الکمال نشریات 💐
الکمال نشریات 💐
February 17, 2025 at 10:24 AM
ماہِ رمضان: فضائل، مسائل اور احکام (06) روزے کابیان: روزے کی فرضیت واہمیت: قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ :۱۳۸) ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔'' اس آیت سے روزے کی فرضیت واہمیت صاف ظاہر ہے، فرضیت تو اللہ کے یہ فرمانے سے معلوم ہوئی کہ تم پر روزے لکھ دئیے گئے ہیں اور اہمیت کا پتہ اس طرح چلا کہ روزے کی فرضیت کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہوجائے اور ظاہر ہے کہ تقویٰ ہی کی بنیاد پر انسان اللہ کے نزدیک مکرم ومقدس بنتاہے، جیساکہ فرمایا گیاہے: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔ (الحجرات :۱۳) ''اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔'' اور جو چیز کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنے والی ہو، وہ اس لحاظ سے کہ تقویٰ کا سبب وباعث ہے کس قدر اہم ہے۔ نیز اس کی اہمیت کا اندازہ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ اکثر حضرات کے نزدیک صوم، اسلام کے ارکان میں سے زکاۃ کے بعد سب سے اہم عبادت ہے اور بعض علماء کے نزدیک نماز کے بعد سب سے زیادہ اہم روزہ ہے، اس کے بعد زکوٰۃ کا درجہ ہے اور امام محمد رحمہ اللہ نے اسی کے پیش نظر اپنی کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ اور ’’الجامع الکبیر‘‘ میں نماز کے بعد صوم کا بیان لکھا ہے۔ ( دیکھو فتح القدیر:۱/۳۰۰،حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي ۱/۴۱۹،البحرالرائق: ۲/۲۸۶) روزے کی فضیلت: اس اہمیت کی وجہ سے روزے کی بڑی فضیلت بھی وارد ہوئی ہے۔ (۱)۔۔۔  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔ ومن قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔ ( البخاري:۱۷۶۸، مسلم:۱۲۶۸، نسائي: ۲۱۸۳، ابوداؤد: ۱۱۶۵، احمد:۱۹۰۰) ''جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب سمجھ کر رمضان کے روزے رکھتا ہے، اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور جو لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب سمجھ کر عبادت کرتا ہے، اس کے بھی تمام گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔'' (۲)۔۔۔  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قال اللہ تعالیٰ: کل عمل ابن آدم لہ الاالصیام، فانہ لي وأنا أجزي بہ۔ والصیام جنۃ، واذاکان یوم صوم احدکم فلایرفث ولایصخب، فان سابہ احدا وقاتلہ فلیقل انی امرأٌ صائم، والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم اطیب عنداللہ من ریح المسک، للصائم فرحتان یفرحھما، اذا افطرفرح واذالقی ربہ فرح بصومہ۔ (۱ البخاري:۱۷۷۱، مسلم: ۱۹۴۷، نسائي : ۲۱۸۶، احمد:۷۳۶۸) ''اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزہ کے کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا اور روزہ (جہنم سے بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو بےحیائی کی باتیں نہ کرے اور نہ چیخے، اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑائی کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں اور اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، بلاشبہ روزہ دار کی منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے اور روزہ دار کو دو فرحتیں ملتی ہیں: ایک اس وقت جب وہ افطار کرتاہے اور دوسرے اس وقت جب وہ اللہ سے ملے گا تو وہ اپنے روزہ سے خوش ہوگا۔'' (۳)۔۔۔  حضرت سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ان فی الجنۃ بابا یقال لہ الریان، یدخل منہ الصائمون یوم القیامۃ، لایدخل منہ احد غیرھم، یقال این الصائمون؟ فیقومون لایدخل منہ احد غیرھم، فاذا دخلوا اغلق، فلم یدخل منہ احد۔ ( البخاري: ۱۷۶۳، مسلم:۱۹۴۷) ''جنت میں ایک دروازہ ہے، جس کا نام باب الریان ہے، اس سے قیامت کے دن روزے دار داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے داخل نہ ہوگا، کہا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ کوئی اور اس سے داخل نہ ہوسکے گا، جب یہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا، پس کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔'' (۴)۔۔۔  ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جنت میں ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان ہے، روزے دار اسی سے بلائے جائیں گے، جو روزہ رکھنے والا ہوگا وہ اسی سے داخل ہوگا اور جو اس سے داخل ہوگا وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔'' ( ترمذي:۶۹۶،نسائي:۲۲۰۴،ابن ماجہ:۱۶۳۰، احمد:۲۱۷۷۵) (۵)۔۔۔  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو اللہ کے راستہ میں روزہ رکھتا ہے، اس کو دوزخ سے ستر برس کی مسافت کی مقدار دور رکھے گا۔'' ( البخاري:۲۶۲۸،مسلم:۱۹۴۸،نسائي:۲۲۱۹،ترمذي:۱۵۴۸،ابن ماجہ: ۱۷۰۷، احمد: ۱۷۷۸) (۶)۔۔۔  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے: من صام رمضان وعرف حدودہ وتحفظ مما کان ینبغی لہ ان یتحفظ فیہ کفر ماقبلہ۔ ( مسنداحمد: ۱۱۵۴۱،ابن حبان:۸/۲۱۹) ''جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کے حدود کو جانا اور ان باتوں سے اپنے کو محفوظ رکھا، جن سے بچنا مناسب ہے تو یہ روزہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بنا دیا جاتا ہے۔'' ان احادیث سے روزے کے فضائل معلوم ہوئے اور اس پر بڑے بڑے وعدوں کا علم ہوا، لہذا اس فضیلت سے کسی مسلمان کو محروم نہیں ہونا چاہئے۔ ===========> جاری ہے ۔۔۔

Comments