
سبق آموز واقعات وحکایات
February 22, 2025 at 12:24 AM
ناول میرا نام ہے محبت ۔
قسط 14۔
رائٹر سنیہ شیخ ۔
تابش کی گاڑی دھیرے دھیرے شہر کی سڑکوں پر رواں دواں تھی، مگر اس کا ذہن مسلسل الجھا ہوا تھا۔ نور کو فلیٹ میں شفٹ کروانے کا فیصلہ اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ ایک طرف موسیٰ تک پہنچنے کا مشن تھا، تو دوسری طرف نور جیسی لالچی لڑکی پر بھروسہ کرنے کا خطرہ۔
گاڑی کے اندر ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تابش کا ذہن بار بار نور کی باتوں کی گونج سن رہا تھا .
"دبئی کا چکر، علیحدہ گھر، شاپنگ۔انھ بڑی آی کوئی شہزادی ۔۔۔
اس نے جھنجھلا کر خود سے کہا
"یہ لڑکی ہر بات کو مزاق میں لے رہی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر موسیٰ کو پیسوں کے لالچ میں کچھ بتا دیا تو کیا ہوگا؟ سب کچھ برباد ہوجائے گا۔"۔
کیا کروں ۔۔کیا کروں ؟؟؟
وہ خود سے سوال کرتا مسلسل اپنے سر ایک انگلی سے مسل رہا تھا ۔۔کہ اچانک ایک آئیڈیا اسکے دماغ میں کلک ہوا ۔۔اگر میں نور کو اپنے گھر لے جاؤں تو ۔۔؟؟؟
نظر بھی رہے گی اور موسیٰ سے حفاظت بھی ۔۔ اس وقت کسی پر بھی اعتبار کرنا بے وقوفی ہے ۔۔۔
تابش نے گہری سانس لیتے ہوئے فون نکالا اور اپنی ماں کو کال ملائی۔ فون کی دوسری جانب ماں کی آواز آئی ۔
"کہو، تابش، خیریت؟ آج ماں کو فون کیوں خیر تو ہے ؟"۔
تابش نے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔
"امی، ایک ضروری بات کرنی تھی... آپ گیسٹ روم صاف کروا دیں۔ دو لڑکیاں کچھ دن کے لیے ہمارے گھر رہیں گی۔ سیکورٹی ایشوز ہیں، اس لیے انہیں ہمارے ساتھ رکھنا ضروری ہے۔"۔
"دو لڑکیاں؟ سیکورٹی؟ یہ کیا چکر ہے، تابش؟ کہیں شادی تو نہیں کر لی؟"۔
ماں نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔
تابش نے پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا
"امی، ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ لڑکیاں ایک کیس کی وجہ سے خطرے میں ہیں، اس لیے انہیں محفوظ جگہ پر رکھنا ضروری ہے۔ یہ بس پروفیشنل معاملہ ہے۔"۔
"پروفیشنل معاملہ؟ کاش تم کبھی اپنے لیے بھی کوئی پروفیشنل فیصلہ کر لیتے اور میری بہو لے آتے۔ گدھے کہیں کے! خیر، ٹھیک ہے، میں گیسٹ روم صاف کروا دیتی ہوں۔ لیکن یاد رکھنا، میں نے بھی ان لڑکیوں میں سے کوئی پسند آگئی مجھے تو تمہاری خیر نہیں بیٹا ۔"۔
شائستہ بیگم نے اسے چھیڑا ۔
"امی، اس وقت آپ پولیس والے کی ماں لگ رہی ہیں ۔ تفتیش کرتی ہوئی ۔ آپ تو بہت اچھی انٹروگیشن کر لیتی ہیں ۔"۔
تابش نے ہنس کر کہا ۔۔
"بس زیادہ باتیں مت کرو۔ جلدی سے انہیں لے کر آؤ، اور ہاں، کھانے کے لیے کچھ لے آنا
میں نے کچھ نہیں بنایا ۔
تابش نے نظریں اوپر اٹھائیں اور گہری سانس لے کر گاڑی اسٹارٹ کی۔ وہ جانتا تھا کہ نور کی شوخی اور اس کی ماں کا مزاحیہ انداز مل کر گھر میں کچھ گڑ بڑ ضرور کریں گے ۔
دو منٹ بعد ہی وہ نور کے ہوسٹل کے باہر تھا جہاں نشا اور نور پہلے سے انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
