
🌹🌹طارق محمود رضوی🌺🌺
1.2K subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

𝐑𝐚𝐦𝐳𝐚𝐧 𝐑𝐚𝐦𝐳𝐚𝐧 𝐀𝐚𝐲𝐚 𝐇𝐚𝐢 𝐑𝐚𝐦𝐳𝐚𝐧 *🌹🌹SABHI MERE PYAARON KO RAMADAN KA PYAARA MAHINA MUBARAK HO*🌹🌹

*تراویح کے نذرانے کی جوازی صورتیں* اصل مسئلہ کو بیان کرنے سے قبل ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے، غلط فہمی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کلام پاک حفظ کرنے کے بعد اسے یاد رکھنے کے لیے تراویح میں کلام پاک سنانا ضروری سمجھا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ جو تراویح نہ سنائے تو اس کے حفظ کرنے کا کیا مطلب! اسی وجہ سے بچیوں کو کلام پاک حفظ کروانے پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تراویح تو سنائیں گی نہیں تو حفظ کا کیا فائدہ! اس کے علاوہ یہ کہ کتنے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا گیا کہ تراویح میں کلام پاک نہ سنائیں تو بھول جائیں گے اور کتنے کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن پاک نہیں سنایا تو بھول گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پورے سال کلام پاک کی تلاوت نہیں کرتے ہیں گویا کہ ان لوگوں کی نظر میں قرآن پاک حفظ کرنے کا مقصد بس تراویح پڑھانا ہے اور تراویح سے نا جانے کیا مقصد ہوتا ہے! بہرحال اس سوچ کو بدلنا چاہیے کہ کلام پاک اسی وقت یاد رہے گا جب قرآن پاک تراویح میں سنایا جائے، کیونکہ ہم بزرگوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی زندگی میں کہیں ہمیں یہ مقصد نظر نہیں آتا ہے، جیسا کہ سیدی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ستر سال کی عمر کے بعد کلام پاک حفظ کیا، غزہ، ملک شام وغیرہ میں کتنی ضعیف ماؤں نے کلام پاک حفظ کیا لہذا ہمیں یہ بات بالکل ذہن سے نکال دینا چاہیے اور قرآن پاک کو یاد رکھنے کے لیے روزانہ اس کی تلاوت کرنا چاہیے اور یہی محبت قرآن کا تقاضا ہے. اب اصل مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں؛ فقیر کے علم میں تراویح کے نذرانے کا جواز کے تین طریقے ہیں؛ *پہلا طریقہ* تو یہ ہے کہ سنانے سے پہلے صاف الفاظ میں حافظ قرآن کہ دے کہ میں کچھ نہیں لوں گا اور سنوانے والے صاف الفاظ میں منع کریں کہ تمہیں کچھ نہیں دیا جائے گا، اس شرط کے بعد وہ کلام پاک سنائیں اور پھر سنوانے والے محبت اور صلہ رحمی کے طور پر جو چاہیں دیں، یہ لینا دینا حلال ہوگا. *دوسرا طریقہ* یہ ہے کہ سنوانے والے وقت اور اجرت کو متعین کرکے مطلق کسی بھی کام پر سنانے والوں کے ساتھ اجارہ کر لیں. مثلا: سنوانے والے حافظ صاحب سے کہیں کہ ہم نے دس دن تک ایک گھنٹے کے لیے یا ستائیس دن تک ایک گھنٹے کے لیے پچیس ہزار روپیوں کے بدلے اپنے کام کے لیے اجارہ میں لیا، حافظ صاحب کہیں: ہم نے قبول کیا، اب یہ سنانے والے متعین وقت میں اتنے دنوں کے لیے ان کے اجیر ہوگئے، وہ جو کام چاہیں لیں، اس اجارے کے بعد سنوانے والے حافظ صاحب سے کہیں کہ آپ تراویح میں کلام پاک سنائیں تو یہ جائز ہوگا اور لینا دینا حلال ہوگا. *(فتاوی رضویہ شریف ج:٨ ص:١٦٠ ق ملخصا)* *تیسرا طریقہ* یہ ہے کہ نماز پنجگانہ یا نماز عشا کی امامت کے لیے ان حافظ صاحب کو مقرر کر لیا جائے جن سے کلام پاک سننا ہے، پھر وہ تراویح بھی پڑھائیں، اب وہ تراویح کی اجرت نہیں بلکہ نماز عشا کی امامت کی اجرت ہوگی، جو بلا شبہ جائز ودرست ہے. *(فتاوی علیمیہ تراویح کا بیان)* ہمارے حفاظ کرام کو چاہیے کہ جب معلوم ہے کہ نذرانہ ملے گا تو کیوں نہ اسے جائز ودرست طریقے سے لیا جائے! اللہ تعالیٰ ہم سب کو سختی سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین ثم آمین طارق محمود رضوی بتاریخ: ۲٤/شعبان المعظم ٥٤٤١ھ مطابق: ٠٦/مارچ ٤٢٠٢ء https://whatsapp.com/channel/0029VaEknGm8vd1OtwQRwp0H

