
سبق آموز واقعات وحکایات
February 26, 2025 at 05:28 PM
ناول میرا نام ہے محبت ۔
قسط نمبر 15۔
از قلم سنیہ شیخ ۔
بے دلی سے آیت نے خود کو مرر میں دیکھا ۔۔
ابصار کے دئے گئے ڈریس میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔۔بلیک كلر کی ٹیل سٹائل کی میکسی تھی اس کے ساتھ مچینگ ھیلز اور پرس ۔۔۔۔
آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے آیت نے منہ بنایا اور خود سے کہا ۔
"بہن جی نہ لگنا... واقعی؟ جیسے خود کوئی شہزادہ چارلس ہیں۔ مصیبت کہاں کہاں لے کر جائیں گے مجھے؟"۔کہاں پھس گئی ہوں میں ۔۔لباس اس کے مزاج سے بالکل مختلف تھا، مگر اسے پہن کر وہ واقعی مختلف لگ رہی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ اس نے اس طرح کا فارمل لباس پہنا تھا۔وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔
جب وہ میٹنگ کے لیے تیار ہو کر ابصار کے سامنے آئی تو ابصار، جو اپنے موبائل پر مصروف تھا، نظر اٹھا کر دیکھتے ہی رک گیا۔
اسکی نظریں اسکے وجود میں کہیں کھو گئیں ۔۔ابصار کے ہارٹ بیٹ مس ہوئی ۔۔۔اسنے اپنی شرٹ کا اپر والا بٹن کھولا اور اپنی ہلکی سی بیرڈ پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔وہ خود کو ریلكس کر رہا تھا ۔۔۔
"یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی خوبصورت لگ سکتی ہے۔"۔ابصار نے اپنا سر چیئر سے لگایا اور اسے دیکھنے لگا جیسے سامنے کوئی مووی سٹارٹ ہوئی ہے ۔۔
"دیکھتے ہی رہیں گے یا چلیں گے بھی؟"
آیت نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔ وہ ابصار کی نظروں کو محسوس کر کے گھبرا رہی تھی ۔
اب کچھ انسان لگ رہی ہو ۔۔۔۔ابصار عالم کی ورکر ۔۔۔ابصار نے اپنے ازلی سرد پن سے کہا ۔اور چیئر سے کھڑا ہوا ۔۔۔۔چیئر کی بیک سے اپنا کوٹ اٹھایا اور پہنا۔اپنے بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کیا ۔۔۔۔اپنے ڈسک سے اپنی برانڈڈ پرفیوم نکالی خود پر سپرے کی ۔۔۔
اپنی برانڈڈ واچ اپنی لفٹ کلائی میں باندھی ۔۔۔۔آیت اپنی نظریں جھکا چکی تھی ۔۔جتنا بھی روڈ اور بد تمیز تھا مگر خوبصورت وہ بلا کا تھا ۔۔
ادھر آو ۔۔۔۔ابصار کی آواز پر آیت نے سر اٹھایا ۔۔۔مگر وہ کھڑی رہی جیسے سنا ہی نہیں ۔۔
ابصار نے اب کے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا پاس بلانے کا ۔۔
وہ قریب آی تو ابصار دو قدم چلتا ہوا اور قریب آیا ۔۔۔
آیت نے قدم پیچھے کی طرف کئے ۔۔۔۔
میرے کوٹ کے بٹن بند کرو ۔۔۔اس نے آیت کو حکم دیا ۔۔۔
آیت کے ماتھے پر ناگواری کے بل آے ۔۔
آپ نے مجھے اپنے کوٹ کے بٹن بند کرنے کے لیے نہیں رکھا ،نہ ہی میں کروں گی آیت نے صاف انکار کیا ۔۔
تو ٹھیک ہے تمہاری ایک پکچر تمہاری امی کو تو بھیجوں انکو پتا لگے کتنی محنت کرتی ہے انکی بیٹی ۔ابصار اسے دهمكا رہا تھا ۔۔۔۔
ابصار کی بات پر اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔۔
مسٹر ابصار آپ اب میری بے بسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔۔میں آپکے کسی بھی اگریمنٹ پر عمل نہیں کروں گی ۔۔۔نہ آپ کی پابند ہوں ۔۔۔
اگریمنٹ کا تو ابھی کوئی بھی پوانٹ میں نے نہیں رکھا تمہارے سامنے ۔۔۔اور تم میری کسی بات سے انکار نہیں کرسکتیں ۔۔کر کے دیکھ لو پھر انجام بھی بهگت لینا ۔۔ہو اتنی بہادر ۔۔۔ابصار نے اسکی دکھتی رگ پر پیر رکھا ۔۔
آرہی ہو یا فون اٹھاؤں ۔۔وہ دبا دبا چلایا ۔۔۔
