🌹🌹طارق محمود رضوی🌺🌺
🌹🌹طارق محمود رضوی🌺🌺
February 26, 2025 at 01:00 PM
> *تہجد کی نماز کے سلسلہ میں ضروری معلومات* `از: خلیفہ سیدی حضور محدث کبیر وسیدی حضور قائد ملت سیدی مفتی مزمل برکاتی مصباحی صاحب حفظہم اللہ تعالیٰ` چند دنوں قبل واٹس ایپ پر ایک تحریر موصول ہوئی جس میں نماز تہجد کے بارے میں *مشکاۃالمصابیح* اور *مرقاۃ المفاتیح* کے حوالے سے یہ بتایا گیا تھا کہ اگر کسی کو رات میں اٹھنے پر بھروسہ نہ ہو اور وہ بنیت تہجد دو رکعت پڑھ لے خواہ وتر سے قبل یا بعد اور رات میں اس کی آنکھ نہ کھلی تو یہ دو رکعت نماز تہجد کے قائم مقام ہوجائیں گی اور اسے تہجد پڑھنے کا ثواب ملے گا ۔ اس سے قبل کہ اس پر کچھ تبصرہ کیا جائے، زیر بحث حدیث ِ مشکاۃ اور مرقات کی عبارت پیش کردینا مناسب معلوم ہوگا۔ مشکاۃ المصابیح ، باب الوتر ، فصل سوم میں ہے: `وَعَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «إِنَّ هَذَا السَّهَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ، فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَإِنْ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، وَإِلَّا كَانَتَا لَهُ». رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.` یعنی مسند دارمی میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہےکہ حضور ﷺ نے فرمایا : یقینا یہ بے خوابی مشقت وگرانی ہے، لہذا جب تم میں کوئی وتر پڑھے تو چاہیے کہ دو رکعت نفل بھی پڑھ لے کہ اگر رات میں اٹھ سکا تو ٹھیک ورنہ یہ دوگانہ اس کے لیے کافی ہوں گی ۔ (مشکاة المصابيح: 1/401، حديث: 1286) اس کے تحت حضرت علامہ علی قاری فرماتےہیں: `"(إنَّ هَذَا السَّهَرَ) أَي: الَّذِي تَسْهَرُونَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، (فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ) أَيْ: قَبْلَ النَّوْمِ (فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ) أَوْتَرَ هُنَا بِمَعْنَى أَرَادَ، أَيْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، فَلْيُوتِرْ، والرَّكْعَتَانِ قَبْلَهُ نَافِلَةٌ قَائِمَةٌ مَقَامَ التَّهَجُّدِ وَقِيَامِ اللَّيْلِ، (فَإِنْ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ) : وَصَلَّى فِيهِ فَبِهَا، أَيْ أَتَى بِالْخَصْلَةِ الْحَمِيدَةِ، وَيَكُونُ نُورًا عَلَى نُورٍ، (وَإِلَّا) أَيْ: وَإِنْ لَمْ يَقُمْ، أَيْ مِنَ اللَّيْلِ لِغَلَبَةِ النَّوْمِ لَهُ النَّاشِئَةِ عَنْ سَهَرِهِ فِي طَاعَةِ رَبِّهِ (كَانَتَا)، أَيْ: الرَّكْعَتَانِ (لَهُ) ، أَيْ: كَافِيَتَيْنِ لَهُ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ" .ملتقطا.` (مرقاة المفاتيح: 3/957) اب آئیے، متن حدیث پر نظر کرتے ہیں کہ کیا واقعی انھی لفظوں سے یہ حدیث ثابت ہے؟ چوں کہ یہ حدیث مسند دارمی کے حوالہ سے مشکاۃ میں مذکور ہے ، اس لیے عنانِ قلم مسند دارمی کی طرف موڑیں۔ امام دارمی نے مروان بن محمدکی سند سے اس حدیث کو ذکر فرمایا ہے اور اس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں: " وَيُقَالُ: هَذَا السَّفَرُ وَأَنَا أَقُولُ: السَّهَرُ ". یعنی یہاں "السَّهَرَ " کے بجاے "السَّفَرَ " کہا جاتا ہے، مگر میں اسے "السَّهَرَ " ہی پڑھتا ہوں۔ (مسند الدارمي: 395، باب في الركعتين بعد الوتر، حديث:1740، دار البشائر الإسلامية) تو اگر اسے *"هَذَا السَّفَر"* کے ساتھ پڑھا جائے تو اس تقدیر پر معنی یہ ہوگا کہ یہ سفر تعب و مشقت کا باعث ہے، اس لیے تم وتر کے ساتھ دو گانہ صلاۃ اللیل کی نیت سے پڑھ لینا کہ اگر دیر رات میں تہجد کےلیے آنکھ نہ کھلی تو یہ دو رکعت اس کے قائم مقام ہوجائیں گی۔ اس صورت میں یہ حکم عام نہ ہوا بلکہ خاص حالت سفر میں پیش آمدہ مشقت و دشواری کے سبب صحابۂ کرام کو بغایت لطف و کرم تخفیف و آسانی کی خاطر حضور ﷺ نے یہ حکم دیا ۔ اب اس کی تحقیق ضروری ہوئی کہ ان دونوں روایات میں سے کون سی روایت راجح ہے؟ تو اس سلسلہ میں حافظ الشان ، شیخ الاسلام علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: `"حَدِيثُ (مي خز طح حب قط) : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ: " إِنَّ السَّفَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ، فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، فَإِنِ اسْتَيْقَظَ، وَإِلا كَانَتَا لَهُ ".` `(مي) فِي الصَّلاةِ: أنا مَرْوَانُ ـ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ ـ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ثَوْبَانَ، بِهِ.` `(خز) فِيهِ: عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، بِهِ.` `(طح) فِيهِ: ثنا فَهْدٌ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، بِهِ.` `(حب) فِي السَّابِعِ وَالسِّتِّينَ مِنَ الأَوَّلِ: أنا ابْنُ قُتَيْبَةَ، ثنا حَرْمَلَةُ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، بِهِ.` `(قط) فِي الصَّلاةِ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْوَرَّاقُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، بِهِ. وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْفَارِسِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ـ هُوَ الدِّمَشْقِيُّ ـ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، بِهِ.` `لَيْسَ فِي أَوَّلِ حَدِيثِ مَرْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ: كُنَّا فِي سَفَرٍ، بَلْ وَقَعَ فِيهِ: إِنَّ هَذَا السَّهَرَ، وَلَعَلَّهُ تَصْحِيفٌ."` (إتحاف المهرة لابن حجر: 3/32، مسند ثوبان، حديث:2485، مجمع الملك فهد) پوری عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کو امام دارمی، امام ابن خزیمہ، امام طحاوی ، امام ابن حبان اور امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے اپنی کتب میں ذکر فرمایا ہے اور سوا امام دارمی کی سند کے ،سب کی سند میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سےیہ حدیث انھی الفاظ کے ساتھ روایت ہے کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، تو حضور نے فرمایا کہ سفر مشقت وتھکاوٹ کا باعث ہے الخ۔ اور شاید " لفظِ"السَّهَرَ" تصحیف ہے۔ مزید برآں حافظ ابن کثیر دمشقی نے "جامع المسانید" میں زیر بحث حدیث کی تخریج مسند بزار اور معجم کبیر طبرانی سے فرمائی ۔ چناچہ فرماتے ہیں: `"رواهُ البزارُ والطبراني من حديث معاوية بن صالح، [عن شريح ابن عبيد] عن عبد الرحمن بن جُبير بن نُفيرٍ، عن أبيه، عن ثوبان".` (جامع المسانيد والسنن لابن كثير الدمشقي: 1 /621-622، حديث:1289) راقم الحروف نے جب ا ن دونوں کتابوں کی طرف مراجعت کی تو ان میں بھی یہ حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے انھی الفاظ کے ساتھ مروی ہے جو مذکورہ چار کتب میں ہے۔ الحاصل، یہ حدیث سات کتب احادیث میں مذکور و ماثور ہے، جن میں سے چھ کتب میں مختلف اسانید سے یہی حدیث حالت سفرکے متعلق مروی ہے، صرف مسند دارمی میں بجاے لفظِ "سفر" لفظ "سہر" مروی ہے، اسی لیے امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس لفظ کو مُصَحَّف یعنی تحریف شدہ فرمایا۔ بلکہ خود اسی مرقات میں، اسی باب کی فصل اول میں فرمایا: `"قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: يُسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ الْمُسَافِرُ، فَقَدْ ذَكَرَ ابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ الْأَمْرَ بِالرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْوَتْرِ لِمُسَافِرٍ خَافَ أَنْ لَا يَسْتَيْقِظَ لِلتَّهَجُّدِ، ثُمَّ رَوَى عَنْ ثَوْبَانَ: «كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا السَّفَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ، فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَإِنِ اسْتَيْقَظَ وَإِلَّا كَانَتَا لَهُ".