احقاق حق WhatsApp Channel

احقاق حق

195 subscribers

About احقاق حق

ان شاء اللہ اسلام کے سلسلے میں اعتراض کا بھر پور جواب دیا جاۓ گا. اگر آپ کا کوئ سوال ہو تو بذریعہ واٹس ایپ آپ 9102432448 پر کانٹیکٹ کر سکتے ہیں..

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

احقاق حق
احقاق حق
2/20/2025, 4:29:48 AM

ہیگل کا ڈریگن 🐉🐲: (ہیگل کی منطق کا علمی تجزیہ) مفتی سید فصیح اللہ شاہ اگر کوئی آپ سے کہے کہ دنیا کی ہر حقیقت تضاد سے جنم لیتی ہے تو آپ یا تو اسے حکیم لقمان کی طرح دانشمند سمجھیں گے یا پھر کسی پیچیدہ معمے کا قائل۔ اور اگر وہ شخص جرمنی سے آیا ہو اور اس کا نام جیورگ ولیم فریڈرک ہیگل ہو تو فلسفے کی دنیا میں اس کی عزت کچھ زیادہ ہی کی جائے گی۔ مگر جناب! ذرا رک جائیں کیونکہ اگر آپ اس کے فلسفے کے گہرے سمندر میں چھلانگ لگائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ باہر آتے آتے آپ خود کو پانی اور خشکی کا بیک وقت وجود رکھنے والا کوئی نئی مخلوق سمجھنے لگیں! ہیگل کے مطابق دنیا کی ہر چیز ایک جدلیاتی عمل (Dialectical Process) سے گزرتی ہے یعنی پہلے ایک خیال آتا ہے تھیسس۔ پھر اس کا مخالف خیال جنم لیتا ہے اینٹی تھیسس اور پھر ان دونوں کے ملاپ سے ایک ترکیب (Synthesis) بنتی ہے۔ جو خود ایک نیا تھیسس بن جاتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ زندگی ٹام اینڈ جیری کا ایک نہ ختم ہونے والا ایپی سوڈ ہے جہاں ہر مسئلہ ایک نیا مسئلہ جنم دیتا ہے اور حل کے نام پر ہمیں مزید پیچیدگی تحفے میں ملتی ہے۔ ہیگل کی منطق منطق کہلانے کی قابل نہیں اس کی کئی وجوہات ہیں: پہلی وجہ: ہیگل کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا فلسفہ کسی تجربے یا مشاہدے پر مبنی نہیں بلکہ صرف خیالی پلاؤ ہے۔ اگر آپ کہیں کہ پانی 100 ڈگری پر کھولتا ہے تو ہیگل کہے گا پہلے یہ پانی تھا پھر بھاپ میں بدل کر اپنی ضد بنا اور پھر بارش بن کر زمین پر واپس آ گیا، لہٰذا یہ سب ایک جدلیاتی ترکیب ہے۔ حالانکہ سائنسدان سیدھی سی بات کرتا ہے بھائی! پانی میں اتنی گرمی ڈالی کہ بخارات بن گیا باقی فضول فلسفہ بند کرو۔ دوسری وجہ: ہیگل کا کہنا ہے کہ ہر چیز اپنے تضاد کے ساتھ مل کر ایک نئی حقیقت پیدا کرتی ہے۔ یعنی اگر آپ کہیں "میں زندہ ہوں" تو ہیگل کے مطابق آپ کا "مرنا" بھی ضروری ہے تاکہ ایک نئی "زندہ+مردہ" حقیقت وجود میں آ سکے۔ ارے بھائی! اگر ہر سچائی میں اس کی ضد لازمی ہے تو پھر اسپتال کے ڈاکٹرز اور عدالتوں کے ججز فارغ کر دو کیونکہ جرم اور انصاف، بیماری اور صحت سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ سادہ لفظوں میں اگر تضاد سے حقیقت جنم لیتی تو ہر دوائی زہر اور ہر انصاف ظلم کے برابر ہوتا۔ تیسری وجہ: ہیگل کی منطق میں کوئی حتمی سچائی (Absolute Truth) نہیں کیونکہ ہر ترکیب نئی تھیسس بن کر مزید بدلتی رہتی ہے۔ یعنی اگر آپ کہیں کہ "یہ فلسفہ غلط ہے" تو ہیگل آپ سے کہے گا یہ درست بھی ہو سکتا ہے کیونکہ سچ کبھی حتمی نہیں ہوتا۔ واہ بھائی! اگر ہر سچائی بدلنے والی ہے تو پھر آپ کا فلسفہ بھی عارضی ہے اور اگر آپ کا فلسفہ بھی بدلنے والا ہے تو کیوں نہ ہم پہلے ہی اسے بدل کر سیدھا کچرے میں ڈال دیں؟ چوتھی وجہ: ہیگل کی فکری ورزشیں جب عملی میدان میں آزمائی گئیں تو ان کا حال وہی ہوا جو ایک ناتجربہ کار باورچی کے ہاتھ کی بنی بریانی کا ہوتا ہے نہ ذائقہ، نہ ترتیب، نہ کوئی نتیجہ۔ مارکسزم جیسے نظریات جو ہیگل کے جدلیاتی فلسفے سے متاثر ہو کر بنے جب سوشلسٹ حکومتوں میں نافذ ہوئے تو یا تو معیشت تباہ ہو گئی یا پھر ریاستیں ہی ختم ہو گئیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کہے: "بخار کا علاج یہ ہے کہ مریض کو برف میں لپیٹ دو اور دیکھو کہ اس کی زندگی اور موت سے کوئی نئی ترکیب نکلتی ہے۔ پانچویں وجہ: ہیگل کا ماننا تھا کہ تاریخ ہمیشہ "بہتر" کی طرف جاتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا میں جنگیں، غربت اور بدعنوانیاں ختم ہو چکی ہوتیں. مگر افسوس حقیقت یہ ہے کہ جہاں انسان نے سائنسی ترقی کی وہیں بڑی بڑی تباہیاں بھی آئیں۔ یعنی اگر ہیگل کی بات مان لی جائے تو ہمیں ہر جنگ کے بعد کہیں نہ کہیں "امن کا نیا فارمولا" ملنا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کے بعد ایک اور جنگ ہی آتی ہے۔ چھٹی وجہ: ہیگل کے فلسفے کو پڑھ کر لگتا ہے جیسے کسی جادوگر نے گنجلک الفاظ کا ایسا جال بنا دیا ہو جس میں عقل پھنس کر رہ جائے۔ اس پر برٹرینڈ رسل جیسے فلسفیوں نے بھی اعتراض کیا کہ ہیگل کی زبان اتنی مبہم اور مشکل ہے کہ کوئی بھی شخص اسے اپنی مرضی کے مطابق مطلب پہنا سکتا ہے۔ اگر ایک فلسفہ خود فلاسفروں کے لیے بھی معمّہ بن جائے تو پھر عام لوگ کہاں جائیں؟ ساتویں وجہ: ہیگل کا فلسفہ بظاہر گہرائی کا دعویدار ہے لیکن درحقیقت یہ منطقی سادگی کے قاتل اور مغالطاتی پیچیدگیوں کے بادشاہ ہیں۔ اس میں تضادات کو زبردستی گھسیٹا گیا ہے. سچائی کی کوئی مستحکم بنیاد نہیں اور تاریخی ترقی کا تصور حقیقت سے متصادم ہے۔ اگر کسی کو فلسفے میں غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا کرنی ہوں تو ہیگل ایک بہترین آپشن ہے۔ لیکن اگر آپ کو سچائی، منطق، معقولیت اور معروضیت (Objectivity) چاہیے تو بہتر ہے کہ آپ سیدھا سائنس، ریاضی یا حقیقی منطق کی دنیا میں قدم رکھیں۔ کیونکہ ہیگل کے نظریات صرف ایک ذہنی تماشا ہیں جنہیں سنجیدہ فکر کی دنیا میں جگہ دینا خود پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ #muftisyedfaseehullahshah

