
سبق آموز واقعات وحکایات
February 28, 2025 at 12:51 AM
ناول میرا نام ہے محبت
قسط نمبر 17۔
تحریر سنیہ شیخ
میر !!!۔۔بس اب بہت ہوا میں اب اس سے زیادہ ابصار کی بدتمیزی برداشت نہیں کروں گی ،اگر وہ مجھے پر کیس کر رہا ہے اس دو ٹکے کی عورت کے لیے تو مجھ سے بھی امید نہ رکھے ۔۔
وہ لہجے میں نہایت نفرت لیے ابصار کے لیے زہر اگلتی میر صاحب کو ورغلا رہی تھیں ۔۔
میر صاحب نے انکی کسی بھی بات کا رسپونس نہیں دیا جس پر وہ آگ بگولہ ہوتی انکے سامنے کھڑی ہوئیں ۔۔۔
"کیا اب میری باتیں اتنی غیر اہم ہیں کہ سننا تو دور آپ میری طرف دیکھنا بھی نہیں چاھتے ۔"۔
وہ شکوہ کرتی ہوئی میر صاحب کے سامنے کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح کھڑیں تھیں ۔۔۔
کیا چاہتی ہو اب ؟؟میر صاحب بے زاری سے اسے دیکھتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔۔
آپ ۔۔آپ اپنے بیٹے کو سمجھایں اس دو کوڑی کی لڑکی کی خاطر اپنے بھائی کو بدنام نہ کرے ۔۔قیس اسکا بھی بھائی تھا ۔۔اسے کچھ تو لحاظ ہونا چاہئے وہ لڑکی قیس کی بیوہ ہے کیسے اسے لیے پھر رہا ہے ۔ستارہ اپنی بات که کر میر صاحب کے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ گئیں ،محبت سے ہاتھ گھٹنے پر رکھے جو میر صاحب نے اسی وقت جھٹک دئے ۔۔
کل تک تم کہتی تھیں ابصار میرا بیٹا نہیں وہ تو سپولا ہے ،اور آج کہتی ہو بیٹے کو سمجھاؤں ،منافق تو کوئی تم سا ہو ستارہ ۔
میر صاحب نے طنزیہ لہجے میں جواب ستارہ کے منہ پر مارا وہ غصے سے تلملاتی ہوئی دوبارہ بولیں ۔۔
میر صاحب میرا میری ایک بات یاد رکھیں آپ نے ابصار کو نہ روکا تو جو قیس کی بیماری میڈیا پر آے گی پھر کیسے کوور کریں گے ۔۔کیا کیا چھپایں گے آپ اور پھر آپ کی رپوٹیشن جھٹکے میں برباد ہوجاے گی ۔۔مارکیٹ میں ویسے بھی آپ کی کومپنی کو ابصار نے بہت ٹف ٹائم دیا ہوا ہے سارے شیرز وہ خرید چکا ہے ،بزنس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے اس صورت میں قیس کی بدنامی آپ کے کاروبار پر اثر انداز ہوگی ۔۔
ستارہ بیگم انہیں فیکٹس سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔
وہ گہری سانس لیتے ہوئے ٹوٹے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے ۔۔۔
کیا کروں گا ویسے بھی اس دولت کا کس کے لیے سمبھالوں گا ایک وارث کو تم نے چھین لیا اور ایک قدرت لے گئی ،میرے ہاتھ خالی ۔کیا اب بھی سکون نہیں ملا تمھیں بدزات عورت ۔۔میری بیوی کو کھا لیا میرا بیٹا مجھ سے دور کردیا میری ماں تمہاری وجہ سے ناراض رہتی ہے اور کیا کروں میں تمہارے لیے ۔قدرت نے اتنی بڑی چوٹ لگا دی جوان بیٹا میں نے اپنے ان ہاتھوں سے قبر میں اتارا ہے سوچ سکتی ہے ایک باپ کی بے بسی کی انتہا کیا ہوگی تب ۔۔کاش تم قیس کی تربیت اچھی کر لیتیں تو آج میں اتنا مجبور نہ ہوتا انکی آواز میں بے بسی اور کرب تھا ۔دل پر بوجھ تھا اب وہ اکتا گئیے تھے ستارہ کی بے حسی سے ۔۔
