
ناصرالدین مظاہری
February 19, 2025 at 08:01 PM
میری طالب علمی اور اخبار بینی
(ناصرالدین مظاہری)
طالب علمی کے زمانے میں کبھی اخبار خرید کر پڑھنے کی نوبت نہیں آتی تھی اخبار اسی وقت خریدتا تھا جب کسی اخبار میں میرا مضمون چھپتا تھا ، اب تو خیر کسی بھی اخبار میں کوئی مضمون چھپ جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن طالب علمی میں اخبار میں مضمون کا شائع ہوجانا کسی معراج سے کم نہ تھا ، اتنی خوشی ہوتی تھی کہ الفاظ اس خوشی کا منظر کھینچنے میں عاجز ہیں۔
میرے طالب علمی میں ویسے بھی اخبار کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا حضرت شیخ محمد زکریا کاندھلوی تو اخبار بینی کے سخت خلاف تھے شاید اخبار بینی کے نقصانات پر کتابچہ بھی ہے۔
ویسے میرے ایک استاذ تھے حضرت مفتی محمد امین بستوی مرحوم ، اخبار تو پڑھتے ہی تھے اس کا حق ادا کردیتے تھے ، حاشیے ، بین السطور ، کھیل کود حتی کہ مختلف ضمیمے بھی پڑھ لیتے تھے ، ان کے ہاتھوں میں اخبار پہنچنے کا مطلب تھا گھنٹوں کے لئے اخبار مصروف ہوگیا ۔ یوں سمجھو کہ آج کے موبائل کاکام اخبارات سے لیا جاتا تھا۔
اس زمانے میں اخبار خرید کر پڑھنے والے بہت کم تھے البتہ آج کے دور سے وہ دور بہترین تھا ، مطبخ مظاہر علوم وقف کے نیچے ایک چائے کی دکان تھی اس میں فیض الحسن نام کے ایک صاحب چائے بناتے تھے بہترین مطالعہ تھا اردو مصنفین اور ادیبوں کے بارے میں لاجواب گفتگو کرتے تھے، کئی اخبارات دکان پر منگواتے تھے ، مفت خور تو آپ نے دیکھے ہوں گے لیکن مفت خواں مجھ سے پوچھو، غربت کا زمانہ تھا لوگ کہاں اتنے پیسے خرچ کرتے ، سوچتا ہوں اپنی ایک حرکت کا تذکرہ کروں یا نا کروں پھر دل کہتاہے کردو کیا حرج ہے ،اصل میں جس دن اخبار میں مضمون چھپتا تو میں ہوٹل والے سے کہہ کر وہ صفحہ مغرب بعد مانگ لیتا تھا کیونکہ اب اس کے کام کا نہیں رہتا تھا۔
میرے مضمون لکھنے میں جن اخبارات ورسائل نے مہمیز کا کام کیا ہے ان میں سر فہرست ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم سہارنپور ، روزنامہ قومی آواز دہلی ، روزنامہ عوام دہلی ، روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی ، روزنامہ ہمارا سماج دہلی ، ہفت روزہ نئی دنیا نئی دہلی، ماہنامہ طلسماتی دنیا دیوبند ، روزنامہ سہارا دہلی ، ماہنامہ راہ بقا مرادآباد اور پندرہ روزہ فراسۃ المؤمن کانپور وغیرہ لائق ذکر ہیں۔
فیض الحسن چائے والے مجھ سے بہت مانوس تھے انھیں میری دلچسپیوں کا بھی علم تھا اس لئے صرف اخبار پڑھنے کے لئے بھی ان کے ہوٹل چلا جاتا تھا۔فیض الحسن کو بہت سے شعراء کا کافی کلام بھی یاد تھا اتنے باذوق انسان کو چائے کی دکان پر دیکھ کر احساس وافسوس بھی ہوتا تھا۔
میرے مضامین اخبارات میں طالب علمی میں چھپنے لگے تھے یہاں تک کہ میں کچھ بھی لکھ کر بھیج دوں تو روزنامہ عوام میں ضرور چھپ جاتا تھا اب میری ایک شرارت بھی پڑھئے اور بچپن سمجھ کر درگزر بھی کیجیے:
