سبق آموز واقعات وحکایات
February 16, 2025 at 07:24 AM
ناول میرا نام ہے محبت ۔
قسط نمبر 10۔
تحریر سنیہ شیخ ۔
پورے گاؤں میں جشن کا سماں تھا ،پورے گاؤں کو سجایا جا رہا تھا ،جہاں بہت سے لوگ خوش تھے وہاں بہت سے لوگوں کے دل ٹوٹے ۔کتنے ہی لوگ آس پر تھے کہ سردار کے لیے ان کے خاندان میں سے لڑکیاں دیکھی جایئں مگر سب کچھ الٹ ہوا ۔۔۔۔
کتنی لڑکیوں کے دل ٹوٹے ۔۔۔ماروی سے گاؤں کی لڑکیوں کو حسد اور جلن ہورہا تھا ۔۔۔
سردار وجدان کو لمحوں میں چھین کر لے گئی ۔۔۔۔
حویلی کا ماحول خاصہ گرم تھا ۔۔۔اماں سائیں اور وجدان کے والد غلام فیضان جتوئی بھی اس شادی سے خوش نہ تھے ۔
حویلی کی دیواروں پر وجدان کی شادی کے چرچے تھے، لیکن اندرونی طور پر ایک طوفان برپا تھا۔ سردار وجدان کا ، ماروی، سے شادی کرنے کا فیصلہ اس کے والد فیضان جتوئی اور بتول سائیں کے لیے ناقابل قبول تھا۔
بتول سائیں اپنی شان و شوکت اور سرداری کے اصولوں کی علمبردار تھیں۔ وہ وجدان کے فیصلے کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔۔
ان دونوں کو بریک تب لگے جب سردار وجدان کا آنے کا اعلان ہوا عورتوں نے سر جھکا لیے ۔۔۔وہ شاہانہ چال چلتا ہوا لائٹ براؤن کلر کی شلوار کمیز میں کالی اجرک
لیے وہ بے پناہ وجاحت لیے اپنی شان و شوکت کے ساتھ حویلی میں موجود تھا ۔۔
آمنہ نے بھاگ کر بھائی کا استقبال کیافرحان بھی نہ رہ سکا اسے اپنے بھائی کی شادی بہت خوشی تھی ۔۔۔
وجدان میرے بھائی مجھے بےحد خوشی ہے ،میرا بھائی آخر کو دولہا بننے جا رہا ہے ۔۔۔فرحان نے بہت محبت سے وجدان کا ماتھا چوما ۔۔۔۔
خیر مبارک ادا ،آج گھر نظر آرہے ہو ۔۔۔۔
وجدان کو فرحان زیادہ زمینوں پر ہی ملتا تھا ،وہ گھر آتا ہی نہیں تھا ۔.
وہ حیرت سے پوچھ بیٹھا ۔۔۔
۔۔وجدان کو اپنے بھائی کے لیے بہت درد محسوس ہوتا تھا ،اماں سائیں اسکی زندگی برباد کر چکی تھیں ۔۔اسکا وہ بھائی جو شوخ اور چنچل ہوا کرتا تھا کبھی اسکی آنکھوں میں ویرانی اور وحشت تھی اب ۔۔۔
ہاں تمہاری شادی کی اتنی خوشی ہے مجھے کہ میں ڈورا چلا آیا ۔۔۔جیتا رہ میرا شیر ۔۔۔ تو نے دکھا دیا سردار کو کیسا ہونا چاہئے ۔۔۔۔
دنیا کی ہر خوشی میرے بھائی کو ملے ۔۔فرحان کا لہجہ بھیگ گیا تھا ۔۔۔جسے وجدان نے محسوس کرتے ہوئے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر دباے ۔۔۔۔
ادا خود کے ساتھ ظلم مت کرو ۔۔۔اپنا خیال رکھو حالت دیکھو اپنی کیوں وزن گر رہا ہے اتنا ۔۔میں خود شہر چلتا ہوں ہم اچھے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں ۔۔۔وجدان کو اپنے ادا کو لے کر تشوش تھی ۔۔۔۔
ارے تو اتنی خوشی کے موقے پر کیا میری باتیں لے بیٹھا ہے ۔۔ چھوڑ سب بس کل کی تیاری کر ۔۔۔۔آجا ۔فرحان اسکی بات کو اگنور کرتا ہوا اسے کھینچ کر اندر لایا ۔۔۔
آمنہ بھی بھائی کے گلے لگی ۔۔۔ادا بہت بہت مبارک جلدی سے شادی کی شوپنگ کے پیسے نکالیں ۔۔وقت بہت کم ہےدلہن کے کپڑے لینے ہیں ۔۔آمنہ جو بھائی کے گلے لگی اس سے باتیں کر رہی تھی بتول بیگم جو اندر ہی کڑھ رہی تھیں ان کی بس ہوئی ۔۔۔
بس بہت ہوا ۔۔۔مجھے یہ فیصلہ منظور نہیں یہ شادی کسی صورت نہیں ہوگی ۔میں اپنے
چوبس سالہ سردار کے لیے ایک انیس سال کی لڑکی کو سردارنی کے روپ میں برداشت نہیں کروں گی ۔۔۔۔
انکی بات پر سب نے انکی طرف مڑ کر دیکھا مگر وجدان نے بہت پیار سے اپنی بہن کو دیکھا ۔۔میں لے کر جارہا ہوں آپ کو شہر کے بازار ساری رات کھلے رهتے ہیں ،۔بھرجائی سے پوچھو اگر کسی کو ساتھ چلنا ہے ۔۔۔۔
وہ اپنی اماں سائیں کی بات کو اگنور کرتا ہوا آمنہ سے مخاطب تھا ۔۔۔۔
