سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
February 12, 2025 at 12:18 PM
بے چاری شبنم، جو حوس لالچ اور فریب کی آڑ میں الفاظ کو بناو سنگھار کو سچی محبت سمجھ رہی تھی اسے کیا خبر تھی کہ دوسری طرف اسکی عزت کا جنازہ نکالا جا رہا تھا۔۔۔ وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی ، بہت فرما بردار ، ذہین اور محنتی. گھر میں ماں باپ کا خوب ہاتھ بٹاتی اور اُن کا بہت خیال رکھتی۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد اور ان کا کل سرمایہ تھی۔ اگر اسے کبھی معمولی بخار بھی ہوجاتا تو دونوں رات بھر اس کے سرہانے بے چین کھڑے رہتے ۔ ایک دن ابو کو ناجانے کیا سوجھی کہ شبنم کے لیے موبائل لے آۓ۔ گھر آتے ساتھ ہی آواز دی ، شبنم بیٹا ! ذرا باہر صحن میں آو۔ شبنم کی امی نے آواز سنی تو جواب دیا ، خیر ہو، شبنم کے ابو، آج بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں ، کوئی لاٹری نکلی ہے کیا ؟ ابو نے بیگم کے جواب کو سنی ان سنی کرتے ہوے دوبارہ آواز دی، شبنم بیٹا باہر آؤ، امی نے پھر پوچھا؟ بتائیں تو صحیح ایسا کیا لاۓ ہیں؟ شبنم کی امی الفاظ دہراتے ہوے پوچھنے لگیں۔ اتنی دیر میں شبنم نے دروازہ کھولا، اور سر پر دوپٹہ سہلاتے ہوے باہر آئی ۔ شاید وہ سو رہی تھی ، جی ابو خیریت ، آپ نے آواز دی تھی۔ ابو نے آگے بڑھ کر ماتھے پہ بوسہ دیا اور کہنے لگے ، اوۓ میری لاڈلی پتری، میری جان ، میری پیاری بیٹی، آپ کے بابا، آپ کے لیے موبائل لائے ہیں ۔ بابا جان ! اسکی کیا ضرورت تھی، آپ تو جانتے ہیں ناں بابا ، مجھے ابھی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ویسے بھی مجھے تو نورین یا صبا کو فون کرنا ہوتا ہے تو آپ کا موبائل استعمال کر لیتی ہوں۔ ابو سر پہ ہاتھ رکھتے ہوے کہنے لگے، نہیں نہیں میری بیٹی آپ موبائل رکھیں یہ آپ کی ضرورت ہے، ویسے بھی میں کبھی گھر سے باہر ہوتا ہوں تو فون ہونا چاہیے تاکہ آپ دونوں کی خیر و عافیت معلوم ہو جایا کرے۔ اُسے موبائل کا زیادہ استعمال بالکل پسند نہیں تھا، کیونکہ اس کی اکثر سہیلیاں اس موبائل کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار تھیں۔ اور پڑھائی میں بہت کمزور تھیں۔ خیر اس نے موبائل لے لیا ، سم ڈالی اور موبائل آن کر کے گھر پر ہی رکھ دیا ۔ وقت گزرتا رہا امتحان ہوے تو ہمیشہ کی طرح اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی ، سب نے گھر پر بہت خوشی منائی ، اب وہ دہم کلاس تک پہنچ چکی تھی مگر اب تک اس کی موبائل میں کچھ خاص دلچسپی نہ تھی ، بس وہی ابو یا اپنی ایک یا دو سہیلیوں سے بات کر لینی ۔ ایک دن جب وہ اسکول سے نکلی تو اسکول کے سامنے کچھ لڑکوں کو کھڑا دیکھا۔ ان میں سے ایک لڑکا جو قد و قامت میں اچھا اور قریب اٹھارہ برس کا لگ رہا تھا۔ شبنم کو اشارہ کرتے اپنی محبت کا بتا رہا تھا ۔ اس نے مکمل نظرانداز کیا اور اپنے راستے ہو لی۔ چند دن ایسے ہی چلتا رہا اِس نے گھر میں کسی کو نہ بتایا ۔ آۓ دن سہیلیاں مذاق کرتیں کہ تم سے بہت محبت کرتا ہے ۔ مجنوں ہےتمھارا ! ورنہ کون روز روز یوں آکر رکتا ہے اور وقت نکالتا ہے۔ مگر اِس نے اپنے آپ کو ان معاملات سے دور رکھا۔۔۔ اس لڑکے نے اپنی کزن سے بات کی اور اِس کا نمبر لے لیا۔ اور آج جب یہ اسکول سے نکلی تو اُس نے کال کرنے کا اشارا کیا۔۔۔ وہ ڈر گئی کہ موبائل گھر میں ہے اگر یہ کال کرے گا تو امی یا ابو اٹھائیں گے ، اور بہت مشکل ہو جاۓ گی ، انھیں کیا جواب دوں گی ؟ ۔۔ خیر شبنم گھر پہنچی تو امی سے ملنے کے بعد فورا الماری سے موبائل نکال کر دیکھا ۔۔۔ کسی نمبر سے کچھ اشعار پر مبنی میسج آۓ ہوے تھے اور ہر میسج کے آخر میں یوں لکھا ہوا تھا۔ تمھارا چاہنے والا ❤️S ۔R ❤️ اسے شاعری بہت پسند آئی ، ہر شعر میں اسکی زلفوں ، چہرے اور قد و قامت کی تعریف تھی ۔ سارا جہان ایک طرف تھا تو اس کی خوبصورتی کا بیان ایک طرف ۔۔۔۔ آخر وہ مسکرائی اور مسکراتے ہوے جواب لکھا ۔ تم کون ہو ؟ کیا نام ہے تمھارا ؟ کیوں کرتے ہو میسج اور میرے سے کیا چاہتے ہو؟؟ میرا نام رضوان ہے اور تم سے بہت محبت کرتا ہوں ، اور تمھارے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتا ہوں ۔ وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگی اور جواب لکھا ۔ محبت ہاں محبت جی جی محبت کرتا ہوں تم سے اور تمھارے بغیر جینا ہی دشوار لگتا ہے۔ امی نے آواز دی، بیٹا شبنم کدھر کھو گئ ہو؟ گھنٹہ ہونے کو ہے اسکول یونیفام تو تبدیل کر لو ، آتے ہی موبائل سے جڑ گئی ہو خیریت ہے ناں ؟ جی جی امی بس آئی وہ تھوڑا مریم نے کچھ سوال پوچھے تھے وہ بتا رہی تھی۔ اچھا بیٹی، اب اٹھ جاؤ کھانا کھا لو اور تھوڑا آرام کرو۔ جی امی ٹھیک ہے۔ اس نے فورا میسج کیا ، میں مصروف ہوں بعد میں میسج کروں گی ، جب تک میں نہ میسج کروں خود سے کال یا میسج نہ کرنا موبائل گھر میں رکھا ہوتا ہے ۔ اس نے فوراً جواب دیا اوکے . وہ سمجھ چکا تھا کہ اب بات بن گئی ہے ، رفتہ رفتہ اس کے دل میں اتر جاۓ گا۔ اس نے تمام تر میسج اپنے دوستوں کو دکھاۓ اور کہنے لگا تم کہتے تھے یہ بچی نہیں پٹے گی ! دیکھ لے میری شاعری کا کمال بچی کا دل اب اپنے ہاتھ میں ہے۔ دوست کہنے لگے واہ یار تیری تو کیا ہی بات ہے ، موج ہی موج ابھی تو یہ دسویں محبت ہے تمھاری۔ سارے قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے ۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ اسے خالی میسج آیا ۔ رضوان نے جواب دیا، جی جی جی جی قربان ، میری جان ! آخر یاد آ ہی گئ، جان جان کہنا مجھے بالکل پسند نہیں ہے، آچھا نہیں کہتے جناب سناو کیا حال ہے ٹھیک ہو ۔ لمبی بات ہوتی رہی رضوان سارے میسج اپنے دوستوں کو دکھاتا اور بہت خوش ہوتا ۔ وہ محبت کے جال میں پھستی گئی۔ والدین بہت حیران تھے کہ شبنم اب موبائل اسکول بھی لے کر جاتی ہے اور گھر میں بھی موبائل ایک پل کے لیے بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتی مگر جب بھی سوال کیا جاتا تو جواب ملتا وہ ابو عاصمہ کی کال آ جاتی ہے ناں تو اس کی کال نہ اٹھاو تو ناراض ہو جاتی ہے ۔۔۔سیدھے سادے والدین کیا سمجھیں اولاد کس راہ پر چل پڑی ہے۔ دونوں کی محبت گہری ہوتی گئی ، رضوان جس کا مقصد واضح تھا مگر ہاۓ بھولی بھالی شبنم۔ ایک دن رضوان کے دوست کہنے لگے یار اسکی تصویر تو منگوا ! دیکھیں تو سہی کیا ادائیں ہیں ۔۔۔ اس نے ہنستے ہوۓ کہا یہ کون سا مشکل بات ہے ، ابھی دیکھ ! اپنے بھائی کا کمال۔ فورا موبائل نکالا اور میسج کیا ہاۓ کیا حال ہے جان من ؟ شبنم نے اداسی والا ایموجی سنڈ کیا اور کہنے لگی بہت اداس ہوں۔ رضوان خیریت ہے کیا ہوا ہماری جان کو ؟ بس تم کو ہی یاد کر رہی تھی ۔ اچھا میں بھی بس اکیلا بیٹھا تمھیں ہی یاد کر رہا تھا ۔ اس بات پر اس کے سب دوست ہنسنے لگے ، ہاہاہاہاہا اکیلا، توبہ ہے کمینے تجھ سے تو شیطان بھی آگے نہیں نکل سکتا۔ اس نے قہقہ لگایا اور میسج کرنے لگا یار ایک بات بولوں نہ تو نہیں کرو گی ناں نہیں بولو بولو ایسی کیا بات ہے یار اپنی ایک تصویر تو سنڈ کر دو تمھارا دیدار کرنے کا بہت دل کر رہا ہے۔ شبنم نے غصے والا ایموجی سنڈ کیا دوستوں نے دیکھا تو ہنسنے لگے، ہاہاہاہا ، بڑا کہتا تھا، اب دیکھ لے، نہیں سنڈ کی ناں۔ تھوڑی دیر اس نے موبائل ہاتھ سے رکھا اور کہنے لگا ابھی دیکھنا کیسے آتی ہے تصویر ۔ شبنم نے دیکھا کہ اُسے کوئی جواب نہیں ملاوہ پریشان ہو گئی کہ شاید رضوان ناراض ہو گیا ہے۔ اس نے موبائل اٹھایا اور اپنی تصویر سنڈ کر دی اور ساتھ لکھا پلیز ڈلیٹ کر دینا ۔ رضوان نے میسج کی آواز سنی تو موبائل اٹھا کر دوست کے ہاتھ میں دے دیا کہنے لگا ، دیکھ لے ، تصویر ہی ہو گی، دوست نے جب ان باکس کھولا تو حیران ہو گیا واقعی تصویرآچکی تھی، سب دوست دیکھنے اور ایک ایک نقش کی تعریف کرنے لگے۔ بے چاری شبنم، جو حوس لالچ اور فریب کی آڑ میں الفاظ کو بناو سنگھار کو سچی محبت سمجھ رہی تھی اسے کیا خبر تھی کہ دوسری طرف اسکی عزت کا جنازہ نکالا جا رہا تھا۔۔۔ رضوان نے تصویر کی بہت تعریف کی اور کہا کہ اس نے تصویر ڈلیٹ کر دی ہے ۔۔ مگر حقیقتا اس نے تصویر محفوظ کر لی اور سب دوستوں کو شیئر کی۔۔۔ وقت گزرتا رہا بات ویڈیو کال تک آگئ ، ویڈیو کو سکرین ریکارڈ کے زریعے محفوظ کر لیا جاتا اور بعد از سارے دوست ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے۔۔ ایک دن رضوان نے اسے گھر سے باہر بلایا ۔ تو اُس نے امی ابو سے کہا کہ وہ مریم کے گھر جا رہی ہے اور قریب دو گھنٹے تک واپس آجاۓ گی ۔۔ مگر جب وہ وہاں پہنچی تو رضوان اور اس کے سب دوست وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے اس کے ساتھ ناقابلِ بیان جرم کیا،۔ وہ چیختی رہی ، چلاتی رہی، نگر حوس کے پچاری ، انسانیت سے بے خبر درندگی اپناتے رہے۔ وہ تڑپتے تڑپتے بے ہوش ہو گئ ۔ رضوان اور اس کے دوست اسے اسی حال میں چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گۓ ۔ دو گھنٹے کے بجاۓ پانچ گھنٹے گزر گۓ تو ابو اور امی راہ دیکھنے لگے، ابو بار بار دروازہ کھول کر دیکھتے مگر کوئی نظر نہ آتا۔ دونوں پریشان کہ ابھی تک بیٹی گھر نہیں لوٹی اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا ۔۔۔ ۔ہاۓ شبنم کے ابو ذرا اسے کال تو کریں کدھر رہ گئی ہے ہماری بیٹی؟ ابو مسلسل کال کریں مگر کوئی کال نہ اٹھاۓ ،اس کی سہلیوں کو کال کی تو انہوں نے بتایا کے وہ ادھر تو نہیں آئی اور ناں ہی ہمارا کوئی ملنے کا ارادہ تھا ۔۔ باپ کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو ٹپک رہے تھے ۔ شبنم کے ابو کچھ تو کریں ! پولیس کو بتائیں ، رات ہونے کو ہے آخر ہماری بچی گئی تو گئی کہاں ۔ پولیس کو کال کی جواب ملا بابا ! بیٹی کو سنبھال کے رکھنا تھا ناں ابھی کھانے کا وقت ہے بعد میں کال کرو صاحب مصروف ہیں ۔ ادھر شبنم کو ہلکہ ہلکہ ہوش آیا تو دیکھا ہر طرف اندھیرا ہے اس کا جسم جگہ جگہ سے بے رحمی سے نوچا ہوا ہے جیسے انسانی درندوں نے اس پر حملہ کیا ہو ، وہ ہلکی آواز میں مدد کے لیے بلانے لگی مگر کوئی قریب آواز سننے والا نہ تھا رات پھیلتی جارہی تھی ۔ اس میں کھڑے ہونے کی طاقت نہ تھی پیاس کی شدد سے گلا خشک ہو رہا تھا اور پورا جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ہاۓ میرے ابو میرے امی موبائل کی طرف دیکھا تو موبائل بج رہا تھا مگر موبائل اتنا دور پڑا ہوا تھا کہ اس کا پہنچنا محال تھا ۔ رضوان اور اس کے دوست اپنے اپنے گھر چلے گۓ اور ایسے بے خبر گھومنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اسکے والدین محلے میں بات کرنے سے گبھرائیں کہ بیٹی کا معاملہ ہے لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے ۔ سب طرف سب دوستوں کو پوچھا مگر کوئی سراغ نہ مل سکا ۔ باپ نے پھر پولیس میں کال کی تو صاحب نے اندراج کر لیا مگر کوئی خاص کاروائی نہ کی۔ دو تین پولیس والے آۓ معمولی تفتیش کی اور یہ کہتے ہوے چلے گۓ کہ اب رات ہو چکی صبح کیس کو دیکھیں گے۔ ایک پولیس والے نے ہنس کر کہا گئی ہو گی کسی آشنا کے ساتھ رنگ ریلیاں منانے آجاۓ گی منہ کالا کر کے ۔ یہ الفاظ باپ پر کسی قیامت سے کم نہ تھے مگر بے بس کیا کرتا۔ رات تڑپتے تڑپتے گزر گئ ماں کا رو رو کر برا حال میری بیٹی ایسی نہیں ہو سکتی جھوٹ کہتا ہے پولیس والا ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔وہ ضرور کسی حادثہ کا شکار ہو گئ ہو گی۔ صبح ہوتے ہی پولیس والے پہنچ آۓ گھر سے نکلنے کا وقت پوچھا تو بتایا گیا کہ کل دن ایک بجے گھر سے نکلی تھی، سامنے دوکان والے سے پوچھا تو اس نے بتایا کے فلاں نمبر رکشہ میں اس نے اس وقت پر ایک لڑکی کو سوار ہوتے دیکھا تھا ۔ خیر تھوڑی ہی دیر میں اس رکشے والے کو ڈھونڈ لیا گیا اس نے بتایا کے فلاں مقام پر اس نے اسے اتارا تھا ۔ جب وہاں پہنچے تو آس پاس تلاش شروع کر دی گئ اچانک شبنم پر نظر پڑی تو وہ بے چاری رات کے کسی پہر جان دے چکی تھی۔ سردی سے اس کا جسم جم چکا تھا لبوں پر حسرت اور کھلی آنکھوں میں اپنی ہم عمر کے لیے ایک پیغام عیاں تھا کہ میرے بہنوں میری نوجوان سہلیوں یہ سب دھوکہ ہے اپنے والدین کی قدر کرو اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو اسلام کو فالو کرو اسلام تمھارا پاسبان ہے دین اسلام میں جس کو حرام کہا گیا اس کے پاس نہ جاو اس میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پولیس نے موبائل دیکھا تو اس سے مجرموں کا سراغ مل گیا سب کو گھر گھر سے اٹھا لیا گیا ۔ لڑکوں کے ماں باپ حقیقت سے بے خبر بچوں کی بے گناہی کی قسمیں اٹھا رہے تھے کہ ہمارے بچے ایسے نہیں ہیں۔۔۔۔ دوسری طرف شنبم کے ابو اور امی دکھ سے ذہنی توازن کھو بیٹھے ، وہ پورا پورا دن شبنم کی گڑیا سینے سے لگاۓ رکھتے ، اس سے لاڈ اور پیار کرتے رہتے اور کوئی کہتا کہ بیٹی دنیا سے چلی گئی تو اسے چپ کا اشارا کرتے ہوے کہتے یہ ہماری بیٹی ہے اور گڑیا کو پیار کرنے لگتے۔ لڑکوں کے والدین تعلق واسطے والے لوگ تھے رشوت دی اور بچوں کو بچا لیا ۔ ان کے بچے مزید گناہ کے راستے پر چلنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محترم احباب تمام والدین اپنے بچوں کی حرکات اور معاملات پر مکمل نظر رکھیں۔ وگرنہ لا پروائی کے نتائج انتہائی دردناک ہو سکتے ہیں ۔ لڑکیوں کو بھی چاہیے کہ احتیاط کریں ۔ میری بہنوں کوئی محبت نہیں کرتا ہے سب حوس ہوتی ہے اور حقیقتا ایسا ہی ہوتا ہے جیسا میں میں نے لکھا ہے۔ کسی کو بھی اپنی تصاویر یا ویڈیو شیئر مت کریں اگر ایسی غلطی ہو جاۓ تو بلیک میل ہونے کے بجاۓ گھر بتا دیں تاکہ آپ بڑے نقصان اور شرمندگی سے بچ سکیں ۔ ۔وگرنہ آپ کا ہر قدم آپ کو دلدل میں مزید دھنسا دے گا۔ اپنی اور اپنی والدین کی عزت کا خیال رکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ایسے معاملات میں فورا کاروائی عمل میں لائیں تاکہ کسی کی جان بچ سکے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1121 جرم تب پھیلتا ہے جب مجرم کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
😢 👍 😭 14

Comments