مرے ہوئے دو قدم اسکی طرف بڑھاتی ہوئی اپنے کانپتیے ہاتھوں سے اس کے کوٹ کی طرف بڑھی ۔۔۔ابصار اپنے دونوں ہاتھ پاکٹ میں ڈالے اسکی حالت نوش فرما رہا تھا ۔۔۔
کوٹ کے بٹن بند کرنے کے لیے اسے اسکے قریب آنا پڑا ۔۔ابصار کی لگائی ہوئی خوشبو اسکے حواس سلب کر رہی تھی ۔۔اس نے مشکل سے دو بٹن بند کئے تو ابصار نے جھٹکے سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنی طرف کھینچا کہ وہ سینے سے جا ٹکرای ۔۔۔ایک ہلکی سی چیخ اسکے منہ سے برآمد ہوئی ۔۔۔
آیندہ مجھے انکار کرنے سے پہلے سوچ لینا کہ تم کس کے سامنے کھڑی ہو ۔صرف دو منٹ میں تمہارا حشر بگاڑ دوںگا ۔صرف دو منٹ ۔۔
اپنے یہ خالی دماغ میں میری بات بٹھا لو کہ ابصار عالم کسی کا انکار نہیں سنتا ۔۔ابصار نے بات کرتے ہوئے آیت کی شرٹ ٹھیک کی
جو کندھے سے نیچے کھسک رہی تھی شرٹ کا گلہ تھوڑا بڑا تھا اور اس میکسی کے ساتھ کوئی سٹالر بھی نہیں تھا ابصار کا موڈ خراب ہوا مگر وہ خاموش کھڑا رہا آیت سٹپٹاتی ہوئے پیچھے ہوئی ۔۔
اگر اپ نے میرا ٹائم ویسٹ کرنے کے لیے مجھے روکا ہے تو کائنڈلی مجھے بتا دیں تاکہ میں گھر چلی جاؤں ۔آیت نے ان گہری بھوری آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھ کر کہا ۔۔۔ یہ بتا دیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے؟ اور امید ہے کہ یہ میٹنگ واقعی اہم ہوگی، ورنہ..."۔
ورنہ کیا؟؟؟؟۔۔۔ابصار نے ایک آی برو اٹھا کر پوچھا ۔۔۔
ورنہ میں گھر جارہی ہوں ۔۔۔پتا نہیں میٹنگ ہے بھی یا نہیں صرف مجھے تنگ کرنے کے لیے روکا ہوا ہے آپ نے ۔۔۔آیت نے منہ پھلا کر کہا ۔۔
ابصار نے خاموشی سے اسے دیکھا ۔۔۔جیسے اسے آنکھوں میں انفارم کرہا ہو تم چلو تو سہی لگ پتا جائے گا ۔۔۔
ابصار کی سائیڈ ٹیبل کی ڈرا میں ایک سٹالر تھا وہ نکال کر اس کے منہ پر مارا ۔۔۔
just cover your neck right now.!!
ابصار کی بدتمیزی پر اسکا خون کھول گیا ۔۔
نہیں پہنوں گی نہ جانے اپنی کونسی محبوبہ کا اٹھا کر دے دیا ہے ۔۔۔۔اسنے نخوت سے کہا ۔۔۔۔
میں قیس نہیں ہوں جو جگہ جگہ منہ ماروں ۔۔۔میری ماں کا ہے یہ ۔۔۔بکواس کرنے سے پہلے سوچا کرو ۔۔۔تم اس سٹالر کے قابل نہیں ہو مگر تمہاری فضول فوٹوز جب وائرل ہونگی تو میری کمپنی کی ریپو خراب ہوگی اور وہ میں نہیں چاہتا ۔۔۔
آیت کو سٹالر والی بات پر شرمندگی ہوئی ۔۔۔۔مگر اس کو غصہ اس بات کا تھا کہ انتا فضول ڈریس بنوايا کیوں ۔۔ اپنے ہی ڈریس میں چلی جاتی ورکر کے حساب سے ڈریس بہت مہنگا تھا اور تھوڑا بولڈ بھی ۔۔۔
سٹالر لے کر وہ لوگ لفٹ سے نیچے آے ۔ابصار نے ایک نگاہ بھی نہ ڈالی لفٹ میں آیت پر ۔۔۔اور آیت صرف موبائل میں ٹائم دیکھ رہی تھی۔آٹھ بج چکے تھے جانے کب جان چھوڑے گا ۔۔۔اور اگر واقعی اپنے گھر لے گیا تو ۔۔۔نہیں نہیں یہ کسی صورت نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔ وہ بے خیالی میں خود سے باتیں کرہی تھی جو ابصار کے کانوں میں پوھنچ رہی تھیں ۔۔۔
وہ بظاہر موبائل میں مصروف تھا مگر توجہ آیت کی طرف ہی تھی ۔۔۔
ابصار عالم کو کچھ بھی کہیں بھی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔بھاگنے کی یا فضول حرکت کرنے کا سوچا بھی تو یاد رکھنا میرے آدمی صرف میرے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں ۔۔۔منٹ نہیں لگے گا پوری فیملی ختم ۔۔۔ابصار اسکا بازو کھینچ کر اپنے ساتھ کھڑا کیا ۔۔۔
Behave like a good girl!!.