قیس صرف آپ کا نہیں میرا بھی بیٹا تھا ۔مجھے تربیت کے تانے مت دیں ،کیا بھول گئیے اپنے ابصار کے کارنامے ۔کیوں میر پیلس سے نکالا گیا تھا ،سب بھول گئے کیا میر عالم صاحب۔
ستارہ بیگم کے سینے میں اس وقت آگ دہک رہی تھی میر عالم کی باتیں انہیں سلگا چکی تھیں ۔۔اتنا ہی شریف ہے تو کیوں اپنی ہی بھابھی کے ساتھ رنگ رلياں منا رہا ہے وہ نفرت میں آپے سے باہر ہورہی تھیں ۔۔۔۔
تمہاری سوچ بھی تمہاری طرح گھٹیا ہے ستارہ وہ قیس کی بیوہ ہے وہ صرف نکاح میں تھی اسکے رخصتی والے دن ہمارا بچہ اس دنیا سے رخصت ہوا تھا ،اتنا ڈر لگ رہا ہے ابصار سے تو پھر اس بچی کو اسکا حق دے دو ،نہ عدالت کے چکر میں پڑو ،،،/
وہ تھوڑا سا سانس لے کر دوبارہ مخاطب ہوئے ۔۔۔جو بن پڑے کرلو میں تمہاری کسی بات میں نہیں آوں گا ۔۔۔وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے تکیے پر سر ٹکا گئے پرانی یادوں کو ایک سمندر تھا جو ایک بار پھر کسی فلم کی طرح انکے دماغ میں چل رہا تھا ۔۔
دکھ ،تکلیف ،پچھتاوہ ۔۔۔اب یہی انکے ہمسفر تھے ۔۔ستارہ ہمیشہ کی طرح جلتی کڑہتی ہوئی کمرے کا دروازہ زور سے پٹخ گئیں تھیں یہ سب تو اب روز کا معمول تھا ۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
تابش صبح جم سے فارغ ہوا تو ہر روز کی طرح جوس کا منتظر تھا، مگر جوس کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ وہ کچھ دیر تو صبر سے انتظار کرتا رہا، پھر بے چینی سے نیچے آیا۔۔خیر ہو آج امی کی طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔
کچن میں داخل ہوتے ہی وہ حیران رہ گیا۔
شائستہ بیگم اور نور کچن میں بیٹھی ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ نور باتوں کے ساتھ ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ سمجھا رہی تھی، اور شائستہ بیگم کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں۔
"امی!" تابش نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا۔
شائستہ بیگم نے چونک کر اسے دیکھا اور معصومیت سے پوچھا ۔
"کیا ہوا؟ اتنا غصے میں کیوں ہو؟"
انہیں اب بھی یاد نہ آیا کہ ان کے بیٹے کا جوس کا ٹائم ہے ۔۔
"یہ پوچھنے آیا ہوں کہ میرا جوس کہاں ہے؟ آپ تو روز میرے جوس کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، آج کیا خاص بات ہے جو بھول گئیں؟" تابش نے تیز لہجے میں کہا۔تابش کو نور سے شدید جلن کا احساس ہوا ۔۔
"خاص بات میں ہوں، تابش صاحب! آنٹی کو آج میری کمپنی میں زیادہ مزہ آ رہا تھا، اس لیے آپ کے جوس کی اہمیت ختم ہو گئی۔"۔
شائستہ بیگم کی جگہ جواب نور نے دیا ۔
"نور، صبح صبح میرے منہ مت لگو "۔"
تابش نےناگواری سے نور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
"بیٹا، میں بھول گئی تھی۔ ابھی بناتی ہوں۔"
تابش کا خراب موڈ دیکھ کر شائستہ بیگم وضاحت دیتے ہوئے کھڑی ہوئیں ۔۔
"نہیں رہنے دیں اب ٹائم نہیں ہے مجھے نکلنا ہے ۔آپ میڈ سے بولیں میری بلیک کوفی دے جائے مجھے روم میں "۔
وہ نروٹھے پن سے بولتا ہوا واپس مڑا ۔۔
