
✍️علمی مضامین وارشاداتِ اکابر 📚
March 1, 2025 at 12:28 PM
*کیا مروجہ تبلیغی جماعت کے منکرات پر رد کرنا امت کی اجتماعیت کو توڑنا ہے؟*
تو سوال یہ ہے کہ آیا اتحاد مطلقا مطلوب ہے یا کچھ حدود و قیود کی رعایت بھی ضروری ہے؟
اگر کہو مطلقا مطلوب ہے تو بریلویوں رافضیوں اور قادیانیوں سے بھی اتحاد کر لیں تاکہ امت میں توڑ نہ ہو جوڑ ہی جوڑ ہو جائے *فما ھو جوابكم في هذه الفرق المبتدعة فهو جوابنا في جماعة التبليغ المروجة.*
اور اگر اتحاد مطلوب تو ہے لیکن علی الاطلاق نہیں بلکہ کچھ حدود و قیود ضروری ہیں تو جن حدود و قیود کی وجہ سے بریلوی اور رافضی سے اتحاد کي پرواہ کئے بغیر ہمارے اکابرین نے انکو بدعتی قرار دیا تو اگر انہیں حدود و قیود کی وجہ سے مروجہ تبلیغی جماعت سے بھی۔ اختلاف کیا جائے تو اسمیں اجتماعیت کے توڑنے کا الزام محل نظر ہے۔
*حدود و قیود*
مختصر الفاظ میں لکھا جائے تو اتحاد کی حد یا بنیاد قرآن کی روشنی میں اعتصام بحبل اللہ ہے اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں کتاب اللہ اور سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
اس آیت میں اللہ تعالی نے تفرقہ سے منع تو کیا لیکن اسکا عطف اعتصام بحبل اللہ پر کیا یعنی اتحاد وہ مطلوب ہے جو اعتصام بحبل اللہ کو متضمن ہو اور اسکے برخلاف *وہ اتحاد جسمیں نفس اتحاد کی اہمیت اتنی بڑھا دی جائے که اعتصام بحبل اللہ ہی معطل ہو کر رہ جائے تو ایسا اتحاد نہ مامور ہے نہ مطلوب*
خلاصہ یہ کہ اتحاد قرآن و سنت کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ الحاد و بدعت کي بنياد پر، نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جو لوگ قرآن و سنت اور اعتصام بحبل اللہ سے دور جاتے ہیں وہی لوگ اصل میں شذوذ اختیار کر کے پوری جماعت سے علیحدہ ہوتے ہیں تو حق تو یہ تھا کہ انکو کہا جائے کہ تم قرآن و سنت کی طرف واپس آؤ جبکہ ہو کیا رہا ہے کہ جو علماء انہیں اعتصام بحبل اللہ کی طرف بلانے میں لگے ہیں انہیں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ تم امت میں توڑ پیدا کر رہے ہو۔
جبکہ انصاف کی نظر سے دیکھنے والے بتا دینگے کہ جو لوگ قرآن و سنت سے دور جا رہے ہیں اصل توڑ کا ذریعہ وہی لوگ ہیں اور انکے ساتھ جوڑ بر قرار رکھنے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ باقی سب بھی اعتصام بحبل اللہ سے محروم ہو جائیں۔ اسلئے جوڑ کو برقرار تو رکھا جائے لیکن اس وقت تک جب تک اعتصام بحبل اللہ کا قیام ممکن ہو اور اگر جوڑ کی آڑ میں قرآن و سنت پر زد پڑے اور قرآن و سنت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگے تو ایسے موقع پر قرآن و سنت کو سینے سے لگانا ہی شریعت کا تقاضہ ہے ورنہ خبیث و طیب کا خلط لازم آئے گا جو کہ لیميز الله الخبيث من الطيب کی رو سے ممنوع ہے۔
والله أعلم بالصواب۔ و فوق كل ذي علم عليم.
مفتي ارشد دہلی والا۔
(۲۲) فروري ۲۰۲۵)