
سبق آموز واقعات وحکایات
February 27, 2025 at 12:31 AM
ناول میرا نام ہے محبت ۔
قسط نمبر 16۔
تحریر سنیہ شیخ
ابصار نے مسز میر کے جانے کے بعد اپنے چہرے سے ناگواری ہٹاتے ہوئے آیت کی طرف دیکھا، جو اب تک خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ شیشے کے مجسمے کی طرح لگ رہی تھی، چھونے پر ٹوٹ جاے ۔
"ڈنر کرلو۔ میرے گھر میں تمھیں کچھ نہیں ملے گا کھانے کو۔"۔ابصار نے اسے سرد لہجے میں مخاطب کیا ۔۔
آیت نے ایک نظر ابصار کی طرف دیکھا، اس کی باتوں سے زیادہ اس کے لہجے کی تلخی نے اسے دکھ دیا۔ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے بولی ۔
"بھوک نہیں ہے، اور میں آپ کے گھر نہیں جا رہی۔"۔
ابصار نے اس کے جواب کو نظر انداز کیا ۔ وہ اپنا ہاتھ ٹشو سے صاف کرتا ہوا دھیرے سے بولا ۔۔
"تم سے پوچھا کس نے ہے؟"
آیت کی نظریں ابصار پر جم گئیں۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس کے سامنے کھڑی ہو کر کہہ دے کہ وہ اس کا حکم ماننے والی نہیں، لیکن اس کی آنکھوں کی گہرائی میں چھپا غرور اور زبردستی اسے روک رہا تھا۔
"آپ ہمیشہ ایسے ہی بات کرتے ہیں، جیسے ہر چیز آپ کی مرضی سے ہوگی۔ مگر میں کوئی چیز نہیں ہوں، نہ ہی آپ کی غلام۔"۔
آیت نے اپنے آنسو ضبط کئے ۔۔۔
"تو پھر ثابت کرو کہ تم واقعی غلام نہیں ہو۔ "۔
ابصار نے طنز کیا ۔
آیت نے کرسی سے اٹھتے ہوئے گہری سانس لی اور اپنی جگہ چھوڑ دی۔
بیٹھ جاؤ ۔میرا ڈنر ابھی پورا نہیں ہوا ۔۔
ابصار نے کولڈڈرنک کا سپ لیتے ہوئے کہا ۔
آیت ابصار کی الٹراساؤنڈ کرتی ہوئی نظروں سے خاءف ہوکر دوبارہ بیٹھنا بہتر سمجھا ۔۔
ابھی مسز میر کے سامنے کیا بولا تم نے ؟؟
کون سپورٹ کرے گا تمھیں ؟؟۔۔
تمہارا شوہر ۔۔؟؟ رائٹ ؟؟؟۔
ابصار اپنی ایک انگلی گلاس کے ارد گرد گھما رہا تھا مگر دیکھ وہ آیت کو ہی رہا تھا ۔۔۔
میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی ۔۔
آیت نے اپنا منہ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔
جانتی ہو تم شادی کو ڈسکلوز نہیں کر سکتی ،پھر ایگریمنٹ کیوں توڑا ۔۔۔کیسے ثابت کرو گی شادی کوئی پروف ہے تم نے تو نکاح نامہ بھی نہیں دیکھا ۔۔ابصار پلک جھپکاے بغیر ہی اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
آپ بے فکر رہیں مسٹر ابصار میر عالم !!۔
آپ کا نام خراب نہیں ہوگا تسلی رکھیں ۔۔
آیت خود کو بہت کنٹرول کرتے ہوئے بات کر رہی تھی ۔اسکا میٹر شارٹ ہورہا تھا ۔۔
"تم جانتی ہو کہ تم ڈسکلوز نہیں کر سکتی کہ تم میری بیوی ہو۔ پھر اتنی جرات کیسے کی تم نے اس عورت کو یہ بات بتانے کی؟"۔
ابصار کی سوئی ادھر ہی اٹکی ہوئی تھی ۔۔
ابصار کے چہرے پر غصے کی لکیریں واضح تھیں۔
"میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اس نے مجھ پر بہتان لگائے، اور مجھے لگا کہ مجھے اپنی بات واضح کرنی چاہیے۔"۔آیت نے شدید ذلت محسوس کرتے ہوئے کہا ۔۔
"یہ میرا معاملہ تھا، اور میں اسے سنبھال لیتا۔ تمہیں اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں تھی۔"۔ابصار نے اب نرم لہجے میں کہا ۔
آیت کی آنکھوں میں آنسو آگئے، لیکن وہ خود کو مضبوط رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔آیت نے چپ رہنا بہتر سمجھا، لیکن اس کے دل میں جو طوفان اٹھا تھا، وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔
آیت کا دل پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا، اور ابصار کی خاموشی اور لاتعلقی نے اس کے درد کو مزید بڑھا دیا۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر بے آواز روتی رہی، آنسو اس کے گالوں پر بہتے رہے، لیکن اس کی سسکیاں دبی ہوئی تھیں
ابصار نے موبائل سے نظر ہٹا کر ڈرائیور کی طرف دیکھا اور حکم دیا ۔
"ڈرائیور، ٹیشو دو پیچھے۔"
ڈرائیور نے باکس فوراً آگے بڑھا دیا۔ ابصار نے باکس سے ایک ٹیشو نکالا اور اسے آیت کی طرف بڑھا دیا، لیکن اس کے چہرے پر کسی قسم کی نرمی یا ہمدردی کا نشان نہیں تھا۔
آیت نے ٹیشو لینے سے انکار کر دیا اور ایک سرد لہجے میں بولی ۔
"مجھے ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا دیا ہوا کوئی سکون یا تسلی مجھے نہیں چاہیے۔"۔
"یہ صرف ٹیشو ہے، کوئی سکون یا تسلی نہیں
ابصار نے ٹیشو اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
آیت نے ایک گہری سانس لی، خود کو سنبھالنے کی کوشش کی، اور اپنی نظریں کھڑکی سے باہر کر لیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسا رشتہ ہے، جہاں نہ احترام ہے، نہ محبت، اور نہ ہی سکون۔
گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔ ابصار نے دوبارہ موبائل اٹھا لیا، اور آیت نے اپنے آنسو چپکے سے صاف کر لیے، وہ اپنے دکھ کو خود سے بھی چھپانا چاہتی تھی ۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
ماروی کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ عائشہ نے اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، اور وہ دھیرے دھیرے سجے سنورے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماروی نے گہری سانس لی۔ عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "ڈرو مت، سب ٹھیک ہوگا۔"۔
کمرے کا دروازہ کھلا تو ماروی کی نظریں جھک گئیں۔ وہ روشنیوں سے بھرے، خوشبوؤں میں مہکتے اس کمرے میں قدم رکھ رہی تھی جو آج اس کے لیے خاص طور پر سجایا گیا تھا۔ سفید اور سنہری پردے، گلابی اور سرخ پھولوں کی لڑیاں، اور ہر جانب رومانیت کا ماحول۔ بیڈ کے اردگرد گلاب کے پھول بکھرے ہوئے تھے، اور چھت سے لٹکتے روشنی کے جھرمٹ نے پورے کمرے کو خوابناک بنا دیا تھا۔
عائشہ پہلی نظر میں ماروی کو بہت اچھی لگی مگر اسکی آنکھوں میں ویرانی نظر آی ۔۔خاموشی ۔۔دکھ ۔۔۔
عائشہ نے بہت پیار سے اسے سیج پر بٹھایا ۔۔
پھر اپنا تعرف کروایا ۔۔۔
میں وجدان سائیں کی بھرجائی ہوں ۔۔
سردار سائیں بہت اچھے ہیں نرم دل اور مخلص تم ڈرو مت ۔تم اب انکی عزت ہو ۔۔
اس حویلی کے مرد ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں ،مگر ۔۔۔مگر بے وفائی کرنے میں سیکنڈ بھی نہیں لگاتے ۔۔۔ عائشہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ۔نہ جانے وہ یہ سب کیوں بول گئی۔۔اسکا دل جل رہا تھا پرانی یادیں اسے پاگل کر رہی تھیں ۔۔۔
ماروی نے اپنی پلکیں اٹھا کر دیکھا ۔مگر ہمت نہ کر سکی کچھ پوچھنے کی ۔۔
اس حویلی کے مرد سر پر کب دوسری عورت لے آیں نہیں پتا چلتا ۔اس لیے ہوش میں رہنا ورنہ میری طرح بے خبری میں ماری جاؤ گی ۔
عائشہ کی بات پر ماروی کو جھٹکا لگا ۔
وہ گم سم سی عائشہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
عائشہ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ شوروع ہوئی ۔۔
اس حویلی کے مرد دو شادیاں کرتے ہیں ۔میری بھی سوتن ہے ۔تمہاری کب آجاے کیا خبر ۔۔۔مگر تم سردارنی ہو ۔۔تمہارے رتبے کو کوئی نہیں پوھنچ سکتا ۔۔۔
عائشہ کی باتیں ماروی کو اندر تک ڈرا گئیں ۔۔۔
تو ۔۔۔ناول میں سہی لکھا ہوتا ہے ۔۔۔میں نے سب سچ پڑھا ہے ۔۔حویلی کے لوگ ظالم ہوتے ہیں ۔۔۔میرا شوہر بھی مجھ پر سوتن لاے گا ۔۔۔وہ صرف دل میں سوچ ہی سکی ۔۔۔۔
وہ بری طرح ڈر گئی تھی ۔۔۔۔
ابھی عائشہ کچھ اور بولتی ۔۔کمرے میں وجدان کی سرد آواز نے دونوں کے اوسان منجمند کر دئے ۔۔۔
"بھرجائی!" وجدان کی بھاری آواز نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔
میری بیوی کو بھڑکانے سے بہتر ہے آپ زرا اپنے شوہر کی خبر لیں ۔
عائشہ نے مڑ کر حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ وجدان نے سخت لہجے میں کہا، "ادا فرحان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ آج اوتاک میں بیہوش ہو گئے تھے۔ میری درخواست ہے کہ آپ ان کے پاس جائیں اور ایک نظر دیکھ لیں۔ وہ کوئی دوائی نہیں لے رہے۔ آپ ان کو اتنی بے خیالی میں نہ چھوڑیں۔"۔
عائشہ نے چہرے پر ایک ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا، "سردار سائیں، ان کے پاس ان کی دوسری بیوی ہیں۔ وہ دیکھ لیں گی۔ میرا جانا ضروری نہیں۔"۔
اس دوسری عورت کا کیا مقام ہے آپ بہت اچھے سے جانتی ہیں ۔وجدان نے پہلے سے زیادہ سخت لہجے میں بات کی ۔
وہ دو قدم آگے بڑھے اور گرجدار آواز میں کہا، "بھرجائی، آپ کو سردار کا حکم ہے! آپ ادا فرحان کو دیکھیں۔ یہ ضد اور بے حسی کا وقت نہیں ہے۔"۔
وجدان کی سخت لہجے میں دی گئی ہدایت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا، "ٹھیک ہے سردار سائیں، میں دیکھ لیتی ہوں۔"۔
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی ۔
ماروی، جو ابھی چند لمحے پہلے کمرے کی خوبصورتی میں کھوئی ہوئی تھی، وجدان کی گرجدار آواز سن کر جیسے ہل سی گئی۔ ان کی شخصیت کی شدت اور لہجے کی سختی نے کمرے کی فضا بدل دی تھی۔
وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی، لیکن دل کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔ وجدان کی موجودگی میں اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے ہلکی سی نگاہ اٹھا کر وجدان کو دیکھا، مگر فوراً نظریں جھکا لیں۔ ان کی شخصیت کی شدت نے اسے مزید سہم جانے پر مجبور کر دیا تھا۔