مسٹر فضول پولیس والے ،"اس وقت آپ نے کونسا کوئی ڈاکو پكڑنا ہے ،وہ بھی سب سورہے ہونگے آپ بھی آرام سے ناشتہ کریں یہ بلیک كافی کی وجہ سے ہی آپ کے مزاج میں کڑواہٹ ہے "۔۔
نور نے ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے تابش کو مزید آگ لگائی ۔۔
"نور، اگر تم اپنی بکواس بند نہیں کرو گی تو میں تمہیں کچن سے باہر پھینک دوں گا!"۔۔تابش، جو اب تک صبر کا مظاہرہ کر رہا تھا، آخرکار چڑ کر بولا
"بس کرو تم دونوں! تابش، میں ابھی جوس بنا رہی ہوں۔ اور نور، تم چپ ہو جاؤ۔"۔
شائستہ بیگم نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔
ارے آنٹی ایک تو میں نے مفت میں مشورہ دیا ہے اپر سے یہ ہیں کہ صبح صبح آدم خور بنے گھوم رہے ہیں پولیس والے ہونگے تهانے میں یہاں تو انسان بن کر رہیں ۔وہ معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتی ہوئی آنکھیں جھپک کر بولی ۔۔
تابش نے غصے سے نور کو گھورا، جو آرام سے بیٹھی ٹوسٹ کے بعد مزے سے بسکٹ کھا رہی تھی۔
"نور! تم میرے ہی گھر میں مجھے آنکھیں مت دکھاؤ!" تابش کا پارہ چڑھ گیا۔
نور نے بسکٹ کا ایک اور نوالہ لیا اور کندھے اچکاتے ہوئے بولی، "آنکھیں دکھا کر میں نے کون سا آپ کی جائیداد لینی ہے؟"
تابش نے مٹھیاں بھینچ لیں، "نور!"۔
نور نے تابش کو تپتے دیکھ کر مزید مزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ چیئر پر مزید آرام سے بیٹھی اور جان بوجھ کر آنکھیں گھما کر بولی،۔
"ویسے ، آپ ہمیشہ ایسے منہ بنا کر کیوں رکھتے ہیں ۔ جیسے دنیا کے سارے دکھ آپ کو ہی ہی مل گئے ہوں۔"۔
تابش نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا، "تمہیں دیکھ کر ہی سارے دکھ یاد آ جاتے ہیں!"۔اور میرا منہ میری مرضی ۔
نور نے بسکٹ کا آخری نوالہ لیا اور تابش کی طرف دیکھ کر بولی، "پھر تو میرا احسان ماننا چاہیے، کم از کم اپنی قسمت کا پتہ تو چل گیا۔"آپ کو ۔۔
نور ۔۔۔۔میں بتا رہا ہوں بہت بری طرح پیش آوں گا ۔۔۔تابش کا خالی پیٹ وہ اچھا خاصا دماغ گھم چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
تم ،یہ مفت کا مال ٹھوسنا بند کرو تیار ہو میرے ساتھ جانا ہے تم نے آج سے کام سٹارٹ کرو ۔"۔۔اپنی ماں کے سامنے ہوتی انسلٹ پر وہ تلملا رہا تھا ۔نور اس وقت اسے زہر لگ رہی تھی ۔
جی معذرت جب تک میری دبئی کی ٹکٹ نہیں کروایں گے میں تو کام نہیں کرنے والی ۔۔۔نور نے صاف ہری جھنڈی دکھائی ۔۔۔
"جہنم کی ٹکٹ نہ کروا دوں تمہاری . اور وہ بھی ڈائریکٹ فلائٹ "۔
تابش نے اسے ایک آئ برو اچکا کر دیکھتے ہوئے کہا ۔
تو اپنی بھی کروا لیں مجھے تو راستوں کا نہیں پتہ آپ کو ذرا وہاں کی انفارمیشن زیادہ ہے آتے جاتے جو رهتے ہیں "۔
نورکو چپ رہنا کب آتا تھا بھلا ۔۔۔۔
نور کی بات پر شائستہ بیگم کی تو ہنسی چھوٹی ہی تھی باہر سے آتی ہوئی میڈ بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔وہ دوپٹہ منہ پر رکھے ہنسی چھپا رہی تھی ۔۔۔اپنے صاحب کی دورگت بنتے ہوئے پہلی بار دیکھ رہی تھی ورنہ تو سب کی شامت ہی آتی تھی تابش کے ہاتھوں ۔۔
