
ناصرالدین مظاہری
330 subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

سنو سنو!! *سفراء اور چند احتیاطی پہلو* (ناصرالدین مظاہری) ماہ رمضان المبارک قریب سے قریب تر ہورہا ہے ، دینی مدارس کے لئے سفراء و ذمہ داران حصول یابی کے لئے نکل پڑے ہیں ، نہ دن میں چین نہ رات میں سکون ، نہ افطار کا سامان نہ سحر کا نظام ، جہاں جو کچھ مل گیا کھالیا نہیں ملا تو صبر سے کام لیا۔ مظاہرعلوم وقف سہارنپور کے لئے عرصہ تک مجھے بھی دہلی جانا ہوتا تھا مت پوچھئے اتنے بڑے ادارے کا نمائندہ ہونے کے باوجود کتنی تکلیف ہوتی تھی ، صبح سویرے نکلنا اور رات دیر تک ملنا ملانا ، معاونین سے ان کے وقت پر نہیں ملے تو دوبارہ ملاقات مشکل ، چندہ ختم ، محنت ضائع ، اب تو دہلی شہر بدل گیا ہے ، ہرا بھرا ہوچکا ہے ، گرد وغبار ختم ہوچکاہے ، بسیں اے سی کی چلنے لگی ہیں ، پالوشن برائے نام رہ گیا ہے میں جس وقت جاتا تھا اس وقت کھٹارہ بسیں تھیں دو دو روپے میں اچھی خاصی مسافت طے ہوجاتی تھی۔ لال بتی کی وجہ سے ان کا کوئی ٹائم ٹیبل ہی نہیں تھا ، کوئی تراویح کے بعد چندہ دیتا تو کوئی مغرب بعد بلاتا ، دہلی کسی چھوٹی دنیا سے کم نہیں اور جن کے پاس گاڑی وغیرہ نہ ہوتو وہ تو وقت پر پہنچنے کے لئے بہت پریشان ہوتے ہیں۔ ایک صاحب فراش خانہ کے قریب نیاریان میں رہتے تھے مجھے کسی نے وہاں کا پتہ دے دیا ، عشاء بعد وہاں پہنچنےکی تاکید کی گئی، وقت پر پہنچ گیا تو وہاں بڑی لائن تھی، میں ایک طرف کھڑا ہوگیا، صاحب خیر نے الگ کھڑا دیکھا تو پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے اس سے پہلے بھی آئے ہو ؟ مین نے کہا نہیں پہلی بار حاضری ہوئی ہے ، کہنے لگے کہ میں نئے مدارس کو چندہ نہیں دیتا ، میں نے کہا ٹھیک ہے ،اتنا سنتے ہی کئی بہار ، بنگال اور بعض دوسرے صوبوں کے سفراء وعلماء سراپا احتجاج بن گئے ، کہنے لگے کہ مظاہرعلوم وقف نیا کیسے ہوگیا ، ڈیڑھ سو سال پہلے کا مدرسہ بھی کیا نیا ہوسکتا ہے ۔بعض نے کہا کہ میں خود اسی مدرسہ سے فارغ ہوں ، کئی نے کہا کہ میرے پاس اسی مدرسہ کی تصدیق ہے ۔ ایک نے کہاکہ اگر مظاہر علوم وقف سہارنپور کو چندہ نہیں دو گے تو ہم لوگ بھی چندہ نہیں لیں گے۔ وہ صاحب بڑا گھبرائے کہنے لگے ہماری مسجد کے امام مولانا محمد اکبر صاحب سے کہلوا دیجیے میں نے کہا ابھی کہلوائے دیتا ہوں میں مسجد گیا ، مولانا محمد اکبر صاحب (سہس پور ڈھاکی دہرہ دون والے) مسجد میں ہی تھے اور حضرت مفتی مظفرحسین سے بڑا عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے ، مولانا نے ہنس کر کہا ارے ان امیروں کو کچھ بھی نہیں پتہ ہوتا ہے کہ کون مدرسہ کتنا پرانا ہے پھر فون کیا اور کہا کہ یہ مدرسہ تو ہمارا ہے ہمارے حضرت مفتی صاحب اس کے ناظم ہیں دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ساتھ ہی قائم ہوا تھا۔خیر خطیر تعاون کیا لیکن اس واقعہ سے سبق بھی ملا کہ سفراء حضرات ایک دوسرے سے مربوط رہیں ، الدال علی الخیر کفاعلہ کا مصداق بنیں ، اپنے ساتھیوں کا خیال رکھیں ، چندہ کے لئے جھوٹ بالکل مت بولیں ، جتنا خرچہ ہو وہی بتائیں، جھوٹ کی ریت پر بلڈنگ کھڑی نہ کریں ، امیروں کی چاپلوسی علم اور دین کی توہین ہے ، اللہ پر ہی توکل رکھیں، معاونین کے سوالات کا جواب پورے اعتماد کے ساتھ دیں۔ بچوں کی تعداد بڑھاکر چندہ نہ کریں۔اخراجات اور سالانہ بجٹ میں جھوٹ نہ بولیں۔مدرسے چلانے کے لئے جھوٹ بولنے کی کسی مفتی نے اجازت نہیں دی ہے۔ نماز ،روزہ ، تراویح اور دیگر عبادات کا خاص خیال رکھیں ، بعض لوگوں کے بارے میں سنا کہ رمضان میں چندہ کے دوران روزہ نہیں رکھتے یہ بہت ہی غلط ہے ، اس زمانہ میں جب اللہ تعالی نے آسانیوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دئے ہیں کوئی معقول عذر روزہ چھوڑنے کا نہیں ہوسکتا۔آپ کے اس عمل سے پورا طبقہ بدنام ہوگا۔ کرایہ اور کھانے پینے میں اپنے گھر کے معمول اور معیار سے اوپر نہ جائیں، مدرسہ کے اوپر بوجھ نہ بنیں، مصارف سفر میں پوری دیانت کا مظاہرہ کریں۔ سنو سنو!! حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری مظاہرعلوم کے اولین شیخ الحدیث ہیں، بانیان میں ان کاشمار ہوتا یے، کلکتہ شہر گئے چندہ کے لئے ، واپسی پر سفر خرچ لکھ کر پیش کیا ایک جگہ لکھا تھاکہ فلاں جگہ ایک اہل تعلق سے ملنے گیا ، چندے کی نیت نہیں تھی لیکن چندہ بھی خوب ہوا اس لئے اس سفر کا خرچ نہیں لکھا گیا ہے۔ یہ ہوتی ہے دیانٹ، اس کو کہتے ہیں خوف خدا یہی چیز اس زمانے میں عنقاہوتی جارہی ہے۔

