
🌹🌹طارق محمود رضوی🌺🌺
February 16, 2025 at 07:19 AM
> *آیت مقصد تخلیق کو بغیر ما کے پڑھنے کا حکم*
> `از نائب قاضی گجرات خلیفہ سیدی حضور محدث کبیر وسیدی حضور قائد ملت حفظہما اللہ تعالیٰ سیدی مفتی مزمل برکاتی مصباحی صاحب`
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ...
کیا فرماتے ہیں استاذ محترم مفتی مزمل صاحب قبلہ کہ جو شخص یہ کہے کہ " وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ " میں " ما" کے ساتھ پڑھیں یا اس کے بغیر، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔
*﷽*
*`الجواب بعون الوهاب:`*
جس نے مذکورہ قول کیا ، وہ زبان وبیان سے بالکل لا علم معلوم ہوتا ہے ، ائمۂ لغت کا اس پر اجماع ہے کہ نفی کا استثنا اثبات اور اثبات کا استثنا نفی کا افادہ کرتا ہے کیوں کہ استثنا کا مفہوم ہی یہ ہوتا ہے کہ ما سبق میں جو حکم لگایاگیا اس سے ما بعد خارج ہے۔ لہذا اگر ما سبق میں حکم مثبت ہے تو اس سے مابعد خارج تبھی ہوگا جب اس کے لیے وہ حکم ثابت نہ ہو اور جب حکم مثبت صادق نہ ہوگا تو لا محالہ حکم منفی وہاں صادق ہوگا ، یہی حال اس وقت ہے کہ ما قبل کے لیے حکم منفی ثابت ہو۔
چنانچہ نحو کی بنیادی کتاب *"ہدایۃالنحو"* میں ہے:
`"المستثنى لفظ يذكر بعد إلاّ وأخواتها ليعلم أنه لا ينسب إليه ما نسب إلى ما قبلها".` یعنی مستثنی سے مراد وہ لفظ جو الاّ اور اس کے ہم معنی کلمات کے بعد مذکور ہو یہ بتانے کے لیے کہ اس کی طرف وہ حکم منسوب نہیں جو اس کے ما قبل یعنی مستثنی منہ کی طرف منسوب ہے۔ (ہدایۃ النحو، ص: 40، مجلس برکات)
اس کی شرح *"درایۃ النحو"* میں ہے:
`"عرفه الشيخ الرضي بالمذكور بعد إلاّ وأخواتها مخالفا لما قبلها نفيا وإثباتا".` یعنی شیخ رضی نے مستثنی کی تعریف اس طرح کی کہ جو الّا اور اس کے نظائر کے بعد مذکور ہو اور نفی واثبات میں اپنے ما قبل کے مخالف ہو۔ (درایۃ النحو، ص: 135، کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)
اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
`"قال الراغب: الاستثناء رفع ما يوجبه عموم سابق".` یعنی مفردات راغب میں ہے کہ استثنا کہتے ہیں جو حکم عام ما قبل سے مستفاد ہوتا ہے، اسے اٹھادینا۔ (رد المحتار: 4/624، باب التعلیق، زکریا بک ڈپو)
اور بحر العلوم حضرت علامہ عبد العلی فرنگی محلی رحمۃاللہ علیہ *"فواتح الرحموت"* میں فرماتے ہیں:
`"النقل من أهل العربية أنه من النفي إثبات ومن الإثبات نفي".` یعنی ارباب لغت سے منقول ہے کہ استثنا نفی سے اثبات اور اثبات سے نفی ہے۔ (فواتح الرحموت: 1/335، بحث استثنا)
اور یہی مذہب محققین حنفیہ و جمہور فقہا کے نزدیک مختار ہے۔
چنانچہ *فواتح الرحموت* میں ہے:
`"(الاستثناء من الإثبات نفي، وبالعكس) أي من النفي إثبات (عند الجمهور) من الشافعية والمالكية والحنابلة (وطائفة من الحنفية) المحققين، (ومنهم) الإمام (فخر الإسلام) والإمام شمس الأئمة والقاضي الإمام أبو زيد وغيرهم من المحققين، (وفي الهداية: لو قال: "ما أنت إلا حر" عتق، لأن الاستثناء من النفي إثبات على وجه التأكيد) وإنما صار مؤكدا لكونه مقصورا عليه دون غيره".` یعنی جمہور شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ اور محققین احناف کے نزدیک جن میں امام فخر الاسلام بزدوی، امام شمس الائمہ سرخسی اور امام ابو زید دبوسی وغیرہم ہیں، ایجاب سے استثنا مفیدِ سلب اور سلب سے استثنا مفید ایجاب ہے۔ ہدایہ میں ہے کہ اگر کسی نے اپنے غلام سے کہا کہ "تو نہیں مگر آزاد" تو وہ آزاد ہوجائےگا اس لیے کہ استثنا سلب سے ایجاب کا افادہ کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں حصر بھی پیدا کرتا ہے کہ حکم ِآزادی اسی غلام کے لیے ثابت ہوگی نہ کہ اور غلاموں کے لیے ۔(فواتح الرحموت: 1/334)
بلکہ سیدنا امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ *"فتح القدیر"* میں فرماتے ہیں:
`"هذا هو الحق المفهوم من تركيب الاستثناء لغة، وهو خلاف قول المشايخ في الأصول، وقد بينّاه في الأصول، وأنه لا ينافي بقولهم: الاستثناء تكلم بالباقي بعد الثُنيا".` یعنی یہی قول حق ہے کہ استثنا کی ترکیب سے لغتاً یہی مفہوم ہوتا ہے اور ہمارے مشائخ نے کتاب اصول میں اس کے بر خلاف کہا ہے ، میں نے "تحریر الاصول" میں اسے وضاحت سے بیان کیا ہے اوریہ اہل عربیت کے اس قول کے منافی نہیں کہ استثنا کا حاصل ما وراے مستثنی باقی افراد کا تلفظ ہے ۔ (فتح القدير، کتاب العتاق : 4/447)
پس جب کہ استثنا کی حقیقت واضح ہوگئی تو آیت مذکورہ کی طرف چلیں ، آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے کہ میں نے جن و انس کو پیدا نہیں مگر اپنی عبادت کے لیے ،اس میں ما نافیہ ہے اور الاً حرف استثنا ہے اور گزرا کہ نفی سے استثنا موجب اثبات ہے علی سبیل التاکید تو معنی یہ ہوا کہ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا یعنی ان کی تخلیق کا مقصدِ اہم واعظم عبادتِ الہی ہے وبس ـــــاور بغیر ما کے جب اس آیت کو پڑھا جائے تو ترجمہ اس طرح ہوگا کہ میں نے جن و انس کو پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے اور یہ اثبات سے استثنا ہے اور گزرا کہ اس صورت میں نفی مستفاد ہوتی ہے تو مفہوم یہ ہوگا کہ میں نے جن و انس کو ہرکام کے لیے پیدا کیا سوا اپنی عبادت کے کہ اس کے لیے پیدا نہیں کیا اور یہ معنی؛ مفہومِ سابق کے صریح مناقض ہے اور منشاے تخلیق جن وانس کے بالکل منافی اور آیت قرآنی کی کھلی تحریف ہے۔ لہذا جس نے وہ بات کہی اگر اس فتوے کو پڑھ کر یا سن کر بھی اپنی بات پر مصر رہے تو اب اس پر توبہ و تجدید ایمان اورتجدید نکاح اور تجدید بیعت فرض ہے.
*کتبــــــــــــه*
محمد مزمل البركاتي المصباحي
خادم التدريس والإفتاء بدار العلوم أنوار مدينه، جام كمباليا (غجرات)
17، شعبان المعظم هـ /16، فبراير 2025م
https://whatsapp.com/channel/0029VaEknGm8vd1OtwQRwp0H
❤️
💙
💚
10