سبق آموز واقعات وحکایات WhatsApp Channel

سبق آموز واقعات وحکایات

2.3K subscribers

About سبق آموز واقعات وحکایات

⚜️باسمہٖ تَعالى​​⚜️ 🏷 " *سبق آموز واقعات وحکایات* " چینل میں آنے والے "معزز احباب کو *خوش آمدید* " چینل میں آپ سب کا تہہ دل سے ​ *خَیر مَقدَم​* کیا جاتا ہے ۔۔ ✈اس چینل کا مقصد آپ ممبران کیلئے کارآمد اور مفید " *سبق آموز واقعات وحکایات* " ڈھونڈکر یہاں پیش کرنا ہے، ثواب اور صدقہ جاریہ کی نیت سے آپ یہاں سے کچھ بھی کاپی کر کے کہیں بھی شیئر کر سکتے ہیں۔ ہمارا *یوٹوب چینل* میں یہاں سے شامل ہوں۔ https://www.youtube.com/@UrduKahaaniyaan *ہم سے رابظہ کرنے کے لئے* Message On WhatsApp 👇👇👇👇 https://wa.me/+971581023386

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/28/2025, 12:52:37 AM

کزن (دوسرا ) 💕 کچھ دیر بعد گیلے بالوں پہ تولیہ لپیٹے وہ غسل خانے سے نکلی۔ اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ اب وہ ایک بار پھر ہمارے اردگرد ظاہر ہوئے۔ گلابی پھولوں والا دوپٹہ اسکے سر پہ تھا۔ اب وہ تخت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ میں نے قصداً اپنی آنکھیں پھیر لیں۔ وہ امی کے قریب رکی۔ میں میتھی کی ایک شاخ سے کھیلتا اسکی آواز کا منتظر تھا کہ شاید اس کے لفظ کسی سمت کو نکلیں۔ وہ کچھ لمحے یونہی اماں کے قریب کھڑی رہی۔ ہمارے اردگرد لوشن کی بھینی سی خوشبو پھیل گئی۔ میں نے اپنی دکھتی ٹانگ سیدھی کی اماں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پاس رکھی ٹوکری اسکی جانب بڑھائی جس میں مٹر کے دانے اور آلو تھے۔ اس نے ٹوکری تھامی اور پھر کچن کی جانب چل دی۔ اب وہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اتنی خاموشی؟ اب دھوپ تھوڑی تیز ہونے لگی تو امی نے مجھے بھی اٹھنے کا حکم دیا۔ میں اب اس خاموش ڈرامے سے اکتا گیا تھا۔ میں نے اپنا فون اٹھایا اور کمرے کی جانب چل پڑا۔ کمرا حقیقت میں صاف ستھرا اور میری چشم تصور جیسا ہی تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پہ موجود گرد و غبار سے پاک تھی۔ اب مجھے بھی صاف ہو جانا چاہیے تھا۔ اسی خیال کے پیش نظر میں اپنی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر اُٹھائے غسل خانے کی جانب بڑھ گیا۔ مسواک کرنے اور منہ دھونے کے بعد میں نے لباس تبدیل کیا۔ نہانا سے گریز زخموں کے باعث تھا۔ میں غسل خانے سے نکلا تو ہانڈی میں چمچ ہلانے کی آواز آنے لگی۔ امی ابو کے کپڑے استری کرنے میں مگن تھیں۔ اور یقیناً کچن میں وہی موجود تھی۔ امی نے میری دھلی دھلائی صورت دیکھی تو مسکرا دیں۔ پھر یونہی ادھر ادھر کی گفتگو کرنے لگیں میں دوبارہ امی کے قریب لاونج میں بیٹھ گیا۔ "چچی آٹا گوندھ دوں؟" یہ اچانک سنائی دی جانے والی گلو گیر سی یہ آواز یقیناً اسی کی تھی۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ کچن کے دروازے میں کھڑی امی سے مخاطب تھی۔ امی نے آٹا گوندھنے سے منع کر دیا کہ فریج میں پڑے آٹے سے گزارا ہو جائیگا۔ وہ سر ہلاتی دوبارہ کچن میں گھس گئی۔ میں اس کی مصروفیات پہ رشک کر رہا تھا۔ ایک میں تھا جو چھٹی کے روز اٹھ کر موبائل دیکھنے اور تین وقت کے کھانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتا تھا۔ اور دوسری طرف وہ جو زیادہ فجر کے وقت سے اب تک چلتی پھرتی چھوٹے بڑے سب کا نبٹا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں چاول ۔ مونگ اور اور مسور کی دال ڈالے چنتی ہوئی باہر آئی اور میز کے گرد پڑی کرسی میں سے ایک نکال کر بیٹھ گئی۔ اب وہ چاول صاف کرنے لگی۔ اور مجھ سے بہتر کون جانتا تھا کہ اس چاول دال سے میرے لیے کھچڑی بنے گی۔ یہ بھی امی کا فرمان تھا۔ میں ایک نظر اس پہ ڈال کر اب امی کو دیکھ رہا تھا۔ اب امی کسی قمیض کا بٹن ٹانک رہی تھیں۔ وہ اتنا کام کیوں کر رہی ہے؟ امی اس کا ہاتھ کیوں نہیں بٹا رہیں؟ کیا یہ تمام کام مشکل نہیں؟ تو کیا خواہ مخواہ فیمنزم نے شور مچا رکھا ہے؟ شاید مکس ویج کا یہ سالن تیار ہو چکا تھا۔ زیرے کی خوشبو گھر میں ہر طرف پھیل چکی تھی۔ شائد کھچڑی کی چولہے پہ چڑھانے کو تیار تھی۔ پیاز ہلکے براؤن ہوئے تو میں کچن میں داخل ہوا اب وہ نمک اور کٹی ہوئی کالی مرچ کڑاہی میں ڈال رہی تھی۔ مجھے اندر داخل ہوتے دیکھا تو سمٹ کر ایک جانب ہوگئی میں نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔ اس نے قریب رکھے گلاس سے تھوڑا سا پانی کڑاہی میں ڈالا اب مصالحے کی بھنائی کا وقت تھا۔ میں نے وہیں کھڑے بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا اس نے ڈھائی گلاس پانی ماپ کر کڑائی میں ڈال دیا۔ اب وہ سنک کی جانب بڑھ گئی۔ میں تسلی سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا پانی پی رہا تھا۔ ایک گلاس پانی پیا گلاس شیلف پہ دھرا۔ اس نے بھگو کر رکھے ہوئے دال اور چاول سے پانی نکالا۔ ادھر کڑاہی میں ڈالے گئے پانی میں جوش آیا اس نے چاول دال پانی میں ڈالا کر ڈھکن رکھا۔ اور تب تک میں کچن سے نکل چکا تھا میرے عقب سے کڑاہی کو ڈھکنے کی آواز ابھری۔ ہمارے شہر کے مضافات میں ظہر کی اذان کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ اور پھر مؤذن کی آواز گونجی۔ اذان مکمل ہوئی تو کچن سے روٹی بننے کی آواز آنے لگی۔ امی کچن سے ابھرنے والی اس آواز کی جانب متوجہ ہوئیں۔ اب وہ اٹھ کر کچن میں آ گئیں اب دونوں کے درمیان کچھ لفظوں کا تبادلہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچن سے نکلی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اب وہ یقیناً نماز ادا کرے گی۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا کرنا بچپن سے معمول تھا۔ اور اب تک یہ عادت پختہ ہو چکی تھی۔ امی سمیت کوئی بھی بغیر کسی عذر کے نماز قضا نہ کرتا تھا۔ اور وہ بھی شاید نماز کی پابند تھی۔ میں نے کبھی اسے نماز ادا کرتے تو نہیں دیکھا تھا کہ وہ نماز اپنے کمرے میں ہی ادا کرتی تھی۔ پر نماز ادا کر چکنے کے بعد منہ میں کوئی تسبیح پڑھتے ہوئے ایک دو بار دیکھا تھا۔ اب امی کچن میں روٹی بنا رہی تھیں۔ وہ کمرے میں جا چکی تھی اور کیں سوچ رہا تھا نماز ادا کر لوں یا زخم کے مندمل ہونے کا انتظار کروں۔ پھر اس سے قبل کہ شیطان مجھ پہ حاوی ہوتا میں نے وضو بنایا اور گھر میں ہی چار رکعت فرض ادا کیے۔ جب تک دوبارہ لاونج میں آکر بیٹھا تو آدم سکول سے لوٹ آیا تھا۔ آدم نے آتے ہی صوفے پہ بستہ رکھا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔ اتنے میں امی کے کمرے کا دروازہ کھلا وہ منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے کمرے سے نکلی۔ صوفے پہ پڑا آدم کا بستہ اٹھا کر اسکے کمرے میں رکھ آئی۔ اور اب کچن کی راہ لی۔ اب وہ میز پہ برتن لگا رہی تھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ پانی کا جگ۔ ہاٹ پاٹ ۔ سالن کا برتن اور گلاس سب میز پہ سج چکے تھے۔ ابو گھر آ کے تھے جبکہ احد عنقریب لوٹنے والا تھا۔ اچھاااا ہماری غیر موجودگی میں اس طرح ہر ایک کام کیا جاتا تھا۔ یعنی ہم جو صبح کے نکلے شام کو لوٹتے تو کھانا بن چکا ہوتا اور گھر صاف ستھرا ہوچکا ہوتا تو اس شفافیت کے عقب میں یہ انتھک محنت چھپی ہوئی تھی۔ احد واپس آچکا تھا۔ برآمدے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر مجھ پہ پڑی وہ میرے پاس آیا اور میری خیریت دریافت کرنے لگا۔ میز پہ کھانا چن دیا گیا تھا۔ گھر کے تمام نفوس کھانے کی میز پہ اپنی اپنی نشست سنبھالے کھانے میں مگن تھے۔ سب سے پہلے ابا اور پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کھانا تناول ہوا۔ برتن سمیٹ دیے گئے اور سب آرام کی غرض سے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔ میں بھی احد کیساتھ اپنے کمرے میں اگیا۔ آدھے دن کے اس مشاہدے نے مجھے تھکا دیا تھا۔ میں اپنی کیفیت نہیں جان پا رہا تھا۔ میں اسے پہلے بھی بہت بار دیکھ چکا تھا مگر آج وہ اتنی مختلف کیوں لگی؟ میری نظریں کیوں اسکی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اور میرے حواس پہ کیوں چھپانے لگی تھی۔ میں سوا گھنٹہ بیڈ پہ کروٹیں بدلنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ سوا تین کا وقت تھا میں آہستگی سے چلتا ہوا کمرے سے نکلا برآمدے میں آدم لاونج والے حصے میں بیٹھا اپنا سکول کا کام لکھ رہا تھا۔ دروازے سے تھوڑا آگے آیا تو ایک سنگل صوفے پہ بیٹھی وہ ڈائجسٹ پڑھنے میں مگن تھی۔ اور میں جو سوچ رہا تھا کہ اتنی دیر مسلسل کام کرنے کے بعد وہ یقیناً اب آرام کر رہی ہوگی۔ مگر اسے صوفہ پہ بیٹھا دیکھ حیران ہو گیا۔ لاونج میں بہت خاموشی تھی۔ پنکھے کی گڑ گڑ اس سکوت میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ اسی اثناء میں احد کمرے سے نکلا میں خوامخواہ کچن کی اور بڑھنے لگا۔ احد نے اردگر دیکھا اس سے قبل کہ کوئی سوال کرتا بیرونی دروازے پہ دستک ہوئی۔ احد سیدھا دروازے کی جانب بڑھا۔ میں کچن سے پانی کی بوتل اور گلاس نکال لایا۔ وہ ابھی تک اپنی سابقہ حالت میں رسالہ پہ نظریں جمائے دنیا و مافیہا سے بیگانہ بیٹھی تھی۔ احد دوبارہ لاونج میں آیا اور میرے دوستوں کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ میری خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ احد نے اسے چائے بنانے کی درخواست کی اس نے رسالے کا صفحہ موڑتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پہ دھرا اور اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔ اتنے دوست لاونج تک آگئے احد نے آگے بڑھ کر ڈائننگ ٹیبل اور لاونج کے درمیان فرق کرنے والا پردہ گرا دیا۔ وہ پردے کے پیچھے گم ہو گئی۔ اتنے میں امی کمرے سے باہر ائیں۔ میرے دوستوں کی خیریت دریافت کی اور انتظامات کا جائزہ لینے کچن میں چلی گئیں۔ چائے کیساتھ کچھ نمکو بسکٹ ٹرے میں سجا کر احد لاونج میں کے آیا۔ جب تک میرے دوست موجود رہے میرے ذہن سے وہ محو ہو چکی تھی۔ عصر کے قریب میرے دوست لوٹ گئے۔ اور پردے اٹھا دیے گئے۔ شام کے وقت میں تازہ ہوا کی غرض سے آدم کیساتھ گھر کے قریب کھلے پارک میں آگیا۔ آدم اپنے دوستوں کیساتھ کرکٹ کھیلنے لگا۔ میں سنگی بینچ پہ بیٹھا مختلف سوچوں میں کھو گیا۔ میرے ذہن میں خیالات کسی فلم کی مانند چلنے لگے۔ بچپن سے اب تک اسے بہت بار دیکھا تھا مگر کبھی اسے اتنا قریب سے دیکھنے کا اندازہ نہیں تھا۔ گھر کے اکلوتے اور لاڈلے بچے جس طرح بگڑے ہوئے ہوتے ہیں وہ ویسی بالکل نہیں تھی۔ ہمارے ددھیالی خاندان میں صرف تین ہی لڑکیاں تھیں۔ ایک یہ اور دو بڑے تایا کی بیٹیاں۔ ان میں سے ایک کی شادی ہو چکی تھی۔ اس وقت سے پہلے وہ کبھی ہمارے گھر رہنے نہیں آئی تھی۔ شاید اس بار بھی نہ آتی اگر میرے ابا کو اپنی ریت رواج سے اتنی محبت نہ ہوتی۔ در اصل ہماری یہ کزن بچپن ہی سے بڑے تایا کے دوسرے بیٹے کی منگ تھی۔ بڑی تائی نے کوشش کی تھی کہ اب نمرہ اور انکے بیٹے کا نکاح ہو جائے تاکہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے۔ لیکن میرے ابا چھوٹے تایا کو سمجھانے لگے کہ ابھی اسکی عمر کم ہے کم از کم بی ایس سی مکمل ہو جائے تو شادی رکھ لیں گے۔ ابا کے اس فیصلے کی کیا تک تھی یہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اب نمرہ کے رہنے کا انتظام کیا جانا تھا جو کہ بڑے تایا کا گھر تو بالکل نہیں ہو سکتا تھا۔ کہ وہاں اس کا منگیتر موجود تھا۔ بس اسی لیے میرے بابا نے اپنا گھر پیش کیا۔ ابا کو اپنی تربیت پہ بہت ناز تھا لیکن ابا کی نمرہ سے ایسی محبت ہماری سمجھ نہیں آتی تھی۔ سب سمجھتے تھے کہ شاید ابا کی اپنی کوئی بیٹی نہیں سو وہ نمرہ میں اپنی بیٹی دیکھتے ہیں۔ مگر سب جانتے تھے کہ جیسی محبت ابا نمرہ سے کرتے ہیں ویسی عقیدت وہ بڑے تایا کی بیٹیوں سے نہیں رکھتے۔ اب میرے خیالات کی رو اس جانب بہہ نکلی۔ چھوٹی تائی کی وفات کے وقت میرے ابا اتنے مغموم تھے۔ بس تھکے ہارے جیسے کچھ بہت قیمتی ہو گیا ہے۔ شام ڈھلنے لگی۔ قریبی مسجد سے مغرب کی اذان سنائی دینے لگی۔ میں آدم کو ساتھ لیے مسجد کی سمت بڑھ گیا۔ آج تو دل پہ کچھ عجیب سا بوجھ تھا۔ جاری