ہم آپ سے بات کر رہے ہیں وجدان ،آپ کی ماں مخاطب ہے آپ سے ۔۔کیا آپ کے لیے اتنی غیر اہم ہوگئی آپ کی ماں کہ آپ نے مجھ سے پوچھنا تک گوارا نہ کیا ۔۔۔وہ اپنا ماں کارڈ کھیلنا شوروع ہو چکی تھیں ۔۔جیسے فرحان کو قابو کیا تھا اب وجدان کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی تھیں مگر وہ یہ بھول بیٹھی تھیں کہ وجدان سردار ہے ۔۔۔وہ اپر سے جتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے اندر سے اتنا ہی آتش فشاں ۔۔۔
اماں سائیں آپ پر میری جان قربان مگر آپ ایک سردار کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر کے سردار کی توہین کر رہی ہیں اور سردار اپنی توہین برداشت نہیں کرتے ۔۔۔آپ ماں ہیں میں نے اس لیے کچھ نہیں کہا مگر یہ بات دوبارہ نہیں ہونی چاھئیے ۔۔۔۔
فرحان کی دونوں بیویوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔اپنی ساس کی سبکی دونوں کو سکون دے رہی تھی ۔۔
وجدان آپ اپنی ماں سے ایسے بات نہیں کر سکتے ۔۔بتول بیگم کو کہاں قبول تھا اپنا لاڈلا بیٹا انکے ہاتھ سے نکلے ۔۔۔۔
اور آپ ایک سردار کے فیصلے کو غلط کیسے بول سکتی ہیں ۔۔۔کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ایک سردار کے فرض کے آگے نہ کوئی ماں نہ کوئی باپ ۔۔۔۔
آپ ادا کی طرح مجھے مجبور نہیں کر سکتیں ۔۔میرا فیصلہ اٹل ہے یہ ایک سردار کا فیصلہ ہے ۔۔۔ ۔
آپ سب گھر والے سن لیں کان کھول کر ۔۔
میں نے جو فیصلہ لے لیا ہے ہر صورت وہی ہوگا ۔۔۔کل نکاح اور پرسوں میری بیوی سردارنی بنے گی ہر صورت ۔۔۔جس نے میرے فیصلے سے اختلاف کیا میں اسے اپنے خلاف کھڑا سمجھوں گا ۔۔۔میری بیوی اس گھر میں سردارنی کی طرح ہی آے گی ۔۔۔۔
یہ میرا حکم ہے ۔۔۔۔وجدان کی آواز پوری حویلی میں گونج رہی تھی ۔۔۔
تو پھر ٹھیک ہے ایک ماں ہونے کے ناتے میں اتنا تو حق رکھتی ہوں کہ احتجاج کر سکوں ۔۔۔نکاح کرنا ہے کرلو مگر سردارنی ۔۔۔ایک یتیم ایک چھوٹی جگہ سے چھوٹی سوچ رکھنے والی کیسے آپ کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔آپ اپنا رتبہ دیکھیں اور اس لڑکی کی ذات ۔۔۔بہت مسلے مسائل ہیں۔۔۔۔اب کی بار وہ تھوڑا نرم لہجے میں بات کر رہیں تھیں ۔۔۔۔
گاؤں کا نظام سردار چلاتا ہے اور اتنی بھی گئی گزری نہیں میٹرک کیا ہے ۔۔۔آمنہ کے ساتھ وہ آگے بھی پڑھے گی ۔۔
سردار کو ونی میں آی ہر کمی کمین اور انپڑھ لڑکی جائز ہے مگر سردارنی خود سردار کیوں پسند نہیں کر سکتا ۔۔۔اپنی سوچ بدلیں ۔۔۔۔اب ونی میں کوئی لڑکی حویلی نہیں آے گی ۔۔۔ لڑکیاں جانور نہیں ہوتیں ۔۔آپ کو قبول کرنا پڑے گا ۔۔۔اور
۔۔اب بس ۔۔۔اس بارے میں نہ کوئی بحث نہ کوئی ضد ۔۔۔اس گھر میں میرے اصولوں پر چلنا ہوگا ۔۔۔۔
اس گھر میں جو آپ اپنی بہو کے ساتھ انصاف کر رہی ہیں مجھے خبر ہے ۔۔
ادا کی زندگی آپ نے جیسے برباد کی میرے ساتھ وہ کھیل کهیلنے کا آپ سوچیں بھی مت ۔۔۔۔کل میرے نکاح کے ساتھ ہی اعلان ہوگا نئی سردارنی کا ۔۔وہ رسم دادی سائیں کریں گی وہ بڑی ہیں ۔۔۔
۔آپ کو اس گھر کی بھاگ دوڑ سے اب رہائی ہے ۔۔۔اس گھر کے فیصلے اب سے سردارنی کریں گی ۔۔۔۔جس کو اعتراض ہے یا میرے فیصلے سے اختلاف وہ دوسری حویلی میں جا سکتا ہے ۔۔۔۔وہ اپنی بات کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔بتول سائیں اپنی اتنی بے عزتی پر تلملا اٹھیں ۔۔۔
بہو ۔۔برا نہ ماننا ویسے پڑھی لکھی تو تم بھی نہیں تھیں ۔وہ تو پھر بھی میٹرک پاس ہے ۔۔ اپنا منہ سیدھا کرو مجھے میرے وجدان کی شادی پر کوئی بد مزگی نہیں چاہئے ۔۔۔اور حویلی چابیاں نکالو انہیں تھال میں سجاو ۔۔ساتھ ھمارے خاندانی كنگن جن پر صرف اور صرف سردار کی بیوی کا حق ہوتا ہے آخری بات بہت جتا کر کی گئی ۔۔۔۔
دادی سائیں جو بے حد خوش تھیں اپنے پوتے کی سوچ پر اور اسکے فیصلوں پر ۔۔۔۔