چلو ۔۔۔۔وہ اسے باہر کی طرف کا اشارہ کر رہا تھا ۔۔آیت کا دل اچھل کر حلق میں آیا کہ وہ اسکی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔۔اور پھر جواب بھی بھرپور دے رہا تھا ۔۔
دونوں خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے ۔ڈرائیور نے دونوں کے لیے دروازے کھولے ۔ابصار آیت کے ساتھ پیچھے ہی بیٹھا ۔۔۔
خاموشی کے کتنے ہی لمحے گزرے ۔آیت کھڑکی سے باہر اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی بلز ،گروسری،۔ابو کی دوائی اور بچوں کی فیس ۔۔۔ سیلری تو پہلی کو ملے گی ۔۔کیسے کروں گی گزارا ۔۔۔وہ یہ سب سوچ رہی تھی کہ ابصار نے بہت آہستہ آواز میں کہا" تمہارے اکاونٹ میں پیسے جمع کروا دئے ہیں ۔جب چاہے یوز کرو ۔۔۔آیت "۔ابصار کی بات پر چونکی ۔"۔
ان کو کیسے پتا چل جاتا ہے میرے دل کا حال ۔۔۔ابصار ٹانگ پر ٹانگ رکھے مغرور بنا بیٹھا تھا جیسے وہ اکیلا سفر کر رہا ہو ۔۔
گاڑی ایک شاندار اور مہنگے ریسٹورنٹ کے سامنے آ کر رک گئی۔ آیت نے حیرانی سے باہر دیکھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، ابصار عالم نے ڈرائیور کو ہدایت دی ۔
"باہر انتظار کرو۔ دروازہ دو منٹ بعد کھولنا۔"۔۔۔
ڈرائیور نے سر ہلاتے ہوئے "جی سر" کہا اور باہر جا کر گاڑی کے قریب کھڑا ہو گیا۔
آیت، جو پہلے ہی ابصار کی باتوں سے تنگ تھی، اب اس کی غیر معمولی حرکتوں پر مزید چڑچڑی ہو گئی تھی۔ لیکن اس بات نے آیت کو اور زیادہ حیرت اور غصے میں ڈال دیا۔
ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے پر آیت نے اپنے قدم روک لیے اور ابصار سے دور جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اپنے اندر کے غصے کو دبانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ لیکن ابصار عالم کو اس کی حرکت نے مزید مشتعل کر دیا۔
ابصار نے بغیر کچھ کہے آیت کے گلے سے اسٹالر کھینچ کر اتارا ۔ آیت نے فوراً پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، لیکن گاڑی کی محدود جگہ کی وجہ سے ہٹ نہ سکی۔
"یہ کیا کر رہے ہیں؟ میرے ہاتھ ہیں، میں خود کر سکتی ہوں!"۔
مگر ابصار نے اس کی بات کو نظرانداز کیا اور اسٹالر کو دوبارہ سے اس کے گرد احتیاط سے لپیٹ دیا، جیسے وہ یہ یقینی بنانا چاہتا ہو کہ وہ مکمل طور پر کور ہے
ابصار نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سخت لہجے میں کہا
"شٹ اپ۔۔"
جب بات کروں تو جواب بھی تب ہی دیا کرو فضول کی باتیں مجھے پسند نہیں ۔۔۔
آیت نے حیرت سے ابصار کی طرف دیکھا۔ اس کے غصے اور سختی نے آیت کو حیران کر دیا تھا۔ اس نے جواب دینا چاہا، لیکن اس کی بات زبان پر آنے سے پہلے ہی ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
آیت نے ایک لمحے کے لیے گاڑی سے باہر نکلنے سے پہلے گہری سانس لی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ کچھ بھی کہہ کر صورتحال کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اندر ہی اندر اس کا دل ابصار کی اس حرکت پر سخت ناراض تھا۔
"یہ شخص اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟
ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے پر آیت نے اپنے قدم روک لیے اور ابصار سے دور جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اپنے اندر کے غصے کو دبانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ لیکن ابصار عالم کو اس کی حرکت نے مزید مشتعل کر دیا۔
وہ آیت کے قریب آیا، اس کی کلائی کو مضبوطی سے تھام لیا اور دھیمی لیکن سخت آواز میں کہا
"چلواندر یہاں کوئی تماشا مت لگانا۔"
آیت کو اس کی اس بے تکلفی پر مزید غصہ آیا، لیکن اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ کھینچی چلی گئی، جبکہ دل ہی دل میں ابصار پر لعن طعن کر رہی تھی۔
جیسے ہی دونوں اندر داخل ہوئے، پورے ہال میں ہلچل مچ گئی۔ ابصار عالم کا نام اور شخصیت ایک مشہور اور طاقتور بزنس مین کی حیثیت سے جانی جاتی تھی۔ ریسٹورنٹ کے عملے سے لے کر وہاں موجود دوسرے لوگ تک سب کی نظریں ان دونوں پر جم گئیں۔
کئی لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے قریب آ گئے۔
"عالم صاحب، ایک منٹ پلیز! ہم آپ کا انٹرویو لینا چاہتے ہیں۔"
"سر، پلیز، ایک تصویر۔"
رپورٹرز کی لائن لگ گئی ۔۔