بیٹھو گاڑی میں ۔وہ نور کو بغیر دیکھے ہی حکم دیتا ہے ۔۔۔
نور اور نشا کے ہاتھ میں بیگز نور نے وہ پیچھے نشا کے پاس سیٹ پر رکھے اور خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔۔ تابش نے ایک غلط نگاہ بھی اس پر نہ ڈالی اور گاڑی چلائی ۔۔
نور نے ترچھی نظر سے اس اکڑو پولیس والے کو دیکھا جو دکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہینڈسم تھا مگر مجاز اسکے ساتوے آسمان پر ہوتے تھے ۔۔۔پولیس کی یونیفورم میں وہ قهر ڈھاتا تھا اس پر غضب اسکے گلاسز ۔۔۔
باڈی بلڈر والا اسکا سراپا کسی بھی لڑکی کو پاگل کرنے کے لیے بہت تھا ۔۔۔
نور نے گلا صاف کرتے ہوئے اسے متوجہ کیا ۔۔۔۔۔
اہمہم ھم ۔۔۔کیا آج آپ مرچیں چبا کر بیٹھے ہیں مسٹر پولیس والے ۔۔۔اتنے کڑوے مجاز ۔۔۔
جیسے کریلا کھا لیا ہو ۔۔۔نور نے اسے اکسایا کہ وہ کچھ بولے مگر وہ ہنوز گاڑی چلاتا رہا ۔۔۔
اسکی خاموشی نور کو بری لگ رہی تھی ۔۔
نشا بھی اسکی خاموشی پر حیران تھی ۔۔۔
مگر اسنے تابش کو چھیڑنا مناسب نہ سمجھا ۔۔۔۔نور کی زبان میں کھجلی ضرور ہورہی تھی ۔۔۔
وہ پھر بولی ۔۔۔
فلیٹ کہاں ہے ہمارا ؟؟اور اسکے ڈاکیومینٹس
کہاں ہیں ؟؟مجھے چیک کروانا ہے لیگل ہے یا نہیں ۔۔۔نور نے اپنے شولڈر سے بال پیچھے کرتے ہوئے ایک ادا سے کہا ۔۔۔
تابش نے ایک نظر نور پر ڈالی جو بلیک جینس پر بلیک ٹی شرٹ پہنے ہوئی تھی ۔۔جس پر دو بلياں بنی ہوئی تھیں ۔۔۔۔
اپنی ماں کے سامنے اس قسم کے لباس میں اسے لے کر جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ خود کو کہنے سے روک نہ سکا ۔۔۔
تم ڈھنگ کے کپڑے نہیں پہن سکتیں چھوٹی بچی ہو جو اس قسم کے فضول کپڑے پہن لیتی ہو ۔۔۔
نور نے اسکی بات ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات دوہرای ۔۔۔
میری ڈریسنگ کا میرے فلیٹ سے کیا تعلق میں جو مرضی پہنوں میرا نہیں خیال کسی کو بھی اعتراض کا حق ہے ۔۔۔آپ مجھے میری بات کا جواب دیں ۔۔۔میرا فلیٹ ؟؟؟
تابش نے اپنی گرفت سٹیئرنگ پر مظبوط کی ۔۔۔غصے سے اسکی رگیں تن گیں ۔۔
ابھی کچھ لیگل کام ہیں جن کی وجہ سے ٹائم لگے گا ۔۔مگر جب زبان دی ہے تو ہر چیز ملے گی سواے دبئی کی ٹکٹ کے تم جیسے چوروں پر پابندی ہے ادھر ۔۔۔تابش نے نور پر چوٹ کی ۔۔
میری ڈیمانڈ پوری ہوگی تو ہی میں کام کروں گی ۔۔میرے ساتھ دھوکہ کیا تو آپ سب پولیس والے موسیٰ کو پکڑنے کے خواب ہی دیکھنا ۔۔۔۔
نور کی بات پر تابش نے بریک لگاے ۔۔۔
گاڑی جھٹکے سے رکی ۔۔ نور کا سر ڈیش بورڈ سے لگتے لگتے بچا ۔۔۔نشا کی چیخ نکلی ۔۔۔
اپنی بکواس بلکل بند ۔۔۔اب یہ بات اگر دوبارہ کی تو ایسے الزام میں جیل میں ڈال دونگا کہ سورج کی روشنی کو بھی ترس جاو گی ۔۔۔مجھے تم پر بلکل بھروسہ نہیں ۔۔۔نہ اعتبار ۔۔۔اپنے فون مجھے دو دونوں ۔۔۔ تابش کی دھاڑ پر نشا نے تو اپنا موبائل اسکے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔نور نہ ہلی ۔۔۔
اپنا موبائل دو مجھے ابھی ۔۔تابش کو اس ڈھیٹ لڑکی پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا ۔۔۔
