
SAO NEWS
February 12, 2025 at 05:52 PM
اردن و مصر #غزہ سے #فلسطینیوں_کے_انخلاء کو کیوں مسترد کر رہے ہیں ؟
اسرائیل
فلسطين
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد ایک بار پھر غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلاء کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے 20 لاکھ فلسطینیوں کو جنگ زدہ غزہ سے مصر اور اردن میں منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ تاکہ ان فلسطینیوں کو دونوں پڑوسی ملکوں میں آباد کر دیا جائے۔ مگر مصر اور اردن دونوں نے پرزور طریقے سے اس امریکی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔
دونوں ملکوں کا مؤقف ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے بےدخل کرنے کی جبری کوشش ہوگی۔ امریکہ کے اس منصوبے کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھی مسترد کیا ہے۔ البتہ اسرائیل کی حکومت اور رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس منصوبے کا پرجوش خیرمقدم کیا ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں 'ہیومن رائٹس واچ' اور دوسروں نے اس کو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر قرار دیا ہے۔
شاہ عبداللہ اور صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران ایک چیز جس کا شاہ نے رضاکارانہ طور پر اظہار کیا وہ غزہ سے دو ہزار بچوں کو اردن میں علاج کی سہولیات مہیا کرنے سے متعلق تھا جو کینسر اور اس طرح کے دیگر امراض میں مبتلا ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے لکھا 'اردن اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے نکالنا درست نہیں ہے۔ یہی متفقہ مؤقف تمام عرب ملکوں کا ہے۔'
اردن اور مصر کی طرف سے بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو اپنے ہاں قبول کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک ،
انخلاء کی تاریخ
1948 کے دوران جب اسرائیل کو تخلیق کیا گیا تو فلسطینیوں کی بڑی آبادی یعنی 7 لاکھ فلسطینیوں کو ان کے علاقوں اور گھروں سے بے دخل کر کے جبری انخلاء پر مجبور کر دیا گیا۔ فلسطینی عوام اور عرب دنیا آج بھی اس قیامت خیز انخلاء کو نکبہ کا نام دیتی ہے۔ نکبہ عربی زبان میں تباہی کو کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں اسرائیل نے ان فلسطینیوں کو واپس ان کے گھروں میں آنے سے جبراً روکا ہوا ہے کہ ان کی آمد کے نتیجے میں اسرائیل کے اندر بھی فلسطینیوں کی اکثریت ہو جائے گی۔ اس وقت ان فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 60 لاکھ ہے جن کی بڑی تعداد غزہ میں رہتی ہے۔ غزہ میں اکثریتی آبادی کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کی بڑی تعداد ہے۔ اسی طرح اردن، لبنان اور شام میں بھی فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں۔
1967 میں جب جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے مغربی کنارے کو مکمل بند کر دیا اور اس پر قبضہ کر لیا تو 3 لاکھ مزید فلسطینیوں کو ہجرت کر کے جانا پڑا۔ ان ہجرت کرنے والوں کی اکثریت اردن میں جا کر رکی۔ یوں اردن نے فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد کی میزبانی کی۔ اب بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی اردن میں ہیں۔ جن میں سے اکثریت کو اردن نے شہریت بھی دے دی ہے۔
کئی دہائیاں پہلے پناہ گزینوں کا یہ بحران اسرائیلی و فلسطینی تصادم کا ایک بڑا ذریعہ تھا اور یہ امن مذاکرات میں بھی ایک بڑے تنازعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ امن مذاکرات 2009 تک چلتے رہے اور بعد میں یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔
فلسطینی عوام اپنے گھروں میں واپسی کا حق مانگتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ انہیں اب واپس آنے کے بجائے آس پاس کے ملکوں ہی میں جذب ہو جانا چاہیے۔ اب غالباً ایک وجہ جو ٹرمپ منصوبے میں رکاوٹ بن رہی ہے وہ فلسطینی عوام اور عرب ملکوں کا فلسطین کے بے گھر کیے گئے عوام کا یہی پرانا تجربہ بھی ہے۔
بہت سے فلسطینی جو غزہ میں اس اسرائیلی جنگ کے چشم دید گواہ ہیں اور جنہوں نے اسرائیل کی جنگ کو اپنے اوپر برداشت کیا ہے ان میں سے 90 فیصد کے قریب بےگھر ہو کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اکثریت وہ تھی جن کے گھروں کو بمباری سے تباہ کر کے انہیں نکلنے پر مجبور کیا گیا اور ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کے گھر ان کو نکالے جانے کے بعد تباہ کیے گئے۔
