الکمال نشریات 💐
الکمال نشریات 💐
February 14, 2025 at 04:53 PM
ماہِ رمضان: فضائل، مسائل اور احکام (03) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا رمضان: (حصہ: ۱) اب ہم رمضان مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات اور جدو جہد کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ ان حضرات کے اسوہ پر چلنے کی رغبت پیدا ہو۔ (۱)۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ شَدَّ مِئْزَرَہُ ثُمَّ لَمْ یَـأتِ فِرَاشَہُ حَتّٰی یَنْسَلِخَ۔ ( صحیح ابن خزیمہ:۳/۳۴۲،شعب الایمان:۳/۳۱۰، واسنادہ حسن کما فی اعلاء السنن:۲/۲۱) ''جب رمضان داخل ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازار کو سخت باندھ لیتے، پھر جب تک رمضان گزر نہ جاتا، آپ بستر پر نہ آتے تھے۔'' فائدہ: ازار کو سخت باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پورے اطمینان سے عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے، یہ عبادات میں جدو جہد کرنے سے کنایہ ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ یہ عورتوں (ازواج مطہرات) سے علیحدہ رہنے سے کنایہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ بہ یک وقت اس سے دونوں باتیں مراد ہوں۔(شرح مسلم للنوی :۱/۳۷۲،فتح الباری:۴/۲۶۹،نیل الاوطار:۴/۳۶۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا پورا مہینہ عبادت میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول رہتے تھے۔ (۲)۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں: إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ تَغَیَّرَ لَوْنُہُ وَ کَثُرَتْ صَلٰوتُـہُ وَ ابْتَھَلَ فِيْ الدُّعَائِ وَأَشْفَقَ مِنْـہُ(شعب الایمان:۳/۳۱۰) ''جب رمضان آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا اور آپ کی نماز زیادہ ہوجاتی اور آپ دعا میں گڑگڑاتے اور رمضان کی حرص کرتے۔'' اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں آپ کثرت کے ساتھ نماز پڑھتے اور دعائیں کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ نماز سے یہاں نفل نماز ہی مراد ہے، کیوں کہ فرائض و واجبات تو مقرر ہیں، ان میں نہ کمی ہو سکتی ہے نہ زیادتی اور رنگ بدل جانے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ کثرتِ عبادات کی وجہ سے اور پے درپے روزوں کی وجہ سے آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا، جیساکہ عام طور پر مجاہدہ وریاضت کرنے سے ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ یہ حالت بدل جانے سے کنایہ ہے، مطلب یہ ہے کہ عام دنوں کی حالت سے رمضان میں آپ کی حالت دوسری ہوتی کہ عام دنوں میں اتنی کثرت سے نمازیں اور دعائیں نہ ہوتیں، جیسے رمضان میں ہوتیں۔ ہمارے محاورے میں بھی بولتے ہیں کہ فلاں کا رنگ ہی بدل دیا گیا، یعنی حالت بدل گئی اور حرص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں نیکیوں کی حرص کرتے تھے۔ (واللہ اعلم) (۳)۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی فرماتی ہیں: کَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَہُ وَ أَحْیَا لَیْلَہُ وَأَیْقَظَ أَھْلَہُ۔ (البخاری:۱۸۸۴، واللفظ لہ ،مسلم:۲۰۰۸،نسائی:۱۶۲۱،ابو داوٗد:۱۱۶۸،ابن ماجہ: ۱۷۵۸، مسند احمد:۲۳۰۰۱،صحیح ابن حبان:۲/۲۵) ''جب (رمضان کا آخری ) عشرہ آ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازار سخت باندھتے اور راتوں کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگا دیتے۔'' (۴)۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی فرماتی ہیں: کَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَجْتَھِدُ فِيْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا یَجْتَھِدُ فِيْ غَیْرِھَا۔ (مسلم:۲۰۰۹،ترمذی:۷۲۶،ابن ماجہ:۱۷۵۷، احمد:۲۳۷۶۶، ابن خزیمہ: ۳/ ۲ ۴ ۳) ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنی جدوجہد (عبادت میں) کرتے تھے کہ دوسرے دنوں میں اتنی نہیں کرتے تھے۔'' اس سے معلوم ہوا کہ آپ خاص طور پر آخری عشرہ میں بڑا مجاہدہ فرمایا کرتے تھے، حتیٰ کہ اپنے اہل خانہ کو بھی عبادات کے لیے جگا دیا کرتے تھے۔'' (۵)۔۔۔ حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: لَمْ یَکُنِ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا بَقِيَ مِنْ رَمَضَانَ عَشَرَۃُ أَیَّامٍ یَدَعُ أَحَدًا مِّنْ أَھْلِہٖ یُطِیْقُ الْقِیَامَ إِلَّا أَقَامَہ۔ ( ذکرہ الحافظ عن الترمذی فی الفتح:۴/۲۶۹،وکذا ذکرہ الشوکانی فی النیل و المبارکبوری فی تحفۃ الاحوذی ،ولکنی لم أجد ہ فیہ ولا فیما عندی من کتب الحدیث۔) ''جب رمضان کے دس دن باقی رہ جاتے تھے تو آپ اپنے گھر والوں میں سے کسی ایسے شخص کو اٹھائے بغیر نہ چھوڑتے جو اٹھنے کی طاقت رکھتا ہو۔'' ===========> جاری ہے ۔۔۔
❤️ 1

Comments