سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
February 15, 2025 at 07:33 AM
ناول میرا نام ہے محبت ۔ قسط نمبر 9۔ از قلم سنیہ شیخ ۔ گاؤں کے ہر طرف ہلچل مچ گئی تھی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ سردار سائیں وجدان نے ایک دن میں دو بار جرگہ بلا لیا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لوگ حیرت اور خوف کے مارے جمع ہو رہے تھے۔ ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ آخر ایسا کیا معاملہ ہوا ہے جس نے سردار کو اتنا جلالی بنا دیا ہے۔ وجدان کی آنکھیں شدت سے لال تھیں، ان میں نہ صرف غصہ بلکہ بے حد مایوسی بھی جھلک رہی تھی۔ وہ غصہ اس بات کا تھا کہ اس کے اپنے گاؤں میں اس کے اصولوں کے خلاف جا کر کسی نے اتنا بڑا ظلم کرنے کی جرات کی۔۔سردار کے خلاف جانے کی جرت کر بھی کیسے سکتا ہے کوئی ۔۔۔ وجدان گاؤں کے بیچ سردار کے تخت کے پاس کھڑا تھا، اس کے سامنے پورا گاؤں جمع تھا۔ لوگ خوف اور احترام کے ساتھ خاموشی سے کھڑے تھے، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سکے۔ وجدان کا چہرہ غصے اور دکھ کی آمیزش کا شاہکار تھا۔ اس کی آواز جب گونجی تو یوں لگا جیسے آسمان سے بجلی گرج رہی ہو۔۔اسکی سفید رنگت خون چھلکا رہی تھی ۔۔۔۔ کون ہو وہ انسان جس نے اللّه اور ھمارے نبی کے احکامات مزاق اڑایا ۔۔کون ہے وہ بدبخت جس نے ایک یتیم اور مسکین پر ظلم کرنے کی کوشش کی ۔۔سردار وجدان کی دھاڑ پر گاؤں کے ساتھ ساتھ گھر والے بھی خوفزدہ ہوئے ۔۔آج سے پہلے یہ انداز وجدان کا کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ ایک انیس سالہ لڑکی کو ظالم رسم کی بھینٹ کرنے کی کوشش کس کی تھی ۔۔۔ کون ہے رب نواز میرے سامنے لاو اسے ۔۔۔۔ "تم لوگ قرآن کو مذاق سمجھ بیٹھے ہو، شرم نہیں آتی تمہیں ایسا ظلم کرتے ہوئے؟! یہ وہی قرآن ہے جو ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے، جو ہمیں انصاف اور رحمت سکھاتا ہے۔ اور تم نے اس پاک کتاب کو اپنی جہالت کے لئے استعمال کیا؟! تم نے اس کی حرمت کو پامال کیا؟!"۔ "حق بخشای " کی رسم جب گاؤں سے ختم کر دی گئی ہے تو کون میرے خلاف اعلان جنگ کرنا چاہتا ہے ۔۔بولو ۔۔وجدان نے پھر سب کو مخاطب کیا ۔۔۔ وجدان کی آواز بھرپور اور گرجدار تھی، ہر لفظ کے ساتھ لوگوں کے دل دہل رہے تھے۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں، اور رگیں تن گئی تھیں۔۔ رب نواز ہاتھ باندھے سامنے آیا ۔۔ وجدان کو دھچکا لگا ۔ جیسے وقت تھم گیا ہو۔ اس کے دل میں ایک ہلچل مچ گئی، اور اس کی آنکھوں میں حیرت تھی ۔۔۔ رب نواز وہی شخص تھا جس نے ماروی کو اس رسم کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی تھی، اور ماروی... وہ لڑکی تھی جس کے لیے وجدان کے دل میں پیار کی نئی نئی کونپل پھوٹ رہی تھی ایک ان کہی محبت پنپ رہی تھی۔۔وہ گہری آنکھوں والی لڑکی جو اسکی نیند اسکا سکون سب اڑا لے گئی تھی ۔آج خود بے سکون تھی تکلیف میں تھی ۔نہ جانے وہ خوبصورت آنکھیں کتنی بات روئی ہونگی ۔۔