تمھیں تو میں دیکھ لونگا نور۔۔وہ خود كلامی کرتا ہوا نور پر قہر آلود نظر ڈالتے
غصے سے سر جھٹکتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا ۔اس وقت اس نے کچن سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
فجر کی اذان کی آواز ہلکی ہلکی کمرے میں داخل ہو رہی تھی، اور ہلکی سی ٹھنڈی ہوا پردوں کے بیچ سے گزر رہی تھی۔ ماروی نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں ، اور پہلی چیز جو اس کی نظر کے سامنے آئ ، وہ وجدان کا چہرہ تھا۔ وہ بیڈ کے ایک طرف سکون سے سو رہا تھا، اور اس کے چہرے پر ایک خاص سکون کا عکس تھا ۔
ماروی کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی۔ "کیا یہ خواب ہے یا حقیقت؟" اس نے خود سے سوال کیا۔ وجدان کا یہ روپ، اس کی معصومیت، اس کی محبت—یہ سب کچھ ماروی کو فلم کی طرح لگا ۔
پھر ناول میں بھی تو اتنے خوبصورت ہی ہیرو ہوتے ہیں ،۔۔
آزان کی آواز پروجدان نے کروٹ لی ، اس کی آنکھ کھل گئی۔اپنے چہرے پر کس کی مسلسل پڑتی ہوئی نظر پر وہ مسکراتے ہوئے ماروی کی طرف دیکھنے لگا۔ "صبح بخیر، میری سردارنی،" اس نے دھیرے سے کہا، اس کے لہجے میں محبت تھی۔
ماروی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔اسکی چوری پکڑی گئی تھی ۔ وہ جھجکتے ہوئے بولی، "صبح بخیر۔"۔
وجدان نے مسکراتے ہوئے ماروی کا ہاتھ تھام لیا۔ "یہ صبح بہت خوبصورت ہے،
ماروی نے نظریں جھکا لیں،۔
آپ کی موجودگی میری دنیا کو خوبصورت بنا رہی ہے میرے کمرے میں رونق ہوگئی ہے ۔
وجدان نے نرمی سے اس کی ٹھوڑی اٹھائی اور کہا، "یہ حقیقت ہے، ماروی۔ اور یہ حقیقت اب ہمیشہ کے لیے ہے۔"۔
ماروی کے لیے وجدان کی نظروں کا سامنا کرنا بہت مشکل کام تھا ۔وہ ان نظروں کی تاب نہیں لا سکی اور شرم سے پلکوں کے جهالر گرا گئی ۔۔
اسکی اس ادا پر وجدان قربان ہوا ۔۔
وہ خاموشی سے بیڈ سے اٹھا اور پردے ہٹا دیے۔ روشنی پورے کمرے میں پھیل گئی، اور ماروی کو لگا جیسے یہ روشنی اس کے دل میں بھی پھیل رہی ہو۔ وجدان نے پیچھے مڑ کر ماروی کی طرف دیکھا اور کہا، "چلیں ، سردارنی، یہ خوبصورت صبح ہماری ہے۔ ہم اسے خاص بناتے ہیں۔"۔ نماز پڑھتے ہیں اور اللّه کا شکر ادا کرتے ہیں ۔۔
وجدان اسکی شرم و حیا کو سمجھ رہا تھا ۔چھپ چھپ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں مگر جاگتے شوہر کو نظر بھر کے دیکھنا اسکے لیے نہ ممکن تھا ،وہ اسکی کنڈیشن کو سمجھ رہا تھا اسے سپیس دے رہا تھا تاکہ ماروی پہلے ذہنی طور پر یہ قبول کرے کہ وہ سردار وجدان کی بیوی ہے ۔حویلی میں رہنے کے آداب تو بحرحال اسے ہر صورت سیكهانے تھے ۔۔
ماروی میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں ۔۔ آپ کی وارڈروب میں ہر ضرورت کی چیز ہے آپ دیکھ لیں ۔۔وجدان جانے کے لیے مڑا تو ماروی نے اسے پکارا ۔۔
سائیں ۔
ماروی کی پکار پر وہ پلٹا ۔۔۔
جی سائیں کی جان حکم ۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا ۔۔۔