سنو سنو!! رمضان واحترام رمضان (ناصرالدین مظاہری) رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ مبارک کی تیاری رجب سے ہی شروع فرما دیتے تھے۔ رجب و شعبان میں برکت کی دعائیں بھی کرتے تھے۔ اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔ یوں تو پورا رمضان المبارک طاعات و عبادات کی بہاریں لے کر آتا ہے چنانچہ رمضان کا چاند دیکھنے کے ساتھ ہی ہم تراویح شروع کردیتے ہیں، تراویح میں بیس رکعتوں میں امام صاحبان اپنی اپنی ترتیب کے مطابق قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ سہارنپور اس باب میں بڑا پر رونق رہا ہے یہاں عام طور پر روزہ نمازوں کی کثرت دکھائی دیتی ہے، نمازیوں اور روزہ داروں کی تعداد میں خوش گوار اضافہ ہوجاتا ہے۔ ذمہ داران مساجد پہلے سے ہی حفاظ طے کر لیتے ہیں، بہت سے لوگ اپنی دکانوں، مکانوں، شوروم، فیکٹریوں، کارخانوں اور کمپلیکس میں تراویح کا نظام بناتے ہیں۔ الحمدللہ مسجدوں کے اس شہر میں پورے مہینہ رونق رہتی ہے، شہر میں پینٹ شرٹ والے لوگ بھی سروں پر ٹوپیاں رکھتے ہیں، ان کی گفتگو میں بھی روزہ، رمضان، تراویح، سحری، تلاوت، اعتکاف، عید وغیرہ کا ذکر رہتا ہے اور یہ سب بڑی خوش آئند باتیں ہیں۔ بہت سے لوگ دوسرے شہروں، مسجدوں، خانقاہوں کا رخ بھی کرتے ہیں اور خلق خدا فیضیاب ہوتی ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے دور میں ادھر اخیر سال میں طلبہ اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تھے ادھر حضرت کے مریدان و مسترشدان مظاہرعلوم کا رخ کرتے تھے ، عید کے موقع پر یہ مریدان اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تھے تو ادھر طلبہ چھٹیاں گزار کر اپنے گھروں سے مدرسہ آنے لگتے تھے گویا پورے سال ایک خوبصورت ماحول رہتا تھا، جب تک طلبہ رہتے قال اللہ و قال الرسول کی مسحور کن آوازیں چہاردیواری میں بلند ہوتی رہتیں اور پھر ذاکرین وشاغلین کے الااللہ کی ضربوں سے یہاں کے درو بام روشن منوراور معطرومعنبر ہو جاتے تھے۔ آہ! کیسا خوبصورت ماحول تھا، ہر طرف پرنور شکلیں تھیں، تلاوت کا موسم بہار تھا، عشق الھی کا جذبہ مشکبار تھا، تلاوت قرآن تھی، تسبیحات ذوالجلال تھیں، نغمات تو حید تھے، چوبیس گھنٹے یہاں رحمان کی رحمانی اور قرآن کی نورانی یادیں تھیں، باتیں تھیں، حکایتیں تھیں، نصیحتیں تھیں، اوراد تھے، اشغال تھے، معمولات تھے، سحر میں بیدار کرنے کا اور افطار میں متوجہ کرنے کا نظام تھا، کفار کی بھی بڑی تعداد منتظر رمضان ہوا کرتی تھی، بہت سے لوگ روزہ بھی رکھتے تھے، کھلے میں بیڑی سگریٹ پینے سے احتیاط واحتراز کرتے تھے، ہر روزہ دار کی قدر ومنزلت ہوتی تھی، نہ خود بیڑی وغیرہ پیتے تھے نہ دوسروں کو پینے دیتے تھے، کھانے پینے حتی کہ کریانے کی دکانیں بھی بند رہتی تھیں۔ لیکن افسوس! اب کافی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں، اب خود مسلمانوں میں ہی احترام رمضان نہیں رہا، چنانچہ ایک بس میں ایک صاحب سفر کررہے تھے، رمضان کا مہینہ تھا، دن تھا اور وہ صاحب سرپر ٹوپی، جسم پر اسلامی لباس ہونے کے باوجود کچھ کھارہے تھے، اسی بس میں موجود ایک صاحب کواس شخص کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی، غصہ میں اٹھا اس کے سر سے ٹوپی اتار لی اور پھر کہا کہ اب کھا جتنا چاہے کھا، ٹوپی کو کیوں بدنام کررہا ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ کچھ نوجوان کہیں سے ٹی وی لے آئے اب پورے گاؤں میں انھیں کوئی جگہ ایسی نہیں ملی جہاں ٹی وی دیکھ سکیں مجبورا، گنے کے ایک کھیت میں رات کے وقت ٹی وی لے جاکر رکھی اور وہیں اپنا شوق پورا کیا۔ میں ایک دفعہ سہارنپور سے بذریعہ ٹرین سفر کررہاتھا، میرے دائیں بائیں آگے بہت سے غیرمسلم بھی موجود تھے، ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ مجھ سے چھپ کر پانی پی رہے ہیں، میں نے کہا کہ آپ بے تکلف پانی پی لیں آپ غیر مکلف ہیں پہلے تو مجھے تکلف اور مکلف کی وضاحت کرنی پڑی پھر پوری بات سمجھائی تو کہنے لگا اجی من ماننے پر تیار نہیں ہوتا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ روزہ دار کے سامنے کچھ کھانا پینا گناہ کا کام ہے۔ اب موبائل جیسی منحوس چیز ہم اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں اس کا نقصان ٹی وی کے نقصان سے بڑھا ہوا ہے، یہ ہروہ چیز مفت میں فراہم کرتا ہے جس کی انسان خواہش کرے، نتیجہ یہ ہوا کہ اب ماہ مبارک کی ناقدری ہونے لگی ہے، لوگ رمضان اور غیر رمضان کو ایک کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ رمضان میں جس طرح ہر نیکی اور نیک کام اجر میں بڑھ جاتاہے بالکل اسی طرح اس ماہ میں گناہ کا ارتکاب کرنا عام دنوں کے گناہوں سے بڑھ جاتاہے فإن الحسنات تضاعف فيه ما لا تضاعف فيما سواه ، وكذلك السيئات۔ (سات شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ)