یہ بھی تقریباً 20 لاکھ لوگوں کی نقل مکانی تھی۔ اس لیے فلسطینیوں نے اسے نئے نکبہ کا نام دیا۔ اب وہ درست طور پر خوفزدہ ہیں کہ اگر اتنی بڑی تعداد کو غزہ سے نکال دیا گیا تو ان کو واپس اپنے گھروں اور علاقوں میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کے فوری بعد لاکھوں فلسطینیوں نے مشکل ترین صورتحال کے باوجود یہ راستہ لیا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے والے ملکوں کے لیے سرخ لکیر
مصر اور اردن نے بہت شدت کے ساتھ غزہ کے فلسطینی مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ یہ انکار اس سے پہلے جنگ شروع ہونے کے فوری بعد کے دنوں میں بھی کر چکے ہیں۔ دونوں ملک اسرائیل کے ساتھ امن قائم کر کے رہ رہے ہیں اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں جسے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم میں قائم کیا جانا ہے۔ مگر ان دونوں ملکوں کو خدشہ ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کی مستقل نقل مکانی فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنا دے گی۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے انخلاء کے سیکیورٹی کے حوالے سے بھی مسائل کا ذکر کیا ہے جنہیں غزہ کے ساتھ جڑے مصری علاقے سینائی میں آباد کیے جانے کا منصوبہ ہے کہ حماس اور دوسرے عسکریت پسند گروپ فلسطینی معاشرے میں گہرے اثرات رکھتے ہیں اور یہ اثرات پناہ گزین غزہ میں چھوڑ کر نہیں آئیں گے بلکہ اپنے ساتھ لے کر آئیں گے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ مصر یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینیوں کی اگلی جنگ مصر کی سرزمین سے لڑی جائے گی۔ جس کے نتیجے میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے جو مصر کے خیال میں علاقے میں امن کا سبب ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے لبنان میں ہو چکا ہے کہ 1970 کی دہائی میں یاسر عرفات کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن 'پی ایل او' نے جنوبی لبنان کو اسرائیل پر حملوں کے لیے ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 1975 میں لبنان 15 سال خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔ بعد ازاں اسرائیل نے 1982 سے 2000 تک لبنان پر حملہ کیا اور جنوبی لبنان پر قبضہ کر لیا۔ یہی ناخوشگوار صورتحال 1970 میں اردن کو 'پی ایل او' کے ساتھ جھڑپ کی صورت میں دریش ہوئی اور 'پی ایل او' کو ملک بدر کرنا پڑا۔
اسرائیل کے کٹر قوم پرست گروہ طویل عرصے سے یہ تجویز کر رہے ہیں کہ اردن ہی کو فلسطین قرار دے دیا جائے۔ تاکہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ مستقل حیثیت اختیار کر لے۔ جسے وہ یہودی لوگوں کا قدیمی حصہ سمجھتا ہے۔ تاہم اردن اس تجویز کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
کیا ٹرمپ مصر اور اردن کو پناہ گزین قبول کرنے پر مجبور کر سکیں گے؟
اس سوال کے جواا کا انحصار اس امر پر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منصوبے کے لیے کس قدر تیاری کر رکھی ہے اور وہ اپنے ٹیرف کے حالیہ حربے کو کہاں تک استعمال کرتے ہیں۔ یقیناً مصر اور اردن دونوں کے لیے امریکی اقتصادی پابندیوں کا ہتھیار بھی سخت نقصان دہ ہوگا کہ دونوں ملک امریکہ سے اربوں ڈالر وصول کرتے ہیں اور یہ اربوں ڈالر ہر سال ملتے ہیں۔ جبکہ مصر پہلے ہی ایک معاشی بحران کا شکار ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ امداد روک سکتے ہیں۔ تاہم اس امر سے انکار کیا ہے کہ وہ کوئی دھمکی دیں گے۔
شاہ عبداللہ کے ساتسھ منگل کے روز ہونے والی اپنی ملاقات میں ٹرمپ کا کہنا تھا میں اس پر کوئی دھمکی نہیں دیتا کیونکہ میرا یقین ہے کہ ہم اس سے بہت اوپر ہیں۔
مہاجرین کی بڑی تعداد کو قبول کرنے سے مصر اور اردن دونوں ملکوں میں عدم استحکام کا خدشہ بھی ہو سکتاا ہے۔ مصر کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی 90 لاکھ پناہ گزینوں کو جگہ دیے ہوئے ہے۔ کچھ کا تعلق سوڈان سے ہے جو خانہ جنگی کی وجہ سے وہاں سے نکل بھاگے ہیں۔
دوسری طرف اردن جس کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ سے کم ہے ، 7 لاکھ کے قریب مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہے۔ ان مہاجرین کی بڑی تعداد کا تعلق شام سے ہے۔
اس پس منظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ منصوبہ 'نارملائزیشن' کے منصوبے اور کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے جو اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان چاہتا ہے۔ جس پر سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنائے گا۔
#غزہ
#اردن
#اسرائیل
#مصر
#ڈونلڈ_ٹرمپ
Reported By
SAO