وجدان کو لگا کہ رب نواز نے اسکے دل پر وار کیا ہے ۔۔۔۔ "رب نواز! تم نے جرات کیسے کی؟ تمہیں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ تمہارے اس ظلم سے نہ صرف ایک معصوم بچی کی زندگی برباد ہو رہی ہے بلکہ تم نے میرے اصولوں کو بھی للکارا ہے!"۔ اپنے عمل کی وضاحت دو ۔۔۔وہ پھر برسا ۔ رب نواز وجدان کے پیروں میں بیٹھ گیا ۔ رب نواز کانپتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر وجدان کی نظر میں وہ ایک مجرم تھا، اور وجدان کا جلال اس لمحے کسی آتش فشاں کی مانند پھٹنے کو تیار تھا۔ سائیں !!!۔میری جان قربان میرے سائیں مگر میری بھتیجی کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے ۔۔وہ اب کسی مرد کے قابل نہیں ہے ۔۔اسکی یہی سزا بنتی ہے ۔۔۔ رب نواز ۔۔۔وجدان نے اسکی بات پوری ہوتے ہی پوری شدت سے اپنی ٹانگ اسکے پیٹ پر ماری وہ کافی دور جا گرا ۔۔۔ زبان کاٹ کر ہاتھ میں دے دوں گا معصوم پر بهتان لگایا تو ۔۔۔ وجدان کا جی تو چاہ رہا تھا گولیوں سے اسکا سر بھون دے ۔۔۔ سائیں ۔۔رحم ۔۔۔رحم سائیں میں اسکا ولی ہوں ۔میں اسکے خلاف گواہی دیتا ہوں ۔۔میرے پاس دو گواہ اور بھی ہیں ۔۔آپ حکم دیں میں پیش کروں ۔۔۔رب نواز نے اجازت مانگی ۔۔وجدان کو لگا وہ سانس نہیں لے پاے گا ۔۔۔۔ رب نواز اگر تیری گواہی جھوٹی ہوئی تو اپنا انجام سوچ کر رکھنا ۔۔ وجدان نے اسے وارن کیا ۔۔۔ جی ۔۔جی سائیں اسکی چاچی اور دادی دونوں نے اسے رنگے ہاتھ پکڑا ۔۔۔رب نواز کی آواز لڑکھڑای ۔۔۔ عورت کی گواہی جرگے میں نہیں مانی جاتی ۔۔۔۔ ۔وجدان نے اپنے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ لے وہ اپنا غصہ پتا نہیں کیسے برداشت کر رہا تھا ۔۔۔ اس کے گھر کے دائیں بائیں جو گھر ہیں انکو جرگہ میں شامل کرو ۔۔۔ اتفاق سے دونوں ہی جرگے میں موجود تھے ۔۔ رب نواز نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وجدان کا دماغ اتنا کام کرے گا ۔۔۔۔ انہوں نے آواز کھڑی کی سائیں ہم حاضر ہیں ۔۔وجدان نے گردن سے آگے آنے کا اشارہ کیا ۔۔ دونوں کی گواہی لی گئی جو ماروی کے حق میں دی ۔دونوں نے بتایا کہ نیهايت شریف باپردہ بچی ۔۔ بالغ ہونے کے بعد آج تک ہم نے چہرہ نہیں دیکھا اسکا ۔۔۔دادی سخت مزاج ہے ۔۔۔ظلم کے قصے سن رکھے ہیں ہم نے عورتوں سے ۔۔ان کی گواہی کے بعد وجدان نے صرف ایک نظر رب نواز کو دیکھا ۔۔۔۔ رب نواز سمجھ گیا تھا کہ اسکا جھوٹ بے نقاب ہو گیا ہے ۔۔وجدان کے پیروں میں گر گیا ۔۔۔۔رحم سائیں ۔۔۔ دولت کے لالچ میں میں اندھا ہوگیا تھا مجھے زمین لینی تھی یہی راستہ نظرآیا ۔۔آپ ماروی سے پوچھ لیں کبھی سختی نہیں کی کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا اس پر بہت پیار سے رکھا یہبس عورتوں کی باتوں میں آگیا ۔۔ظلم کر بیٹھا ۔۔۔معافی دے دو سائیں ۔۔۔ وہ اب وجدان کے پیروں میں گرا '۔ ۔۔ سائیں زمین کا لالچ آگیا تھا سائیں ۔۔۔۔ شرم کر۔ ۔۔شرم تیرے بھائی کی آخری نشانی تھی تو کیا کرنے چلا تھا ۔ہاتھ نہیں کانپے ۔۔ضمیر نہیں جاگا ۔۔