
الکمال نشریات 💐
February 15, 2025 at 02:40 PM
ماہِ رمضان: فضائل، مسائل اور احکام (04)
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا رمضان:
(حصہ: ۲)
(۶)۔۔۔ حضرت عائشہؓ، ابن عمر وابو سعید خدری، انس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور یہ سلسلہ وفات تک جاری تھا۔(البخاری:۱۸۸۵- ۱۸۸۷،مسلم:۲۹۹۲، ترمذی: ۷۲۰،ابن خزیمہ:۳/۳۴۶،ابن حبان:۸/۴۲۲)
(۷)۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
کَانَ النَّیِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُوْقِظُ أَھْلَہُ فِيْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، (ترمذی:۷۲۵، مسند بزار:۲/۳۰۰،مسند احمد:۷۴۲)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے گھر والوں کو جگا دیا کرتے تھے۔
(۸)۔۔۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام اوقات سے زیادہ رمضان میں سخی ہوجاتے تھے، جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملتے تھے، اور جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملتے تھے، یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن سنایا کرتے تھے، غرض جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملتے تھے تو آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ نیکی میں سخی ہوجاتے تھے۔
(بخاری:۱۷۶۹، مسلم:۴۲۶۸ ، نسائی: ۲۰۶۸، احمد: ۳۲۵۰، ابن خزیمہ: ۳/۱۹۳، ابن حبان:۸/۲۲۵)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ رمضان میں سخاوت وخیرات بہت زیادہ کرتے تھے، دوسرے یہ کہ آپ رمضان میں قرآن پاک کے سنانے میں اہتمام فرماتے تھے۔
بعض روایات میں ہے کہ آپ ہرسال رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن کا وہ حصہ جو نازل ہو چکا ہوتا، سنایا کرتے تھے اور آخری سال آپ نے دو مرتبہ قرآن سنایا۔ (مسند عبد بن حمید:۱/۲۱۷،شعب الایمان:۲/۴۱۴)
(۹)۔۔۔ ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رمضان کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ ایک نے عرض کیا کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کے پاس قرآن نہیں ہے، یعنی حفظ یاد نہیں ہے اور ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ بہت اچھا کیا، ٹھیک کیا۔ ( ابوداوٗد:۱۱۶۹،ابن خزیمہ:۳/۳۳۹،ابن حبان:/۲۸۲،سنن بیہقی:۲/۴۹۵)
(۱۰)۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے دریانی حصہ میں باہر نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ چند لوگوں نے بھی نماز پڑھی، صبح لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا اور دوسری رات اس سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے، آپ نے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر صبح اس کا چرچا ہوا تو تیسری رات بہت لوگ جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات بھی نماز پڑھائی اور لوگوں نے نماز پڑھی اور چوتھی رات اس قدر مجمع ہو گیا کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نہیں آئے اور فجر کی نماز کے لیے تشریف لائے اور نماز کے بعد فرمایا کہ میں تم لوگوں کے یہاں موجود ہونے سے بے خبر نہیں تھا، مگر مجھے خوف و اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہو جائے اور تم اس کو ادا نہ کر سکو۔ (البخاري:۱۸۷۳، مسلم:۲۱۷۱،نسائي:۱۵۸۶،ابو داوٗد: ۱۱۶۶ احمد: ۲۳۱۹۴)
(۱۱)۔۔۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ہم خود روزہ رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو روزہ رکھاتے تھے اور روئی کے کھلونے بنا کر رکھتے کہ جب وہ روتے تو وہی کھلونے ان کو دے دیتے تھے۔ ( البخاري:۱۸۲۴ مسلم:۱۹۱۹)
فائدہ:
حضرت ربیع رضی اللہ عنھا کی یہ بات اگرچہ عاشوراء کے روزے کے بارے میں آئی ہے اور یہ عاشوراء کا روزہ، رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل فرض تھا، جب عاشوراء کے فرض روزے کا اس قدر اہتمام ان حضرات میں تھا کہ وہ بچوں کو تک روزہ رکھواتے تھے تو اندازہ کرنا چاہئے کہ رمضان کے روزوں کا کیا حال ہوتا ہوگا اور اس کا کس قدر اہتمام کرتے ہوں گے؟
(۱۲)۔۔۔ ایک شخص کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ اس نے رمضان میں شراب پی لیاہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تیری خرابی ہو، ہمارے بچے تک روزہ دار ہیں اور اس پر حد (سزا) جاری کی اور اسی کوڑے لگوائے۔ (بخاري تعلیقا:وسعید بن منصوروالبغوي موصولاً،کذا في فتح الباري: ۴/۲۰۱)
یہ چند روایتیں ہیں، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول رمضان میں معلوم ہوتاہے۔
============> جاری ہے ۔۔۔
❤️
1