آیت ایک کونے میں دبک کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اس اچانک توجہ سے گھبرا گئی تھی۔ مگر ابصار اپنے سپاٹ لہجے میں سب کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔
نو پلیز ۔۔۔
اسی دوران، ایک شوخ مزاج لڑکی، جو شاید کسی میڈیا ہاؤس سے تھی، آگے بڑھی اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا ۔
"عالم صاحب، یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ صرف ورکر یا کچھ اور؟"۔
آیت نے حیرت اور غصے سے اس لڑکی کو دیکھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، ابصار نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا
"میری ورکر۔"
لڑکی، جو شاید کچھ مزیدار جواب کی توقع کر رہی تھی، نے ہنس کر دوبارہ پوچھا
"صرف ورکر؟ یا پھر... پرسنل سیکرٹری؟"
ہ جملہ سن کر آیت نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں ، جبکہ ابصار کی نظریں پتھر کی مانند سخت ہو گئیں۔ اس نے لڑکی کو ایک "ڈیڈلی گلیئر" دیا، جس نے اس کی زبان کو بریک دیا ۔
"آپ کو جو سوچنا ہے، سوچ لیں۔ لیکن فضول سوالات سے باز رہیں۔"۔ابصار سخت لہجے میں بولا ۔۔۔۔
آیت اس صورتحال سے سخت نالاں تھی۔ وہ خود کو بے حد غیر محفوظ اور شرمندہ محسوس کر رہی تھی۔۔۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میں یہاں کیوں ہوں؟ مجھے گھر جانا ہے۔"۔آیت نے کمزور سی آواز میں کہا ۔
اسے اپنی قسمت سمجھو۔"۔۔ابصار نے باور کروایا ۔۔۔۔
ابصار آیت کو ایک خصوصی ٹیبل پر لے آیا تھا، جو ریسٹورنٹ میں سب سے نمایاں جگہ پر تھی۔ ٹیبل کے گرد ہلکی روشنی تھی، اور پس منظر میں نرم موسیقی چل رہی تھی، جس سے ماحول پر سکون اور پرسکون لگ رہا تھا۔
ابصار نے آیت کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود لوگوں سے ملنے اور باتیں کرنے کے لیے آگے بڑھ گیا۔ وہ ایک کامیاب اور مشہور بزنس مین تھا، اور ہر کوئی اس سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ آیت خاموشی سے ایک طرف بیٹھی تھی، اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھ رہی تھی۔
اچانک آیت کے کانوں میں ایک مانوس اور تلخ آواز گونجی ۔
"تم؟ بڑی نکھری نکھری لگ رہی ہو۔ لگتا ہے کسی اونچی پارٹی کے آدمی پر ہاتھ مارا ہے۔"۔
آیت نے فوراً مڑ کر دیکھا، اور اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ قیس کی ماں تھیں، مسز میر جو اس کے سامنے کھڑی تھیں۔ آیت کو اپنی جگہ پر جیسے زمین میں دھنس جانے کا احساس ہوا۔
"آپ... آپ یہاں؟"
آیت گھبرای ۔۔۔
مسز میر نے اسے سخت نظروں سے دیکھا
میرا معصوم بیٹا کھا کر اب کسے نگلنا چاہتی ہو ۔۔وہ خاموش نہ ہوئیں ۔۔۔
آیت نے بے چینی سے ابصار کی طرف دیکھا، لیکن اس کی پیٹھ آیت کی طرف تھی، اور اونچی موسیقی کے باعث وہ کچھ بھی سننے سے قاصر تھا۔ آیت نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی گھبراہٹ کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔۔
"آپ پلیز یہاں سے جائیں۔"
آیت نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا ۔۔
کیوں ؟۔مجھے بھی تو بتاؤ آج کل کس کا بستر گرم کر رہی ہو ۔۔
آیت کو لگا پگلا ہوا سیسا اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو ۔۔۔وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی ۔۔۔
آیت نے اضطراب سے اپنے ہاتھوں کو مٹھی میں بند کر لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس لمحے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔
آپ یہاں سے چلی جایئں اس سے پہلے کہ میں کوئی بد تمیزی کروں آیت نے بہت ہمت کرتے ہوئے اپنے لہجے کو نارمل رکھا ۔۔۔
"کیوں؟ ڈر لگ رہا ہے کہ تمہاری حقیقت کھل جائے گی؟"۔
قیس کی ماں نے اسے پھر زچ کیا ۔۔
آیت کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح یہ لمحہ جلدی گزر جائے۔ اس نے ایک بار پھر ابصار کی طرف دیکھا، لیکن وہ لوگوں کے ساتھ مصروف تھا اور اس نے پلٹ کر آیت کی طرف دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔
سچ ؟؟میرا کونسا سچ ہے ۔۔۔سچ تو آپ کے بیٹے کا ہے مجھے مجبور مت کریں کہ میں پریس کو بتا دوں کہ آپکا بیٹا کیا تھا ۔۔۔
آیت نے ہمت کر کے جواب دیا ۔۔۔
اپنی بکواس بند رکھ آوارہ ۔۔۔میرے بچے کے لیے ایک لفظ نکالا تو زبان کھینچ لونگی .