وہ ۔۔قرآن پاک ۔۔
وہ بس یہی بول سکی وجدان کی نظروں کا سامنا کرتے ہی اسکے الفاظ گم ہوجاتے تھے ۔۔۔
وہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل میں غلاف میں ہے ۔۔
وہ اسے بتاتا ہوا وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
ماروی نے اسکے جاتے ہی گہری سانس اندر کھینچی ۔
وضو کیا نماز پڑھی اور اللّه کے حضور خوب دعایں مانگیں ۔۔۔قرآن پاک کے غلاف کو چوما پھر عقیدت سے اسے کھول کر سینے سے لگایا ۔۔۔اپنا سبق کھولا ۔۔
سوره الانشراح سے اس نے تلاوت کی ۔۔
وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ قرآن کے اوراق پلٹ رہی تھی۔ سورہ الانشراح کی آیتیں پڑھتے ہوئے اس کا دل عجیب سا سکون محسوس کرنے لگا۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
(کیا ہم نے آپ کا سینہ آپ کے لیے کشادہ نہیں کیا؟)
وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ
(اور ہم نے آپ پر سے آپ کا بوجھ اتار دیا)
ٱلَّذِيٓ أَنقَضَ ظَهْرَكَ
(جو آپ کی پشت کو توڑ رہا تھا)
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
(اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا)
فَإِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا
(پس بے شک، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)
إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا
(بے شک، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)
فَإِذَا فَرَغْتَ فَٱنصَبْ
(پس جب آپ فارغ ہوں تو محنت کریں)
وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَٱرْغَبْ
(اور اپنے رب کی طرف رغبت کریں)
ماروی جب اس سورہ کی آیات پڑھ رہی تھی تو اس کا دل ایک عجیب سکون سے بھر گیا۔ اسے لگا کہ یہ آیات خاص طور پر اسے تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی ہیں، کہ اس کی زندگی میں جو بھی مشکلات آئیں، اللہ ان کے بعد آسانی عطا کرے گا۔
یہ آیات ماروی کے دل میں اترتی چلی گئیں۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی، لیکن یہ نمی کسی دکھ کی نہیں بلکہ ایک عجیب سے اطمینان کی تھی۔
اس نے قرآن بند کیا اور کچھ لمحے خاموشی سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ "یا اللہ، ہر غم کے بعد خوشی دینے والے، ہر آزمائش کے بعد سکون دینے والے، مجھے حوصلہ دے کہ میں تیری رضا میں راضی رہ سکوں اور ہر مشکل کو تیری مدد سے آسانی میں بدلتے دیکھ سکوں۔"۔
ماروی محسوس کر رہی تھی کہ ان آیات میں اس کے لیے خاص پیغام تھا، جیسے اللہ کا وعدہ ہوا کہ جو آزمائشیں اور مشکلات اس نے زندگی میں دیکھی ہیں، ان کے بعد راحت اور سکون ضرور ملے گا۔
وجدان نے دور سے ماروی کو دیکھتے ہوئے اس کی دلجمعی اور ایمان کو محسوس کیا۔
وہ خوش نصیب تھا کہ اسے ماروی جیسا شریک ے سفر ملا ۔۔
ماروی نے دعا کے بعد وجدان کی طرف دیکھا، جو دروازے پر کھڑا مسکرا رہا تھا۔