🇵🇸 😮 2
احقاق حق
احقاق حق
2/25/2025, 2:32:16 PM

*فضلائے مدارس* اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ لوگوں کو شرعی علوم سے نوازا ہے، آپ کو مدارسِ اسلامیہ میں طویل مدت تک پڑھنے کی توفیق بخشی ہے، اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ لوگوں کو علمِ حدیث جیسے افضل العلوم (دورہ حدیث شریف) کو پڑھنے کے لئے منتخب کیا ہے، اور وہ تمام تر اسباب مہیا کیے جن سے آپ کی بات مانی جائے اور قلم باطل پر تیزی کے ساتھ ضرب لگائے، یہ سب آپ لوگوں کے لئے بہت بڑی سعادت ہے مگر آپ نے اللہ کا احسان اگر نہیں مانا اور اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان کا بر موقع بر محل استعمال نہیں کیا تو یقین جانو خدا کے یہاں آپ صلاحیت کو ٹھکرائے لوگوں میں شمار ہونگے اگرچہ لوگوں کے یہاں معزز بن جاؤ، یقینا آپ لوگوں کی خوف کی وجہ سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ جو بحیثیت فاضلِ مدرسہ اسلامیہ عربیہ آپ پر عائد ہے اس کو ترک نہیں کر سکتے، اللہ نے جو آپ کے قلم میں طاقت رکھی ہے کہ لوگ آپ کی باتوں کو مانتے ہیں، اپ پر دینی سلسلہ میں اعتماد رکھتے ہیں تو اس کا صحیح استعمال بھی ہونا چاہئے، غلط قسم کے خیالات و افکار رکھنے والے نام و نہاد علم رکھنے والے علما آپ کو اپنی طرف کھینچنے میں بالکل دیری نہیں کرینگے، وہ آپ کو ڈرائینگے اور دھمکائینگے کہ باطل کے بطلان پر کچھ نہ بولیے لکھیے، میں سمجھتا ہوں اگر آپ ان کے رعب سے ڈر گیے اور خوف کھاکر ان کی بات مان لی تو یقینا آپ خدا کی دی ہوئی صلاحیت کے ساتھ غداری کروگے، اور آپ پر اس وقت سب سے زیادہ جو فریضہ عائد ہوتا ہے وہ افکار و خیالات کا اصلاح کا ہوتا ہے جو غلط قسم کی نظر و فکر عالمِ اسلام میں بنادی گئی ہے اس کی تردید، اگر آپ نے لوگوں کو خوب علم کا سمندر دیا مگر تصحیحِ نفس و فکر نہیں کی تو سب بے معنی ہے، جہاں جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے وہ ہی کام اولی ہے اور جس مقام پر صحیح اہلِِ علم و قلم کم ہی ہو پاتے ہیں تو پھر کام میں فرضیت قلتِ افراد کے باعث اور دوگنا چوگنا ہو جاتی ہے ۔ والسلام علی من اتبع الھدی و من ذوی العقل السلیم والایمان _منجانب : محمد اخلاص نوح میوات ہریانہ فاضلِ دارالعلوم دیوبند_

