سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
February 21, 2025 at 12:55 AM
ناول میرا نام ہے محبت ۔ قسط نمبر 12۔ تحریر سنیہ شیخ ۔۔ کبھی اُس نگر تجھے ڈھونڈنا کبھی رات بھر تجھے سوچنا، کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈنا مجھے جا بجا تری جسُتجُو، تجھے ڈھونڈتا ہوں میں کوُبکو کہاں کھل سکا ترے رو بُرو ، مرا اِس قدر تجھے ڈھونڈنا مرا خواب تھا کہ خیال تھا، وہ عروج تھا کہ زوال تھا کبھی عرش پر تجھے دیکھنا ، کبھی فرش پر تجھے ڈھونڈنا یہاں ہر کسی سے ہی بیر ہے ، ترا شہر قریہء غیر ہے یہاں سہل بھی تو نہں کوئی ، مرے بے خبر تجھے ڈھونڈنا تری یاد آئی تو رو دیا ، جو توُ مل گیا تجھے کھو دیا میرے سلسلے بھی عجیب ہیں ، تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈنا یہ مری غزل کا کمال ہے کہ تری نظر کا جمال ہے تجھے شعر شعر میں سوچنا، سر بام ودر تجھے ڈھونڈنا . فرحان اپنے ٹوٹا ہوا دل کر عائشہ کے کمرے سے باہر نکلا تو برامدے میں عروج سامنے سے آرہی تھی وہ انجان بنا گزر جانا چاہتا تھا۔اس چہرے سے اسے بے پناہ نفرت تھی ۔۔ اسکا بس چلتا تو اسکا منہ نوچ لیتا یا کتوں کے آگے ڈال دیتا مگر ۔۔۔۔وہ کچھ نہ کر سکا ۔۔۔ وہ اپنا رشتہ نہ بچا سکا ۔۔۔ اپنی محبت کا جنازہ تو خود اٹھا کر قبر میں ڈال آیا تھا ۔۔۔۔ اپنی بیوی کو اپنی سچائی نہ بتا سکا ۔۔۔ مجبوری ہی مجبوری تھی ۔۔۔ سائیں کبھی ھمارے کمرے کا بھی رخ کر لیا کریں ۔۔۔ہم بھی آپ کے کچھ لگتے ہیں ۔۔۔عروج ایک ادا سے اس کے سامنےآیی ۔۔۔ ہٹو میرے سامنے سے ۔۔میں تمہاری طرف تھوکنا بھی پسند نہ کروں ۔۔دیکھنا تو بہت دور کی بات ہے ۔۔۔فرحان نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔۔ فرحان سائیں ۔۔!!!!۔ آپ میری اتنی توہین نہیں کر سکتے ۔۔میں بھی آپ کی بیوی ہوں جس طرح عائشہ ہے ۔۔کیا آپ کو اللّه سے ڈر نہیں لگتا ،میرے حقوق کے بارے میں سوال ہوگا کیا کہیں گے آپ ۔۔۔بولیں ۔۔آپ کو انصاف کرنا چاہئے دونوں بیویوں میں مگر آپ تو میری صرف توہین کرتے ہیں ۔،جب سے ہمارا نکاح ہوا ہے تب سے آپ نے میرے کمرے میں جھانک کر نہیں دیکھا ۔۔۔میری خبر نہیں لی ۔۔۔ پیار کے دو بول نہیں قربت کا کوئی لمحہ میری جھولی میں نہیں ڈالا ۔۔عروج مصنوعی اداسی سے بولی ۔۔۔ میرا بس چلے تو تمھیں قبر میں اتار دوں ۔۔۔ تم سے مجھے جتنی نفرت ہے تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتیں ۔۔۔۔ وہ اسکی طرف نفرت سے دیکھتا ہوا نیچے کی طرف بڑھا مگر وہ پھر سامنے آی ۔۔۔ کیوں ؟؟؟۔میں بھی تو خوبصورت ہوں ۔۔۔جوان ہوں ۔۔۔میرے پاس کیا نہیں ہے جو میری طرف نہیں آتے ۔۔۔مرد کی کمزوری تو جوانی اور حسن میں ہوتی ہے تو کیسے مرد ہیں آپ ۔۔اپنی بیوی کو دیکھ کر بھی اسکی طلب نہیں ہوتی ۔۔۔عروج نے اسکی مردان میرا خیال تمہارے بارے میں بلکل ٹھیک تھا ،تمہاری زبان تمہاری سوچ سے بھی گندی ہے ۔۔۔لعنت ہے تمہارے عورت ہونے پر جو کسی دوسری عورت کا گھر اجاڑ کر اسکی محبت چھین کر اپنا گھر آباد کرنا چاہتی ہے۔ ۔۔تمہارے جھوٹ کا جنازہ بڑی شان سے نکالوں گا حویلی سے عروج ۔۔ ٹھیک کہتی ہو مرد حسن اور جوانی کا دیوانہ ہوتا ہے مگر من چاہی عورت کا ۔۔تم جیسی بازاری عورت سے گھر نہیں بساے جاتے انہیں استعمال کر کے ڈسٹ بن میں پھینکا جاتا ہے ۔۔۔تم جیسی عورت دل میں نہیں بیٹھای جاتی ۔۔۔ جوتی کی نوک کے نیچے رکھی جاتی ہے ۔۔اور میں تو تمھیں اپنی جوتی کی خاک بھی نہ بناؤں ۔۔۔۔ تم اس قابل بھی نہیں ہو ۔۔۔۔ میرا دل جلایا ہے تم نے ۔۔میرا گھر اجاڑا ہے ۔۔میری عائشہ میرا عشق مجھ سے چھینا ہے ۔۔۔حاصل تمھیں بھی کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔۔تہی دامن رہو گی ۔۔۔ ہر خوشی کو تمہارے لیے ماتم بنا دوں گا ۔۔۔ حقوق کی بات کرہی تھیں مجھے اللّه سے ڈرا رہی تھیں ۔۔۔۔ میری بیوی صرف ایک ہی ہے عائشہ جسے میں نےسچے دل سے قبول کیا تھا ۔۔۔ جس کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے میری روح راضی تھی ۔۔۔۔ دھوکہ جھوٹ اور زبردستی نکاح نہیں ہوتے ۔۔۔تم سے نکاح کرتے ہوئے بھی میرے دل و دماغ پر میری بیوی تھی ۔۔۔ مجھ پر میرے جسم پر میری روح پر صرف اسکا حق ہے ۔۔۔۔ ہمت ہے تو دل سے اسکا عکس مٹا کر دکھاؤ ۔۔۔ وہاں تک نہ تم پوھنچ سکتی ہو نہ اماں سائیں ۔۔۔۔اب دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے میرے بھائی کا نکاح ہے ،تمہاری شکل دیکھ کر پورا دن خراب گزرے گا ۔۔فرحان کے ہر انداز میں نفرت ہی نفرت تھی ۔۔۔ آپ نے مجھے بازاری کہا ؟؟۔سائیں میں آپ کو بازاری لگتی ہوں ۔۔اسکے ہونٹ كپكپا رہے تھے ۔۔۔اتنی ذلت ۔۔ایسے الفاظ ۔۔۔۔عروج کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔۔۔ تو بتاؤ ۔۔میں غلط ہوں ۔؟ کسی کے شوہر کو زبردستی اپنی زندگی میں شامل کرنا،اسے مجبور کر دینا کہ وہ اپنی بیوی کا دل دکھا کر صرف اپنی ماں کی ناک اونچی رکھے ۔۔۔اور بےشرموں کی طرح کسی کے شوہر کے خواب دیکھنا ۔۔۔شریف زادی تو نہیں کر سکتی ۔۔۔۔جاو بی بی اپنی شکل آینے میں دیکھو ۔۔کہ کیا ہو تم ۔۔۔ میرے بس میں میں ہو تو میں تمھیں کتوں کے آگے ڈال دوں نفرت کرتا ہوں میں ایسی عورتوں ۔تم جیسی عورتیں ہی مردوں کو بدنام کرتی ہو ۔ جتنا مرضی گر جاو ۔۔میری بیوی عائشہ تھی عائشہ ہے اور عائشہ ہی رہے گی ۔۔۔ عائشہ نہیں تو فرحان بھی نہیں ۔۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے تمہاری زندگی اتنی تنگ کر دوں گا کہ پناہ مانگو گی اس حویلی سے ۔۔ میں ساری زندگی بھی عائشہ کے قدموں میں بیٹھ جاؤں تو خود کی سچا ثابت نہیں کر سکتا مگر اللّه سب دیکھ رہا ہے اس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔جتنا ہم دونوں کو ترپایا ہے نہ تم نے تم بھی تڑپو گی ۔۔۔ وہ ضبط کی انتہا کو پوہنچتا اب چلا رہا تھا ۔۔ نہیں سائیں ۔۔۔میں بھی اب آپ کی بیوی ہوں آپ ایسا نہ کریں ۔۔۔فرحان کا جنون دیکھ کر التجا کرتی ہاتھ جوڑ گئی ۔ بیوی نہیں تم جھوٹ ہو ،دھوکہ ہو اور فریب ہو ۔۔۔ میرا نام تو لگا لیا ہے زبردستی مگر یہ دل کبھی تمھیں نہیں اپناے گا ۔۔۔اور اب اگر ذرا سے سلف ریسپیکٹ ہے تو ڈوب مرو ۔۔۔ہٹو میرے سامنے سے ۔۔۔وہ اسے دھکا دیتا ہوا نیچے چلا گیا ۔۔۔۔ عروج اس وجیہہ انسان کو جاتا دیکھ رہی تھی جو اسکی ذات کی نفی . کرتا ہوا دھجیاں بکھیر گیا تھا ۔۔۔اتنی تذلیل ۔۔۔اتنی انسلٹ ۔۔۔ اس خوبصورت انسان کے لیے دوسری کا ٹیگ لگوای۔۔۔گاؤں والوں کی نفرت سہی ۔۔۔اور حویلی والے تو اسے عورت ہی نہیں مانتے تھے ۔۔۔ایک عورت تو دوسری عورت کا درد سمجھتی ہے ۔۔۔مگر عروج تو عائشہ کے ہر درد کی وجہ تھی ۔۔ سوچا تھا اپنی ادایں دکھا کر ایک دن فرحان سائیں کو مجبور کر ہی دے گی مگر سب کچھ الٹ گیا ۔سائیں کو عائشہ کے علاوہ کچھ نظر آتا تو دیکھتا ۔ توڑنا بہت آسان ہوتا ہے , چاہے وہ بھروسہ ہو مان ہویا دل .... احساس تب ہوتا ہے جب مکافات عمل کی صورت میں کوئی دوسرا آپ کے ساتھ ایسا کرے ... تب انسان کی آنکھوں کے سامنے اپنا کیا ہر فعل آجاتا ہے. وہ کہتے ہیں نا یہ دنیا گول ہے؛_۔ تو بس اب انتظار کرے عروج اپنی مکمل بربادی کا جو راستہ وہ چن گئی تھی وہاں صرف بربادی اور نفرت کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ عروج آج اپنا ہی پوسٹ مارٹم کر رہی تھی ۔۔۔کیا اس زندگی کے خواب دیکھے تھے ۔۔۔کیا یہ ذلت اور دهتكار کے لیے اتنا سب کیا ۔۔۔ کیا گھاٹے کا سودا کیا تو نے عروج ۔۔۔ایسا مرد کس کام کا جس کا دل کسی اور قبضے میں ہو ۔۔۔۔۔عروج نے نفرت سے عائشہ کے دروازے کو دیکھا ۔۔۔۔جو ہار کر بھی جیت گئی تھی ۔۔۔اور عروج جیت کر بھی ہار گئی تھی ۔۔۔۔پوری حویلی گواہ تھی فرحان کی آنکھیں صرف عائشہ کو ڈھونڈتی تھیں ۔۔وہ اسے اس کی خوشبو سے بھی پہچان لیتا تھا ۔۔۔۔اور عروج ۔۔۔۔ اس کا چہرہ تو کیا سایہ بھی برداشت نہیں تھا فرحان کو ۔۔۔ بربادی مبارک ہو عروج ۔۔۔۔ دو سچے عاشقوں کی بدعا لگی تجھے ۔۔۔بربادی مبارک ۔۔۔ وہ عائشہ کے کمرے کو حقارت سے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔ اللّه پاک بچیوں کو ہدایت دے جو کسی کا گھر خراب کرتی ہیں یہ نہیں سوچتیں کہ انکے ساتھ بھی مکافات عمل ہوگا ۔ مقدر میں کیا لکھا ہے کس کو پتا ہے ۔بھلا کسی کی خوشياں چھین کر آپ خود چین سے رہ سکتے ہو ۔ (لمحہ فکریہ )۔ 💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥 حویلی میں خوب گہما گہمی تھی۔ ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا. "ارے، یہ پھول ادھر کیوں رکھے ہیں؟ وجدان کے کمرے کے باہر سفید پھولوں کا گلدستہ ہونا چاہیے، وہی اسے پسند ہیں۔ اور یہ کیا؟ روشنیوں میں کمی کیوں ہے؟ نکاح کا دن ہے، کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔"۔ اور دلہن کا استقبال بہترین ہونا چاہئے ۔۔۔۔ دادی سائیں اپنے مخصوص انداز میں ہر ایک کو ہدایات دے رہی تھیں۔ "دادی سائیں، آپ بالکل فکر نہ کریں۔ سب کچھ تیار ہے۔ میں نے خود سب دیکھ لیا ہے۔"۔۔ہر چیز اچھی ہوگی بھابی کے استقبال شاندار ہی ہوگا ۔۔۔آمنہ نے دادی سائیں کو بہت پیار سے سمجھایا ۔۔ دادی سائیں نے آمنہ کو محبت سے دیکھا اور کہا ۔ "بیٹی، آج تمہارے بھائی کی زندگی کا سب سے خاص دن ہے۔ سب کچھ بہترین ہونا چاہیے۔"۔۔آمنہ نے دادی سائیں کا ہاتھ تھام لیا ۔آپ تسلی رکھیں میری پیاری سی دادو ۔۔۔اچھا یہ بتایں کہ نکاح ہونا کدھر ہے ۔؟؟۔ماروی کے گھر پر ۔ نہیں !!۔اسکی سہیلی ہے سانوری اس کے گھر ہے ۔۔چاچا اور دادای سے تو وجدان نے منع کیا ہے نہیں ملنا کسی صورت ۔۔۔ اور آپ میرے سامنے آیں ذرا ۔۔۔کتنی پیاری لگ رہی ہیں ماشاءﷲ ۔۔دادی سائیں نے ہاتھ پکڑ کر آمنہ کو سامنے کیا ۔۔۔ اكلوتی نند ہوں دادی پیاری تو لگوں گی نہ ۔ آمنہ نے ایک ادا سے اپنی دادی کو کہا تو وہ اسکی بات پر اسکا ماتھا چوم کر اسکی نظر اتاری ۔۔ میری آمنہ تو سب سے زیادہ پیاری ہے ۔آمنہ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے بھلا ۔۔۔دادی سائیں نے آمنہ کی نظر اتاری ۔۔۔ "یہ جو بیچ والے صوفے ہیں، انہیں ہٹوا دو۔ زیادہ جگہ چاہیے۔ اور یہ چائے کا بندوبست تمہارے ذمہ ہے آمنہ ۔ ساری عورتیں خاندان کی ماروی کو دیکھنے آیں گی ۔ کسی مہمان کو شکایت نہ ہو۔"۔۔۔وہ پھر ملازموں کے ساتھ لگ گیں ۔۔۔ آمنہ ہنستی ہوئی وہاں سے نکل گئی ۔۔۔ سیڑھییوں میں فرحان سے ملاقات ہوئی ۔۔۔ سلام ادا آج تو بجلییاں گرا رہے ہو خیر تو ہے ۔۔ نکاح تووجدان سائیں کا ہے دولہا آپ لگ رہے ہیں ۔۔آمنہ نے فرحان کو چھیرتے ہوے کہا ۔۔ ارے پگلی کس پر بجلی گراوں گا ۔۔۔میری تو قسمت ہی روٹھ گئی ہے مجھ سے ۔۔۔اب تو تھوڑے سے دن بچے ہیں انکو بس محسوس کر رہا ہوں ۔۔نہ جانے آنے والا وقت کیا دکھاے گا ۔۔۔فرحان نے آمنہ کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا ۔۔ ادا کیسی باتیں کرتے ہو کیا مطلب ہے تھوڑے سے دن ؟؟۔آپ کہاں جا رہے ہو ۔؟؟آمنہ پریشان ہوئی ۔۔۔ کہیں نہیں میری گڑیا ۔۔ جاؤ ادا کو دیکھو تیار ہے کہ نہیں ۔۔۔نکاح کا ٹائم ہورہا ہے ۔۔فرحان نے آمنہ کو اپر کی طرف بھگایا ۔۔ فرحان نے محبت سے اپنی بہن کو اپر جاتا ہوا دیکھا ۔۔۔۔۔ 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥 حویلی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی۔ ملازمین تیز رفتاری سے کام کر رہے تھے۔ ہر کمرہ خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، اور پورا ماحول خوشبوؤں سے معطر تھا۔ دادی سائیں کے حکم پر مخصوص صوفے نکاح کے لیے ہال کے بیچ میں رکھے گئے تھے، اور سب لوگ اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے۔ وجدان اپنے نکاح کے لیے تیار، ایک نئی زندگی کے آغاز کا منتظر تھا۔ آئینے کے سامنے کھڑے، وہ اپنے شیروانی کے بٹن بند کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ دن اس کی زندگی کا کتنا اہم ہے۔۔۔شاید اتنی خوشی اسی سردار بننے کی بھی نہیں ہوئی تھی جتنی آج ماروی کا وجدان بننے میں ہورہی تھی ۔۔۔ وجدان نے اپنی شیروانی کے کالر کو درست کیا، گھڑی پہنی، خود پر پرفيوم کی برسات کی اور جانے کے لیے تیار ہوا۔ وجدان کمرے سے نکلا تو سب کی نظریں اس پر جم گئیں۔۔۔۔ملازم اپنی نظریں جھکا گئے تھے ۔۔۔ وہ نیچے اترتا ہوا کوئی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ۔۔وائٹ کلر کی خوبصورت شیروانی پر خوبصورت اجرک جو سردار کی شان ہوتی ہے ۔۔اسکا دراز قد شیر وانی میں اور بھی دراز لگ رہا تھا ۔۔۔ اسکی سفید رنگت خوشی سے اور دمک رہا تھا ۔۔۔وہ مردانگی کا شہکار لگ رہا تھا ایک مکمل مرد ۔اسکی گہری آنکھوں میں نئی آنے والی زندگی کی سچی خوشی جهلک رہی تھی ۔۔۔۔ دور سے ڈھول کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ حویلی میں رنگین روشنیوں اور پھولوں کی خوشبو نے ماحول کو مزید شاندار بنا دیا تھا۔ سب مہمان وجدان کی حویلی کے باہر ، اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ جیسے ہی نیچے آیا ۔۔سب تیار اس کے ادب میں کھڑے ہوئے ۔۔۔چھوٹا ہو یا بڑا ہر کسی پر سردار کی عزت واجب تھی ۔۔۔ وجدان کی شخصیت آج حویلی میں ہر طرف موضوعِ گفتگو تھی۔ اس کے اندر ایک ایسا وقار اور رعب تھا جو صرف سرداروں کو نصیب ہوتا ہے۔ دادی سائیں نے اسکی نظر اتاری ۔۔حفاظت کی دعا پڑھ کر پھونکی ۔۔۔ماشاءﷲ میرا سردار وجدان سائیں ۔۔میری ریاست کا شہزادہ بہت خوبصورت لگ رہا ہے ۔۔کسی کی نظر نہ لگے ۔۔۔۔ وجدان اپنی دادی سائیں کی بے تحاشا محبت پر مسکراتا ہوا دادا سائیں کے گلے لگا ۔۔ دادا سائیں وجدان کو دیکھ کر مسکرا دیے۔ "یہ میرا پوتا نہیں، پورے قبیلے کا فخر ہے۔ وجدان، تم نے ہمیشہ سرداروں کی طرح فیصلے لیے ہیں ۔ آج تم نے ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔" وجدان نے جھک کر دادا سائیں سے پیار لیا اور کہا ۔ "آپ کی دعاؤں نے مجھے یہ مقام دیا ہے، دادا سائیں۔"۔ دادا سائیں محبت سے دیکھتے ہوئے بولیے "میرے وجدان جیسا سردار نہ کبھی ہوا، نہ ہوگا۔ یہ شان اور رعب تمہارے اندر فطری ہے، بیٹا۔"۔۔جیتے رہو ۔۔۔ وجدان باری باری بھائی اور باپ کے گلے لگا ۔۔۔اماں سائیں کہاں ہیں وجدان نے اپنے باپ سے سوال کیا۔۔۔ بیٹا اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں وہ آرام کر رہی ہیں ۔۔۔باپ نے وضاحت دی مگر وجدان سردار تھا اسے پاگل بنانا آسان نہ تھا ۔۔ طبیعت خراب ہے یا جان بوجھ کر کی ہے ۔۔۔۔ وجدان نے اپنے باپ کے چہرے کو غور سے دیکھا خوش تو فرید سائیں بھی نہیں تھے مگر سردار کو انکار کا مطلب جانتے تھے ۔۔۔باپ ہو یا ماں سردار کی بات ایک حکم کا درجہ رکھتی ہے جیسے پورا گاؤں پابند ہے اسی طرح گھر والے سب سے پہلے سردار کے تابیدار ہوتے ہیں ۔۔۔ بیٹا میرا خیال ہے تم پہلے اپنی ماں سے مل لو تو پھر باہر جانا ۔۔۔