کس کے ساتھ آآئ ہو بولو ؟؟؟
جانتی ہو نہ یہاں یا بیوی آتی ہے یا رکھیل ۔۔۔
بیوی تو ہو نہیں سکتی اب تم ظاہر ہے رکھیل بن کر ہی آی ہو ۔۔۔
اپنی زبان کو لگام دیں ۔۔۔میرے لیے ایسے گھٹیا الفاظ استعمال کرنے سے پہلے ذرا اپنے بیٹے کے ایڈز کے بارے میں بھی بتا دیں ۔۔۔۔چلیں آپ نہیں تو میں بتا دیتی ہوں سب میڈیا والے موجود ہیں ۔۔۔تو پھر قیس کی بیوی نہ سہی بیوہ ہونے کے ناطے تو میں بلکل ٹھیک جگہ پر ہوں ۔۔کیا کہتی ہیں پھر دے دوں انٹروئیو ۔۔
آیت کے جواب پر وہ تلملا اٹھییں ۔۔۔۔
منہ بند رکھو ۔۔ورنہ مجھے تم جیسی کے منہ بند کرنے آتے ہیں ۔۔۔تمھیں تو میں دیکھ لوں گی ۔۔۔وہ خوف سے آیت کے پاس سے ہٹ گئیں تھیں ۔۔۔کسی نے غلطی سے بھی سن لیا تو انکی عزت مٹی میں مل جاتی ۔۔۔۔
آیت انکے جانے کے بعد اپنے رکے ہوئے آنسو مزید نہ روک سکی ۔۔اسکی آنکھوں شدت سے سرخ ہورہی تھیں ۔۔۔
وہ سب کے سامنے نہیں رونا چاہتی تھی وہ واشروم کی طرف دوڑی ۔۔۔۔
اندر جا کر اسنے اپنی سانس بحال کی ۔۔۔۔
دیوار کے ساتھ لگی اپنا ضبط کھو گئی ۔۔۔۔
قسمت کیوں میرے لیے اتنی سخت ہے ۔۔۔
میں کیوں نہیں جی سکتی نارمل لوگوں کی طرح ۔۔۔۔
کچھ دیر پہلے کہ کہے ہوئے قیس کی ماں کے الفاظ گونجے ۔۔۔رکھیل ۔۔۔۔
اسنے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ۔۔۔
میں رکھیل نہیں ہوں ۔۔۔۔میں مسز ۔۔۔ابصار عالم ہوں ۔۔۔وہ روتے روتے بولی مگر کون یقین کرے گا ۔۔ کیا ثبوت ہے اس کے پاس ۔۔۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی چیخوں کا گلا گھونٹرہی تھی ۔۔۔
ابصار جب لوگوں سے ملاقات کے بعد واپس اپنی ٹیبل پر آیا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ آیت کی کرسی خالی تھی۔ ٹیبل پر کھانے کی ڈشز سج چکی تھیں، لیکن آیت کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔
ابصار کے چہرے پر پہلے حیرانی اور پھر پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔
"کہاں گئی یہ؟ کیا اکیلی گھر چلی گئی؟"
اس نے تیزی سے اپنی گھڑی پر وقت دیکھا اور ارد گرد کا جائزہ لیا۔ یہ ریسٹورنٹ شہر کے مضافات میں تھا، جہاں سے کسی کو بھی اکیلے نکلنا خطرناک ہو سکتا تھا۔
"بیوقوف عورت، یہاں سے گھر تک کوئی ٹیکسی نہیں ملے گی!"۔
ابصار کو شدید غصہ آرہا تھا ۔۔۔
اپنی ہلکی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو کالم ڈآون کیا ۔۔۔
ابصار نے فوراً اپنا فون نکالااور آیت کو کال کرنے لگا۔ اس کی انگلیاں جلدی جلدی نمبر ڈائل کر رہی تھیں، لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
"یہ کیوں نہیں اٹھا رہی؟"
اس نے دوبارہ کال ملائی، لیکن آیت کی طرف سے پھر خاموشی۔ ابصار کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔"کہیں یہ کوئی حماقت نہ کر بیٹھے۔"۔ابصار کو فکر ہو رہی تھی ۔۔۔
ابصار نے فوراً ریسٹورنٹ کے عملے سے پوچھنا شروع کیا ۔
"کیا آپ نے میری ساتھی کو یہاں سے جاتے دیکھا؟"۔
عملے میں سے ایک ویٹر نے کہا
"جی، وہ واشروم کی طرف گئی تھیں۔ شاید وہ رو رہی تھیں ۔۔"۔
یہ سن کر ابصار تیزی سے واش روم کے باہر پہنچا ۔ اس کی نظریں بے چینی سے ارد گرد دیکھ رہی تھیں۔ لیکن آیت کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
ابصار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔
کیوں رو رہی تھی وہ ۔۔کیا ہوا تھا ۔۔۔
ابصار فون کان سے لگاے سوچ رہا تھا ۔۔۔
ابصار نے اپنے سب گارڈز کو الرٹ کیا ۔۔
آیت واش روم میں جا کر منہ دھو چکی تھی، لیکن اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ میک اپ کے بغیر اس کا چہرہ اور بھی معصوم اور دلکش لگ رہا تھا، جیسے کسی پری کی پاکیزگی۔ وہ گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور آہستہ آہستہ باہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔
جیسے ہی آیت باہر نکلی، اس نے دیکھا کہ وہاں کچھ لڑکے کھڑے تھے، جن کے چہروں سے نیت صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ ان میں سے ایک لڑکا فوراً آیت کی طرف بڑھا اور بے تکلفی سے بولا ۔
"ہیلو، خوبصورت خاتون! اتنی بڑی محفل میں آپ اکیلی ہیں؟ اگر آپ کہیں تو ہم آپ کا یہ اکیلا پن دور کر سکتے ہیں۔"۔
آیت نے غصے اور نفرت سے اسے دیکھا اور سخت لہجے میں کہا .