👍 ❤️ 🤌 🦶 47
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/28/2025, 12:51:51 AM

ناول میرا نام ہے محبت قسط نمبر 17۔ تحریر سنیہ شیخ میر !!!۔۔بس اب بہت ہوا میں اب اس سے زیادہ ابصار کی بدتمیزی برداشت نہیں کروں گی ،اگر وہ مجھے پر کیس کر رہا ہے اس دو ٹکے کی عورت کے لیے تو مجھ سے بھی امید نہ رکھے ۔۔ وہ لہجے میں نہایت نفرت لیے ابصار کے لیے زہر اگلتی میر صاحب کو ورغلا رہی تھیں ۔۔ میر صاحب نے انکی کسی بھی بات کا رسپونس نہیں دیا جس پر وہ آگ بگولہ ہوتی انکے سامنے کھڑی ہوئیں ۔۔۔ "کیا اب میری باتیں اتنی غیر اہم ہیں کہ سننا تو دور آپ میری طرف دیکھنا بھی نہیں چاھتے ۔"۔ وہ شکوہ کرتی ہوئی میر صاحب کے سامنے کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح کھڑیں تھیں ۔۔۔ کیا چاہتی ہو اب ؟؟میر صاحب بے زاری سے اسے دیکھتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔۔ آپ ۔۔آپ اپنے بیٹے کو سمجھایں اس دو کوڑی کی لڑکی کی خاطر اپنے بھائی کو بدنام نہ کرے ۔۔قیس اسکا بھی بھائی تھا ۔۔اسے کچھ تو لحاظ ہونا چاہئے وہ لڑکی قیس کی بیوہ ہے کیسے اسے لیے پھر رہا ہے ۔ستارہ اپنی بات که کر میر صاحب کے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ گئیں ،محبت سے ہاتھ گھٹنے پر رکھے جو میر صاحب نے اسی وقت جھٹک دئے ۔۔ کل تک تم کہتی تھیں ابصار میرا بیٹا نہیں وہ تو سپولا ہے ،اور آج کہتی ہو بیٹے کو سمجھاؤں ،منافق تو کوئی تم سا ہو ستارہ ۔ میر صاحب نے طنزیہ لہجے میں جواب ستارہ کے منہ پر مارا وہ غصے سے تلملاتی ہوئی دوبارہ بولیں ۔۔ میر صاحب میرا میری ایک بات یاد رکھیں آپ نے ابصار کو نہ روکا تو جو قیس کی بیماری میڈیا پر آے گی پھر کیسے کوور کریں گے ۔۔کیا کیا چھپایں گے آپ اور پھر آپ کی رپوٹیشن جھٹکے میں برباد ہوجاے گی ۔۔مارکیٹ میں ویسے بھی آپ کی کومپنی کو ابصار نے بہت ٹف ٹائم دیا ہوا ہے سارے شیرز وہ خرید چکا ہے ،بزنس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے اس صورت میں قیس کی بدنامی آپ کے کاروبار پر اثر انداز ہوگی ۔۔ ستارہ بیگم انہیں فیکٹس سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے ٹوٹے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے ۔۔۔ کیا کروں گا ویسے بھی اس دولت کا کس کے لیے سمبھالوں گا ایک وارث کو تم نے چھین لیا اور ایک قدرت لے گئی ،میرے ہاتھ خالی ۔کیا اب بھی سکون نہیں ملا تمھیں بدزات عورت ۔۔میری بیوی کو کھا لیا میرا بیٹا مجھ سے دور کردیا میری ماں تمہاری وجہ سے ناراض رہتی ہے اور کیا کروں میں تمہارے لیے ۔قدرت نے اتنی بڑی چوٹ لگا دی جوان بیٹا میں نے اپنے ان ہاتھوں سے قبر میں اتارا ہے سوچ سکتی ہے ایک باپ کی بے بسی کی انتہا کیا ہوگی تب ۔۔کاش تم قیس کی تربیت اچھی کر لیتیں تو آج میں اتنا مجبور نہ ہوتا انکی آواز میں بے بسی اور کرب تھا ۔دل پر بوجھ تھا اب وہ اکتا گئیے تھے ستارہ کی بے حسی سے ۔۔ قیس صرف آپ کا نہیں میرا بھی بیٹا تھا ۔مجھے تربیت کے تانے مت دیں ،کیا بھول گئیے اپنے ابصار کے کارنامے ۔کیوں میر پیلس سے نکالا گیا تھا ،سب بھول گئے کیا میر عالم صاحب۔ ستارہ بیگم کے سینے میں اس وقت آگ دہک رہی تھی میر عالم کی باتیں انہیں سلگا چکی تھیں ۔۔اتنا ہی شریف ہے تو کیوں اپنی ہی بھابھی کے ساتھ رنگ رلياں منا رہا ہے وہ نفرت میں آپے سے باہر ہورہی تھیں ۔۔۔۔ تمہاری سوچ بھی تمہاری طرح گھٹیا ہے ستارہ وہ قیس کی بیوہ ہے وہ صرف نکاح میں تھی اسکے رخصتی والے دن ہمارا بچہ اس دنیا سے رخصت ہوا تھا ،اتنا ڈر لگ رہا ہے ابصار سے تو پھر اس بچی کو اسکا حق دے دو ،نہ عدالت کے چکر میں پڑو ،،،/ وہ تھوڑا سا سانس لے کر دوبارہ مخاطب ہوئے ۔۔۔جو بن پڑے کرلو میں تمہاری کسی بات میں نہیں آوں گا ۔۔۔وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے تکیے پر سر ٹکا گئے پرانی یادوں کو ایک سمندر تھا جو ایک بار پھر کسی فلم کی طرح انکے دماغ میں چل رہا تھا ۔۔ دکھ ،تکلیف ،پچھتاوہ ۔۔۔اب یہی انکے ہمسفر تھے ۔۔ستارہ ہمیشہ کی طرح جلتی کڑہتی ہوئی کمرے کا دروازہ زور سے پٹخ گئیں تھیں یہ سب تو اب روز کا معمول تھا ۔۔۔۔ 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥 تابش صبح جم سے فارغ ہوا تو ہر روز کی طرح جوس کا منتظر تھا، مگر جوس کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ وہ کچھ دیر تو صبر سے انتظار کرتا رہا، پھر بے چینی سے نیچے آیا۔۔خیر ہو آج امی کی طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔ کچن میں داخل ہوتے ہی وہ حیران رہ گیا۔ شائستہ بیگم اور نور کچن میں بیٹھی ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ نور باتوں کے ساتھ ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ سمجھا رہی تھی، اور شائستہ بیگم کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں۔ "امی!" تابش نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا۔ شائستہ بیگم نے چونک کر اسے دیکھا اور معصومیت سے پوچھا ۔ "کیا ہوا؟ اتنا غصے میں کیوں ہو؟" انہیں اب بھی یاد نہ آیا کہ ان کے بیٹے کا جوس کا ٹائم ہے ۔۔ "یہ پوچھنے آیا ہوں کہ میرا جوس کہاں ہے؟ آپ تو روز میرے جوس کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، آج کیا خاص بات ہے جو بھول گئیں؟" تابش نے تیز لہجے میں کہا۔تابش کو نور سے شدید جلن کا احساس ہوا ۔۔ "خاص بات میں ہوں، تابش صاحب! آنٹی کو آج میری کمپنی میں زیادہ مزہ آ رہا تھا، اس لیے آپ کے جوس کی اہمیت ختم ہو گئی۔"۔ شائستہ بیگم کی جگہ جواب نور نے دیا ۔ "نور، صبح صبح میرے منہ مت لگو "۔" تابش نےناگواری سے نور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ "بیٹا، میں بھول گئی تھی۔ ابھی بناتی ہوں۔" تابش کا خراب موڈ دیکھ کر شائستہ بیگم وضاحت دیتے ہوئے کھڑی ہوئیں ۔۔ "نہیں رہنے دیں اب ٹائم نہیں ہے مجھے نکلنا ہے ۔آپ میڈ سے بولیں میری بلیک کوفی دے جائے مجھے روم میں "۔ وہ نروٹھے پن سے بولتا ہوا واپس مڑا ۔۔ مسٹر فضول پولیس والے ،"اس وقت آپ نے کونسا کوئی ڈاکو پكڑنا ہے ،وہ بھی سب سورہے ہونگے آپ بھی آرام سے ناشتہ کریں یہ بلیک كافی کی وجہ سے ہی آپ کے مزاج میں کڑواہٹ ہے "۔۔ نور نے ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے تابش کو مزید آگ لگائی ۔۔ "نور، اگر تم اپنی بکواس بند نہیں کرو گی تو میں تمہیں کچن سے باہر پھینک دوں گا!"۔۔تابش، جو اب تک صبر کا مظاہرہ کر رہا تھا، آخرکار چڑ کر بولا "بس کرو تم دونوں! تابش، میں ابھی جوس بنا رہی ہوں۔ اور نور، تم چپ ہو جاؤ۔"۔ شائستہ بیگم نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔ ارے آنٹی ایک تو میں نے مفت میں مشورہ دیا ہے اپر سے یہ ہیں کہ صبح صبح آدم خور بنے گھوم رہے ہیں پولیس والے ہونگے تهانے میں یہاں تو انسان بن کر رہیں ۔وہ معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتی ہوئی آنکھیں جھپک کر بولی ۔۔ تابش نے غصے سے نور کو گھورا، جو آرام سے بیٹھی ٹوسٹ کے بعد مزے سے بسکٹ کھا رہی تھی۔ "نور! تم میرے ہی گھر میں مجھے آنکھیں مت دکھاؤ!" تابش کا پارہ چڑھ گیا۔ نور نے بسکٹ کا ایک اور نوالہ لیا اور کندھے اچکاتے ہوئے بولی، "آنکھیں دکھا کر میں نے کون سا آپ کی جائیداد لینی ہے؟" تابش نے مٹھیاں بھینچ لیں، "نور!"۔ نور نے تابش کو تپتے دیکھ کر مزید مزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ چیئر پر مزید آرام سے بیٹھی اور جان بوجھ کر آنکھیں گھما کر بولی،۔ "ویسے ، آپ ہمیشہ ایسے منہ بنا کر کیوں رکھتے ہیں ۔ جیسے دنیا کے سارے دکھ آپ کو ہی ہی مل گئے ہوں۔"۔ تابش نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا، "تمہیں دیکھ کر ہی سارے دکھ یاد آ جاتے ہیں!"۔اور میرا منہ میری مرضی ۔ نور نے بسکٹ کا آخری نوالہ لیا اور تابش کی طرف دیکھ کر بولی، "پھر تو میرا احسان ماننا چاہیے، کم از کم اپنی قسمت کا پتہ تو چل گیا۔"آپ کو ۔۔ نور ۔۔۔۔میں بتا رہا ہوں بہت بری طرح پیش آوں گا ۔۔۔تابش کا خالی پیٹ وہ اچھا خاصا دماغ گھم چکا تھا ۔۔۔۔۔۔ تم ،یہ مفت کا مال ٹھوسنا بند کرو تیار ہو میرے ساتھ جانا ہے تم نے آج سے کام سٹارٹ کرو ۔"۔۔اپنی ماں کے سامنے ہوتی انسلٹ پر وہ تلملا رہا تھا ۔نور اس وقت اسے زہر لگ رہی تھی ۔ جی معذرت جب تک میری دبئی کی ٹکٹ نہیں کروایں گے میں تو کام نہیں کرنے والی ۔۔۔نور نے صاف ہری جھنڈی دکھائی ۔۔۔ "جہنم کی ٹکٹ نہ کروا دوں تمہاری . اور وہ بھی ڈائریکٹ فلائٹ "۔ تابش نے اسے ایک آئ برو اچکا کر دیکھتے ہوئے کہا ۔ تو اپنی بھی کروا لیں مجھے تو راستوں کا نہیں پتہ آپ کو ذرا وہاں کی انفارمیشن زیادہ ہے آتے جاتے جو رهتے ہیں "۔ نورکو چپ رہنا کب آتا تھا بھلا ۔۔۔۔ نور کی بات پر شائستہ بیگم کی تو ہنسی چھوٹی ہی تھی باہر سے آتی ہوئی میڈ بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔وہ دوپٹہ منہ پر رکھے ہنسی چھپا رہی تھی ۔۔۔اپنے صاحب کی دورگت بنتے ہوئے پہلی بار دیکھ رہی تھی ورنہ تو سب کی شامت ہی آتی تھی تابش کے ہاتھوں ۔۔ تمھیں تو میں دیکھ لونگا نور۔۔وہ خود كلامی کرتا ہوا نور پر قہر آلود نظر ڈالتے غصے سے سر جھٹکتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا ۔اس وقت اس نے کچن سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥 فجر کی اذان کی آواز ہلکی ہلکی کمرے میں داخل ہو رہی تھی، اور ہلکی سی ٹھنڈی ہوا پردوں کے بیچ سے گزر رہی تھی۔ ماروی نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں ، اور پہلی چیز جو اس کی نظر کے سامنے آئ ، وہ وجدان کا چہرہ تھا۔ وہ بیڈ کے ایک طرف سکون سے سو رہا تھا، اور اس کے چہرے پر ایک خاص سکون کا عکس تھا ۔ ماروی کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی۔ "کیا یہ خواب ہے یا حقیقت؟" اس نے خود سے سوال کیا۔ وجدان کا یہ روپ، اس کی معصومیت، اس کی محبت—یہ سب کچھ ماروی کو فلم کی طرح لگا ۔ پھر ناول میں بھی تو اتنے خوبصورت ہی ہیرو ہوتے ہیں ،۔۔ آزان کی آواز پروجدان نے کروٹ لی ، اس کی آنکھ کھل گئی۔اپنے چہرے پر کس کی مسلسل پڑتی ہوئی نظر پر وہ مسکراتے ہوئے ماروی کی طرف دیکھنے لگا۔ "صبح بخیر، میری سردارنی،" اس نے دھیرے سے کہا، اس کے لہجے میں محبت تھی۔ ماروی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔اسکی چوری پکڑی گئی تھی ۔ وہ جھجکتے ہوئے بولی، "صبح بخیر۔"۔ وجدان نے مسکراتے ہوئے ماروی کا ہاتھ تھام لیا۔ "یہ صبح بہت خوبصورت ہے، ماروی نے نظریں جھکا لیں،۔ آپ کی موجودگی میری دنیا کو خوبصورت بنا رہی ہے میرے کمرے میں رونق ہوگئی ہے ۔ وجدان نے نرمی سے اس کی ٹھوڑی اٹھائی اور کہا، "یہ حقیقت ہے، ماروی۔ اور یہ حقیقت اب ہمیشہ کے لیے ہے۔"۔ ماروی کے لیے وجدان کی نظروں کا سامنا کرنا بہت مشکل کام تھا ۔وہ ان نظروں کی تاب نہیں لا سکی اور شرم سے پلکوں کے جهالر گرا گئی ۔۔ اسکی اس ادا پر وجدان قربان ہوا ۔۔ وہ خاموشی سے بیڈ سے اٹھا اور پردے ہٹا دیے۔ روشنی پورے کمرے میں پھیل گئی، اور ماروی کو لگا جیسے یہ روشنی اس کے دل میں بھی پھیل رہی ہو۔ وجدان نے پیچھے مڑ کر ماروی کی طرف دیکھا اور کہا، "چلیں ، سردارنی، یہ خوبصورت صبح ہماری ہے۔ ہم اسے خاص بناتے ہیں۔"۔ نماز پڑھتے ہیں اور اللّه کا شکر ادا کرتے ہیں ۔۔ وجدان اسکی شرم و حیا کو سمجھ رہا تھا ۔چھپ چھپ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں مگر جاگتے شوہر کو نظر بھر کے دیکھنا اسکے لیے نہ ممکن تھا ،وہ اسکی کنڈیشن کو سمجھ رہا تھا اسے سپیس دے رہا تھا تاکہ ماروی پہلے ذہنی طور پر یہ قبول کرے کہ وہ سردار وجدان کی بیوی ہے ۔حویلی میں رہنے کے آداب تو بحرحال اسے ہر صورت سیكهانے تھے ۔۔ ماروی میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں ۔۔ آپ کی وارڈروب میں ہر ضرورت کی چیز ہے آپ دیکھ لیں ۔۔وجدان جانے کے لیے مڑا تو ماروی نے اسے پکارا ۔۔ سائیں ۔ ماروی کی پکار پر وہ پلٹا ۔۔۔ جی سائیں کی جان حکم ۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا ۔۔۔ وہ ۔۔قرآن پاک ۔۔ وہ بس یہی بول سکی وجدان کی نظروں کا سامنا کرتے ہی اسکے الفاظ گم ہوجاتے تھے ۔۔۔ وہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل میں غلاف میں ہے ۔۔ وہ اسے بتاتا ہوا وہاں سے نکل گیا ۔۔۔ ماروی نے اسکے جاتے ہی گہری سانس اندر کھینچی ۔ وضو کیا نماز پڑھی اور اللّه کے حضور خوب دعایں مانگیں ۔۔۔قرآن پاک کے غلاف کو چوما پھر عقیدت سے اسے کھول کر سینے سے لگایا ۔۔۔اپنا سبق کھولا ۔۔ سوره الانشراح سے اس نے تلاوت کی ۔۔ وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ قرآن کے اوراق پلٹ رہی تھی۔ سورہ الانشراح کی آیتیں پڑھتے ہوئے اس کا دل عجیب سا سکون محسوس کرنے لگا۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (کیا ہم نے آپ کا سینہ آپ کے لیے کشادہ نہیں کیا؟) وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ (اور ہم نے آپ پر سے آپ کا بوجھ اتار دیا) ٱلَّذِيٓ أَنقَضَ ظَهْرَكَ (جو آپ کی پشت کو توڑ رہا تھا) وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا) فَإِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا (پس بے شک، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے) إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا (بے شک، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے) فَإِذَا فَرَغْتَ فَٱنصَبْ (پس جب آپ فارغ ہوں تو محنت کریں) وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَٱرْغَبْ (اور اپنے رب کی طرف رغبت کریں) ماروی جب اس سورہ کی آیات پڑھ رہی تھی تو اس کا دل ایک عجیب سکون سے بھر گیا۔ اسے لگا کہ یہ آیات خاص طور پر اسے تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی ہیں، کہ اس کی زندگی میں جو بھی مشکلات آئیں، اللہ ان کے بعد آسانی عطا کرے گا۔ یہ آیات ماروی کے دل میں اترتی چلی گئیں۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی، لیکن یہ نمی کسی دکھ کی نہیں بلکہ ایک عجیب سے اطمینان کی تھی۔ اس نے قرآن بند کیا اور کچھ لمحے خاموشی سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ "یا اللہ، ہر غم کے بعد خوشی دینے والے، ہر آزمائش کے بعد سکون دینے والے، مجھے حوصلہ دے کہ میں تیری رضا میں راضی رہ سکوں اور ہر مشکل کو تیری مدد سے آسانی میں بدلتے دیکھ سکوں۔"۔ ماروی محسوس کر رہی تھی کہ ان آیات میں اس کے لیے خاص پیغام تھا، جیسے اللہ کا وعدہ ہوا کہ جو آزمائشیں اور مشکلات اس نے زندگی میں دیکھی ہیں، ان کے بعد راحت اور سکون ضرور ملے گا۔ وجدان نے دور سے ماروی کو دیکھتے ہوئے اس کی دلجمعی اور ایمان کو محسوس کیا۔ وہ خوش نصیب تھا کہ اسے ماروی جیسا شریک ے سفر ملا ۔۔ ماروی نے دعا کے بعد وجدان کی طرف دیکھا، جو دروازے پر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ماروی اسے دیکھتے ہی کھڑی ہوئی ۔قرآن ے پاک کو چوم کر دوبارہ غلاف میں لیٹا ۔۔۔ کتنے گمراہ ہوتے ہیں ہم ھمارے سامنے ھدایت ہے اور ہم قرآن کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہیں ،نہ اللّه کا خوف رہتا ہے نہ روزے قیامت اسکے سامنے پیش ہونے کی شرمندگی ۔ وہ ماروی سے بات کرتے کرتے اس کے قریب آیا ۔بہت محبت سے اسکا ماتھا چوما ۔۔ماروی کو سائیں کے اتنے نزدیک محسوس کرتےہوئے اپنے پیروں پر کھڑے رہنا دو بھر ہوا ۔۔۔ آپ کو ابھی اماں سائیں کے پاس جانا ہے ۔وہ تھوڑا ناراض ہیں اس شادی پر مگر آپ نے کسی صورت ادب اور احترام کا دامن نہیں چھوڑنا ۔وہ اگر زیادتی کریں تو آپ سردارنی ہیں آپ کو اس حویلی کے سب فیصلے لینے کا اختیار ہےمیں کسی بھی معملے میں نہیں بولوں گا مگر درگزر جتنا کر سکیں گی اتنا ہی حویلی کا سکون بنا رہے گا ۔۔۔وجدان کا ایک ہاتھ اب ماروی کی کمر پر تھا اور ایک اسکے گالوں پر ۔۔۔وہ کیا بولتی وہ تو کچھ سن ہی نہیں رہی تھی اسے تو صرف محسوس ہورہا تھا وجدان کا لمس ۔۔ اسکی خوشبو سیدھی ماروی کی روح میں اتر رہی تھی ۔ وجدان اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ وجدان نے نرمی سے ماروی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں شفافیت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ماروی کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا، اس لیے اس نے اپنے لہجے میں مزید محبت اور ہمدردی شامل کی۔ "تو پھر، کیا کہتی ہیں آپ، ماروی؟ اماں سائیں سے ملنے کے لیے تیار ہیں؟" وجدان نے آہستگی سے پوچھا۔ ماروی نے نظریں جھکا لیں۔ اس کے دل میں خوف اور تذبذب کا طوفان تھا، لیکن وجدان کی نرمی اور اعتماد اسے ہمت دے رہے تھے۔ وہ کچھ لمحوں تک خاموش رہی، پھر سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے بولی، "جی، میں تیار ہوں۔"۔ وجدان نے اس کی طرف جھک کر کہا، "نہیں، ایسے نہیں۔ مجھ سے کھل کر بات کریں۔ آپ دل سے کیا چاہتی ہیں؟ اگر آپ ملنا نہیں چاہتیں تو میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا۔ لیکن اگر آپ دل سے راضی ہیں، تو پھر ہم چلتے ہیں۔"۔ ماروی نے گہری سانس لی اور ہچکچاتے ہوئے بولی، "میں... میں اماں سائیں سے ملنا چاہتی ہوں۔ لیکن... لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"۔ وجدان نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ "ڈریں مت، ماروی۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "ٹھیک ہے، میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔" وجدان نے مسرت سے اس کی پیشانی پر ایک ہلکا سا بوسہ دوبارہ دیا اور کہا، "یہ ہوئی نہ بات! چلیں، پھر تیار ہو جائیں۔۔ "سائیں، اس وقت تیار ہو کر کیا کرنا ہے؟ میں ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ایسے ہی چلتی ہوں اماں سائیں سے ملنے۔"۔ مسکراہٹ کھیل گئی۔ وہ کچھ لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا۔ "ماروی، آپ سردارنی ہیں، اور سردارنی اپنے کمرے سے ایسے نہیں نکلتی،آپ مجھے ہر روپ میں ہی گھایل کرتی ہیں۔مگر اور سردارنی جب کسی سے ملتی ہے تو وقار اور شان کے ساتھ ملتی ہے۔"۔ " وجدان نے نرم لہجے میں کہا۔۔ ماروی نے حیرانی سے وجدان کی طرف دیکھا اور بولی، "لیکن سائیں، میں تو بس ایک عام سی لڑکی ہوں۔ "ماروی، آپ عام نہیں ہیں۔ آپ میری زندگی کا سب سے خاص حصہ ہیں۔ اور مجھے فخر ہے کہ آپ میری شریک حیات ہیں۔ اس لیے آئیں، تیار ہو جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اماں سائیں آپ کو دیکھ کر فخر محسوس کریں کہ ان کی بہو کیسی خوبصورت اور باوقار ہے۔"۔ ماروی نے ہچکچاتے ہوئے سر ہلایا اور بولی، "ٹھیک ہے، سائیں۔ لیکن میں... مجھے نہیں پتا کیا پہنوں ۔"۔ وجدان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آیں میں بتاتا ہوں ۔وہ ماروی کا ہاتھ پکڑ کر اسکی وارڈ روب کی طرف بڑھا ۔۔ ماروی کے سب ڈریسز بہت ہی خوبصورت تھے وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی ایک ایک جوڑا خود سے لگا رہی تھی ۔۔وجدان ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا ۔۔جوڑے دیکھتے دیکھتے ایک آخری ڈریس بھی ماروی نے اتار کر چیک کی ۔مگر اس معصوم کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کوئی ڈریس نہیں ہے بلکہ نائٹی تھی جو عائشہ اسکی وارڈروب میں لٹکا دی تھی ۔ ماروی نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا تو نائٹی اس کے ہاتھ سے نکل کر نیچے زمین پر جا گری ۔۔۔جیسے کوئی اچھوت چیز ہو ۔ وجدان کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا ۔ یہ پہن کر تو آپ اس کمرے سے باہر نہیں جا سکتیں ۔بہت پسند ہے تو رات میں پہن لیجیے گا ۔ وجدان نے نائٹی نیچے سے اٹھا کر باقی کپڑوں میں لٹکا دی ۔۔۔ پھر خود ہی ایک ریڈ کلر خوبصورت سی شرٹ اور ٹراوزر اسکے ہاتھ میں تھما دیا ۔ اسکی شرٹ پر لائٹ سا کام تھا ۔۔۔ ماروی وہ ہاتھ میں لیتی ہوئی سپیڈ سے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگی ۔۔وجدان اسکی پھرتیوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ابھی بہت ٹائم لگے گا ماروی آپ کوطرف آتے آتے ۔۔سر جھٹک کر وجدان خود بھی تیار ہونے چلا گیا ۔ 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥 آیت کی آنکھ الارم کی آواز پر کھلی، لیکن وقت دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ دس منٹ لیٹ ہو چکی ہے۔ جلدی اٹھنے کے بجائے وہ پھر سے بستر پر لیٹ گئی اور ابصار کے بارے میں سوچنے لگی۔ اسی سوچ میں گم، اسے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ اچانک موبائل پر نوٹیفکیشن کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے جلدی سے موبائل اٹھایا اور اسکرین کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔ ابصار کا پہلا مسیج ۔ "اٹھ چکی ہو بستر چھوڑ دو ؟" دوسرا مسیج ۔ "آج دفتر سے چھٹی!" آیت کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ مگر اگلے ہی پل غائب ۔ تیسرا مسیج اپنا بیگ پیک کرو پورا آفس ٹرپ پر جارہا ہے تیار رہو ۔صرف آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس ۔آفیشل ٹرپ ہے انکار کرنے کی جرت مت کرنا ،وہاں سیمینار ہے ۔۔ آیت کا دل جیسے ڈوب گیا۔ "یہ انسان مجھے سکون سے جینے نہیں دے گا۔ وہ غصے میں موبائل کو بیڈ پر پھینکتی سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ موبائل پھر بجا ۔ابصار کا ہی مسیج تھا ۔ تنہائی میں بھی میرا ذکر تمیز سے کرو ۔ آیت کا دل کیا موبائل اپنے سر پر دے مارے ۔ یہ بندہ نارمل طریقے سے آخر بات کیوں نہیں کر سکتا ۔ہر وقت دھمکی ۔۔۔ نہیں کرتی تمیز سے ذکر ۔ہے ہی سفاک ظالم انسان ۔ آیت ابصار کے بارے میں بول رہی تھی کہ اسکی مسیج رنگ ٹون پھر بجی ۔ ابصار کا مسیج تھا ۔۔۔۔ shut up!!!!! آیت کے اوسان خطا ہوئے ۔۔۔ کیا مجھے سن رہے ہیں کہیں سے ۔۔وہ حیرت سے موبائل کو گھور رہی تھی ۔۔ ایک اور مسیج بجا ۔۔ صرف 25منٹ ۔ آیت نے بیڈ فورن چھوڑا بیگ نکالا اور اس میں کپڑے ٹھوسے ۔۔ "کیا پہنوں؟۔ بے دلی سے تیار ہوتے ہوئے وہ مسلسل ابصار کو دل ہی دل میں کوستی رہی۔ تیاری مکمل کرتے ہوئے وہ آئینے میں خود کو دیکھتی ہے اور ایک گہری سانس لیتی ہے۔۔ ابھی امی کو بھی ہزار سوالوں کا جواب دینا پڑے گا ۔۔۔ اف اللّه کہاں پھس گئی ہوں ۔۔ وہ بالوں ک پونی بناتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔۔۔ کیا بولوں گی امی کو ۔۔۔۔ صرف تین منٹ ۔۔میں کیسے سمجھاوں گی ۔۔ وہ اسی کشماکش میں بیگ لے کر اتری تو آیت کی امی دودھ کا گلاس لیے کھڑی تھیں ۔۔ آیت جلدی کرو ابصار کا فون آیا تھا وہ بتا رہا تھا کہ ٹرپ ہے وین بس پوھنچ رہی ہے تم ذرا یہ پی لو ۔۔۔۔ ممتا کی محبت سے بھرپور وہ اسکے آگے کھڑیں تھیں آیت نے دودھ کا گلاس ہاتھ سے لیا ۔۔۔آیت کو سمجھ نہیں آیا یہ ابصار کس خوشی میں ہر بات کی پھونک اسکے کان میں مارتا ہے ۔۔۔۔ کب آو گی ؟؟؟؟ماں کے سوال پر آیت بھڑک اٹھی ۔۔۔۔ کیوں آپ کو بتایا نہیں ۔۔۔ آیت کی امی نے اسے پلٹ کر دیکھا ہاں بتایا ہے مگر میں تم سے پوچھ رہی ہوں ۔۔۔وہ آیت کا کھانا پیک کر چکی تھیں ۔ یہ لو کھا لینا وقت پر اور کوئی پریشانی ہوئی تو ابصار کو ہی بتانا ۔۔۔ آیت اپنی ماں کی سادگی پر قربان ہوئی ۔۔۔ اب کیا بتاتی کہ سب سے بڑی مصیبت ہی ابصار ہے ۔۔۔۔۔ 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥 جاری ہے

