بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
February 3, 2025 at 04:54 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://chat.whatsapp.com/DrOCho2AwfgHWPAfkHWJAP ✍🏻 *#پیرِ_کامل_ﷺ* #01 *تعارف* *پیر کامل ناول میں جہاں اور بہت کچھ ہے وہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ اس ناول میں مرزا غلام قادیانی کی زندگی پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔* قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمام کہانی اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہوں *ناول پڑھتے پڑھتے ایمان کی مضبوطی ہوتی چلی جاتی ہے* *عمیرا احمد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔* ہم پہلے بھی ان کی کتب کا ذکر کر چکے ہیں۔ آج جس کتاب کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے وہ *عمیرا احمد کے قلم سے نکلی ہوئی تمام کتب میں سے مقبول ترین کتاب کے درجے پہ فائز ہے۔* نہ صرف یہ عمیرا احمد کی کتب میں سے بہترین کتاب ہے بلکہ شاید *گزشتہ دہائی کی بھی مقبول ترین کتاب ہے۔* یہ کتاب کئی سالوں سے آن لائن بک اسٹور ای مرکز کی سب سے زیادہ خریدی جانے والی کتاب میں شامل ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ کئی سال تک بھی اس کتاب کے مقابلے میں شاید کوئی کتاب نہ آ سکے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ عمیرا احمد کے کام میں نکھار آیا ہے۔ ان کے بعد میں آنے والے ناول جیسے تھوڑا سا آسمان اور من و سلویٰ اپنے مضبوط پلاٹ کی بنیاد پہ پیر کامل سے کافی بہتر لکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ پیر کامل کا موضوع ہے جو اسے منفرد اور دیگر ناولوں سے ممتاز کرتا ہے۔ *ناول کا عنوان پیر کامل ہے، عمیرا احمد نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پیر کامل قرار دیا ہے جو بالکل درست ہے۔* کہانی کا موضوع حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔ *پیر کامل سالار کی کہانی ہے۔* سالار، جو ایک انتہائی جینئس شخص ہے اور فوٹوگرافک میموری کا مالک ہے۔ وہ ایک انتہائی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ان تمام خصوصیات کا حامل ہے جو امیر گھرانوں کے بگڑے ہوئے بچوں کا خاصہ ہیں۔ *پیر کامل امامہ کی کہانی ہے۔* امامہ، جس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ڈاکٹر بننا ہے اور جسے لگتا ہے کہ اگر وہ کسی وجہ سے ڈاکٹر نہیں بن سکی تو وہ افسوس میں مر جائے گی۔ تاہم ایک سوچ وہ ہوتی ہے جو انسان اپنے لئے سوچتا ہے اور ایک تدبیر وہ ہوتی ہے جو اللہ چلتا ہے۔ سالار اور امامہ کو بھی علم نہیں تھا کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا منتخب کیا ہے۔ *امامہ قادیانی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔* اسے دورانِ تعلیم علم ہوتا ہے کہ قادیانی مذہب کی تعلیمات اسلام کی اصل تعلیمات سے منافی ہیں اور یہ کہ وہ مسلمان نہیں۔ اس بات نے امامہ کی زندگی بدل دی۔ *اس نے قادیانی مذہب ترک کرکے اسلام قبول کر لیا۔* اسی دوران اس کی دوستی ایک مسلمان لڑکے سے ہو گئی۔ تاہم امامہ کے گھر والوں نے امامہ کے قبول اسلام اور پسند کی شادی کے لئے رضامندی نہیں دی اور اس کا رشتہ اس کے والد نے اپنے بھائی کے بیٹے سے طے کر دیا اور امامہ کے گھر سے باہر نکلنے پہ پابندی لگا دی۔ امامہ نے اپنے والدین کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ اس کی شادی کسی غیر مسلم (اس کے کزن) سے نہ کریں لیکن وہ نہیں مانے۔ مشکل کے اس دور میں امامہ کے دوست نے بھی اس کا ساتھ دینے سے منع کر دیا اور بالآخر امامہ، سالار کی مدد سے گھر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے پہلے امامہ نے سالار سے نکاح بھی کر لیا تھا تاکہ اس کے والدین اس کی شادی کسی غیر مسلم سے نہ کرسکیں۔ اور یہیں سے امامہ اور سالار کی زندگی بدل جاتی ہے۔ امامہ جو ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ اب تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم ہوگئی اور ماں باپ کی شفقت سے بھی۔ دوسری طرف سالار پہ بظاہر اس واقعے کا کوئی اثر نہ ہوا، اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر چلا گیا۔ تاہم اس کی زندگی کے حالات ایسا رخ اختیار کرتے چلے گئے کہ اس کی شخصیت مکمل بدل گئی۔ *ایک وقت تھا کہ دنیا کی ہر برائی اس میں موجود تھی اور پھر اس کی کایا ایسی پلٹی کہ وہ حافظ قرآن بن گیا۔