نہیں میں کیوں دوں ۔۔ ہماری ایسی کوئی ڈیل نہیں ہوئی تھی ۔۔جتنی بات ہوئی تھی اس پر قایم رہیں آپ ۔۔نور نے کانفیڈنس سے کہا ۔۔۔
جسٹ شٹ اپ ۔۔فون دے رہی ہو یا لگاؤں ایک ۔۔۔تابش اپنی پولیس والی ٹون میں بولا تو نور نے فون رکھ دیا اسکے ہاتھ پر ۔۔۔
نور بیبی ۔۔میری باتیں غور سے سنو ۔۔
میں تم دونوں کو اپنے گھر لے جارہا ہوں وہاں تم دونوں پر ہر وقت نظر رہے گی ۔۔۔۔
کوئی گڑبڑ کی یا کوئی ہوشیاری دکھائی تو یاد رکھنا کسی کو لاش بھی نہیں ملے گی تمہاری ۔۔۔ہر وقت کیمرے تم دونوں پر نظر رکھے ہونگے ۔۔۔باہر نہیں جاؤ گی بلکل بھی پولیس کے گارڈز ہر وقت کھڑے رہیں گے باہر ۔۔۔۔
مجھے آپ کے ساتھ کوئی کام نہیں کرنا میں نہیں کروں گی کوئی بھی ڈیل ۔۔آپ گاڑی روکیں ۔۔ابھی ہمیں اتاریں ۔۔کہیں نہیں جانا ہمیں ۔۔۔نور کو تابش کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے ۔۔۔
چپ چاپ بیٹھی رہو ۔۔ورنہ دبئی جانے کے لیے ٹانگیں سلامت نہیں رہیں گی تمہاری ۔۔۔
تابش نے نور کو سنجیدہ انداز میں دیکھا اور بولا ۔۔۔
"نور،دیکھو تمہاری بھلائی ہے اس میں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم میرے گھر رہو گی۔ یہاں سیکورٹی کے مسائل بڑھ سکتے ہیں، اور مجھے کوئی خطرہ مول نہیں لینا۔"۔۔موسیٰ کو جیسے تمہارا پتہ چلا وہ کتوں کی طرح ڈھونڈے گا تمھیں ۔۔۔فیصلہ تمہاری حفاظت کے لیے ہے۔
نور نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا ۔
"ہا، حفاظت کے لیے؟ یا یہ کہیں کہ آپ کو ڈر لگ رہا ہے کہ میں آپ کے کیس میں کوئی گڑبڑ نہ کر دوں؟ سچ بتایں، پولیس والے ہو کر اتنے خوفزدہ؟"۔
"نور، یہ ڈر یا خوف نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری ہے۔ اور ہاں، تمہاری حرکتوں کو دیکھ کر، مجھے تم پر نظر رکھنی پڑے گی۔ تمہاری زبان اتنی خطرناک ہیں جتنی موسیٰ کی گولی!"۔
ٹھیک ہے، اگر آپ گھر جانا پڑا تو یاد رکھنا، میں کسی گیسٹ کی طرح نہیں، گھر کی مالکن کی طرح رہوں گی۔"۔نور نے احسان کرتے ہوئے کہا ۔۔
تابش نے سخت لہجے میں جواب دیا
"تم پہلے اپنے مزاج پر قابو پا لو، پھر یہ خواب دیکھنا۔ اور ہاں، میری امی کے سامنے زیادہ زبان چلائی تو وہ خود تمہیں ٹھیک کر دیں گی۔"۔گھر کی مالکن گھر میں موجود ہیں ۔۔
"میں اکیلی نہیں جاؤں گی، میرے ساتھ نشا بھی جائے گی۔ یہ شرط ماننی پڑے گی، تابش صاحب!"۔۔۔۔
نور نے تابش کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔
تابش نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
"مجھے معلوم تھا کہ تم ایسی کوئی نہ کوئی شرط ضرور لگاؤ گی۔ تمہارے لیے بندوبست ہو چکا ہے۔ نشا بھی ساتھ جائے گی۔ خوش؟"۔
بالکل خوش! آپ نے مان لیا، تو اب ہم دونوں آپ کے گھر کی رونق بڑھائیں گی۔"۔
نور نے فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا
تابش کا دل کیا کہ وہ نور کا گلا دبا دے، لیکن اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا
"نور، تم میری برداشت کو کسی انتہا پر لے جا رہی ہو۔ اگر یہ کوئی معمولی معاملہ ہوتا، تو شاید میں اب تک..."۔