😂 ❤️ 👍 🙏 🤌 10
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
3/1/2025, 1:31:41 PM

تمام امتِ مسلمہ کو ماہِ رمضان کی پر خلوص مبارک باد۔! اللہ تعالٰی اس ماہ کو ہمارے لیے صحیح معنٰی میں رحمت، مغفرت اور جہنم سے خلاصی کا مہینہ بنادے۔ آمین!

❤️ 🤲 🙏 🌹 👍 💖 😭 34
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/28/2025, 4:26:36 PM

ایک انگریز کو بچپن سے ہی یہ خوف تھا کہ جب وہ سوتا ہے تو اس کے بیڈ کے نیچے کوئی ہوتا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد اس کا یہ خوف دور نہ ہوا. بڑی سوچ بچار کے بعد وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس گیا اور اسے اپنا مسئلہ بتایا کہ کوئی حل بتائیں نہیں تو میں اس خوف سے پاگل ہو جاؤنگا. ماہر نفسیات نے اسے کہا کہ مجھ سے علاج کروا لو. ایک سال میں تمہارا یہ مسئلہ گارنٹی کے ساتھ حل ہو جائے گا. بس ہفتے میں تین دن تمہیں آنا ہو گا میرے پاس. انگریز نے پوچھا اور آپ کی فیس کتنی ہو گی. 200 ڈالر فی وزٹ، ماہر نفسیات نے بتایا. ہمممممم، چلیں میں سوچ کر بتاتا ہوں، انگریز بولا. پھر کوئی ایک سال بعد اس گورے اور ماہر نفسیات کی کسی فنگشن پر ملاقات ہوئی تو ماہر نفسیات نے پوچھا کہ تم آئے نہیں میرے پاس. گورے نے جواب دیا کہ میرا وہ مسئلہ میرے ایک دوست نے صرف "ایک بریانی کی پلیٹ اور ایک بوتل" پر دور کروا دیا اور آپ کی فیس کے پیسے بچا کر میں نے گاڑی بھی خرید لی ہے ماہر نفسیات نے بڑی حیرانی سے پوچھا: بھئی اس نے ایسا کیا علاج بتایا مجھے بھی بتاؤ پلیز گورا: دوست نے مشورہ دیا کہ بیڈ بیچ دو اور فرش پر گدا ڈال کر سویا کرو. 😂😂😂

😂 👍 ❤️ 😮 39
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/27/2025, 3:14:00 PM

*کزن* ایک مہینہ یا کچھ دن اوپر ہوئے تھے اسے ہمارے گھر آئے ہوئے۔ وہ میرے تایا کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کی ہمارے گھر موجودگی کے پیچھے بہت عجیب سے واقعات تھے۔ تائی ڈھائی مہینے پہلے تائی امی کا اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ تایا ابا آرمی میں سپاہی تھے۔ چہلم کے بعد وہ اپنی منزل کو لوٹ گئے۔ مگر لوٹنے سے قبل اپنی اکلوتی بیٹی کا سد باب کرنا تھا۔ اسکی رہائش کا انتظام۔ تایا ددھیالی گاؤں میں رہتے تھے۔ اور سب سے بڑے تایا بھی وہیں مقیم تھے۔ اصولاً اسے اپنے بڑے تایا کے گھر چلے جانا چاہیے تھا کہ اب ایک سنسان سے گھر میں تنہا لڑکی کیسی رہ پاتی۔ مگر میرے ابا اپنے بڑے بھائی سے منت سماجت کرکے اسے ہمارے گھر لے آئے۔ ویسے تو لوگ پرائے بچوں کو اپنے یہاں ٹھہرانے میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں مگر میرے ابا اسے ہمارے ہاں ٹھہرانے پہ بضد تھے۔ ہمارا گھر گاؤں سے بہت دور دوسرے شہر میں تھا۔ سو چھوٹے تایا کے واپس لوٹنے سے ایک روز قبل ابا جا کر تایا کی اکلوتی بیٹی کو ہمارے گھر لے آئے۔ ہم تین بھائی تھے۔ اپنی ماں کے سوا کسی لڑکی کو اپنے گھر نہ کبھی دیکھا نہ اس کا کوئی تجربہ تھا۔ میں سب سے بڑا یعنی عمر پھر احد اور پھر آدم۔ تایا کی بیٹی احد کی ہم عمر تھی مجھ سے تقریباً دو سال چھوٹی۔ شروع کے دنوں میں جب وہ آئی تو اس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے۔ یقیناً ماں کی جدائی نے اسے مغموم کر دیا تھا۔ وہ خاموش طبع اور اپنی ذات میں مگن سی لڑکی تھی۔ بہت عام سی۔ بی ایس سی کا پہلا سال تھا۔ گاؤں سے شہر آنے پر دوبارہ اس کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا گیا۔ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتی۔ اماں کا ہاتھ بٹا دیتی یا اپنی پڑھائی میں مگن۔ گھر میں امی کے بعد آدم تھا جس سے اسکی تھوڑی بہت بے تکلفی تھی۔ ہم اپنی دنیا میں مگن تھے اور زندگی چلتی جا رہی تھی۔ اس بہتی زندگی میں اچانک جنبش تب ہوئی۔ جب میرا ایکسیڈینٹ ہوگیا۔ یونیورسٹی سے گھر آتے ہوئے موٹر سائیکل رکشے سے ٹکرائی حادثہ اتنا شدید نہ تھا اسی لیے میرے بازو اور ٹانگ پہ چوٹیں ائیں۔ باقی سب ٹھیک تھا۔ یہ بس ایک ہی دن تھا میں نے اس لڑکی کو اتنا قریب سے دیکھا کہ مجھے اپنے دیکھنے پہ افسوس ہوا۔ اس سے قبل میں کبھی اتوار کو بھی گھر میں نہ ٹھہرا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے کبھی آکسی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا۔یہ میرے حادثے کا دوسرا روز تھا۔ میں پچھلا سارا دن کمرے میں پڑا رہا۔ درد تھا اور سوجن جس کے باعث بخار نے آلیا۔ اس روز میں صبح صبح کمرے سے باہر آیا یہ بہار کے دن تھے۔ اپریل کا آغاز تھا۔ کمرے سے نکل کر لاونج میں آ بیٹھا۔ سارا دن لیٹے رہنے سے جسم درد کرنے لگا تھا۔ یہ آٹھ بجے کا وقت تھا آدم کے سکول کی چیزیں ڈھونڈنے میں اسکی مدد کر رہی تھی۔ تایا کی بیٹی کچن میں پراٹھے بنانے میں مگن تھی۔ یہ ایک بڑا سا برآمدہ تھا جس کے ایک حصے میں دو سنگل اور ایک دو سیٹر صوفہ رکھ کے اسے لاونج کی شکل دی گئی تھی جبکہ اسی برآمدے کی دوسری جانب کھانے کی میز کے گرد چھ کرسیاں رکھ کر اسے ڈائننگ ہال بنایا گیا تھا۔ ڈائننگ ہال کے بالکل ساتھ کچن تھا۔ وہ وہیں سے برآمد ہوئی اور احد کے سامنے پراٹھا رکھ کر یہ جا وہ جا۔ ابا چائے پی کے اٹھ کھڑے ہوئے اتنے میں اماں بھی آدم کو تیار کر چکیں تھیں۔ آدم کو ابا کیساتھ سکول جانا تھا۔ اماں واپس لوٹیں تو انکا دھیان میری طرف گیا۔ میری خیر خیریت پوچھ کر میز کی جانب بڑھیں اور اپنی چائے پینے لگیں۔ اب وہ دوبارہ ظاہر ہوئی میز پہ بکھرے فالتو برتن سمیٹنے لگی۔ احد ناشتہ کر کے یونی روانہ ہوا۔ کچن سے برتن دھونے کی آواش آنے لگی یقیناً اب وہ برتیں دھو رہی تھی۔ امی نے میز سے بقیا برتن سمیٹے۔ اور اس کے پیچھے کچن کی راہ لی۔ تھوڑی دیر بعد امی میرے ناشتے کا ہلکا پھلکا سامان لائی میں نے موبائل ایک جانب رکھا اور کھانے کی جانب متوجہ ہوا۔ جب تک میں ناشتہ کرتا رہا امی میرے پاس بیٹھی رہیں۔ اب کچن میں جھاڑو دی جا رہی تھی۔ میں ناشتہ ختم کر چکا تھا۔ یہ ساڑھے نو کا وقت تھا۔ سبزی والے نے آواز دی تو امی سبزی لینے باہر چلی گئیں۔ وہ کچن سے نکلی تو اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ اب یقیناً کمرے سے بستر سمیٹے جا رہے تھے۔ یہ اسکا اور امی ابا کا مشترکہ کا کمرہ تھا۔ در اصل امی ابا کے کمرے کے پیچھے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسکا دروازہ امی کے کمرے میں کھلتا تھا۔ بس وہی کمرہ اسکا مسکن تھا۔ امی کے کمرے کے علاوہ گھر میں دو اور کمرے بھی تھے۔ ایک کمرہ میرا اور دوسرا احد اور آدم کا تھا۔ اس کی گھر آمد پہ مجھے کمرہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ مہمان کو سب ے اچھے کمرے میں ٹھہرایا جائے مگر اس نے اس چھوٹے سے سٹور نما کمرے میں رہنا پسند کیا۔ امی کے کمرے کی صفائی ہو چکی تھی۔ اور اب اس کا رخ آدم و احد کے مشترکہ کمرے کی جانب تھا۔ امی سبزی خرید لائی تھیں۔ اور انکے ہمراہ محلے کی عورت بھی تھی۔ اب وہ دونوں باتوں میں مگن دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوئی بیٹھی تھیں۔ میں باہر اپنے موبائل میں مگن تھا مگر اس میں تھا کیا؟؟ یہ دس پینتالیس کا وقت تھا جب وہ میرے کمرے کی صفائی سے بھی فارغ ہو چکی تھی۔ پچھلے دو دنوں سے کمرے میں بند پڑے رہنے سے کمرے میں عجیب سے بو پھیل چکی تھی۔ میں اپنی چشم تصور سے اپنے صاف ستھرے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ میں برآمدے سے اٹھ کر صحن میں بچھڑے تخت پہ ان بیٹھا تھا۔ امی دوسری سرے پہ بیٹھیں مٹر کے دانے نکال رہی تھیں۔ شاید آج مکس وہج بنانے کا ارادہ تھا اسی لیے میتھی گاجر اور دیگر سبزیاں بھی انکے قریب موجود تھیں۔ اب وہ برآمدے کی صفائی میں جتی ہوئی تھی۔ یکایک میرے ذہن میں خیال آیا. " یہ کالج نہیں گئی آج ؟" اسی خیال کے زیر اثر میں نے امی سے اس بابت دریافت کیا۔ تو امی نے بتایا کہ اس کے کالج آج کوئی سیمینار تھا تو اس نے چھٹی کر لی۔ اب وہ برش سے صحن صاف کر رہی تھی۔ برش کی وجہ سے گرد و غبار اڑنے کی بجائے بس سمٹ رہا تھا۔ دھوپ زیادہ تپتی ہوئی نہ تھی وہ صحن میں بیٹھی زندگی کی طرح برش کے ذریعے کوڑا گھسیٹ کر دوسرے سرے تک لے جا رہی تھی۔ دوسرے سرے پہ چھوٹا سا کھرا تھا جہاں امی نے کپڑے دھونے کا انتظام کر رکھا تھا۔ میں امی کے پاس بیٹھا ایک اچٹتی سی نظر اس پہ بھی ڈال لیتا تھا۔ صحن کی صفائی کے بعد اس نے کھرا دھویا پھر غسل خانے کی صفائی۔ جب وہ غسل خانے سے نکلی تو اس کے پائنچے بھیگے ہوئے تھے۔ ماتھے پہ پسینے کے باعث سامنے والے چھوٹے سے بال چپکے ہوئے تھے۔ اس تمام عرصے کے دوران امی اور اسکے درمیان کوئی مکالمہ نہ ہوا تھا۔ کیا وہ امی سے بھی بات نہیں کرتی؟ یا ان دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا ہے جیسا کہ عموماً گھروں میں جھگڑے ہو جاتے ہیں؟ یہ وہ پہلا خیال تھا جو اسکی خاموشی دیکھ کر میرے ذہن میں ایا۔ ساڑھے گیارہ کے قریب وہ اس صفائی سے فارغ ہوئی اب اسکے رخ دوبارہ اپنے کمرے کی جانب تھا۔ کیا کوئی اتنا لاتعلق بھی ہو سکتا ہے ؟ صحن میں موجود ہم دو نفوس اس کو دکھائی نہیں دے رہے۔ کیا ایسی بھی عورتیں ہوتی ہیں جن کے پاس کرنے کو کوئی بات نہ ہو؟ اسکی طویل خاموشی میری سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ کمرے سے لوٹی تو اسکے ہاتھ میں ایک گلابی بڑے بڑے پھولوں والا سوٹ تھا۔ یہ ایس کا سوٹ تھا اور مجھے یاد آیا اس پہ یہ سوٹ بہت جچتا تھا۔ سفید ٹراؤزر کیساتھ گلابی پھولوں والی قمیض اور ویسا ہی لان کا دوپٹہ۔ اب وہ برآمدے کے دوسرے سرے پہ پڑے استری اسٹینڈ کی جانب بڑی کپڑے استری کیے۔ واش روم میں گھس گئی۔ میں مکمل طور پر موبائل میں مگن تھا۔ اور کچھ دیر بعد گیلے بالوں پہ تولیہ لپیٹے وہ غسل خانے سے نکلی۔ اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔ جاری ہے ٹوٹل 4 اقساط پر مشتمل ہے اگر لائک زیادہ آئے تو باقی اقساط اپلوڈ ہو جائے گئی شکریہ🫶

