
سبق آموز واقعات وحکایات
February 13, 2025 at 12:38 AM
ناول میرا نام ہے محبت ۔
قسط نمبر 8۔
تحریر سنیہ شیخ ۔
ماروی !!!!۔چری ۔۔ہوگئی ہے ۔۔۔
"ماروی، تم یہ کیا کر رہی ہو؟ یہ قرآن سے شادی کیا مذاق ہے؟ یہ تمہاری زندگی کا فیصلہ ہے، اور تم یوں اپنی خوشیاں دفن کر رہی ہو؟"۔
ماروی نے آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا اور دھیرے سے کہا ۔
"سانواری، میں کیا کروں؟ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ دادی اور چاچا نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ ٹالنا میرے بس میں نہیں۔"۔
سانواری غصے میں کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
"ماروی، تم سمجھتی کیوں نہیں؟ یہ رسم فرسودہ ہے، ظالمانہ ہے! یہ تمہیں زندہ درگور کرنے کے برابر ہے۔ تمہیں اپنے حق کے لیے لڑنا چاہیے، نہ کہ یوں ہار مان لینی چاہیے۔"۔
ماروی نے بے بسی سے اپنی نظریں جھکا لیں۔ اس کے لب کانپ رہے تھے۔
"سانواری، مجھے اپنی عزت بہت پیاری ہے۔ یہ دنیا کسی لڑکی کو اس کی عزت کے بغیر جینے نہیں دیتی۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، صرف یہی عزت ہے۔ اگر میں نے دادی کی بات نہ مانی تو وہ مجھے کاری کروا دے گی۔"۔۔۔
سانواری نے بے یقینی سے ماروی کی طرف دیکھا۔
"کاری؟ ماروی، تم پاگل ہو گئی ہو؟ یہ زمانہ بدل گیا ہے۔ دادی کی دھمکیوں سے ڈرنے کے بجائے تمہیں ان کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔"۔
بڈھی کتنی تیز نکلی ہے ۔۔۔سانواری کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ماروی کی دادی کو آگ لگا دے ۔۔۔
ماروی نے گہری سانس لی اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔
"سانواری، تمہیں نہیں پتا، گاؤں میں عزت سے زیادہ قیمتی کچھ نہیں۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا، لیکن بدنامی کا سوچ کر میری روح کانپ جاتی ہے۔ اگر میں نے یہ فیصلہ نہ کیا تو چاچا اور دادی میری زندگی جہنم بنا دیں گے۔"۔
سانواری نے ماروی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
"ماروی، بدنامی سے ڈر کر اپنی زندگی ختم کرنا خودکشی کے برابر ہے۔ تمہیں یہ سب کچھ سہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، ہم مل کر کوئی راستہ نکالیں گے۔"۔
ماروی نے سانواری کی طرف دیکھا، لیکن اس کی آنکھوں میں بے بسی واضح تھی۔
"سانواری، تم میرے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ میری قسمت میں یہی لکھا ہے۔ بس دعا کرو کہ اللہ مجھے اس آزمائش میں صبر عطا کرے۔"۔
سانوری لوگ تو سینے سے لگا کر کلیجہ نوچ لیتے ہیں ۔ماروی نے کرب سے کہا سانوری کو لگا اسکا بھی دل دوست کی تکلیف پر پھٹ جائے گا ۔۔
ایسے مت بول ماروی ۔۔ہم کوئی راستہ نکال لیں گے۔ ۔۔
نہیں ہے کوئی راستہ میرے پاس ،سانوری مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گی ،میرے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے ۔۔ یہ وحشت اور گھٹن مجھے اندر اندر کھا رہی ہیں ۔۔