*`مرض عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے`* *`جتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے`* *`دل تپا سوز محبت سے کہ سب میل چھٹے`* *`تپنے کے بعد ہی تو سونا کھرا ہوتا ہے`* *`داغ دل میں جو مزہ پایا ہے نورؔی تم نے`* *`ایسا دنیا کی کسی شے میں مزا ہوتا ہے`*

👆👆👆👆 *`Pehli baar Jaipur ki sar zameen Per Khalifa-e- Sayyidi Tajushsharia wa Muhaddis Kabeer Sayyidi MUFTI SHAMSHAD AHMAD MISBAHI SAHIB حفظہ اللہ KI LAJWAB TAQREER...`*

> *آپ کی دعا کی ضرورت* > فقیر طارق محمود رضوی اس وقت جےپور کے اسٹیشن پر موجود ہوں، جہاں ارد گرد کا ہجوم اور شور میری ذہنی کیفیت کو مزید بڑھا رہا ہے. گاڑیوں کے اعلان کی آوازیں، لوگوں کی چہل پہل، سب کچھ معمول کی طرح نظر آ رہا ہے، لیکن میری اندر کی دنیا میں ایک عجیب سی بے چینی اور اضطراب چھایا ہوا ہے، دل میں ایک خلا اور ذہن میں ایک افراتفری کا ساماں ہے، جیسے کچھ کمی ہو، جیسے کچھ کھو گیا ہو اور دل کسی انجانے بوجھ تلے دبا جا رہا ہو. میرے ذہن میں *جامعہ نوریہ محمدیہ* کا سالانہ اجلاس گونج رہا ہے، جس میں قاضی گجرات سید سلیم باپو اور خلیفۂ سیدی حضور تاج الشریعہ مفتی شمشاد احمد مصباحی صاحب قبلہ کی تشریف آوری ہوئی تھی. سیدی مفتی صاحب قبلہ کی وہ لاجواب تقریر، جس میں انہوں نے حق و باطل کا فرق اس انداز میں واضح کیا کہ ہر سننے والا خواص سے لے کر عوام تک محظوظ ہوئے، وہ لمحے، جب حضرت مفتی صاحب قبلہ کی باطل شکن، حق کی گونجتی صدا نے سامعین کے دلوں کو گرما دیا تھا، جب علم و عرفان کے دریا بہا دیے گئے تھے، جب باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا تھا، اور سنیوں کے دلوں کو راحت مل رہی تھی، مگر ابھی میرا دل سکون سے خالی ہے. دل میں بے چینی کی لہر ہے، اور دماغ میں ایک گھٹن کا احساس، جیسے اندر کوئی طوفان برپا ہو. یہ کیسا اضطراب ہے؟ یہ کیسی گھٹن ہے جو سینے میں پیوست ہو چکی ہے؟ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ بے چینی و اضطراب کی اصل وجہ گناہوں کی کثرت ہوتی ہے، کیا میرا دل اسی زنگ آلود کیفیت میں گرفتار ہے؟ کیا میں اپنی ہی نافرمانیوں کے سبب اس بے سکونی میں مبتلا ہوں ہمارے بزرگوں کا فرمان یاد آتا ہے کہ بے چینی اور اضطراب کا سبب گناہوں کی کثرت ہے. شاید یہی وہ گناہ ہیں جو دل کی پاکیزگی کو متاثر کرتے ہیں، اور روح کی سکونت کو چھین لیتے ہیں. دل کی آنکھیں آنسو بہانا چاہتی ہیں تاکہ روح کا بوجھ ہلکا ہو، لیکن دل جیسے پتھر کی مانند ہو گیا ہے، جو کچھ بھی نہیں گوارا کرتا شاید یہ گناہوں کی اثرات ہیں، جو دل کو اتنا سخت اور بے حس کر دیتے ہیں کہ انسان اپنی حالت کو سمجھ نہیں پاتا. الٰہی! میں کس طرف جا رہا ہوں؟ یہ دل کیوں اس قدر بھٹک چکا ہے؟ مجھے وہ ایمان و یقین عطا فرما، جو تیرے محبوب بندوں کا سرمایہ تھا. میری روح کی بے قراری کو سکون میں بدل دے، میرے دل کی سیاہی کو مٹا دے، میری زندگی کو گناہوں کے اندھیروں سے نکال کر توبہ کے نور میں رنگ دے. انہی خیالات کے درمیان، سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا وہ شعر دل پر ضرب لگا رہا ہے: *`ایمان پہ موت بہتر او نفس`* *`تیری ناپاک زندگی سے`* یہ شعر میرے دل میں ایک زوردار گونج پیدا کر رہا ہے، جیسے سیدی اعلی حضرت نے مجھے ایک آئینہ دکھایا ہو، جہاں میں اپنی ناپاکیوں کو دیکھ کر اپنی حالت پر افسوس کر رہا ہوں. یہ شعر میری کیفیت کی عکاسی کرتا ہے، اور میں جانتا ہوں کہ جب تک ایمان کی طاقت کو اپنی زندگی میں مضبوطی سے نہیں اپناؤں گا، یہ اضطراب اور بے چینی کبھی ختم نہیں ہوگی. یا اللہ! مجھے وہ زندگی عطا کر، جو تیرے دین کی روشنی میں بسر ہو، اور جب اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں، تو میرا خاتمہ مسلک اعلی حضرت پر ہو! آمين ثم آمین *`حد بھر کا زیاں کار سیہ کار ہوں میں`* *`امت میں بڑا سب سے گنہگار ہوں میں`* *`پر دل کو ہے اپنے اس سے ڈھارس`* *`فرماتا ہے اللہ کہ غفار ہوں میں`* https://whatsapp.com/channel/0029VaEknGm8vd1OtwQRwp0H