ماروی اسے دیکھتے ہی کھڑی ہوئی ۔قرآن ے پاک کو چوم کر دوبارہ غلاف میں لیٹا ۔۔۔
کتنے گمراہ ہوتے ہیں ہم ھمارے سامنے ھدایت ہے اور ہم قرآن کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہیں ،نہ اللّه کا خوف رہتا ہے نہ روزے قیامت اسکے سامنے پیش ہونے کی شرمندگی ۔
وہ ماروی سے بات کرتے کرتے اس کے قریب آیا ۔بہت محبت سے اسکا ماتھا چوما ۔۔ماروی کو سائیں کے اتنے نزدیک محسوس کرتےہوئے اپنے پیروں پر کھڑے رہنا دو بھر ہوا ۔۔۔
آپ کو ابھی اماں سائیں کے پاس جانا ہے ۔وہ تھوڑا ناراض ہیں اس شادی پر مگر آپ نے کسی صورت ادب اور احترام کا دامن نہیں چھوڑنا ۔وہ اگر زیادتی کریں تو آپ سردارنی ہیں آپ کو اس حویلی کے سب فیصلے لینے کا اختیار ہےمیں کسی بھی معملے میں نہیں بولوں گا مگر درگزر جتنا کر سکیں گی اتنا ہی حویلی کا سکون بنا رہے گا ۔۔۔وجدان کا ایک ہاتھ اب ماروی کی کمر پر تھا اور ایک اسکے گالوں پر ۔۔۔وہ کیا بولتی وہ تو کچھ سن ہی نہیں رہی تھی اسے تو صرف محسوس ہورہا تھا وجدان کا لمس ۔۔
اسکی خوشبو سیدھی ماروی کی روح میں
اتر رہی تھی ۔
وجدان اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
وجدان نے نرمی سے ماروی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں شفافیت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ماروی کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا، اس لیے اس نے اپنے لہجے میں مزید محبت اور ہمدردی شامل کی۔
"تو پھر، کیا کہتی ہیں آپ، ماروی؟ اماں سائیں سے ملنے کے لیے تیار ہیں؟" وجدان نے آہستگی سے پوچھا۔
ماروی نے نظریں جھکا لیں۔ اس کے دل میں خوف اور تذبذب کا طوفان تھا، لیکن وجدان کی نرمی اور اعتماد اسے ہمت دے رہے تھے۔ وہ کچھ لمحوں تک خاموش رہی، پھر سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے بولی، "جی، میں تیار ہوں۔"۔
وجدان نے اس کی طرف جھک کر کہا، "نہیں، ایسے نہیں۔ مجھ سے کھل کر بات کریں۔ آپ دل سے کیا چاہتی ہیں؟ اگر آپ ملنا نہیں چاہتیں تو میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا۔ لیکن اگر آپ دل سے راضی ہیں، تو پھر ہم چلتے ہیں۔"۔
ماروی نے گہری سانس لی اور ہچکچاتے ہوئے بولی، "میں... میں اماں سائیں سے ملنا چاہتی ہوں۔ لیکن... لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"۔
وجدان نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ "ڈریں مت، ماروی۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔
اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "ٹھیک ہے، میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔"
وجدان نے مسرت سے اس کی پیشانی پر ایک ہلکا سا بوسہ دوبارہ دیا اور کہا، "یہ ہوئی نہ بات! چلیں، پھر تیار ہو جائیں۔۔
"سائیں، اس وقت تیار ہو کر کیا کرنا ہے؟ میں ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ایسے ہی چلتی ہوں اماں سائیں سے ملنے۔"۔
مسکراہٹ کھیل گئی۔ وہ کچھ لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا۔
