الکمال نشریات 💐
الکمال نشریات 💐
February 20, 2025 at 10:17 AM
ماہِ رمضان: فضائل، مسائل اور احکام (09) روزے کے فرائض: روزے میں تین چیزیں فرض ہیں: (۱)۔۔۔ صبح صادق کے طلوع ہونے سے آفتاب کے غروب ہونے تک کچھ نہ کھانا۔ (۲)۔۔۔ طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کچھ نہ پینا اور جوچیز کھانے اور پینے کے مشابہ ہو، وہ بھی اسی میں داخل ہے، مثلاً کان یا ناک میں تیل ڈالنا کہ اس سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا، تفصیل آگے آئے گی۔ (۳)۔۔۔ صبح صادق سے غروب آفتاب تک جماع اور ان چیزوں سے رک جانا جن سے عادۃً منی نکل جاتی ہے۔ (نور الایضاح:۱۰۰) روزے کی سنتیں اور مستحبات: روزے کو اس کی تمام سنتوں اور آداب کے ساتھ ادا کرنا چاہئے، تاکہ وہ عند اللہ مقبول ومنظور ہو، جیسے ہم اپنے کسی بڑے کو کوئی چیز پیش کرنا چاہتے ہیں تو اس کی کوشش کرتے ہیں کہ بہتر سے بہتر چیز پیش کریں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دربار عالی شان میں جس سے عظیم کوئی نہیں، عبادت بھی ایسی پیش کرنا چاہئے جو اس کے دربار کے شایان شان ہو، اس لیے حضرات فقہاء نے روزے کی سنتیں اور اس کے آداب کا ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں: (۱)۔۔۔ ایک ادب یہ ہے کہ ہر گناہ سے بچے، کیوں کہ روزہ کی اصلیت اسی سے حاصل ہوتی ہے، قرآن پاک میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الذِّیْنَ آمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلیَ الذِّیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ :۱۳۸) ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔'' اس سے معلوم ہوا کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے اور تقویٰ گناہوں سے بچنے کا نام ہے، نیز اوپر حدیث گزر چکی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو جھوٹ اور جھوٹ پر عمل کو نہ چھوڑے، اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ نوٹ: یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ سے بچنا تو ہرحال میں فرض ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنا ہر حال میں حرام ہے اور ہم نے جو اس کو سنتوں میں شمار کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹے گا نہیں، جیسا کہ کسی روزے کے فرض کو چھوڑنے سے ٹوٹ جاتاہے، اس لحاظ سے اس کو سنت کہا گیا ہے، ورنہ گناہ سے بچنا، قطع نظر روزے کی حالت کے فرض ہے۔ (۲)۔۔۔ روزے کی ایک سنت یہ ہے کہ دوسرے دنوں کے اعتبار سے روزے کے دنوں میں زیادہ عبادت کی جائے، خصوصاً رمضان کے اخیر عشرہ میں اس کا زیادہ اہتمام کیا جائے، کیوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ جب رمضان داخل ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازار کو سخت باندھ لیتے، پھر جب تک رمضان گزر نہ جاتا، آپ بستر پر نہ آتے تھے اور دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی فرماتی ہیں کہ جب رمضان آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا اور آپ کی نماز زیادہ ہوجاتی اور آپ دعا میں گڑگڑاتے اور رمضان کی حرص کرتے۔ یہ دونوں حدیثیں اوپر با حوالہ گزر چکی ہیں۔ (۳)۔۔۔ ایک سنت یہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں شب بیداری کریں اور اس میں عبادت کا اہتمام کریں، جیسا کہ ابھی حدیث گزری۔ (۴)۔۔۔ ایک سنت یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے،  حضرت عائشہ، ابن عمر وابو سعید خدری ،انس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور یہ سلسلہ وفات تک جاری تھا۔ یہ حدیث بھی اوپر گزر گئی۔ (۵)۔۔۔ روزے کی سنت یہ بھی ہے کہ سحری کی جائے، حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِيْ السُّحُوْرِ بَرَکَۃً۔ ( البخاری:۱۷۸۹، مسلم:۱۸۳۵، نسائی:۲۱۱۷ ، ابن ماجہ:۱۶۸۲،احمد:۱۱۵۱۲) ''سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔'' (۶)۔۔۔  ایک سنت یہ کہ سحری آخری وقت میں کی جائے اور افطار اول وقت پر کیا جائے، یعنی سحری ایسے وقت کی جائے کہ اس کے بعد فجر ہو جائے، اگر کوئی شخص مثلاً رات ہی میں سحری کر کے سوجائے گا تو بھی سحری ہو جائے گی، مگر ایسا کرنا سنت کے خلاف ہو گا، اسی طرح افطار سورج غروب ہوتے ہی کرلیا جائے، وقت ہو جانے کے بعد بھی خوامخواہ تاخیر کرنا سنت کے خلاف ہے۔ سحری کے متعلق حدیث میں ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ سحری کھانے اور اذان کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پچاس آیتیں پڑھنے کے بہ قدر فاصلہ تھا۔ ( البخاری:۱۷۸۷، مسلم:۱۸۳۷،ترمذی:۶۳۸،نسائی:۲۱۲۶، ابن ماجہ:۱۶۸۴، احمد:۳ ۰ ۶ ۲۰) اس حدیث سے اللہ کے رسول ﷺ کا معمول سحری کے سلسلہ میں معلوم ہوا کہ آپ آخری وقت میں سحری کرتے تھے اور افطار کے متعلق ایک حدیث میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاَ یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔ (البخاری: ۱۸۲۱ مسلم:۱۸۳۸ ،ترمذی:۶۳۵، ابن ماجہ:۱۶۸۷،احمد:۲۱۷۳۹، مالک:۵۶۱) ''لوگ خیر پر باقی رہیں گے، جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے۔'' اور ایک حدیث میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَزَالُ أُمَّتِيْ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوْا اْلإِفْطَارَ وَ أَخَّرُوْا السُّحُوْرَ۔ ( مسند احمد:۲۰۳۵۰) ''میری امت خیر پر رہے گی، جب تک کہ وہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرے گی۔'' ============> جاری ہے ۔۔۔
❤️ 1

Comments