الکمال نشریات 💐
الکمال نشریات 💐
February 16, 2025 at 10:36 AM
ماہِ رمضان: فضائل، مسائل اور احکام (05) عشرۂ اخیرہ کی فضیلت: ایک طویل حدیث میں جس کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کے آخری دن خطبہ دیا، اور اس میں ایک بات یہ بھی فرمائی: وَھُوَ شَہْرٌ أَوَّلُـہٗ رَحْمَۃٌ وَّ أَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَّ آخِرُہُ عِتْـقٌ مِّنَ النَّارِ۔ ( أخرجہ ابن خزیمۃ في صحیحہ:۳/۱۹۱،والبیہقی في شعب الایمان:۳/۲۰۵، عن سلمان الفارسي في حدیث طویل) ''ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت، اور آخری حصہ آگ سے آزادی و خلاصی ہے۔'' اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کے تین حصے قرار دیے گئے ہیں: اول، اوسط اور آخر اور یہ دس دس ایام پر مشتمل ہوں گے، یا پہلا اور اوسط حصہ دس دس ایام کا اور آخری حصہ نو ایام کا ہوگا، پھر پہلے عشرے کو رحمت کا، دوسرے کو مغفرت کا اور تیسرے کو یعنی آخری حصہ کو دوزخ سے خلاصی کا قرار دیا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’ آدمی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن پر گناہوں کابوجھ نہیں، ان کے لیے شروع ہی سے رحمت و انعام کی بارش ہوجاتی ہے، دوسرے وہ لوگ جو معمولی گناہ گار ہیں، ان کے لیے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد ان کے روزوں کی برکت اور بدلے میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے، تیسرے وہ جو زیادہ گناہ گار ہیں، ان کے لیے زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد آگ سے خلاصی ہوتی ہے۔ ( فضائل رمضان: ص۱۱) حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ’’معارف الحدیث ‘‘ میں اسی شرح کو اختیار فرمایا ہے ۔ (دیکھو معارف الحدیث :۵/۱۰۳) اس تشریح کے مطابق ثابت ہوا کہ رمضان کا آخری عشرہ بڑے سے بڑے گناہ گاروں کے لئے بھی مغفرت کا پیغام لے کر آتا ہے، اس میں رمضان کے آخری عشرہ کی کتنی بڑی فضیلت نکلتی ہے، جو لوگ اپنی سال بھر کی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں، اگر وہ رمضان میں روزوں اور تراویح اور دیگر عبادات کے ذریعہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں تو ان کو یہ بات ضرور حاصل ہوگی۔ بہرحال! اس حدیث سے آخری عشرہ کی ایک اہم ترین فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ بد بخت سے بد بخت آدمی بھی اگر اس ماہ میں ان نیکیوں میں لگا رہے تو اس کی بھی نجات ہوجاتی ہے۔ عشرۂ آخرہ کا ذکر قرآن میں: اور اس عشرۂ اخیرہ کی فضیلت کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے: وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ (الفجر :۱-۲) ''قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔'' اس میں دس راتوں سے کیا مراد ہے؟ اس میں علماء کے متعدد اقوال ہیں، ان میں سے ایک قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد رمضان المبارک کے آخری دس دن ہیں۔ چنانچہ روح المعانی میں ہے کہ ابن المنذر رحمہ اللہ اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد رمضان کے آخری دس دن ہیں اور ضحاک رحمہ اللہ سے بھی یہ نقل کیا گیا ہے، بلکہ علامہ تبریزی رحمہ اللہ نے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے کہ اس سے یہی دس (رمضان کے دس دن ) مراد ہیں اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔ ( روح المعاني: ۳۰/۱۳۷) اور علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ضحاک سے اپنی تفسیر میں یہی نقل کیا ہے۔ ( تفسیر قرطبي:۲۰/۳۹) اس قول پر رمضان کے عشرۂ اخیرہ کی فضیلت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان دس دنوں کی قسم کھائی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ان کی قسم کھانا، ان ایام کی فضیلت کی دلیل ہے۔ رمضان کریم کے مخصوص اعمال: رمضان میں اگرچہ تمام نیکیاں اور ہرقسم کی عبادات کا اہتمام ہونا چاہئے اور ان اعمال وعبادات میں میں سے جن اعمال وعبادات کو رمضان مبارک کے ساتھ خصوصیت کا تعلق ہے، ان کا اہتمام والتزام بھی خصوصی طریقے پر ہونا چاہئے اور وہ چاراعمال ہیں: (۱) صوم یعنی روزہ۔ (۲) نمازتراویح۔ (۳) آخری عشرہ کا اعتکاف۔ (۴) تلاوت۔ لہذا تمام عبادات واعمال صالحہ میں اضافہ اور ان کا اہتمام والتزام کرنا اور بالخصوص ان چار عبادات کا اہتمام کرنا رمضان کو صحیح طریقے پر گزارنے کے لیے ضروری ہے، اب ہم اگلی اقساط میں ان چار عبادات کا الگ سے ذکر کرتے ہیں۔ ============> جاری ہے ۔۔۔

Comments