خاموش نہ رہ سکیں ۔۔اتنے برس بعد تو بتول بیگم سے اس حویلی کو رہائی ملنے والی تھی ۔۔۔۔صرف دادی سائیں نہیں بلکہ حویلی کے سب ملازم اپنے سردار کی شادی پر خوش تھے ۔۔۔
حویلی کو دلہن کی طرح سجاو بہو ہر ،۔۔وجدان کے کمرے کو اچھی طرح صاف کرواؤ ۔۔۔پھولوں سے سجاو اور یہ کام آپ کا ہے بتول سائیں ۔۔۔۔بتول بیگم دادی سائیں کی باتوں پر پیر پٹختے ہوئے اپر چلی گئیں ۔۔۔۔۔
دادی سائیں نے جب سب ملازموں کو کل کے لیے ہدایات دے دیں تو عائشہ فرحان کی پہلی بیوی انکے پاس آی ۔۔دادی سائیں کیا میں بھی آمنہ کے ساتھ چلی جاؤں شہر ۔۔۔
وہ اجازت مانگ رہی تھی ۔۔
دادی سائیں نے مسکرا کر دیکھا ،۔۔دھی رانی آپ کو میری نہیں اپنے شوہر کی اجازت درکار ہے ۔۔فرحان سائیں آج بہت دن بعد آے ہیں گھر آپ کو وہاں ہونا چاہئے ۔۔وہ پیار سے عائشہ کو سمجھا رہی تھیں جو حویلی سے فرار ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔۔
سائیں کے پاس انکی دوسری بیوی ہے انکو میری ضرورت بلکل بھی نہیں ہے دادی سائیں ۔۔عائشہ نے بہت ضبط سے جواب دیا ۔۔۔
دھی ،خود کے ساتھ ظلم مت کرو کیوں اپنی جگہ چھوڑ رہی ہو ،فرحان پر ترس کھاؤ اور خود پر بھی ۔۔دونوں حالت دیکھو اپنی ایکدوسرے کے غم میں تباہ ہو رہے ہو ۔۔۔کب تک اجنبی بن کر رہو گے ۔۔۔معاف کردو بیٹا اسے ۔۔۔وہ تکلیف میں ہے ۔۔۔۔دادی سائیں عائشہ کو سمجھا رہی تھیں مگر وہ جواب جانتی تھیں ۔۔۔
دادی سائیں کبھی شیشہ دوبارہ جڑتا دیکھا ہے ۔۔؟؟؟؟لاکھ جوڑ لو مگر ٹوٹ جائے تو اسکے کانچ صرف جسم کو اذیت دیتے ہیں وہ جڑ نہیں سکتے آپس میں ویسے ہی فرحان سائیں نے میرا دل میرا مان میرا غرور توڑا ہے ۔۔۔جس کی بھرپائی وہ نہیں کر سکتے ۔۔۔بے وفائی کی کوئی معافی نہیں دادی سائیں ۔۔۔عائشہ نے اپنا وہی جواب دادی کو دیا جو وہ روز دیتی تھی ۔۔۔
تو پھر آپ نے ہار مان لی خود اپنے شوہر کو سوتن کی جھولی میں مت ڈالو مرد ہے پلٹ کر نہ آیا تو کیا کرو گی ۔۔دادی سائیں نے اسے رسانیت سے سمجھانا چاہا ۔۔۔
سائیں میرے ہوتے تو کبھی چھوڑ کر نہ جاتے کبھی بےوفای نہ کرتے ۔کبھی دوسری شادی نہ کرتے ۔۔۔ ۔۔۔اب میرا دل بھی خالی ہے انکو دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔عائشہ نے اپنے آنسو صاف کئے جو لاکھ کوشش کے باوجود بھی آنکھوں سے برس پڑے ۔۔۔۔
میری بچی ،۔۔۔ یہ دکھ میں سمجھ سکتی ہوں مگر فرحان نے اب تک بیوی کا حق عروج کو بھی نہیں دیا ہے ۔۔۔وہ بھی خالی ہاتھ ہے بیٹا ۔۔فرحان تو دیکھتا بھی نہیں اسکی طرف ۔۔۔۔دیکھو آج بھی وہ آپ کے کمرے میں گیا ہے ۔۔۔۔اور آپ بھاگنا چاہتی ہیں ۔۔۔بس کردو ۔۔۔اتنی سزا بہت ہے اس کے لیے ۔۔۔
اپنے پوتے کی تکلیف میں وہ تڑپ رہی تھیں۔ تھیں۔ ۔۔
سائیں کے تعلقات اپنی دوسری بیوی کے ساتھ کیسے ہیں اور کیسے نہیں یہ میرا مسلہ نہیں انکا ذاتی مسلہ ہے بیوی کا حق کیوں نہیں دیا اسے ۔۔۔جب اپنا نام دے دیا حویلی میں لے آے تو مرد کے لیے کیا مشکل ہے کسی عورت کے ساتھ سونا ۔۔۔ کیا میں جاؤں دادی سائیں وہ مزید اس بارے میں بات کرنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
ٹھیک ہے میں آج کے بعد تم سے اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی ۔۔۔۔مگر تمہارا شوہر چیخ چیخ کر یہی کہتا ہے کہ تم اسکی بیوی ہو بس ۔وہ عروج اور بتول کا سچ سامنے لے آے گا ۔۔۔تم اسکی بات تو سن لو جانے کتنے امتحان سے گزرا ہے وہ جانے وہ کیا تھا جو فرحان سے یہ فیصلہ کروا گیا ۔بیٹا عروج اور بتول بہت شاطر عورتیں
ہیں تم فرحان سے دور ہوکر اسے موقع دے رہی ہو کہ وہ تم دونوں کے بیچ آجاے ۔۔۔۔
وہ عائشہ کو ہر ممکن سمجھا رہی تھیں کہ اپنی جگہ نہ چھوڑے ۔۔