اپنی بیٹی کی شکل نظر نہیں آیی ۔تف ہے تم پر وجدان اپنی اجرک کو جھٹکا دے کر ہاتھ باندھے کھڑا ہوا ۔۔یہ سردار کا اعلان ہوتا ہے کہ اب وہ فیصلہ دے گا ۔ "یہ رسمیں ہمارے دین کا حصہ نہیں ہیں! یہ جہالت ہے، ظلم ہے، اور جو ظلم کرے گا، وہ حساب دے گا۔ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں، آج کے بعد اگر کسی نے ایسی حرکت کی، تو وہ میرے انصاف سے نہیں بچ سکے گا۔ تم سب جانتے ہو کہ سردار وجدان کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا، لیکن ظلم کرنے والے کے لئے کوئی رعایت نہیں ہوگی!"۔ وجدان نے گہری سانس لی "قرآن پاک ہمارے لیے روشنی ہے، اندھیرا نہیں۔ اگر تم لوگ واقعی اس کتاب کو مانتے ہو، تو اس کے احکامات کو سمجھو اور ان پر عمل کرو۔ اپنے گاؤں کو جہالت سے نکالو، اپنی بیٹیوں کو عزت دو، اور ان کے خوابوں کو ان کے حق کے ساتھ جینے دو۔"۔ اس کی باتیں سن کر گاؤں کے لوگ ہل گئے۔ خواتین کے چہروں پر خوشی کے آنسو تھے، اور مردوں کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ ہر کسی کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا۔ عورتیں بلند آواز بولیں ۔۔ سردار غلام وجدان سائیں کی خیر ہو ۔۔۔ وجدان نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش کروایا ۔۔۔۔میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی ۔۔۔ گاؤں میں آج کے بعد نہ کوئی بچی ونی ہوگی نہ کاری اور نہ ہی قرآن ے پاک کی بے حرمتی ہو گی ۔۔جو اس عمل میں ملوث پایا گیا اسکی جنگ سردار سے ہوگی ۔۔۔۔ رب نواز تم ماروی کی زمین سے آیا ہوا ایک پیسہ بھی اب سے نہیں لو گے ۔جو بھی پیسہ ہے وہ صرف اسکا ذاتی خرچ ہے ۔۔ماروی کا تمہارے گھر پر رہنا ہرگز ٹھیک نہیں تم اور تمہاری ماں کوئی انتقام نہ لے اس لیے اسکی ذمداری میری ہے ۔ وجدان نے آخر میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔ "یہ گاؤں میرا خاندان ہے، اور میں اپنے خاندان کے ساتھ کبھی ظلم برداشت نہیں کروں گا۔ آج سے ماروی میری حفاظت میں ہے، اور میں اس کی زندگی برباد کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دوں گا۔"۔ سردار سائیں گستاخی معاف مگر آپ جوان اور کنواری لڑکی کی حفاظت بغیر کسی رشتے کے نہیں کر سکتے ۔یہ گاؤں کےاصولوں کے خلاف ہے ۔۔وجدان کے والد گاؤں کے سابقہ سردار اپنی جگہ سے کھڑ ے ہوئے اور بیٹے کو فیصلہ لینے سے روکا ۔۔ وجدان نے خاموشی سے پہلے باپ کو دیکھا پھر دادا سائیں کی طرف دیکھا ۔۔۔ مجھے سردار سائیں کے فیصلے سے کوئی اعتراض تو نہیں مگر بچی کا نکاح آج ہی کر کے اسکے شوہر کے حوالے کر دیا جائے تو بات زیادہ مناسب ہے ۔۔۔دادا سائیں نے اپنا فیصلہ سامنے رکھا ۔۔۔ وجدان کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی ۔۔ماروی کو یا تو آج کھونا تھا یا پھر پانا ۔۔۔۔ مگر فیصلہ بھی انصاف والا لینا تھا کہ گاؤں والے اعتراض نہ کریں اور ماروی کا کردار پاک صاف رہے ۔۔۔ انسانیت کی خاطر میں کیوں نہیں اسکی حفاظت لے سکتا ۔میرے فیصلے پر اعتراض کیوں ۔۔؟؟؟