"ہاتھ ہٹاؤ! لیو می اَلون!"
لڑکا ہنستے ہوئے مزید قریب آیا اور بولنے لگا
"ارے، اتنا غصہ کیوں؟ ہم تو صرف آپ سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔"..
آیت نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، لیکن وہاں کچھ زیادہ راستہ نہیں تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھا، لیکن وہاں کسی کی موجودگی نہیں تھی۔ وہ جگہ تقریباً ویران تھی، اور تینوں لڑکے اب آیت کو گھیرنے لگے تھے۔
میں نے کہا دور رہو! ورنہ—"آیت چلای
ایک اور لڑکے نے ہنستے ہوئے کہ
"ورنہ کیا؟ ہمیں ڈراؤ مت، جانِ من۔"
ابصار آیت کو ڈھونڈتے اندر سے باہر آ رہا تھا جب اچانک اس نے آیت کی گھٹی ہوئی آواز سنی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا، اور فوراً اس سمت کا اندازہ لگا کر تیزی سے قدم بڑھائے۔
جیسے ہی ابصار نے لڑکوں کو آیت کے قریب دیکھا، اس کے چہرے پر غصے کی لالی دوڑ گئی۔ وہ تیزی سے ان کے قریب آیا اور گرجدار آواز میں بولا
"کیا ہو رہا ہے یہاں؟ ہٹ جاؤ فوراً!"
لڑکے چونک کر ابصار کی طرف مڑے۔ ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا
"اوہ! آپ اس کے ہیرو ہیں؟ یہ لڑکی تو کافی خاص لگتی ہے۔".
ابصار نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی اور سیدھا اس لڑکے کے کالر سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
"زبان سنبھال کر بات کرو! ورنہ زبان کھینچ لوں گا!".
لڑکوں نے ابصار کو دھمکانے کی کوشش کی، لیکن وہ کسی طوفان کی طرح ان پر ٹوٹ پڑا۔
ایک لڑکے نے ابصار کو دھکا دینے کی کوشش کی، لیکن ابصار نے اس کے بازو کو مروڑ کر زمین پر گرا دیا۔
دوسرے لڑکے نے پیچھے سے حملہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ابصار نے مڑ کر اسے ایک زور دار مکا مارا، جس سے وہ پیچھے ہٹ گیا۔
آیت خوفزدہ نظروں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن ابصار کی موجودگی نے اسے تھوڑا سکون دیا۔
لڑکے آخرکار ابصار کے غصے اور طاقت کے سامنے بے بس ہو گئے اور وہاں سے بھاگ نکلے۔ ابصار نے گہری سانس لیتے ہوئے آیت کی طرف دیکھا۔
"تم ٹھیک ہو؟"
آیت خوف سے اسکی باہوں میں سما گئی ۔
ابصار نے گہری سانس اندر لی ۔۔
"آئندہ تم میرے بغیر کہیں نہیں جاؤ گی، سمجھیں؟"
ابصار کو شدید غصہ تھا ۔
"سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے! کیوں لائے ہیں مجھے یہاں؟ کیا ضرورت تھی؟"۔
آیت نے شکوہ کیا ۔۔
"یہ سب میری وجہ سے نہیں ہوا، آیت۔ تم نے خود کو کمزور بنایا ہے، اور دنیا کمزور لوگوں کو نہیں چھوڑتی۔"۔
ابصار نے ایک گہری سانس لی اور اپنی مٹھی سختی سے بند کی جیسے خود کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
آیت نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔
"کمزور؟ میں نے کب کہا کہ میں کمزور ہوں؟ مگر آپ نے— آپ مجھے زبردستی یہاں لاے ! میں نے منع کیا تھا، پھر بھی!"۔
"آپ مجھے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں؟ وہ لوگ! وہ لوگ کیسے باتیں کر رہے تھے! مجھے پتا ہے میں کمزور نہیں ہوں، لیکن... میں لڑکی ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہے؟"۔
تم رو کیوں رہی تھیں کسی سے ملاقات ہوئی تھی ؟
ابصار اسے کھوج رہا تھا ۔
نہیں آیت مکر گئی ۔۔۔۔
اب بھی کیس نہیں کرو گی اس عورت پر ۔۔
ابصار اسے یاد دلا رہا تھا ۔۔
نہیں ۔۔۔قیس مر گیا بس سب ختم ۔۔۔
آیت نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا اور نظریں جھکا لیں۔
"مجھے گھر لے چلیں۔ میں مزید یہاں نہیں رہ سکتی۔"۔
نہیں ۔۔۔آج تم گھر نہیں جاؤ گی چلو ڈنر کریں ۔۔۔
ابصار نے اسکی کچھ بھی سنے بغیر اسکا ہاتھ تھاما ۔