دادا سائیں بات کو بڑھانا نہیں چاھتے تھے انہوں نے وجدان کو سمجھانا چاہا ۔۔ نہیں ،ہر گز نہیں میرا گاؤں میرے لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں ۔۔میں اپنی خاطر انکو مایوس نہیں کر سکتا ۔۔اماں سائیں جو چاہتی ہیں وہ ہرگز نہیں ہو سکتا ۔۔۔ مجھ سے وہ یہ امید لگا رہی ہیں کہ میں پہلے انکا بیٹا بن کر بات سنوں گا تو یہ انکی غلط فہمی ہے ۔۔۔۔۔۔مجھ پر میرے اللّه نے معصوم لوگوں کی زیمیداری ڈالی ہے ۔۔۔مجھے انکا حق ادا کرنا ہے ۔۔۔۔وجدان نے دو ٹوک انداز میں بات کو ختم کیا ۔۔۔۔ وجدان سائیں آپ غلط کر رہے ہیں اب ۔۔آپ کی ماں ہیں وہ آپ کیسے گستاخی کر سکتے ہیں ۔۔کیا انکا آپ پر کوئی حق نہیں ۔۔۔۔مت بھولیں کہ وہ سردارنی بھی ہیں آپ کو ان کے فیصلے کا احترم کرنا لازم ہیں ۔۔۔ فرید سائیں بیٹے کی باتوں سے طیش میں آرہے تھے ۔۔۔وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گاؤں میں مقبول ہورہا تھا اپنے انصاف کی وجہ سے جس کی وجہ سے بتول بیگم اور فرید سائیں پریشان تھے ۔۔۔گاؤں کے لوگوں میں شعور آرہا تھا ۔۔وجدان ذات پات کا فرق ختم کر رہا تھا ۔۔۔دونوں میاں بیوی کو لگتا تھا کہ اسطرح سب اپنے اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوجائیں گے ۔۔۔سرداری ختم ہوتی جائے گی ۔۔۔۔ سردارنی ہیں مگر عورتوں کے لیے کیا کرہی ہیں ؟؟؟؟؟۔۔ہماری گاؤں کی عورتیں بچہ پیدا کرتے ہوئے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں آپ لوگ شہر سے ڈاکٹر نہیں آنے دیتے ۔۔بچیوں کو پڑھنے نہیں دیتے ۔۔۔۔انکی شادی گاؤں سے باہر نہیں کرنی ۔۔۔ جائیداد میں حق نہیں دینا ۔۔۔ کیوں ؟؟؟؟؟عورت انسان نہیں ۔ وجدان گرجا تھا ۔۔۔۔۔ معافی چاہتا ہوں مگر مرضی تو آپ کی بھی نہیں میری شادی ماروی سے ہو ۔۔ کیونکہ اسکے بعد ہر غریب لڑکی کی شادی کسی بھی گاؤں کے انچے گھر میں ہوسکتی ہے ۔۔۔بچیوں کے نصیب کھل جایئں گے ۔۔۔۔یہ جو باہر آدمی میرے منتظر ہیں جانتے ہیں کون ہیں !؟؟؟؟؟۔۔۔ یہ سب مجبور بے بس باپ ہیں جن کی بچيان اب اچھے گھروں میں جایئں گی کمی کمین کا فرق مٹ جائے گا ۔۔۔کوئی بچی ونی ہو کر کسی مرد کی وحشت کا نشانہ نہیں بنے گی ۔۔۔۔ گاؤں کی ہر بچی پڑھی لکھی ہوگی ۔۔۔۔کیسے توڑ دوں انکی امید ۔۔۔۔بولیں ۔۔ ایک سردار یہ ہرگز نہیں کر سکتا ۔۔۔ آپکو بھی نہیں جانا تو آپ اماں سائیں کی خدمت کے لیے رک سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔مگر آخری بار بول رہا ہوں ۔۔اب اگر میرے کسی بھی فیصلے پر اماں سائیں نے یا گھر کے کسی فرد نے انگلی اٹھائی تو میں برداشت نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔ وجدان اپنی اجرک کو دونوں ہاتھوں سے جھٹکتا ہوا باہر کو بڑھا ۔اسکی بات ختم ہوگئی تھی ۔۔۔گھر کے باقی افراد بھی اپنے سائیں کے پیچھے پیچھے چل پڑے ۔۔۔ بتول سائیں پر یہ خبر قہر بن کر ٹوٹی کہ انکا بیٹا ان کے بغیر ہی چلا گیا ہے شادی کے لیے ۔۔وہ تو کوئی سازش سوچے بیٹھیں تھیں ۔۔وجدان نےتو انکا تخت ہی الٹ دیا ۔۔۔۔ 💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥 ہوسٹل کے گیٹ سے اندر قدم رکھتے ہی نور کو انتظامیہ کے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ وارڈن نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔ "نور احمد! یہ کیا ماجرا ہے؟ پولیس والے تمہیں لینے کیوں آئے تھے؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟"۔تم نے کیا کیا ہے ؟۔ نور نے بے زاری سے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا "مسئلہ تو آپ لوگ بنا رہے ہیں۔ وہ ایک سرکاری کام تھا، اور کچھ نہیں۔"۔میرا کزن ہے ملنے آجاتا ہے ۔