👍 ❤️ 😂 👎 87
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/28/2025, 12:48:20 AM

✭﷽✭ *✿_خلافت راشدہ_✿* ▪•═════••════•▪ *پوسٹ-11* ─┉●┉─ *┱✿_ مسیلمہ کزاب سے مقابلہ -١ _,* *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دنوں میں کچھ لوگوں کو زکوۃ وصول کرنے کی غرض سے بھیجا تھا، یہ لوگ قبیلہ بنو تمیم میں موجود تھے اور زکوۃ وصول کر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا، اب ان حجرات میں ایک اختلاف پیدا ہوگیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکوۃ کی رقم کا کیا کریں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیجے یا یہی کے لوگوں میں تقسیم کر دیں _, اس قبیلے بنو تمیم کا ایک شخص مالک بن نویرہ تھا وہ ان کا اہم آدمی تھا، اس نے زکوۃ کی رقم کو مدینہ بھیجنے سے انکار کردیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو بھیجا تھا ان کا کہنا تھا کہ زکوٰۃ کی رقم مدینہ منورہ بھیجی جائے گی، بس اس بات پر یہ شخص خلاف ہو گیا، ابھی یہ اختلافی مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ عراق کے ایک علاقے الجزیر کی ایک عورت سجاح بنت حارث وہاں پہنچ گئی، یہ نبوت کا دعویٰ کر چکی تھی، اس کے ساتھ ایک بڑا لشکر تھا، اس لشکر میں عراق کے بنو تغلب شامل تھے، ان کے علاوہ قبیلہ ربیعہ، نمر، آیاد اور شیبان کے تجربے کار لوگ شامل تھے، خود سجاح بنو تمیم سے تھی یعنی جس قبیلے کا مالک بن نویرہ تھا، سجاح کا تعلق بنو تمیم کے ساتھ ساتھ بنو تغلب سے بھی تھا اور یہ سب لوگ عیسائی تھے، اب چونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کو اسلام سے دشمنی تھی اس لیے یہ چالاک عورت ان لوگوں کو اسلام کے خلاف ابھارا کر لے آئی تھی، یہ عورت پہلے سے ہی موقے کی تلاش میں تھی، جوں ہی اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اپنا لشکر لے کر مدینہ کی طرف چل پڑی، کہا جاتا ہے کہ ایران کے کچھ لوگ بھی اس کے ساتھ تھے،* *★_ اب یہ سیدھی مالک بن نویرہ کے پاس پہنچی تھی، وہاں پہلے ہی زکوۃ کی رقم کے معاملے میں اختلاف ہو چکا تھا، لہذا مالک بن نویرہ اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ سجاح کے لشکر میں شامل ہوگیا، دونوں ایک ہو گئے، مالک بن نویرہ نے سجاح کو مشورہ دیا کہ ابھی مدینہ منورہ پر حملے کا وقت نہیں ہے بلکہ ابھی آس پاس کے لوگوں کو اپنی نبوت کا قائل کرے, انہیں ساتھ لائے، اس طرح ہماری طاقت اور بڑھ جائے گی، سجاح نے مالک بن نویرہ کا مشورہ مان لیا _,* *"_ ادھر یمامہ کے مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا، اس کے ساتھیوں میں کسرت ایسے لوگوں کے تھی جو اسے جھوٹا سمجھتے تھے لیکن دولت اور اقتدار کے لئے اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، سجاح کے بارے میں مسیلمہ کزاب کو معلوم ہوا تو فکر مند ہوگیا، اس نے سوچا اگر سجاح میرے ساتھ شامل ہو جائے تو ہماری طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا, ادھر سجاح کو بھی یہی بات سوجھی، چنانچہ دونوں میں ملاقات ہوئی، اس طرح دونوں نے شادی کر لی، اب سجاح کی فوج بھی مسیلمہ کی فوج میں شامل ہو گئ، اس کے جھنڈے تلے 40 ہزار فوجی جمع ہوگئے، شادی کے بعد سجاح اپنی قوم میں کچھ ضروری معاملات نمٹانے کے لئے چلی گئی، لیکن پھر واپس نہ آ سکی، یہ بعد میں مسلمان ہو گئی تھی،* *★_ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ طلحیہ کو شکست دے چکے تھے، انہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم ملا کہ اب تم یمامہ جا کر مسیلمہ کا مقابلہ کرو, حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے پہلے ایک لشکر عکرمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسیلمہ کی طرف روانہ کیا تھا لیکن انہیں ہدایت دی تھی کہ جا کر ابھی حملہ نہ کریں، ان کی مدد کے لئے آپ نے دوسرا لشکر ثرحبیل بن حسنہ کی قیادت میں روانہ فرمایا تھا، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کردیا ثرحبیل رضی اللہ عنہ کے لشکر کا انتظار نہ کیا، اس طرح انہوں نے مسیلمہ کے لشکر کے ہاتھوں شکست کھائی، کیوں کہ مسیلمہ تو اس وقت تک بہت طاقت پکڑ چکا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو آپ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوئے اور انہیں ایک دوسرے محاذ پر جانے کا حکم دیا اور ثرحبیل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کے وہاں ٹھہریں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا انتظار کریں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم پا کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یمامہ کی طرف بڑھے یہاں تک کہ حضرت ثرحبیل رضی اللہ عنہ سے آ ملے، مسیلمہ کزاب اس وقت یمامہ کے علاقے کے عقرباء میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھا، تاریخ کی کتابوں میں ان کی فوج کی تعداد 40 ہزار سے 60 ہزار تک لکھی ہے,*

