
سبق آموز واقعات وحکایات
February 27, 2025 at 02:44 PM
*⚔️حــــجـــــاز کــــی آنــــدھـــــی🏇*
*قـسـط نــمـبـر 54*
*✍🏻"میں حیران ہوں کہ تم لوگ مسلمانوں سے ڈرتے کیوں ہو" ____ یزدگرد نے کہا ____ "میں نے ان عربوں کو پہلی بار دیکھا ہے ۔ ان کا وفد میرے پاس آیا تھا ۔ کہتے تھے کہ ہم اپنے قبیلوں کے سردار اور معزز لوگ ہیں ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ ادا کرو ، اور اگر یہ دونوں سورتیں منظور نہیں تو اس کا فیصلہ ہماری تلوار کرے گی ۔۔۔۔۔۔*
"میری نگاہ میں یہ مسلمان بہت ہی گھٹیا قوم ہے ۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ تم بھوکے اور غریب لوگ ہو ، ہم تمہیں کھانے کو دیں گے اور تم پر ایسا بادشاہ مقرر کریں گے جو تمہارے ساتھ مہربانی سے پیش آئے گا ۔۔۔۔۔۔ میں نے مٹی کا بھرا ہوا ایک ٹوکرا منگوایا اور حکم دیا کہ ان سب میں جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ برتر اور معزز سمجھتا ہے ، یہ ٹوکرا اس کے سر پر رکھ دو اور ان سب کو ہانکتے ہوئے مدائن سے نکال کر آؤ ۔۔۔۔۔۔
"میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں سب سے زیادہ معزز ہوں ۔ یہ ٹوکرا میرے سر پر رکھو ۔ مجھے تو یہ توقع تھی کہ یہ لوگ غصے میں آ جائیں گے یا دربار سے چلے جائیں گے۔ لیکن! یہ ایسے احمق نکلے ایک نے بڑھ کر ٹوکرا اپنے سر پر رکھوا لیا اور وہ سب چلے گئے ۔ ان لوگوں کو عزت اور وقار کا احساس ہی نہیں۔"
"شاہ فارس!" ____ رُستم نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ____ "کیا وہ مٹی کا ٹوکرا اپنے ساتھ لے گئے تھے ؟"
"اپنے ساتھ لے گئے تھے"____ یزدگرد نے جواب دیا ____ "جو آدمی انہیں شہر سے نکالنے کے لیے گئے تھے ، انہوں نے واپس آ کر بتایا تھا کہ جس آدمی نے اپنے سر پر مٹی کا ٹوکرا کھا تھا اس نے شہر سے نکل کر بھی ٹوکرا پھینکا نہیں تھا بلکہ اُس نے ٹوکرا اپنے گھوڑے پر اپنے ہی آگے رکھ لیا تھا اور ساتھ ہی لے گیا تھا۔"
"بہت بُرا ہُوا شاہِ فارس!" ____ رُستم نے کہا اُس کی آواز لرز رہی تھی ____ "یہ تو بہت بُرا شگون ہے، آپ نے اپنے وطن کی مٹی خود اس کے سر پر رکھ دی تھی۔"
"تو کیا ہوا؟" ____ یزدگرد نے کہا _
"اس کا جواب علمِ نجوم اور علمِ قیافہ کے پاس ہے" ____ رستم نے کہا ____ " آپ نے اپنی زمین ایک مسلمان کے سر پر رکھ کر اُسے یہ اشارہ دیا ہے کہ فارس کی زمین تمہاری ہے ۔۔۔۔۔ شاہ فارس! اگر وہ مٹی مسلمانوں نے پھینک نہیں دی تھی اور اپنے ساتھ لے گئے تھے تو عراق سے نکلنے کی تیاری کریں۔"
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رستم علمِ نجوم و جوتش میں دسترس رکھتا تھا اور اپنی ہر پیشگوئی کو وہ سو فیصد سچ مانتا تھا ۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں رستم وہمی تھا اور وہ قیافہ شناسی کو مذہبی عقیدے کی طرح مانتا تھا ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رستم کو اپنی اس پیش گوئی پر اگر یقین تھا کہ فارس کو شکست ہو گی تو پھر لڑنا کیوں ضروری سمجھا؟۔۔۔۔۔۔ محمدحسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ فارس کے جرنیل علم نجوم پر بھروسہ کرتے تھے اور رستم تو اس علم کا شیدائی تھا ۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے اس لئے تیار ہو گیا تھا کہ وہ مغرور اور خود پسند تھا ۔ اتنا زیادہ کہ وہ جنگ سے منہ موڑنے میں اپنی توہین سمجھتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ جنگ کو ٹال بھی رہا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رستم اپنی مغرور اور متکبرانا اور علمِ نجوم و جوتش میں اپنی مہارت کے درمیان بھٹک رہا تھا ۔