ماروی کی سانسیں بے ترتیب تھیں، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھی تھی تاکہ ان کی کپکپاہٹ کو قابو میں رکھ سکے، مگر اس کے لرزتے ہاتھ اس کے دل کی حالت کو ظاہر کر رہے تھے۔
وجدان نے ماروی کی یہ کیفیت محسوس کی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، جس میں نرمی اور پیار کا رنگ شامل تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا "ماروی، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ۔
بھرجائی نے آپ کو آدھا سچ بتایا ہے ۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا جیسا آپ سوچ رہی ہیں ۔وہ کہیں نہ کہیں ماروی کی سوچ کو پڑھ رہا تھا ۔
وجدان نے اس کے لرزتے ہاتھوں کو دیکھا اور آہستہ سے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ نرمی سے اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا، " یہ کپکپاہٹ بتاتی ہے کہ آپ مجھ سے ڈر لگ رہا ہے۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں، میری موجودگی آپ کے لیے لیے کبھی خوف کی وجہ نہیں بنے گی، بلکہ سکون کا باعث ہوگی۔"۔
ماروی نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ وہ کچھ کہے بغیر نظریں جھکا کر خاموشی سے رونے لگی۔
وجدان کا دل دھڑک اٹھا۔ اس نے جلدی سے ماروی کے آنسو صاف کرتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا، "ماروی، کیا ہوا؟ آپ کیوں رو رہی ہیں؟"
ماروی نے دھیرے سے کہا، "میں بس... سب کچھ اتنا نیا ہے، اتنا عجیب سا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اس سب کے قابل نہیں ہوں۔ آپ جیسے شخص کے لیے... میں ۔۔۔میں ۔۔۔۔نہیں ۔۔وہ بات بھی مکمل نہ کر پای ۔
وجدان کے چہرے پر نرمی اور محبت کا رنگ گہرا ہو گیا۔ اس نے ماروی کے دونوں ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر کہا، "ماروی، یہ آپکا وہم ہے۔ آپ اس حویلی میں میرے ساتھ آئی ہیں تو یہ میری خوش نصیبی ہے، میں کبھی نہیں چاہتا کہ آپ کسی چیز کی فکر کریں یا خود کو کمزور محسوس کریں ۔
"آپ... آپ... دوسری شادی کر لیں گے؟"
وجدان، جو اپنی گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا، ماروی کے سوال پر چونک گیا۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا، پھر مسکراہٹ کے ساتھ قریب ہو کر بولا، "یہ سوال آپ کے دل میں آیا کہاں سے، ماروی؟"۔
ماروی کی نظریں پھر جھک گئیں، اور اس کے ہاتھوں میں بے چینی واضح تھی۔ وہ دھیرے سے بولی، "یہ حویلی کے رواج ہیں نا... یہاں مرد دو شادیاں کرتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ... کہ... آپ کے بھائی بھی..."۔
"ماروی، حویلی کے رواج سب پر لاگو نہیں ہوتے۔ میں نے تمہیں اپنی زندگی میں شامل کیا ہے تو یہ فیصلہ صرف اور صرف دل سے تھا۔ اور دل کا فیصلہ بدلا نہیں کرتا۔"وجدان نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔"آپ نے مجھ پر ترس کھایا ہے، وجدان سائیں، اسی لیے مجھ سے شادی کی۔"۔
ماروی نے ایک سوال اور کیا ۔
ترس اور محبت میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور میں نے آپ سے محبت کی ہے۔"۔
وہ اسے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ بہت بدگمان تھی ۔
وجدان مسکرایا اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ، "کوئی بات نہیں، ماروی۔ آپ کے دل میں جو سوال ہو، مجھ سے پوچھا کریں ۔ یہ رشتہ ہمارے اعتماد اور محبت سے مضبوط ہوگا، اور آپ کی ہر فکر میری ذمہ داری ہے۔"۔
اور میری بات غور سے سنیں ۔۔۔۔
" میں آپ کو ڈرانا نہیں چاہتا۔ اپنا حق تبھی لوں گا جب میری ماروی مجھے صرف وجدان کہے گی، سردار وجدان نہیں۔"۔
اس وقت آپ کی لب و لہجے میں بہت بد گمانی ہے ۔میں چاہتا ہوں آپ میری بہت اچھی دوست بنیں ۔۔۔"آپ چینج کریں، کھانا کھائیں، اور تھوڑی دیر سو جائیں۔"۔۔۔۔۔
وجدان کے لیے اب ماروی کے پاس بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔ اپنے محرم کی قربت، اس کی معصومیت، اور اپنی بے قابو ہوتی خواہشات کو قابو میں رکھنا ایک کٹھن آزمائش تھی۔ اس کے جذبات بے لگام ہو رہے تھے، لیکن وہ ماروی کو صرف جسمانی طور پر نہیں، بلکہ دل و جان سے اپنا بنانا چاہتا تھا۔
وہ اسے قید نہیں کرنا چاہتا تھا، بلکہ اسے اپنے عشق کا اسیر بنانا چاہتا تھا۔ جس طرح وہ خود ماروی کے خلوص اور سادگی کے جال میں گرفتار ہوا تھا، وہ چاہتا تھا کہ ماروی بھی اس کی محبت میں گرفتار ہو جائے، اپنی مرضی سے، اپنے دل سے۔
وجدان نے اٹھتے ہوئے ماروی کے ماتھے پر اپنے لب بہت پیار سے رکھے ، "میں تھوڑا لیٹ نائٹ آؤں گا۔ آپ آرام کریں،۔
وجدان دروازے کی طرف بڑھا، مگر ایک لمحے کے لیے رکا، پلٹ کر ماروی کی طرف دیکھا، اور ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا، "آپ نے اب رونا نہیں ہے ، ماروی۔"۔
