𝐌𝐚𝐳𝐡𝐚𝐫 𝐐𝐚𝐝𝐫𝐢
February 19, 2025 at 04:31 AM
*اپنے اندر کمال پیدا کریں:*
سقراط ایک بہت بڑا حکیم تھا اور گویا ایک درجہ میں طب کا موجد سمجھا جاتا ہے اور رات دن پہاڑوں میں جڑی بوٹیوں کا امتحان کرتا تھا سارا دن گھومتے گھامتے ایک دن ایک دکان پر بیٹھا دن بھر کا تھکا ہوا تھا اس کے آنکھ لگ گئی پیر تو زمین پر رکھے ہوۓ ہیں اور دکان کے تختہ پر بیٹھا ہے اور نیند آگئی بادشاہ وقت کی سواری نکل رہی تھی نقیب و چوبدار ہو بچو کہتے جار ہے ہیں اور اس بیچارے کو کچھ خبر نہیں یہاں تک کہ بادشاہ کی سواری قریب آ گئی تو بادشاہ کو ناگوار گز را که پلک کا ایک آدمی اور پیر پھیلاۓ ہوۓ بیٹھا ہے نہ بادشاہ کی تعظیم ہے نہ عظمت ہے بڑا بےادب گستاخ ہے بادشاہ کو اتنا غصہ آیا کہ سواری سے اتر کر اس کو ایک ٹھوکر ماری۔ اب سقراط کی آنکھ کھل گئیں اور دیکھنے لگا، بادشاہ نے کہا کہ جانتا بھی ہے تو کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا جی ہاں میں یہی جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کون ہیں؟ اور اب تک اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شاید آپ جنگل کے کوئی درندے معلوم ہوتے ہیں اس لئے کہ آپ نے ٹھوکر ماری ہے اور وہی ٹھوکر مار کر چلتے ہیں۔ بادشاہ کو اور زیادہ ناگوار گزرا اس سے کہا کہ تو جانتا نہیں کہ میں بادشاہ وقت ہوں۔ میرے ہاتھ میں اتنے خزانے ہیں۔ اتنی فوجیں ہیں اتنے سپاہ میں اتنے قلعے ہیں اتنے شہر ہیں ۔
سقراط نے بڑی متانت سے کہا کہ بندہ خدا تو نے اپنی بڑائی کے لئے فوجوں کو ہتھیاروں کو خزانوں کو روپے کو پیسے کو پیش کیا لیکن ان میں سے ایک چیز بھی تیرے اندر کی تو نہیں ہے۔ سب باہر ہی باہر کی چیزیں ہیں تیرے اندر کیا کمال ہے جس کی وجہ سے تو دعویٰ کرے کہ تو باکمال ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ روپے پیسے نے تجھے چھوڑ دیا بس تو ذلیل ہو گیا اب تیری عزت ختم ہوگئی تاج و تخت اتفاق سے پاس نہ ہو تو بس تو ذلیل ہو گیا۔ فوجیں اگر کہیں رہ جائیں اور تو شکار میں آگے بڑھ جاۓ تو ذلیل ہوجاۓ اس لئے کہ فوج تو ہے ہی نہیں یہ کیا عزت ہوئی کہ اندر کچھ نہیں اور بیرونی چیزوں پر مدار کار رکھے ہوئے ہے۔ تیرے اندر کی کیا چیز ہے نہ فوجیں تیرے اندر کی ہیں نہ تاج وتخت تیرے اندر کا ہے، تو اگر اپنا کمال بتلاتا ہے اور بڑائی بتلاتا ہے تو اندر کا کمال پیش کر اگر تیرے اندر واقعی کوئی کمال ہے ۔اب وہ بیچارہ بادشاہ بھی حیران ہوا کہ واقعی بات کی ہے جواب دے نہ سکا۔
حکیم سقراط نے کہا کہ اگر مجھے کمال دکھلاتا ہے تو ایک ننگی باندھ اور کپڑے اتار اور میں بھی ننگی باندھتا ہوں اور کپڑے اتار کر اس دریا میں کودتے ہیں اور وہاں اپنے اپنے کمالات دکھلائیں گے۔ اس وقت معلوم ہوگا کہ تو باکمال ہے یا میں باکمال ہوں، تو گویا سقراط نے بتلایا کہ حقیقت میں کمال جس پر آدمی فخر کرے وہ اندرونی کمال ہے اندر تو کمال نہ ہوا اور باہر کی چیزوں پر فخر کرے جو کہ ہمیشہ جدا ہونے والی چیز میں ہیں وہ جدا ہوگئیں تو بےکمال ہوگیا۔ ذلیل ہوگیا یہ کیا کمال ہے؟
مت ٹٹولا کیجیے میرے لفظوں سے میری ذات
اپنی ہر تحریر کا عنوان نہیں ہوں میں۔
*✍🏻:مظہر قادری*
❤️
👍
😢
🫀
💞
😮
🙌
42