نور نے بات کاٹ کر کہا
"اب تک کیا؟ تابش صاحب، آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے ہو"۔
"گیم تو ابھی شروع ہوا ہے، تابش صاحب۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔"۔
نور نے معصومیت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا
تابش نے بحث کرنے کے بجاے گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے گھر کی طرف رخ موڑا ۔۔۔۔۔
😁😁😁😁😁😁😁😁😁😁😁😁
آفس کی گھڑی نے چھ بجائے تو آیت نے اپنی میز پر بکھرا سامان سمیٹنا شروع کیا۔ وہ دن بھر کے کام سے تھک چکی تھی اور جلدی گھر جا کر سکون کا سانس لینا چاہتی تھی۔ روبی، پہلے ہی اپنا بیگ اٹھا کر جا چکی تھی۔ آیت نے ابھی کرسی سے اٹھنے کا سوچا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔
وہ سمجھی روبی کچھ بھول گئی ہے وہی ہوگی آیت نے کال اٹھائی ۔۔
"ہاں، روبی؟ کچھ بھول گئی ہو؟"
دوسری طرف روبی نہیں، بلکہ باس، ابصار عالم کی آواز تھی۔۔سرد ۔۔ گہری سمندر جیسی آواز ۔۔۔
"آیت، میرے کیبن میں آو ۔ ۔"
آیت نے چونک کر فون رکھا۔ وہ الجھن میں تھی کہ ابصار نے اسے اس وقت کیوں بلایا، جب چھٹی کا وقت ہو چکا تھا۔ وہ تھکی ہوئی قدموں سے وہ ابصار کے کیبن کی طرف گئی۔ دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہوئی۔
"جی سر، آپ نے بلایا؟"
ابصار نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں بولا ۔
" تم گھر نہیں جا رہیں۔ ایک اہم میٹنگ ہے، اور مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ گھر فون کر کے بتا دو کہ آج تم گھر نہیں جاؤ گی ۔۔"۔
یہ سنتے ہی آیت کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ اس نے آنکھوں میں الجھن لیے سوال کیا
"یہ کیا بات ہوئی، سر؟ میری تو چھٹی ہو چکی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں دن بھر کام کر چکی ہوں۔ یہ تو... زیادتی ہے!"۔
اسکی بات پر ابصار کے کچھ لکھتے ہوئے ہاتھ رکے وہ سیدھا ہوا پین کو کیپ لگایا ڈسک پر رکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیا اور آیت کو اپر سے لے کر نیچے تک غور سے دیکھا ۔۔۔
" یہ آفس ہے۔ یہاں کبھی بھی کام کا وقت ختم نہیں ہوتا۔ میں تم سے توقع رکھتا ہوں کہ آیندہ پروفیشنل رہو گی اور کمپنی اور میری ضروریات کو سمجھو گی۔"۔آخری بات پر آیت کو لگا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔
آپ ؟؟؟آپ کی کونسی ضروریات ہیں ۔۔۔؟؟
آیت اٹک اٹک کر بولی ۔۔
جس اگریمنٹ کا سکرین شاٹ لیا تھا وہ نکال کر دیکھو میری کونسی ضروریات ہیں ۔۔۔ابصار نے اب اپنی ایک ٹانگ دوسری پر رکھی ۔۔۔
نہیں ۔!!۔ہر گز نہیں ۔۔میں اگر آپ کی سب باتیں مان رہی ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کا جو جی میں آے گا آپ منوا لیں گے ۔۔میں ہرگز نہیں مانو گی نہ گھر سے باہر روکوں گی ۔۔۔آیت نے ٹیبل پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔
ابصار اپنی چیئر سے اٹھا ۔۔۔۔
فون اٹھایا ۔۔۔ ایک کال لگائی ۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ایک ایڈریس بھیج رہا ہوں