ننھے بچے اور افطاری (ناصرالدین مظاہری) بچے گھروں کی رونق ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو گھر سونا سونا لگتا ہے ، ان کے وجود سے گھروں میں رونق ہوتی ہے ، ننھے بچے جب گھٹنوں کے بل چلنے لگیں تو پورا گھر ان کی خوب صورت شرارتوں سے تنگ آجاتا ہے ، ایسی ایسی شرارتیں یہ بچے کرتے ہیں کہ وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ، ان کی شرارتیں اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہیں جب ایک ہی گھر میں ان کو اپنا ہمجولی مل جائے۔ رمضان المبارک میں ان کی شرارتیں مزید بڑھ جاتی ہیں وجہ بظاہر یہی ہے کہ سرکش شیاطین تو قید کردئیے جاتے ہیں اور یہ قوم شتر بے مہار ہوجاتی ہے۔ ان کی والدہ افطاری کی تیاری میں مصروف و مگن ہوتی ہے اور یہ قوم اسی افطاری کے سامان کی ایسی کی تیسی کرنے کے لئے پر تول رہی ہوتی ہے۔ مرد حضرات تو شاید قسم کھالیتے ہیں کہ افطاری کی تیاری کے وقت گھر میں گھسنا ہی نہیں ہے ورنہ کم ازکم اس قوم کو کنٹرول کرنا آسان ہوسکتا ہے ، ماں بے چاری دونوں طرف سے مصروف ہوجاتی ہے افطاری کی تیاری بھی اور بچوں کی دیکھ ریکھ بھی، اگر بچہ گھر میں اکیلا ہے تو ماں کو پریشان کرتایے اور ایک سے زاید ہیں تو گھر کی حالت خراب کرتے ہیں۔ کوئی تکیہ سے روئی نکال رہاہے تو کوئی صوفہ سیٹ کو برباد کررہایے، ایک برتنوں کے پاس پہنچ کر تمام برتنوں کو بجابجا کر مرادآباد بنائے دے رہاہے تو کوئی افطاری سے پہلے سامان کا حال خراب کئے دے رہا یے۔کبھی بستر پر پیشاب کررہاہے تو کبھی کچن میں ہی فارغ ہورہاہے۔ یہ قوم ٹھیک اس وقت تو آپے اور پاجامے سے ہی باہر ہوجاتی ہے جب دستر خوان چنا جائے ، قسم قسم کے خوان اور پکوان رکھے جانے لگیں اور یہ خوب صورت مناظر اس معصوم مگر شریر کو دکھائی دے جائیں تو پھر کوئی بھی جتن کرلیں یہ قوم اپنی حرکت سے باز نہیں آسکتی ہے ، ہاتھ بڑھانے بلکہ ہاتھ چلانے میں اتنا پھرتیلا پن شاید ہی کبھی آپ نے دیکھا ہو جو چیز زیادہ خراب ہونے کا امکان ہے یہ بچے اسی طرف دست درازی کرتے ہیں مثلا ایک ہی دسترخوان پر شربت بھی ہے ، پپیتے بھی ہیں ، سیب بھی ہیں انگور بھی ہیں ، دہی بڑے بھی ہیں ، مٹھائیاں بھی ہیں ہر نعمت موجود ہے لیکن یہ قوم شربت کے جگ اور گلاس پر حملہ آور ہوگی کیونکہ اگر یہ شربت کا جگ گرانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر پورا دسترخوان برباد ہی سمجھو۔اس قوم کو کھانے سے زیادہ ضائع کرنے میں لطف آتا ہے ، اگر آپ کوئی چیز ان کے منہ تک لے جائیں تو کمال بے نیازی سے منہ پھیر لیں گے لیکن ہر چیز کو برباد کرنے کا یہ ٹھیکہ لئے رہتے ہیں۔ اب والدین کو اپنی اولاد سے محبت بھی کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے ورنہ مجھے خوب یاد ہے کہ عین افطار کے وقت میرے والد ماجد اور گھر کے بڑے ہم چھوٹے بچوں کو حکم دیتے تھے کہ چھت پر چلے جاؤ، اور ہم لوگ حکم کی تعمیل میں چھت سے یہ نظارہ کرتے تھے کہ نیچے گھر والے روٹی سبزی پر روزہ افطار کرتے تھے غربت بہت تھی یہی روٹی سبزی اس وقت مرغ مسلم سے کم نہ تھی اب تو اللہ کے فضل سے اتنی نعمتیں دسترخوان پر جمع ہوجاتی ہیں کہ لاتحصوہا کا مصداق ہوتی ہیں۔ چھوٹے بچے اب عموما شریک دسترخوان ہوتے ہیں مگر ان کی پسند میں تنوع نہیں ہوتاہے انھیں جو چیز پسند ہوتی ہے وہی کھائیں گے ، یہ ایسی چیز پسند کریں گے جو ان کے نزلہ یا کھانسی میں معاون ثابت ہوں مثلا سردی میں یہ بچے کیلے کھائیں گے ، شربت ، انار، سنگترے، تربوز سے شوق فرمائیں گے منع کرو تو رونا شروع کردیں گے ، گرمیوں میں یہ قوم انڈوں پر ٹوٹ پڑے گی۔سحری کے وقت جب ان کا سونا کسی نعمت سے کم نہیں یہ قوم بیدار ہونے کو اخلاقی فریضہ سمجھتی ہے۔ میرا ایک بچہ دن بھر سحری کانام سنتارہاتو کہنے لگا کہ میں بھی سحری کھاؤں گا چنانچہ اٹھا اور عام کھانا کھاتے دیکھ کر رونے لگا کہنے لگا کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا سحری کھاؤں گا ، بڑی مشکل سے اسے سمجھایا گیا کہ اسی کو سحری کہتے ہیں۔ کیا آپ کو افطار و سحر میں اس خوب صورت فسادی قوم کے خوب صورت فساد سے سابقہ پڑا ہے ۔؟

میری طالب علمی اور اخبار بینی (ناصرالدین مظاہری) طالب علمی کے زمانے میں کبھی اخبار خرید کر پڑھنے کی نوبت نہیں آتی تھی اخبار اسی وقت خریدتا تھا جب کسی اخبار میں میرا مضمون چھپتا تھا ، اب تو خیر کسی بھی اخبار میں کوئی مضمون چھپ جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن طالب علمی میں اخبار میں مضمون کا شائع ہوجانا کسی معراج سے کم نہ تھا ، اتنی خوشی ہوتی تھی کہ الفاظ اس خوشی کا منظر کھینچنے میں عاجز ہیں۔ میرے طالب علمی میں ویسے بھی اخبار کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا حضرت شیخ محمد زکریا کاندھلوی تو اخبار بینی کے سخت خلاف تھے شاید اخبار بینی کے نقصانات پر کتابچہ بھی ہے۔ ویسے میرے ایک استاذ تھے حضرت مفتی محمد امین بستوی مرحوم ، اخبار تو پڑھتے ہی تھے اس کا حق ادا کردیتے تھے ، حاشیے ، بین السطور ، کھیل کود حتی کہ مختلف ضمیمے بھی پڑھ لیتے تھے ، ان کے ہاتھوں میں اخبار پہنچنے کا مطلب تھا گھنٹوں کے لئے اخبار مصروف ہوگیا ۔ یوں سمجھو کہ آج کے موبائل کاکام اخبارات سے لیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اخبار خرید کر پڑھنے والے بہت کم تھے البتہ آج کے دور سے وہ دور بہترین تھا ، مطبخ مظاہر علوم وقف کے نیچے ایک چائے کی دکان تھی اس میں فیض الحسن نام کے ایک صاحب چائے بناتے تھے بہترین مطالعہ تھا اردو مصنفین اور ادیبوں کے بارے میں لاجواب گفتگو کرتے تھے، کئی اخبارات دکان پر منگواتے تھے ، مفت خور تو آپ نے دیکھے ہوں گے لیکن مفت خواں مجھ سے پوچھو، غربت کا زمانہ تھا لوگ کہاں اتنے پیسے خرچ کرتے ، سوچتا ہوں اپنی ایک حرکت کا تذکرہ کروں یا نا کروں پھر دل کہتاہے کردو کیا حرج ہے ،اصل میں جس دن اخبار میں مضمون چھپتا تو میں ہوٹل والے سے کہہ کر وہ صفحہ مغرب بعد مانگ لیتا تھا کیونکہ اب اس کے کام کا نہیں رہتا تھا۔ میرے مضمون لکھنے میں جن اخبارات ورسائل نے مہمیز کا کام کیا ہے ان میں سر فہرست ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم سہارنپور ، روزنامہ قومی آواز دہلی ، روزنامہ عوام دہلی ، روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی ، روزنامہ ہمارا سماج دہلی ، ہفت روزہ نئی دنیا نئی دہلی، ماہنامہ طلسماتی دنیا دیوبند ، روزنامہ سہارا دہلی ، ماہنامہ راہ بقا مرادآباد اور پندرہ روزہ فراسۃ المؤمن کانپور وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ فیض الحسن چائے والے مجھ سے بہت مانوس تھے انھیں میری دلچسپیوں کا بھی علم تھا اس لئے صرف اخبار پڑھنے کے لئے بھی ان کے ہوٹل چلا جاتا تھا۔فیض الحسن کو بہت سے شعراء کا کافی کلام بھی یاد تھا اتنے باذوق انسان کو چائے کی دکان پر دیکھ کر احساس وافسوس بھی ہوتا تھا۔ میرے مضامین اخبارات میں طالب علمی میں چھپنے لگے تھے یہاں تک کہ میں کچھ بھی لکھ کر بھیج دوں تو روزنامہ عوام میں ضرور چھپ جاتا تھا اب میری ایک شرارت بھی پڑھئے اور بچپن سمجھ کر درگزر بھی کیجیے: میرے حجرے کا ایک ساتھی سعید احمد لکھیم پوری تھا اس نے ایک دن اپنے سامان کی صفائی کی تو بہت سے پوسٹ کارڈ جو وقتا فوقتا اس کے گھر سے آئے ہوئے تھے اس نے یہ کارڈ بھی کباڑ کے ساتھ باہر ڈال دئے ، میں نے کارڈ دیکھ لئے اور ایک تاریخی شرارت سوجھی ، وہ کارڈ جو تعداد میں نو عدد تھے اٹھاکر مدرسہ کے پوسٹ آفس کے لیٹر بکس میں ڈال دئے۔ وہ ڈاک بڑے پوسٹ آفس پہنچی وہاں چھٹائی ہوکر پھر واپس مدرسہ مظاہرعلوم وقف پہنچ گئی، حافظ محمد ہاشم صاحب مرحوم پوسٹ مین تھے مطبخ میں داخل ہوتے ہی مخصوص آواز لگاتے اور طلبہ کا ہجوم لگ جاتا۔اس دن سعید لکھیم پوری اوپر ریلنگ سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اس کانام پکارا گیا تو یہ بھاگتے ہوئے نیچے پہنچا کارڈ لے کر واپس پلٹا تو پھر نام پکارا گیا،دوسرا کارڈ پاکر پھولے نہیں سمایا اور زینوں تک ہی پہنچا تھابکہ پھر سعید لکھیم پوری۔ آخرکار سات کارڈ لے کر سعید اوپر کمرہ نمبر گیارہ پہنچا اور کارڈ کی قراءت شروع کی ، پہلے کارڈ میں سیلاب کے آنے کی اطلاع تھی،اظہار تعجب کے ساتھ بولا ابے اس موسم میں سیلاب کہاں آتاہے۔دوسرا کارڈ پڑھالکھا تھا کہ تمہارے چچا زاد بھائی کی شادی ہوگئی ہے ۔سعید خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا کہ شادی کوتو ایک سال ہوچکا ہے یار۔ تیسرے کارڈ میں لکھا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے روپے بھیجنے میں دیر ہورہی ہے کہنے لگا یار یہ میرے ابا کا دماغ چل گیا ہے ، الٹی سیدھی باتیں لکھ رکھی ہیں۔خط پر خط پڑھتا رہا یہاں تک کہ اس کا ماتھا ٹھنکا ،ایک ساتھی کے بارے میں اسے گمان ہوا کہ اسی کی شرارت ہے اس سے جم کر لڑائی ہوئی۔اور میں خود اس لڑائی کو ختم کرانے میں دلچسپی لے رہا تھا۔(سعید دوست معاف کرنا یہ بچپن کی معصوم شرارتیں تھیں۔) ایک شرارت اور : میرے استاذ حضرت مولانا محمد یعقوب مظاہری صدر مدرس مظاہرعلوم وقف سہارنپور اخبار کے بڑے شوقین کے ، بلاناغہ اخبار منگواتے تھے۔میں نے ضرورت رشتہ کے عنوان سے سعید لکھیم پوری کے علم میں لائے بغیر ایک مضمون بنایا جس میں لکھا کہ محمد سعید بن یوسف ساکن برسنگھ پور لکھیم پور کھیری جو مظاہرعلوم وقف سہارنپور میں پڑھتا ہے کے لئے خوبصورت نیک سیرت پابند صوم و صلوٰۃ اٹھارہ سالہ لڑکی سے رشتہ مطلوب ہے ۔ یہ اشتہار بالکل مفت میں روزنامہ عوام میں شائع ہوا اور صبح صبح حضرت مولانا محمد یعقوب نے پڑھ لیا ۔اب سعید لکھیم پوری درسگاہ پہنچے ، مولانا نے حاضری لیتے وقت جب سعید کانام آیاتو کھڑے ہونے کاحکم دیا سعید کھڑا ہوگیا ، حضرت نے ضرورت رشتہ اشتہار پر سعید کی جم کر کلاس لی ، خوب ڈانٹا ، پھٹکارا اور سعید کایہ حال کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ۔ بعد میں سعید نے ہوٹل کے اخبار سے وہ اشتہار پھاڑ کر ہم لوگوں کو دکھایا اور کہا کہ یار یہ کون آدمی ہے جو میرے لئے ضرورت رشتہ کا اشتہار شائع کرارہایے۔میں نے کہا تمہارے ابا ہی ہوں گے کہنے لگا میرے ابا تو یہ سب کچھ جانتے ہی نہیں ہیں اور اگر انھیں پتہ لگ گیا تو میری کھال اتار دیں گے۔ بے چارہ سعید آج تک ان دونوں شرارتوں سے لاعلم ہے۔