اپنے دادا کو دوبارہ مخاطب کیا ۔۔ سردار سائیں آپ کے فیصلے سے کسی کی اعتراض نہیں مگر حفاظت کے لیے آپ کو بچی کو کہیں تو رکھنا پڑے گا ۔حویلی میں غیر عورت اور مرد دونوں نہیں رہ سکتے نہ آپ اسے گاؤں کی اوتاق میں رکھ سکتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اسکی حفاظت لیے لیں ۔دادا سائیں نے بہت پیار سے اپنے پھبرے سردار کو سمجھایا ۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے وہ حویلی میں غیر بن کر نہیں مگر سردارنی بن کر تو جا سکتی ہے ۔۔۔وجدان نے سوچ سمجھ کر فیصلہ سنایا ۔۔۔ وجدان سائیں یہ آپ کیا بول رہے ہیں ۔۔۔آپ جانتے ہیں آپ کیا کر رہے ہیں ۔۔!؟؟؟۔ وجدان کے والد کی آنکھیں کھلی رہ گئیں اپنے اس بیٹے کے فیصلے پر ۔۔۔۔ کیوں میرے فیصلے سے انکار کوئی کر سکتا ہے ۔وجدان بھی پھر سے گرج اٹھا ۔۔اس نے اپنی مونچھوں کو ہلکا سا تاؤ دیا ۔۔۔ ہرگز نہیں مگر سردار ایسے فیصلے کرتے نہیں ۔سردارنی تو اپنی برادری سے ہوتی ہے آپ کی نسل چلنی ہے آپ کسی کو بھی اٹھا کر کیسے فیصلہ لے سکتے ہیں ۔۔۔وجدان کے باپ کو اب وجدان کے فیصلے پر شدید غصہ تھا ۔۔۔ کیوں غریب لڑکی سردار کی بیوی کیوں نہیں بن سکتی کیا وہ انسان نہیں ہے ۔۔۔یہ نسل اور فرقہ تو ہم انسانوں نے بناے ہیں ۔۔اللّه نے ایک جیسا بنایا ہے سب کو ۔۔۔ کیا آپ لوگوں میں سے کوئی اعتراض کرتا ہے میرے فیصلے کی ۔۔؟؟؟؟ وجدان نے جرگہ کے سب بڑے ممبران سے پوچھا ۔۔۔۔ جو سردار کا فیصلہ وہ ہمارا بھی فیصلہ ہے ۔۔۔ سب نے سردار وجدان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔۔۔ وجدان نے اپنے باپ کو محبت سے دیکھا ۔۔۔پھر کاندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ میں اپنے نکاح میں گاؤں کی کسی ونی کو نہیں لے رہا بابا سائیں بلکہ اسی گاوں میں پلی بڑھی لڑکی ہے ۔۔اسی گاؤں کا خون ہے ۔۔۔ میں اپنی پوری رضامندی سے اسے نکاح میں لے رہا ہوں ۔۔۔اج کے بعد اسکی بھی اتنی عزت ہو گی جتنی گاؤں میں میری ۔۔۔کیا اب بھی آپ کو اعتراض ہے ۔۔۔ وجدان نے باپ کو اعتماد میں لیا ۔۔۔ ٹھیک ہے جو فیصلہ سردار کا ہے وہی میرا ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ وجدان کے اس فیصلے پر رضامندی دے دی مگر وہ جانتے تھے کہ حویلی میں کیا قیامت مچنے والی ہے ۔۔۔وجدان نے دادا سائیں کو آواز دی تاکہ وہ اس کے نکاح کا اعلان کر سکیں ۔۔۔ وہ پوتے کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوئے ۔۔۔۔ میں سائیں غلام فرید خان چانڈیو اپنے سردار سائیں غلام وجدان خان چانڈیو کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں جو کل شام چار بجے حویلی میں ہوگا ۔۔۔۔گاؤں کو سجایا جائے اور جشن کا احتامام کیا جائے ۔۔۔۔ اللّه پاک ھمارے سردار کو خوشیاں نصیب کرے ۔۔۔اور ہر بری نظر سے بچاے ۔۔۔ ھمارے سردار کا سایہ سلامت رکھے ۔۔۔آمین ۔ اعلان کے بعد ہوائی فائر کی بوچھاڑ ہوئی ۔۔۔ سردار کو مبارک باد کا سلسلا چل پڑا ۔۔۔ وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا جہاں اس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے ۔