وہاں جو جو ہے ان سب کو اٹھا کر پانی میں پھینک دینا ۔۔اور دیکھنا کوئی زندہ نہ بچے ۔۔۔
آیت کی ریڑہھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی ۔۔خوف سے اسکی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں ۔۔۔آپ ۔۔آپ اتنے ظالم کیوں ہیں ۔۔آپ ایسے کیسے ان سب کو مار سکتے ہیں آخر آپ کا بگاڑا کیا ہے ۔۔آیت جذباتی ہوئی ۔۔۔
ابصار اسکے قریب آکر کھڑا ہوا ۔۔۔۔
جب تمیز سے بات نہیں مانو گی تو دوسرا راستہ تو اپنانا پڑے گا اور انکو مار کر مجھے خوشی نہیں ہوگی ۔۔۔تمہاری امی ۔۔۔کافی ناءس لیڈی ہیں ۔۔۔ابصار نے آیت کے بال اسکی گردن سے ہٹاے ۔۔۔آیت اچھل کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔
میں میٹنگ میں جاؤں گی مگر دوسری شرط نامنظور ہے ۔۔۔آیت نے اپنی سرخ آنکھوں ابصار کو گھورا جس کا اس پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوا ۔۔
قیس کے ساتھ تو تم ساری ساری رات سڑکوں پر گھومتی تھیں ابھی تو وہ تمہارا شوہر بھی نہیں تھا ۔۔اور میں تمہارا لیگل ہسبنڈ تمھیں برا لگ رہا ہوں ۔۔لکس میں بھی میں قیس سے بہت آگے ہوں اور دولت کا تو کوئی مقابلہ نہیں ۔۔ پھر مجھ سے اتنی دوری کیوں ؟؟۔ابصار نے اسے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا ۔۔۔
میرا ہاتھ چھوڑیں آپ ۔۔آپ بلکل اچھے نہیں ہیں مجھے زہر لگتے ہیں قیس ہر لحاظ سے اچھا تھا ۔۔ایسی خوبصورت شکل کا کیا کرنا جو اپر سے چٹی ہے مگر اندر سے کالی اندهیر ۔۔۔۔آیت اپنی توہین پر بلبلا اٹھی ۔۔۔
قیس نے تمھیں خریدا تھا بدلے میں اپنی دولت لٹانا چاہتا تھا تمہاری فیملی کو سپورٹ کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔۔۔۔۔اور تم نے چپ چاپ اپنے مستقبل کے لیے خود کو بیچ دیا اسکے آگے ۔۔۔ابصار اسکے کان کے قریب پھنکارا ۔۔۔
اپنے الفاظوں کو درست کریں مسٹر ابصار میری مجبوری تھی میرا باپ مر رہا تھا کیا کرتی پھر ۔۔باپ کو مرتا دیکھتی ۔۔۔بہن بھائی کو روٹی کے لیے ترستا دیکھتی ۔۔۔کیا کرتی ۔۔۔آیت کی آواز اونچی ہوئی تو ابصار نے اسکا چہرہ دبوچ لیا ۔۔۔
آواز نیچی ۔۔۔آیندہ آواز اونچی کرو گی تو یہ آواز بند کر دوں گا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔
تم جیسی بیوقوف عورتیں مردوں کے ہاتھوں کھلونا بنتی ہیں ۔۔۔قیس نے تمھیں چھوا نہیں اتنا مجھے یقین ہے ۔۔لوگوں کو انکی آنکھوں سے پڑھ لیتا ہوں میں ۔۔۔مگر اتنا جان لو کہ قیس زندہ رہتا تو تم مر جاتیں ۔۔۔ابصار نے اسکا چہرہ جھٹکے سے چھوڑا ۔۔۔
کیا ۔۔۔کیا مطلب ہے اس بات سے ؟؟؟
آیت ہکلای ۔۔۔۔
ابصار نے اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
اگر حادثے ہوتے ہوتے بچ جایئں تو سمجھ لو کہ تم پر اللّه کا خاص کرم ہے ۔۔۔۔تم بچ گئیں ۔۔۔قیس کو ایڈز تھا ۔۔۔۔
آیت کو لگا جیسے اس نے کچھ غلط سنا ۔۔
وہ آنکھیں پھاڑے ابصار کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
اب جاؤ جلدی سامان سمیٹ لو تمہاری امی کو میں خود انفارم کردوں گا ۔۔۔
now get ready fast ....