میری ماں نے مجھے بہت خسارے میں رکھا سانوری !!!۔ اس نے بچپن میں کبھی مجھے بتایا ہی نہیں کہ "زندگی فقط دکھ ہے "۔
ابا چھوڑ گئے تو مجھے لگا ماں تو ہے ۔۔۔۔
مگر ماں نے بھی قبر میں جانے کی جلدی کی ۔۔کیا تھا ۔۔کیا تھا دونوں مجھے بھی ساتھ لے جاتے سانوری ۔۔۔۔
تو جانتی ہے سانوری انسان آدھا پاگل کب ہوتا ہے جب اسکی باتیں اور مسائل سننے کے لیے اس کے پاس ماں نہ ہو ۔۔۔اور میرے پاس نہ ماں ہے نہ باپ تو میرا تو پورا پاگل ہونا بنتا ہے ۔۔۔۔
ماروی کی باتیں سانوری کا دل چیر رہی تھیں ۔۔بس کردے ۔۔۔بس کردے ۔۔۔میرا دل بند ہوجاے گا یار ۔۔۔۔
نہیں ۔۔تو جو مرضی بول ماروی میں تجھے یہ نہیں کرنے دوں گی ۔۔کسی صورت نہیں ۔
سانواری نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ وہ ماروی کو اس ظالمانہ رسم کا شکار ہونے سے بچائے گی، چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
"ماروی، میری بات سنو، یہ فیصلہ مت کرو۔ یہ تمہاری زندگی ہے، اور تمہارے پاس حق ہے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا۔ یہ قرآن سے شادی صرف ایک ظالمانہ رسم ہے، تمہاری خوشیاں چھیننے کے لیے۔ تم کیوں ان لوگوں کی بات مان رہی ہو جو تمہیں جیتے جی مار رہے ہیں؟"۔
ماروی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ دھیرے سے بولی ۔
"سانواری، میں کیا کروں؟ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ چاچا اور دادی میری زندگی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ میں ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔"۔
"ماروی، میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔ ہم کسی طرح سردار یا کسی اور سے مدد لیں گے۔ یہ قرآن سے شادی تمہاری زندگی کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ تمہیں لڑنا ہوگا، ماروی۔ تم یہ فیصلہ مت کرو، میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں۔"۔سانوری نے یقین دلایا ۔۔
مجھے تیرے لیے جو کرنا پڑا میں کروں گی ۔۔تیری دوست ابھی زندہ ہے ۔۔۔۔۔تو لاوارث نہیں ہے ۔۔۔
🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵
"مجھے سردار سائیں سے ملنا ہے، سمجھ آئی؟ میں بار بار نہیں آ سکتی ہوں!" وہ اپنے دوپٹے کو درست کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔
گارڈز، بہت تحمل سے بولے ۔
"بی بی، ہم نے کہا نا، سائیں حویلی میں نہیں ہیں، وہ ڈیرے پر ہیں۔"۔
سانوری نے غصے سے پیر پٹخا اور کہا
"مجھ سے جھوٹ مت بولو! میں جانتی ہوں سردار سائیں یہیں ہیں۔ تم سب لوگ بس مجھے پریشان کر رہے ہو!"۔
گارڈز نے پھر سمجھایا ۔۔
"بی بی، ہم آپ سے بدتمیزی نہیں کرنا چاہتے۔ آپ آرام سے چلی جائیں۔ سائیں واقعی یہاں نہیں ہیں۔"۔۔
اتنے میں، وجدان کی گاڑی گیٹ کے قریب آ کر رکی۔ وہ ڈیرے سے تھکا ہوا واپس آ رہا تھا، چہرے پر تھکن کے آثار اور آنکھوں میں بےزاری تھی۔ مگر گیٹ پر ہونے والے ہنگامے نے اس کی توجہ کھینچ لی۔۔
گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے حیرانی سے گیٹ کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک لڑکی گارڈز کے ساتھ الجھ رہی تھی۔
اس کے گارڈز فوراً الرٹ ہو گئے اور ایک دوسرے کو اشارے سے خبردار کیا کہ وجدان آ گیا ہے۔ ایک گارڈ آگے بڑھ کر وجدان کو سلام کرتے ہوئے بولا ۔
"سائیں، یہ لڑکی ضد کر رہی ہے کہ آپ سے ملنا ہے۔ ہم نے اسے بتایا تھا کہ آپ ڈیرے پر ہیں، لیکن یہ مان ہی نہیں رہی۔"۔
وجدان نے لڑکی کی طرف دیکھا، جو اب بھی اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑی تھی، بالکل بے خوف۔ وہ اس کی طرف بڑھا اور پرسکون گہری آواز میں بولا ۔
"تمہیں سردار سائیں سے کیا کام ہے؟ اور اس طرح یہاں آ کر لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟"
سانوری نے وجدان کو غور سے دیکھا ۔
"آپ جو بھی ہیں، مجھے سردار سائیں سے ملنا ہے۔ میرا مسئلہ بہت اہم ہے، اور میں یہاں سے واپس نہیں جاؤں گی جب تک وہ مجھ سے نہ ملیں۔"۔۔سانوری نے ناگواری سے کہا ۔
وجدان نے کچھ دیر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس کی بے خوفی اور اصرار نے وجدان کو متاثر کیا۔ وہ تھوڑا پیچھے ہٹا اور گارڈز کی طرف دیکھ کر کہا ۔
"گیٹ کھولو، اسے اندر آنے دو۔"
گارڈز نے حکم پر فوراً عمل کیا۔ وجدان نے ایک طرف ہو کر سانوری کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور سنجیدگی سے کہا ۔
"چلو، اندر آؤ۔
سانوری نے جھجھکتے ہوئے گیٹ کے اندر قدم رکھا۔
وجدان نے نرم اور گہری آواز میں کہا ۔
"بیٹھو، اور بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو۔"
سانوری ، جو تھوڑا جھجک رہی تھی، حیرت سے وجدان کو دیکھتی رہی۔ پھر دھیرے سے بولی ۔
"آپ... آپ کون ہیں ہیں؟"
اے لڑکی نگاہیں نیچے رکھو اپنی ،سائیں کی آنکھوں میں دیکھنا گستاخی ہے ۔۔۔
ایک گارڈ نے تیز آواز سے سانوری کو ٹوکا ۔۔
سانوری نے آنکھیں نیچے کر لیں مگر سوال دوہرآیا یہ ہیں کون ۔۔
وجدان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔
"میں تمہارا گاؤں کا سردار سائیں غلام وجدان خان چانڈیو ہوں، اب اپنا مسئلہ بتاؤ، تم نے اتنا شور کیوں مچایا ہوا تھا ۔۔۔
سانوری حیران ہوئی ۔۔۔
اتنا چھوٹا سا سردار ۔۔۔
وہ سائیں اصل میں ۔۔میری ایک سہیلی ہے وہ یتیم اور مسکین ہے پر سائیں اسکی دادی اور چاچا بہت لالچی ۔۔وہ جائیداد کے لیے اسکا نکاح قرآن ے پاک سے کر رہے ہیں ۔سائیں وہ یہ ظلم ہے اسے بچا لیں سائیں ۔۔سانوری نے روتے ہوئے ساری کہانی سنائی ۔
سانوری کی آواز لرز گئی، مگر وہ بولتی رہی
وجدان کا چہرہ سخت ہوتا گیا۔ اس کی آنکھوں میں غصے کی لپٹیں دکھائی دینے لگیں، اور اس کے تاثرات پل بھر میں بدل گئے۔
"یہ رسم... ہم نے برسوں پہلے ختم کر دی تھی۔ گاؤں میں کسی کی یہ جرات کیسے ہوئی کہ ہمارے حکم کے خلاف جائے؟ ؟"
سردار نے اپنی گرجدار آواز میں دھاڑا ۔
