
سبق آموز واقعات وحکایات
February 14, 2025 at 12:29 AM
✭﷽✭
*✿_سیرت النبی ﷺ_✿*
▪•═════••════•▪
*پوسٹ-190*
─┉●┉─
*┱✿_ اسی کے پاس سب کو جانا ہے-1 _,*
*★_ باہر صحابہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کی حالت اتنی پریشان کن تھی کہ مسجد نبوی کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے، اور لوگوں کو مخاطب ہوکر کہنے لگے: “_اللّٰہ کی قسم! رسول اللّٰہ کا انتقال نہیں ہوا…رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ منافقوں کے ہاتھ پیر نہیں توڑ دیں گے۔ اور اگر کسی نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا… بعض منافق یہ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ اسی طرح اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے اور پھر چالیس راتوں کے بعد اپنی قوم میں واپس آگئے تھے، جب کہ لوگ ان کے بارے میں کہنے لگے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے۔اللّٰہ کی قسم ! رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بھی اسی طرح واپس تشریف لائیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے…پھر ان لوگوں کے ہاتھ پیر کٹوائیں گے۔”*
*"_ حضرت عمر رضی الله عنہ غم کی زیادتی کی وجہ سے ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ تشریف لائے اور منبر پر چڑھے۔ انہوں نے بلند آواز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:“لوگو! جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔”*
*"_ یہ کہہ کر انہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت 44 تلاوت فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے:- “اور محمد رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے اور بھی بہت رسول گذر چکے ہیں۔ سو اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے تو کیا تم لوگ الٹے پھر جاؤ گے …اور جو شخص الٹے پیروں پھر بھی جائے گا تو اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللّٰہ تعالیٰ جلد ہی حق شناس لوگوں کو بدلہ دے گا۔”*
*""حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں۔_”یہ آیت سن کر مجھے لگا جیسے میں نے آج سے پہلے یہ آیت سنی ہی نہیں تھی۔”*
*"_اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا:- إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ،صَلَوَٰتٌۭ وَسَلَامٌ عَلَى رْسَولِہ صلی الله علیہ وسلم (بے شک ہم سب اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر درود و سلام ہو۔)*
*★_ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت سے سب کے لیے موت کا برحق ہونا ثابت فرمایا اور فرمایا:_ “اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ “آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں ( عام مخلوق کو) بھی مرنا ہے۔” ( سورۃ الزمر : آیت 30)*
*"_ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ پر تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی۔ اس کے بعد لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔*
*"_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔ غسل حضرت علی، حضرت عباس اور ان کے بیٹوں فضل اور قثم رضی الله عنہم نے دیا۔ حضرت فضل اور حضرت اسامہ رضی الله عنہم غسل دینے والوں کو پانی دے رہے تھے۔ غسل کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی قمیض نہیں اتاری گئی۔ غسل کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا، عود وغیرہ کی دھونی دی گئی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو چار پائی پر لٹاکر ڈھانپ دیا گیا۔*
*"_نماز جنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی۔ سب نے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی, یعنی جتنے لوگ حجرہ مبارک میں آسکتے تھے، بس اتنی تعداد میں داخل ہوکر نماز ادا کرتے اور باہر آجاتے، پھر دوسرے صحابہ اندر جاکر نماز ادا کرتے۔*
*"_حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی الله عنہ چند دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ حجرے میں داخل ہوئے تو ان الفاظ میں سلام کیا۔ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، پھر تمام مہاجرین اور انصار نےبھی اسی طرح سلام کیا۔ نماز جنازہ میں سب نے چار تکبیرات کہیں۔*
*★_ انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ ( ایک جگہ کا نام) میں جمع ہورہے تھے تاکہ خلافت کا فیصلہ کیا جائے۔ کسی نے اس بات کی خبر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنھما کو دی۔ یہ دونوں حضرات فوراً وہاں پہنچے، اور خلافت کے بارے میں ارشاد نبوی سنایا۔*
*"_خلافت کا مسئلہ طے ہوگیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا…سوال یہ کیا گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ اس موقع پر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ آگے آئے اور فرمایا:-“آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں وفات ہوئی ہے… میرے پاس ایک حدیث ہے… میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کی روح اسی جگہ قبض کی جاتی ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہ ہوتی ہے۔*
*"_چنانچہ یہ بات طے ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ دفن کیا جائے۔ اب یہ سوال اٹھا کہ قبر کیسی بنائی جائے، بغلی بنائی جائے یا شق کی۔۔۔اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت ابوطلحۃ بن زید بن سہل رضی اللہ عنہ بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح شق کی قبر کھودتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- ان دونوں کو بلالاؤ۔۔۔ان میں سے جو پہلے پہنچے گا، اسی سے قبر بنوالی جائے گی۔ ان کی طرف آدمی بھیجنے کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی:_اے اللہ!اپنے رسول کے لئے خیر ظاہر فرما۔*
*"_حضرتابوطلحہ رضی اللہ عنہ پہلے آئے، چنانچہ بغلی قبر تیار ہوئی۔ ایک حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بغلی قبر ہی کا حکم فرمایا تھا۔ حضرت عباس، حضرت علی، حضرت فضل، حضرت قثم اور حضرت شقران رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں اتارا۔*
*"_حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے قبر میں ایک سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا۔ یہ وہی سرخ کپڑا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جاتے وقت اونٹ کے پالان پر بچھاتے تھے۔ یہ کپڑا اس لئے بچھایا گیا کہ وہاں نمی تھی۔ اس وقت حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے:خدا کی قسم! آپ کے بعد اس کپڑے کو کوئی نہیں پہن سکے گا۔*
*📕سیرت النبی ﷺ, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
▉
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1132
❤️
😢
👍
😮
6