کیا کہا ؟؟؟قیس کو ایڈز تھا ۔۔؟؟؟
وہ اسکی کوئی بات سن ہی کہاں رہی تھی ۔اسکا دهيان تو ایک ہی بات میں اٹک گیا تھا ۔
آپ سچ ۔۔۔س ۔۔سچ بول رہے ہیں ؟؟؟
ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔اتنا بڑا جھوٹ ۔۔۔فراڈ ۔۔۔۔
نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا میں نہیں مان سکتی ۔۔
آیت کے لیے یہ بات ناقابل ے قبول تھی کہ قیس اس سے اتنی بڑی بات بھی چھپا سکتا تھا ۔۔۔
آیت تم کو کس بات کا افسوس ہے اب قیس کے مرنے کا یا اس کے ایڈز کا ؟؟؟۔۔۔
تم تو دونوں چیزوں سے بچ گئی ہو ۔۔قیس نے تو تو کبھی تمھیں نہیں چھواہ تو یہ ماتم مننانا بند کرو اور جا کر تیار ہوجاؤ ۔
ابصار کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا کہ وہ قیس کی پرانی باتیں آیت سے کرے ۔
آیت ٹکٹکی باندھے ابصار کو دیکھ رہی تھی جو منہ میں آتا ہے یہ شخص بول دیتا ہے اتنا خیال بھی نہیں رکھتا کہ مقابل کوئی عورت ہے ۔۔۔آیت کو دھچکا لگا تھا ۔۔شدید ۔۔۔اگر قیس لے جاتا شادی کر کے پھر ؟؟؟رخصتی ہو جاتی تو ؟؟؟؟
اور قیس وہ کیوں اسکی زندگی خراب کرنا چاہتا تھا بہت سارے سوالوں کا جواب اسے چاھئیے تھا مگر وہ کس سے پوچھتی ۔۔۔۔۔
آیت کسی اور دنیا میں کھوئی ہوئی دروازے کے پاس پوھنچی کہ ابصار نے اسے پکارا ۔ ابصار کی آواز نے اس کے قدم روکے ۔۔۔
آیت اپنا منہ فریش کرو ۔۔تم اب قیس کی بیوہ نہیں ابصار عالم کی بیوی ہو ، ۔
روبی تمہارا آوٹ فٹ رکھ چکی ہے باہر
پہنو اور اچھے سے ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔یہ بہن جی والا منہ نہیں چاہئے مجھے ۔۔۔
ابصار کی باتیں اسے دوبارہ اپنی ٹون میں واپس لے آیں ۔۔۔
میرا منہ بہن جی جیسا تھا تو آپ نےبھی بہن بنانا تھا مجھے شادی نہ کرتے زبردستی نکاح تو ایسے کیا تھا جیسے لڑکیوں کا کال پڑ گیا تھا آپ کے لیے ۔۔۔۔
دونوں بھائیوں کو صرف پوری دنیا میں میں ہی کیوں نظر آتی ہوں ۔۔
آیت بغیر ڈرے بولی ۔۔۔۔
ابصار نے پلٹ کر اپنی بدتمیز بیوی کو دیکھا جو اسے آگ لگا کر خود باہر نکل گئی تھی ۔۔۔
بے وقوف عورت ۔!!!!۔
اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کا بھلا کیا جاے ۔کرتا ہوں سیدھا اسے ۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
جاری ہے ۔
❤️
👍
💕
😂
4