
ناصرالدین مظاہری
February 11, 2025 at 02:31 PM
سنو سنو!!
مدارس۔ طلباء۔ تعطیلات اور کمرے
(ناصرالدین مظاہری)
دینی مدارس میں سالانہ تعطیلات کی آمد آمد ہے ، اس موقع پر طلبہ کی خوشیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، ہر طالب علم امتحان کے بعد اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے سفر کی تیاریاں پورے جوش اور خروش کے ساتھ کرتا ہے۔
مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارنپور میں طلباء کی عام سالانہ تعطیل 20 شعبان کو ہوتی ہے گزشتہ کئی سال سے میں دیکھتا ہوں کہ طلبہ جس وقت اپنے کمرے کو چھوڑتے ہیں تو ان کے بعد کمرہ اتنی خستہ حالت میں ہوتا ہے کسی بھی نفیس الطبع ادمی کو اس میں داخل ہونے کی ہمت نہیں پڑے گی۔
بتاتا چلوں کہ مدرسے کے کمروں میں الحمدللہ بہترین فرش ہے ، شاندار ٹائل لگی ہوئی ہیں ، مدرسے کی طرف سے ہی مفت بجلی روشنائی اور پنکھوں کا مکمل اور معقول انتظام ہے ان سہولیات کے باوجود مدرسہ ان سے بجلی اور رہائش کا کبھی ایک روپیہ نہیں لیتا لیکن ہمارے طلباء مدرسے کے ان احسانات اور ہمدردیوں کا اس انداز میں صلہ دیتے ہیں کہ ان کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے
اس سال تو مدرسے نے قیام گاہوں بجلی روشنی کتابوں ماہانہ پانچ سو روپے وظیفہ ، سردی میں لحاف ، کمبل، ٹوپے ،شاندار قسم کی جیکٹ، ایک عدد سوٹ اور عمامہ وغیرہ تحائف اور ہدایا سے اپنے طلباء کو نوازا ہے ان ہمدردیوں کے باوجود مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی طالب علم نے حضرت ناظم صاحب کی خدمت میں پہنچ کر ان شکریہ بھی ادا کیا ہو ، میرے خیال سے طلبہ کی یہ عادت غلط ہے اگر مدرسہ یا کوئی بھی شخص اپ کے ساتھ میں کسی بھی طرح کی صلہ رحمی ہمدردی خیر خواہی اور مراعات کا معاملہ کرتا ہے تو اپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ شکریہ کے چند الفاظ ضرور بولیں اس سے نہ صرف چھوٹوں کو خوشی ہوتی ہے بلکہ بڑوں کو بھی خوشی ہوتی ہے ۔
دو سال پہلے مدرسے میں سالانہ چھٹی ہوئی تمام کمروں کو مقفل کرانے کا انتظامیہ کی طرف سے حکم ہوا متعلقہ افراد نے کمروں میں جا جا کر کمروں کا معائنہ کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ تمام کمرے اس قدر کباڑ سے بھرے ہوئے تھے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ کل تک انہی حجروں اور کمروں میں وہ لوگ رہتے تھے جن کے پیروں کے نیچے فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں یا جن کے لیے سمندروں کی مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں بلا مبالغہ اس کباڑ کو بھنگیوں کے ذریعے سے نکلوایا گیا تو تب کئی کونٹل یہ کباڑ نکلا ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے یہ طلباء جو ماشاءاللہ عاقل بھی ہیں بالغ بھی ہیں اور بہت سے تو فاضل و فارغ بھی ہیں ان کو آخر کون سمجھائے کہ بھائی آپ کے کمرے سے نکلنے کے بعد کم از کم آپ کا کمرہ اس لائق ہونا چاہیے کہ اس میں جب کوئی اور آدمی داخل ہو تو اس کو احساس ہو کہ ہاں یہاں پر انسان رہتے تھے۔
