
✍️علمی مضامین وارشاداتِ اکابر 📚
1.9K subscribers
About ✍️علمی مضامین وارشاداتِ اکابر 📚
یہ چینل قرآن، حدیث، فقہ، تصوّف، اور اکابر علماء اسلام کی مستند تحریریں وغیرہ پر مشتمل پیغامات ارسال کرنے کی غرض سے بنایا گیا ہے۔
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*حکیم الامت مجدد الملت حضرت اقدس مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* (۱۲۸۰ھ/۱۸۶۳ء ۱۳۶۱ھ/۱۹۴۳ء ) کہیں مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستورِ مے خانہ حکیم الامت مجدد الملت حضرت اقدس مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں، عصر حاضر کے اکابر علماء کی رائے میں آپ نہ صرف اس صدی کے مجدد تھے بلکہ جامع المجددین تھے۔ حضرت مولانا سید میاں اصغر حسین صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امت میں ایسا جامع عالم پیدا نہیں ہوا۔ یہ بات مجھ سے میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی جو حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلفا میں سے تھے، یہ بھی فرمایا کہ مولانا اصغر میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین میں سے تھے مرید نہیں تھے۔ مرید کا قول تو محض عقیدت پر مبنی ہوسکتا ہے لیکن معاصرین کا اعتراف معنیٰ رکھتا ہے۔ غرض اکابر ہوں، معاصر ہوں یا اصاغر سب ہی حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں انتہائی حسن ظن رکھتے تھے اور ان کے ارشادات اگر جمع کیے جائیں تو ایک کتاب بن جائے جس کا اس وقت موقع نہیں اور ضرورت بھی نہیں کیوں کہ ؎ آفتابِ آمد دلیل آفتاب کیا خوب شعر حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے ؎ اس زمانے میں ہے محرومِ ازل کی یہ شناخت یعنی جو معتقد حضرت مولانا نہیں علمِ دین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں حضرت والا کی راہ نمائی اور تصنیف موجود نہ ہو۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف و سلوک، قرأت و تجوید، منطق و فلسفہ وغیرہ تمام علوم و فنون میں حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی ایک منفرد شان ہے ؎ زفرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست۔ لیکن اس وقت احقر محمد اختر عفا اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی مجددانہ اصلاحات و تعلیمات اور تزکیہ و تربیت نفوس کے متعلق ان چند ارشادات کو تحریر کررہا ہے جن سے اُمت مسلمہ کے روحانی بیماروں نے شفا پائی ہے اور نسبتِ باطنی اور تعلق مع اللہ کی دولت سے مشرف ہوئے۔ محترم عالم، فقیہ وقت مولانا اشرف علی بن عبدالحق حنفی تھانوی بڑے ممتاز و اعظم، اپنی فضیلت اور بزرگی میں مشہور تھے۔ آپ کی پیدائش ۵ربیع الآخر سنہ ۱۲۸۰ھ میں مقام تھانہ بھون میں ہوئی (جوکہ مظفرنگر کے مضافات میں سے ہے۔) آپ نے ابتدائی کتابیں مولانا فتح محمد تھانوی اور مولوی منفعت علی دیوبندی سے پڑھیں۔ منطق وحکمت کی اکثر کتابیں اور فقہ و اصول کی بھی کچھ کتابیں مولانا محمودحسن دیوبندی محدث سے پڑھی۔ حدیث کی کتابیں مولانامحمود سے اور فنون ریاضی ومیراث شیخ سیداحمددہلوی سے اور علوم حدیث وتفسیر مولانا یعقوب بن مملوک علی نانوتوی سے پڑھیں۔ یہ ساری کتابیں دارالعلوم دیوبند میں پڑھیں، وہاں سے آپ حج و زیارت مقامات مقدسہ کے لیے حجاز اقدس تشریف لے گئے۔ *سلوک وطریقت* حضرت حاجی امداداللہ تھانوی جو مکہ مکرمہ میں ہجرت کی نیت سے تشریف لے گئے تھے (اسی لئے مہاجر مکی کے نام سے مشہور تھے) حضرت تھانوی نے آپ سے سلوک وطریقت حاصل کیا اور ایک زمانہ تک وہیں آپ کی صحبت میں رہے۔ پھر ہندوستان لوٹ آئے اور مدرسہ جامع العلوم کانپور میں عرصہ دراز تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ساتھ ہی اذکار و اشغال تصوف میں بھی مشغول و مصروف رہے، یہاں تک کہ آپ پر حال غالب آگیا تو آپ نے تدریس کے شغل کو موقوف کردیا اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں تشریف لے گئے۔ مولانا اشرف علی نے دوبارہ حجاز مقدس کا سفر کیا اور وہاں اپنے شیخ محترم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، پھر ہندوستان واپس تشریف لاکر سنہ ۱۳۱۵ھ کے ماہ صفر کے آخری دنوں میں اپنے وطن خاص میں مقیم ہوگئے اور مستقل وہیں رہنے لگے۔ وہاں سے انتہائی خاص موقع یا ضرورت علاج کے بغیر باہر کبھی تشریف نہیں لے گئے، وہاں عام مسلمانوں کی تربیت و ارشاد واصلاح نفوس اور تذہیب الاخلاق کے معاملات میں مرجع خلائق ہوگئے۔ خواہشمند حضرات بالقصد دور اور قریب سے آپ کی خدمت میں آنے لگے۔ مریدین کی تربیت اور طالبین کی ہدایت اور نفوس کی باطنی برائیوں پر اطلاع، اور شیطانوں کے بدن میں داخل ہونے کے راستوں پر تنبیہ، اور پوشیدہ بیماریوں کی دواؤں اور نفسانی بیماریوں کا علاج کرتے رہے۔ یہ ساری باتیں اپنے مقام میں رہ کر بتائیں؛ ان باتوں کے لئے آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، لوگ از خود آپ کے پاس آتے۔ آپ کے حجرہ میں آنے والوں اور آپ کی مجلسوں سے مستفید ہونے کے لئے بہت سی شرطیں اور قیود ہوتیں کہ ان کا خیال رکھنا لازم ہوتا اور آپ کی طرف سے آنے والے اور وہاں رہنے والوں کے لئے کسی قسم کا کوئی اہتمام نہ ہوتا بلکہ وہ از خود اس کا انتظام کرکے اقامت کرتے۔ البتہ کچھ فضلائے کرام اور مخصوص لوگوں کی دعوتوں کا انتظام فرماتے، اتنی سختیوں کے باوجود دور دور سے ضرورت مند حضرات آتے رہتے اور اپنے اخراجات خود برداشت کرتے۔ *شب و روز کے معمولات* آپ کو اوقات کی پابندی کا خیال بہت زیادہ رہتا، ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا۔ انتہائی مجبوری کی صورت کے سوا کسی قسم کا کسی کے ساتھ استثناء نہ ہوتا، چنانچہ صبح کی نماز کے بعد آپ اپنے ذاتی مشاغل میں لوگوں سے کنارہ کش ہوکر تصنیف وتالیف میں یکسوئی کے ساتھ مشغول رہتے، ان اوقات میں آپ سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ مصروفیت اس وقت تک رہتی کہ آپ کھانا کھا کر قیلولہ فرماتے اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ جب نماز ظہر پڑھ کر فارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ آپ کے پاس آئے ہوئے تمام خطوط پڑھ کر ان کا مناسب جواب خود دیتے یا لکھواتے، ان میں سے خاص خاص لوگوں کو سناتے اور ان سے اس سلسلہ میں گفتگو فرماتے، اور ان کے بعض نکتوں اور لطائف کو لوگوں کو سمجھاتے۔ آپ کی گفتگو لوگوں کے اذہان کی تصریح اور ہمنشینوں کے لئے حصول لذت کا سامان ہوتی، اس انداز سے کہ لوگ اس سے نہ تھکتے، نہ تنگدل ہوتے، اسی وقت میں آپ خواہشمندوں کے لئے دعائیں اور تعویذ بھی تحریر فرمادیتے۔ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے لوگوں سے قطع تعلق کرلیتے اور اس وقت اپنے گھر اور خانگی معاملات اور مصروفیتون کی طرف متوجہ ہوتے یہاں تک کہ آپ عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتے۔ *مجالس وعظ و نصائح* آپ ان بڑے اور ربانی علماء کرام میں سے تھے جن کی مواعظ اور تالیفات سے اللہ تعالی نے بہت سے لوگوں کو فائدے پہنچائے ہیں۔ آپ نے جتنی مجلسوں میں لوگوں کو وعظ ونصائح فرمائے ان کی تعداد لوگوں نے چار سو تک رسائل میں تحریری طور پر شمار کی ہیں اور وہ سب مواعظ لکھ کر مکمل محفوظ کرلی گئی ہیں، مجلسوں میں جتنی بھی نصیحتیں آپ نے فرمائیں اور اس سلسلہ کی کتابیں تحریر فرمائی ہیں عقیدہ اور عمل کی اصلاح سے متعلق ہیں جن سے ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں نے فائدہ اٹھایاہے۔ اور ان کی وجہ سے بے شمار انسانوں نے اپنی پرانی خراب عادتیں اور جاہلی تقلید اور بدعتوں کو چھوڑ کر توبہ کی جو کہ مسلمانوں کی زندگی میں اور گھروں کی خوشی و غمی میں شامل ہوگئی تھیں جوکہ کفار اور بدعتیوں اور خواہشوں کی اتباع کرتے رہنے والوں کے ساتھ مستقل رہنے کی وجہ سے ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ نے شریعت پر عمل کرنے، سلوک و طریقت پر چلنے، اپنے اصل مقاصد کو بے شمار ذریعوں اور وسیلوں سے چھان پھٹک کرنے، اصل دین کو گندگیوں اور زوائد سے پاک کرکے ان پر چلنے کو آسان تر کردیا ہے۔ آپ کو لوگوں کو معارف الہیہ تک پہنچانے میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ اسی طرح اس زمانہ میں تصنیف و تالیف اور تذکیر و مواعظ کرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ آپ کو خدا تعالی کی طرف سے جو یہ شرف مقبولیت حاصل تھی وہ موجود دور کے علماء و فضلاء کو عنایت نہیں ہوئی۔ میں نے خود آپ سے کچھ یہ کتابیں پڑھی ہیں یعنی کتاب اصول الشاشی کا کچھ حصہ، کافیہ، شرح جامی اور امام رازی کی شرح شمسیہ کا کچھ حصہ۔ *تصانیف* آپ کی بے شمار تصنیفات وہ ہیں جو چھوٹی بڑی رسائل اور بڑی ضخیم کتابوں کی صورت میں موجود ہیں۔ بعض حضرات نے ان کو شمار کیا تو وہ تقریباً آٹھ سو نکلی ہیں جن میں سے بارہ کتابیں عربی ہیں؛ چند یہ ہیں: (۱) انوار الوجود فی اطوار الشھود، (۲) التجلی العظیم فی احسن تقویم، (۳) سبق الغایات فی نسق الآیات و غیرہ ہیں اور آپ کی عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی کچھ کتابیں ہیں جو کہ یہ ہیں: (۱) الاکسیر فی ترجمہ التنویر، (۲) التادیب لمن لیس لہ فی العم و الادب نصیب، (۳) تحذیر الاخوان عن تذویر الشیطان، (۴) القول البدیع فی اشتراط المصر للتجمیع، (۵) القول الفاصل بین الحق و الباطل، (۶) تنشیط الطبع فی اجراء القراء ت السبع، (۷) بیان القرآن فی الترجمہ والتفسیر تیس پاروں میں، (۸) التکشف عن مھمات التصوف، (۹) تربیۃ السالک و تحیۃ الھالک، (۱۰) حیات المسلمین، (۱۱) تعلیم الدین، (۱۲) البوادر و النوادر، (۱۳) اصلاح الرسوم، (۱۴) مجامیع کثیرۃ لمجالسہ و کلامہ و لمواضعہ۔ *بہشتی زیور* ان میں سے ایک کتاب بہشتی زیور بھی ہیں جوکہ در اصل لڑکیوں کی تعلیم کی غرض سے لکھی گئی لیکن اس کے ضمن میں کچھ ایسے فقہی مسائل بھی اس میں بڑھادیئے گئے جن کی اکثر و بیشتر بہت زیادہ ضرورت پیش آتی ہے۔ ان کتابوں کے مقابلہ میں اس زمانہ میں دوسری شاید ہی ایسی کوئی کتاب ہو، یہ کتاب اتنی زیادہ مرتبہ شائع کی گئی ہے جن کو شمار کرنا ممکن نہیں۔ *حلیہ اور وضع قطع* آپ کی شکل و صورت بہت ہی نورانی تھی، رنگ کے اعتبار سے سفید مگر سرخی مائل تھے۔ قد کے اعتبار سے مردوں میں درمیانہ قد کے تھے۔ آپ کا لباس عمدہ ہوتا مگر ان میں زیادتی، خوبصورتی اور اسراف نہ ہوتا۔ شیریں زبان، لوگوں سے تعلق بہت عمدہ تھا جس میں بے تکلفی بھی ہوتی، ساتھ ہی رعب بھی ہوتا، وقار، سنجیدگی اور وزن بھی ہوتا، مقولے، اشعار دلچسپ واقعات آپ کو بہت زیادہ محفوظ تھیں، جابجا اپنے اقوال و مواعظ میں آیات قرآنیہ کو بھی بر وقت دلیل کے طور پر ذکر فرماتے۔ آپ مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کے اشعار اپنے مواعظ اور مجلسوں میں بہت ہی مناسبت کے ساتھ پیش کرکے اپنی بات کو مدلل فرماتے۔ لوگوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتے اور بہت زیادہ خیال کے ساتھ حق داروں کے حقوق کو ان تک پہنچانے اور لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات کو درست رکھنے کا پورا خیال رکھتے، ان کاموں کو انجام دینے میں ذرہ برابر سستی یا غفلت برداشت نہ کرتے۔ آپ نے سنہ ۱۳۳۶ھ کی ۱۶ رجب کو وفات پائی، اس وقت آپ کی عمر بیاسی (۸۲) برس ہوچکی تھی۔ آپ تھانہ بھون میں ہی دفن فرمائے گئے۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎ نہ لالچ دے سکیں ہر گز تجھے سکوں کی جھنکاریں ترے دستِ توکل میں تھیں استغنا کی تلواریں جلالِ قیصری بخشا جمالِ خانقاہی کو سکھائے فقر کے آداب تو نے بادشاہی کو کہیں مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستورِ مے خانہ اللہ تعالیٰ اس مقالے کو قبول فرمائیں اور اُمتِ مسلمہ کے لیے نافع اور احقر کے لیے صدقۂ جاریہ بنائیں اور ہم سب کو حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

*اہل السنہ والجماعۃ بالاتفاق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنه کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔* *آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح ان سے کیا تھا اس لیے آپ کو "ذو النورین" دو نور والے کہا جاتا تھا۔* *احادیث کے اندر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کی بشارت،ان کی شہادت کی خبر ،ان کی حیاداری،سخاوت،جمع قرآن اور متعدد فضائل مذکور ہیں۔* مفتی سید عدنان کاکا خیل

حضرت بنوری علیہ الرحمہ نے فرمایا: اگر دینی مدرسہ دنیا کے لئے بنانا ہے تو آخرت کا سب سے بڑا عذاب ہے اور اگر آخرت کے لئے بنانا ہے تو دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے۔ مدرسہ قائم کرنے کے بعد جو مشکلات سامنے آئیں اگر ان کا پہلے سے احساس ہوتا تو مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ نہ کرتا۔ (ص:200)

فرمایا کہ *لوگ معصیت پر بہت دلیر ہو جاتے ہیں*، اس کی *نحوست سے تمام امراضِ روحانی پیدا ہوتے ہیں*، *نورانیتِ قلب سے جاتی رہتی ہے* اور *ظلمت بڑھ جاتی ہے*۔ تو *معاصی میں بڑی ہی ظلمت اور تاریکی ہے*، *اپنی ذات کے اعتبار سے بھی، اور آثار کے اعتبار سے بھی*۔ *حدیثوں میں اس کی تائید موجود ہے*۔ *جنابِ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں*: *جو کوئی گناہ کرتا ہے، اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ پیدا ہو جاتا ہے*۔ *اگر بندہ خلوص سے توبہ کر لیتا ہے، تو حق تعالیٰ اس دھبہ کو قلب سے صاف فرما دیتے ہیں*۔ *اگر توبہ نہیں کرتا، اور اس گناہ کو پھر کرتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے، تو وہ دھبہ پھیلنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ سارے قلب کو محیط ہو جاتا ہے۔* حق تعالیٰ فرماتے ہیں: *كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ* (ہرگز ایسا نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ بیٹھ گیا ہے) اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ هر گُنه زنگیست بر مِرآتِ دل، دل شود زین زنگها خوار و خَجِل چون زیادت گشت دل را تیرگی، نَفْسِ دون را بیش گردد خِرَدی *حکیم الامت مجددالملت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ* 📖 *ماخوذ از: الافاضات الیومیہ جلد 1 ملفوظ 42*