"ماروی، آپ سردارنی ہیں، اور سردارنی اپنے کمرے سے ایسے نہیں نکلتی،آپ مجھے ہر روپ میں ہی گھایل کرتی ہیں۔مگر اور سردارنی جب کسی سے ملتی ہے تو وقار اور شان کے ساتھ ملتی ہے۔"۔
" وجدان نے نرم لہجے میں کہا۔۔
ماروی نے حیرانی سے وجدان کی طرف دیکھا اور بولی، "لیکن سائیں، میں تو بس ایک عام سی لڑکی ہوں۔
"ماروی، آپ عام نہیں ہیں۔ آپ میری زندگی کا سب سے خاص حصہ ہیں۔ اور مجھے فخر ہے کہ آپ میری شریک حیات ہیں۔ اس لیے آئیں، تیار ہو جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اماں سائیں آپ کو دیکھ کر فخر محسوس کریں کہ ان کی بہو کیسی خوبصورت اور باوقار ہے۔"۔
ماروی نے ہچکچاتے ہوئے سر ہلایا اور بولی، "ٹھیک ہے، سائیں۔ لیکن میں... مجھے نہیں پتا کیا پہنوں ۔"۔
وجدان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آیں میں بتاتا ہوں ۔وہ ماروی کا ہاتھ پکڑ کر اسکی وارڈ روب کی طرف بڑھا ۔۔
ماروی کے سب ڈریسز بہت ہی خوبصورت تھے وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی ایک ایک جوڑا خود سے لگا رہی تھی ۔۔وجدان ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا ۔۔جوڑے دیکھتے دیکھتے ایک آخری ڈریس بھی ماروی نے اتار کر چیک کی ۔مگر اس معصوم کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کوئی ڈریس نہیں ہے بلکہ نائٹی تھی جو عائشہ اسکی وارڈروب میں لٹکا دی تھی ۔
ماروی نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا تو نائٹی اس کے ہاتھ سے نکل کر نیچے زمین پر جا گری ۔۔۔جیسے کوئی اچھوت چیز ہو ۔
وجدان کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا ۔
یہ پہن کر تو آپ اس کمرے سے باہر نہیں جا سکتیں ۔بہت پسند ہے تو رات میں پہن لیجیے گا ۔
وجدان نے نائٹی نیچے سے اٹھا کر باقی کپڑوں میں لٹکا دی ۔۔۔
پھر خود ہی ایک ریڈ کلر خوبصورت سی شرٹ اور ٹراوزر اسکے ہاتھ میں تھما دیا ۔
اسکی شرٹ پر لائٹ سا کام تھا ۔۔۔
ماروی وہ ہاتھ میں لیتی ہوئی سپیڈ سے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگی ۔۔وجدان اسکی پھرتیوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
ابھی بہت ٹائم لگے گا ماروی آپ کوطرف آتے آتے ۔۔سر جھٹک کر وجدان خود بھی تیار ہونے چلا گیا ۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
آیت کی آنکھ الارم کی آواز پر کھلی، لیکن وقت دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ دس منٹ لیٹ ہو چکی ہے۔ جلدی اٹھنے کے بجائے وہ پھر سے بستر پر لیٹ گئی اور ابصار کے بارے میں سوچنے لگی۔
اسی سوچ میں گم، اسے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ اچانک موبائل پر نوٹیفکیشن کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے جلدی سے موبائل اٹھایا اور اسکرین کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔
ابصار کا پہلا مسیج ۔
"اٹھ چکی ہو بستر چھوڑ دو ؟"
دوسرا مسیج ۔
"آج دفتر سے چھٹی!"