بیچ میں نہ آجاے ؟؟؟؟ دادی وہ تو کب کی آگئی ہے ۔۔اسکے نام کے آگے میرے سائیں کا نام ہے ۔وہ لے چکی ہے میرا شوہر مجھ سے ۔۔۔
عائشہ آنسوں کو ضبط کر رہی تھی دادی کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔۔
جو بھی کہو ۔دل پر ہاتھ رکھ کر کہو ۔کیا تم کو فرحان کی آنکھوں میں بےوفائی نظر آی ۔۔اسکا کمزور جسم ویران آنکھیں کیا یہ سب چیخ چیخ کر نہیں اسکے دل کا حال بتا رہی ۔۔۔عروج کا حال دیکھ لو ۔۔اس حویلی کا نوکر بھی اس سے زیادہ قابل ے احترام ہیں ۔۔فرحان سب پر باور کروا چکا ہے کہ بتول نے دھوکہ کر کے اس سے سائن کرواے ہیں ۔۔عروج بیوی نہیں ہے ۔۔انکی بات عائشہ نے بیچ میں روک دی ۔۔
بس کریں ۔۔اتنی سائیڈ مت لیں اپنے پوتے کی ۔وہ کوئی دودھ پیتا بچا تھا کہ اماں سائیں نے زبردستی کی ۔۔
اس نکاح کی کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی ۔۔۔مجھے نہ اماں سائیں سے کچھ لینا نہ عروج سے ۔میرا تو ہر سوال سائیں سے ہے ۔نکاح سے پہلے مجھے کیوں کچھ نہیں بتایا ؟؟۔جو بھی بات تھی جو بھی پریشانی تھی مجھے تو بتاتے ۔۔اب ۔۔اب میں کیا سنوں انکی ۔۔؟؟لے تو آے نہ اسے اس حویلی میں آج نہیں تو کل سب کو اس پر ترس آنے لگے گا ۔۔آج آپ مجھے فرحان سائیں کو سمجھانے کا بول رہی ہیں کل عروج کو قبول کرنے کے لیے بھی بولیں گی ۔۔۔
ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔اور یہی ہوگا ۔۔۔اپنی بات کے اختتام پر وہ اپنے آنسو صاف کرتی جانے کے لیے ۔
عائشہ مڑی، تو وہ اچانک ٹھٹک گئی۔
فرحان پیچھے کھڑا اسکی ساری باتیں سن رہا تھا۔۔
"اتنی بے یقینی، عائشہ؟" اس کی آواز میں حیرت تھی، دکھ تھا۔ "اتنا بڑا الزام میری محبت پر؟"۔
"دوسری شادی کرنے والے وفا کی باتیں کرتے اچھے نہیں لگتے، سائیں۔ حقیقت یہی ہے کہ آپ کی دو بیویاں ہیں۔"۔
وہ رخ موڑے اس کا چہرہ دیکھنے سے گریز کر رہی تھی ۔
فرحان کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔ "خبردار، عائشہ! میری ایک ہی بیوی ہے، اور وہ صرف تم ہو!"۔
عائشہ نے نفرت سے کہا، "تو پھر وہ عورت کون ہے، جو آپ کی زندگی میں ہے؟
فرحان نے ایک گہری سانس لی، جیسے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ "میں جانتا ہوں، تمہارا دل دکھا ہے، مگر میں بھی قیامت سے گزرا ہوں، عائشہ۔ بہت جلد سارا سچ تمہارے سامنے ہوگا، مگر تب تک، خدا کے لیے، مجھ سے بدگمان مت ہو۔"۔
میرے بس میں ہو تو چھ کی چھ گولیاں اس عورت کے سینے میں اتار دوں مگر میں چاہتا ہوں میرا بدلہ تم لو ۔۔اپنے شوہر کا بدلہ تم خود اپنے ہاتھوں سے لو۔۔
فرحان نے بے بسی سے عائشہ کو دیکھا، مگر وہ جا چکی تھی—اپنے دل کے زخموں کے ساتھ، اپنے آنسوؤں کے ساتھ، اور اس بدگمانی کے ساتھ جو شاید سچ سامنے آنے کے بعد بھی نہ ختم ہو سکے۔
شاید اب ساری زندگی اسے اس الزام کے ساتھ جینا ہوگا ۔۔عائشہ ساری عمر یہ بات نہیں بھولے گی ۔۔۔ مگر وہ ساری عمر اسکے قدموں میں بیٹھے رہنے کو تیار تھا ۔۔۔۔بس اسے اسکی عائشہ چاہئے ۔۔بس اسکی عائشہ ۔۔
دادی سائیں نے سرد سانس لی اور عائشہ کو جاتا دیکھ وہ اپنی نظریں آسمان پر کرتی اللّه سے التجا کر رہی تھیں کہ میری عائشہ اور فرحان پھر ایک ہو جایئں ۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
آمنہ تم بھابھی کے ساتھ تھوڑی گپ شپ لگاؤ میں ایک منٹ میں آیا ۔۔۔۔۔ وجدان نے گاڑی کو روکا تو آمنہ حیران ہوئی ادا کیا ہوا یہ ایریا تو بلکل الگ ہے ہمیں یہاں سے نہیں جانا تھا ۔۔۔۔
گڑیا مجھے دوست سے ایک کام ہے بس میں پانچ منٹ میں آرہا ہوں ۔۔۔وجدان نے گاڑی کے فرنٹ مرر سے اپنے بال سیٹ کئے اور اپنے بلیک گلاسس لگاے ۔۔۔