*آہ !مولوی ضیاء اللہ مرحوم مرزاپوری* بڑے نیک تھے ، اللہ والے تھے ، شریف ایسے کہ پورا علاقہ آپ کی شرافت نفسی کی قسمیں کھاتا تھا ، مخلص ایسے کہ ایسے لوگ دنیا میں یا تو پیدا ہونا بند ہوگئے یا نظر آنا بند ہوگئے۔کبھی کسی کو غلط نہیں کہا ، کبھی کسی کے دو پیسے نہیں دبائے، کبھی کسی کو جسمانی یا زبانی تکلیف نہیں پہنچائی، کبھی کسی سے دشمنی نہیں ہوئی ، غیر بھی ان کے تقدس کی قسمیں کھاتے تھے ، اپنے بھی ان کے آگے پلکیں بچھاتے ہیں، ایمانی نور ان کے چہرے بشرے سے واضح تھا ، فرائض کی کیا بات کروں نوافل اور سنن کے اتنے پابند کہ مثال میں پیش کیا جائے۔عالم نہیں تھے لیکن نئے عالم ان سے کتراتے تھے، حافظ نہیں تھے لیکن حفاظ کو لقمہ دیتے تھے، مفتی نہیں تھے مگر فتاوی بکثرت یاد تھے، حکیم نہیں تھے لیکن حکمت کا خزانہ تھے، بردبار ایسے کہ بردباری ناز کرے، منکسرالمزاج ایسے کہ لوگ ان کی کسر نفسی کی مثالیں دیتے ہیں، حیادار، وفادار، وفاشعار، غمگسار، دل کے غنی لیکن تاحیات چھپر میں رہے ، غریب ایسے کہ لگتا تھا غربت کی انتہا ان ہی کی ذات پر ہوئی ہے، نادار ایسے کہ کبھی دو سوٹ شاید ہی میسر ہوئے ہوں، کرتا جو زیب تن کرتے تو کچھ نہ کچھ اس میں نقص اور کمی ہوتی تھی، ہمیشہ سستے چپل اور غیر معیاری کپڑے پہنتے تھے، میں نے سردی سے بچنے کے لئے گرم معیاری کپڑے ان کے جسم پر نہیں دیکھے بس ایک چادر تھی جو چلتے پھرتے اوڑھے رکھتے تھے ، بولتے ایسے کہ پھول جھڑتے تھے، ہنستے تو طبیعت خوش ہوجاتی، رقیق القلب ایسے کہ بات بات میں رونے لگتے تھے، ایک دفعہ تو خواب میں ہی اپنے انتقال ،حساب کتاب اور جنت تک پہنچ گئے۔ میرے والد ماجد کے دوست بھی تھے اور مسجد میں باری باری ترجمہ شیخ الہند اور تفسیر عثمانی پرھنے کا ایسا معمول کہ کبھی ناغہ نہیں کیا۔کم سخن نہ بسیار گو ، مرنجا مرنج، اللہ کی ذات پر یقین ایسا کہ ایک دفعہ ان کے پیروں میں برص یعنی سفید داغ کا مرض ہوگیا میں نے دیکھا تو اظہار رنج کیا مگر پھر چند ماہ بعد دیکھا تو پیروں میں داغ کے نام ونشان بھی نہیں۔ میں حیرت اور تجسس کے ساتھ پوچھ بیٹھا کہ مولوی صاحب وہ بیماری کہا گئی۔؟ کہنے لگے بھئی میرے پاس اتنے پیسے کہا ہیں بس قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر دم کرتا رہا اور الحمدللہ شفایاب ہوگیا۔آہ!مولوی ضیاء اللہ صاحب مرحوم (ناصرالدین مظاہری)

سنو سنو !! دشمن نے وہ کیا جو دوست نہ کرسکا (ناصرالدین مظاہری) جناب ڈاکٹر سید افضل حسین قاسمی مقیم حال بنگلور نے اپنے ایک واقف کا تذکرہ "مردِ قلندر، شیتل کمار مولانا محمد الیاس" کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں کیاہے ، اس مضمون میں مولانا الیاس کی جفاکشی، وفاکیشی، استغنا و بے نیازی، لندن کی ایک مسجد میں سادگی و عسرت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ " مولانا الیاس، 20 سال تک لندن کی ایک مسجد میں امام و خطیب کی حیثیت سے مسجد کے چھوٹے سے گھر میں 5 بچوں کے ساتھ گزارہ کر رہے تھے، حکومت کی طرف سے اچانک انکوائری آئی کہ آپ سات لوگ اس چھوٹے سے گھر میں کیسے اور کس مجبوری سے رہتے ہیں، مولانا نے انکوائری کا جواب جمع کردیا تو پھر ایک ٹیم سروے کرنے آئی اور رپورٹ بناکر چلی گئی، تھوڑے دنوں بعد ملکہء برطانیہ کی طرف سے لیٹر آیا کہ آپ کے لئے سات کمروں کا گھر میری طرف سے تعمیر کرکے فلاں علاقے میں فلاں تاریخ تک دے دیا جائے گا لہذا آپ فلاں تاریخ تک موجودہ گھر خالی کر کے اپنے نئے گھر میں منتقل ہو جائیں. مولانا کی اہلیہ کو ایک لیپ ٹاپ بھی دیا گیا کہ آپ اپنے گھر سے اس طرح کا کام کرکے کسبِ معاش میں اپنے شوہر کا تعاون کریں." سوچیں اور غور کریں ملکۂ برطانیہ مسلم نہیں عیسائی تھی، مولانا کسی گرجا یا کانونٹ سکول میں استاذ نہیں مسجد کے امام اور ملاجی تھے، ملک اسلامی نہیں عیسائی ہے، یعنی کسی بھی طرح دونوں مذہبوں اور دونوں لوگوں کا کوئی تعلق نہیں پھر بھی یہ انگریز انسانیت اور انسانی ہمدردی میں کس درجہ اور مرتبہ پر پہنچے ہوئے ہیں اور ہم کلمہ گو ،ایک اللہ ، ایک نبی ، ایک قبلہ ، ایک دین اور ایک شریعت کے ماننے والے مجال ہے جو اپنی مسجد کے امام کے لئے گھر کا نظم کردیں ، گھر تو چھوڑیں مسجد کی تعمیر میں بچاہوا اوٹ پٹانگ گوشہ جس میں تین گوشہ بھی ہوسکتے ہیں اور پانچ بھی ، لمبا زیادہ چوڑا کم ، اونچائی اتنی کہ چھت سے سر ٹکرائے، نہ کولر نہ اے سی ۔ٹیبل فین دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے امام عالی مقام کو بہت سہولت دے رکھی ہے۔ہر نمازی امام پر معترض، اب تو امام کی قراءت پر وہ بھی اعتراض کرنے لگے ہیں جنھیں سورہ فاتحہ بھی یاد نہیں ہے ، امام اگر دوچار بار سبحان ربی الاعلی زیادہ کہہ دے تو بھی اعتراض ٹھونک دیا جاتا ہے۔