
Abu Muhammad ابو محمد
February 21, 2025 at 05:00 AM
https://whatsapp.com/channel/0029VabxOIZI1rcmDWgjF229
کمبھ میلہ: ایک منظر، دو زاویے
از:محمد عاشق پُھلتی ندوی
جامعہ امام شاہ ولی الله اسلامیہ پھلت مظفر نگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندی کے کنارے لاکھوں انسان، برہنہ ونیم برہنہ، ہاتھوں میں برتن، ماتھوں پر تلک، عقیدت میں سر جھکائے، مقدس پانی میں اشنان کر رہے ہیں۔ وہ اپنے گناہوں کو دھونے کے لیے، اپنے دیوتاؤں کو راضی کرنے کے لیے، اپنی تقدیر بدلنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ یہ منظر کمبھ میلے کا ہے، جہاں برادرانِ وطن اپنی عقیدے کے مطابق روحانی سکون کی تلاش میں ہیں۔ مگر کیا وہ واقعی وہی روشنی پا رہے ہیں جس کی انہیں تلاش ہے؟کیا وہ واقعی حق کے متلاشی ہیں؟
دوسری طرف ہم ہیں— طلبہ، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں سالانہ امتحان دے کر اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ٹرین سے ہماری ٹکٹیں تو ہیں، مگر کمبھ میلے کی بے پناہ بھیڑ کی وجہ سے سیٹیں میسر نہیں۔ ٹرینوں میں دھکم پیل ہے، بسیں کمبھ کی خدمت میں مصروف ہیں، ساری بسوں کا رخ (الٰہ آباد) پریاگ راج کی طرف ہے اس کے باوجود حکومت انتظام سنبھالنے میں ناکام۔ سفر ایک آزمائش بن گیا ہے، مگر یہ آزمائش ہمیں ایک اور حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے—یہاں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو حقیقت کی روشنی سے محروم ہیں، جو حق کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، اور ہم جو حق کو جانتے ہیں، ان تک وہ روشنی پہنچانے میں کہاں کھڑے ہیں؟
یہ ہجوم صرف انسانوں کا نہیں، یہ سوالوں کا بھی ہجوم ہے۔ ان آنکھوں میں جو امید نظر آتی ہے، وہ اصل میں اندھی تقلید کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ کوئی اپنے دیوتا کو دودھ سے نہلا رہا ہے، کوئی اشلوک پڑھ کر مقدس دریا میں غوطے لگا رہا ہے، اور کوئی دور کہیں جنگل کی تنہائی میں بیٹھا تپسیا کر رہا ہے، مگر دل کی خلش ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ، وہ چین، وہ اطمینان، وہ یقین جو "ایاک نعبد و ایاک نستعین" کے سجدے میں نصیب ہوسکتا ہے، وہ انہیں میسر نہیں آتا۔زندگی بھر کا سفر انہیں منزل سے ہم کنار نہیں کرا پاتا۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم نے خیر امت ہونے کا فرض اداء کیا؟ کیا ہم نے اسلام کی روشنی کو ان تک پہنچانے کا کوئی اہتمام کیا؟ یا ہم صرف اپنے مسائل میں الجھے رہے اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی تاریکی کو نظر انداز کرتے رہے؟
پیارے نبی کریم ﷺ کو جب قریش نے جھٹلایا، تو آپ ﷺ نے طائف کا رخ فرمایا ، دعوت کے چراغ کو لے کر اندھیروں کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ سفر کیا،پتھروں سے لہولہان ہوگئے، مگر امت کی ہدایت کی فکر سے پیچھے نہ ہٹے۔ لیکن ہم، جو ان کے امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کیا کبھی اس درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا کبھی سوچتے ہیں کہ ہمارے برادرانِ وطن کتنی بھاری قیمت چکا رہے ہیں صرف اس لیے کہ ان تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا؟وہ لاکھوں کروڑوں خداؤں کو منانے میں لگے ہیں۔
تلخ نوائی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ہماری مسجدیں آباد ہیں مگر دل ویران۔ تقاریر میں جذبہ ہے مگر عمل ندارد۔ایمان کا دعویٰ ہے پر یقین سے سروکار نہیں۔
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
ہمیں ایک لمحے کے لیے رک کر سوچنا ہوگا کہ
قیامت کے دن ہمارے ہی علاقے کے وہ لوگ، جو ہمارے پڑوس میں رہتے تھے، ہماری طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھیں گے اور شکوہ کریں گے
تمہارے پاس حق کی روشنی تھی، اور ہم اندھیروں میں بھٹکتے رہے؟ تم نے ہمیں کبھی بتایا کیوں نہیں؟ ایک بار، صرف ایک بار، اگر تم نے ہمیں حقیقت دکھائی ہوتی، تو شاید آج ہمارا انجام یہ نہ ہوتا!
یہ الفاظ بجلی کی طرح ہمارے دل پر گریں گے۔ زبان گنگ، چہرہ شرمندگی سے جھک جائے گا۔ نگاہیں آٹھ نہیں پائیں گی، ہم پلٹنا چاہیں گے، مگر وقت ختم ہو چکا ہوگا۔ اب صرف پچھتاوا ہوگا، وہ پچھتاوا جو قیامت کے دن روح کو چیر کر رکھ دے گا۔
کیا ہم چاہتے ہیں کہ یہ منظر حقیقت بن جائے؟ یا آج ہی اپنی ذمہ داری کو پہچان کر برادرانِ وطن تک دعوتِ حق پہنچائیں؟ فیصلہ ہمیں ابھی کرنا ہوگا، کیونکہ کل کا کوئی اعتبار نہیں۔یہی وقت ہے جاگنے کا۔ ہمیں دعوت کے شعور کو زندہ کرنا ہوگا۔ یہ کام کسی ایک فرد کا نہیں، پوری امت کا ہے۔ ہمیں مسجدوں کے ساتھ ساتھ گلیوں، محلوں اور بازاروں میں حکمت کے ساتھ اسلام کا تعارف پیش کرنا ہوگا۔ محبت، شفقت اور حسنِ سلوک کے ذریعے برادرانِ وطن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ جس حقیقت کو وہ صدیوں سے تلاش کر رہے ہیں، وہ ان کے قریب ہے، بس ایک قدم کا فاصلہ ہے—صرف لا الہ الا اللہ۔زبان سے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق۔
کمبھ میلے کا یہ منظر ہمیں محض سفر کی مشکلات سے نپٹنا نہیں سکھا رہا، بلکہ یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری کوتاہیوں کا عکس دکھا رہا ہے۔ یہ ایک موقع ہے کہ ہم اللہ سے عہد کریں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں گے، انسانیت کی بھلائی کے لیے جئیں گے، اور اپنے نبی ﷺ کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں گے۔کیونکہ یہ سفر تو مختصر ہے جبکہ آخرت کا سفر طویل ہے۔
کاش کہ یہ بھیڑ ہمیں جھنجھوڑ دے، کاش کہ یہ ہجوم ہمارے دل میں امت کی فکر پیدا کر دے، اور کاش کہ یہ سفر ہمیں صرف منزل پر ہی نہیں، اپنے مقصد پر بھی لے جائے!
جامعہ امام شاہ ولی الله اسلامیہ پھلت کے طلباء کو سالانہ امتحان میں شرکت کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ سے واپسی پر۔
👍
1