🇵🇸 1
احقاق حق
احقاق حق
3/1/2025, 1:17:57 AM

نفس کشی کا یک ماہی کیمپ از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 30 شعبان 1446ھ یکم مارچ 2025ء عداوت انسانی نفسیات کا اہم عنصر ہے، جس طرح پیار ومحبت سے اس کے جذبات کے ایک حصے کی تسکین ہوتی ہے، اسی طرح وہ خصومت، نزاع اور محاذ آرائی کے بغیر بھی ادھورا محسوس کرتا ہے، اسے رسہ کشی کے لیے فریق بہ ہر صورت درکار ہے، اگر ماحول ساز گار نہ ہو تو وہ بصرف ہمت وبذل خیر عداوت کی تخم ریزی کرتا ہے اور خالی میدان میں بھی ایک عدد دشمن دریافت کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسانی انجمن کی ہر اکائی اندرونی ناچاقی سے دو چار رہتی ہے، اس میں قدسی صفات معاشرے بھی مستثنی نہیں؛ بل کہ مدارس کی روئداد تو معاصرتی چشمک اور ہم عہدی کی رقابت میں سرفہرست ہے۔ "عداوت ہارمون" کو مصروف عمل رکھنے کے لیے ہمیں ایک مستقل حریف عطا ہوا ہے، جسے نفس کہتے ہیں، حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق یہ گناہ کا ڈھیٹ اور بے حیا داعی ہے، کوشش پر اکتفا نہیں کرتا، ڈیرہ ڈال لیتا ہے، اس کے ترکش میں تیروں کی انواع واقسام ہیں، ہر شکار پر حسبِ حال آزماتا ہے، معصومین سے بھی مایوس نہیں ہوتا، ان کی پروفائل پر بھی ٹرائی مار جاتا ہے، اس کی سرپرستی راست ابلیس کے پاس ہے، رب کے پر حکمت آئین نے اختیارات وسیع دیے ہیں، ہمارے ساتھ کھیلتا ہے، جذبات تک رسائی ہے، دل پر بیٹھ جاتا ہے، ذہن پر سوار ہو سکتا ہے، شش جہت استعمال کرتا ہے؛ حتی کہ اندرونِ خانہ ہی سو جاتا ہے۔ ہماری اصل جنگ اس داخلی دشمن سے ہے، آستین کے سانپ سے مطمئن رہنا سادگی کی حد ہے، اپنے گھر میں جانی دشمن رکھ کر باہر داد شجاعت دینا حمق ہے، نفس کشی اولین فریضہ ہے، راہ روئے منزل کا سب سے بڑا کانٹا نفس ہے، مقامات کی تاریکی نفس کے سبب ہے، ابدی فلاح کا راستہ نفس کی لاش سے گذرتا ہے، نفس کی جنگ ناگزیر ہے، آپ کا نظر انداز کرنا سنگین جوا ہے، آپ بھول سکتے ہیں؛ مگر بھولنا اس کا آپشن نہیں، اس کی تخلیق آپ کے سفینے کو غرق آب کرنے کے لیے ہوئی ہے، آپ کے خلاف زور آزمائی اور داؤ پیچ اس کی غذا ہے، آپ کا ادبار اس کی تسکین اور دائمی بدبختی اس کا مشن۔ ہم حظ نفس کا لطف اٹھا چکے، اب حرمانِ نفس ٹرائی کریں، حسیناؤں کی ٹانگوں کو خوب انجوائے کیا، غض بصر کو بھی موقع دیں، یہی آنکھیں فرط لذت سے تحیر میں نہ ڈبڈبا جائیں تو جو مرضی ہارنے کے لیے تیار ہوں؛ گو کہ فی الوقت ہارنے کے لیے کچھ نہیں رکھتا، فرض نماز کے بعد یہی نفس کہتا ہے جلدی کرو، فلاں اور فلاں تقاضا ہے، یا تلقین کرتا ہے کہ سنتیں گھر پڑھیں گے، ثواب زیادہ ہے؛ دراں حالے کہ بقول حضرت مولانا سنبھلی صاحب علیہ الرحمہ جو گَھر گیا وہ گِھر گیا، اس کشاکشی کا جواب فوری دو اور زائد نوافل لگا دو، وقوف مسجد کو وہ طول دو کہ نفس پاش پاش ہو جائے، خجل خجل ہو اٹھے، ورغلانے سے توبہ کر بیٹھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرین/شیطان رضاکارانہ مسلمان ہو گیا تھا، آپ اپنے قرین السوء کو مجبور کریں، یا تو اسلام قبول کرے، یا جذیہ منظور کرے، اس سے مغلوب نہیں ہونا، ورنہ باجگزار آپ ہوں گے اور دو جہاں کی رسوائی مستزاد۔ نفس کشی مہم کے لیے یہ درست وقت ہے، رمضان سایہ آسا ہے، شیاطین کی اسیری نفس کو بے سہارا کر دیتی ہے، پشت پناہی کی غیر موجودگی ہزار غنیمت ہے، نفس کی تنہا مزاحمت کم زور ہے، کمک کے بغیر اس کے آپشن محدود ہیں، معمولی تدابیر اسے دیوار سے لگا سکتی ہیں، رمضان ایک موقع ہے، روزہ امید کی کرن ہے، ملکوتی فضا اضافی پوائنٹ ہے، انوار کا نزول اپنے حق میں ہے، افطار کو حد میں رکھو، افطار کے بہانے نفس کو واپسی کا موقع فراہم نہ کرو، شب بیداری بہ معنی عبادت مطلوب ہے، مجرد جاگنا، یا بیداری مع بیہودگی نفس کی فتح ہے، سحری تلافی والی بے لگام نیند نفس پرستی ہے، بھوک زدہ نفس امارہ انتقام افتاد ہے، اس کے جوابی وار سے چوکنا رہو، نفس کشی کا مہینہ ہے، ختم ہوتے ہوتے امارہ کا خاتمہ، لوامہ کی تکمیل اور مطمئنہ کی تحصیل یقینی بناؤ۔

❤️ 2
احقاق حق
احقاق حق
2/18/2025, 6:01:31 PM

فتنہ اصطلاحًا اس صورتِ حال کو کہتے ہیں جس میں حق وباطل کی تمیز باقی نہ رہے، ابتداء فتنہ میں انجامِ بد کا احساس بھی نہیں ہوتا، جب حقیقت کھلتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ [نوادراتِ کشمیری، ص ۱۱۸] #ابن_عبداللہ

❤️ 🇵🇸 2
احقاق حق
احقاق حق
2/14/2025, 8:28:43 AM

انجینئر کا طوائف المذاہبی فتنہ از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 15 شعبان 1446ھ 14 فروری 2025ء ہر مسلک میں بعض باتیں دقیق ہیں، ان کی توجیہ عام فہم نہیں ہوتی، خواص ان کے مدارک سے با خبر ہیں؛ اس لیے اہل علم نے اختلاف بے شک کیا؛ مگر باہم بد ظن نہیں ہوے، اب دورِ فتن میں اس قسم کی باتوں سے عوام کو الجھایا جا رہا ہے، ہر مسلک کی پیچیدہ اور گہری باتوں کو چن چن کر سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے رکھا جا تا ہے اور واجب التاویل نصوص سے تعارض دکھا کر مذاہب حقہ سے بد اعتماد کیا جاتا ہے، یضل بہ کثیرا کے اس رجحان کی زمام قیادت اس وقت انجینئر مرزا کے ہاتھ میں ہے، وہ طوائف المذاہبی پھیلا کر بظاہر مذاہب متوارثہ کو زک پہنچانے کی اداکاری کرتا ہے اور در حقیقت اسلام کی بیخ کنی درپیش ہے؛ کیوں کہ مذاہب اربعہ ہی چودہ سو سالہ اسلام کے مجموعی نمائندے ہیں، اگر یہ مشتبہ ہیں تو ایسا کوئی پیرہن نہ ہوگا جس نے عہد بہ عہد اسلام کی ترجمانی کی ہو، ابن صیاد اپنے مشن کے لحاظ سے تیس کے عدد میں ایک اہم ہندسہ ہے، اسلام نے بے شمار فتنے دیکھے؛ مگر طوائف المذاہبی فتنہ مرزا کی دریافت ہے اور مرزائیت کے ہم درجہ سنگین اور خطرناک ہے، اسے چھوٹا ریچارج سمجھنے والے کوتاہ نظر ہیں، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اہل حدیث، اشعری، ماتریدی، صوفی، دیوبندی، بریلوی، سب باطل ہیں تو اسلام کہاں بستا ہے؟ کس گولے پر آباد ہے؟ اس کے ماننے والے کون تھے اور کون ہیں؟ اور یہ کیسا علمی کتابی دین ہے جس کو ماننے والا چودہ صدیوں میں ایک فرد بھی ظاہر نہیں ہوا؟ عداوت کی ایک صورت یہ ہے کہ صاف صاف اسلام کو نشانہ بنایا جائے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسلام کی حقانیت کا حلف اٹھائیں؛ مگر اسلام کی جملہ عملی صورتوں پر تبرا سجائیں، ظاہر الیہودیت بندے اول الذکر آپشن لیتے ہیں اور باطن الیہودیت بزدل ثانی الذکر کی طرف جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرزا بخاری ومسلم کی حدیث پیش کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی عذر کے دو نمازیں ایک وقت میں پڑھیں، یہ وہ بات ہے جسے امت قبول نہیں کر سکتی کہ اس کے وہ معنی جو انجینئر کے شرارتی ذہن میں ہیں نظام دین کا استیصال کرتے ہیں اور نصوص قطعیہ سے متعارض بھی ہیں؛ مگر انجینئر دین میں سنگین انارکی متعارف کرانے پر مصر ہے، اہل علم نے جو توجیہ کی ہیں مرزا ان پر بہ تکلف بے چشم ہو جاتا ہے؛ حالاں کہ منسوخ والی بات اہم ہے اور جمع صوری والی تاویل تو بہت ہی متاثر کن ہے؛ کیوں کہ وہ منصوص ہے، ابن ماجہ کی حدیث میں تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کو اخیر وقت تک موخر کیا اور عصر کو اول وقت تک مقدم، اسی طرح مغرب کو موخر اور عشاء کو مقدم، دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی ابن عباس ہیں اور معلوم ہے کہ بے عذر جمع والی حدیث بھی حضرت ابن عباس ہی سے مروی ہے، انجینئر اس تشریح حدیث بالحدیث سے کنی کاٹتا ہے یا بے علمی کی وجہ سے نارسا ہے، یہاں ایک دیگر اہم نکتہ اور ہے، چھوٹا منہ بڑی بات ہو جائے گی؛ مگر فنی لحاظ سے ترجیحی بنیاد پر لائق توجہ ہے، اس سے میرا اشارہ یہ ہے کہ قطعی نصوص سے متعارض اس قسم کی صریح روایت اگر قوی الاسناد ہے تو وہ معلل قرار پاتی ہے، فن حدیث میں ایک مقام آتا ہے جب ماہر بے بس ہو جاتا ہے، سند بے غبار ہوتی ہے؛ مگر متن نصوص قطعیہ سے متصادم ہوتا ہے، ایسی صورت میں حدیث کا سنار ذاتی طور پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس حدیث میں علت ہے، گو کہ وہ علت کی وضاحت نہ کر سکے، میں بہت چھوٹا ہوں؛ مگر یہ حدیث میرے علم میں آئی تو پہلا تاثر یہی تھا کہ حدیث یقینا معلل ہے، گو کہ علت مجھے معلوم نہیں، خیر! مرزا ان علمی پیمانوں سے پہلو تہی کرتا ہے یا اس کے کشکول کی اوقات فروتر ہے، نصوص کا بقدر فتنہ حصہ اچکتا ہے اور دلوں کی معصوم کھیتیوں میں شکوک وشبہات کی تخم ریزی کرتا ہے، اس کی جد وجہد کا حاصل یہ ہے کہ اسلام بے شک چنیں اور چناں ہے؛ مگر اتباعِ اسلام کی جملہ صورتیں باطل ہیں، اسلام کتابوں میں محصور ہے، اسے کبھی انسانی تعبیر میسر نہیں آئی، اسلام وہ مذہب ہے جسے عملی صورت نصیب نہیں ہوئی، دنیا میں ایسا کوئی انسان موجود نہیں جو صحیح اسلام پر عمل پیرا ہو، اسلام کی بر حق تشریح چودہ سو سال غار سر من رأی میں پوشیدہ رہی، اب پندرھویں صدی میں غار سے مرزا کا ظہور ہوا اور تاریخ میں پہلی بار علمی کتابی اسلام کی نمود ممکن ہوئی۔