ساتھ کھڑے ملازم دہل گئے ۔۔
سردار سائیں بہت نرم مزاج انسان ہیں مگر جب غصہ آتا ہے تو اتنا شدید آتا کہ سب کانپ اٹھیں ۔۔۔
کتنے برس کی ہے تمہاری دوست ؟؟
وجدان اپنی گرجدار آواز میں ایک بار پھر بولا ۔۔
جی ۔۔۔جی سائیں انیس سال کی ہوگئی ہے ۔۔۔سانوری کے لب کانپ رہے تھے سردار کا جلال دیکھ کر ۔
"مجھے ان سب میں ملوث ہر شخص کا پتہ چلنا چاہیے! یہ رسم ہمارے گاؤں میں اب ختم ہو چکی ہے۔ جو بھی اس جہالت کو دوبارہ زندہ کرے گا، وہ میرا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے!"۔۔۔وجدان نے آپنے آدمی کو حکم دیا ۔۔۔
وجدان کے اندر غصے کا طوفان اور چہرے پر جلالی تاثرات عروج پر تھے۔ اس نے سخت آواز میں اپنے گارڈز کو حکم دیا ۔
"جرگہ بٹھاؤ ابھی! اٹھا کر لاؤ سب کو، ایک ایک شخص کو۔ گاؤں کے بڑے ہوں، میرے خاندان کے لوگ ہوں یا وہ جو اس رسم کے حمایتی ہیں، سب یہاں ہوں۔ کسی کی غیر موجودگی برداشت نہیں کروں گا!"۔
سائیں گستاخی معاف مگر ۔۔۔۔
یہ ٹائم نہیں جرگے کا شام پڑ رہی ہے سائیں ۔۔۔۔ گارڈ نے آہستہ آواز میں سمجھا نے کی کوشش کی ۔۔
"یہ جرگہ ابھی ہوگا، اور یہ فیصلہ آخری ہوگا۔ اس گاؤں میں کوئی رسم، کوئی روایت، میرے اصولوں سے اوپر نہیں۔۔۔۔۔
سانوری، جو پہلے اس کی طرف امید سے دیکھ رہی تھی، اب اس کے رعب سے متاثر اور قدرے خوفزدہ نظر آ رہی تھی۔ وجدان نے لمحے کے لیے پلٹ کر سانوری کی طرف دیکھا اور اس کے لہجے میں تھوڑی نرمی آ گئی ۔
"فکر مت کرو۔ جب تک سردار وجدان زندہ ہے، تمہاری دوست پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔"۔تم گھر جاؤ ۔۔
پھر وہ کمرے سے باہر نکلا، اور سانوری نے دور سے دیکھا کہ وہ اپنے گارڈز کے ساتھ روانہ ہو گیا۔وہ چوبیس سالہ سردار اس کی شخصیت میں وہ رعب اور طاقت تھی جیسے خود انصاف کا دیوتا گاؤں کی زمین پر قدم رکھ چکا ہو۔۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا اس بار جس کے لیے وہ جرگہ بٹھا رہا ہے وہ وہی لڑکی ہے جو اسکی راتوں کی نیند اڑا چکی ہے ۔۔۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
آیت کی بیٹھے بیٹھے کمر دکھ گئی تھی ۔۔۔
سب کا لنچ ٹائم تھا مگر آیت کو لیٹ آنے پر سزا کے طور پر بریک بند تھی ۔۔
"کس قدر ظالم اور بدماش انسان ہے ۔۔صبح ٹھیک سے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا ۔"۔
ظالم تمھیں تو اللّه پوچھے ۔۔۔اف اتنی بھوک لگی ہے ۔۔۔آیت بیٹھی ابصار کو کوس رہی تھی ۔۔۔وہ پنسل سے پیپر پر لائنز مار رہی تھی جب اچانک اسے آئیڈیا آیا کہ اس وقت ابصار شاید کیبن میں نہ ہو ،کیوں نہ میں وہ اگریمنٹ چیک کرلوں ۔۔اس جلاد نے پتا نہیں کیا کیا سائن کروا لیا ہے ۔۔۔۔۔
آیت ابصار کے آفس میں داخل ہوئی، دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ موقع مناسب جان کر وہ دبے پاؤں ابصار کی ڈسک کی طرف بڑھی۔ اس کی نظریں سیدھی اُس فائل پر تھیں، جو اسے زبردستی سائن کروائی گئی تھی۔