ادھر عاصم بن عمرو نے ازراہِ مذاق یا غالبًا طنزًا اپنے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے آگے مٹی کا ٹوکرا رکھ کر کہا تھا کہ مبارک ہو ، فارس کے بادشاہ نے اپنی زمین خود ہی ہمیں تحفے کے طور پر دے دی ہے لیکن رستم نے فیصلةً کہہ دیا کہ مٹی کا ٹوکرا مدائن سے نکل کر مسلمانوں کے سپہ سالار تک پہنچ جانا صاف اشارہ ہے کہ فارس کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
مسلمانوں کو اللہ پر اور آتش پرستوں کو نجوم اور جوتش پر بھروسہ تھا ۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی طرف پیغام بھیج دیا تھا کہ فارس کے بادشاہ نے ہمارے وفد کے ساتھ توہین آمیز سلوک کر کے اس طرح واپس بھیجا ہے کہ مٹی کا ٹوکرا عاصم بن عمرو کے سر پر رکھ دیا تھا ۔
خلافتِ مدینہ سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا جواب آ گیا ۔ امیر المومنین نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بہت سی ہدایات لکھ بھیجیں اور لکھا کہ قادسیہ پہنچ جاؤ اور وہاں کی زمین کا مکمل نقشہ مجھے لکھو تاکہ میں ضروری ہدایات دے سکوں ۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے یہ بھی لکھا کہ بستیوں پر حملے جاری رکھو اور لشکر کی ضروریات پوری کرتے رہو ۔
شاہ فارس!" ____ رستم نے یزدگرد سے کہا ____ "آپ واپس مدائن چلے جائیں اور مجھ پر بھروسہ رکھیں۔"
"رُستم!" _____ یزدگرد نے کہا ____ "تم پر بھروسہ ہوتا تو مجھے یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔" تاریخوں میں تفصیل سے آیا ہے کہ یزدگرد کی اس بات سے رستم جل اُٹھا ۔ اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اُس کی آنکھوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔
"آپ یہاں سے چلے جائیں شاہِ فارس!" ____ رستم نے کانپتی ہوئی سی آواز میں کہا ___ "میں نے آپ کے والد کِسریٰ پرویز سے بھی کبھی یہ بات نہیں کہلوائی تھی کہ انہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ چلے جائیں اور جنگی اُمور اور عربوں کو عراق سے نکالنے کا مسئلہ مجھ پر چھوڑیں۔ ہو سکتا ہے میں بغیر لڑے عربوں کو عراق سے نکال دوں ۔"
"نہیں رستم!"_____ یزدگرد نے کہا ____ "میں مسلمان قوم کو ایسا تباہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ فارس کی طرف دیکھیں تو ان پر خوف کا رعشہ طاری ہو جائے ۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم بغیر لڑائی کے انہیں عراق سے کس طرح نکالو گے۔"
"میری بات ذرا اور غور سے سُنیں شاہِ فارس!" _____ رستم نے کہا ____ "جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے ۔ یہ نہ بھولیں کہ آپ بچے ہیں اور آپ کے پاس صرف جذبہ ہے ، تجربہ نہیں ۔ میری ذمہ داریوں میں دخل نہ دیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ عربوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپنی فوج کو تباہی سے بچانا چاہتا ہوں ۔ یہ نہ سمجھیں کہ عرب تعداد میں بہت تھوڑے ہیں تو ہم انہیں گھیر کر چیر پھاڑ دیں گے ۔ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا نہ رہیں کہ وہ ہمارے ساتھیوں سے ڈر جائیں گے ۔ انہوں نے دو لڑائیوں میں ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ دی تھیں ۔۔۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں کہ یہ معاملات مجھ پر چھوڑ دیں اور آپ یہاں سے چلے جائیں۔"
یزدگرد واپس چلا گیا ۔
رستم نے یزدگرد کے جانے کے بعد قاصدوں کو بلایا اور ان تمام جرنیلوں اور دیگر کمانڈروں کے نام پیغام بھیجے جو اپنے دستوں کو مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی سرکوبی کیلئے لے کر گئے تھے پیغام میں اُس نے لکھوایا کہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہو کر ساباط آ جاؤ اور اپنے جوانوں کو کیل کانٹے سے لیس کر کے ان میں وطن کی خاطر لڑنے کا ایسا جزبہ پیدا کرو کہ مسلمانوں کو دیکھ کر درندے بن جائیں ۔