` یعنی علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حکم میں مسافر داخل نہیں کہ صحیح ابن حبان میں ایسے مسافر کے لیے بعد وتر دو رکعت پڑھنے کا حکم وارد ہوا جسے تہجد کے لیے آنکھ نہ کھلنے کا اندیشہ ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح: باب الوتر، فصل اول، 3/942، حدیث: 1257) لہذا ثابت ہوا کہ لفظ سہرجو مشکاۃ میں دارمی کے حوالہ سے وارد ہے، وہ مُصَحَّف ہے، اصل لفظ سفر ہے اور یہ حکم مسافر کے لیے ہے۔ *أقول وبالله التوفيق:* بلکہ اور دقتِ نظر سے کام لیا جائے تو ان دونوں روایات میں تعارض سرے سےختم ہوجاتا ہے اور دونوں ایک ہی محمل پر مستقر ہوجاتی ہیں، بایں طور کہ حدیث دارمی کو مختصر اور بقیہ کتب احادیث کی روایت مفصل ٹھرا ئی جائے یعنی امام دارمی کی سند میں اس حدیث کا ابتدائی جز منقول نہیں اور اس پر دو قرائن ہیں ۔پہلاقرینہ لفظِ "هَذَا السَّهَرَ " ہے، کیوں کہ ہذا اسم اشارہ براے قریب ہے، جس کا کوئی مشار الیہ سابق میں ہونا ضروری ہے اور وہ اس روایت میں مذکور نہیں ۔ اب وہ مشار الیہ کیا ہےـــــــ اسے بقیہ روایات نے واضح کردیا یعنی کہ یہ شب بیداری جو اس سفر میں ہوئی ہے۔ اور دوسرا اس سےواضح بھی قرینہ مسند دارمی کے آخری الفاظ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے کہ یہاں "السَّهَرَ " کے بجاے "السَّفَرَ " کہا جاتا ہے، مگر میں اسے "السَّهَرَ " ہی پڑھتا ہوں ، اب خواہ یہ خود امام دارمی کے الفاظ ہوں یا مروان بن محمد کے جن کی سند سے امام دارمی نے یہ حدیث نقل فرمائی ہے،یعنی خود ان کے نزدیک بھی یہ دونوں دو مستقل واقعات نہیں بلکہ حالت سفر ہی کا واقعہ ہے، اور ایک ہی حدیث ہے،ہاں ! لفظ کون سا ماثور ہے؟ سفر یا سہر؟ تو عموما سفر کہا جاتا ہے، مگر میں اسے بجاے سفر ، سہر پڑھتا ہوں، اس تقدیر دونوں روایتوں کا حاصل ایک ہوجائے گا اور مسند دارمی کی روایت بھی بقیہ روایات کی طرف راجع ہوجائے گی۔ اور اگر دونوں احادیث کو تعدد پر محمول کیا جائے کہ ایک مقام پر حضور نے مسافر کا استثنا فرمایا اور دوسرے مقام پر شب بیدار کا جیسا کہ مرقاۃ المفاتیح کے طریق سے واضح ہے تو اس صورت میں بھی علی الاطلاق اس سے یہ ثابت کرنا کہ جسے رات میں اٹھنے پر بھروسہ نہ ہو اور وہ دوگانہ سونے سے پہلے پڑھ لے اور رات میں اس کی آنکھ نہ کھلی تو یہ دو رکعت تہجد کی جگہ مان لی جائیں گی، جیسا کہ اس فتوے میں مذکور ہے، درست نہیں بلکہ علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد عبارت ِمرقات سے صاف طور پر واضح ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی میں دیر رات تک بیدار رہے اور اب اسے یہ اندیشہ ہو کہ سوجاؤں گا تو آنکھ نہیں کھلے گی تو ایسے کے لیے حضور ﷺ نے غایت لطف و کرم فرماتے ہوئے یہ فرمایا کہ وہ عبادت گزار وتر کے ساتھ دو رکعت پڑھ لے کہ اگر اس کی آنکھ نہ کھلی تو اس نفل پر تہجد کا ثواب ملے گا اور اگر تہجد کے لیے آنکھ کھلی تو نور علی نور ہے کہ پہلے بھی عبادت الہی کا نور اور اب بھی عبادت الہی کا نور ۔ جب کہ اس فتوے کی عبارت سے مترشح ہے کہ جسے بھی جاگنے پر اعتماد نہ ہوتو بس وہ وتر کے ساتھ دو گانہ پڑھ لے اور پھر آنکھ نہ کھلی اور تہجد کا ثواب مل گیا اور اسے مرقات سے ثابت کیا، حالاں کہ ہرگز عبارت مرقات اس کی مساعد نہیں بلکہ اس کا مطلب وہی ہے جو راقم الحروف نے سطور بالا میں عرض کیا۔ واللہ تعالی اعلم کتبــــــــــــه محمد مزمل البركاتي المصباحي خادم التدريس والإفتاء بدار العلوم أنوار مدينه، جام كمباليا (غجرات) 27، شعبان المعظم 1446 هـ /26، فبراير 2025م https://whatsapp.com/channel/0029VaEknGm8vd1OtwQRwp0H
❤️ 👍 🌹 💙 12

Comments