آیت نے جلدی سے فائل اٹھائی اور اسے کھولنے ہی والی تھی کہ اچانک پیچھے سے کسی نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ گھبرا کر پلٹی، تو دیکھا کہ ابصار اس کے ہاتھ کو سختی سے جکڑے ہوئے تھا اور چہرے پر غضبناک تاثرات تھے۔
"تمہیں اجازت کس نے دی کہ تم میری ڈسک سے فائل اٹھاؤ؟"۔ابصار نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔
آیت نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی، لیکن ابصار نے اس کا ہاتھ پیچھے موڑ کر اسے زور سے ٹیبل کے قریب کر دیا۔ اب وہ تقریباً ٹیبل سے پن ہو چکی تھی۔۔۔آیت کو اسکے اتنے قریب آنے پر گھبراہٹ ہورہی تھی ۔۔۔پکڑے جانے کا ڈر الگ تھا ۔۔۔۔۔
چھوڑیں مجھے مسٹر ابصار عالم ۔۔۔
آپ مجھے ہر بار ایسے ٹریٹ نہیں کر سکتے ۔مجھے اس ایگریمنٹ دیکھنے کا پورا پورا حق ہے آپ نے دھوکے سے سائن کرواے ہیں ۔۔۔۔۔آیت نے پھڑپھڑا تے ہوئے اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
کیا تم کبھی قیس کے بھی اتنے قریب تھیں جتنا تم میرے قریب ہو ؟ حق تو جماتا ہوگا وہ اپنا ۔۔۔یا تم خود اسکی باہوں میں ۔۔۔۔۔؟"
ابصار ابھی اور بھی کچھ کہتا آیت چیخ اٹھی ۔۔۔
"how dare you mr absar "?
آپ کو شرم آنی چاہئے اتنی گھٹیا بات کرتے ہوئے ۔۔۔آپ ۔۔۔ کوئی حق نہیں آپ میری اتنی تذلیل کریں ۔۔۔زبردستی نکاح آپ نے کیا ہے مجھ سے میں مر نہیں رہی تھی آپ کے نام کے لیے ۔۔۔اور قیس میرا شوہر تھا میرے جو بھی تعلقات تھے اس سے ۔۔۔"
non of your business"
چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔وہ مسلسل اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی ۔۔۔مگر اسکی گرفت بہت مظبوط تھی ۔۔۔۔
ہممم۔ ۔۔۔قیس نے تم میں کیا دیکھا ۔؟؟؟
نہ شکل ہے نہ عقل ۔۔۔وہ تو کمرے کی بیڈ شیٹ کی طرح لڑکیاں بدلتا تھا ۔۔تم نے کیسے پھسا لیا اسے ؟؟؟کونسی ادایں دکھایں تھیں آخر ؟؟؟
ابصار نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر فائل ڈسک سے نکالتے ہوئے کہا ۔۔۔
مسٹر ابصار آپکو لڑکیوں سے بات کرنے کی بلکل بھی تمیز نہیں ہے ۔۔۔۔آیت نے اپنے کلائی سہلاتے ہوئے اس بے رحم دل انسان کو دیکھا ۔۔۔۔
شٹ اپ !!!۔قیس جیسے بندے کی قریب رہ کر تم عزت ڈسروکرتی ہو ذرا پوچھو خود سے ۔۔۔قیس اس شہر کا عیاش ترین انسان تھا ۔۔تم اسکی بیوی تھیں ۔۔۔اور عزت کی بات کرتی ہو ۔۔۔
" sounds strange"
ابصار کی باتوں پر آیت کا دل ڈوب مر جانے کا کیا ۔۔۔وہ اب ابصار کو کیا کہتی کہ کس مجبوری کا فائدہ اسکے بھائی نے اٹھایا تھا ۔۔۔۔وہ خاموشی سے واپس جانے کے لیے پلٹی ۔۔۔ابصار نے اسے روکا ۔
مس آیت کیا میں نے کہا ابھی جانے کو ؟؟؟
bossy وہ اپنی آی برو اچکاتا
ٹون میں واپس آچکا تھا ۔۔۔۔۔
میں اس سے زیادہ انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی مسٹر ابصار عالم ۔۔۔آیت نے اپنے آنسو ضبط کئے ۔۔۔وہ انسان اب اسکے کردار کو داغ دار کر رہا تھا ۔۔۔۔
مسٹر نہیں ۔۔۔۔سر ۔۔۔۔
iam your boss so behave like a employee ..