دروازہ بند ہونے کے بعد ماروی نے گہری سانس لی۔ وجدان کے الفاظ اور لہجے میں موجود محبت اور برداشت نے اسے گہرے سوچ میں ڈال دیا۔ یہ کیسا سردار تھا جو اپنی خواہشات پر قابو رکھتے ہوئے اس کا دل جیتنے کی کوشش کر رہا تھا؟ ماروی کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ وجدان کے ساتھ یہ رشتہ شاید کسی عام تعلق سے بہت زیادہ خاص تھا۔
🌿🌿🌿🌿🌿🌿۔
گاڑی ایک جھٹکے سے "AA مینشن" کے وسیع و عریض گیٹ پر رکی۔ آیت کے دل میں خوف اور حیرانی کا ملا جلا احساس تھا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا، سامنے گارڈز کی ایک لائن موجود تھی، جو مکمل پروٹوکول کے ساتھ ابصار کے استقبال کے لیے کھڑی تھی۔
جیسے ہی آیت نے اندر قدم رکھا، وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ سامنے ایک وسیع لان تھا، جس میں گھاس ایسے تراشی گئی تھی جیسے کسی قالین پر قدم رکھ رہی ہو۔ لان کے بیچوں بیچ ایک سنگِ مرمر کا فوارہ تھا، جس کا پانی روشنیوں کی جھلملاہٹ کے ساتھ گرتا ہوا خوابناک منظر پیش کر رہا تھا۔ فوارے کے چاروں طرف رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں تھیں، جن سے خوشبو کی لہریں ماحول کو مہکا رہی تھیں۔
جیسے ہی وہ دروازے کی طرف بڑھے، دو نوکر تیزی سے آگے بڑھے اور دونوں طرف کے دروازے کھول دیے۔ اندرونی حصہ بھی کم نہ تھا۔ ماربل کا فرش، سونے کے رنگ کے نقش و نگار سے مزین ستون، اور چھت سے لٹکتا ہوا شاندار فانوس، جو پورے ہال کو جگمگا رہا تھا۔
ابصار مکمل بے نیازی سے چلتا ہوا اندر داخل ہوا، سب عام سی بات ہو۔ لیکن آیت کے قدم خود بخود سست ہوگئے۔ وہ اس قدر شاندار اور وسیع مینشن کو دیکھ کر سکتے میں آگئی تھی۔
"یہ کیا ہے؟ یہ شخص آخر ہے کون؟ یہ تو کسی بادشاہ کی طرح رہتا ہے۔ میں کیسے یہاں رہ سکتی ہوں؟وہ خود کلامی کر رہی تھی ۔۔۔
ابصار غائب ہو گیا تھا ۔۔وہ جانے کہاں گیاتھا ؟؟
بھوک اور تھکن کی شدت سے آیت کا سر چکرا رہا تھا۔ اسے لگا کہ کہیں گر نہ جائے۔ وہ ایک صوفے کے قریب جا کر بیٹھ گئی اور اپنے جوتے اتار دیے۔
کچھ دیر بعد ایک ملازمہ، جس کا نام شگفتہ تھا، آیت کے پاس آئی۔
"مسز ابصار، سر نے کہا ہے کہ آپ کو ان کے کمرے میں جانا ہے۔"۔
آیت نے حیرت اور غصے سے شگفتہ کی طرف دیکھا۔
"کیا؟ تم نے مجھے کیا کہا؟"۔
"یہ شخص مجھے پاگل کر کے چھوڑے گا! ایک طرف تو کہتا ہے کہ کسی کو نہ بتاؤں کہ میں اس کی بیوی ہوں، اور دوسری طرف نوکر مسز ابصار بولتے ہیں!"۔
آیت کو ابصار کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔
کیا چاہتا ہے آخر مجھ سے ؟؟کیوں شادی کی ؟؟پھر کس سے چھپا رہا ہے ؟؟؟۔
افف میں پاگل ہوجاؤں گی ۔۔آیت نے اپنا سر پکڑ ہاتھوں میں جکڑ لیا ۔۔
"دیکھو، تمہیں کسی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں... میں مسز ابصار نہیں ہوں!"۔۔آیت نے اسے وضاحت دی ۔
شگفتہ نے عاجزی سے سر جھکایا
"بی بی جی، ہمیں جو بتایا جاتا ہے، ہم وہی کہتے ہیں۔ سر نے خاص طور پر کہا ہے کہ آپ کو فوراً ان کے کمرے میں پہنچایا جائے۔"۔
شگفتہ احترام سے پیچھے ہٹ گئی، مگر آیت کا غصہ بڑھ چکا تھا۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے کرسی سے اٹھی۔۔
آیت بھاری قدموں سے ابصار کے کمرے کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچی، اندر سے ابصار کی گہری اور پراعتماد آواز سنائی دی۔ ۔
آیت نے دروازے پر دستک دی۔
"آ جاؤ، دروازہ کھلا ہے۔"۔ابصار کی آواز گونجی ۔
آیت دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔ ابصار صوفے پر آرام سے بیٹھا ہوا تھا، اور اس کے چہرے پر ایک خاص اطمینان تھا۔
"یہ سب کیا ہے؟ نوکر مجھے 'مسز ابصار' کہہ رہے ہیں، اور آپ چاہتے ہو کہ میں خاموش رہوں ۔؟"
آیت نے اس بے حس انسان کو دیکھا جو بہت آرام سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا ۔۔
ادھر آو ۔۔ابصار نے اسکی بات اگنور کرتے ہوئے اسے پاس بلایا ۔۔
آیت ڈھیٹ بنی کھڑی رہی ۔۔۔مجھے گھر جانا ہے مسٹر ابصار عالم ابھی ۔۔۔ آیت کو اسکے پاس جاتے ہوئے خوف آرہا تھا ۔۔
ادھر آو کیا بولا میں نے سنا نہیں !!!!۔وہ دھاڑا ۔
آیت کا دل ایک دم سے دھڑکنے لگا۔ ابصار کی آواز اتنی سخت اور دھاڑتی ہوئی تھی کہ وہ بے اختیار دو قدم آگے بڑھ گئی۔ مگر اس کے قدم وہیں رک گئے خود پر قابو پایا۔
"میں یہ سب نہیں کرنے والی، سمجھے آپ؟"۔وہ لرزتی آواز میں بولی ۔۔
تمھیں کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔۔۔۔جو کرنا ہے میں خود کروں گا ۔۔۔
Dont waste my time.
