
ناصرالدین مظاہری
February 27, 2025 at 04:55 AM
ننھے بچے اور افطاری
(ناصرالدین مظاہری)
بچے گھروں کی رونق ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو گھر سونا سونا لگتا ہے ، ان کے وجود سے گھروں میں رونق ہوتی ہے ، ننھے بچے جب گھٹنوں کے بل چلنے لگیں تو پورا گھر ان کی خوب صورت شرارتوں سے تنگ آجاتا ہے ، ایسی ایسی شرارتیں یہ بچے کرتے ہیں کہ وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ، ان کی شرارتیں اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہیں جب ایک ہی گھر میں ان کو اپنا ہمجولی مل جائے۔ رمضان المبارک میں ان کی شرارتیں مزید بڑھ جاتی ہیں وجہ بظاہر یہی ہے کہ سرکش شیاطین تو قید کردئیے جاتے ہیں اور یہ قوم شتر بے مہار ہوجاتی ہے۔ ان کی والدہ افطاری کی تیاری میں مصروف و مگن ہوتی ہے اور یہ قوم اسی افطاری کے سامان کی ایسی کی تیسی کرنے کے لئے پر تول رہی ہوتی ہے۔
مرد حضرات تو شاید قسم کھالیتے ہیں کہ افطاری کی تیاری کے وقت گھر میں گھسنا ہی نہیں ہے ورنہ کم ازکم اس قوم کو کنٹرول کرنا آسان ہوسکتا ہے ، ماں بے چاری دونوں طرف سے مصروف ہوجاتی ہے افطاری کی تیاری بھی اور بچوں کی دیکھ ریکھ بھی، اگر بچہ گھر میں اکیلا ہے تو ماں کو پریشان کرتایے اور ایک سے زاید ہیں تو گھر کی حالت خراب کرتے ہیں۔
کوئی تکیہ سے روئی نکال رہاہے تو کوئی صوفہ سیٹ کو برباد کررہایے، ایک برتنوں کے پاس پہنچ کر تمام برتنوں کو بجابجا کر مرادآباد بنائے دے رہاہے تو کوئی افطاری سے پہلے سامان کا حال خراب کئے دے رہا یے۔کبھی بستر پر پیشاب کررہاہے تو کبھی کچن میں ہی فارغ ہورہاہے۔
یہ قوم ٹھیک اس وقت تو آپے اور پاجامے سے ہی باہر ہوجاتی ہے جب دستر خوان چنا جائے ، قسم قسم کے خوان اور پکوان رکھے جانے لگیں اور یہ خوب صورت مناظر اس معصوم مگر شریر کو دکھائی دے جائیں تو پھر کوئی بھی جتن کرلیں یہ قوم اپنی حرکت سے باز نہیں آسکتی ہے ، ہاتھ بڑھانے بلکہ ہاتھ چلانے میں اتنا پھرتیلا پن شاید ہی کبھی آپ نے دیکھا ہو جو چیز زیادہ خراب ہونے کا امکان ہے یہ بچے اسی طرف دست درازی کرتے ہیں مثلا ایک ہی دسترخوان پر شربت بھی ہے ، پپیتے بھی ہیں ، سیب بھی ہیں انگور بھی ہیں ، دہی بڑے بھی ہیں ، مٹھائیاں بھی ہیں ہر نعمت موجود ہے لیکن یہ قوم شربت کے جگ اور گلاس پر حملہ آور ہوگی کیونکہ اگر یہ شربت کا جگ گرانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر پورا دسترخوان برباد ہی سمجھو۔اس قوم کو کھانے سے زیادہ ضائع کرنے میں لطف آتا ہے ، اگر آپ کوئی چیز ان کے منہ تک لے جائیں تو کمال بے نیازی سے منہ پھیر لیں گے لیکن ہر چیز کو برباد کرنے کا یہ ٹھیکہ لئے رہتے ہیں۔
اب والدین کو اپنی اولاد سے محبت بھی کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے ورنہ مجھے خوب یاد ہے کہ عین افطار کے وقت میرے والد ماجد اور گھر کے بڑے ہم چھوٹے بچوں کو حکم دیتے تھے کہ چھت پر چلے جاؤ، اور ہم لوگ حکم کی تعمیل میں چھت سے یہ نظارہ کرتے تھے کہ نیچے گھر والے روٹی سبزی پر روزہ افطار کرتے تھے غربت بہت تھی یہی روٹی سبزی اس وقت مرغ مسلم سے کم نہ تھی اب تو اللہ کے فضل سے اتنی نعمتیں دسترخوان پر جمع ہوجاتی ہیں کہ لاتحصوہا کا مصداق ہوتی ہیں۔
چھوٹے بچے اب عموما شریک دسترخوان ہوتے ہیں مگر ان کی پسند میں تنوع نہیں ہوتاہے انھیں جو چیز پسند ہوتی ہے وہی کھائیں گے ، یہ ایسی چیز پسند کریں گے جو ان کے نزلہ یا کھانسی میں معاون ثابت ہوں مثلا سردی میں یہ بچے کیلے کھائیں گے ، شربت ، انار، سنگترے، تربوز سے شوق فرمائیں گے منع کرو تو رونا شروع کردیں گے ، گرمیوں میں یہ قوم انڈوں پر ٹوٹ پڑے گی۔سحری کے وقت جب ان کا سونا کسی نعمت سے کم نہیں یہ قوم بیدار ہونے کو اخلاقی فریضہ سمجھتی ہے۔
میرا ایک بچہ دن بھر سحری کانام سنتارہاتو کہنے لگا کہ میں بھی سحری کھاؤں گا چنانچہ اٹھا اور عام کھانا کھاتے دیکھ کر رونے لگا کہنے لگا کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا سحری کھاؤں گا ، بڑی مشکل سے اسے سمجھایا گیا کہ اسی کو سحری کہتے ہیں۔
کیا آپ کو افطار و سحر میں اس خوب صورت فسادی قوم کے خوب صورت فساد سے سابقہ پڑا ہے ۔؟
😂
❤️
👍
😊
🤪
🤲
17