نور نے بات بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ دیکھو نور ۔۔یہ گرلز ہوسٹل ہے اور یہ طور طریقہ نہیں چلے گا یہاں۔۔۔ آپ اپنا بندوبست کہیں اور کریں ۔۔وارڈن نے اسے سختی سے بولا ۔۔۔۔ تو میں کہاں جاؤں گی پھر ۔۔؟؟؟ نور کا دل کیا وارڈن کا منہ توڑ دے ۔۔۔۔ ہمیں نہیں پتہ مگر اس ہوسٹل میں نہیں رہ سکتی ۔۔۔وارڈن کی بات سے نور کو پریشانی ہورہی تھی کہ کہاں جاے گی ۔۔۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر نور نے خود کو بستر پر گرا دیا۔ اس کا دماغ سخت الجھا ہوا تھا۔۔۔اپنے آفس فون کیا تو انہوں نے کوئی بھی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔۔روم کا انتظام کرتے ہوئے اسے رات پڑ گئی ۔۔۔کوئی حل نہیں نکلا ۔۔۔۔ نور تم تم جہاں جاؤ گی میں تیرے ساتھ جاؤں گی ۔۔۔سمجھی ۔۔ نشا نے نور کے گلے میں بازو ڈالے ۔۔۔۔ کوئی انتظام نہیں ہورہا نشا یار ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا کل تک کیسے روم کا ارینج کروں گی ۔۔۔۔ یار تو تابش سر سے بات کر ۔سب کچھ انکی وجہ سے ہوا ہے وہ کوئی بندوبست کر کے دیں ۔۔ نشا نے اسے آئیڈیا دیا ۔۔۔۔ یس !!!۔ اچھا آئیڈیا ہے مجھے پہلے کیوں نہیں آیا ۔۔۔نور کے چہرے پر شیطانی ہنسی آآئ ۔۔۔ مگر رات بہت ہوگی ہے مناسب ہے اس وقت بات کرنے کا ۔۔۔ رات کے بارہ بج رہے تھے، لیکن نور کو سکون نہیں آ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ صبح آفس جانے کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے، اور انتظامیہ کل اس سے سوالات کرے گی۔ "مجھے یہ سب ابھی ختم کرنا ہوگا۔ تابش سے بات کرنی پڑے گی۔"۔ نشا کو تھمبز اپ کیا اور کال ملائی ۔۔۔۔ لمحوں بعد دوسری طرف سے تھکی ہوئی آواز آئی "ہیلو؟" تابش نیند سے جاگا تو اس کی آواز میں بے زاری نمایاں تھی۔ "ہیلو میں نور بول رہی ہوں " وہ ہمت کر کے بولی ۔۔۔ "نور ہو یا اندھیرہ یہ وقت ہے کوئی فون کرنے کا ۔۔۔۔" تابش کو کوفت ہوئی ۔۔ میں اندھیرا نہیں نور ہوں ۔۔جس کو ہوسٹل سے آپ کی وجہ سے نکال دیا ۔۔ "کیوں " میرا کیا واسطہ تم سے ۔،؟ جاؤ کسی اور کی زندگی میں اندھیر کرو ۔۔۔ میں نہیں جانتا ۔تابش کو سخت نیند آرہی تھی وہ کل رات سے موسیٰ کے خلاف ڈیٹا کوللیکٹ کر رہا تھا ۔۔ پھر آپ بھول جایئں کہ میں آپکو کسی قسم کا کوئی ڈیٹا ہیک کر کے دوں گی ۔۔۔ڈیل کینسل ۔ " تابش کی آنکھیں کھلییں ۔۔دماغ میں موسیٰ کلک ہوا ۔۔۔۔۔۔اسکی بربادی ۔۔۔۔۔۔ اچھا نور ۔۔۔۔چورنی ۔۔۔۔میرا مطلب ہیکر ۔۔۔ تابش اٹھ کر بیٹھا ۔۔۔۔ اپنے الفاظ درست کریں ۔۔۔ نور خفا ہوئی۔۔ معذرت میں نیند میں تھا ۔ بولو ۔ مسٹر پولیس میں آپ کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوں مگر میری کچھ شرائط ہیں ۔۔۔۔نور نے نشا کو دیکھا جو اسے اشارہ دے رہی تھی کہ کام کی بات کر ۔۔۔ تابش نے گہری سانس لی اور بولا ۔۔جی معلوم ہے بغیر شرط کے آپ کیسے چل سکتی ہیں ۔۔۔بولو ۔۔۔ نور نے گلہ صاف کیا اور بولی ۔ پہلی شرط ایک گھر ،۔۔۔ دوسری شرط سیکورٹی ۔۔ تیسری شرط ایڈوانس پیسے فیفٹی پرسنٹ ۔۔۔۔ کھانا دو ٹائم کا آپ ہی دیں گے ۔۔چلو بریک فاسٹ میں کرلیا کروں گی ۔۔نور نے گویا احسان کیا ۔۔۔ گاڑ ی اور اسکے ساتھ ڈرائیور ۔۔۔۔ گھر میرا ذاتی ہوگا ۔۔ میری دوست میرے ساتھ رہے گی ۔ ہفتہ اتوار چھٹی ۔۔۔۔ اور ہر مہینے دبئی کا ٹور ۔۔۔۔ صبح ہی سارا انتظام کروایں ۔۔۔ بس اتنی ہی یا اور کچھ ؟؟؟ تابش نے سرد لہجے میں پوچھا ۔۔ فلحال اتنا ہی ۔۔۔۔۔ نور نے اپنی ہنسی کنٹرول کی وو جانتی تھی کہ وہ اسے تپا چکی ہے ۔۔۔ "آپ نے مجھے اس کام میں شامل کیا، ۔ اب یہ سب آپ کی ذمہ داری ہے۔"۔ "نور، میں پولیس والا ہوں، جادوگر نہیں تم پریذیڈنٹ نہیں بن گئیں جو یہ شرطیں بتا رہی ہو ۔۔۔ اپنی ٹیم سے بات کروں گا ۔۔۔پھر کوئی بات ہوگی ۔۔۔تابش نے اپنے بال ہاتھ سے سیٹ کئے نور کی شرطوں نے اسے گھوما دیا تھا ۔۔۔۔ اتنی سہولت تو اسے نہیں ملیں ۔۔۔۔۔ مسٹر پولیس والے آپ کی وجہ سے مجھے ہوسٹل سے نکالا گیا ۔۔جاب میں خود چھوڑ رہی ہوں ۔۔۔اب اتنی محنت سے آپ کے چوروں کو پکڑوں گی تو کچھ تو ریوارڈ بنتا ہے ۔۔۔۔نور نے ذرا نرم لہجے میں بولا ۔۔ جی جی آپ کے بغیر تو یہ پولیس فورس کسی چور کو کہاں پکڑ سکتی ہے ۔۔۔بہت اچھا۔۔۔"ٹھیک ہے، صبح آفس آ کر بات کریں۔ اب اگر اجازت دیں، تو اپنی نیند پوری کر لوں؟"۔تابش تنزیہ لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔ "ٹھیک ہے، لیکن صبح یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔"۔میرے اٹھنے سے پہلے گھر مل جائے ۔نور یسے پکا کر رہی تھی ۔۔۔ تابش نے فون رکھ کر گہری سانس لی اور بستر پر لیٹ گیا۔ ہی اس کا مسئلہ ختم کرنا ہوگا، ورنہ یہ مجھے پاگل کر دے گی۔"۔ دوسری طرف نور نے موبائل بند کر کے مسکراتے ہوئے نشا سے کہا ۔ اب اپنے بھی اچھے دن آنے والے ہیں ۔۔۔بس ۔۔۔ ♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️ آیت ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھی تھی، دل میں گرینی کے کہے الفاظ کی گونج رہے تھے "فحاشا..."۔ ان الفاظ کا زخم اس کے دل پر گہرا اثر ڈال چکا تھا۔ وہ کبھی اپنے لیے ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، لیکن آج اس کے کردار پر حملہ کیا گیا تھا۔ ایسا کیا کیا تھا اس نے ۔۔۔۔ایک شادی ہی تو کر رہی تھی اپنے گھر والوں کو اچھا مستقبل دینے کے لیے ۔۔۔ کوئی غلط کام نہیں کیا ۔۔قیس کو تو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا کبھی تنہائی میں اسے نہیں ملی اسکے باوجود ۔۔۔یہ الفاظ ۔۔۔وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔جلنے کی تکلیف تو کہیں جا سوئی تھی ۔۔۔۔اسکا دل جل رہا تھا ۔۔ابصار کی گرینی کو اس نے پہلی بار ہی دیکھا ۔۔وہ صرف قیس کی ماں اور باپ کو جانتی تھی قیس نے نکاح والے دن میلوایا تھا مگر اس ایکسیڈنٹ کے بعد آیت تو ہسپتال میں تھی کسی نے اسکی خبر نہیں لی . ۔۔مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔۔ میں فحشا نہیں ہوں ۔۔۔نہیں ہوں ۔۔۔وہ کانوں پر ہاتھ رکھے رورہی تھی جب اسے روبی کی آواز آآئ ۔۔۔۔ مسز ابصار !!!۔ آپ کی ڈریسنگ کرنی ہے ۔۔۔ آیت نے اپنا سر اٹھایا تو روبی اسے محبت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ روبی چلی جاؤ مجھے تمہاری ہمدردی نہیں چاھئیے پلیز ۔۔۔ آیت کو لگا اسکی بات کرنے کی طاقت کسی نے کھینچ لی ہے ۔۔ No Mrs Absar.. آپ کا ہاتھ جل گیا ہے مجھے آپ کو میڈیسن لگانی ہے ۔۔۔ روبی اپنی ڈیوٹی کر رہی تھی ۔۔۔ ترس کھا رہی ہو مجھ پر روبی ؟؟ آیت نے روبی سے سوال کیا ۔۔۔ No Mrs Absar. سر کا آرڈر ہے ۔۔آپ پلیز اپنا ہاتھ دیكهایں ۔۔۔ روبی نے وضاحت کی اور ٹیوب آیت کے ہاتھ پر لگائی ۔۔۔ مطلب ؟؟؟۔کب بولا ابصار نے ۔۔۔ آئ مین سر نے ۔۔۔آیت نے دوبارہ سر اٹھا کر پوچھا ۔۔۔ جب آپ انکے روم سے باہر آرہی تھیں ۔۔۔روبی مصروف انداز میں بولی ۔۔۔ آیت کا دل جیسے پھٹ رہا تھا ۔۔۔وہ روبی کا ہاتھ پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی ۔۔۔ روبی نے ٹیوب بند کی اور آیت کے بال ٹھیک کئے ۔۔۔ میم سر آپ کو دیکھ رہے ہیں اور انہیں رونے والے پسند نہیں ہیں ۔۔روبی نے ٹشو پیپر سے آیت کے آنسو صاف کئے ۔۔۔ آیت آج خاموشی سے سیدھی ہو کر بیٹھی ۔۔ آج اس نے ابصار کو کچھ بھی نہیں کہا ۔۔۔ وہ غائب دماغی سے سارے کام کر رہی تھی ۔۔۔۔ میم ۔۔۔لنچ ٹائم ہے آپ کو کچھ کھانا چاھئیے ۔۔۔۔روبی نے سمجھایا ۔۔۔۔ نہیں روبی تم جاؤ مجھے کچھ نہیں کھانا ۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں مجھے یہ فائل ریڈی کرنی ہے ۔۔وہ خود کو مصروف ظاہر کر رہی تھی ۔۔۔ روبی سر ہلاتی ہوئی نکل گئی ۔۔۔ آیت اپنی سوچوں میں پھر گم ہوگئی ۔۔۔ فون کی بیل پر وہ الرٹ ہوئی ۔۔۔۔ یس سر ۔۔۔خود کو سمبھال کر کہا ۔۔۔ میرے لئے لنچ بناؤ ۔۔۔۔دوسری طرف سے حکم صادر ہوا ۔۔۔ کیا ؟؟؟لنچ ؟؟؟۔میں شیف نہیں ہوں سر ۔۔۔ آیت نے دانت پیسے ۔۔۔۔ تو ؟؟۔۔ تو یہ سر کے مجھے کچھ بھی نہیں آتا بنانا ۔۔۔آیت نے صاف جھوٹ بولا ۔۔۔ ویری گڈ ۔۔۔قیس اچھا ہوا مر گیا ورنہ تم اسے بھوکا ویسے بھی مار دیتی ۔۔۔۔ اورینج جوس اور چیز سینڈوچ ۔۔۔دس منٹ کے اندر اندر ۔۔۔۔اور منہ پر فون بند کردیا ۔۔ اف عجیب کوئی ۔۔۔وہ کوئی گالی دینے والی تھی اسے یاد آیا کہ جگہ جگہ کیمرے ہیں ۔۔۔ آہ آیت آہ ۔۔۔تو اب اپنی مرضی سے نہ رو سکتی ہے نہ ہنس سکتی ہے ۔۔۔۔ چلو جی لنچ بناؤ ۔۔۔ وہ بے دلی سے نیچے کینٹین میں گئی ۔۔۔ اسے مشکل سے پانچ منٹ لگے تھے صرف لنچ بنانے میں ۔۔۔ کچھ منٹ اسے لفٹ میں لگے ۔۔۔ اجازت لیتی ابصار کے روم میں آی ۔ سر یور لنچ از ریڈی ۔۔۔ آیت نے لنچ اسکے ڈائننگ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔ iam not intrested any more. ابصار نے آیت کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔۔۔۔ what ??are you .....?? آیت کے اتنے الفاظوں پر ابصار نے سر اٹھا کر اسے وارننگ والی نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔ وہ میرا مطلب تھا کہ ۔۔ are you seroius ?.. ابھی تو آپ کو لنچ کرنا تھا اور اب آپ کو انٹرسٹ نہیں ہے ۔۔۔کیا صرف مجھے تنگ کرنا چاھتے تھے آپ ۔۔؟؟۔ آیت کو کچھ دیر پہلے والا سین یاد آیا ۔۔۔جہاں گرینی بیٹھی اسکی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھیں ۔۔۔ you're 2minutes late .. سو ۔۔اب میں نہیں کھاؤں گا ۔۔۔۔ابصار نے اپنا سر دوبارہ نیچے کر لیا ۔وہ کوئی فائل ریڈی کر رہا تھا شاید ۔۔۔ سر میں پورے ٹائم پر ہوں ۔۔آپ نے مجھ سے باتوں میں ٹائم خود برباد کیا ہے ۔۔اور ابھی گرینی کے ساتھ آپ نے سینڈوچ لیے تھے ابھی آپ صرف مجھے تنگ کر رہے ہیں وہ برتن سمیٹتی ہوئی بولے جا رہی تھی ۔۔۔ شٹ اپ ۔۔۔۔ اسکی گرج دار آواز پر آیت ادھر ہی سٹل ہوئی ۔۔۔ "sit" ابصار نے اشارہ کیا ۔وہ خاموشی سے بیٹھ گئی ۔۔ "eat" ابصار نے دوبارہ حکم دیا ۔۔۔ کیا ؟؟؟سر میں ۔۔۔؟؟۔۔۔آیت کو حیرت ہوئی ۔۔۔ yes you.!!. میں حرام کی کمائی نہیں کما رہا جو پہلے کافی اور اب یہ پھینک دو گی ۔۔یہ تمہارے باپ کا مال نہیں ہے ابصار عالم کا مال ہے ۔۔ اب تم یہی کھاؤ گی ۔۔۔۔ورنہ تمہاری سلیری کٹے گی ۔۔۔ بیٹھو اور کھاؤ ۔۔۔ وہ اسے آرڈر دیتا اسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ آیت نے ایک لمبی سانس بھری ۔۔۔میں کیسے کھاؤں گی سر ۔۔۔۔ آیت نے کمزور سا احتجاج کیا ۔۔۔۔ منہ سے ۔۔۔۔ ابصار اسکی خود کلامی سن چکا تھا ۔۔۔ آیت بڑی بے دلی سے سینڈوچ کا بائٹ لیا ۔۔۔گندا سا منہ بنایا اسے چیز بچپن سے ہی پسند نہیں تھا ۔۔۔وہ گندے گندے منہ بناتی سینڈوچ نیگل رہی تھی ۔۔ ابصار نے اسے ایک نظر اٹھا کر دیکھا جو سینڈوچ کے ساتھ الجھی ہوئی اس وقت تھوڑی دیر پہلے کا ہوا واقعہ بھول گئی تھی ۔۔۔۔اسکے الٹے سیدھے منہ بنانے پر ابصار نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنی مسکراہٹ کو چھپاتا ہوا اپنے کام میں پھر سے مگن ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥 جاری ہے ۔۔۔۔
❤️ 👍 💕 🖤 11

Comments