❤️ 🇵🇸 4
احقاق حق
احقاق حق
2/25/2025, 3:01:09 PM

ماں – محبت، قربانی اور خلوص کا انمول پیکر تحریر:محمد بن عبداللہ تاریخ:25/فروری 2025 بمطابق 26 شعبان المعظم 1445 ماں صرف ایک لفظ نہیں، اور صرف ایک رشتہ نہیں، بل کہ بے لوث محبت، بے پایاں شفقت اور انمول قربانی کی مجسم تصویر ہے۔ اس کا دل سمندر کی وسعت اور آسمان کی بلند پروازی جیسا ہے، جس میں ہر دکھ سمو جاتا ہے اور ہر خوشی جھلک اٹھتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کے لیے دنیا کے ہر طوفان سے ٹکرا جاتی ہے، اپنی نیندیں قربان کر کے سکون بانٹتی ہے اور اپنی دعاؤں سے زندگی کی راہیں آسان کر دیتی ہے۔ ماں کا دل – وسیع سمندر کی مانند۔۔۔ ماں کا دل کائنات کی سب سے وسیع و عریض چیز ہے، جس میں اولاد کی خوشیاں بھی سما جاتی ہیں اور اس کے دکھ بھی۔ وہ اپنے بچوں کی تکلیف کو برداشت کرنے کے لیے خود کو ہر اذیت میں ڈال لیتی ہے، مگر انہیں کسی پریشانی کا احساس تک نہیں ہونے دیتی۔ ماں کی مسکراہٹ میں قربانی کی ایک طویل داستان چھپی ہوتی ہے، جسے دنیا دیکھ نہیں پاتی، مگر اولاد کے لیے وہ سب کچھ برداشت کر جاتی ہے۔ ماں کی شفقت – زندگی کی سب سے بڑی نعمت۔۔۔۔ ماں کی محبت ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر دنیا کی سخت دھوپ بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ جب زمانے کی تپش ستانے لگتی ہے، جب مشکلات کی آندھیاں راستہ روک لیتی ہیں، تب ماں کی دعائیں ڈھال بن جاتی ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے ہر لمحے کی فکر کرتی ہے، چاہے بچہ ننھا ہو یا جوان، وہ ہمیشہ اسی محبت سے دیکھتی ہے جیسے وہ ابھی گود میں ہو۔ ماں کی قربانی – الفاظ سے ماورا۔۔۔۔ کوئی بھی انسان اس قربانی کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا جو ماں اپنی اولاد کے لیے دیتی ہے۔ وہ اپنے آرام، اپنی نیند، اپنی خواہشات اور اپنی خوشیوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنے بچوں کی ضروریات کو مقدم رکھتی ہے۔ اگر بچہ بیمار ہو جائے تو وہ راتوں کو جاگ کر اس کی صحت کے لیے دعائیں کرتی ہے، اگر بچہ کامیاب ہو جائے تو وہ سب سے زیادہ خوش ہوتی ہے، اور اگر بچہ ناکام ہو جائے تو وہ سب سے زیادہ دکھ سہتی ہے۔ ماں کی دعا – زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ۔۔۔۔ ماں کی دعا زمین پر وہ واحد دعا ہے جو بنا کسی لالچ کے کی جاتی ہے، جو خالص محبت سے بھری ہوتی ہے، اور جس میں تاثیر کی قوت ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر کامیابی، ہر خوشی، اور ہر منزل ماں کی دعاؤں سے ہی آسان ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے دن رات اللہ کے حضور جھولی پھیلائے رکھتی ہے، اور اس کی یہ دعائیں اولاد کے لیے کامیابی اور سکون کا سب سے بڑا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ماں کا وجود – زمین پر جنت کا عکس۔۔۔ اگر کسی کو جنت دیکھنی ہو تو وہ ماں کے چہرے پر نظر ڈال لے، اگر کسی کو اللہ کی رحمت کا عکس دیکھنا ہو تو وہ ماں کی مسکراہٹ میں دیکھ لے۔ جو ماں کی عزت کرتا ہے، وہ دراصل اپنی دنیا اور آخرت سنوارتا ہے، ماں وہ انمول خزانہ ہے جس کی قدر ہر حال میں کرنی چاہیے، کیونکہ جب یہ ہستی چلی جاتی ہے تو دنیا کی تمام خوشیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ ماں کی محبت بے لوث، اس کی قربانی بے مثال، اور اس کی دعا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ جو لوگ اپنی ماں کی خدمت اور محبت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں، وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ابن عبداللہ

