✍️علمی مضامین وارشاداتِ اکابر 📚
February 25, 2025 at 02:55 AM
*جب فصل کٹی تو کیا دیکھا۔۔۔۔۔*
عبد المنعم فائز
(ایڈیٹر شریعہ اینڈ بزنس،
استاد ومفتی جامعہ الرشید)
*ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمہ اللہ نے حکم فرمایا*:
”آپ دونوں بھائی جلسوں میں نہ جایا کریں“۔ یہ حکم دیا گیا تھا حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی اور مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کو۔ ان حضرات کو جلسوں میں بلایا جاتا، اشتہارات میں نام شائع ہوتے اور دینی تقریبوں اور مجلسوں کی زینت بنایا جاتا۔
مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: اگلے پیر حاضری ہوئی تو ایک بار پھر فرمایا: آپ تقریروں میں نہ جایا کریں، جلسوں میں نہ جایا کریں، وعظ نہ کریں، تقریر نہ کریں۔
اب مختلف مدارس کا اصرار اور بے شمار چاہنے والے اصرار کرنے لگے۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا تو فرمایا: ان کو میرا نام لے دینا کہ اس نے منع کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے منتظمین آئے کہ عرصہ سے آپ کی تقریر نہیں ہوئی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو منع فرمادیا۔ فقہ و تصوف پربڑی محنت سے ایک تحریر لکھی، روزنامہ جنگ میں وہ شایع ہونے کے لیے دیدی۔ حضرت کی نظر سے وہ تحریر گزری۔ پیر کے روز مجلس میں فرمایا: وہ مضمون جو آپ نے جنگ میں چھاپ دیا ہے، اس کا تو کوئی فائدہ مجھے محسوس نہیں ہوا۔ بھئی! اخبار میں بھی مضمون نہ دیا کریں۔
مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم پر جب یہ پابندی لگی، اس وقت آپ کی عمر 41 سال تھی، آپ کے چار بچے تھے اور دارالعلوم کراچی میں مہتمم تھے، دورہ حدیث میں مسلم شریف پڑھاتے تھے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی عمر اس وقت 35 سال تھی اور آپ کی کتابیں ہرجگہ پڑھی جاتی تھیں۔ مگر ان دونوں حضرات کو ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”ابھی آپ ناپختہ ہیں، ابھی آپ کو بلوغ نہیں۔ ابھی تقریر کرنا چھوڑ دیں، کیونکہ خدانخواستہ اگر شہرت کا شوق ہوگیا تو ساری محنت بے کار جائے گی“۔
یہ پابندی چند دن یا چند سال کے لیے نہیں لگی، اگلے دس سال تک علم کے یہ ستون اور عمل کے یہ پیکر تقریر و تحریر سے دور رہے۔ دس سال تک عوامی جلسوں میں جانے، تحریر شایع کرنے پر پابندی عائد رہی۔
ہیچ کس از نزد خود چیزے نہ شد، ہیچ آہن خنجر تیزے نہ شد
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم، تاغلامے شمس تبریزے نہ شد
یہ آج سے تقریبا 43 سال پرانا واقعہ ہے۔ جب نہ ٹی وی، نہ کیمرا، نہ الیکٹرانک میڈیا، نہ سوشل میڈیا تھا۔ اخبار، جلسے جلوس اور زیادہ سے زیادہ ریڈیو موجود تھا۔ آج ہم اس دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں ”دنیا ہتھیلی پر“ آچکی ہے۔ دنیا ایک کلک کی دوری پر موجود ہے۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسی اپلی کیشنز پر عُجب کا بازار سجاہے، حُب جاہ کا میلا لگا ہے، حُب مال کی منڈی گرم ہے، خودرائی کا سیلاب ہے جو ہماری نوجوان نسل کو بہائے لے جارہا ہے، ریا کاری کی آگ بھڑکی ہے جو ہماری اقدار بہالے جارہی ہے۔ میرے سوشل میڈیائی ایکٹویسٹس کے لیے یہ بات سمجھنا ہی مشکل ہورہا ہے کہ اصلاح نفس فرضِ عین ہے۔ اپنے نفس کو حب جاہ و منصب، مال و منال، عجب و خود پسندی، خود رائی اور ریاکاری سے بچانا بھی فرض ہے۔ کسی عام آدمی سے کیا شکوہ، خود اہل علم اس فتنے کا شکار ہوئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شہرت، دکھاوے اور ریا کاری کے جتنے مواقع ہیں، وہ کسی اور جگہ نہیں ہیں۔ لائکس کی چکاچوند ہے، کمنٹس نے عقل کو خیرہ کررکھا ہے، شیئرز نے خرد کو چندھیا دیا ہے۔ اللہ کا یہ فرمان اوجھل ہوا جاتا ہے:
تلک الدار الآخرۃ نجعلھا للذین لایریدون علوا فی الارض ولا فسادا (قصص: 83) آخرت کا گھر تو انہی لوگوں کا ہے جو زمین پر برتری اور تکبر نہیں چاہتے، نہ ہی فساد کرتے ہیں۔
نیا موٹرسائیکل بھی ہوتو اس کی رننگ پوری کی جاتی ہے، اس کے بعد وہ سواری کے قابل ہوتا ہے۔ گاڑی بھی ہو تو اسے اسٹارٹ کرکے گرم کیا جاتا ہے، پھر پہلا گیئر، دوسرا گیئر اور تیسرا گیئر لگایا جاتا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیائی دوست طالب علمی کے دور میں ہی چوتھے گیئر میں گاڑی بھگا رہے ہیں۔ ابھی علمی میدان میں ایک آدھ صفحہ لکھا ہے، مگر دنیا سے رخصت ہونے والے اہل علم پر نقد و جرح کررہے ہیں۔ ابھی پڑھنے کی عمر ہے مگر لائیکس کی ہوس نے دنیا کو پڑھانے پر لگا رکھا ہے۔ بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں، ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے، لائکس اور سبسکرائبز کی میراتھن ریس ہورہی ہے۔ مگر اس ہاؤ ہو میں ہم یہ بھول رہے ہیں کہ یہ کوڑھ کی کاشت ہے، یہ کانٹوں کی فصل ہے، یہ زہر کا بیوپار ہے، یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ اگلے دس سال میں یہ بیج درخت کا روپ دھاریں گے، یہ پھل پکے گا اور جب یہ فصل کٹے گی تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیا منظر ہوگا۔
احمد فراز کے الفاظ میں:
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے
تحریر: عبدالمنعم فائز
❤️
👍
6