ابصار کی دھاڑ پر وہ مڑی ۔۔۔
چیئرز کے پاس آکر وہ رک گئی ۔۔۔۔۔
"sit "
ابصار نے حکم دیا ۔
"no"
آپ نیا فرمان جاری کریں کونسی نئی سزا ہے میرے لیے ۔۔۔۔
آیت نے اپنا سر جھکا لیا تھا ۔۔صبح سے انسلٹ کرواتے کرواتے اسکی بس ہوگئی تھی ۔۔اسکی خوبصورت جھیل سی آنکھیں اس وقت مرجھا گئیں تھیں ۔۔۔۔۔
ابصار ایک انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھے ہوئے اسے غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
بیٹھ رہی ہو یا میں اٹھوں ؟؟؟؟؟
سرد لہجے میں مقابل کے دماغ میں اپنا ڈر بیٹھاتے ہوئے آیت کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا ۔۔
وہ بغیر کسی بحث کے بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
ڈیٹیلز میں اپنی عمر زیادہ کیوں لکھوای ہے ہے ۔۔۔؟
اسکے چہرے سے نظریں ہٹاے بغیر وہ سوال کر رہا تھا ۔۔۔ ۔
جاب کی وجہ سے ۔۔ جاب نہیں دیتے اچھی ایج کم ہو تو لڑکی کو آفس میں سب ہراس بھی کرتے ہیں ۔۔۔اسلئے میں نے بائیس کی جگہ پچس سال لکھوائی ۔۔۔آیت اپنے دونوں ہاتھوں کو مسل رہی تھی ۔۔۔۔ابصار اسکا ایک ایک انداز نوٹ کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
ابصار نے ایگریمنٹ کی فائل اسکے سامنے رکھی ۔۔پانچ منٹ بس ۔۔۔۔جتنی جلدی ریڈ کر سکتی ہو کرلو ۔۔۔یہ آخری بار ہے اس کے بعد میرے آفس میں چوری کرتے ہوئے پکڑی گئیں تو یہیں بند کردوں گا ۔۔۔ابصار اسے پانچ منٹ دے کر احسان کر رہا تھا ۔۔۔
آیت کو غنیمت لگے یہ پانچ منٹ بھی ۔۔۔۔
اس نے فائل کو جلدی سے اٹھایا اور اس ایگریمنٹ کے سکرین شارٹ لے لیے ۔۔۔
ابصار کے ماتھے پر پہلے تو بل پڑے پر اسکی چالاکی پر عش عش کر اٹھا ۔۔۔۔۔
ویری سمارٹ ۔۔اہاں ۔۔۔ بہت کھلے دل سے تعریف ہوئی ۔۔۔
آیت نے جتنی جلدی میں سکرین شارٹ لیے اتنی پھرتی سے فائل بند کی اور جانے کے لیے اٹھی ۔۔۔۔
روکو ۔۔۔ابصار نے آیت کو چیئر سے اٹھنے سے پہلے ہی روک لیا ۔۔۔
آج کے بعد جب تک میں نہ کہوں لیو ۔۔۔ تم بیٹھی رہو گی ۔۔ یہ بیسک مینرز ہوتے ہیں جو انسان گھر سے سیکھتا ہے اور وہ تم میں مسنگ ہیں ۔۔۔۔۔
any ways ...