> *آیت مقصد تخلیق کو بغیر ما کے پڑھنے کا حکم* > `از نائب قاضی گجرات خلیفہ سیدی حضور محدث کبیر وسیدی حضور قائد ملت حفظہما اللہ تعالیٰ سیدی مفتی مزمل برکاتی مصباحی صاحب` السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ... کیا فرماتے ہیں استاذ محترم مفتی مزمل صاحب قبلہ کہ جو شخص یہ کہے کہ " وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ " میں " ما" کے ساتھ پڑھیں یا اس کے بغیر، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ *﷽* *`الجواب بعون الوهاب:`* جس نے مذکورہ قول کیا ، وہ زبان وبیان سے بالکل لا علم معلوم ہوتا ہے ، ائمۂ لغت کا اس پر اجماع ہے کہ نفی کا استثنا اثبات اور اثبات کا استثنا نفی کا افادہ کرتا ہے کیوں کہ استثنا کا مفہوم ہی یہ ہوتا ہے کہ ما سبق میں جو حکم لگایاگیا اس سے ما بعد خارج ہے۔ لہذا اگر ما سبق میں حکم مثبت ہے تو اس سے مابعد خارج تبھی ہوگا جب اس کے لیے وہ حکم ثابت نہ ہو اور جب حکم مثبت صادق نہ ہوگا تو لا محالہ حکم منفی وہاں صادق ہوگا ، یہی حال اس وقت ہے کہ ما قبل کے لیے حکم منفی ثابت ہو۔ چنانچہ نحو کی بنیادی کتاب *"ہدایۃالنحو"* میں ہے: `"المستثنى لفظ يذكر بعد إلاّ وأخواتها ليعلم أنه لا ينسب إليه ما نسب إلى ما قبلها".` یعنی مستثنی سے مراد وہ لفظ جو الاّ اور اس کے ہم معنی کلمات کے بعد مذکور ہو یہ بتانے کے لیے کہ اس کی طرف وہ حکم منسوب نہیں جو اس کے ما قبل یعنی مستثنی منہ کی طرف منسوب ہے۔ (ہدایۃ النحو، ص: 40، مجلس برکات) اس کی شرح *"درایۃ النحو"* میں ہے: `"عرفه الشيخ الرضي بالمذكور بعد إلاّ وأخواتها مخالفا لما قبلها نفيا وإثباتا".` یعنی شیخ رضی نے مستثنی کی تعریف اس طرح کی کہ جو الّا اور اس کے نظائر کے بعد مذکور ہو اور نفی واثبات میں اپنے ما قبل کے مخالف ہو۔ (درایۃ النحو، ص: 135، کتب خانہ مجیدیہ، ملتان) اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: `"قال الراغب: الاستثناء رفع ما يوجبه عموم سابق".` یعنی مفردات راغب میں ہے کہ استثنا کہتے ہیں جو حکم عام ما قبل سے مستفاد ہوتا ہے، اسے اٹھادینا۔ (رد المحتار: 4/624، باب التعلیق، زکریا بک ڈپو) اور بحر العلوم حضرت علامہ عبد العلی فرنگی محلی رحمۃاللہ علیہ *"فواتح الرحموت"* میں فرماتے ہیں: `"النقل من أهل العربية أنه من النفي إثبات ومن الإثبات نفي".` یعنی ارباب لغت سے منقول ہے کہ استثنا نفی سے اثبات اور اثبات سے نفی ہے۔ (فواتح الرحموت: 1/335، بحث استثنا) اور یہی مذہب محققین حنفیہ و جمہور فقہا کے نزدیک مختار ہے۔ چنانچہ *فواتح الرحموت* میں ہے: `"(الاستثناء من الإثبات نفي، وبالعكس) أي من النفي إثبات (عند الجمهور) من الشافعية والمالكية والحنابلة (وطائفة من الحنفية) المحققين، (ومنهم) الإمام (فخر الإسلام) والإمام شمس الأئمة والقاضي الإمام أبو زيد وغيرهم من المحققين، (وفي الهداية: لو قال: "ما أنت إلا حر" عتق، لأن الاستثناء من النفي إثبات على وجه التأكيد) وإنما صار مؤكدا لكونه مقصورا عليه دون غيره".