❤️ 🇵🇸 2
احقاق حق
احقاق حق
2/22/2025, 3:39:08 AM

الحاد ، دہریت ، مغربیت اور محنت کا میدان بظاہر یہ عنوانات یکسان دکھائی دیتے ہیں گو کہ ان میں ایک مستقل ربط اور تعلق موجود ہے اور یہ تینوں حلقے ایک دوسرے سے نکلتے ہیں لیکن جب ہم اکیڈمک سطح پر یا عملی میدان میں ان کے حوالے سے کوئی مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ مستقل عنوانات ہیں ان کو الگ الگ شعبہ جات کے طور پر ہی لیا جانا چاہیے اور ان دائروں کے متکلمین و ماہرین بھی الگ الگ استعداد کے ماہر ہوں گے۔ سب سے پہلے تو ہم ان عنوانات کی بنیادی تفہیم سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ اس کے بعد ان دائروں کے ماہرین کی تیاری اور اس تیاری کیلیے ضروری لوازمات حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ پہلا عنوان ہے الحاد : الحاد کا لغوی یا اصطلاحی معنیٰ راستے سے ہٹ جانا یا انحراف ہے موجودہ دور میں اسے دہریت یعنی atheism کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن اصولی اعتبار سے ہر دو میں جوہری فرق ہے شریعت کی نگاہ میں الحاد ضروریات دین کا انکار ہے اگر کوئی عقائد و عبادات کی اس بنیادی روایت کہ جو ہمیں تواتر سے ملی ہے اس روایت کا انکاری ہے تو وہ ملحد شمار ہوگا۔ دوسرا عنوان ہے دہریت : دہریت درحقیقت atheism ہے یعنی خدا کا انکار یا خدا اور مذہب کا انکار اگر اس عنوان کی مزید وضاحت کی جائے تو عقل پرستی اور مادیت کی بنیاد پر مابعد الطبیعیات کا انکار دہریت ہے۔ تیسرا عنوان ہے مغربیت : مغربیت کے دو بنیادی دائرے ہیں اول فلسفہ مغرب ، دوم تہذیب مغرب اس سے مراد موجودہ دور میں اس عالمگیری نظریے اور ثقافت کا غلبہ ہے کہ جو بحیثیت مجموعی مذہب کے انکار کی طرف لے جاتی ہے۔ اگلی سطور میں ہم ان تین دائروں کے سدباب کے حوالے سے محنت کا میدان متعین کرنے کی کوشش کریں گے۔ الحاد کا دائرہ اور اس کے مقابل محنت کا میدان : الحاد کا دائرہ بہت وسیع ہے چونکہ یہ فکر بنیادی سطح پر مذہب سے متعلق اشکالات پیدا کرتی ہے اور اس سے انحراف کی راہ ہموار کرتی ہے اسلیے اس کے متعدد رخ سامنے آتے ہیں درج ذیل میں ہم ان عنوانات کا ایک بنیادی خاکہ پیش کرتے ہیں۔ اول تجدد پسندی : اس دائرے میں روایت یا خاص طور پر دین کی چلتی ہوئی روایت کا انکار کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے اہل علم کے درمیان متفق علیہ ہو یہ رویہ درحقیقت مغرب سے مستعار ہے اور اس کی جڑ جدت پسندی میں ہے جب مغرب سے استشراقی فکر مشرق میں آئی تو تجدد پسندانہ افکار پیدا کیے گئے۔ دوم علوم اسلامیہ کا انکار : جب بھی انکار حدیث ، انکار سنت یا مسلمانوں کی مجموعی فقہی روایت کا سرے سے انکار کیا جائے گا یا پھر اسلام کی تاریخی و فکری روایت کو یکسر رد کیا جائے گا تو یہ الحاد کا ابتدائیہ شمار ہوگا۔ سوم اسلامی شخصیات کا انکار : اس دائرے میں ناصبیت سے رافضیت تک یعنی اولین دور میں صحابہ رض یا اہل بیت علیہم السلام یا پھر خلافت راشدہ کی بابت سوالات اٹھائے جاتے ہیں یہاں تک یہ گروہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہی سامنے آتا ہے بعد ازاں اس کی بدترین شکل خود انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے اشکالات پیدا کرنا ہے لیکن اس دائرے کے لوگ مکمل دہریے ہوتے ہیں عام طور پر مشاجرات کے حوالے سے بات کرنے والے یا بعد کے ادوار میں اسلامی شخصیات یعنی فقہاء ، اولیاء یا مسلم فاتحین کو یکسر رد کرنے والے چند ایک کی بات نہیں یہاں گفتگو ہے یکسر رد کرنے والوں کی تو یہ گروہ بھی الحاد کی راہ ہی ہموار کرتا ہے۔ الحاد کے مقابل محنت کا میدان : الحاد کے مقابل محنت کا میدان درحقیقت علوم اسلامی ، اسلامی شخصیات اور اسلامی روایات کے دفاع کا نام ہے خاص اس دائرے میں انکار حدیث کے خلافت محنت ہو ، دفاع صحابہ رض و اہل بیت ہو ، مسلم فقہاء کا دفاع ہو ، ختم نبوت ﷺ کی محنت ہو یہ تمام شعبے درحقیت رد الحاد کے ہی شعبے ہیں اس شعبے کے ماہرین بھی مختلف دائروں میں منقسم ہوں گے۔ علوم القرآن اور تفسیر کا علم ، علوم الحدیث اور تاریخ حدیث میں مہارت ، مستشرقین کے اعتراضات کا علم ، مشاجرات صحابہ رض کے حوالے سے اہل سنت کے منہج فکر سے واقفیت ، سلف صالحین اور فقہاء کے منہج سے واقفیت ، تاریخ اسلامی کے گمراہ فرقوں کے حوالے سے معلومات کا حصول ، مسلم تہذیت و تاریخ سے واقفیت وغیرہ۔۔ دہریت کا دائرہ اور اس کے خلاف محنت کا میدان : دہریت کا دائرہ الحاد سے اوپر ہے یہ براہ راست مذہب اور مابعد الطبیعیات کے خلاف اعتراضات کھڑے کرتا ہے اس کا بنیادی جوہر عقل پرستی اور مادیت پرستی ہے اسلیے یہ کبھی معجزات کا انکار کرے گا اور کبھی دیگر معتقدات کا انکار کرے گا یہ مذہب پر مختلف دائروں میں سوالات اٹھائے گا۔ اول مذہب کے مافوق الفطرت امور ، دوم مذہب کی اخلاقی حیثیت ، سوم عصر حاضر میں مذہب کی ضرورت و اہمیت۔ دہریت کے خلاف محنت کا میدان : دہریت کے خلاف کام کرنے والے بنیادی سطح پر اسلامی علم الکلام کے حوالے سے مہارت حاصل کریں اس کے بعد منطق اور فلسفے کا علم بھی ضروری ہے اگر ان علوم پر مہارت نہیں تو پھر رد دہریت آپ کا میدان ہی نہیں ہے اس کے بعد معاصر دہریت کے عقلی اشکالات کا جواب منطقی استدلال کے دائرے میں ماہرین سے سیکھا جائے۔ مغربیت کا دائرہ : مغربیت کا دائرہ دو بنیادی عنوانات پر مشتمل ہے اور ہر دو عنوانات کا علم انتہائی ضروری ہے۔ اول فلسفہ و تاریخ مغرب : چاہے وہ جدیدیت ہو یا ابتدائی ہیومنزم ہو ، قدیم فلسفہ یونان سے متاثر مغرب کی تحریک تنویر ہو ، رومانویت ہو ، عقل پرستی ہو ، مادیت پرستی ہو یا پھر تشکیک و دہریت ہو ان تمام فلسفوں کو ان کی مکمل تاریخ کے ساتھ سمجھنا مغربیت کا میدان ہے اس میدان کے مزید دائرے ہیں۔ الف٭ سیاسی دائروں میں مغربی فکر کی جانچ جیسے نیشنلزم یا سیکولر ازم کو سمجھنا ، عالمگیرت کے مزاج کو سمجھنا ، استعمار و مابعد استعمار کے مزاج کو سمجھنا ، ٹوٹیلی ٹیرین فکر سے واقف ہونا۔ ب٭ معاشی دائروں میں مغربی فکر کی جانچ جیسے سرمایہ داریت یا اشتراکیت کے مزاج کو سمجھنا دنیا کو ایک عالمی منڈی بنا دینے والی فکر سے واقفیت وغیرہ ۔۔ ج٭ معاشرتی دائروں میں مغربیت کے مزاج کو سمجھنا جیسے لبرل ازم ، فیمینزم ، فریڈم آف سپیچ وغیرہ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فکر۔ د٭ عقل پرستی اور سائنس پرستی کے مزاج کو سمجھنا اور اس کی بنیاد پر قائم مغربی فکر و فلسفے اور اس کے اثرات سے واقفیت۔ مغربی تہذیب کا بیان : مغربی تہذیب درحقیقت ان فلسفوں پر ہی قائم ہے کہ جو اوپر بیان ہوئے لیکن اب اس تہذیب کی باقاعدہ ثقافتی اور مذہبی بنیادیں بن چکی ہیں اس نے معاشروں کا ایک مخصوص مزاج بنا دیا ہے اور اس کے نتیجےمیں معاشرے بحیثیت مجموعی مذہب گریز ہو رہے ہیں ان کا دائرہ کار کھانے پینے کی سطح سے لیکر کر ڈیزائنر لباسوں ، برانڈز ، جدید تہذیبی تقریبات اور رسوم و رواج یہاں تک کہ مذہب کی ایک خالص مادیت پرستانہ شکل تک آ چکا ہے۔ مغربیت کی مذہبی شکل : مغربیت نے مذہب کا کلی انکار نہیں کیا بلکہ مذہب کے معاشرے میں سیاسی ، ثقافتی ، سماجی ، قانونی دائروں کا انکار کیا ہے مغربیت کو رقص و سرود سے کوئی مسئلہ نہیں اسے مسئلہ مذہب کی عملی تشکیل سے ہے بلکہ بہت سی جگہوں پر وہ مذہبی تقریبات کو پروموٹ کرتا ہے جیسے ایسٹر یا ہولی دیوالی وغیرہ یا پھر مسلم معاشروں کی بہت سی رسومات مغربیت کا ایک بڑا عنوان مستقبل قریب میں ایک نئے مذہب کی تشکیل ہے۔ عالمگیری مذہب یعنی وحدت ادیان اور مغربیت : مغرب ایک طویل عرصے سے عالمگیری مذہب کی آواز لگا رہا ہے گو کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ماضی میں دین اکبری ہو ، بہائیت ہو ، بابیت ہو اس کی بہت سی شکلیں موجود رہی ہیں لیکن موجودہ دور میں اسے دین ابراہیمی کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے مشترکہ عبادت خانے ہوں اور ان کی مشترکہ تعلیمات کو ایک نئے عنوان کے تحت متعارف کروایا جائے۔ مغربیت کے رد کا میدان : یہ انتہائی اہم اور مشکل میدان ہے کیونکہ اس میدان میں آپ کا مقابلہ ایک غالب تہذیب سے ہے ایک ایسی تہذیب کہ جو عالمی سطح پر اپنے قدم جما چکی ہے یہ محنت انفرادی سطح سے لیکر اجتماعی سطح تک ہر ہر دائرے میں کرنا ہوگی اس میں فرد کی اصلاح سے معاشرے کی اصلاح تک اور معاشرے کی اصلاح سے ریاست کی اصلاح تک اور ریاست کی اصلاح سے امت کی اصلاح تک ہر شعبے میں کام ہوگا۔ " یقین جانیے جب تک ہمارے مدارس ، ہماری خانقاہیں ، ہماری سیاسی و تحریکی جماعتیں ، ہمارے مبلغ ، ہمارے متکلم ، ہمارے مفکرین و فلاسفہ بحیثیت مجموعی مغربیت کے خلاف کام نہیں کریں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا " اس کام کے مختلف عنوانات ہو سکتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ علمی دائرہ : علمی دائرے میں مغربی فکر و فلسفے سے واقفیت کے ساتھ ساتھ عوام کا تعلق ان کی تاریخ و روایت سے جوڑا جائے۔ سب سے پہلے سیرت النبی ﷺ کو تحریکی انداز میں عوام کے اندر متعارف کروایا جائے ، اس کے بعد حیات الصحابہ رض اور سیرت اہل بہت اطہار کا تعارف ہو اس کے بعد مسلم فقہا و مفکرین کا تعارف ہو مزید اسلامی سیاست ، اسلامی معاشرت ، اسلامی معیشت ، اسلامی نظام عدالت کے ماہرین تیار کیے جائیں۔ عملی میدان : اس میدان میں خانقاہیں تزکیہ نفس پر محنت کریں کہ جو ان کا اصل کام ہے ناکہ خود کو بدعات میں مبتلاء رکھیں ، تبلیغی جماعتیں مسلم معاشرت کے قیام پر کام کریں اور مسلم سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائرے میں احیاء اسلام کی محنت کریں۔ کیا یہ سب ممکن ہے ؟ جی ہاں یہ سب ممکن ہے لیکن جب تک کام کا طریقہ اور اس کی جہات کا علم نہیں ہوگا اور ہمارا رخ درست سمت پر نہیں ہوگا اور ہم کامیابی کی جانب پہلا قدم بڑھانے سے بھی قاصر رہیں گے وقت جارہا ہے لیکن ابھی گیا نہیں ہے بلکہ یہ وہ وقت ہے کہ نتیجے سے بے پراہ ہوکر خود کو اس کام کیلیے وقت کردیا جائے افراد سازی سے لیکر معاشرے کی تشکیل تک یہ کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کام کو جاری رکھنے کیلیے ایسے رجال کار کی ضرورت ہے کہ جو خود کو دین کیلیے وقف کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ڈاکٹر حسیب احمد خان