بہت ٹائم ویسٹ کر لیا میرا ۔۔۔۔
ناؤ لیو ۔۔۔۔ وہ آیت کو اگنور کرتا ہوا اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔۔۔
آیت کی جان چھوٹی اس نے شکر منایا ۔
باہر آتے ہی اپنا موبائل کھول کر چیک کیا ۔۔۔آگریمنٹ کے پوائنٹس چیک کئے
جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی اسکا رنگ اڑتا گیا ۔۔اسکا دماغ چکرا رہا تھا کاش وہ یہ سب پہلے دیکھ لیتی ۔۔۔یہ تو وہ اپنے موت کے پروانے پر سائن کر چکی تھی ۔۔۔
آیت اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
مسز ابصار ۔۔آپ ٹھیک تو ہیں ؟؟؟روبی نے سر پکڑے بیٹھی آیت کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھا ۔۔۔
آیت نے سر اٹھا کر روبی کو دیکھا ۔۔۔
روبی میرے فائنینس کے معملات کس کے ہاتھ میں ہیں ؟؟؟؟
آیت کے سوال پر روبی نے ابصار کے آفس کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
آیت خاموشی سے بیٹھ گئی وہ جانتی تھی کہ اس انسان سے بات کرنا ۔۔دیوار سے سر ٹکرانے کے برابر ۔۔فلحال وھ صرف اگریمنٹ کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
نشا گھبرائی ہوئی تابش کے آفس پہنچی۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا، اور چہرے پر گہری پریشانی کے آثار تھے۔ تابش، جو اپنی کرسی پر سکون سے بیٹھا فائل پڑھ رہا تھا، نشا کی حالت دیکھ کر چونک گیا۔
"ارے! کیا ہوا ہے؟۔۔
پھر چوری کی ہے کیا کیا کر رہی ہو یہاں ؟؟
"تابش بھائی، نور کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے!"۔اور وہ بہت خطرناک لگ رہے تھے ۔۔۔
نشا روتے ہوے بولی ۔۔۔
تابش کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔
اچھا ہوا اب میں خود سزا دلواوں گا اسے ۔
شرم کرو تم دونوں کچھ لڑکیاں کرتی ہیں ایسی حرکتیں ۔۔وہ تمہاری دوست ڈان ہے پوری ۔۔۔۔ لڑکوں کی طرح حرکتیں کرتی ہے ۔۔
رہنے دو ذرا جیل میں اسکا دماغ ٹھکانے لگنے دو ۔۔۔اور یہ بھائی بھائی بول کر تم مجھے بلیک میل مت کرو ۔۔۔یہاں روز مت آیا کرو لڑکیوں کے آنے کی جگہ نہیں ہے ۔۔تابش نے اسے پیار سے سمجھایا ۔
پلیز بھائی ایسے مت کریں میری دوست اس بار معصوم ہے ۔۔اس نے کچھ نہیں کیا پلیز اسے بچا لیں ۔۔۔۔
اچھا اچھا ۔۔۔رو مت ۔۔۔بتاؤ کیا ہوا ہے ۔۔۔
"وہ... وہ لڑکے جن کے ساتھ نور نے ہیکنگ کی تھی، وہ اصل میں بینک کی معلومات ہیک کروانے آئے تھے۔ اور پولیس نے ان سب کو پکڑ لیا!"۔
تابش نے کرسی سے اٹھتے ہوئے گہری سانس لی۔
تمھیں معلوم ہیں اگر وہ گیلٹ پرو ہوئی تو جانتی ہو ساری عمر جھاڑو لگاے گی جیل میں ۔۔۔
"تابش بھائی، پلیز! آپ تو جانتے ہیں، نور ایسی نہیں ہے۔ وہ تو بس کچھ نیا سیکھنے کے چکر میں یہ سب کر گئی۔ اسے بچا لیں، پلیز!"۔۔
"کچھ نیا سیکھنے کے چکر میں جیل پہنچ گئی؟ واہ، کیا ٹیلنٹ ہے تمہاری دوست کا!"۔
تابش نے طنز کیا ۔۔۔
"تابش بھائی، پلیز! آپ ہی اسے بچا سکتے ہیں۔ ورنہ وہ تو اندر ہی سڑ جائے گی!"۔
نشا کو نور کی فکر کھاے جا رہی تھی ۔۔۔
تابش نے کچھ لمحے سوچا، پھر اپنی جیکٹ اٹھاتے ہوئے بولا ۔
"ٹھیک ہے، دیکھتا ہوں کیا کر سکتا ہوں۔ لیکن ایک بات ، اگر میں وہ قصور وار نکلی ، تو اس کی خیر نہیں!"۔۔۔
پھر اسکو سزا میں خود دلواوں گا ۔۔۔۔
گاڑی تیار کرواؤ ۔۔۔۔۔تابش نے فون پر ھدایت دیں اور باہر کی طرف نکل گیا ۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
جاری ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1127
👍
😂
😫
5