پلیز مجھے نہیں کھانا ۔بھوک نہیں ہے مجھے ۔۔۔
وہ ہاتھ چھڑوا رہی تھی ۔۔۔۔آپ بہت ظالم اور سفاک ہیں ۔آپ کے پاس دل ہی نہیں ہے ۔۔
آیت چلاتی رہی مگر ابصار نے ایک نہ سنی ۔۔۔۔۔
نہیں جانا مجھے کہیں ۔چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔
آپ جنگلی بھی ہیں وحشی بھی ۔۔۔۔پلیز چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔۔چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔۔
آیت آواز نہ آے اب تهپڑ لگا دوں گا سب کے سامنے ۔۔۔
ابصار نے مڑ کے دیکھا تو نظر آیت کے ہونٹوں کے پاس والے تل پر پڑی ۔۔۔اپر والے ہونٹوں کے بلکل پاس تھا ابصار کو جانے کیوں آج وہ بہت بھلا لگا ۔۔۔مگر یہاں نہ موقع تھا نہ محل وہ اسے چھو بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔اسنے سر جھٹک کر کہا ۔۔۔۔
انسانوں کی طرح ڈنر کرو ورنہ اٹھا کے لے جاؤں گا سب کے سامنے پھر اپنی ماں کو کیا منہ دکھاؤ گی ۔۔۔
یہ دھمکی کام آی اور آیت شرافت سے ابصار کے ساتھ چل پڑی ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
آیت چپ چاپ اپنی پلیٹ میں کھانے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن ابصار کے قریبی بیٹھنے کے باوجود وہ خود کو بے آرام محسوس کر رہی تھی۔ تبھی،مسز میر کی آواز نے ماحول کا سکون توڑ دیا۔
"آہ، تو یہ ہے ماجرا! آیت آج کل تمہارا دل بہلا رہی ہے، ابصار؟ واہ، مطلب سیکرٹری بھی اور انٹرٹینمنٹ بھی؟"
"اپنی زبان کو لگام دیں! ورنہ زبان کھینچنی آتی ہے۔ صرف ایک پریس کانفرنس اور آپ کا ڈھونگ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو جائے گا۔ مجھ سے دور رہیں!"۔۔ابصار نے انگلی دکھا کر وارن کیا ۔
مسز میر کو جیسے دھچکا لگا۔ وہ اپنا غصہ آیت پر نکالنے کے لیے اس کی طرف بڑھی۔
"اور تم؟ تم نے میرا دوسرا بیٹا بھی پھسا لیا؟ کم ظرف لڑکی!"۔
آیت جو پہلے تپی ہوئی تھی وہ دوبارہ اپنی زبان سے اسے تکلیف دینے آگئی تھیں ۔۔۔۔
ہاں، پھسا لیا! بلکل پھسا لیا! اب کیا کریں گی آپ؟"۔۔
ابصار نے سر اٹھایا ۔۔۔ حیرت سے آیت کو دیکھا اسکے الفاظوں پر غور کیا اور اپنی ہنسی کو ضبط کرتا دوبارہ اپنے ڈنر کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
تم دیکھ رہے ہو تمہاری یہ سو کالڈ رکھیل تمہاری ماں سے کیسے بات کر رہی ہے مسز میر نے ابصار کو مخاطب کیا ۔۔۔۔۔
ابصار نے غصے کی شدت سے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔ابصار کے بس میں ہوتا تو وہ مسز میر کا منہ توڑ دیتا مگر وہ چاہتا تھا کہ اس کا منہ آیت خود توڑے ۔۔
بہت ہوا اب اگر اپ نے دوبارہ مجھے ان الفاظوں سے مخاطب کیا ہے تو یقین جانیے نتائج کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی آپ کی فیملی اور اپ کے بیٹے کا سارا کچا چھٹا میں سامنے رکھ دوں گی ۔۔قیس کے ساتھ رہی ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ وہ کیسا انسان تھا ۔اور جس بیماری کے بارے میں آپ پوری میڈیا سے چھپاتی آ رہی ہیں وہ سامنے اگئی تو آپ کی بدنامی کتنی ہوگی یہ بھی جان لیجیے اور میں ثبوتوں کے ساتھ بات کروں گی ۔اب آپ سے کورٹ میں ملاقات ہوگی میں وہ پراپرٹی آپ سے ہر صورت واپس لوں گی جو میرا شوہر مرنے سے پہلے میرے نام کر کے گیا تھا آپ کسی صورت کو مجھ سے نہیں چھین سکتی ۔۔۔
See you in the court Mrs. Mir
آیت نے بہت ہی اعتماد کے ساتھ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔۔
او تو اب سمجھ میں آئی مسٹر ابصار یہ ساری گیم تمہاری کھیلی ہوئی ہے تم نے میرے خلاف میری ہی بہو کو مہرا بنا کر استعمال کرنے کا سوچا ہوا ہے مگر میں ایسا ہونے نہیں دوں گی یاد رکھنا ۔۔۔۔مسز ابصار غصے سے پھنکارتی ہوئی دونوں کو غصے سے گھور رہی تھیں ۔۔۔۔۔