❤️ 1
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/27/2025, 2:44:12 PM

*⚔️حــــجـــــاز کــــی آنــــدھـــــی🏇* *قـسـط نــمـبـر 54* *✍🏻"میں حیران ہوں کہ تم لوگ مسلمانوں سے ڈرتے کیوں ہو" ____ یزدگرد نے کہا ____ "میں نے ان عربوں کو پہلی بار دیکھا ہے ۔ ان کا وفد میرے پاس آیا تھا ۔ کہتے تھے کہ ہم اپنے قبیلوں کے سردار اور معزز لوگ ہیں ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ ادا کرو ، اور اگر یہ دونوں سورتیں منظور نہیں تو اس کا فیصلہ ہماری تلوار کرے گی ۔۔۔۔۔۔* "میری نگاہ میں یہ مسلمان بہت ہی گھٹیا قوم ہے ۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ تم بھوکے اور غریب لوگ ہو ، ہم تمہیں کھانے کو دیں گے اور تم پر ایسا بادشاہ مقرر کریں گے جو تمہارے ساتھ مہربانی سے پیش آئے گا ۔۔۔۔۔۔ میں نے مٹی کا بھرا ہوا ایک ٹوکرا منگوایا اور حکم دیا کہ ان سب میں جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ برتر اور معزز سمجھتا ہے ، یہ ٹوکرا اس کے سر پر رکھ دو اور ان سب کو ہانکتے ہوئے مدائن سے نکال کر آؤ ۔۔۔۔۔۔ "میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں سب سے زیادہ معزز ہوں ۔ یہ ٹوکرا میرے سر پر رکھو ۔ مجھے تو یہ توقع تھی کہ یہ لوگ غصے میں آ جائیں گے یا دربار سے چلے جائیں گے۔ لیکن! یہ ایسے احمق نکلے ایک نے بڑھ کر ٹوکرا اپنے سر پر رکھوا لیا اور وہ سب چلے گئے ۔ ان لوگوں کو عزت اور وقار کا احساس ہی نہیں۔" "شاہ فارس!" ____ رُستم نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ____ "کیا وہ مٹی کا ٹوکرا اپنے ساتھ لے گئے تھے ؟" "اپنے ساتھ لے گئے تھے"____ یزدگرد نے جواب دیا ____ "جو آدمی انہیں شہر سے نکالنے کے لیے گئے تھے ، انہوں نے واپس آ کر بتایا تھا کہ جس آدمی نے اپنے سر پر مٹی کا ٹوکرا کھا تھا اس نے شہر سے نکل کر بھی ٹوکرا پھینکا نہیں تھا بلکہ اُس نے ٹوکرا اپنے گھوڑے پر اپنے ہی آگے رکھ لیا تھا اور ساتھ ہی لے گیا تھا۔" "بہت بُرا ہُوا شاہِ فارس!" ____ رُستم نے کہا اُس کی آواز لرز رہی تھی ____ "یہ تو بہت بُرا شگون ہے، آپ نے اپنے وطن کی مٹی خود اس کے سر پر رکھ دی تھی۔" "تو کیا ہوا؟" ____ یزدگرد نے کہا _ "اس کا جواب علمِ نجوم اور علمِ قیافہ کے پاس ہے" ____ رستم نے کہا ____ " آپ نے اپنی زمین ایک مسلمان کے سر پر رکھ کر اُسے یہ اشارہ دیا ہے کہ فارس کی زمین تمہاری ہے ۔۔۔۔۔ شاہ فارس! اگر وہ مٹی مسلمانوں نے پھینک نہیں دی تھی اور اپنے ساتھ لے گئے تھے تو عراق سے نکلنے کی تیاری کریں۔" پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رستم علمِ نجوم و جوتش میں دسترس رکھتا تھا اور اپنی ہر پیشگوئی کو وہ سو فیصد سچ مانتا تھا ۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں رستم وہمی تھا اور وہ قیافہ شناسی کو مذہبی عقیدے کی طرح مانتا تھا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رستم کو اپنی اس پیش گوئی پر اگر یقین تھا کہ فارس کو شکست ہو گی تو پھر لڑنا کیوں ضروری سمجھا؟۔۔۔۔۔۔ محمدحسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ فارس کے جرنیل علم نجوم پر بھروسہ کرتے تھے اور رستم تو اس علم کا شیدائی تھا ۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے اس لئے تیار ہو گیا تھا کہ وہ مغرور اور خود پسند تھا ۔ اتنا زیادہ کہ وہ جنگ سے منہ موڑنے میں اپنی توہین سمجھتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ جنگ کو ٹال بھی رہا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رستم اپنی مغرور اور متکبرانا اور علمِ نجوم و جوتش میں اپنی مہارت کے درمیان بھٹک رہا تھا ۔ ادھر عاصم بن عمرو نے ازراہِ مذاق یا غالبًا طنزًا اپنے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے آگے مٹی کا ٹوکرا رکھ کر کہا تھا کہ مبارک ہو ، فارس کے بادشاہ نے اپنی زمین خود ہی ہمیں تحفے کے طور پر دے دی ہے لیکن رستم نے فیصلةً کہہ دیا کہ مٹی کا ٹوکرا مدائن سے نکل کر مسلمانوں کے سپہ سالار تک پہنچ جانا صاف اشارہ ہے کہ فارس کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔ *`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`* https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o مسلمانوں کو اللہ پر اور آتش پرستوں کو نجوم اور جوتش پر بھروسہ تھا ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی طرف پیغام بھیج دیا تھا کہ فارس کے بادشاہ نے ہمارے وفد کے ساتھ توہین آمیز سلوک کر کے اس طرح واپس بھیجا ہے کہ مٹی کا ٹوکرا عاصم بن عمرو کے سر پر رکھ دیا تھا ۔ خلافتِ مدینہ سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا جواب آ گیا ۔ امیر المومنین نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بہت سی ہدایات لکھ بھیجیں اور لکھا کہ قادسیہ پہنچ جاؤ اور وہاں کی زمین کا مکمل نقشہ مجھے لکھو تاکہ میں ضروری ہدایات دے سکوں ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے یہ بھی لکھا کہ بستیوں پر حملے جاری رکھو اور لشکر کی ضروریات پوری کرتے رہو ۔ شاہ فارس!" ____ رستم نے یزدگرد سے کہا ____ "آپ واپس مدائن چلے جائیں اور مجھ پر بھروسہ رکھیں۔" "رُستم!" _____ یزدگرد نے کہا ____ "تم پر بھروسہ ہوتا تو مجھے یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔" تاریخوں میں تفصیل سے آیا ہے کہ یزدگرد کی اس بات سے رستم جل اُٹھا ۔ اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اُس کی آنکھوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ "آپ یہاں سے چلے جائیں شاہِ فارس!" ____ رستم نے کانپتی ہوئی سی آواز میں کہا ___ "میں نے آپ کے والد کِسریٰ پرویز سے بھی کبھی یہ بات نہیں کہلوائی تھی کہ انہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ چلے جائیں اور جنگی اُمور اور عربوں کو عراق سے نکالنے کا مسئلہ مجھ پر چھوڑیں۔ ہو سکتا ہے میں بغیر لڑے عربوں کو عراق سے نکال دوں ۔" "نہیں رستم!"_____ یزدگرد نے کہا ____ "میں مسلمان قوم کو ایسا تباہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ فارس کی طرف دیکھیں تو ان پر خوف کا رعشہ طاری ہو جائے ۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم بغیر لڑائی کے انہیں عراق سے کس طرح نکالو گے۔" "میری بات ذرا اور غور سے سُنیں شاہِ فارس!" _____ رستم نے کہا ____ "جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے ۔ یہ نہ بھولیں کہ آپ بچے ہیں اور آپ کے پاس صرف جذبہ ہے ، تجربہ نہیں ۔ میری ذمہ داریوں میں دخل نہ دیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ عربوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنی فوج کو تباہی سے بچانا چاہتا ہوں ۔ یہ نہ سمجھیں کہ عرب تعداد میں بہت تھوڑے ہیں تو ہم انہیں گھیر کر چیر پھاڑ دیں گے ۔ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا نہ رہیں کہ وہ ہمارے ساتھیوں سے ڈر جائیں گے ۔ انہوں نے دو لڑائیوں میں ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ دی تھیں ۔۔۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں کہ یہ معاملات مجھ پر چھوڑ دیں اور آپ یہاں سے چلے جائیں۔" یزدگرد واپس چلا گیا ۔ رستم نے یزدگرد کے جانے کے بعد قاصدوں کو بلایا اور ان تمام جرنیلوں اور دیگر کمانڈروں کے نام پیغام بھیجے جو اپنے دستوں کو مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی سرکوبی کیلئے لے کر گئے تھے پیغام میں اُس نے لکھوایا کہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہو کر ساباط آ جاؤ اور اپنے جوانوں کو کیل کانٹے سے لیس کر کے ان میں وطن کی خاطر لڑنے کا ایسا جزبہ پیدا کرو کہ مسلمانوں کو دیکھ کر درندے بن جائیں ۔ اُس وقت مسلمانوں کے لشکر کے زیادہ تر دستے نجف ، فراز اور عراق کی دو تین اور بستیوں میں پھیلے ہوئے تھے ۔ یزدگرد مدائن پہنچا ، وہ کئی دن غیر حاضر رہا تھا ۔ وہ جب مدائن میں داخل ہوا تو اس کی ماں کو اطلاع ملی ، وہ دوڑتی ہوئی گئی ۔ یزگرد ماں کو دیکھ کر گھوڑے سے اُترا ۔ ماں دوڑ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی تھی ۔ اُسے کسی نے نہ بتایا کہ اُس کا بیٹا موت کے منہ سے نکل کر آیا ہے ۔ یزدگرد نے محل میں پہنچتے ہی ساران کو بلایا ۔ ساران پہلے سے وہاں موجود تھا ۔ وہ یزدگرد کے بلاوے کا منتظر تھا ۔ اُس نے یزدگرد کو ایک خبر سُنانی تھی ۔ "کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ میرے دُشمن کون ہیں؟" ____ یزدگرد نے ساران سے پوچھا ۔ انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا ہے" _____ ساران نے کہا ___ "وہ اس تخت کا آخری دُشمن تھا ۔۔۔۔۔ وہ ایک عورت تھی۔" "شیریں؟"____ یزدگرد نے کہا۔ "ہاں!" ____ ساران نے کہا _____ "شیریں ۔۔۔۔۔ تم ساباط چلے گئے تو میں نے باقی تین آدمیوں کو دھوکے میں لا کر پکڑ لیا تھا ۔ وہ میری دوستی کے دھوکے میں آ گئے تھے ۔ انہوں نے بتا دیا کہ کس معاوضے پر شیریں نے انہیں تمہارے قتل کے لیے بھیجا تھا ۔ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ شیریں کہاں رہتی ہے ۔ میں نے جا کر اُسے دو آدمیوں سے قتل کروایا پھر ان تین آدمیوں کو بھی قتل کروا کے لاشیں غائب کر دی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب تمہارا کوئی دُشمن زندہ نہیں یزدگرد!" ساران نے یزدگرد کو اتنا ہی بتایا کہ اُس نے اُس کی غیر حاضری میں شیری اور تین آدمیوں کو قتل کر دیا ہے ۔ اُس نے اس واردات کی تفصیل نہیں سُنائی تھی ۔ وہ صاحبِ حیثیت اور شاہی محل میں اثر و رسوخ رکھنے والا آدمی تھا ۔ اُس کے لیے ان تین آدمیوں کو کسی خوبصورت دھوکے میں لانا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ ان سے اُس نے یہ راز لے لیا تھا کہ انہیں شیریں نے یزدگرد کے قتل کے لیے بھیجا تھا ۔ ساران کو معلوم نہیں تھا کہ شیریں کہاں رہتی ہے ۔ اُسے شیریں کا ٹھکانہ ان آدمیوں سے معلوم ہو گیا اور وہ وہاں چلا گیا تھا ۔ شیریں اُسے اچھے طریقے سے ملی لیکن شیریں کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو گئے تھے ۔ "مجھے دیکھ کر تمہیں اتنا پریشان نہیں ہونا چاہیے شیریں" ____ ساران نے کہا تھا ____ "میں شاید تمہارے لئے اجنبی نہیں ہوں۔" "پریشانی اس سے ہوئی ہے کہ تمہیں میرا گھر کس نے بتایا ہے" ____ شیریں نے کہا تھا ____ "ٹھیک کہتے ہو تم میرے لیے اجنبی نہیں ہو ۔ تمہارا تعلق نورین کے ساتھ تھا اور تم کسریٰ پرویز کے قریبی حلقے میں تھے ۔۔۔۔۔ کیوں آئے ہو؟" "شیریں!" ____ ساران نے رازداری سے کہا تھا_____ "یزدگرد کو قتل کروانا تھا تو مجھے بتاتیں۔ تم نے کچے آدمیوں پر اعتبار کیا اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا ۔ ایک تو وہیں یزدگرد کے ایک محافظ کے تیر کا نشانہ بن کر مارا گیا اور باقی تین بھاگ گئے۔" "ساران!" شیریں نے حیرت زدگی کے لہجے میں کہا تھا ____ "یہ تمہیں کس نے بتایا ہے کہ انہیں میں نے یزدگرد کو قتل کروانے کے لیے بھیجا تھا ؟" "ان تین آدمیوں نے تمہارا پردہ رہنے نہیں دیا" ______ ساران نے کہا تھا _____ "وہ یزدگرد کو بھی بتا دیں گے۔ پھر جانتی ہو تمہارا انجام کیا ہو گا ؟" ؟تم یہاں کیوں آئے ہو؟" ____ شیریں نے کہا تھا ______ کیا مجھے ڈرا دھمکا کر مجھ سے کچھ وصول کرنا چاہتے ہو ؟" "میں تمہارے ساتھ سودا کرنے آیا ہوں" _____ ساران نے کہا تھا _____ "میں یزدگرد کو قتل کروں گا۔ بولو کیا دیتی ہو۔" شیریں ایسے ہنسی ہنس پڑی جس میں طنز تھی۔ ساران کو معلوم تھا کہ شیریں انتہا درجے کی چالاک ، عیار اور مکار عورت ہے اور اس عورت نے خسرو پرویز جیسے فرعون کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا تھا اور جب ضرورت پڑی تو اس نے اپنی سوکنوں کے اٹھارہ بیٹے قتل کروا دیئے پھر اپنے خاوند خسرو پرویز کو بھی مروا دیا تھا ۔ اس عورت کی جادوگری کا کمال تو یہ تھا کہ اس نے تمام جرنیلوں کو اپنے زیر اثر کر کے خسرو پرویز کے خلاف کر دیا تھا ۔ "میں یزدگرد کو قتل کروا کے کیا کروں گی ؟" ____ شیری نے کہا تھا ____ اپنا ایک ہی بیٹا تھا وہ قتل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو ۔۔۔۔۔ میں کسی ماں کے اکلوتے بیٹے کو قتل نہیں کراؤں گی ۔ تم چلے جاؤ ساران! مجھے پریشان نہ کرو ۔ باقی زندگی ذرا سکون سے گزار لینے دو۔" ساران نے بہت کوشش کی کہ شیریں دل کا راز دے لیکن وہ انکار پر ہی قائم رہی ۔ راز تو ساران کو تین آدمیوں سے مل چکا تھا ۔ ایک روایت یہ ہے کہ ساران اُس سے دولت ہتھیانے کی کوشش میں تھا ۔ اُسے اندازہ تھا کہ شیریں نے اتنے جواہرات اور دولت چھپا رکھے ہوں گے جو سلطنتِ فارس کے خزانے میں بھی نہیں ہوں گے ۔ شیریں نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا جیسے تالی بجائی جاتی ہے ۔ کمرے کا اندر والا دروازہ کھلا اور دو آدمی ہاتھ میں تلوار اُٹھائے سامنے آئے ۔ "مجھے افسوس ہے ساران!" ____ شیریں نے کہا تھا _____ "اب تم نورین کے پاس زندہ نہیں جا سکو گے۔" ____ شیریں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی تھی ____ "تم نورین کے آدمی ہو" ____ شیریں نے اپنے دو میوں کی طرف اشارہ کیا اور مسکراتے ہوئے بولی ____ "غائب کر دو اسے!" دونوں آدمی آگے بڑھے اور ایک آدمی نے ساران کا ایک بازو اور دوسرے نے دوسرا بازو پکڑ لیا ۔ ساران نے قہقہہ لگایا ۔ چار آدمی دوڑتے ہوئے کمرے میں آئے ۔ دو کے پاس تلواریں اور دو کے پاس برچھیاں تھیں ۔ انہوں نے تلواریں اور برچھیاں تان کر شیریں کے دونوں آدمیوں کو گھیرے میں لے لیا ۔ ساران نے اپنے آدمیوں کو جو اُس کے ساتھ آئے تھے اور باہر چھپے ہوئے تھے سر سے اشارہ کیا ۔ ساران کا قہقہہ انہیں اندر بلانے کا اشارہ تھا ۔ شیریں کے شاہانہ کمرے میں ہلکی ہلکی چیخیں اُٹھیں اور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو گئیں ۔ شیریں اور اس کے دونوں آدمیوں کی لاشیں کمرے میں پڑی تھیں اور ساران اور اس کے آدمی سارے گھر کی تلاشی لے رہے تھے ۔ ایک ٹرنک سے سونے اور چاندی کے ٹکڑے اور ہیرے جواہرات برآمد ہوئے ۔ لکڑی کے ایک بکس سے ایسی ہی کچھ قیمتی اشیاء برآمد ہوئیں ۔ ان کے نیچے تقریبًا ایک فٹ چوڑا اور ڈیڑھ فٹ لمبا چمڑے کا ٹکڑا پڑا تھا ۔ اس پر نقشہ سے بنا ہوا تھا ۔ چند ایک جگہوں کے نام بھی لکھے ہوئے تھے ۔ راستوں کی لکیریں تھیں اور ایک کراس کا نشان تھا ۔ ساران نے یہ نقشہ لپیٹ کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیا ۔ رات ہی رات شیریں اور اس کے دو محافظوں کی لاشیں صحن میں ایک گڑھا کھود کر دبا دی گئیں ۔ ساران نے اپنے آدمیوں میں سے ایک سے کہا کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو اس مکان میں لے آئے اور یہاں آباد ہو جائے۔۔۔۔ *<=================>* *جاری ہے بقیہ قسط نمبر 55 میں پڑھیں* *<=================>* *جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*