پیچھے سے عائشہ چپ نہ رہ سکی ،شرارت سے بولی ۔۔۔ ادا خیر تو ہے یہ کون سا دوست ہے جو اتنا خاص ہے جس کے پاس ھمارے سردار سائیں خود چل کر جا رہے ہیں ۔۔۔۔
ورنہ ھمارے سردار تو حکم کرتے ہیں بندہ حاضر یہ کوئی خاص ہے کیا ؟؟؟؟؟
وجدان عائشہ کی شرارت سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔اسکے چہرے پر بڑی جان لیوا مسکراہٹ نے جگہ بنائی ۔۔۔۔
ہاہا ۔۔بھرجائی دوست بیمار ہے میرا میں عیادت کے لیے آیا ہوں ۔۔۔گارڈز پیچھے ہی ہیں ۔۔پریشانی کی بات نہیں ۔۔۔۔وجدان گاڑی سے نکلا تو پیچھے سے عائشہ اور آمنہ ایک آواز میں بولیں ادا اپنے دوست کو ہمارا سلام کہنا ۔۔۔۔وہ دونوں کھلکھلا کر ہنسی تو وجدان ہستا ہوا پاس آیا ۔۔۔۔
کل شادی میں آے گا تو خود ہی پوچھ لینا ۔۔۔۔اب کوئی شرارت نہیں ۔۔۔۔میں آرہا ہوں ۔۔۔۔
وہ دونوں ہنستی رہی اور اسکے لیے خوش ہورہی تھیں کہ ادا کو عشق کا روگ لگ گیا ہے ۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
سانوری تو جانتی بھی ہے تو نے کیا کر ڈالا ۔۔۔۔ساری زندگی کے لیے میرا سر جھک گیا ۔۔۔سردار سائیں مجھ پر ترس کھا رہے ہیں اور گاؤں والے طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔۔تو بتا میں نے تو آج تک کبھی کسی غیر محرم کے لیے سوچا بھی نہیں تو میں گاؤں والوں کو کیا جواب دوں گی ۔۔۔۔۔
ماروی تب سے رو رہی تھی جب سے اسے پتا چلا کہ سردار نے اسے نکاح کا فیصلہ کیا ۔۔۔
ارے جھلی ۔۔۔تو آم کھا گٹھلیاں نہ گن ۔۔۔۔۔
تو جب سردارنی بن جائے گی تو مجھے مت بھولنا۔۔۔جب سردار تجھے اپنی عزت بنا رہے ہیں تو تجھے کیا تکلیف ہے ۔۔۔۔الٹا سیدھا کچھ مت سوچ اب ادھر بیٹھ میں تجھے مہندی لگاؤں ۔۔۔۔سانواری کب سے ہاتھ میں مہندی کی کون لے کر بیٹھی تھی مگر ماروی کا رونا دھونا تھا کہ ختم ہی نہ ہورہا تھا ۔۔۔۔۔
مجھے نہیں لگوانی مہندی ۔۔مجھے تنگ مت کر۔۔۔اگر ۔۔۔۔اگر ان کے گھر والوں نے مجھے حویلی کی کسی بند کال کوٹھری میں بند کر دیا تو ؟؟؟؟تو بتاتی ہے نے کہ تو پڑھتی ہے وہ اپنی کتابوں میں ۔۔۔۔۔کیسے لڑکی کو مارتے ہیں پھر گھر کے کام کراتے ہیں۔۔۔اور ایک بیچاری پر تو اسکی ساس نے گرم پانی پھینک دیا تھا ۔۔وہ سب میرے ساتھ ۔۔۔۔اسکے الفاظ منہ ہی دم توڑ گئے جب سانوری نے اسے ایک دهپ لگائی ۔۔۔۔
جھلی ۔۔۔چرری۔۔۔۔۔وہ ناول ہوتے ہیں ۔۔کہانی ہوتی ہے ۔۔۔اتنا ظلم تو کوئی بھی لڑکی برداشت نہیں کر سکتی مر نہ جائیں لڑکیاں یہ تو صرف افسانے ہوتے ہیں جس میں اتنا ظلم اور ستم دکھاتے ہیں ۔سردار سائیں اتنی چاہت سے تمہیں لے کر جائیں گے کہ تم سارے غم بھول جاؤ گی تم دیکھنا لاؤ اپنا ہاتھ اگے کرو اور اب ایک بھی تم نے خراب بات کی نا تو تمہارے منہ پر دو تھپڑ لگا دوں گی ۔۔۔۔۔۔۔
سانور ی نے زبردستی ماروی کا ہاتھ کھینچ کر اپنی گود میں رکھا ۔۔۔جسے ماروی نے بڑی سرت سے دوبارہ کھینچ لیا ۔۔۔۔۔
تو جو مرضی کہہ لے جتنی مرضی سائیڈ لے لے سائیں کی لیکن تم دیکھنا سب مذاق اڑائیں گے اور بہت جلد سائیں کا دل بھی بھر جائے گا یہ صرف کہنے کی باتیں ہوتی ہیں کیا سائیں کا دل نہیں کرے گا کہ ان کی سردارنی پڑھی لکھی ہو عقلمند ہو ۔مجھ سے ان کو کیا حاصل ہوگا کچھ بھی نہیں ملے گا میں تو پڑھی لکھی بھی نہیں ہوں اور میں ان کے قابل بھی نہیں ہوں پتہ نہیں یہ فیصلہ انہوں نے کیوں کیا ہے اور بہت جلد وہ اپنے اس فیصلے پر پچھتائیں گے ۔۔۔جب گاؤں والے ان کے ساتھ مجھے دیکھ کر ہنسیں گے تو پھر خود ہی وہ پیچھے ہٹ جائیں گے ۔۔۔۔وہ اپنی روش میں جو دل میں ایا بولے جا رہی تھی مگر ساوری کے منہ کو بریک لگ گئی تھی کیونکہ اس نے وجدان سائیں کو دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔
کس کی اتنی جرات ہے کہ وہ سردارنی کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے ۔۔۔کجا مذاق اڑانا تو بہت دور کی بات ہے سردار تو وہ آنکھیں ہی نکال لے گا جو میری سردارنی کو غور سے دیکھیں گی ۔۔۔وجدان اپنے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے شاہانہ انداز میں کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔
سانوری بھی اپنی چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ماروی نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ ۔ماروی کی اس ادا پر وجدان مسکرا اٹھا ۔۔۔۔۔
جو میرا ہے وہی مجھ سے چھپا رہی ہیں آپ ۔۔۔۔وجدان نے دو قدم کا فاصلہ سمیٹا ۔۔۔۔
سانوری کو اشارہ کیا باہر جانے کا اور خود ماروی کے قریب کھڑا اسکی معصومیت کو نہار رہا تھا ۔۔۔۔
تو کیا کہا آپ نے کچھ دیر پہلے کس کی اتنی جرت آپ کو نگاہ اٹھا کر بھی دیکھے ۔۔۔۔اور یہ مہندی کیوں نہیں لگی اب تک آپ کے ہاتھوں میں میں تو اپنا نام دیکھنے آیا تھا مگر یہ ہاتھ تو ابھی رنگے ہی نہیں میری محبت سے ۔۔۔وجدان نے اس کے گورے گورے ہاتھوں پر نظر ڈالی ۔۔۔۔
ماروی نے اپنے ہاتھ بے اختیار ہی چھپا لیے ۔۔
آپ پلیز جایئں یہاں سے کوئی دیکھ لے گا تو تہمت لگا دیں گے ۔۔ماروی نے اپنا رخ موڑا ۔۔۔
میں آپ سے رنگ پوچھنے آیا تھا آپ کی پسند کا ڈریس بنوانا چاہتا ہوں اگر معلوم ہوجاے تو آسانی ہو جائے ۔۔۔وجدان نے اپنی دھڑکنیں سمبھالیں جو اپنی ماروی کو دیکھ کر بے قابو ہورہی تھیں ۔۔۔
آپ پلیز میری بات سنیں ۔۔۔۔۔ماروی آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔
اف اس طرح سے سنائیں گی تو بندہ بشر ہوں بہک جاؤں گا ۔۔۔وجدان نے ماروی سے بھی زیادہ نرم لہجے میں کہا ۔۔۔
سائیں میں آپ کے قابل نہیں ہوں یہ شادی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔
"یہ نکاح تو ضرور ہو گا ،آپ کو چھوڑا تو خدا گواہ ہے کہ اگلا سانس بھی نہ لے پاے گا آپ کا سائیں ۔"۔
آپ بےکار کی باتیں ذہن میں نہ لائیں ۔۔۔کل ہمارا نکاح ہے اسکی تیاری کریں ۔۔۔۔۔وجدان نے دو ٹوک فیصلہ سنایا ۔۔۔
ماروی تیزی سے مڑی آپ پاگل ہوگئے ہیں یہ گاؤں والے مجھے قبول نہیں کریں گے نہ ہی آپ کے گھر والے ۔۔۔۔
میں وہ ہاتھ توڑ دون گا جو میری ماروی کی طرف بڑھیں ،وہ زبان نوچ لوں گا جو آپ کی شان میں گستاخی کرے ،وہ آنکھیں نوچ لوں گا جو نظر بھر کر آپ کو دیکھ بھی لے ۔۔۔
میں کسی ریت رواج کو نہیں مانتا نہ مجھے کسی کی پرواہ ہے سردار اپنے اصول خود بناتا ہے جس کا وہ پابند ہوتا ہے ۔۔۔
جب آپ کو دیکھا تھا اسی وقت آپ کا اسیر ہوگیا تھا ۔۔آپ صرف میری ہیں میری ۔۔۔
اچھے بچوں کی طرح مہندی لگوا یں ۔۔
ماروی کو کچھ نہ سوجھا تو اسکا زور صرف رونے پر تھا ۔۔۔
کیا کروں میں آپ کا ماروی ۔۔؟؟؟
یہ رونا دھونا کیوں ؟؟؟؟کیوں اپنی خوبصورت آنکھوں پر ظلم کر رہی ہیں ۔۔ان آنکھوں میں میرا عکس ہونا چاہئے آنسو نہیں اور اگر آپ روتی رہیں گی تو ابھی اٹھا کر لے جاؤں گا ۔۔وجدان نے دھمکی دی ۔
نہیں نہیں یہ نہیں کریں گے آپ ماروی بہت بے اختیار ہو کر بولی وجدان کو اسکی معصومیت پر بے پناہ پیار آیا ۔۔۔۔
آپ ۔۔۔آپ اب جایئں ۔۔۔ماروی کو کچھ سمجھ نہ آیا تو جانے کا بول دیا ۔۔۔۔
میں جا رہا ہوں کل پورے حق سے انشاءﷲ اپنی سردارنی کو لے جاؤں گا ۔۔۔بس ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
اب سے آپ کے سارے غم سارے خواب میرے میں ہی آپ کے ہنسنے کی وجہ ۔۔۔
"آپ صرف کوشش کریں آپ کو اپنے سائیں سے محبت خود ہی ہو جائے گی "۔
بس ایک وعدہ کریں کہ میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گی ۔۔۔اپنے سائیں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گی ۔۔
یہ سارا گاؤں اس سردار پر مرتا ہے مگر یہ سردار آپ پر دل ہار بیٹھا ہے ۔