🇵🇸 👍 2
احقاق حق
احقاق حق
2/18/2025, 11:53:56 AM

فساد امت اور احیائے سنت از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 19 شعبان 1446ھ 18 فروری 2025ء نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پے خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا اس گناہ گار نے ڈاڑھی تو کبھی نہیں مونڈی کہ اس کا موقع وامکان نہیں تھا؛ مگر دوسرے دسیوں گناہ ضرور کیے، بندۂ نفس ہوں، آوارہ ہوں، نفس اور شریعت کی رسہ کشی میں نفس کی طرف جھک جاتا ہوں، ضعیف الطبع ہوں، رو سیاہ ہوں، زندگی "خلطوا عملا صالحا وآخر سیئا" کے ٹریک پر ڈالی ہوئی ہے اور "عسی اللہ أن یتوب" امید گاہ ہے؛ مگر ان دس گناہوں میں سے کسی گناہ کو جائز کرنے کی یہودیت ہم نہیں جٹا پائے، گناہ کو گناہ سمجھ کر ہی کیا، سرِ شام کی خطا پر صبح نو سے ندامت کی چادر مانگی اور صبح کا تکرار شام کی شرم ساری میں چھپ گیا، محبوب کی شفاعت اور رب المحبوب کے کرم پر تکیہ رہا۔ یہودیوں کو جب گناہ منظور ہوتا تو راست توریت وصحائف میں تبدیلی کرتے، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ہاتھ رکھ کر بتایا کہ یہ مقامِ تحریف ہے، مسلم انتساب کے اسکالر بھی یہی یہودی سرشت رکھتے ہیں؛ مگر دیوبند کی سیسہ پلائی دیوار سے عاجز و بے بس ہیں، جب تک دیوبند موجود ہے، اسلام میں مہا کمبھ متعارف نہیں ہوگا، قاسم ورشید واشرف کے وارثین غالیوں کی تحریف، باطل کی چوری اور جاہلوں کی تاویل کے خلاف مبعوث ہیں، ہم تنگ نظری، مذہب افیونی، فکری دقیانوسی، مسلکی انتہا پسندی اور خیال ورائے کی فرسودگی کے طعنے سہہ سکتے ہیں؛ مگر اسلام کی رعنائی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک امید پر فرما گئے ہیں کہ میں دین کو درخشاں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس میں دن ہی دن ہے، رات کا نام نہیں، دیوبند اس امید سے بہ ہر قیمت وفا کرے گا؛ تا آں کہ امانت ان کے فرزند حضرت مہدی کو تفویض ہو جائے۔ ایک زمانہ راقم کو مصر کی نئی کتابوں کا شغف تھا، لائبریریوں کے طواف کیے، لائبریرین کی بد اخلاقیاں برداشت کیں، حضرت مولانا انوار خان بستوی کو اگر یاد ہو تو بنگلور کی معروف لائبریری مالک کی گالیاں بھی کھائیں، یہ ما قبل پی ڈی ایف دور کی بات ہے، اس وقت حجاب مخالف ایک ضخیم کتاب پڑھنے کا موقع ہوا تھا، صاحب کتاب فاضل، محقق، اسکالر اور کسی کلیہ کا عمید تھا، اس نے نہایت قوت اور غضب کے پر اعتماد اسلوب میں یہ ثابت کیا کہ اسلام میں حجاب کا کوئی تصور نہیں ہے، اختلاط مرد وزن عین منشائے شریعت ہے، حجاب کے ترجمان کوتاہ نظر، پس ماندہ فکر اور از کار رفتہ ہیں، انھوں نے اسلام کو حجاب میں داخل کر دیا ہے اور محصور بھی؛ جب کہ حجاب خود اسلام میں نہیں ہے، حجاب کا حکم ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا، باقی خواتین آزاد ہیں، حجاب ان سے مخاطب ہی نہیں۔ مصنف نے کتاب کو قرآن وحدیث سے لبالب کیا تھا، میں کتاب پڑھ کر ڈپریشن اور دباؤ میں چلا گیا، رو کر عرض گزار ہوا کہ اے رب! تو نے مجھے کتنا کم علم دیا ہے، میں تو اس کے رد سے بھی عاجز ہوں، آپ کون سے عرب فتاوی کی بات کرتے ہیں؟ انھوں نے کوئی چیز حرام رکھی ہے؟ آپ نے میوزک اور گانوں کے مستدلات نہیں دیکھے؟ آپ کہاں تک ساتھ دیں گے؟ انھوں نے کوئی معیار بنایا ہے؟ یا حد مقررکی ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے زنا وشراب پر داد تحقیق دی ہے یا نہیں؛ لیکن اگر ہندوستان میں شکیل بن حنیف کو اور پاکستان میں مرزا انجینئر کو متبعین مل سکتے ہیں تو زنا وشراب کے ریسرچ اسکالرز کو بھی مداح ضرور ملیں گے، بر صغیر ایک غامدی پر بدک گیا، مصر درجنوں غامدی دیکھ چکا ہے وہ بھی سو سال قبل، وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں اور لت پت ہیں؛ مگر گناہ کے نام پر ہر گز نہیں، یا رسول اللہ! آپ بھی کیا ہی خوب ہیں، فرماتے ہیں کہ قرب قیامت گناہوں کے نام، عناوین اور عرفیت تبدیل کی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معجز بیان ہیں، ماینطق عن الھوی ہیں، ان ھو الا وحی ہیں، قرآن، اعجاز نمبر ایک ہے، اس کے بعد راست آپ ہیں، آپ کے یہاں ناقص بیانی کا گذر نہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ اللہ کے یہاں سے نعوذ باللہ ڈاڑھی منڈانے کا جواز لے کر آئے ہیں؛ مگر اس کی تعبیر یہ ہے کہ ڈاڑھی رکھو، ڈاڑھی بڑھاؤ، ڈاڑھی بڑھاؤ، مشرکین کی مخالفت کرو ڈاڑھی بڑھاؤ، جب ڈاڑھی اختیاری ہے تو یہ زور کیوں؟ پھر جواز کی بات کا چھپانا آپ کے منصب میں کیسے ایڈ جسٹ اور آراستہ ہوگا؟ آپ کو تو جواز والا آپشن بھی بہ ہر صورت رکھنا ہے، ہم نے جواز کے دسیوں احکام میں دیکھا کہ آپ اپنی پسند ضرور رکھتے ہیں؛ مگر جواز بھی دیتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ بیوی کو حد اعتدال میں تنبیہی ضرب کی اجازت ہے؛ مگر میری خواہش ہے کہ مارنے سے گریز کریں، آپ ضرور فرماتے کہ نعوذ باللہ ڈاڑھی مونڈنے کی اجازت تو ہے؛ مگر میری ترجیح یہ ہے کہ ڈاڑھی رکھی جائے۔ صحیح بخاری کی روایت: خَالِفُوا المُشْرِكِينَ؛ وَفِّرُوا اللِّحَى" کا ترجمہ: "ڈاڑھی اختیاری ہے " کرنے کے لیے جسارت درکار ہے، صحابی کے چند بالوں والی ڈاڑھی ختم کرنے پر آپ کی خفگی سے جواز کے معانی نکالنا جرأت ہی جرأت ہے، ایران کے دونوں سفیر ڈاڑھی منڈے تھے، آپ نے ان کو جو فہمائش کی اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ "افسوس ہے تم پر" یا "تمھارا برا ہو" پھر فرمایا: ( لَكِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُحْفِيَ شَارِبِي وَأُعْفِيَ لِحْيَتِي) یہ امرنی ربی کیا ہوتا ہے؟ امرِ رب کے بعد اختیار رہتا ہے؟ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ترجمہ سنا سکتے تھے: امرنی یعنی اختیار دیا ہے؟ ڈاڑھی کا وجوب اور منڈانے کی حرمت متفق علیہ ہے، اس اجماع کے ناقلین میں علامہ ابن تیمیہ خود ہیں، شوافع کے یہاں کراہت کا قول ہے؛ مگر مرجوح، متقدمین میں ڈاڑھی ماورائے اختلاف تھی، متاخرین اور دور جدید نے اسے موضوع بحث بنایا، دوغلے بے ضمیری کی ہزار بات کرتے ہیں؛ مگر دل کا چور دبا جاتے ہیں، حسبِ دستور مفتوح قوم فاتحین کی تہذیب پر دل ہار بیٹھی ہے، غلاموں کے لیے آقاؤں کی وضع رشک زندگی بن گئی ہے، اس عار کے اعتراف کا حوصلہ نہیں؛ اس لیے تاویل کرتے ہیں، پیشین گوئی کے عین مطابق اسلام یتیم اور لاوارث ہو گیا ہے، اب ڈاڑھی وہ رکھے گا جسے اسلام اپنی جان اور مال سے زیادہ عزیز ہوگا۔