نکاح کل ہونا تھا اور وجدان کو بھی کل کی بہت سی تیاياں کرنی تھیں ۔۔۔مگر ایک ملاقات ماروی سے بھی کرنی تھی ۔۔اپنا فیصلہ اسے وہ خود سنانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ وہ جانتا تھا اسکی ماں ابھی بہت شور شرابا کرے گی ۔۔ مگر وہ اپنی فیصلے پر بہت مطمئن تھا ۔۔ماروی صرف اسکی محبت ہی نہیں بلکہ ایک معصوم اور زمانے کی تلخ حقیقت کو جھیلتا ایک سچا کردار تھا ۔وجدان نہیں جانتا تھا کہ ماروی اتنی دکھ بھری زندگی گزار رہی ہے ۔وہ اگر آج سردار نہ ہوتا تو اسکے چچا اور دادی کی گردن ضرور اتار دیتا ۔۔۔ 💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥 آیت نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل کو تھام رکھا تھا۔ اگریمنٹ کی شرائط ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہی تھیں، اور ہر شرط اس کے دل کو گویا ایک خنجر کی طرح چیر رہی تھی۔۔ آیت کو ابصار کی پسند کے مطابق لباس پہننا ہوگا، چاہے وہ رسمی ہو یا غیر رسمی۔ اگر ابصار کسی خاص ایونٹ میں آیت کو لے جانا چاہے، تو اسے اس کی پسند کے مطابق تیار ہونا ہوگا۔ آیت کسی بھی قریبی دوست یا رشتہ دار سے ملنے کے لیے ابصار سے پیشگی اجازت لے گی۔ اگر ابصار کو لگے کہ ملاقات غیر ضروری ہے، تو آیت کو منع کیا جا سکتا ہے۔ آیت کو سوشل میڈیا پر اپنی زندگی کے بارے میں کوئی پوسٹ یا تصویر شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ خاص طور پر نکاح یا ابصار کے ساتھ کسی بھی تعلق کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کرنا ہوگی۔ آیت کسی کو بھی اپنے اور ابصار کے درمیان ہونے والے معاہدے یا نکاح کے بارے میں بتانے کی مجاز نہیں ہوگی۔ اگر یہ شرط توڑی گئی تو اسے بھاری جرمانہ بھرنا ہوگا، اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آیت کو کام کے دوران کسی بھی مرد کولیگ کے ساتھ غیر ضروری بات چیت کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ ابصار کسی بھی وقت آیت کی کام کی جگہ پر اچانک آ سکتا ہے، اور وہ اس کی موجودگی پر اعتراض نہیں کر سکتی۔ آیت صرف ابصار کے بتائے ہوئے گھروں یا ہوٹلوں میں رہ سکتی ہے۔ اگر اسے کہیں اور ٹھہرنا ہو، تو ابصار کی اجازت لازمی ہوگی۔۔ ابصار جب بھی آیت کو بلائے گا، اسے جانا ہوگا۔ چاہے وہ فزیکل ہونے کے لیے ہو یا کسی اور بات کے لیے۔ ایک سال تک جاب چھوڑنے کی اجازت نہیں، اور اس دوران اگر کوئی بچہ پیدا ہوا تو ابصار اس کا دعویٰ نہیں کرے گا۔ میٹنگز اکثر رات میں ہوں گی، اور آیت کو ہر وقت دستیاب ہونا پڑے گا۔ قیس کی ماں پر کیس بھی آیت کرے گی ۔۔۔ آیت نے اگریمنٹ کے آخر میں تنخواہ کا حصہ پڑھا، اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ یہ رقم اس کی سوچ سے کئی گنا زیادہ تھی۔ لیکن یہ دولت کیا اس کے سکون اور عزت کا نعم البدل ہو سکتی تھی؟ ہر نئی شرط آیت کے دل پر ایک اور بوجھ ڈال رہی تھی۔ یہ اگریمنٹ نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اس کی ذات کو بھی ابصار کی قید میں دینے کے مترادف تھا۔ اس بندے کا دماغ خراب ہے ۔۔۔ روبی ابھی لنچ بریک سے واپس نہیں آی تھی ۔۔میں مجبور ضرور ہوں مگر میں کوئی پبلک پروپرٹی نہیں ۔۔خون ہی گندا ہے پہلے چھوٹا بھائی اور اب بڑا ۔۔۔۔نو ۔۔۔نیور ۔۔ میں ایک بھی شرط نہیں مانوں گی ۔۔۔ گھٹیا ،کمینہ منحوس انسان ۔۔۔۔۔ سمجھ کیا رکھا ہے مجھے پیسا ہے تو کچھ بھی کرواے گا ۔۔۔وہ بنا سوچے سمجھے آفس سے نکل آی تھی ۔۔آیت کو لگا کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئی ۔۔ مگر دو آنکھیں اسکا ہمیشہ پیچھا کرتی ہیں یہ بات آیت بھی جلد جان جانے والی تھی ۔۔۔۔۔ وہ ٹیکسی سے گھر آی ۔آئ فون اپنی سیٹ پر چھوڑ آی تھی ۔۔۔اسے نہ جاب کرنی تھی نہ ہی آئ فون چاہئے تھا ۔۔۔ وہ گھر واپس آی تو ، بل بجا بجا کر تھک گئی مگر گھر پے کوئی نہی تھا اسنے اپنی کیز سے دروازہ کھولا ایسا تو کبھی نہیں ہوا امی نے دروازہ نہ کھولا ہو ۔۔۔۔ وہ آواز دیتی ہے کمرہ كهنگالتی ہے مگر کوئی ہوتا تو کھولتا نہ ۔۔۔۔۔ اب آیت سچ میں پریشان ہوئی ۔۔۔ ابو امی دونوں غائب اللّه خیر ہو ۔۔ اپنا پرس کھولا موبائل نکالنے کے لیے تو یاد آیا وہ رو پھینک آآئ تھی ادھر ۔۔۔۔آیت نے اپنا سر پکڑ لیا ۔۔۔ اف میں اب کیا کروں ۔۔۔۔ اسکے بہن بھائی بھی گھر پر نہیں تھے اسکول سے ۔۔یہ سب کہاں چلے گئے ۔۔آیت کو لگا اسکا دل بند ہوجاے گا ۔۔۔۔ آیت ابھی انچا انچا رورہی تھی تو ڈور بل بجی وہ پاگلوں کی طرح دروازے کی طرف بھاگی ۔۔۔ اسنے دروازہ کھولا تو سامنے ابصار کا ڈرائیور کھڑا تھا ۔ اس نے موبائل آیت کے ہاتھ میں دیا آپ کا موبائل سر کال پر ہیں ۔۔۔ ڈرائیور نے بہت ادب سے سر جھکا کر کہا ۔ بھاڑ میں جاے تمہارا سر منہ پر مار دینا اپنے سر کے ۔۔۔وہ موبائل فون کو زور سے پھینکنے والی تھی کہ ڈرائیور بولا نو ۔۔۔نو میم آپ کے پیرنٹس ۔۔۔۔۔ آیت کا ہاتھ ہوا میں ہی رہ گیا پیرنٹس کا سن کر اسکا سانس رکا ۔۔۔۔ کہاں ہیں؟ ؟؟؟کیا ہوا ہے انہیں بتاؤ ۔۔۔۔آیت اس پر برس پڑی ۔۔۔ میم سر آپ کو وہی بتانا چاھتے ہیں ۔۔۔آپ پلیز بات کریں ۔۔۔ڈرائیور کی نظر اب بھی جھکی ہوئی تھی ۔۔۔ آیت نے ایک ہچکی بھری اور فون پکڑا ۔۔۔۔ کیا کیا ہے میرے پیرنٹس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ وہ چلا اٹھی مگر مقابل کی سرد آواز سے وہ حواس باختہ ہوئی ۔۔۔ دل تو بہت کچھ کرنے کا چاہ رہا ہے ان کے ساتھ ۔۔۔بتاؤ کیا کروں ؟؟؟؟؟ وہی سرد زہریلی آواز ۔۔۔۔ ابصار ۔۔۔پلیز انکو کچھ مت کریں خدا کے لیے ۔۔۔۔میں وہی کروں گی جو آپ کہیں گے ۔۔۔ میرے پیرنٹس کو پلیز چھوڑ دیں ۔۔۔۔ آیت خاموش ہوئی تو ابصار نے اسے پکارا ۔ ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھو اور جہاں لے جارہا ہے خاموشی سے چلی جاؤ ۔۔۔۔ تم سے حساب کتاب بعد میں لوں گا ۔۔۔۔فون بند ہوا تو آیت کو ہوش آیا ۔۔