` یعنی جمہور شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ اور محققین احناف کے نزدیک جن میں امام فخر الاسلام بزدوی، امام شمس الائمہ سرخسی اور امام ابو زید دبوسی وغیرہم ہیں، ایجاب سے استثنا مفیدِ سلب اور سلب سے استثنا مفید ایجاب ہے۔ ہدایہ میں ہے کہ اگر کسی نے اپنے غلام سے کہا کہ "تو نہیں مگر آزاد" تو وہ آزاد ہوجائےگا اس لیے کہ استثنا سلب سے ایجاب کا افادہ کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں حصر بھی پیدا کرتا ہے کہ حکم ِآزادی اسی غلام کے لیے ثابت ہوگی نہ کہ اور غلاموں کے لیے ۔(فواتح الرحموت: 1/334) بلکہ سیدنا امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ *"فتح القدیر"* میں فرماتے ہیں: `"هذا هو الحق المفهوم من تركيب الاستثناء لغة، وهو خلاف قول المشايخ في الأصول، وقد بينّاه في الأصول، وأنه لا ينافي بقولهم: الاستثناء تكلم بالباقي بعد الثُنيا".` یعنی یہی قول حق ہے کہ استثنا کی ترکیب سے لغتاً یہی مفہوم ہوتا ہے اور ہمارے مشائخ نے کتاب اصول میں اس کے بر خلاف کہا ہے ، میں نے "تحریر الاصول" میں اسے وضاحت سے بیان کیا ہے اوریہ اہل عربیت کے اس قول کے منافی نہیں کہ استثنا کا حاصل ما وراے مستثنی باقی افراد کا تلفظ ہے ۔ (فتح القدير، کتاب العتاق : 4/447) پس جب کہ استثنا کی حقیقت واضح ہوگئی تو آیت مذکورہ کی طرف چلیں ، آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے کہ میں نے جن و انس کو پیدا نہیں مگر اپنی عبادت کے لیے ،اس میں ما نافیہ ہے اور الاً حرف استثنا ہے اور گزرا کہ نفی سے استثنا موجب اثبات ہے علی سبیل التاکید تو معنی یہ ہوا کہ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا یعنی ان کی تخلیق کا مقصدِ اہم واعظم عبادتِ الہی ہے وبس ـــــاور بغیر ما کے جب اس آیت کو پڑھا جائے تو ترجمہ اس طرح ہوگا کہ میں نے جن و انس کو پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے اور یہ اثبات سے استثنا ہے اور گزرا کہ اس صورت میں نفی مستفاد ہوتی ہے تو مفہوم یہ ہوگا کہ میں نے جن و انس کو ہرکام کے لیے پیدا کیا سوا اپنی عبادت کے کہ اس کے لیے پیدا نہیں کیا اور یہ معنی؛ مفہومِ سابق کے صریح مناقض ہے اور منشاے تخلیق جن وانس کے بالکل منافی اور آیت قرآنی کی کھلی تحریف ہے۔ لہذا جس نے وہ بات کہی اگر اس فتوے کو پڑھ کر یا سن کر بھی اپنی بات پر مصر رہے تو اب اس پر توبہ و تجدید ایمان اورتجدید نکاح اور تجدید بیعت فرض ہے. *کتبــــــــــــه* محمد مزمل البركاتي المصباحي خادم التدريس والإفتاء بدار العلوم أنوار مدينه، جام كمباليا (غجرات) 17، شعبان المعظم هـ /16، فبراير 2025م https://whatsapp.com/channel/0029VaEknGm8vd1OtwQRwp0H

*اس عظیم الشان محفل میں تشریف لائیں....*

*SAYYIDI HUZOOR QAEID E MILLAT OR SAYYIDI SAYYID HUZOOR GULZAAR E MILLAT KE MUBARAK HATHON SE FAQEER KE SAR PAR IFTA KI BANDHI GAI PYAARI SI DASTAR.* 🌹🌹🌺🌺
