سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
February 28, 2025 at 12:52 AM
کزن (دوسرا ) 💕 کچھ دیر بعد گیلے بالوں پہ تولیہ لپیٹے وہ غسل خانے سے نکلی۔ اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ اب وہ ایک بار پھر ہمارے اردگرد ظاہر ہوئے۔ گلابی پھولوں والا دوپٹہ اسکے سر پہ تھا۔ اب وہ تخت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ میں نے قصداً اپنی آنکھیں پھیر لیں۔ وہ امی کے قریب رکی۔ میں میتھی کی ایک شاخ سے کھیلتا اسکی آواز کا منتظر تھا کہ شاید اس کے لفظ کسی سمت کو نکلیں۔ وہ کچھ لمحے یونہی اماں کے قریب کھڑی رہی۔ ہمارے اردگرد لوشن کی بھینی سی خوشبو پھیل گئی۔ میں نے اپنی دکھتی ٹانگ سیدھی کی اماں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پاس رکھی ٹوکری اسکی جانب بڑھائی جس میں مٹر کے دانے اور آلو تھے۔ اس نے ٹوکری تھامی اور پھر کچن کی جانب چل دی۔ اب وہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اتنی خاموشی؟ اب دھوپ تھوڑی تیز ہونے لگی تو امی نے مجھے بھی اٹھنے کا حکم دیا۔ میں اب اس خاموش ڈرامے سے اکتا گیا تھا۔ میں نے اپنا فون اٹھایا اور کمرے کی جانب چل پڑا۔ کمرا حقیقت میں صاف ستھرا اور میری چشم تصور جیسا ہی تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پہ موجود گرد و غبار سے پاک تھی۔ اب مجھے بھی صاف ہو جانا چاہیے تھا۔ اسی خیال کے پیش نظر میں اپنی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر اُٹھائے غسل خانے کی جانب بڑھ گیا۔ مسواک کرنے اور منہ دھونے کے بعد میں نے لباس تبدیل کیا۔ نہانا سے گریز زخموں کے باعث تھا۔ میں غسل خانے سے نکلا تو ہانڈی میں چمچ ہلانے کی آواز آنے لگی۔ امی ابو کے کپڑے استری کرنے میں مگن تھیں۔ اور یقیناً کچن میں وہی موجود تھی۔ امی نے میری دھلی دھلائی صورت دیکھی تو مسکرا دیں۔ پھر یونہی ادھر ادھر کی گفتگو کرنے لگیں میں دوبارہ امی کے قریب لاونج میں بیٹھ گیا۔ "چچی آٹا گوندھ دوں؟" یہ اچانک سنائی دی جانے والی گلو گیر سی یہ آواز یقیناً اسی کی تھی۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ کچن کے دروازے میں کھڑی امی سے مخاطب تھی۔ امی نے آٹا گوندھنے سے منع کر دیا کہ فریج میں پڑے آٹے سے گزارا ہو جائیگا۔ وہ سر ہلاتی دوبارہ کچن میں گھس گئی۔ میں اس کی مصروفیات پہ رشک کر رہا تھا۔ ایک میں تھا جو چھٹی کے روز اٹھ کر موبائل دیکھنے اور تین وقت کے کھانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتا تھا۔ اور دوسری طرف وہ جو زیادہ فجر کے وقت سے اب تک چلتی پھرتی چھوٹے بڑے سب کا نبٹا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں چاول ۔ مونگ اور اور مسور کی دال ڈالے چنتی ہوئی باہر آئی اور میز کے گرد پڑی کرسی میں سے ایک نکال کر بیٹھ گئی۔ اب وہ چاول صاف کرنے لگی۔ اور مجھ سے بہتر کون جانتا تھا کہ اس چاول دال سے میرے لیے کھچڑی بنے گی۔ یہ بھی امی کا فرمان تھا۔ میں ایک نظر اس پہ ڈال کر اب امی کو دیکھ رہا تھا۔ اب امی کسی قمیض کا بٹن ٹانک رہی تھیں۔ وہ اتنا کام کیوں کر رہی ہے؟ امی اس کا ہاتھ کیوں نہیں بٹا رہیں؟ کیا یہ تمام کام مشکل نہیں؟ تو کیا خواہ مخواہ فیمنزم نے شور مچا رکھا ہے؟ شاید مکس ویج کا یہ سالن تیار ہو چکا تھا۔ زیرے کی خوشبو گھر میں ہر طرف پھیل چکی تھی۔ شائد کھچڑی کی چولہے پہ چڑھانے کو تیار تھی۔ پیاز ہلکے براؤن ہوئے تو میں کچن میں داخل ہوا اب وہ نمک اور کٹی ہوئی کالی مرچ کڑاہی میں ڈال رہی تھی۔ مجھے اندر داخل ہوتے دیکھا تو سمٹ کر ایک جانب ہوگئی میں نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔ اس نے قریب رکھے گلاس سے تھوڑا سا پانی کڑاہی میں ڈالا اب مصالحے کی بھنائی کا وقت تھا۔ میں نے وہیں کھڑے بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا اس نے ڈھائی گلاس پانی ماپ کر کڑائی میں ڈال دیا۔ اب وہ سنک کی جانب بڑھ گئی۔ میں تسلی سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا پانی پی رہا تھا۔ ایک گلاس پانی پیا گلاس شیلف پہ دھرا۔ اس نے بھگو کر رکھے ہوئے دال اور چاول سے پانی نکالا۔ ادھر کڑاہی میں ڈالے گئے پانی میں جوش آیا اس نے چاول دال پانی میں ڈالا کر ڈھکن رکھا۔ اور تب تک میں کچن سے نکل چکا تھا میرے عقب سے کڑاہی کو ڈھکنے کی آواز ابھری۔ ہمارے شہر کے مضافات میں ظہر کی اذان کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ اور پھر مؤذن کی آواز گونجی۔ اذان مکمل ہوئی تو کچن سے روٹی بننے کی آواز آنے لگی۔ امی کچن سے ابھرنے والی اس آواز کی جانب متوجہ ہوئیں۔ اب وہ اٹھ کر کچن میں آ گئیں اب دونوں کے درمیان کچھ لفظوں کا تبادلہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچن سے نکلی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اب وہ یقیناً نماز ادا کرے گی۔ پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا کرنا بچپن سے معمول تھا۔ اور اب تک یہ عادت پختہ ہو چکی تھی۔ امی سمیت کوئی بھی بغیر کسی عذر کے نماز قضا نہ کرتا تھا۔ اور وہ بھی شاید نماز کی پابند تھی۔ میں نے کبھی اسے نماز ادا کرتے تو نہیں دیکھا تھا کہ وہ نماز اپنے کمرے میں ہی ادا کرتی تھی۔ پر نماز ادا کر چکنے کے بعد منہ میں کوئی تسبیح پڑھتے ہوئے ایک دو بار دیکھا تھا۔ اب امی کچن میں روٹی بنا رہی تھیں۔ وہ کمرے میں جا چکی تھی اور کیں سوچ رہا تھا نماز ادا کر لوں یا زخم کے مندمل ہونے کا انتظار کروں۔ پھر اس سے قبل کہ شیطان مجھ پہ حاوی ہوتا میں نے وضو بنایا اور گھر میں ہی چار رکعت فرض ادا کیے۔ جب تک دوبارہ لاونج میں آکر بیٹھا تو آدم سکول سے لوٹ آیا تھا۔ آدم نے آتے ہی صوفے پہ بستہ رکھا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔ اتنے میں امی کے کمرے کا دروازہ کھلا وہ منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے کمرے سے نکلی۔ صوفے پہ پڑا آدم کا بستہ اٹھا کر اسکے کمرے میں رکھ آئی۔ اور اب کچن کی راہ لی۔ اب وہ میز پہ برتن لگا رہی تھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ پانی کا جگ۔ ہاٹ پاٹ ۔ سالن کا برتن اور گلاس سب میز پہ سج چکے تھے۔ ابو گھر آ کے تھے جبکہ احد عنقریب لوٹنے والا تھا۔ اچھاااا ہماری غیر موجودگی میں اس طرح ہر ایک کام کیا جاتا تھا۔ یعنی ہم جو صبح کے نکلے شام کو لوٹتے تو کھانا بن چکا ہوتا اور گھر صاف ستھرا ہوچکا ہوتا تو اس شفافیت کے عقب میں یہ انتھک محنت چھپی ہوئی تھی۔ احد واپس آچکا تھا۔ برآمدے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر مجھ پہ پڑی وہ میرے پاس آیا اور میری خیریت دریافت کرنے لگا۔ میز پہ کھانا چن دیا گیا تھا۔ گھر کے تمام نفوس کھانے کی میز پہ اپنی اپنی نشست سنبھالے کھانے میں مگن تھے۔ سب سے پہلے ابا اور پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کھانا تناول ہوا۔ برتن سمیٹ دیے گئے اور سب آرام کی غرض سے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔ میں بھی احد کیساتھ اپنے کمرے میں اگیا۔ آدھے دن کے اس مشاہدے نے مجھے تھکا دیا تھا۔ میں اپنی کیفیت نہیں جان پا رہا تھا۔ میں اسے پہلے بھی بہت بار دیکھ چکا تھا مگر آج وہ اتنی مختلف کیوں لگی؟ میری نظریں کیوں اسکی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اور میرے حواس پہ کیوں چھپانے لگی تھی۔ میں سوا گھنٹہ بیڈ پہ کروٹیں بدلنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ سوا تین کا وقت تھا میں آہستگی سے چلتا ہوا کمرے سے نکلا برآمدے میں آدم لاونج والے حصے میں بیٹھا اپنا سکول کا کام لکھ رہا تھا۔ دروازے سے تھوڑا آگے آیا تو ایک سنگل صوفے پہ بیٹھی وہ ڈائجسٹ پڑھنے میں مگن تھی۔ اور میں جو سوچ رہا تھا کہ اتنی دیر مسلسل کام کرنے کے بعد وہ یقیناً اب آرام کر رہی ہوگی۔ مگر اسے صوفہ پہ بیٹھا دیکھ حیران ہو گیا۔ لاونج میں بہت خاموشی تھی۔ پنکھے کی گڑ گڑ اس سکوت میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ اسی اثناء میں احد کمرے سے نکلا میں خوامخواہ کچن کی اور بڑھنے لگا۔ احد نے اردگر دیکھا اس سے قبل کہ کوئی سوال کرتا بیرونی دروازے پہ دستک ہوئی۔ احد سیدھا دروازے کی جانب بڑھا۔ میں کچن سے پانی کی بوتل اور گلاس نکال لایا۔ وہ ابھی تک اپنی سابقہ حالت میں رسالہ پہ نظریں جمائے دنیا و مافیہا سے بیگانہ بیٹھی تھی۔ احد دوبارہ لاونج میں آیا اور میرے دوستوں کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ میری خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ احد نے اسے چائے بنانے کی درخواست کی اس نے رسالے کا صفحہ موڑتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پہ دھرا اور اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔ اتنے دوست لاونج تک آگئے احد نے آگے بڑھ کر ڈائننگ ٹیبل اور لاونج کے درمیان فرق کرنے والا پردہ گرا دیا۔ وہ پردے کے پیچھے گم ہو گئی۔ اتنے میں امی کمرے سے باہر ائیں۔ میرے دوستوں کی خیریت دریافت کی اور انتظامات کا جائزہ لینے کچن میں چلی گئیں۔ چائے کیساتھ کچھ نمکو بسکٹ ٹرے میں سجا کر احد لاونج میں کے آیا۔ جب تک میرے دوست موجود رہے میرے ذہن سے وہ محو ہو چکی تھی۔ عصر کے قریب میرے دوست لوٹ گئے۔ اور پردے اٹھا دیے گئے۔ شام کے وقت میں تازہ ہوا کی غرض سے آدم کیساتھ گھر کے قریب کھلے پارک میں آگیا۔ آدم اپنے دوستوں کیساتھ کرکٹ کھیلنے لگا۔ میں سنگی بینچ پہ بیٹھا مختلف سوچوں میں کھو گیا۔ میرے ذہن میں خیالات کسی فلم کی مانند چلنے لگے۔ بچپن سے اب تک اسے بہت بار دیکھا تھا مگر کبھی اسے اتنا قریب سے دیکھنے کا اندازہ نہیں تھا۔ گھر کے اکلوتے اور لاڈلے بچے جس طرح بگڑے ہوئے ہوتے ہیں وہ ویسی بالکل نہیں تھی۔ ہمارے ددھیالی خاندان میں صرف تین ہی لڑکیاں تھیں۔ ایک یہ اور دو بڑے تایا کی بیٹیاں۔ ان میں سے ایک کی شادی ہو چکی تھی۔ اس وقت سے پہلے وہ کبھی ہمارے گھر رہنے نہیں آئی تھی۔ شاید اس بار بھی نہ آتی اگر میرے ابا کو اپنی ریت رواج سے اتنی محبت نہ ہوتی۔ در اصل ہماری یہ کزن بچپن ہی سے بڑے تایا کے دوسرے بیٹے کی منگ تھی۔ بڑی تائی نے کوشش کی تھی کہ اب نمرہ اور انکے بیٹے کا نکاح ہو جائے تاکہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے۔ لیکن میرے ابا چھوٹے تایا کو سمجھانے لگے کہ ابھی اسکی عمر کم ہے کم از کم بی ایس سی مکمل ہو جائے تو شادی رکھ لیں گے۔ ابا کے اس فیصلے کی کیا تک تھی یہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اب نمرہ کے رہنے کا انتظام کیا جانا تھا جو کہ بڑے تایا کا گھر تو بالکل نہیں ہو سکتا تھا۔ کہ وہاں اس کا منگیتر موجود تھا۔ بس اسی لیے میرے بابا نے اپنا گھر پیش کیا۔ ابا کو اپنی تربیت پہ بہت ناز تھا لیکن ابا کی نمرہ سے ایسی محبت ہماری سمجھ نہیں آتی تھی۔ سب سمجھتے تھے کہ شاید ابا کی اپنی کوئی بیٹی نہیں سو وہ نمرہ میں اپنی بیٹی دیکھتے ہیں۔ مگر سب جانتے تھے کہ جیسی محبت ابا نمرہ سے کرتے ہیں ویسی عقیدت وہ بڑے تایا کی بیٹیوں سے نہیں رکھتے۔ اب میرے خیالات کی رو اس جانب بہہ نکلی۔ چھوٹی تائی کی وفات کے وقت میرے ابا اتنے مغموم تھے۔ بس تھکے ہارے جیسے کچھ بہت قیمتی ہو گیا ہے۔ شام ڈھلنے لگی۔ قریبی مسجد سے مغرب کی اذان سنائی دینے لگی۔ میں آدم کو ساتھ لیے مسجد کی سمت بڑھ گیا۔ آج تو دل پہ کچھ عجیب سا بوجھ تھا۔ جاری
👍 ❤️ 🤌 🦶 47

Comments