اُس وقت مسلمانوں کے لشکر کے زیادہ تر دستے نجف ، فراز اور عراق کی دو تین اور بستیوں میں پھیلے ہوئے تھے ۔
یزدگرد مدائن پہنچا ، وہ کئی دن غیر حاضر رہا تھا ۔ وہ جب مدائن میں داخل ہوا تو اس کی ماں کو اطلاع ملی ، وہ دوڑتی ہوئی گئی ۔ یزگرد ماں کو دیکھ کر گھوڑے سے اُترا ۔ ماں دوڑ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی تھی ۔ اُسے کسی نے نہ بتایا کہ اُس کا بیٹا موت کے منہ سے نکل کر آیا ہے ۔
یزدگرد نے محل میں پہنچتے ہی ساران کو بلایا ۔ ساران پہلے سے وہاں موجود تھا ۔ وہ یزدگرد کے بلاوے کا منتظر تھا ۔ اُس نے یزدگرد کو ایک خبر سُنانی تھی ۔
"کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ میرے دُشمن کون ہیں؟" ____ یزدگرد نے ساران سے پوچھا ۔ انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا ہے" _____ ساران نے کہا ___ "وہ اس تخت کا آخری دُشمن تھا ۔۔۔۔۔ وہ ایک عورت تھی۔"
"شیریں؟"____ یزدگرد نے کہا۔
"ہاں!" ____ ساران نے کہا _____ "شیریں ۔۔۔۔۔ تم ساباط چلے گئے تو میں نے باقی تین آدمیوں کو دھوکے میں لا کر پکڑ لیا تھا ۔ وہ میری دوستی کے دھوکے میں آ گئے تھے ۔ انہوں نے بتا دیا کہ کس معاوضے پر شیریں نے انہیں تمہارے قتل کے لیے بھیجا تھا ۔ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ شیریں کہاں رہتی ہے ۔ میں نے جا کر اُسے دو آدمیوں سے قتل کروایا پھر ان تین آدمیوں کو بھی قتل کروا کے لاشیں غائب کر دی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب تمہارا کوئی دُشمن زندہ نہیں یزدگرد!"
ساران نے یزدگرد کو اتنا ہی بتایا کہ اُس نے اُس کی غیر حاضری میں شیری اور تین آدمیوں کو قتل کر دیا ہے ۔ اُس نے اس واردات کی تفصیل نہیں سُنائی تھی ۔ وہ صاحبِ حیثیت اور شاہی محل میں اثر و رسوخ رکھنے والا آدمی تھا ۔ اُس کے لیے ان تین آدمیوں کو کسی خوبصورت دھوکے میں لانا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ ان سے اُس نے یہ راز لے لیا تھا کہ انہیں شیریں نے یزدگرد کے قتل کے لیے بھیجا تھا ۔
ساران کو معلوم نہیں تھا کہ شیریں کہاں رہتی ہے ۔ اُسے شیریں کا ٹھکانہ ان آدمیوں سے معلوم ہو گیا اور وہ وہاں چلا گیا تھا ۔ شیریں اُسے اچھے طریقے سے ملی لیکن شیریں کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو گئے تھے ۔
"مجھے دیکھ کر تمہیں اتنا پریشان نہیں ہونا چاہیے شیریں" ____ ساران نے کہا تھا ____ "میں شاید تمہارے لئے اجنبی نہیں ہوں۔"
"پریشانی اس سے ہوئی ہے کہ تمہیں میرا گھر کس نے بتایا ہے" ____ شیریں نے کہا تھا ____ "ٹھیک کہتے ہو تم میرے لیے اجنبی نہیں ہو ۔ تمہارا تعلق نورین کے ساتھ تھا اور تم کسریٰ پرویز کے قریبی حلقے میں تھے ۔۔۔۔۔ کیوں آئے ہو؟"
"شیریں!" ____ ساران نے رازداری سے کہا تھا_____ "یزدگرد کو قتل کروانا تھا تو مجھے بتاتیں۔ تم نے کچے آدمیوں پر اعتبار کیا اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا ۔ ایک تو وہیں یزدگرد کے ایک محافظ کے تیر کا نشانہ بن کر مارا گیا اور باقی تین بھاگ گئے۔"
"ساران!" شیریں نے حیرت زدگی کے لہجے میں کہا تھا ____ "یہ تمہیں کس نے بتایا ہے کہ انہیں میں نے یزدگرد کو قتل کروانے کے لیے بھیجا تھا ؟"
"ان تین آدمیوں نے تمہارا پردہ رہنے نہیں دیا" ______ ساران نے کہا تھا _____ "وہ یزدگرد کو بھی بتا دیں گے۔ پھر جانتی ہو تمہارا انجام کیا ہو گا ؟"
؟تم یہاں کیوں آئے ہو؟" ____ شیریں نے کہا تھا ______ کیا مجھے ڈرا دھمکا کر مجھ سے کچھ وصول کرنا چاہتے ہو ؟"
