
JUI Pakistan Media
February 22, 2025 at 07:53 AM
*ہائیکورٹ میں مدرسے کے خلاف مقدمہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبارات اور سوشل میڈیا پر چسکے لینے کی بات الگ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملے میں رٹ درخواست کی سماعت کیسے کرسکتی ہے؟
رٹ درخواست آئین کی دفعہ 199 کے تحت دائر کی جاتی ہے اور اس میں ان "بنیادی حقوق" کا سوال اٹھایا جاتا ہے جن کے تحفظ کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔
تاہم اس نوعیت کے معاملے میں کسی ادارے کے خلاف عدالت رٹ تبھی جاری کرسکتی ہے جب وہ ادارہ حکومتی ہو، یا اس کے انتظامی اور مالیاتی امور پر حکومت کا کنٹرول ہو، یعنی انتظامیہ میں واضح طور پر حکومتی اہلکار شامل ہوں اور اخراجات کا بیشتر حصہ سرکاری خزانے سے آتا ہو۔
نیز یہ دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارے نے کسی "قانون" کی خلاف ورزی کی ہو۔ اگر ادارے کے ذیلی قواعد "قانون" کی تعریف میں داخل نہ ہوں، تو ان کی خلاف ورزی پر رٹ درخواست دائر نہیں کی جاسکتی اور عدالت اس مخصوص دائرۂ اختیار میں اس درخواست کی سماعت نہیں کرسکتی۔ ایسا تنازعہ عام دیوانی عدالت/سول کورٹ میں اٹھایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک "نجی معاملہ" سمجھا جاتا ہے اور نجی معاہدے کی خلاف ورزی پر سول عدالت بھی زیادہ سے زیادہ ہرجانہ عائد کرسکتی ہے، وہ بھی سالہا سال کی خواری کے بعد۔
مدارس یا ان کے وفاق سرکاری اداروں کی تعریف پر پورا نہیں اترتے، خواہ ان کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہوئی ہو یا کسی قانون کے بغیر وزارتِ تعلیم کے ڈائریکٹریٹ میں کسی ریٹائرڈ جنرل کے ساتھ۔
بلکہ نجی یونیورسٹیوں کے تنازعات بھی رٹ درخواست میں نہیں لائے جاسکتے۔
بلکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے وہ امور بھی جو ان ذیلی قواعد کے تحت آتے ہوں جنھیں "قانون" کی تعریف سے باہر سمجھا جاتا ہے، رٹ درخواست میں نہیں اٹھائے جاسکتے۔
خود جسٹس کیانی، جو کل "بہت اہم" سوالات اٹھا رہے تھے، بارہا سرکاری یونیورسٹیوں کے معاملات میں رٹ درخواستیں خارج کرچکے ہیں۔
اس لیے اس موجودہ مسئلے کو بھی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش سمجھیے۔
جب تک ہماری عدالتیں اور ہمارے جج تعلیم اور تعلیمی اداروں کے متعلق اپنے بنیادی تصورات میں تبدیلی نہیں لاتے، اور جب تک وہ اپنی "قانون" کی تعریف درست نہیں کرلیتے، تب تک کچھ بھی نہیں ہونے والا۔
لیکن
اگر وہ یہ تبدیلیاں لے آئیں اور قانون کی تعریف بھی درست کرلیں، تو پھر انھیں ان سیکڑوں مقدمات میں فیصلے بھی سنانے ہوں گے جن سے وہ اس بنا پر گریز کرتے آئے ہیں کہ اسلام آباد تو ہے ہی ملازمین کا شہر اور اگر ہم نے یہ مقدمات سن کر فیصلے دینے شروع کیے، تو ہمارے سامنے مقدمات کا انبار لگ جائے گا۔
نہیں، مائی لارڈ، یہ چائے کا کپ آپ کے لیے نہیں ہے۔
❤️
👍
😂
💚
😢
😮
34