
ناصرالدین مظاہری
February 14, 2025 at 07:30 PM
سنو سنو !!
کرایہ کی گاڑی
(ناصرالدین مظاہری)
اگر آپ کرایہ کی گاڑی سے کہیں بھی آنا جانا چاہتے ہیں تو اس کے دو طریقے ہیں۔
1 یاتو آپ مجموعی طور پر طے کرلیں کہ مجھے فلاں جگہ جانا ہے جس کی مسافت تقریبا اتنے کلو میٹر ہے کرایہ کیا لوگے؟
2 یا ڈرائیور کی اجرت کے علاوہ کلو میٹر کے اعتبار سے کرایہ طے کرلیں اس میں ڈرائیور آپ کو مسافت کے اعتبار سے تیل کا خرچ بتائے گا مثلا دس کلو میٹر پر ایک لیٹر تیل یا پیٹرول خرچ ہوتا ہے آپ گاڑی کے میٹر پر نظر ڈالیں تو آپ کو خود بھی پتہ چل جائے گا کہ اس وقت گاڑی کتنا تیل کتنی مسافت میں خرچ کرلیتی ہے۔
ڈرائیور اپنی دن بھر کی مزدوری عموما ایک ہزار روپے طے کرتا ہے تیل اس کے علاوہ ہوتا ہے اسی میں گاڑی کا صرفہ بھی شامل ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر راستے میں ٹول پلازہ واقع ہو تو ڈرائیور اس کی قیمت بھی آپ سے ہی لے گا اپنی جیب سے نہیں دے گا۔ بات ایک ہی ہے اگر آپ نے خرچ کم کرانا چاہا تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ٹول پلازہ پر ادائیگی آپ کو کرنی ہے۔
اس سلسلہ میں کئی ایک باتیں دھیان رکھنے کی ہیں جس کے لئے ایک واقعہ سناکر بات آگے بڑھاتا ہوں اس واقعہ سے آپ بہت کچھ جان سکتے ہیں۔
مجھے دہرہ دون ایئرپورٹ جانا اور آنا تھا اجرت تین ہزار روپے بتائی گئی ، میں نے کہا کہ واپسی کا تقاضا مت کرنا کیونکہ میں رات بارہ بجے تک کی اجرت دے رہاہوں رات بارہ بجے کے بعد اگر میں دو ایک گھنٹہ دیر کروں تو آپ کو اپنی مزدوری بڑھانے اور ڈبل کرنے کا اختیار ہوگا اس کے علاوہ اگر میں طے شدہ راستے کے علاوہ کہیں اور جانا چاہوں تو اضافی تیل کی قیمت دینا میرا اخلاقی فرض ہوگا۔بات طے ہوگئی ، واپسی جلد ہوگئی ، گورکھپور کے کچھ مہمان میرے ساتھ تھے ، انھوں نے کہا کہ ہم لوگ اسی گاڑی سے دیوبند ہوکر آجائیں؟ میں نے کہا قاعدے کے مطابق دیوبند آنے جانے میں جو تیل لگے گا اس کے روپے ادا کرنے ہوں گے وہ مہمان اس پر تیار تھے لیکن سہارنپور پہنچ کر ڈرائیور نے دیوبند جانے سے صاف منع کردیا۔میں نے بڑے پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کی سمجھ میں آنا ہی نہیں تھا اس لئے میں نے کہا کہ دیکھ بھائی میری بات رات بارہ بجے تک کی ہوچکی ہے تم گاڑی یہاں کھڑی کردو ، چابی میرے حوالہ کردو ، رات بارہ بجے سے پہلے اپنی گاڑی واپس لے جانا اور ہاں کلو میٹر بھی چیک کرلو تاکہ بعد میں الزام نہ دے سکو کہ میں نے گاڑی استعمال کی ہے۔
میں نے گاڑی کھڑی کرادی ، چابی لے لی ، ڈرائیور چلاگیا ، تھوڑی دیر میں ایک واقف کار ڈرائیور کا فون آیا کہ اجی حضرت گاڑی دیدو ضرورت ہے ۔میں نے کہا کہ رات بارہ بجے لے جانا ، کیونکہ ضابطہ کے مطابق رات بارہ بجے تک بکنگ میری ہے۔وہ منت سماجت کرنے لگا ، میں نے کہا کہ منت سماجت سے بہترہے کہ ہمارے مہمانوں کو دیوبند لے کر چلے جاؤ یہ عشاء سے پہلے واپس آجائیں گے۔وہ اس پر تیار نہیں ہوا ، تو میں نے کہا کہ پھر ایک کام کرو میں نے ڈرائیور کو پورے دن کی مزدوری دے رکھی ہے اور ابھی آدھا دن بھی نہیں ہوا ہے اس لئے آدھے دن کی مزدوری مجھے واپس کردو گاڑی لے جاؤ۔چنانچہ اس نے آدھے دن کی مزدوری واپس کی اور گاڑی لے گیا۔
اس واقعہ میں گاڑی کرایہ پر لینے کا اصول بھی موجود ہے اور بے اصولی کی صورت میں ضابطہ بھی کہ اخلاق یک طرفہ نہیں چلتا ہے ، بداخلاق کے ساتھ حسن اخلاق کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ اس کی بداخلاقی کی جڑوں میں پانی ڈال کر مزید قوت اور نمو پہنچاریے ہیں۔