❤️ 👍 4
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/14/2025, 12:29:31 AM

✭﷽✭ *✿_سیرت النبی ﷺ_✿* ▪•═════••════•▪ *پوسٹ-190* ─┉●┉─ *┱✿_ اسی کے پاس سب کو جانا ہے-1 _,* *★_ باہر صحابہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کی حالت اتنی پریشان کن تھی کہ مسجد نبوی کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے، اور لوگوں کو مخاطب ہوکر کہنے لگے: “_اللّٰہ کی قسم! رسول اللّٰہ کا انتقال نہیں ہوا…رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ منافقوں کے ہاتھ پیر نہیں توڑ دیں گے۔ اور اگر کسی نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا… بعض منافق یہ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ اسی طرح اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے اور پھر چالیس راتوں کے بعد اپنی قوم میں واپس آگئے تھے، جب کہ لوگ ان کے بارے میں کہنے لگے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے۔اللّٰہ کی قسم ! رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بھی اسی طرح واپس تشریف لائیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے…پھر ان لوگوں کے ہاتھ پیر کٹوائیں گے۔”* *"_ حضرت عمر رضی الله عنہ غم کی زیادتی کی وجہ سے ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ تشریف لائے اور منبر پر چڑھے۔ انہوں نے بلند آواز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:“لوگو! جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔”* *"_ یہ کہہ کر انہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت 44 تلاوت فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے:- “اور محمد رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے اور بھی بہت رسول گذر چکے ہیں۔ سو اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے تو کیا تم لوگ الٹے پھر جاؤ گے …اور جو شخص الٹے پیروں پھر بھی جائے گا تو اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللّٰہ تعالیٰ جلد ہی حق شناس لوگوں کو بدلہ دے گا۔”* *""حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں۔_”یہ آیت سن کر مجھے لگا جیسے میں نے آج سے پہلے یہ آیت سنی ہی نہیں تھی۔”* *"_اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا:- إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ،صَلَوَٰتٌۭ وَسَلَامٌ عَلَى رْسَولِہ صلی الله علیہ وسلم (بے شک ہم سب اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر درود و سلام ہو۔)* *★_ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت سے سب کے لیے موت کا برحق ہونا ثابت فرمایا اور فرمایا:_ “اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ “آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں ( عام مخلوق کو) بھی مرنا ہے۔” ( سورۃ الزمر : آیت 30)* *"_ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ پر تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی۔ اس کے بعد لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔* *"_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔ غسل حضرت علی، حضرت عباس اور ان کے بیٹوں فضل اور قثم رضی الله عنہم نے دیا۔ حضرت فضل اور حضرت اسامہ رضی الله عنہم غسل دینے والوں کو پانی دے رہے تھے۔ غسل کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی قمیض نہیں اتاری گئی۔ غسل کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا، عود وغیرہ کی دھونی دی گئی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو چار پائی پر لٹاکر ڈھانپ دیا گیا۔* *"_نماز جنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی۔ سب نے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی, یعنی جتنے لوگ حجرہ مبارک میں آسکتے تھے، بس اتنی تعداد میں داخل ہوکر نماز ادا کرتے اور باہر آجاتے، پھر دوسرے صحابہ اندر جاکر نماز ادا کرتے۔* *"_حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی الله عنہ چند دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ حجرے میں داخل ہوئے تو ان الفاظ میں سلام کیا۔ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، پھر تمام مہاجرین اور انصار نےبھی اسی طرح سلام کیا۔ نماز جنازہ میں سب نے چار تکبیرات کہیں۔* *★_ انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ ( ایک جگہ کا نام) میں جمع ہورہے تھے تاکہ خلافت کا فیصلہ کیا جائے۔ کسی نے اس بات کی خبر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنھما کو دی۔ یہ دونوں حضرات فوراً وہاں پہنچے، اور خلافت کے بارے میں ارشاد نبوی سنایا۔* *"_خلافت کا مسئلہ طے ہوگیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا…سوال یہ کیا گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ اس موقع پر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ آگے آئے اور فرمایا:-“آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں وفات ہوئی ہے… میرے پاس ایک حدیث ہے… میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کی روح اسی جگہ قبض کی جاتی ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہ ہوتی ہے۔* *"_چنانچہ یہ بات طے ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ دفن کیا جائے۔ اب یہ سوال اٹھا کہ قبر کیسی بنائی جائے، بغلی بنائی جائے یا شق کی۔۔۔اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت ابوطلحۃ بن زید بن سہل رضی اللہ عنہ بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح شق کی قبر کھودتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- ان دونوں کو بلالاؤ۔۔۔ان میں سے جو پہلے پہنچے گا، اسی سے قبر بنوالی جائے گی۔ ان کی طرف آدمی بھیجنے کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی:_اے اللہ!اپنے رسول کے لئے خیر ظاہر فرما۔* *"_حضرتابوطلحہ رضی اللہ عنہ پہلے آئے، چنانچہ بغلی قبر تیار ہوئی۔ ایک حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بغلی قبر ہی کا حکم فرمایا تھا۔ حضرت عباس، حضرت علی، حضرت فضل، حضرت قثم اور حضرت شقران رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں اتارا۔* *"_حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے قبر میں ایک سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا۔ یہ وہی سرخ کپڑا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جاتے وقت اونٹ کے پالان پر بچھاتے تھے۔ یہ کپڑا اس لئے بچھایا گیا کہ وہاں نمی تھی۔ اس وقت حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے:خدا کی قسم! آپ کے بعد اس کپڑے کو کوئی نہیں پہن سکے گا۔* *📕سیرت النبی ﷺ, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)* ╨─────────────────────❥ 💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 ✍ ▉ https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1132

❤️ 😢 👍 😮 6
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/14/2025, 12:34:30 AM