وہ گھر کو لاک کرتی گاڑی میں بیٹھ گئی دل اندر سے سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا ۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابصار اسکے ساتھ آخر یہ سب کیوں کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ 💥💥💥💥💥💥💥 نور کو ایک حوالات میں بند کر دیا گیا تھا۔ وہ ٹینشن میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی اور بار بار بڑبڑا رہی تھی:۔ تابش پولیس اسٹیشن کے دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے تو سیدھا نور کی طرف بڑھتا ہے، جو تھوڑا گھبرائی اور تھوڑا ناراض نظر آ رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے تابش کو دیکھا، فوراً بول پڑی۔ "میں نے کچھ غلط نہیں کیا، بس ایک کوڈ کھولا تھا، اور آپ کے یہ پولیس والے مجھے ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے میں کوئی بین الاقوامی مجرم ہوں۔"۔نور نے ناک چڑہا کر کہا ۔ تمہیں اندازہ ہے کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے؟ تمہارے جیسے شوقین لوگ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں!"۔ تابش نے گہری سانس لیتے ہوئے سپاہی سے بات کی اور کچھ قانونی کاغذات پر دستخط کیے۔۔ "نور، تمہاری معصومیت دیکھ کر تو میں حیران ہوں۔ تمہیں اندازہ ہے کہ وہ کوڈ کیا تھا؟ اس کوڈ کی وجہ سے بینک لوٹنے کی پلاننگ ہوئی۔"۔۔۔ تابش نے اسے غصے بھری نظروں سے دیکھا۔ "تو اس میں میری کیا غلطی ہے؟ میں نے چور تو نہیں بنایا ان کو۔انہوں نے کہا تھا کہ صرف ایک کوڈ چاہیے، اور میں نے ہیلپ کر دی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ بینک لوٹنے کا پلان بنا رہے ہیں!"۔ "۔نور نے کاندھے اچکاے ۔۔۔ تمہارے جیسے لوگ جیل کی ہوا کھانے کے لیے ہی بنے ہیں!"۔۔۔ اگر میں نہ آتا، تو تم پر کیا کیس بنتا؟ تمہاری زندگی تباہ ہو سکتی تھی!"۔ "تمہارے جیسے لوگوں کے لیے ہیکنگ مذاق ہے، مگر پولیس کے لیے یہ جرم ہے۔ اور تم نے سوچا بھی نہیں کہ اس کا کیا انجام ہو سکتا ہے!"۔ "میں نے صرف کوڈ کھولا تھا۔ نور نے اب بھی اپنی غلطی نہ مانی ۔ "ہاں، اور وہ کوڈ کھول کر تم نے ان چوروں کی دنیا ہی کھول دی! واہ، کیا کمال کیا ہے!"۔ تابش نے طنز کیا ۔۔۔ اسی وقت پولیس افسر قریب آیا اور تابش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ پولیس افسر: "تابش صاحب، کاغذی کارروائی مکمل ہو گئی ہے، آپ اسے لے جا سکتے ہیں، مگر اسے سمجھائیں کہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے۔"۔۔ تابش نے سر ہلاتے ہوئے نور کی طرف دیکھا۔ نور منہ بنا کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ، مگر دل ہی دل میں وہ تابش کی شکر گزار بھی تھی ۔۔ "تمہیں نکال تو رہا ہوں، لیکن یہ آخری موقع ہے۔ اگر دوبارہ کوئی ایسی حرکت کی، تو نہ میں تمہیں بچاؤں گا، نہ کوئی اور!"۔ نور نے سر ہلا دیا اور تابش کے پیچھے چل پڑی، دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے کہ آئندہ ایسی مصیبت میں نہ پھنسے۔ https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1142 💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥 جاری ہے ۔۔
👍 ❤️ 7

Comments