
ناصرالدین مظاہری
February 23, 2025 at 03:23 AM
سنو سنو !!
دشمن نے وہ کیا جو دوست نہ کرسکا
(ناصرالدین مظاہری)
جناب ڈاکٹر سید افضل حسین قاسمی مقیم حال بنگلور نے اپنے ایک واقف کا تذکرہ "مردِ قلندر، شیتل کمار مولانا محمد الیاس" کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں کیاہے ، اس مضمون میں مولانا الیاس کی جفاکشی، وفاکیشی، استغنا و بے نیازی، لندن کی ایک مسجد میں سادگی و عسرت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ
" مولانا الیاس، 20 سال تک لندن کی ایک مسجد میں امام و خطیب کی حیثیت سے مسجد کے چھوٹے سے گھر میں 5 بچوں کے ساتھ گزارہ کر رہے تھے، حکومت کی طرف سے اچانک انکوائری آئی کہ آپ سات لوگ اس چھوٹے سے گھر میں کیسے اور کس مجبوری سے رہتے ہیں، مولانا نے انکوائری کا جواب جمع کردیا تو پھر ایک ٹیم سروے کرنے آئی اور رپورٹ بناکر چلی گئی، تھوڑے دنوں بعد ملکہء برطانیہ کی طرف سے لیٹر آیا کہ آپ کے لئے سات کمروں کا گھر میری طرف سے تعمیر کرکے فلاں علاقے میں فلاں تاریخ تک دے دیا جائے گا لہذا آپ فلاں تاریخ تک موجودہ گھر خالی کر کے اپنے نئے گھر میں منتقل ہو جائیں. مولانا کی اہلیہ کو ایک لیپ ٹاپ بھی دیا گیا کہ آپ اپنے گھر سے اس طرح کا کام کرکے کسبِ معاش میں اپنے شوہر کا تعاون کریں."
سوچیں اور غور کریں ملکۂ برطانیہ مسلم نہیں عیسائی تھی، مولانا کسی گرجا یا کانونٹ سکول میں استاذ نہیں مسجد کے امام اور ملاجی تھے، ملک اسلامی نہیں عیسائی ہے، یعنی کسی بھی طرح دونوں مذہبوں اور دونوں لوگوں کا کوئی تعلق نہیں پھر بھی یہ انگریز انسانیت اور انسانی ہمدردی میں کس درجہ اور مرتبہ پر پہنچے ہوئے ہیں اور ہم کلمہ گو ،ایک اللہ ، ایک نبی ، ایک قبلہ ، ایک دین اور ایک شریعت کے ماننے والے مجال ہے جو اپنی مسجد کے امام کے لئے گھر کا نظم کردیں ، گھر تو چھوڑیں مسجد کی تعمیر میں بچاہوا اوٹ پٹانگ گوشہ جس میں تین گوشہ بھی ہوسکتے ہیں اور پانچ بھی ، لمبا زیادہ چوڑا کم ، اونچائی اتنی کہ چھت سے سر ٹکرائے، نہ کولر نہ اے سی ۔ٹیبل فین دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے امام عالی مقام کو بہت سہولت دے رکھی ہے۔ہر نمازی امام پر معترض، اب تو امام کی قراءت پر وہ بھی اعتراض کرنے لگے ہیں جنھیں سورہ فاتحہ بھی یاد نہیں ہے ، امام اگر دوچار بار سبحان ربی الاعلی زیادہ کہہ دے تو بھی اعتراض ٹھونک دیا جاتا ہے۔مسجدوں کا امام بننا فی زماننا نہایت مشکل ہوگیاہے ، اگر امام کے گھریلو مالی حالات بہترین ہیں تو اعتراضات بھی نہیں ہوتے ، امام غریب ہے تو "نزلہ بر عضو ضعیف"۔
اکثر مدارس والے اپنے اساتذہ کو کرایہ پر ہی سہی مکان دینے پر تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ مدرس چوبیس گھنٹے مدرسہ میں ہی پڑا رہے اس سوچ کے حامل منتظمین کل اللہ کے یہاں جواب دہ ضرور ہوں گے اور اگر اللہ تعالی نے پوچھ لیا کہ خود سات آٹھ گھنٹے مدرسہ میں گزارنا مشکل اور اساتذہ سے چوبیس گھنٹے کی خواہش ۔یہ کون سی شریعت ہے یہ کون سی طریقت ہے۔جسم کا بھی حق ہے ، بال بچوں کابھی حق ہے، حق کو مارنے والے کل اللہ کے حضور ان شاءاللہ ضرور مارے جائیں گے۔
خوب یاد رکھیں بدعنوان منتظم ، ظالم متولی اور چیرہ دست مہتمم کے کردار سے بہتر تو ملکۂ برطانیہ کا کردار ہے جس کو نہ مسجد سے کوئی تعلق ، نہ نماز روزے سے لینا دینا پھر بھی اللہ کے گھر میں اللہ کی عبادت کرنے اور نماز پڑھانے والے امام کو مکان بناکر مالک بنارہی ہے۔کیا یہ چیز ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی دعوت نہیں نہیں دیتی؟ کیا ہماری آنکھوں کا پانی خشک ہوچکاہے؟کیا برائے نام بھی خوف خدا باقی نہیں رہا؟
(چوبیس شعبان المعظم چودہ سو چھیالیس ہجری)