*بچوں کی تربیت کی چھوٹی سی مگر زبردست بات* "جیسے موبائل چارج کرتے ہیں ، ویسے بچوں کو بھی ’توجہ‘ سے چارج کریں !" *جیسے موبائل ہر رات چارج نہ کرو تو اگلے دن کام کا نہیں رہتا، ویسے ہی بچہ اگر روز تھوڑی سی توجہ، محبت، اور حوصلہ افزائی نہ پائے… تو اگلے دن وہ ضدی، بیزار یا چڑچڑا ہو سکتا ہے۔* 📌 *عملی مثال* : جب بچہ آ کر بے کار سی بات بھی سنائے کہ "امی! میں نے ایک چیونٹی دیکھی!" تو فوراً موبائل بند، فیس ٹو فیس آن! ہنس کر، آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیں: "*واقعی؟ کیا کر رہی تھی وہ چیونٹی*؟ واہ بیٹا! تم کتنے مشاہدہ کرنے والے ہو!" *نتیجہ*: *بچہ سمجھے گا کہ وہ اہم ہے، سنا جاتا ہے، تو وہ ماں کے قریب ہوگا، باہر کی دنیا کے جھوٹے دلاسے نہیں ڈھونڈے گا۔* *چھوٹی سی بات، مگر تربیت میں بڑا فرق ڈالتی ہے!*

✨❤️ *اللہ سے محبت کریں* ▫️زندگی کاایک اصول بنالیں ہر خوشی ہر غم کا پہلا ہم راز اللہ کو بنائیں ۔۔اللہ سے باتیں کریں، اللہ کو دوست بنائیں❕ ▫️کیونکہ اللہ جسے تھام لے اور جو اللہ کی رسی تھام لے ، تو اللہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا❕ ▫️اور لوگ تو بہت کچھ توڑ جاتے ہیں (دل، امیدیں، خواہشیں......نجانے کیا کچھ) مگر اللہ تو محبت نبھاتا ہے❕ _اللہ سے باتیں کر کے تو دیکھیں_✨

*میرے استاذ محترم مفتی یوسف صاحب تاولی حفظہ اللہ نے دوران درس ایک واقعہ سنایا بغور پڑھیں* ایک مرتبہ میرا صابر کلیریؒ کے مزار پر جانا ہوا وہاں متولی حضرات کو جب پتہ چلا دیوبند سے ایک بہت بڑے مفتی صاحب آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے میرا پر جوش استقبال کیا، حضرت کی قبر پر گیا ایصال ثواب کر کے جب واپس ہونے لگا تو متولی صاحب نے بڑی عاجزی و انکساری اور احترام کے ساتھ درخواست کی حضرت برکتًا ہمارے دسترخوان پر تشریف لے آئیں، میں نے بخوشی قبول کیا، حضرت نے آگے فرمایا جب میں آنے لگا تو میں نے ان متولی صاحب سے تین سوال کئے، سوال نمبر: ۱۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی؟ ان صاحب نے جواب دیا جی بالکل اور جنکا یہ عقیدہ نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ سوال نمبر: ۲۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی؟ ان صاحب نے پھر وہی جواب دیا، سوال نمبر: ۳۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کل قیامت کے دن اپنے امتیوں کے لئے سفارش کرینگے؟ ان صاحب نے بڑی تاکید کے ساتھ وہی جواب دیا، آگے حضرت فرماتے ہیں میں نے ان سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عالم الغیب ہیں پھر وحی کی کیا ضرورت تھی؟، آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو حاضر و ناظر ہیں پھر معراج کی کیا ضرورت تھی؟، آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو خود مختار ہیں تو پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے؟، حضرت نے فرمایا وہ شخص ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ یہ تین عقائد ایسے ہیں جن میں بریلوی حضرات نے بہت ہی زیادہ افراط سے کام لیا ہے، اور ہمارے بزرگوں نے ان کے غلط عقائد کو چٹکیوں میں تار تار کر دیا۔ عبدالماجد قاسمی

اگر کوئی شخص آپ کو تحریری طور پر سلام لکھ کر بھیجے تو اس کا بھی جواب دینا واجب ہے البتہ یہ جواب لکھ کر دینا ضروری نہیں بلکہ خواہ لکھ کر جواب دیں یا صرف زبانی جواب پر اکتفا کریں دونوں ہی درست ہیں۔ (تکملہ فتح الملہم، احسن الفتاویٰ)

نظامتِ مظاہر علوم: دیواریں خاموش، سوالات گویا