آیت کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
مگر اگلے ہی پل غائب ۔
تیسرا مسیج اپنا بیگ پیک کرو
پورا آفس ٹرپ پر جارہا ہے تیار رہو ۔صرف آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس ۔آفیشل ٹرپ ہے انکار کرنے کی جرت مت کرنا ،وہاں سیمینار ہے ۔۔
آیت کا دل جیسے ڈوب گیا۔
"یہ انسان مجھے سکون سے جینے نہیں دے گا۔
وہ غصے میں موبائل کو بیڈ پر پھینکتی سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔
موبائل پھر بجا ۔ابصار کا ہی مسیج تھا ۔
تنہائی میں بھی میرا ذکر تمیز سے کرو ۔
آیت کا دل کیا موبائل اپنے سر پر دے مارے ۔
یہ بندہ نارمل طریقے سے آخر بات کیوں نہیں کر سکتا ۔ہر وقت دھمکی ۔۔۔
نہیں کرتی تمیز سے ذکر ۔ہے ہی سفاک ظالم انسان ۔
آیت ابصار کے بارے میں بول رہی تھی کہ اسکی مسیج رنگ ٹون پھر بجی ۔
ابصار کا مسیج تھا ۔۔۔۔
shut up!!!!!
آیت کے اوسان خطا ہوئے ۔۔۔
کیا مجھے سن رہے ہیں کہیں سے ۔۔وہ حیرت سے موبائل کو گھور رہی تھی ۔۔
ایک اور مسیج بجا ۔۔
صرف 25منٹ ۔
آیت نے بیڈ فورن چھوڑا بیگ نکالا اور اس میں کپڑے ٹھوسے ۔۔
"کیا پہنوں؟۔
بے دلی سے تیار ہوتے ہوئے وہ مسلسل ابصار کو دل ہی دل میں کوستی رہی۔
تیاری مکمل کرتے ہوئے وہ آئینے میں خود کو دیکھتی ہے اور ایک گہری سانس لیتی ہے۔۔
ابھی امی کو بھی ہزار سوالوں کا جواب دینا پڑے گا ۔۔۔
اف اللّه کہاں پھس گئی ہوں ۔۔
وہ بالوں ک پونی بناتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔۔۔
کیا بولوں گی امی کو ۔۔۔۔
صرف تین منٹ ۔۔میں کیسے سمجھاوں گی ۔۔
وہ اسی کشماکش میں بیگ لے کر اتری تو آیت کی امی دودھ کا گلاس لیے کھڑی تھیں ۔۔
آیت جلدی کرو ابصار کا فون آیا تھا وہ بتا رہا تھا کہ ٹرپ ہے وین بس پوھنچ رہی ہے تم ذرا یہ پی لو ۔۔۔۔
ممتا کی محبت سے بھرپور وہ اسکے آگے کھڑیں تھیں آیت نے دودھ کا گلاس ہاتھ سے لیا ۔۔۔آیت کو سمجھ نہیں آیا یہ ابصار کس خوشی میں ہر بات کی پھونک اسکے کان میں مارتا ہے ۔۔۔۔
کب آو گی ؟؟؟؟ماں کے سوال پر آیت بھڑک اٹھی ۔۔۔۔
کیوں آپ کو بتایا نہیں ۔۔۔
آیت کی امی نے اسے پلٹ کر دیکھا ہاں بتایا ہے مگر میں تم سے پوچھ رہی ہوں ۔۔۔وہ آیت کا کھانا پیک کر چکی تھیں ۔
یہ لو کھا لینا وقت پر اور کوئی پریشانی ہوئی تو ابصار کو ہی بتانا ۔۔۔
آیت اپنی ماں کی سادگی پر قربان ہوئی ۔۔۔
اب کیا بتاتی کہ سب سے بڑی مصیبت ہی ابصار ہے ۔۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
جاری ہے
😂
❤️
👍
🙏
🤌
10