🇵🇸 1
احقاق حق
احقاق حق
2/13/2025, 9:59:09 AM

شبِ براءت میں انفرادی عبادت ودعا دیوبندیت ہے، شبِ برات میں جشنِ چراغاں بریلویت ہے، شبِ براءت کا انکار غیر مقلدیت ہے، راہِ اعتدال افراط وتفریط کے ما بین ہوتی ہے، الحمد للہ دیوبندی ہر عنوان میں امت وسط ہیں۔

❤️ 🇵🇸 👍 3
احقاق حق
احقاق حق
2/4/2025, 7:46:23 AM

*ایامِ تعطیل میں طلبا و فضلا کے لئے انمول تحفے!!!* ✍️ حکیم الاسلام قاسمی اڈیشا معین مدرس دارالعلوم دیوبند ہند ۔ موجودہ زمانے کا یہ المیہ ہے کہ طلبا و فضلا نیز عوام بڑی تیزی کے ساتھ غیروں کے افکار وخیالات سے متاثر ہوتے چلے جارہے ہیں ، اسلام کی تہذیب وثقافت ، مذہبی تصلب علمی گہرائی و گیرائی جیسے اوصاف اب خال خال نظر آتے ہیں، فکری ارتداد کا دور دورہ ہے ، ایسے موقعے پر ضروری ہے ہم چند ایسی کتابوں کو حرزِ جاں بنائیں جن میں احکام اسلام کی عقلی دلیلیں ہوں، منقولات کو محسوسات میں پیش کیا گیا ہو ، نظریاتی جنگ کے اصول جن میں بیان کئے گئے ہوں ۔ مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کتب خانوں سے حاصل کرکے ، یا ٹیلی گرام ،گوگل وغیرہ سے ڈاؤنلوڈ کرکے اپنے مطالعے میں لاسکتے ہیں خصوصاً طلبا وفضلا رمضان المبارک کی چھٹی کو کار آمد بناتے ہوئے ان کتابوں کو ضرور مطالعہ میں لائیں۔!! 1-مجموعہ رسائل امام غزالی رحمہ اللہ . 2-مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ،تحقیق : مولانا مفتی عطاء اللہ قاسمی ۔ 3-احکام اسلام عقل کی نظر میں ، حضرت تھانوی رحمہ اللہ ۔ 4-مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ،ترتیب : مولانا محمد عمران صاحب قاسمی ۔ 5-گلو بلائزیشن اور اسلام ، مولانا یاسر ندیم الواجدی صاحب۔ 6-نظریاتی جنگ کے اصول ،مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب۔ 7-عقل اور مذہب اسلام ، مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ ۔ 8-اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش ، مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ ۔ 9-نیاطوفان اور اس کا مقابلہ ، مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ ۔ 10-اسلام اور تہذیب مغرب کی کش مکش ، ڈاکٹر محمد امین ۔ 11-اسلام کا اقتصادی نظام ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ۔ 11-تجدید تعلیم و تربیت ، مولانا عبد الباری ندوی رحمہ اللہ ۔ 12-تجدید معاشیات ، مولانا عبد الباری ندوی رحمہ اللہ ۔ 13-تجدید معاشرت ، مولانا عبد الباری ندوی رحمہ اللہ ۔ 14-تجدید تصوف ،مولانا عبد الباری ندوی رحمہ اللہ ۔ 15-توحید ربوبیت پر عقلی دلائل ، شیخ عبدالرحمن ناصر السعدی ۔ 16-اسلامی شریعت علم و عقل کی میزان میں ، مولانا شہاب الدین ندوی ۔ 17-دعوت فکر ونظر ، مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی رحمہ اللہ ۔ 18-تقابل ادیان اور جدید علم کلام ، مولانا حکیم فخرالاسلام مظاہری۔ 19-تقابل ادیان ، پروفیسر محمد سفیان صاحب ۔ 20-محاضرات قرآن ، ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ ۔ 21-محاضرات حدیث ، ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ ۔ 22-شاہ راہ علم کے رہنما خطوط ، شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ ، ترجمانی: مفتی محمد قاسم نور حیدرآبادی۔ اللہ ہم سب کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے ،آمین۔

🇵🇸 1
Link copied to clipboard!