مسجدوں کا امام بننا فی زماننا نہایت مشکل ہوگیاہے ، اگر امام کے گھریلو مالی حالات بہترین ہیں تو اعتراضات بھی نہیں ہوتے ، امام غریب ہے تو "نزلہ بر عضو ضعیف"۔ اکثر مدارس والے اپنے اساتذہ کو کرایہ پر ہی سہی مکان دینے پر تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ مدرس چوبیس گھنٹے مدرسہ میں ہی پڑا رہے اس سوچ کے حامل منتظمین کل اللہ کے یہاں جواب دہ ضرور ہوں گے اور اگر اللہ تعالی نے پوچھ لیا کہ خود سات آٹھ گھنٹے مدرسہ میں گزارنا مشکل اور اساتذہ سے چوبیس گھنٹے کی خواہش ۔یہ کون سی شریعت ہے یہ کون سی طریقت ہے۔جسم کا بھی حق ہے ، بال بچوں کابھی حق ہے، حق کو مارنے والے کل اللہ کے حضور ان شاءاللہ ضرور مارے جائیں گے۔ خوب یاد رکھیں بدعنوان منتظم ، ظالم متولی اور چیرہ دست مہتمم کے کردار سے بہتر تو ملکۂ برطانیہ کا کردار ہے جس کو نہ مسجد سے کوئی تعلق ، نہ نماز روزے سے لینا دینا پھر بھی اللہ کے گھر میں اللہ کی عبادت کرنے اور نماز پڑھانے والے امام کو مکان بناکر مالک بنارہی ہے۔کیا یہ چیز ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی دعوت نہیں نہیں دیتی؟ کیا ہماری آنکھوں کا پانی خشک ہوچکاہے؟کیا برائے نام بھی خوف خدا باقی نہیں رہا؟ (چوبیس شعبان المعظم چودہ سو چھیالیس ہجری)

سنو سنو !! کرایہ کی گاڑی (ناصرالدین مظاہری) اگر آپ کرایہ کی گاڑی سے کہیں بھی آنا جانا چاہتے ہیں تو اس کے دو طریقے ہیں۔ 1 یاتو آپ مجموعی طور پر طے کرلیں کہ مجھے فلاں جگہ جانا ہے جس کی مسافت تقریبا اتنے کلو میٹر ہے کرایہ کیا لوگے؟ 2 یا ڈرائیور کی اجرت کے علاوہ کلو میٹر کے اعتبار سے کرایہ طے کرلیں اس میں ڈرائیور آپ کو مسافت کے اعتبار سے تیل کا خرچ بتائے گا مثلا دس کلو میٹر پر ایک لیٹر تیل یا پیٹرول خرچ ہوتا ہے آپ گاڑی کے میٹر پر نظر ڈالیں تو آپ کو خود بھی پتہ چل جائے گا کہ اس وقت گاڑی کتنا تیل کتنی مسافت میں خرچ کرلیتی ہے۔ ڈرائیور اپنی دن بھر کی مزدوری عموما ایک ہزار روپے طے کرتا ہے تیل اس کے علاوہ ہوتا ہے اسی میں گاڑی کا صرفہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر راستے میں ٹول پلازہ واقع ہو تو ڈرائیور اس کی قیمت بھی آپ سے ہی لے گا اپنی جیب سے نہیں دے گا۔ بات ایک ہی ہے اگر آپ نے خرچ کم کرانا چاہا تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ٹول پلازہ پر ادائیگی آپ کو کرنی ہے۔ اس سلسلہ میں کئی ایک باتیں دھیان رکھنے کی ہیں جس کے لئے ایک واقعہ سناکر بات آگے بڑھاتا ہوں اس واقعہ سے آپ بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ مجھے دہرہ دون ایئرپورٹ جانا اور آنا تھا اجرت تین ہزار روپے بتائی گئی ، میں نے کہا کہ واپسی کا تقاضا مت کرنا کیونکہ میں رات بارہ بجے تک کی اجرت دے رہاہوں رات بارہ بجے کے بعد اگر میں دو ایک گھنٹہ دیر کروں تو آپ کو اپنی مزدوری بڑھانے اور ڈبل کرنے کا اختیار ہوگا اس کے علاوہ اگر میں طے شدہ راستے کے علاوہ کہیں اور جانا چاہوں تو اضافی تیل کی قیمت دینا میرا اخلاقی فرض ہوگا۔بات طے ہوگئی ، واپسی جلد ہوگئی ، گورکھپور کے کچھ مہمان میرے ساتھ تھے ، انھوں نے کہا کہ ہم لوگ اسی گاڑی سے دیوبند ہوکر آجائیں؟ میں نے کہا قاعدے کے مطابق دیوبند آنے جانے میں جو تیل لگے گا اس کے روپے ادا کرنے ہوں گے وہ مہمان اس پر تیار تھے لیکن سہارنپور پہنچ کر ڈرائیور نے دیوبند جانے سے صاف منع کردیا۔میں نے بڑے پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کی سمجھ میں آنا ہی نہیں تھا اس لئے میں نے کہا کہ دیکھ بھائی میری بات رات بارہ بجے تک کی ہوچکی ہے تم گاڑی یہاں کھڑی کردو ، چابی میرے حوالہ کردو ، رات بارہ بجے سے پہلے اپنی گاڑی واپس لے جانا اور ہاں کلو میٹر بھی چیک کرلو تاکہ بعد میں الزام نہ دے سکو کہ میں نے گاڑی استعمال کی ہے۔ میں نے گاڑی کھڑی کرادی ، چابی لے لی ، ڈرائیور چلاگیا ، تھوڑی دیر میں ایک واقف کار ڈرائیور کا فون آیا کہ اجی حضرت گاڑی دیدو ضرورت ہے ۔میں نے کہا کہ رات بارہ بجے لے جانا ، کیونکہ ضابطہ کے مطابق رات بارہ بجے تک بکنگ میری ہے۔وہ منت سماجت کرنے لگا ، میں نے کہا کہ منت سماجت سے بہترہے کہ ہمارے مہمانوں کو دیوبند لے کر چلے جاؤ یہ عشاء سے پہلے واپس آجائیں گے۔وہ اس پر تیار نہیں ہوا ، تو میں نے کہا کہ پھر ایک کام کرو میں نے ڈرائیور کو پورے دن کی مزدوری دے رکھی ہے اور ابھی آدھا دن بھی نہیں ہوا ہے اس لئے آدھے دن کی مزدوری مجھے واپس کردو گاڑی لے جاؤ۔چنانچہ اس نے آدھے دن کی مزدوری واپس کی اور گاڑی لے گیا۔ اس واقعہ میں گاڑی کرایہ پر لینے کا اصول بھی موجود ہے اور بے اصولی کی صورت میں ضابطہ بھی کہ اخلاق یک طرفہ نہیں چلتا ہے ، بداخلاق کے ساتھ حسن اخلاق کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ اس کی بداخلاقی کی جڑوں میں پانی ڈال کر مزید قوت اور نمو پہنچاریے ہیں۔ یہ قوم آپ کو آلو سمجھے اور آپ آلو بنتے رہیں اس سے بہترہے کہ آپ اصولی گفتگو کریں ، پہلے ہی طے کرلیں ، طے شدہ نظام کی خلاف ورزی نہ آپ کریں نہ وہ کرے ، جو بھی خلاف ورزی کرے گا قصور اسی کا ہوگا۔ ڈرائیور کے کھانے کی ذمہ داری بھی آپ کی نہیں ہے اس کو تو آپ نے ایک ہزار روپے اجرت کے دے رکھے ہیں نہیں دئے ہیں تو دینے ہی ہیں اس لئے اگر آپ نے کھانا کھلادیا ہے تو یہ آپ کا حسن اخلاق ہے اگر کھلانے کا کوئی نظام نہیں ہے تو صاف بتادیں تاکہ وہ خود نظم کرلے۔ ویسے تقریبا تمام ڈرائیور اپنی طرف سے آپ کے لئے کوئی ایسا برتاؤ نہیں کریں گے کہ آپ خوش ہو جائیں البتہ ایسا کرسکتے ہیں بلکہ کرتے ہی رہتے ہیں کہ آپ ناخوش ہوجائیں۔ مثال کے طور پر میں نے ایک دن ایک ڈرائیور سے کہا کہ مجھے مظاہرعلوم مت پہنچاؤ یہیں راستے میں تمہارا گھر ہے اس لئے اپنے گھر چلے جاؤ میں ای رکشہ سے چلاجاؤں گا۔اس واقعہ کے بہت دن بعد اسی ڈرائیور سے ایک دفعہ کہا کہ مجھے مانک محو(شہر سہارنپور کا ایک محلہ) پہنچاکر چلے جانا تو وہ کہنے لگا کہ اجی پانچ چھ کلو میٹر میرا تیل زیادہ لگ جائے گا ۔میں نے کہا کہ بھئی ! تمہاری یاد داشت بہت کمزور ہے میں نے فلاں موقع پر تمہارے ساتھ رعایت کی تھی اور آج تم کو تیل دکھائی دے رہاہے۔بہرحال تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے ، اخلاق یک طرفہ نہیں ہونا چاہئے ، ہدایا اور تحائف بھی ہمیشہ یک طرفہ نہیں چلتے ، یک طرفہ ہدایا اور تحائف کا سلسلہ بہت جلد ٹوٹ جاتا ہے، ہروقت کی نرمی نقصان کا باعث ہوتی ہے ۔ وقتے بلطف گوی و مدارا و مردمی باشد که در کمند قبول آوری دلے وقتی بقهر گوی که صد کوزۂ نبات گه گه چنان بکار نیاید که حنظلے مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی نرمی اور پیارکا معاملہ کرو تاکہ دلوں پر قبضہ کرسکو اور کبھی کبھی غصہ اور اصول پرستی کا مظاہرہ کرو کیونکہ کبھی کبھی شیرینی کے سو پیالے وہ کام نہیں کرتے تو ایلوے (کڑوا پھل) کا ایک پھل کردیتا ہے۔ ڈرائیوروں کو کبھی بھی چلنے کا صحیح وقت مت بتائیں کیونکہ یہ عموما وقت پر نہیں پہنچتے ، یہ ہوتے دیوبند میں ہیں اور کہتے ہیں ناگل پہنچ گیا ہوں ان کو ہمیشہ چلنے سے آدھا گھنٹہ کم ازکم پہلے آنے کو بولیں تاکہ آپ کو انتظار کی کوفت اٹھانی نہ پڑے۔ مجھے ایک دفعہ شاملی جانا تھا میں نے دو گاڑی والوں کو فون کیا اور دونوں سے بتا بھی دیا کہ میں نے فلاں گاڑی والے کو بھی کہہ رکھاہے اب تم دونوں میں سے جو وقت پر آئے گا اسی کے ساتھ جاؤں گا۔ چنانچہ ایک وقت پر آگیا میں چلاگیا ، دوسرے کافون آیا کہ گاڑی کہاں لگانی ہے ؟ میں نے کہا گھڑی دیکھو کتنی دیر میں پہنچے ہو کہنے لگا پندرہ منٹ ، میں نے کہا کہ میں تو پندرہ منٹ پہلے نکل چکایوں ، آئیندہ وقت پر آنا۔ یہ تلخ تجربات اس لئے لکھنے پڑے تاکہ آپ حضرات کو بھی بغیر کسی تجربہ کے تجربہ ہو جائے، دوسروں کے تجربات سے سیکھنا ہی دانشمندی ہے۔ ایک بات اور اگر آپ کسی کی دعوت پر کہیں بھی جارہے ہیں تو گاڑی کا کرایہ جو بھی طے ہوا ہے داعی کو پہلے ہی اطلاع ضرور دیدیں تاکہ انھیں آسانی ہو اور آپ پریشانی سے بچ سکیں۔میں عموما کرایہ براہ راست ڈرائیور کو دلواتا ہوں اس میں مجھے بڑی عافیت رہتی ہے۔ (سولہ شعبان المعظم چودہ سو چھیالیس ھجری)

سنو سنو!! ختم سحر اور وقت افطار (ناصرالدین مظاہری) رمضان المبارک 1446کی آمد آمد ہے ، سہارنپور، دہلی ، میرٹھ ، مرادآباد ، رام پور پورے مغربی یوپی میں رمضان کی بہار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ہر نماز میں ہر مسجد تقریبا بھرجاتی ہے ، بڑا روح پرور ماحول ہوتاہے ، دن بھر مسلم ہوٹل بند رہتے ہیں شام ہوتے ہوتے کھانے پینے کے ہوٹلوں میں افطاری کا سامان بننا اور بکنا شروع ہوجاتا ہے ، چاروں طرف رونق ہی رونق ہوتی ہے ، جامع مسجد اور مظاہرعلوم وقف میں سائرن بجتایے اور لوگ روزہ افطار کرکے مسجد کی طرف لپکتے ہیں۔ مشرقی یوپی کے اکثر اضلاع میں مسلم تناسب بہت کم ہے اس لئے ایسی جگہوں پر رونقیں بھی کم ہوتی ہیں۔ آج افطار و سحر کے سلسلہ میں چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ عام طور پر تمام مدارس والے نقشہ سحر وافطار چھاپتے ہیں ، کوئی دوامی جنتری سے نقشہ بناتاہے تو کوئی رحیمی دائمی جنتری سے ، ظاہر ہے دونوں میں معمولی فرق بھی ہے ، بعض لوگ افطار میں پانچ منٹ کی احتیاط پیش نظر رکھتے ہیں اور سحر میں دس منٹ ،جب کہ مظاہرعلوم وقف میں معمول بہ رحیمی دائمی جنتری ہے ، یہاں افطار میں تین منٹ اور سحر میں پانچ منٹ کی احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ اب سنئے مظاہرعلوم وقف والے وقت افطار نہیں لکھتے بلکہ غروب آفتاب لکھتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ غروب آفتاب کے وقت سے تین منٹ بعد افطار شروع کریں جب کہ ختم سحر نہیں لکھتے بلکہ شروع وقت فجر لکھتے ہیں۔نام سے ہی ظاہر ہے کہ شروع وقت فجر سے پانچ منٹ پہلے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیں ورنہ روزہ ہی مشکوک ہوسکتاہے۔ جو لوگ شروع وقت فجر کی جگہ ختم سحر لکھتے ہیں وہ اندازہ کریں کس قدر لوگوں کے روزے خراب ہونے کاسبب بنتے ہوں گے۔العیاذ باللہ پہلے گھڑیوں میں تفاوت بھی ہوتا تھا اسی لئے مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی مسجد کلثومیہ میں نماز عیدالفطر و عیدالاضحیٰ کا جو وقت لکھاجاتا ہے اس میں اب بھی یہ صراحت ہوتی ہے کہ "مدرسہ کی گھڑی کے حساب سے" ممکن ہے کبھی ایسا ہوا ہو کہ نماز میں گھڑیوں کی وجہ سے تقدیم و تاخیر ہوگئی ہو اس کے بعد سے مدرسہ نے یہ قید بڑھائی ہو تاکہ اشکال و اعتراض کی نوبت ہی نہ آئے۔ میں نے دیکھاہے کہ بعض لوگ ختم سحر کا اعلان شروع ہونے پر جلدی جلدی پانی یا حقہ بیڑی کے کش لگانا شروع کردیتے ہیں یہ طریقہ بھی غلط ہے یہ ساری چیزیں آپ پہلے بھی کرسکتے ہیں کیا ضرورت ہے روزے کو مشکوک کرنے کی۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب حدیث شریف میں افطار میں جلدی کاحکم ہے تو احتیاط کی کیا ضرورت ہے جواب یہ ہے کہ افطار میں جلدی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سورج پورے طور پر غروب بھی نہ ہوا اور آپ شروع ہوگئے۔ احتیاظ کا مطلب تاخیر ہرگز نہیں ہے اور تین منٹ کی احتیاط کو تاخیر کہا بھی نہیں جاسکتا ہے اسی طرح سحر میں احتیاط بھی بہت ضروری ہے اس سلسلہ میں حضرت انس کا ارشاد ہے کہ: "تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قام إلى الصلاة، قلت: كم كان بين الأذان والسحور؟ قال: قدر خمسين آية" رواه البخاري. یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کی پھر نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔سائل نے پوچھاکہ سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا تو فرمایا پچاس آیات کی تلاوت کے بقدر۔ بہرحال میں گزارش کروں گا کہ تمام چھوٹے بڑے مدارس اپنا ٹائم ٹیبل دارالعلوم مظاہرعلوم کے ٹائم ٹیبل کے مطابق رکھیں تو بہترہے ان ہی کو اپنا معیار بنائیں جس طرح دیگر تمام چیزوں میں آپ ان کی اقتدا کرتے ہیں اس سلسلہ میں بھی کریں۔ ختم سحر اور وقت افطار کا عنوان بدل کر شروع وقت فجر اور غروب آفتاب لکھنا شروع کریں۔ اپنی جنتریوں میں وقت عشاء اور طلوعِ آفتاب کا کالم بھی رکھیں کیونکہ بہت زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ مختلف شیروں کے نام لکھ کر منٹ گھٹائیں یا منٹ بڑھائیں یہ طریقہ اب ختم کردیں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ افطار کے وقت بیٹھ کر منٹ گھٹاتا پھرے یا منٹ بڑھاتا پھرے۔ مختلف جنتریوں کی بجائے آکابر علماء و مفتیان کی پسند فرمودہ اور اعتماد فرمودہ جنتری ہی استعمال کریں۔ طول البلد اور عرض البلد کو خوب سمجھ لیں تاکہ اس سلسلہ میں غلظی کا امکان نہ رہے۔ مروج کمپیوٹرائز جنتریاں ، موبائل گھڑیاں یکساں ہوتی ہیں اس لئے ہاتھ کی گھڑی پر اعتماد سے بہترہے کہ اب موبائل والی گھڑی پر اعتماد کریں۔ (بارہ شعبان المعظم چودہ سو چھیالیس ہجری)

دوران سفر حج وعمرہ ہماری غلطیاں (ناصرالدین مظاہری) حج یا عمرہ کے لئے جاتے وقت گلے میں پھولوں یا روپیوں کا ہار ڈالنا جائز نہیں ہے۔ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ پہنچنے پر دم واجب ہوجاتا ہے ہاں البتہ اگر دوبارہ کسی میقات پہنچ کر احرام باندھ کر لوٹ آتا ہے تو دم معاف ہوجاتا ہے۔ خواتین اور مرد دونوں پردے کا اہتمام کریں یعنی نامحرموں کو نہ دیکھیں۔ جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی معذورکواجازت ہے غیرمعذورکی نماز نہیں ہوتی ہے۔ احرام کی نیت کرنے سے پہلے والی دو رکعت سر ڈھانپ کر پڑھنی چاہئیں سر کھول کرنہیں۔ حالت احرام میں نماز کے وقت کندھا کھولنا مکروہ ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا صرف سنت ہے اور مسلمان بھائی کو تکلیف دینا حرام ہے۔ حالت احرام میں حجر اسود کو بوسہ نہ دیں کیونکہ حجر اسود پر عموما عطر لگایا جاتا ہے۔ دوران طواف بیت اللہ کی طرف منہ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔البتہ حجر اسود کے استلام کے وقت بیت اللہ کی طرف منہ کرنا جائز ہے۔ طواف میں مردو زن کا اختلاط ہوتا ہے اپنے آپ کو نامحرم مردوں اور نامحرم عورتوں سے دور رکھیں۔ رکن یمانی کو استلام کرنا غلط ہے البتہ ہاتھ لگانے کاحکم ہے لیکن یہاں بھی حجراسود کی طرح بہت عطر لگایا جاتا ہے اس لئے حالت حرام میں ہاتھ بھی نہ لگائیں۔ مقام ابراہیم کو نہ استلام کریں نہ بوسہ دیں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم کی طرف دو رکعت نماز ایسی جگہ پڑھیں جہاں عورتیں نہ ہوں یا وہاں مرد نہ ہوں نماز کے دوران اختلاط جائز نہیں ہے۔ نفلی سعی مشروع نہیں ہے البتہ طواف خوب کریں۔ جبل رحمت یا جبل ثور ، یا جبل حراء پر چڑھنا باعث ثواب نہیں ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے ندائے شاہی کا حج وزیارت نمبر مطالعہ فرمائیں)