"یہ آخری بار کہہ رہا ہوں، چپ چاپ چینجنگ روم میں جاؤ اور کپڑے بدلو۔ ورنہ میں خود... خود بدلوا دوں گا!"۔
ابصار کی بات نے آیت کے حواس چھین لیے۔ وہ دم بخود رہ گئی۔اسکا تو دل ہی مٹھی میں آگیا ۔
"یہ شخص کتنا بدتمیز اور خود غرض ہے! کیا اسے کوئی شرم نہیں؟"۔آیت حیرت سے اس انسان کو تکتی دل میں اسے کوس رہی تھی ۔۔
میں تمہاری سوچ سے بھی زیادہ بدتمیز اور خودسر ہوں ۔۔میرے بارے میں اندازہ لگانا بند کرو ۔۔۔اور جو کہا ہے وہ کرو ۔۔۔۔
آیت کے دل میں بغاوت کی آگ جلنے لگی۔ وہ غصے میں پیر پٹختے ہوئے پلٹی اور تیزی سے کمرے کے ایک کونے کی طرف گئی جہاں ایک ڈریسنگ روم تھا اور تھوڑا اندر جا کر واشروم ۔۔اف توبہ اتنے بڑے واشروم اتنا بڑا تو ہمارا پورچ بھی نہیں ۔۔۔ ایک بندہ ہے یہ صرف اور اتنا پیسا برباد کیا ہوا ہے ۔۔۔غریبوں کو دیتے ہوئے ان امیرں کو موت پڑتی ہے ۔۔آیت اپنا غصہ نکال رہی تھی ساتھ ساتھ واشروم کا معانہ بھی ۔۔۔۔
"میں خود کو اگر لاک کرلوں تو۔۔۔ اتنا بڑا ہے ۔بیٹھ کر گزار لونگی ۔ لاک کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ابصار کی آواز نے اسکا سکوت توڑا ۔!"۔
"اگر تم نے لاک کیا تو یاد رکھنا، مجھے دروازے توڑنے بھی آتے ہیں۔ اور تمہیں پتہ ہے کہ میں جو کہتا ہوں، وہ کرتا ہوں!"
ابصار کی بات پر اسے کوفت ہوئی ۔۔
اسکو ہر بات کیسے پتا چل جاتی ہے ۔۔
"میں انتظار کر رہا ہوں، آیت۔ اور یاد رکھو، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔"
آیت نے اپنی آنکھوں میں آنسو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے دروازے کے اندر قدم رکھا۔
وہاں سامنے ہی آیت کے اپنے کپڑے ہینگ تھے ۔۔ آیت نے آپنے آنسو صاف کئے اور انکی طرف بڑھی ۔۔اس نے شکر کا قلمہ پڑھا ورنہ آیت کو توکسی بیہودہ لباس کی امید تھی ۔۔۔
چینج کر کے باہر آی تو ابصار کے ساتھ باہر کوئی آدمی بیٹھا تھا ۔ گیٹ اپ سے تو وہ کوئی وکیل لگ رہا تھا ۔۔۔
آیت کو دیکھتے ہی وہ ادب سے کھڑا ہوا ۔۔۔
مسز ابصار ۔۔بیٹھیں ۔۔۔اس کے مسز ابصار پکارنے پر اسے پھر آگ لگی ۔۔۔اس نے ابصار کی طرف دیکھا وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی اسکو بھی پتا ہے تو پھر بچا کون جسکو نہیں پتا کہ میں مسز ابصار ہوں ۔۔۔ابصار نے اسے منہ پر انگلی رکھ کر خاموش بیٹھنے کا کہا ۔۔
آیت کے بیٹھتے ہی وکیل نے ایک فائل اسکے سامنے رکھی ۔۔
مسز ابصار آپ کو ان پر سائن کرنا ہے ۔۔۔
آیت نے فائل کو غور سے دیکھا وہ کیس کے پپرز تھے ۔
وکیل کی بات سن کر آیت کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ صوفے پر بے حس و حرکت بیٹھی رہی، اس کے اطراف کی دنیا ساکت ہوگئی ہو۔ وکیل نے اپنی بات مکمل کی اور آیت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"یہ پوائنٹ کیس میں بہت مضبوط ہے، مسز ابصار۔ اگر یہ شامل کریں تو آپ کی جیت کے امکانات دوگنے ہو جائیں گے۔"۔
وکیل نے آیت کو قائل کرنے کی کوشش کی ۔۔
"نو... پلیز، یہ پوائنٹ نہیں۔"
آیت لرزتی ہوئی آواز میں بولی ۔
وکیل چونکا۔
"لیکن مسز ابصار، یہ قانونی طور پر بہت اہم ہے۔ یہ قیس اور ان کی ماں کے کردار کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے۔"۔
آیت نے بے بسی سے ابصار کی طرف دیکھا، ۔ ابصار خاموشی سے ، گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں تک ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی، پھر ابصار نے ایک گہری سانس لی اور وکیل کی طرف مڑا۔
"آپ یہ پوائنٹ کاٹ دیں۔"
وکیل حیرت سے ابصار کو دیکھنے لگا۔
"لیکن سر، یہ بہت ضروری—"
"میں نے کہا، کاٹ دیں۔ یہ پوائنٹ شامل نہیں ہوگا۔"۔۔ابصار نے فیصلہ کو! بات کی ۔
وکیل نے سر ہلا دیا اور خاموشی سے نوٹس لینے لگا۔ آیت نے شکرگزار نظروں سے ابصار کو دیکھا، مگر وہ اس کی طرف دیکھے بغیر اپنی جگہ سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ابصار کے جانے کے بعد آیت نے آنکھیں بند کیں اور لمبی سانس لی۔
