احقاق حق
احقاق حق
February 14, 2025 at 08:28 AM
انجینئر کا طوائف المذاہبی فتنہ از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 15 شعبان 1446ھ 14 فروری 2025ء ہر مسلک میں بعض باتیں دقیق ہیں، ان کی توجیہ عام فہم نہیں ہوتی، خواص ان کے مدارک سے با خبر ہیں؛ اس لیے اہل علم نے اختلاف بے شک کیا؛ مگر باہم بد ظن نہیں ہوے، اب دورِ فتن میں اس قسم کی باتوں سے عوام کو الجھایا جا رہا ہے، ہر مسلک کی پیچیدہ اور گہری باتوں کو چن چن کر سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے رکھا جا تا ہے اور واجب التاویل نصوص سے تعارض دکھا کر مذاہب حقہ سے بد اعتماد کیا جاتا ہے، یضل بہ کثیرا کے اس رجحان کی زمام قیادت اس وقت انجینئر مرزا کے ہاتھ میں ہے، وہ طوائف المذاہبی پھیلا کر بظاہر مذاہب متوارثہ کو زک پہنچانے کی اداکاری کرتا ہے اور در حقیقت اسلام کی بیخ کنی درپیش ہے؛ کیوں کہ مذاہب اربعہ ہی چودہ سو سالہ اسلام کے مجموعی نمائندے ہیں، اگر یہ مشتبہ ہیں تو ایسا کوئی پیرہن نہ ہوگا جس نے عہد بہ عہد اسلام کی ترجمانی کی ہو، ابن صیاد اپنے مشن کے لحاظ سے تیس کے عدد میں ایک اہم ہندسہ ہے، اسلام نے بے شمار فتنے دیکھے؛ مگر طوائف المذاہبی فتنہ مرزا کی دریافت ہے اور مرزائیت کے ہم درجہ سنگین اور خطرناک ہے، اسے چھوٹا ریچارج سمجھنے والے کوتاہ نظر ہیں، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اہل حدیث، اشعری، ماتریدی، صوفی، دیوبندی، بریلوی، سب باطل ہیں تو اسلام کہاں بستا ہے؟ کس گولے پر آباد ہے؟ اس کے ماننے والے کون تھے اور کون ہیں؟ اور یہ کیسا علمی کتابی دین ہے جس کو ماننے والا چودہ صدیوں میں ایک فرد بھی ظاہر نہیں ہوا؟ عداوت کی ایک صورت یہ ہے کہ صاف صاف اسلام کو نشانہ بنایا جائے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسلام کی حقانیت کا حلف اٹھائیں؛ مگر اسلام کی جملہ عملی صورتوں پر تبرا سجائیں، ظاہر الیہودیت بندے اول الذکر آپشن لیتے ہیں اور باطن الیہودیت بزدل ثانی الذکر کی طرف جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرزا بخاری ومسلم کی حدیث پیش کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی عذر کے دو نمازیں ایک وقت میں پڑھیں، یہ وہ بات ہے جسے امت قبول نہیں کر سکتی کہ اس کے وہ معنی جو انجینئر کے شرارتی ذہن میں ہیں نظام دین کا استیصال کرتے ہیں اور نصوص قطعیہ سے متعارض بھی ہیں؛ مگر انجینئر دین میں سنگین انارکی متعارف کرانے پر مصر ہے، اہل علم نے جو توجیہ کی ہیں مرزا ان پر بہ تکلف بے چشم ہو جاتا ہے؛ حالاں کہ منسوخ والی بات اہم ہے اور جمع صوری والی تاویل تو بہت ہی متاثر کن ہے؛ کیوں کہ وہ منصوص ہے، ابن ماجہ کی حدیث میں تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کو اخیر وقت تک موخر کیا اور عصر کو اول وقت تک مقدم، اسی طرح مغرب کو موخر اور عشاء کو مقدم، دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی ابن عباس ہیں اور معلوم ہے کہ بے عذر جمع والی حدیث بھی حضرت ابن عباس ہی سے مروی ہے، انجینئر اس تشریح حدیث بالحدیث سے کنی کاٹتا ہے یا بے علمی کی وجہ سے نارسا ہے، یہاں ایک دیگر اہم نکتہ اور ہے، چھوٹا منہ بڑی بات ہو جائے گی؛ مگر فنی لحاظ سے ترجیحی بنیاد پر لائق توجہ ہے، اس سے میرا اشارہ یہ ہے کہ قطعی نصوص سے متعارض اس قسم کی صریح روایت اگر قوی الاسناد ہے تو وہ معلل قرار پاتی ہے، فن حدیث میں ایک مقام آتا ہے جب ماہر بے بس ہو جاتا ہے، سند بے غبار ہوتی ہے؛ مگر متن نصوص قطعیہ سے متصادم ہوتا ہے، ایسی صورت میں حدیث کا سنار ذاتی طور پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس حدیث میں علت ہے، گو کہ وہ علت کی وضاحت نہ کر سکے، میں بہت چھوٹا ہوں؛ مگر یہ حدیث میرے علم میں آئی تو پہلا تاثر یہی تھا کہ حدیث یقینا معلل ہے، گو کہ علت مجھے معلوم نہیں، خیر! مرزا ان علمی پیمانوں سے پہلو تہی کرتا ہے یا اس کے کشکول کی اوقات فروتر ہے، نصوص کا بقدر فتنہ حصہ اچکتا ہے اور دلوں کی معصوم کھیتیوں میں شکوک وشبہات کی تخم ریزی کرتا ہے، اس کی جد وجہد کا حاصل یہ ہے کہ اسلام بے شک چنیں اور چناں ہے؛ مگر اتباعِ اسلام کی جملہ صورتیں باطل ہیں، اسلام کتابوں میں محصور ہے، اسے کبھی انسانی تعبیر میسر نہیں آئی، اسلام وہ مذہب ہے جسے عملی صورت نصیب نہیں ہوئی، دنیا میں ایسا کوئی انسان موجود نہیں جو صحیح اسلام پر عمل پیرا ہو، اسلام کی بر حق تشریح چودہ سو سال غار سر من رأی میں پوشیدہ رہی، اب پندرھویں صدی میں غار سے مرزا کا ظہور ہوا اور تاریخ میں پہلی بار علمی کتابی اسلام کی نمود ممکن ہوئی۔
❤️ 🇵🇸 4

Comments