میں اس وقت کا بے صبری سے انتظار کروں گا جب میری ماروی میرے عشق میں فناہ ہو جاے گی ۔اور اس دن وجدان اور ماروی کی نئی کہانی امر ہوگی ۔۔۔پورا گاؤں آپ کو واجدان کی ماروی پکارے گا ۔۔۔
سانس لیں ماروی ۔۔وجدان ماروی کو سانس روکے کھڑا دیکھ کر پریشان ہوا ۔۔جو صرف اسکی باتوں سے ہی گھبرا کر اپنا سانس روکے بیٹھی تھی ۔۔۔
میں جارہا ہوں کل پورے حق سے ملوں گا ۔۔۔
پرسکون ہوجائیں ۔۔۔۔۔
سانوری ۔۔!!!۔ وجدان نے زور سے پکارا تو بھاگی بھاگی آیی جو دیوار کے پیچھے سے وجدان کی رومانٹک باتیں سن رہی تھی ماروی تو سکتے میں آ گئی تھی سانوری کا خود چہرہ گلابی ہوگیا تھا ۔۔۔
جی ۔۔۔۔جی سائیں حکم !!!!!!۔
اپنی دوست کو دیکھو کیا ہوا ہے ۔۔انکو کچھ کھلاؤ پلاؤ اس سے پہلے یہ بے ہوش ہوجائیں میں جارہا ہوں ۔۔۔۔ میری امانت کی حفاظت کرنا ۔۔۔وجدان اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا مگر نظر اب بھی حواس باختہ ماروی پر تھی جو ابھی صرف اس کے لفظی اظھار محبت پر سکتے میں آگئی تھی عملی محبت کرے گا تو مر ہی جاے گی ۔۔۔۔
سائیں آپ جایئں بے فکر ہوکر ۔۔آپ نے اس کی نمازیں اور عبادتیں ایک منٹ میں ضائع
کر دیں۔۔۔سانوری ہنستے ہوئے بولی تو وجدان
اسکی بات کو سمجھتیے ہوئے مسکرایا ۔۔جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی ماروی کے سر سے واری اور پھر
اللّه حافظ کرتے ہوئے نکل گیا تاکہ ماروی ریلکس ہو جائے ۔۔۔۔۔
اے ماروی !!!!۔۔۔۔چھوری تو مر تو نہیں گئی ۔۔۔سانوری نے ماروی کو وجدان کے جاتے ہی زور سے هیلايا تو ماروی نے اپنا منہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا،توبہ توبہ کیسا بے باک ہے یہ سردار ۔۔۔۔۔۔ماروی تو کانپ رہی تھی اور سانوری کا ہنس ہنس کر برا حال تھا ۔۔۔۔
اے پگلی یہ دل کا حال بتا کر گئے ہیں تجھے ۔۔۔ اس کو بے باکی نہیں کہتے ۔۔۔۔
تیرا کیا بنے گا چھوری ۔۔۔۔۔۔
اچھا تو بیٹھ جا میری ماں بیٹھ کر شرما لے مجھے مهندی لگانے دے۔۔۔۔تیرا تو اب اللّه ہی حافظ ہے جهلی ۔۔۔۔۔
وجدان مسکراتا ہوا گاڑی کی طرف بیٹھا تو آمنہ اور عائشہ نے گلہ صاف کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ادا ۔۔۔۔ دوست کی طبیعت کیسی ہے ۔۔۔۔۔؟دونوں وجدان کو چھیڑ رہی تھیں ۔۔۔
کافی بیمار ہے بیچارہ ۔۔۔وجدان کو بھی انکی شرارت سمجھ آرہی تھی ۔۔۔۔گاڑے موڑتے ہوئے وہ جواب دے رہا تھا ۔۔۔۔
چلو مذاق بہت ہوا کمر کس لو ٹائم کم ہے شوپنگ زیادہ ۔۔۔۔
کرلو گی دونوں ؟۔۔۔وجدان نے پوچھا تو دونوں ایک آواز میں بولیں ادا بس آپ پیسے نکالتے جایئں شوپنگ چٹکی میں ہو جائے گی۔۔۔آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔
💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥
آیت جلدی جلدی ہسپتال پہنچی۔ گاڑی سے اترتے ہی اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ جب وہ وارڈ کے قریب پہنچی تو وہاں موجود گھر والوں کے چہرے فکر مند نظر آئے۔
اس کے دونوں بہن بھائی بھی سکول کے یونی فارم میں بیٹھے پیزا کھا رہے تھے ۔۔۔
امی نے آیت کو دیکھتے ہی گلے لگا لیا ۔
"بیٹا، تم کہاں تھی؟ ہم نے تمہیں کتنی بار کال کی، لیکن تمہارا فون بند جا رہا تھا۔ بڑی مشکل میں ابصار کو کال کی۔ وہ فوراً آ گیا۔"
آیت حیران ہو کر بولی
"ابصار؟ وہ یہاں آے تھے ؟"
خود ؟؟؟؟۔مطلب وہی تھے ۔۔۔؟؟؟
امی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
"ہاں، بیٹا۔ وہ فوراً دوڑا آیا۔ تمہارے ابو کی حالت دیکھ کر بہت پریشان ہو گیا تھا۔ سارے معاملات بھی خود دیکھے۔ ڈاکٹر سے بات کی اور دوائیوں کا بندوبست بھی کیا۔"۔