ایک دفعہ مدینہ منورہ سے اپنے وطن کے لیے روانگی ہو رہی تھی میرے کمرے میں میرے علاوہ اور چار لوگ تھے یقین مانیں سبھی کو اپنی اپنی پڑی تھی سبھی نے اپنے سامان کی پیکنگ پر دھیان دیا لیکن پیکنگ کرتے کرتے کمرے کی جو حالت بنی اس پر کسی نے بھی دھیان نہیں دیا میں یہ منظر دیکھتا رہا سب سے پہلے اپنا سامان کمرے سے نکالنے کے بعد انتظار کرتا رہا کہ جب سب لوگ چلے جائیں تب اس کمرے کو صاف ستھرا کر کے کباڑ کو ٹوکرے میں ڈال کر کم سے کم اپنے کمرے کو اس لائق بناؤں کہ میرے بعد ہوٹل کی انتظامیہ یا ہوٹل کے نوکر کمرے پہنچ کر یا اور کوئی ٹور ٹریول والا جب یہاں پر آئے تو وہ ہمارے پس پشت ہمیں برا بھلا نہ کہے یا ہماری تہذیب و ثقافت پر انگلیاں نہ اٹھائے اور یہ نہ کہے کہ یہ کون لوگ تھے یہ انسان تھے جو عمرے کے لیے ائے تھے یا جانور تھے۔
مدرسے کی طرف سے ملنے والے کمرے یا ہوٹل کی طرف سے ملنے والے کمرے یا اپنے گھر کے کمرے سبھی رہائش کے معاملے میں برابر ہونے چاہییں جس طرح آپ اپنے گھر کے اپنے حجرے میں کباڑ نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح مدرسوں ، کالجوں ، ہاسٹلوں ، ہاسپٹلوں اور ہوٹلوں کے کمروب کا خیال بھی رکھنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
بعض لوگ ہوٹل سے نکلتے وقت ہوٹل کے کمرے کی ایسی حالت بنا دیتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ بعد میں ہوٹل کی انتظامیہ اس کمرے کو باقاعدہ سینیٹائز کراتی ہوگی یہ بھی ممکن ہے کہ گدے لحاف تکیے وغیرہ باقاعدہ دھلواتی ہو کیونکہ ہم میں سے اکثریت کی عادت ایسی ہو چکی ہے کہ وہ کرائے کے کمروں کو محض یہ سوچ کر استعمال کرتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے پیسے دے رکھے ہیں تو جناب اپ ٹرین ہو یا پلین ہو ہر جگہ آپ نے پیسے دے رکھے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خواہ مخواہ کمبلوں کو گندا کریں لحافوں کو ناپاک کریں یا چادروں کو برباد کر کے ناقابل استعمال بنائیں۔
سوچیں اگر آپ نے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو بجائے تولیہ کے چادروں سے پونچھا تو اس میں اپ کی تہذیب اور ثقافت ہی ظاہر ہوگی نہ کہ اپ کی اچھی تعلیم و تربیت کا اظہار ہوگا۔
یہ مدرسے اور کالج جو ہمیں مفت میں رہائش دیتے ہیں ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم ان کمروں کی دیکھ کریں ان کے حقوق کو پہچانیں مجھے یاد ایا شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری مظاہرعلوم کے جس کمرے میں رہتے تھے اس کمرے میں اپ نے کبھی بھی اپنی طرف سے کیل نہیں ٹھوکی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ مدرسے کا مال مال وقف ہوتا ہے اور اس میں اس طرح کا ذاتی انتفاع یا ذاتی تصرف بھی متولی کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔
پیارے طلبہ ! آپ کی سالانہ تعطیلات شروع ہو چکی ہیں بیس شعبان تک تمام مدارس میں چھٹیاں ہو جائیں گی بے شک آپ طالب علم ہیں لیکن مدرسے کے اساتذہ نے صفائی اور ستھرائی کا جو سبق دیا ہے یا صفائی ستھرائی کا جو اپ نے درس لیا ہے اور اپ کے بڑوں نے اپ کی جو تربیت کی ہے اس تربیت کا اور ان اسباق کا کم سے کم اتنا اظہار تو ہونا چاہیے کہ آپ جب کمرے سے نکلیں تو اپ کا کمرہ بالکل صاف اور ستھرا ہونا چاہیے اور لگنا چاہیے کہ ہاں اس میں تہذیب یافتہ ، سلیقہ شعار پڑھے لکھے لوگ رہتے تھے کسی جنگل کے جانور نہیں۔
(بارہ شعبان المعظم چودہ چھیالیس ھجری )
❤️
👍
7