*Episode 9 | بارش کے بعد اردو ناول* نئی جاب جوائن کیے اسے دس بارہ دن ہوئے ہوں گے جب وہ ہوسپٹل سے گھر لوٹی… ،،رانا صاحب آئے ہوئے ہیں اور پچھلے ایک گھنٹے سے بیٹھک میں بیٹھے تمہارا انتظار کر رہے ہیں.،، امی نے اس کے اندر داخل ہوتے ہی اطلاع دی. ،،وہ کیا کرنے آگیے؟،، مہرانگیز لمبی اسٹریپ کا پرس گلے سے اتارتے ہوئے قدرے ناگواری سے بولی. ،،مجھے کیا معلوم خود جاکر پوچھ لو.،، سپاٹ لہجے میں جواب دیتی امی کچن میں گھس گئیں. چھوٹی سی بیٹھک جس میں پرانے طرز کی کرسیاں اور ایک میز پڑی تھی. کونے میں لوہے کی چارپائی بھی ڈال دی گئی تھی. اسے گیسٹ روم اور ڈرائنگ روم دونوں کےلیے استعمال کیا جاتا تھا. ویسے بھی ان کے زیادہ تر مہمان رشتے دار ہی آتے تھے. جنہیں اندر ہال میں بٹھایا جاتا تھا. کبھی کبھار ابا کے دفتر کے دوست وغیرہ ملنے آ جاتے تو ان کے لیے یہ بیٹھک کھول دی جاتی تھی. اس وقت اس کے اندر بیٹھے ادھیڑ عمر کے رانا صاحب جو آدھے سر تک گنجے تھے…ٹھوڑی کھجاتے کافی پریشان لگ رہے تھے…جبکہ بیچارے ابا (پچھلے ایک گھنٹے سے پابند) خاموشی سے ان کی اضطرابی کفیت کو دیکھ رہے تھے. ،،اسلام عليكم!!!،، مہرانگیز نے اندر داخل ہوکے سلام کیا. اسے دیکھ کر رانا صاحب جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے. ،،آؤ مہرانگیز کافی انتظار کروایا تم نے؟،، ،،پلیز تشریف رکھیے…،، ابا کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے مہرانگیز نے ہاتھ کے اشارے سے رانا صاحب کو بیٹھنے کے لئے کہا. ،،مہرانگیز کل سے ہم اپنے شو کےلیے ایک نئی لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں… مگر اس سے پہلے آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں؟،، مہرانگیز نے سر کی ہلکی سی جنبش سے رانا صاحب کو اپنی بات آگے بڑھانے دی. ،،آپ کی نوکری چھوڑنے سے ایک دن پہلے شوٹنگ کے بعد واپس جاتے ہوئے عمر اور اسامہ سے کیمرا چھینا گیا تھا کیا آپ کو یہ سب معلوم ہے؟؟؟،، رانا صاحب دونوں ہاتھ کی انگلیاں باہم پھنسا کر بغور اسے ہوئے بولے. ،،اس دن شوٹنگ کے لیے جس پارلر سے میں تیار ہوئی تھی مجھے وہیں سامان لوٹانا تھا…وہ مجھے پارلر پر اتار کے چلے گئے تھے اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ ان سے کیمرا چھینا گیا تھا یا نہیں..؟،، مہرانگیز نے بے نیازی سے کہا. ،،اصل میں مس مہرانگیز ہمیں لگتا ہے کسی نے آپ کو اس شو میں کام چھوڑنے کے لیے مجبور کیا ہے. پہلے ہمیں لگا شاید آپ کو دوسری جگہ سے آفرز مل رہی ہے… مگر اس شعبے سے مکمل کنارہ کشی کرکے معمولی سی نوکری کرنا مزید شکوک و شبہات کو تقویت دے رہا ہے.،، ،،آپ کہنا کیا چاہتے ہیں رانا صاحب کھل کر بات کریں.،، مہر انگیز پرسکون انداز میں بولی. ،، دیکھئیے آپ جانتی ہیں اس چینل کے مالک بہت جانی پہچانی شخصیت ہیں… انھوں نے خصوصی طور پر آپ کو پیغام بھیجا ہے کہ اگر کسی نے آپ کو پریشان کیا ہے تو بلا جھجک آپ ان کا نام سامنے لیکر آئیں… ہمارا چینل نہ صرف اس معاملے میں سٹینڈ لے گا بلکہ آپ کو بھرپور تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا. آپ جانتی ہیں آج کا میڈیا کتنا آزاد ہے عورتوں کے حقوق کو ہمیشہ ہائی لائٹ کیا جاتا ہے. آپ بےخوف ہو کر ہمارے ہاں کام کرسکتی ہیں…،، رانا صاحب پرجوش انداز میں بولتے چلے گئے. ،،دیکھیے رانا صاحب اگر اس طرح آپ میرا استعمال کرکے آپ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی بھونڈی کوشش ہے…. دوسری بات واقعی آپ کو لگتا ہے کہ کسی کے ڈرانے دھمکانے پر میں نے آپ کا شو چھوڑا ہے تو اس کی وضاحت کیے دیتی ہوں…. یہ نوکری میں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کی تھی… کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اپنے والدین (والدین کا ذکر کرتے ہوئے اس نے ابا کی طرف دیکھا) کو ناراض کرکے اس شعبے میں آنے کا میرا فیصلہ مناسب نہیں تھا تو میں نے وہ جاب چھوڑ دی. باقی کیمرا کوئی چور اچکا بھی تو چھین سکتا ہے پلیز اس کی آڑ میں مجھے بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں.،، اس نے پراعتماد مگر قدرے ناگوار انداز میں جواب دیا. ،،میری آپ سے التجا ہے کہ آپ ایک بار اس فیصلے پر نظرثانی ضرور کرلیں.،، رانا صاحب آخری کوشش کرتے ہوئے بولے. ،،آپ جب بھی اس معاملے میں بات کریں گے میرا جواب ہمیشہ انکار ہوگا…. اور کوئی بات؟؟؟،، (انداز ایسا جیسے اب آپ جا سکتے ہیں) ،،اچھا تو پھر میں چلتا ہوں…،، رانا صاحب مرجھائے چہرے کے ساتھ اٹھتے ہوئے بولے. ،،بہت اچھا کیا پتر!!!،، اس کے جانے کے بعد ابا نے فخر سے کہا. مہر انگیز کے اس فیصلے پر وہ مطمئن اور خوش نظر آ رہے تھے. حالانکہ اسی شام پارلر پہنچنے سے پہلے گلی کے نکڑ پر اسے اغواء کیا گیا تھا…. وہ منظر ذہن میں آتے ہی ایک جھرجھری لیکر وہ بیٹھک سے نکل کر ہال میں آگئی. ،،کیا کہہ رہا تھا؟،، امی نے کچن سے نکل کر پوچھا. ،،وہی واپس آنے کے لیے اصرار کررہا تھا اورکیا… مگر مہر پتر نے صاف انکار کر دیا.،، اس کے جواب دینے سے پہلے ابا پرجوش انداز میں بتانے لگ گئے. ،،اب تو انھیں ہماری جان چھوڑ دینی چاہیے.،، امی بھی ناگواری سے بولیں. چلو یہ معاملہ تو ختم ہوا مہرانگیز نے دل میں مطمئن ہوکر دفعہ کرتے ہوئے سوچا. چار سال بعد!!! (اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسرًا) روز صبح اس پہ نظر دوڑاتے عجیب سا دکھ مہرانگیز کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا… اس کا خیال تھا کہ میر شہزاد نے اس کے ساتھ نکاح صرف بدلہ لینے کےلیے کیا تھا. کچھ دنوں بعد طلاق بھجوا دے گا. مگر دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں گزرتے چلے جا رہے تھے…. نہ تو میر شہزاد کا کوئی پتا تھا اور نہ اس نے کبھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی. مہرانگیز اپنی طرف سے ہر جگہ اسے تلاش کر چکی تھی.مگر بدقسمتی سے سوائے میر شہزاد کے نام کے اس کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا. ان دنوں وہ عجیب سی کیفیت میں گزر رہی تھی. دو دن پہلے فائزہ آنٹی اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے آئی تھیں. فائزہ آنٹی… امی کی رشتہ دار تھیں… ان کے جانے کے بعد امی سخت خفا ہوئی تھیں کہ تم نے ان سے سیدھے منہ بات کیوں نہیں کی. جب سے مناہل کی شادی والا واقعہ ہوا تھا تب سے مہرانگیز نے امی کے سارے رشتہ داروں سے قطع تعلق کر دیا تھا. کسی کی شادی ہو یا کوئی تقریب ان کے کسی دکھ سکھ میں مہرانگیز شریک نہیں ہوتی تھی. امی کا البتہ سیما آنٹی کو چھوڑ کر دوسرے رشتہ داروں میں آنا جانا تھا. ،، تمہیں معلوم ہے وہ اپنے چھوٹے بیٹے بابر کے لیے تمہارے بارے میں سوچ رہی ہیں… ،، آئندہ جب وہ آئیں تو اس بات کا خیال رکھنا!!! امی کی اس بات پہ مہرانگیز خوب تپ گئی. ،،ان کی جرآت کیسے ہوئی میرے بارے میں ایسا سوچنے کی!!! یہ وہی رشتہ دار ہیں ناں جو میرے بارے ہر قسم کے کمنٹس پاس کرتے تھے. جنہیں میرے پرینک شو کرنے پہ سب سے زیادہ اعتراض تھا… تو اب ایسی کونسی قیامت آگئی جو اپنے گھر کی بہو بنانے کے بارے میں سوچنے لگ گئیں.،، مہرانگیز بگڑ کے بولی. ،، وہ ماضی تھا… اسے بھول جاؤ اور زندگی میں آگے بڑھو تمہاری عمر کی لڑکیوں کی شادیاں ہو رہی ہیں تم ہو ابھی تک پرانے گلے شکوے لیے بیٹھی ہو.،، ،،امی آپ کو بتا رہی ہوں آئندہ آپ کے کسی رشتہ دار نے اس قسم کی کوئی امید رکھی تو میں کہہ رہی ہوں جان سے مار دوں گی!!!،، وہ غصے سے انگلی کھڑی کرتے ہوئے بولی. ،،اچھا تو ساری زندگی ایسے بٹھائے رکھوں گی… ماں ہوں تمہاری!!! سب سے زیادہ مجھے فکر ہے… آسمان سے نہیں اتریں گے شہزادے اسی زمین پہ رہنے والوں کے ساتھ رشتہ جوڑنا پڑے گا. کیا برائی ہے بابر میں پڑھا لکھا سمجھدار لڑکا ہے.عنقریب باپ کا کاروبار سنبھال لے گا.،، امی بھی جواباً تیز لہجے میں بولیں. ،،آپ کے گھٹیا رشتہ داروں سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ میں زہر کھا لوں.،، ،،بکواس بند کرو… سب سیما کے شوہر شیراز جیسے نہیں ہوتے.یہ جو تمہاری زبان چلتی ہے ناں مجھے تو یہی فکر کھائے جا رہی ہے پتا نہیں سسرال جاکر کیا گل کھلاؤ گی….؟؟؟،، امی اس وقت شدید غصے میں لگ رہی تھیں. ،،لوگ کہتے ہیں لڑکیاں سسرال جاکر نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں… میں کہتی ہوں آدھا پاگل تو ان کی مائیں سسرال کے طعنے دے دے کر پہلے کر دیتی ہیں باقی کسر سسرال والے نکال لیتے ہیں.،، مہرانگیز چڑ کر بولی. ،،بکواس بند کرو!!! دفع ہو جاؤ میری نظروں سے… دماغ خراب ہو گیا ہے اس لڑکی کا!!!،، اس دن امی اتنا شدید غصے میں آگئی تھیں اور پچھلے دو دن سے انھوں نے مہرانگیز کے ساتھ بات چیت بالکل بند کر دی تھی. امی کی طویل ناراضگی سے وہ کافی اپ سٹ تھی. اس وقت وہ ہوسپٹل میں کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے اپنی سوچوں میں گم کافی افسردہ لگ رہی تھی. ،،آپ اگر پریشان ہیں تو بلا جھجھک مجھ سے شئیر کر سکتی ہیں…،، پاس سے گزرتے ڈسپنسر نے فراخدلانہ انداز میں پیشکش کی. یہ لڑکا کچھ دن پہلے نیا آیا تھا… اسے شاید کسی نے مہرانگیز کے بارے میں صحیح طرح سے نہیں بتایا تھا… ورنہ تو وہاں پر کام کرتا سارا عملہ مہرانگیز سے ڈرتا تھا.. اتنا عرصہ باہر پبلک میں کام کرنے کی وجہ سے وہ کافی زیادہ نڈر اور اس قسم کے لفنگوں کو کس طرح ڈیل کرنا ہے اچھی طرح سیکھ گئی تھی. مجال ہے کام کے دوران کوئی اس پہ لائن مارنے کی کوشش کرتا یا اپنے کام میں ڈنڈی مارتا وہ انھیں انھیں روئی کی طرح دھنک کے رکھ دیتی تھی. ویسے بھی وہ بچپن سے غصے کی بہت زیادہ تیز تھی. سجاول جیسا خاندان کا سب سے زیادہ پراعتماد بچہ اس سے بات کرتے وقت دس بار سوچتا تھا. زندگی میں اس نے صرف دو بار مات کھائی تھی…جب اس کی زبان بالکل کنگ ہو کر رہ گئی تھی… ایک مناہل کی شادی پہ شیراز انکل سے اور دوسری مرتبہ نکاح کے وقت میر شہزاد سے…. اور شاید زندگی میں ان دونوں کے علاوہ اسے کسی اور سے اتنی شدید ترین نفرت نہیں ہوئی ہوگی. ڈاکٹر عالیہ کو مہرانگیز کا یہ دبنگ انداز بہت زیادہ پسند تھا. اپنے کام سے کام رکھنے والی اور معاملات میں بالکل کھری یہ لڑکی ڈاکٹر عالیہ کو کچھ زیادہ ہی بھا گئی تھی. سعدیہ کے جاب چھوڑنے کے بعد اس نے ہوسپٹل کے سارے انتظامات مہرانگیز کے سپرد کر دے تھے. اور تنخواہ بھی اچھی خاصی بڑھا دی تھی. ،، ہاں میں پریشان ہوں…تم میرا مسئلہ حل کر دو گے؟؟؟،، جواباً وہ سیدھی ہوکر بیٹھتے ہوئے بولی. ،، جی جی ضرور مس مہرانگیز.،، وہ لڑکا نچھاور ہوتے ہوئے بولا. ،، مجھے یہ بات پریشان کر رہی ہے کہ تم جیسا قابل سمجھدار انسان یہاں سے گزرتے ہوئے دس بار اپنے بال سیدھے کرتا ہے…اگر ڈاکٹر صاحبہ سے کہہ کر آپ کو گنجا کروا دیا جائے تو شاید آپ اپنے کام پر صحیح طرح سے فوکس کرپائیں.،، وہ زہریلی آنکھیں نکالتے ہوئے بولی. ،، اپنے دانت اندر رکھ کے کام کرو….،، موپ سے فرش صاف کرتے چاچا رحمت کو ڈانٹ کر خجالت سے سر کھجاتا وہ ڈسپنسر وہاں سے کھسک گیا. مہرانگیز سر جھٹک کر الرٹ سی ہوکر بیٹھ گئی. ،، سوری امی آپ ناراض ہیں….،، رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر امی دعا مانگ رہی تھی جب مہرانگیز اس کی گود میں سر رکھتے ہوئے منمنا کر بولیں. ،،ہٹو چلو نہیں کرنی کوئی بات…،، امی ناراضگی سے بولیں. ،،آپ جانتی ہیں میں ان لوگوں سے کتنی نفرت کرتی ہوں پھر آپ نے کیسے سوچ لیا کہ میں وہاں شادی کے لئے تیار ہوجاؤ گی. ویسے بھی جب تک میرے بھائی پڑھ لکھ کر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوجاتے میں شادی نہیں کرو گی. ،،مر نہیں گئے ان کے والدین!!! ابھی زندہ ہیں… اور اللہ نے اتنی سکت دی ہے کہ ان کا خرچہ اٹھا سکیں…تمہیں کسی نے نہیں کہا ان کےلیے قربانی دینے کو.،، ،،اچھا ناں امی پلیز ڈانٹ لیں مگر بات تو کریں آپ کو یوں ناراض دیکھ کر میرا دل گھبراتا ہے.،، وہ منانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی. ،، اور میرا دل نہیں گھبراتا تمہیں دیکھ کر چوبیس سال کی ہوگئی ہو، اس عمر میں شادی ہوجانی چاہیے تھی. عمر نکل جائے تو بعد میں رشتے بھی نہیں آتے. ایک تم ہو کچھ خیال کرنے کی بجائے میری مشکلات مزید بڑھا رہی ہو.،، امی نمناک لہجے میں بولیں. ،،وہ بابر مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا!!!،، مہر انگیز ناپسندیدگی سے بولی. ،،کوئی اور تو نہیں پسند کیا ہوا میں کہہ رہی ہوں ابھی سے بتا دو… ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!!!،، امی کی اس بات پہ مہرانگیز گڑبڑا گئی. ،،امی آپ کو میں ایسی لگتی ہوں کیا؟؟؟ بس آپ یہ ذہن میں رکھیں شادی جب بھی کروں گی خاندان سے باہر کروں گی.،، ،،تمہیں کیا معلوم اپنے مار کر چھاؤں میں تو پھینکتے ہیں غیروں سے اتنی امید بھی نہیں ہوتی.،، ،،کیا فائدہ مارتے تو دونوں ہیں…،، امی کی اس بات پہ مہرانگیز منہ بنا کے بولی. یہ سن کر وہ خاموشی سے تسبیح پڑھنے لگ گئیں. ،،اچھا امی چھوڑیں… چائے پیئں گی؟ میں آپ کے لیے اچھی سی چائے بنا کر آتی ہوں… اب تو مان جائیں.،، وہ ان کی ٹھوڑی پکڑ کے چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولی. ،،میری مانتی کہاں ہو تم!!! جو مرضی آئے کرو!!!،، ،،دودھ کم ڈالنا… خدا کےلیے صبح کی چائے کے لیے بھی بچانا دودھ…،، امی پیچھے سے پکاریں. یہ ماؤں کے موڈ بھی ناں!!! وہ چائے کا کپ بھرتے ہوئے مسکرا رہی تھی. ،،اب آ بھی جاؤ…،، ہال سے امی کی آوازیں آ رہی تھیں. میر شہزاد جیل میں!!! آج اسے جیل کی سلاخوں میں قید کاٹتے چار سال اور پورے دو ماہ ہوگئے تھے…. پچھلے ایک سال سے کوئی بھی ملنے نہیں آیا تھا…. کبھی کبھی میر شہزاد کو لگتا… شاید اس کے گرد کوئی میجک شو ہو رہا تھا جیسے ہی جادوگر نے چھڑی گھمائی….اپنی محبت، دوستی اور وفاداری کا دم بھرنے والے سب لوگ اچانک غائب ہو گئے. کیا اس کا جرم اتنا بڑا تھا جس کی سزا ابھی تک ختم نہیں ہو رہی.میر شہزاد کلس کر سوچتا. اب وہ اپنی ساری باتیں گلے شکوے سب خدا سے کرتا تھا. جیل سے باہر شاید اپنے رب سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہوگا جتنا اب ہوگیا تھا. کیونکہ ایک وہی ذات تھی جس نے اسے تنہا نہیں چھوڑا تھا. جیل کے کمرے کی دیوار سے سر ٹکائے آج میر شہزاد بہت زیادہ اداس اور نڈھال لگ رہا تھا…. اتنے لمبے عرصے کی قید نے اس کے مظبوط اعصاب کو چٹخ کے رکھ دیا تھا. ،، میر شہزاد!!! تمہارا ملاقاتی آیا ہے.،، ایک پولیس والے نے آکر اطلاع دی. ،،کون ہے؟؟؟،، تیزی سے اٹھ کر اس نے کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑ کر حیرت سے پوچھا، ،، تھوڑی دیر بعد خود دیکھ لینا….،، جواب دے کر پولیس والا چلا گیا. دس منٹ بعد وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی…. اس نے سفید سوٹ کے اوپر کالی چادر پہنی ہوئی تھی، اور نقاب سے چہرہ چھپایا ہوا تھا. بالکل جالی کے نزدیک آکر اس نے نقاب پلٹ دیا. ،،مہرانگیز!!!!!،، سکتے کی کفیت میں میر شہزاد کے منہ سے نکلا. مہرانگیز جب یونیورسٹی میں پڑھتی تھی تو وہاں کی لڑکیاں اسے کہتی تھیں کہ تم مہرانگیز نہیں سحر انگیز ہو کوئی ایک بار تمہیں دیکھ لے تو تمہارے سحر سے نکل نہیں پاتا…. اس وقت ساحرہ میر شہزاد کے سامنے تھی!!! *جاری ہے…* ( تحریر حمنہ قندیل) > *.نوٹ: اس ناول کی تمام اقساط آپ نیچے دی گئی لنک پہ کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں* https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o *پسند آئے تو شیئر کریں شیئر کرنے سے ہی ہم ایک دوسرے سے جڑتے ہیں*

Post image
❤️ 👍 😮 🤲 5
Image
سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
2/13/2025, 2:32:50 PM
Post image
❤️ 👍 6
Image
Link copied to clipboard!