یہ قوم آپ کو آلو سمجھے اور آپ آلو بنتے رہیں اس سے بہترہے کہ آپ اصولی گفتگو کریں ، پہلے ہی طے کرلیں ، طے شدہ نظام کی خلاف ورزی نہ آپ کریں نہ وہ کرے ، جو بھی خلاف ورزی کرے گا قصور اسی کا ہوگا۔
ڈرائیور کے کھانے کی ذمہ داری بھی آپ کی نہیں ہے اس کو تو آپ نے ایک ہزار روپے اجرت کے دے رکھے ہیں نہیں دئے ہیں تو دینے ہی ہیں اس لئے اگر آپ نے کھانا کھلادیا ہے تو یہ آپ کا حسن اخلاق ہے اگر کھلانے کا کوئی نظام نہیں ہے تو صاف بتادیں تاکہ وہ خود نظم کرلے۔
ویسے تقریبا تمام ڈرائیور اپنی طرف سے آپ کے لئے کوئی ایسا برتاؤ نہیں کریں گے کہ آپ خوش ہو جائیں البتہ ایسا کرسکتے ہیں بلکہ کرتے ہی رہتے ہیں کہ آپ ناخوش ہوجائیں۔ مثال کے طور پر میں نے ایک دن ایک ڈرائیور سے کہا کہ مجھے مظاہرعلوم مت پہنچاؤ یہیں راستے میں تمہارا گھر ہے اس لئے اپنے گھر چلے جاؤ میں ای رکشہ سے چلاجاؤں گا۔اس واقعہ کے بہت دن بعد اسی ڈرائیور سے ایک دفعہ کہا کہ مجھے مانک محو(شہر سہارنپور کا ایک محلہ) پہنچاکر چلے جانا تو وہ کہنے لگا کہ اجی پانچ چھ کلو میٹر میرا تیل زیادہ لگ جائے گا ۔میں نے کہا کہ بھئی ! تمہاری یاد داشت بہت کمزور ہے میں نے فلاں موقع پر تمہارے ساتھ رعایت کی تھی اور آج تم کو تیل دکھائی دے رہاہے۔بہرحال تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے ، اخلاق یک طرفہ نہیں ہونا چاہئے ، ہدایا اور تحائف بھی ہمیشہ یک طرفہ نہیں چلتے ، یک طرفہ ہدایا اور تحائف کا سلسلہ بہت جلد ٹوٹ جاتا ہے، ہروقت کی نرمی نقصان کا باعث ہوتی ہے ۔
وقتے بلطف گوی و مدارا و مردمی
باشد که در کمند قبول آوری دلے
وقتی بقهر گوی که صد کوزۂ نبات
گه گه چنان بکار نیاید که حنظلے
مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی نرمی اور پیارکا معاملہ کرو تاکہ دلوں پر قبضہ کرسکو اور کبھی کبھی غصہ اور اصول پرستی کا مظاہرہ کرو کیونکہ کبھی کبھی شیرینی کے سو پیالے وہ کام نہیں کرتے تو ایلوے (کڑوا پھل) کا ایک پھل کردیتا ہے۔
ڈرائیوروں کو کبھی بھی چلنے کا صحیح وقت مت بتائیں کیونکہ یہ عموما وقت پر نہیں پہنچتے ، یہ ہوتے دیوبند میں ہیں اور کہتے ہیں ناگل پہنچ گیا ہوں ان کو ہمیشہ چلنے سے آدھا گھنٹہ کم ازکم پہلے آنے کو بولیں تاکہ آپ کو انتظار کی کوفت اٹھانی نہ پڑے۔
مجھے ایک دفعہ شاملی جانا تھا میں نے دو گاڑی والوں کو فون کیا اور دونوں سے بتا بھی دیا کہ میں نے فلاں گاڑی والے کو بھی کہہ رکھاہے اب تم دونوں میں سے جو وقت پر آئے گا اسی کے ساتھ جاؤں گا۔
چنانچہ ایک وقت پر آگیا میں چلاگیا ، دوسرے کافون آیا کہ گاڑی کہاں لگانی ہے ؟ میں نے کہا گھڑی دیکھو کتنی دیر میں پہنچے ہو کہنے لگا پندرہ منٹ ، میں نے کہا کہ میں تو پندرہ منٹ پہلے نکل چکایوں ، آئیندہ وقت پر آنا۔
یہ تلخ تجربات اس لئے لکھنے پڑے تاکہ آپ حضرات کو بھی بغیر کسی تجربہ کے تجربہ ہو جائے، دوسروں کے تجربات سے سیکھنا ہی دانشمندی ہے۔
ایک بات اور اگر آپ کسی کی دعوت پر کہیں بھی جارہے ہیں تو گاڑی کا کرایہ جو بھی طے ہوا ہے داعی کو پہلے ہی اطلاع ضرور دیدیں تاکہ انھیں آسانی ہو اور آپ پریشانی سے بچ سکیں۔میں عموما کرایہ براہ راست ڈرائیور کو دلواتا ہوں اس میں مجھے بڑی عافیت رہتی ہے۔
(سولہ شعبان المعظم چودہ سو چھیالیس ھجری)
❤️
👍
💖
😢
11