"یہ شخص کبھی سمجھ نہیں آتا۔ کبھی بے حد بے رحم، اور کبھی اتنا غیر متوقع طور پر مہربان۔"۔
وکیل نے فائل بند کرتے ہوئے کہا،
"ٹھیک ہے، مسز ابصار، میں ترمیم کر دیتا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔"۔
آیت نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا، مگر اس کے دل میں ابصار کے رویے کی گونج باقی تھی
آیت ابھی اپنے وکیل کے ساتھ کچھ پوائنٹس ڈسکس کر رہی تھی کہ دروازے پر ناک ہوا آیت نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں پر ڈرائیور معتبانہ انداز میں ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔
"مسز ابصار، سر نے کہا ہے کہ آپ کو گھر چھوڑنا ہے۔ گاڑی نیچے تیار ہے۔"۔
آیت نے بے یقینی سے ڈرائیور کی طرف دیکھا جیسے اس نے کچھ غلط سنا ۔
"یہ انسان آخر چاہتا کیا ہے؟ کبھی تو بے حد بے رحم ہو جاتا ہے اور کبھی ایسے احکامات دیتا ہے جیسے میرا خیال رکھنے والا ہو۔ کیا اسے خود بھی پتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟"۔
اس نے ایک گہری سانس لی اور دوپٹہ کو درست کرتے ہوئے خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ ڈرائیور دروازے کے قریب کھڑا تھا اور ادب سے منتظر تھا۔۔
آیت نے کچھ کہنے کا ارادہ کیا، مگر پھر سوچتے ہوئے خاموش ہو گئی۔
"بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ خاموشی سے چلوں۔"۔
وہ آہستہ قدموں سے ڈرائیور کے پیچھے چل دی۔ وہ اپنے ہی سوالات کے بھنور میں گم تھی ۔
"آخر اس شخص کی شخصیت اتنی پیچیدہ کیوں ہے؟ کبھی اتنا سخت اور کبھی اتنا نرم؟ یہ میری زندگی میں آیا کیوں ہے؟"۔
نیچے ابصار کھڑا تھا، اپنے موبائل میں مصروف۔دوسرے ہاتھ میں وہی سٹالر لیا تھا جو تھوڑی دیر پہلے اسکے بدن پر تھا ۔جو بقول اس کے اسکی ماں کا تھا ۔ اس نے آیت کی طرف دیکھنے کی بھی زحمت نہ کی،۔ جیسے اسے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ آیت نے اس کی طرف دیکھا، مگر کچھ بولنے کے بجائے خاموشی سے گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔۔
گاڑی کے دروازے پر پہنچ کر ڈرائیور نے دروازہ کھولا، اور آیت اندر بیٹھ گئی۔۔
میم یہ آپ کے لیے سر نے کہا ہے یہ جب تک ختم نہیں ہوگا آپ کو گھر نہ اتاروں ۔۔۔۔
ڈرائیور نے ایک پیکٹ آیت کی طرف بڑھایا ۔۔۔اس میں برگر ،فرایز اور ڈرنک تھی ۔۔۔آیت نے لمبی سانس لے کر سر کو خم دیا اسے بھوک تو بہت شدید لگی ہوئی تھی ۔۔۔اب بحث کرنے کی بھی گنجائش نہیں تھی اس میں ۔خاموشی سے وہ پیکٹ ہاتھ سے لے لیا ۔۔
برگر کا بائٹ لیتے ہوئے وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ "یہ شخص آخر چاہتا کیا ہے؟"۔
اتنی ڈارک پرسنلٹی کیوں ہے ۔؟؟
💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥
تابش کے گھر پہنچتے ہی نور نے گاڑی سے اترتے ہی اپنے مخصوص انداز میں کہا
"واہ، مسٹر فضول پولیس والے ! گھر تو بڑا شاندار ہے، لیکن کیا آپ کی امی بھی اتنی ہی خطرناک ہیں جتنے آپ ہیں؟"
نور کے فضول سوال پر تابش نے ناگواری کا اظہار کیا ۔۔۔
"نور، تمیز سے بات کرنا۔ میری امی تمہاری طرح نہیں ہیں، وہ بہت عزت دار خاتون ہیں۔"۔
"ارے بھئی، میں تو فرشتہ بن کر ملوں گی۔"
نور نے پلکیں جهپکایں ۔۔۔۔
"نور، سنبھل کر، یہاں تمہاری زبان کے گولے نہ چلانا!"۔ہم کسی کے گھر مہمان ہیں ۔نشا اسکے کان میں بولی ۔۔۔
ارے تو تو چپ کر ۔۔۔نور نے بیچاری کو چٹکی میں چپ کرایا ۔
تابش نے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور گہری سانس لی ۔۔اس لڑکی کو کیسے برداشت کرے گا وہ خود نہیں جانتا تھا ۔۔۔
دروازہ کھلتے ہی تابش کی امی، شائستہ بیگم، سامنے آئیں۔ نور نے ان کی طرف دیکھا اور جھٹ سے بول پڑی ۔
"السلام علیکم، آنٹی! کیا ہم اس شیر کے گھر میں داخل ہو سکتے ہیں؟"۔
شائستہ بیگم نور کے انداز پر حیران ہوئیں لیکن مسکراتے ہوئے جواب دیا
"وعلیکم السلام بیٹا۔ بیٹا تم شیر کے گھر میں داخل ہوچکی ہو ۔دروازہ بند کرتے ہوئے وہ بولیں ۔۔؟"۔
نور نے ہنستے ہوئے کہا