"اور تمہیں وکیل کرنے کے پیسے کون دے گا؟ تمہارے پاس کچھ ہے بھی؟"۔ان کا رخ دوبارہ آیت کی طرف ہوا ۔۔۔
آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنی فکر کیجئے ۔۔۔۔۔آیت نے انہیں باہر کا راستہ دکھایا ابصار کے سکون میں کوئی فرق نہیں پڑا وہ ہنوز اپنا ڈنر کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔
کون ہے تمہاری بیک پر جو تم اچھل رہی ہو یہ ابصار ۔۔۔۔وہ پھر سےزہر اگلنا شروع ہوئی ۔
میری بیک پر میری سپورٹ پر میرا شوہر کھڑا ہوگا اور آپ کا مقابلہ اسی سے ہوگا ۔
اب آپ جا سکتی ہیں مجھے ڈنر کرنا ہے ۔۔
آیت انہیں اگنور کرتی چیئر پر بیٹھ گئی ۔۔
مسز میر سکتے میں کھڑی رہ گئی۔۔۔
وہ لفظ شوہر میں اٹک گئیں ۔۔۔ اس دوران، ابصار کے لبوں پر ایک گہری، جاندار مسکراہٹ آ گئی۔ وہ چپ چاپ آیت کو دیکھ رہا تھا جیسے اس کی توقع کے عین مطابق سب کچھ ہوا ہو۔
وہ آیت کے منہ سے یہی سننا چاہتا تھا ۔
😜😜😜😜😜😜😜😜😜😜😜
"تم کیوں نہیں تسلیم کر لیتیں کہ میں بھی اس گھر کا حصہ ہوں؟ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا! میں نے فرحان سائیں نکاح کیا ہے، کوئی جرم نہیں!"۔
عائشہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ عروج اس کے راستے میں حائل ہوئی ۔۔۔
سب سے پہلی بات کہ نکاح نہیں زبردستی کی ہے تم نے اسے نکاح نہیں جھوٹ فریب اور دھوکہ کہتے ہیں ۔۔۔اور دوسرا یہ کہ آیندہ میرا فرحان بولا تو میں تمہاری جان لے لوں گی ۔۔۔۔وہ صرف میرے ہیں میرے ۔۔۔اور تیسری اور آخری بات اپنی منحوس شکل مجھے مت دکھایا کرو مجھے شدید نفرت ہے تم جیسی عورتوں سے ۔۔۔۔اب ہٹو میرے راستے سے ۔۔۔۔عائشہ سائیڈ سے نکل جانا چاہتی تھی کہ عروج نے دوبارہ اسکا راستہ روکا ۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے؟ تم مجھ سے باتوں میں جیت جاؤ گی؟"۔۔عروج تلخی سے مسکرا کر بولی ۔
عائشہ نے ناگواری سے آنکھیں سکیڑیں۔تمہارا اور میرا کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔۔اپنی اوكات دیکھ چکی ہو ،جو بات کرنی ہے فرحان سائیں سے کرو اگر وہ تمہاری طرف دیکھ لیں تو ۔۔عائشہ نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔۔
عروج کی آنکھیں دہکنے لگیں۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ "زبان چلانے میں تیز ہو، مگر یاد رکھو،اگر زبردستی نکاح کر سکتی ہوں تو حق بھی لے سکتی ہوں ۔کسی بھول میں مت رہنا ۔عروج کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
عائشہ نے اسے گھورا، پھر ہلکا سا مسکرا کر سر جھکا دیا، جیسے اسے قابلِ ترس سمجھ رہی ہو۔ "حویلی اینٹ پتھر کی ہوتی ہے،اس پر قبضہ ہوسکتا ہے مگر دلوں میں جگہ بنانا مشکل کام ہے ، جو تم آج تک نہ بنا سکیں۔"۔فرحان سائیں کی سانسیں مجھ سے جڑی ہیں ۔جو مرضی کرلو انکے دل سے نہیں نکال سکو گی مجھے ۔۔
عائشہ کی آنکھوں میں سختی ابھر آئی۔ اس نے قدم آگے بڑھایا اور عروج کے قریب جا کر سرد لہجے میں کہا، "آئندہ مجھ سے سوچ سمجھ کر کلام کرنا، عروج! فرحان سائیں صرف میرے ہیں۔
عائشہ کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی—مالک ہونے کی چمک!۔
عائشہ نے اپنی بات مکمل کی اور بغیر کوئی اور لفظ ضائع کیے راستہ بنایا، "اب ہٹو! آئندہ میرا راستہ نہ روکنا!"۔
عروج نے مٹھیاں بھینچ لیں، وہ جانتی تھی کہ عائشہ کے الفاظ میں وزن تھا۔ وہ غصے میں پیر پٹختی ہوئی آگے بڑھ گئی، جبکہ عائشہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے راستے پر چلتی رہی، جیسے وہ پہلے ہی
جانتی ہو کہ کون جیتا اور کون ہارا!۔۔۔۔۔
🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿
جاری ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
👍
❤️
6