میرے حجرے کا ایک ساتھی سعید احمد لکھیم پوری تھا اس نے ایک دن اپنے سامان کی صفائی کی تو بہت سے پوسٹ کارڈ جو وقتا فوقتا اس کے گھر سے آئے ہوئے تھے اس نے یہ کارڈ بھی کباڑ کے ساتھ باہر ڈال دئے ، میں نے کارڈ دیکھ لئے اور ایک تاریخی شرارت سوجھی ، وہ کارڈ جو تعداد میں نو عدد تھے اٹھاکر مدرسہ کے پوسٹ آفس کے لیٹر بکس میں ڈال دئے۔
وہ ڈاک بڑے پوسٹ آفس پہنچی وہاں چھٹائی ہوکر پھر واپس مدرسہ مظاہرعلوم وقف پہنچ گئی، حافظ محمد ہاشم صاحب مرحوم پوسٹ مین تھے مطبخ میں داخل ہوتے ہی مخصوص آواز لگاتے اور طلبہ کا ہجوم لگ جاتا۔اس دن سعید لکھیم پوری اوپر ریلنگ سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اس کانام پکارا گیا تو یہ بھاگتے ہوئے نیچے پہنچا کارڈ لے کر واپس پلٹا تو پھر نام پکارا گیا،دوسرا کارڈ پاکر پھولے نہیں سمایا اور زینوں تک ہی پہنچا تھابکہ پھر سعید لکھیم پوری۔ آخرکار سات کارڈ لے کر سعید اوپر کمرہ نمبر گیارہ پہنچا اور کارڈ کی قراءت شروع کی ، پہلے کارڈ میں سیلاب کے آنے کی اطلاع تھی،اظہار تعجب کے ساتھ بولا ابے اس موسم میں سیلاب کہاں آتاہے۔دوسرا کارڈ پڑھالکھا تھا کہ تمہارے چچا زاد بھائی کی شادی ہوگئی ہے ۔سعید خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا کہ شادی کوتو ایک سال ہوچکا ہے یار۔ تیسرے کارڈ میں لکھا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے روپے بھیجنے میں دیر ہورہی ہے کہنے لگا یار یہ میرے ابا کا دماغ چل گیا ہے ، الٹی سیدھی باتیں لکھ رکھی ہیں۔خط پر خط پڑھتا رہا یہاں تک کہ اس کا ماتھا ٹھنکا ،ایک ساتھی کے بارے میں اسے گمان ہوا کہ اسی کی شرارت ہے اس سے جم کر لڑائی ہوئی۔اور میں خود اس لڑائی کو ختم کرانے میں دلچسپی لے رہا تھا۔(سعید دوست معاف کرنا یہ بچپن کی معصوم شرارتیں تھیں۔)
ایک شرارت اور :
میرے استاذ حضرت مولانا محمد یعقوب مظاہری صدر مدرس مظاہرعلوم وقف سہارنپور اخبار کے بڑے شوقین کے ، بلاناغہ اخبار منگواتے تھے۔میں نے ضرورت رشتہ کے عنوان سے سعید لکھیم پوری کے علم میں لائے بغیر ایک مضمون بنایا جس میں لکھا کہ محمد سعید بن یوسف ساکن برسنگھ پور لکھیم پور کھیری جو مظاہرعلوم وقف سہارنپور میں پڑھتا ہے کے لئے خوبصورت نیک سیرت پابند صوم و صلوٰۃ اٹھارہ سالہ لڑکی سے رشتہ مطلوب ہے ۔
یہ اشتہار بالکل مفت میں روزنامہ عوام میں شائع ہوا اور صبح صبح حضرت مولانا محمد یعقوب نے پڑھ لیا ۔اب سعید لکھیم پوری درسگاہ پہنچے ، مولانا نے حاضری لیتے وقت جب سعید کانام آیاتو کھڑے ہونے کاحکم دیا سعید کھڑا ہوگیا ، حضرت نے ضرورت رشتہ اشتہار پر سعید کی جم کر کلاس لی ، خوب ڈانٹا ، پھٹکارا اور سعید کایہ حال کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ۔
بعد میں سعید نے ہوٹل کے اخبار سے وہ اشتہار پھاڑ کر ہم لوگوں کو دکھایا اور کہا کہ یار یہ کون آدمی ہے جو میرے لئے ضرورت رشتہ کا اشتہار شائع کرارہایے۔میں نے کہا تمہارے ابا ہی ہوں گے کہنے لگا میرے ابا تو یہ سب کچھ جانتے ہی نہیں ہیں اور اگر انھیں پتہ لگ گیا تو میری کھال اتار دیں گے۔ بے چارہ سعید آج تک ان دونوں شرارتوں سے لاعلم ہے۔
😂
😁
😊
8