"جی آنٹی، آپکا سینس اف ہیومر تو غضب کا ہے ۔۔ آپ کے بیٹے کے ساتھ رہنا کسی ایڈونچر سے کم نہیں مگر آپ کو مل کر خوشی ہوئی ۔۔"۔
تابش کی ماں، شائستہ بیگم، نور اور نشا کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں۔ نور کے بے تکلف انداز اور مسکراتے چہرے نے ان کا دل فوراً جیت لیا۔ نور نے جیسے ہی ان سے بات کرنا شروع کی، شائستہ بیگم نے محسوس کیا کہ یہ لڑکی بہت معصوم اور بے ساختہ ہے۔
"بیٹا، تمہارا نام کیا ہے؟" شائستہ بیگم نے نور سے پوچھا۔
"آنٹی، میرا نام نور ہے،۔نور ان کے گلے لگی
نشا، جو خاموش کھڑی تھی، احترام سے بولی ۔
"آنٹی، ہمیں یہاں آنے کی اجازت دینے کے لیے شکریہ۔ ہم زیادہ پریشانی نہیں دیں گے۔"۔آپ اس کی باتوں پر مت جایئں یہ پاگل ہے ۔
شائستہ بیگم نے شفقت سے کہا
"بیٹا، کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ یہ گھر تمہارا بھی ہے۔ لیکن نور بیٹی، تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ تم تابش کو تنگ کرتی ہو ؟"۔
شائستہ بیگم نے ہنستے ہوئے نور کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔انہیں نور پہلی نظر میں بہت پسند آیی ۔
نازک سی ،لمبی اٹھان والی رنگت میں پٹھانوں جیسی سرخی لیے ۔۔۔ شرارتی سی لڑکی لگی ۔تابش کے ساتھ کھڑی بہت جچ رہی تھی ۔۔جیسا انکا تابش تھا انچا لمبا ۔۔نور بھی قد کاٹھ میں اچھی تھی ۔۔۔
"امی، میں نے پہلے ہی کہا تھا، یہ لڑکی خطرناک ہے!"۔
تابش نے اپنی ماں کو آگاہ کیا ۔۔
کوئی نہیں بہت پیاری بچی ہے ۔
"آنٹی، آپ نے بالکل صحیح کہا! لوگ اکثر یہی کہتے ہیں کہ میری باتیں سن کر دل خوش ہو جاتا ہے۔"۔
شائستہ بیگم کھلکھلا کر ہنسی
۔چلو تم دونوں فریش ہوجاؤ میں کھانا لگواتی ہوں ۔۔
ملازم انکا سامان لے گیا تھا ۔۔وہ بھی اسکے پیچھے بڑھ گئیں ۔۔۔
تابش نے ان کے جانے کے بعد ماں کو پکڑا ۔۔۔
امی ان سے ذرا آپ فاصلہ رکھیں گی یہ بہت تیز ہیں ۔۔تابش کو نور کا فری ہونا پسند نہیں آیا ۔۔
ارے ہٹو تم برسوں بعد اس گھر کوئی خاموشی کو توڑنے والا آیا ہے ۔۔۔اتنی پیاری بچی ہے ۔ اتنی پیاری لگ رہی تھی کھڑی ہوئی تمہارے ساتھ ۔۔۔شائستہ شرارت سے گویا ہوئیں ۔۔۔
بس آپ پھر شوروع۔ ۔چورنیاں ہیں دونوں نظر رکھنی ہے آپ کو چونا نہ لگا دیں ۔۔تابش کو اپنی ماں کی معصومیت پر پیار آیا ۔۔۔
"تابش، تمہیں شرم آنی چاہیے۔ ایسی خوش اخلاق اور زندہ دل لڑکی کے بارے میں ایسے الفاظ؟۔شائستہ بیگم کو افسوس ہوا ۔
"امی، یہ صرف آپ کو متاثر کر رہی ہے۔ اصلیت جاننے میں وقت لگے گا۔"۔
تابش نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی ۔
چل جا منہ ہاتھ دھو میں تیری ماں ہوں ۔۔تو میرا باپ نہ بن ۔
شائستہ بیگم اسے گھورتے ہوئے کچن کی طرف گئیں ۔۔۔
تابش صرف سرد سانس لے کر رہ گیا ۔۔۔
🧐🧐🧐🧐🧐🧐🧐🧐🧐
وجدان کمرے میں آیا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ کمرے میں ہلکی مدھم روشنی تھی، اور ماروی بیڈ پر گہری نیند سو رہی تھی۔ وجدان کی نظریں اس پر جم گئیں، اور دل میں اطمینان محسوس ہوا۔
ملازم نے وجدان کو بتایا تھا کہ ماروی نے کھانا کھا لیا ہے اور کپڑے بھی بدل لیے ہیں۔ یہ سن کر وجدان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی تھی۔ اسے خوشی ہوئی کہ ماروی نے اس کی بات مانی۔
وجدان آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا، تاکہ ماروی کی نیند میں خلل نہ ہو۔ وہ قریب آ کر بیڈ کے پاس کھڑا ہوا، اور ایک لمحے کے لیے اس کے معصوم چہرے کو دیکھتا رہا۔ ایک طرف بے پناہ محبت اور دوسری طرف ایک مضبوط عزم کہ وہ ماروی کے دل میں اپنی محبت کا وہ مقام پیدا کرے جس کی وہ مستحق ہے۔
اس نے آہستہ سے ماروی کے قریب بیٹھتے ہوئے سرگوشی میں کہا، "میری سردارنی، آپ کے سکون سے زیادہ قیمتی میرے لیے کچھ نہیں۔"۔
وجدان نے فیصلہ کیا کہ وہ ماروی کو اس کی اپنی رفتار سے اس رشتے کو قبول کرنے کا موقع دے گا۔ یہ رات وجدان کے لیے ایک امتحان تھی ۔۔مگر اسکا ماننا تھا کہ جب آپ کسی کی راہ میں روشنی کرتے ہیں تو آپ کا اپنا راستہ بھی روشن ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔
تھی—قربت کی طلب اور ماروی کے اعتماد کو جیتنے کی خواہش کے درمیان۔ اس نے دھیرے سے سرگوشی میں کہا، "آپ کو دیکھ کر سکون ملتا ہے، ماروی۔ آپ میری زندگی کی سب سے خوبصورت حقیقت ہو۔"۔
آہستہ سے اس کے قریب جھکتے ہوئے، اس نے ماروی پر چادر درست کی تاکہ وہ آرام دہ محسوس کرے۔ پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے، وہ بیڈ کے دوسرے کنارے پر لیٹ گیا۔
"ماروی، آپ میری زندگی کا سب سے قیمتی حصہ ہیں ۔ میں آپ کو ہر خوشی دینا چاہتا ہوں، لیکن اپنی مرضی سے، اپنے دل سے۔" یہ سوچ کر وجدان نے اپنی آنکھیں بند کیں، اور دل میں ایک دعا کی، "یا اللہ، میری ماروی کو ہمیشہ خوش رکھنا۔"
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
فرحان سائیں کے کمرے میں بتول بیگم اور عروج، دونوں موجود تھیں، اور فرحان ان کی باتوں سے بے حد الجھن کا شکار تھا۔ وہ بار بار انہیں کہہ رہا تھا کہ وہ کمرے سے چلی جائیں، مگر وہ اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں تھیں۔
اسی دوران، دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ عائشہ اندر داخل ہوئی اور نرمی سے کہا، "سائیں وجدان نے بھیجا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ میں آ کر آپ کو دیکھوں کہ آپ خیریت سے ہیں۔"
عائشہ کی بات سنتے ہی فرحان کی آنکھیں خیراں ہوئیں ۔ اسکا چہرہ کھل اٹھا ، لیکن اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا،
آپ کو دیکھ لیا تو سمجھیں میں ٹھیک بھی ہوگیا ۔۔
"سب چلے جائیں اس کمرے سے، عائشہ کو میرے پاس چھوڑ دیں۔"۔
یہ سنتے ہی بتول سائیں اور عروج کا چہرہ اتر گیا۔ عروج غصے سے پیر پٹکتی ہوئی کمرے سے نکل گئی، جبکہ بتول بیگم نے عائشہ کی طرف سخت نظروں سے دیکھا اور طنزیہ لہجے میں کہا، "آخر ایسا کیا ہے تم میں، جو فرحان سائیں کی توجہ تمہارے اوپر سے ہٹتی ہی نہیں؟"۔
عائشہ نے سر جھکا لیا، مگر فرحان یہ باتیں سن رہا تھا۔ وہ سخت لہجے میں بول اٹھا، "بس کریں، ! یہ بات کرنے کا طریقہ ہے؟ آپ کو یہاں سے جانے کے لیے کہا ہے، تو جائیں۔ میری طبیعت خراب ہے، اور میں مزید بحث نہیں چاہتا ۔۔"۔
بتول سائیں حیران کھڑی رہیں، پھر غصے سے بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ کمرے میں اب صرف عائشہ اور فرحان رہ گئے تھے۔
فرحان نے گہری سانس لیتے ہوئے عائشہ کی طرف دیکھا اور دھیرے سے کہا، ".۔
پاس آکر حال نہیں پوچھو گی ؟؟؟
سائیں آپ خود ہی بتا دیں کیسا محسوس کر رہے ہیں ۔۔عائشہ نے اپنی نظریں نیچے رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
دیکھنے آیی ہو کہ زندہ ہوں یا مردہ ؟؟
فرحان نے شکوہ کیا ۔۔۔۔
عائشہ نے دھیرے سے جواب دیا، " سائیں۔ وجدان سائیں نے کہا تھا کہ میں آپ کا حال دیکھوں، اور یہی میرا فرض تھا۔"۔
فرحان نے عائشہ کو نظر بھر کر دیکھا ۔۔۔یہ اسکی عائشہ تو نہیں تھی ۔اسکی عائشہ تو بستر پر فرحان کو دیکھ ہی نہیں سکتی تھی ۔۔یہ تو کوئی اور ہی تھی اجنبی ۔،۔۔جاؤ چلی جاؤ ۔۔تمہاری بے رخی تمہارے دیدار سے زیادہ جان لیوہ ہے ۔۔۔۔
میں کل واپس چلا جاؤں گا اپنے کمرے میں واپس آجانا ۔میری وجہ سے چھوڑنا پڑا ۔۔۔یہ میرا ویسے بھی آخری چکر ہے حویلی کا اب نہیں آوں گا ۔۔۔۔
فرحان کی بات پر عائشہ کا دل تیزی سے دھڑکا ۔۔۔
مگر وہ خاموش رہی ۔۔۔۔
بہت تنگ کیا نہ تم کو بس یہ آخری بار تھا ۔۔۔
وہ کوئی ٹوٹا ہوا انسان لگ رہا تھا ۔۔۔۔
عائشہ کا دل بین ڈال رہا تھا ۔۔کسی انہونی ۔۔۔کچھ ہوجانے کا ڈر ۔۔۔۔۔فرحان کی باتیں اسکا لب و لہجہ اسے ڈرا رہا تھا ۔۔۔۔یا اللّه میرے سائیں کو سلامت رکھنا ۔۔۔
وہ خاموشی سے نکل تو آئی تھی مگر اسکا دل بے چین تھا ۔۔۔بہت بے چین ۔۔۔
جیسے کچھ ہونے والا تھا ۔کچھ بہت برا ہونے والا تھا ۔
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o/1206
🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼
جاری ہے ۔
❤️
🌸
😂
😢
6