیا۔ راہب نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ جب کاہن تجھ سے پوچھے کہ تو کہاں تھا؟ تو اس سے کہنا کہ میں اپنے اہل خانہ کے پاس تھا اور جب گھر والے تجھ سے پوچھیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان سے کہہ دینا میں کا ہن کے پاس تھا۔ وہ لڑکا راہب سے علم حاصل کرتا رہا۔ دورانِ حصول علم ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ایک دن وہ لوگوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا۔ وہ جماعت دہشت زدہ ہو کر سرا بیٹھی ہوئی تھی لڑکے کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ایک شیر نے ان کا راستہ روک رکھا ہے۔ لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور دعا مانگی مولا! جو کچھ راہب کہتا ہے اگر وہ حق ہے تو پھر میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اس شیر کو ہلاک کر دے“۔ پھر اس نے وہ پتھر پھینکا جس سے شیرو میں مر گیا۔ لوگوں نے پوچھا اس شیر کو کس نے ہلاک کیا ہے اس جماعت کے افراد نے بتایا کہ اس کو اس لڑکے نے مار دیا ہے یہ سن کر وہ لوگ گھبرا گئے انہوں نے کہا اس لڑکے کے پاس ایسا علم ہے جس سے کوئی اور آگاہ نہیں ہے۔ جب ایک نابینا شخص نے یہ واقعہ سنا تو اس نے لڑکے سے کہا اگر تو نے میری بصارت لوٹا دی تو میں تجھے وافر مال عطا کروں گا“۔ لڑکے نے اس سے کہا " مجھے تیرے مال کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں تو تجھ سے صرف اتنا کہوں گا کہ اگر تجھے بصارت مل جائے تو اس ذات پر ایمان لے آنا جو تجھے بینائی عطا کرے گا۔ اس نے کہا ” ہاں میں اس ذات پر ایمان لے آؤں گا۔ لڑکے نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جس سے نا بینا کو بینائی مل گئی۔ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آیا۔ راہب، لڑکے اور اندھے کی خبر بادشاہ تک پہنچ گئی۔ اس نے تینوں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور کہا میں تجھے اس طریقے سے قتل کروں گا کہ آج تک کسی شخص نے اپنے دشمن کو اس طرح قتل نہ کیا ہوگا"۔ پہلے اس نے راہب اور اس شخص کو بلایا جو پہلے نابینا تھا پہلے راہب کے سر پر آری چلا کر اس کو قتل کر دیا پھر دوسرے شخص کو بھی اسی طرح قتل کیا اس کے بعد لڑکے کو بلایا۔ بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو بلایا اور کہا اس لڑکے کو فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور سر کے بل نیچے گرا دو ۔ جب سپاہی اس لڑکے کو اس جگہ پر لے کر گئے وہ خود منہ کے بل نیچے گرنے لگے اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا۔ لڑکا دوبارہ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا اب اس لڑکے کو سمندر میں پھینک آؤ۔ سپاہی اسے لے کر سمندر کی طرف گئے اور اس لڑکے کو سمندر میں پھینکنے لگے لیکن وہ خود سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ لڑکا پھر بھی زندہ رہا وہ سہ بارہ بادشاہ کے پاس آیا۔ اس نے بادشاہ سے کہا ” جب تو مجھے مغلوب کر کے مجھ پر تیر اندازی نہیں کرے گا اس وقت تک تو مجھے ہلاک نہیں کر سکے گا لیکن شرط یہ ہے کہ تو جب بھی تیر چلائے تو کہے بِسْمِ اللهِ رَبِّ هَذَا الغُلام اللہ کے نام سے شروع جو اس لڑکے کا رب ہے۔ بادشاہ نے اس لڑکے کو لٹکا دینے کا حکم دیا پھر اس پر تیراندازی شروع کی وہ جب بھی تیر پھیلا تو کہتا بسم اللهِ رَبِّ هَذَا الغُلام لڑکے نے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھا اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی😓۔ *جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی،* *حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،* لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا اس لڑ کے پاس ایسا علم تھا جس سے کوئی اور شخص آگاہ نہیں ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں ۔ بادشاہ سے کہا گیا " اے بادشاہ! جب صرف تین آدمیوں نے تیری مخالفت کی تھی تو تو گھبرا گیا تھا اب سارے لوگ تیرے مخالف ہو گئے ہیں۔ بادشاہ نے خندق کھدوائی اس کولکڑیوں اور آگ سے بھر دیا پھر لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگا” جو شخص اپنے گناہ سے رجوع کرے گا ہم اس کو چھوڑ دیں گے اور جس نے اس مذہب کو ترک نہ کیا ہم اس کو اس آگ میں پھینک دیں گئے ۔ اس نے لوگوں کو آگ میں پھینکنا شروع کیا۔ پھر اس لڑکے کو دفن کر دیا گیا۔ روایت کیا جاتا ہے کہ اس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں نکالا گیا اس کا ہاتھ ابھی تک اس کے کندھے پر ہی تھا۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو حمد بن غیلان سے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ہداب بن خالد سے روایت کیا ہے۔ امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ وہ نا بینا جس کو بصارت ملی تھی بادشاہ کا ساتھی تھا جب بادشاہ حسب معمول اپنے دوست کے پاس بیٹھا تو اس سے پوچھنے لگا تجھے بینائی کس نے عطا کی ہے؟ اس نے کہا ” میرے رب نے میری بصارت لوٹا دی ہے ۔ بادشاہ نے پوچھا کیا میرے علاوہ تیرا اور بھی کوئی رب ہے؟ اس کے دوست نے کہا اللہ تعالیٰ میرا اور تیرا رب ہے“۔ بادشاہ نےا آری منگوائی اور اس کے سر پر رکھ کر چلا دی اس کو قتل کرنے کے بعد راہب کو طلب کیا گیا اس کو بھی اسی طرح شہید کر دیا گیا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے آخر میں ہے آگ میں پھینکنے کے لئے ایک عورت کو لایا گیا اس کے پاس ایک شیر خوار بچہ تھا۔ اس بچے نے کہا ” اے میری امی جان! مت گھبرائیں آپ حق پر ہیں ۔ ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس بچے کی عمر سات ماہ تھی۔ اللّٰہ اکبر جانیں گنوادی مگر ایمان کا سودا نہ کیا اور نہ ہی راہ رخصت اختیار کی اللّٰہ ہمیں بھی کامل واکمل ومکمل ایمان والا بنائے الروض الانف لابن ہشام، صفحہ 116،........ مت ٹٹولا کیجیے میرے لفظوں سے میری ذات اپنی ہر تحریر کا عنوان نہیں ہوں میں۔ *✍🏻:مظہر قادری*
❤️ 😢 🤲 ❤‍🩹 👍 💗 🙃 28

Comments