آیت کا سر گھوم گیا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟ ابصار... اور اتنا خیال؟"
اور ان کو کون لایا ؟؟؟
اسکا اشارہ پیزا کھاتے اپنے بہن بھائی کی طرف تھا ۔۔۔
امی نے آیت کے بال سہلاتے ہوئے کہا ۔
"بیٹا، وہ بہت پیارا اور تابعدار لڑکا ہے۔ تمہاری غیر موجودگی میں وہ سب کچھ سنبھال رہا تھا۔ اللہ نے اسے ہمارے لیے مسیحا بنا دیا۔"۔۔ان کو بھی اسی نے بلوایا بلکہ کھانا بھی منگوایا ۔میں نے بہت منع کیا مگر نہیں سنی میری کوئی بات ۔۔۔۔
آیت نے اردگرد دیکھا۔ وہ ابصار کو کہیں نہیں دیکھ پا رہی تھی، مگر دل میں ایک عجیب سا خوف اور بے چینی پیدا ہو چکی تھی کہ کہیں قریب ہی نہ کھڑا ہو ۔۔۔
"یہ شخص میری زندگی میں اتنی دخل اندازی کیوں کر رہا ہے؟ اور امی اتنی متاثر کیوں ہیں؟"۔اف یہ انسان مجھے پاگل کر کے چھوڑے گا ۔۔۔
ابو کی حالت دیکھ کر آیت نے اپنے خیالات جھٹک دیے اور خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
"فی الحال ابو کی صحت اہم ہے، باقی باتیں بعد میں دیکھیں گے۔"۔
ڈاکٹر نے کیا بتایا امی طبیعت کیوں خراب ہوئی اتنی ۔۔۔۔
آیت ابصار نامہ نہیں سننا چاہتی تھی ۔۔۔
وہی سانس کا نقص ۔۔۔۔جب موسم بدلتا ہے تو سانس خراب ہوتا ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہم گھر جا سکتے ہیں ۔۔۔
آیت نے غائب دماغی سے ماں کی بات سنی ۔۔
اچھا آپ ابو کو جگایں میں ٹیکسی منگواتی ہوں ۔۔آیت نے اپنا فون ہاتھ میں لیا تو ہبی کے کتنے ہی میسج سکرین پر جگمگا رہے تھے ۔۔۔۔
ڈرائیور نیچے کھڑا ہے don't call taxi
آفس ٹائم پر آنا صبح ورنہ کل اوور ٹائم کرو گی ۔۔۔
آیت نے فون کی طرف دیکھا اور پرس میں واپس رکھ دیا ۔۔یہ بندہ نہ صرف میری زندگی کنٹرول کرہا ہے میرا دماغ بھی کنٹرول کرہا ہے ۔وہ بڑبڑاتی ہوئی امی کی طرف مڑی ۔۔۔
چلیں امی سر نے ڈرائیور بھیجا ہے ۔۔۔
آیت جانتی تھی کہ ابصار سے جان چھڑانہ اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔۔
اگلے دن وہ بہت ٹائم سے تیار ہوئی تاکہ لیٹ نہ ہو ۔۔۔ڈرائیور نیچے ہی موجود تھا وہ بن بحث کئے بیٹھ گئی کیا کرتی تھک گئی تھی لڑ لڑ کر ۔۔۔
آفس پوھنچی تو روبی کی منحوس شکل دیکھتے ہی اسس موڈ خراب ہوا ۔۔۔۔
welcome back mrs Absar Alam
وہ مسکراتی ہوئی کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
آیت نے برا سا منہ بنایا ۔۔۔
روبی مت بلایا کرو اس نام سے مجھے کتنی بار سمجھایا ہے ۔۔۔اور کتنی بار سمجھاؤں ؟۔
روبی نے حیرت سے پوچھا کیوں میم ؟؟؟؟
کیونکہ تمہارے منہ سے یہ نام سن کر مجھے تمہارے بوس سے اور بھی نفرت ہوتی ہے ۔۔۔
آیت نے روبی کو آنکھیں دکھائیں ۔۔
No he is very sweet mrs absar.
روبی نے اپنے بوس کی سائیڈ لی ۔۔۔
پھر تم کر لتیں شادی اپنے سر سے میں بچ جاتی ۔۔آیت کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی روبی کی باتیں ۔۔
سر نے مجھے کہا ہی نہیں شادی کے لیے میم ۔۔۔روبی شرماتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
بس تم سب کے ساتھ پاگل ہوجاؤں گی ایک دن ۔آیت اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
انشاءﷲ بہت جلد میم ۔روبی نے فرض سمجھا جواب دینا ۔
تمہارا قتل مجھ پر واجب ہے روبی ۔۔آیت پلٹی ۔۔۔۔
آپ نہیں کر سکتیں آپ بہت اچھی ہیں ۔۔روبی نے ہنس کر پھر جواب دیا ۔
بلکل اچھی نہیں ہوں میں پہلے تمہیں ماروں گی پھر تمہارے اس پاگل باس کو ۔۔۔۔آیت نے روبی کو ڈرایا ۔۔۔۔
میم be careful
سر آپ کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔روبی کا اشارہ کیمرے کی طرف تھا ۔۔۔
اف پاگل عورت پہلے نہیں بتا سکتی تھیں آیت کی بولتی بند ہوئی ۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
*جاری ہے ۔*
👍
❤️
😮
8