
سبق آموز واقعات وحکایات
February 26, 2025 at 08:38 AM
*بیٹی کس کی ہے؟*
کسی گاؤں میں ایک پہلوان رہتا تھا۔ طاقت، بہادری اور غیرت میں اپنی مثال آپ۔ لوگ اس کا نام سن کر ہی مرعوب ہو جاتے۔ مگر اس کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بیٹی تھی، جسے اس نے نازوں میں پالا تھا۔ وہ گلاب کی پنکھڑی جیسی نرم، چاند کی روشنی جیسی معصوم، اور تتلی کی طرح بے حد خوبصورت تھی۔
بیٹی جوان ہوئی تو پہلوان کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ چونکہ وہ خود ایک زور آور مرد تھا، اس لیے اپنی بیٹی کے لیے بھی ایک ایسا ہی مضبوط، قد آور، اور طاقتور پہلوان داماد پسند کیا۔ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی، اور پہلوان نے اپنی لختِ جگر کو دعاؤں کے سائے میں رخصت کر دیا۔
مگر ابھی چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ بیٹی زخموں سے چور میکے لوٹ آئی۔ شوہر نے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا تھا کہ اسے گھرداری کے کام نہیں آتے۔ پہلوان کا دل زخمی ہو گیا، مگر خاموش رہا کہ معاملہ طول پکڑنے سے بیٹی کی عزت پر آنچ آئے گی۔ اس نے بیوی کو حکم دیا کہ بیٹی کو ہر وہ کام سکھائے جو ایک گھریلو عورت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یوں بیٹی نے جھاڑو پونچھا، کھانا پکانا، گھر سنوارنا سب سیکھ لیا۔
کچھ ماہ بعد صلح ہوئی، داماد کو بلایا گیا، معافی مانگی گئی کہ لاڈ پیار میں گھرداری نہ سکھائی۔ بیٹی پھر سے رخصت ہو گئی۔ مگر یہ خوشی زیادہ دن قائم نہ رہی۔ چھ ماہ بعد وہ پھر زخموں کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھی۔ اس بار شکایت تھی کہ اسے سینا پرونا نہیں آتا۔ پہلوان کا دل مزید دکھی ہوا، مگر اس نے کچھ نہ کہا۔ ماں نے بیٹی کو سلائی، کڑھائی، گوٹہ کناری، رضائیاں بچھائیاں، حتیٰ کہ پراندے اور ازار بند بنانے تک سکھا دیے۔ پھر داماد کو بلایا، پھر معافی مانگی، اور بیٹی کو ایک بار پھر رخصت کر دیا۔
مگر قسمت کو شاید ابھی اور امتحان لینا تھا۔ چند مہینے بعد بیٹی پھر واپس آئی۔ اس بار شوہر کی شکایت تھی کہ اسے کھیتوں کا کام نہیں آتا، گائے بھینسوں کا دودھ دوہنا نہیں آتا۔ پہلوان نے کچھ نہ کہا، بس بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھیتوں میں لے گیا۔ وہاں اسے ہل چلانا، فصل کاٹنا، جانوروں کی دیکھ بھال سب سکھا دیا۔ پھر بیٹی کو الوداع کیا، یہ سوچ کر کہ اب شاید شوہر کو کوئی شکایت نہ ہو۔
لیکن قسمت کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟ کچھ دن بعد وہ پھر آنسوؤں میں بھیگی در پر کھڑی تھی۔ باپ نے پوچھا، "اب کیا ہوا؟"
بیٹی نے روتے ہوئے کہا، "اب کہتا ہے کہ آٹا گوندھتے وقت میں بہت ہلتی ہوں!"
یہ سن کر پہلوان ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔ اب اسے ساری بات سمجھ آ گئی تھی۔ بیٹی کے شوہر کو کام کی کمی نہیں، بلکہ عادت پڑ گئی تھی مارنے کی۔ وہ طاقت کے زعم میں بیوی پر رعب جمانے کو اپنا حق سمجھ بیٹھا تھا۔
اس رات پہلوان نے فیصلہ کر لیا۔ اس نے داماد کو بلا کر دروازے پر روک دیا اور کہا، "ابھی واپس چلا جا۔ اور آج کی تاریخ یاد رکھ! پورے دو سال بعد آنا اور آ کر اپنی بیوی کو لے جانا۔ اگر اس سے پہلے مجھے یہاں نظر آیا تو ٹانگیں تڑوا کر بھیجوں گا!"
داماد حیران رہ گیا، مگر انا کے مارے خاموشی سے لوٹ گیا۔
پھر دو سال گزر گئے۔
ان دو سالوں میں پہلوان ہر صبح اندھیرے میں بیٹی کو کھیتوں میں لے جاتا اور سورج نکلنے پر واپس بھیج دیتا۔ ماں نے کئی بار پوچھا مگر باپ نے راز نہ کھولا۔
پھر وہ دن آیا جب داماد مقررہ وقت پر بیوی کو لینے آیا۔ باپ نے ہنسی خوشی بیٹی کو رخصت کیا۔
چند دن سب ٹھیک رہا۔ مگر پھر ایک دن داماد کی پرانی عادت جاگ اٹھی۔ وہ غصے میں چیخا، چِلایا اور بیوی پر ہاتھ اٹھانے کے لیے بڑھا۔ مگر اس بار کہانی کچھ اور تھی!
جیسے ہی اس نے ہاتھ بڑھایا، بیوی نے بجلی کی سی تیزی سے اس کا بازو پکڑا اور ایک زور دار جھٹکے سے زمین پر پٹخ دیا۔ شوہر حیران رہ گیا۔
بیوی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، "جانتا ہے نا، میں بیٹی کس کی ہوں؟"
داماد کی آنکھوں میں خوف اُتر آیا۔ اسے سمجھ آ گیا تھا کہ ان دو سالوں میں باپ نے بیٹی کو کیا سکھایا ہے۔ اس کے بعد وہ کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکا، اور بیٹی کبھی دوبارہ مار کھا کر میکے نہیں آئی۔
باپ نے بیٹی کو کیا سکھایا؟
یہی کہ ہر چیز ماں کے سکھانے کی نہیں ہوتی، کچھ باتیں اور کچھ اعتماد باپ بھی بیٹیوں میں پیدا کرتا ہے۔ اس دنیا میں ہر بیٹی کو خود کی حفاظت کرنا آنی چاہیے، کیونکہ زندگی میں کچھ جنگیں خود لڑنی پڑتی ہیں!
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1196
👍
❤️
😂
🙏
33