"میں تمہارے ساتھ سودا کرنے آیا ہوں" _____ ساران نے کہا تھا _____ "میں یزدگرد کو قتل کروں گا۔ بولو کیا دیتی ہو۔" شیریں ایسے ہنسی ہنس پڑی جس میں طنز تھی۔ ساران کو معلوم تھا کہ شیریں انتہا درجے کی چالاک ، عیار اور مکار عورت ہے اور اس عورت نے خسرو پرویز جیسے فرعون کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا تھا اور جب ضرورت پڑی تو اس نے اپنی سوکنوں کے اٹھارہ بیٹے قتل کروا دیئے پھر اپنے خاوند خسرو پرویز کو بھی مروا دیا تھا ۔ اس عورت کی جادوگری کا کمال تو یہ تھا کہ اس نے تمام جرنیلوں کو اپنے زیر اثر کر کے خسرو پرویز کے خلاف کر دیا تھا ۔
"میں یزدگرد کو قتل کروا کے کیا کروں گی ؟" ____ شیری نے کہا تھا ____ اپنا ایک ہی بیٹا تھا وہ قتل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو ۔۔۔۔۔ میں کسی ماں کے اکلوتے بیٹے کو قتل نہیں کراؤں گی ۔ تم چلے جاؤ ساران! مجھے پریشان نہ کرو ۔ باقی زندگی ذرا سکون سے گزار لینے دو۔"
ساران نے بہت کوشش کی کہ شیریں دل کا راز دے لیکن وہ انکار پر ہی قائم رہی ۔ راز تو ساران کو تین آدمیوں سے مل چکا تھا ۔ ایک روایت یہ ہے کہ ساران اُس سے دولت ہتھیانے کی کوشش میں تھا ۔ اُسے اندازہ تھا کہ شیریں نے اتنے جواہرات اور دولت چھپا رکھے ہوں گے جو سلطنتِ فارس کے خزانے میں بھی نہیں ہوں گے ۔
شیریں نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا جیسے تالی بجائی جاتی ہے ۔ کمرے کا اندر والا دروازہ کھلا اور دو آدمی ہاتھ میں تلوار اُٹھائے سامنے آئے ۔
"مجھے افسوس ہے ساران!" ____ شیریں نے کہا تھا _____ "اب تم نورین کے پاس زندہ نہیں جا سکو گے۔" ____ شیریں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی تھی ____ "تم نورین کے آدمی ہو" ____ شیریں نے اپنے دو میوں کی طرف اشارہ کیا اور مسکراتے ہوئے بولی ____ "غائب کر دو اسے!"
دونوں آدمی آگے بڑھے اور ایک آدمی نے ساران کا ایک بازو اور دوسرے نے دوسرا بازو پکڑ لیا ۔ ساران نے قہقہہ لگایا ۔ چار آدمی دوڑتے ہوئے کمرے میں آئے ۔ دو کے پاس تلواریں اور دو کے پاس برچھیاں تھیں ۔ انہوں نے تلواریں اور برچھیاں تان کر شیریں کے دونوں آدمیوں کو گھیرے میں لے لیا ۔ ساران نے اپنے آدمیوں کو جو اُس کے ساتھ آئے تھے اور باہر چھپے ہوئے تھے سر سے اشارہ کیا ۔ ساران کا قہقہہ انہیں اندر بلانے کا اشارہ تھا ۔
شیریں کے شاہانہ کمرے میں ہلکی ہلکی چیخیں اُٹھیں اور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو گئیں ۔ شیریں اور اس کے دونوں آدمیوں کی لاشیں کمرے میں پڑی تھیں اور ساران اور اس کے آدمی سارے گھر کی تلاشی لے رہے تھے ۔ ایک ٹرنک سے سونے اور چاندی کے ٹکڑے اور ہیرے جواہرات برآمد ہوئے ۔ لکڑی کے ایک بکس سے ایسی ہی کچھ قیمتی اشیاء برآمد ہوئیں ۔ ان کے نیچے تقریبًا ایک فٹ چوڑا اور ڈیڑھ فٹ لمبا چمڑے کا ٹکڑا پڑا تھا ۔ اس پر نقشہ سے بنا ہوا تھا ۔ چند ایک جگہوں کے نام بھی لکھے ہوئے تھے ۔ راستوں کی لکیریں تھیں اور ایک کراس کا نشان تھا ۔
ساران نے یہ نقشہ لپیٹ کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیا ۔ رات ہی رات شیریں اور اس کے دو محافظوں کی لاشیں صحن میں ایک گڑھا کھود کر دبا دی گئیں ۔ ساران نے اپنے آدمیوں میں سے ایک سے کہا کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو اس مکان میں لے آئے اور یہاں آباد ہو جائے۔۔۔۔
*<=================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 55 میں پڑھیں*
*<=================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل/گروپ جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️
👍
4