* سالار خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ امامہ کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ لیکن امامہ سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ سالار اور امامہ کی اس محبت کا کیا انجام ہوا، اس کے لئے تو ناول ہی پڑھنا پڑے گا۔ بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یہاں آنے والے قارئین کی اکثریت نے یہ ناول ضرور پڑھا ہو گا۔ اس لئے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ *سالار، عمیرا احمد کے تخلیق کردہ تمام کرداروں میں سب سے مقبول کردار ہے* اور قارئین کی اکثریت کا پسندیدہ ہے۔ ناول میں قادیانی مذہب کے متعلق مصنفہ کے خیالات سے فرقہ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے قارئین کی بہت دل شکنی ہوئی جس نے اس ناول کو متنازعہ بھی بنا دیا۔ کہانی میں کچھ پہلو تشنہ بھی رہ گئے جیسے *کہانی کے ایک کردار سعد کا الجھا ہوا کردار۔* اس کردار کی کہانی کو مصنفہ نے واضح نہیں کیا۔ مصنفہ کے بقول اس ناول کا دوسرا حصہ “آب حیات” کے عنوان سے جلد ہی سامنے آئے گا جس میں ان تشنہ پہلوؤں کو واضح کیا جائے گا۔ اپنے منفرد موضوع اور بہترین کہانی کی وجہ سے یہ کتاب ہر شخص کو ضرور پڑھنی چاہئے۔ *ناول کا مطالعہ کرنا نہ بھولیں، اور عاجز کو دعاؤں میں یاد رکھیں* 😊 #پیرِ_کامل_ﷺ #از_عمیرہ_احمد #قسط_نمبر_01 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟ بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے وہ سوچ میں پڑگئی پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بے بسی سے مسکرائی بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا کیوں مشکل ہے ؟ جویریہ نے اس سے پوچھا کیونکہ میری بہت ساری خواہشات ہیں اور ہر خواہش ہی میرے لیے بہت اہم ہے ۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا وہ دونوں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں دیوار کے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں ایف ایس سی کلاسس میں آج انکا آٹھواں دن تھا اور اس وقت وہ دونوں اپنے فری پیریڈ میں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں آکر بیٹھ گئی تھی ۔ نمکین مونگ پھلی کے دانوں کو ایک ایک کرکے کھاتے ہوئے جویریہ نے اس سے پوچھا تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے امامہ؟ امامہ نے قدرے حیرانگی سے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑگئی پہلے تم بتاؤ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ امامہ نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کردیا پہلے میں نے پوچھا ہے۔ تمہیں پہلے جواب دینا چاہیے ۔ جویریہ نے گردن ہلائی اچھا ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اور سوچنے دو۔ امامہ نے فورا" ہار مانتے ہوئے کہا ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ؟ وہ بڑبڑائی ۔ ایک خواہش تو یہ ہے کہ میری زندگی بہت لمبی ہو۔ اس نے کہا کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ ہنسی بس پچاس ساٹھ سال کی زندگی مجھے بڑی چھوٹی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو سال تو ملنے چاہیے انسان کو دنیا میں ۔۔۔۔ اور پھر میں اتنا سب کچھ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ اگر جلدی مرجاؤں گی تو پھر میری ساری خواہشات ادھوری رہ جائیں گی ۔ اس نے مونگ پھلی کا ایک دانہ منہ میں ڈالٹے ہوئے کہا اچھا اور ۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کہا اور یہ کہ میں ملک کے سب سے بڑی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ سب سے اچھی آئی سپشلسٹ۔ میں چاہتی ہوں جب پاکستان میں آئی سرجری کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں میرا نام ٹاپ آف دی لسٹ ہو ۔ اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا ۔ اچھا ۔۔۔۔۔ اور اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکی تو ؟ جویریہ نے کہا ۔ آخر یہ میرٹ اور قسمت کی بات ہے ایسا ممکن ہی نہیں۔ میں اتنی محنت کررہی ہوں کہ میرٹ پر ہرصورت آؤں گی ۔ پھر میرے والدین کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں اگر یہاں کسی میڈیکل کالج میں نہ جاسکی تو وہ مجھے بیرون ملک بھجوا دیں گے پھر بھی اگر ایسا ہوا کہ تم ڈاکٹر نہ بن سکو تو ۔۔۔۔۔۔۔؟ ہوہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے میں اس پروفیشن کے لیے سب کچھ چھوڑسکتی ہوں ۔ یہ میرا خواب ہے اور خوابوں کو بھلا کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ۔ امپاسبل امامہ نے قطعی انداز میں سر ہلاتے ہوئے ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں میں سے ایک اور دانہ اٹھا کر منہ میں ڈالا زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ فرض کرو کہ تم ڈاکٹر نہیں بن پاتی تو ۔۔۔۔۔ ؟ پھر تم کیا کرو گی ۔۔۔۔۔؟ کیسے ری ایکٹ کرو گی ؟ امامہ اب سوچ میں پڑگئی بے مثال تحاریرگروپ میں شامل ہونے کیلیے اس نمبر پر add لکھ کر Whatsapp کریں 03001122184 پہلے تو میں بہت روؤں گی ۔۔۔ بہت ہی زیادہ ۔۔۔۔۔ کئی دن ۔۔۔۔۔ اور پھر میں مرجاؤں گی۔ جویریہ بے اختیار ہنسی ۔ اور ابھی کچھ دیر پہلے تو تم یہ کہہ رہی تھیں کہ تم لمبی زندگی چاہیتی ہو ۔۔۔۔۔ اور ابھی تم کہہ رہی ہو کہ تم مرجاؤگی ۔ ہاں تو پھر زندہ رہ کرکیا کروں گی ۔ سارے پلانز ہی میرے میڈیکل کے حوالے سے ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ چیز زندگی سے نکل گئی تو پھر باقی رہے گا کیا ؟ یعنی تمہاری ایک بڑی خواہش دوسری بڑی خواہش کو ختم کردے گی ؟ تم یہی سمجھ لو ۔۔۔۔۔ " تو پھر اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش ڈاکٹربننا ہے، لمبی زندگی پانا نہیں تم کہہ سکتی ہو۔ اچھا ۔۔۔۔۔ اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکی تو پھر مرو گی کیسے ۔۔۔۔۔ خودکشی کروگی یا طبعی موت ؟ جویریہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا طبعی موت ہی مروں گی ۔۔۔۔۔ خودکشی تو کرہی نہیں سکتی ۔ امامہ نے لاپرواہی سے کہا ۔ اور اگر تمہیں طبعی موت آ نہ سکی تو ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے جلد نہ آئی تو پھر تو تم ڈاکٹر نہ بننے کے باوجود بھی لمبی زندگی گزارو گی ۔ نہیں، مجھے پتا ہے کہ اگر میں ڈاکٹر نہ بنی تو پھر میں بہت جلد مرجاؤں گی ۔ مجھے اتنا دکھ ہوگا کہ میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی ۔ وہ یقین سے بولی ۔ تم جس قدر خوش مزاج ہو، میں کبھی یقین نہیں کرسکتی کہ تم کبھی اتنی دکھی ہوسکتی ہو کہ رو رو کر مرجاؤ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ تم ڈاکٹر نہیں بن سکیں جویریہ نے اس بار اسکا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تم اب میری بات چھوڑو، اپنی بات کرو ، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟ امامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا رہنے دو ۔۔۔۔۔ کیوں رہنے دوں ۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ نا تمہیں برا لگے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا امامہ نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ مجھے کیوں برا لگے گا جویریہ خاموش رہی ۔ ایسی کیا بات ہے جو مجھے بری لگے گی ؟ امامہ نے اپنا سوال دہرایا بری لگے گی ۔ جویریہ نے مدھم آواز میں کہا آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے کہ میں اس پر برا مانوں گی ۔ امامہ نے اس بار قدرے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ۔ کہیں تمہاری یہ خواہش تو نہیں ہے کہ میں ڈاکٹر نہ بنوں ؟ امامہ کو اچانک یاد آیا جویریہ ہنس دی ۔ نہیں ۔۔۔۔۔ زندگی صرف ایک ڈاکٹر بن جانے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس نے کچھ فلسفیانہ انداز میں کہا ۔ پہیلیاں بجھوانا چھوڑو اور مجھے بتاؤ ۔ امامہ نے کہا میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ وعدہ کرنے کے باوجود میری بات سننے پر تم بری طرح ناراض ہوگئی ۔ بہتر ہے ہم کچھ اور بات کریں ۔ جویریہ نے کہا ۔ اچھا میں اندازہ لگاتی ہوں ، تمہاری خواہش کا تعلق میرے لئے کسی بہت اہم چیز سے ہے ۔۔۔۔ رائٹ ۔۔۔۔؟ امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ جویریہ نے سر ہلا دیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے لیے کون سی چیز اتنی اہم ہوسکتی ہے کہ میں ۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گئی مگر جب تک میں تمہاری خواہش کی نوعیت نہیں جان لیتی ، میں کچھ بھی اندازہ نہیں کرسکتی ۔ بتا دو جویریہ ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔ اب تو مجھے بہت ہی زیادہ تجسس ہورہا ہے۔ اس نے منت کی وہ کچھ دیرسوچتی رہی ۔ امامہ غور سے اسکا چہرہ دیکھتی رہی ، پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جویریہ نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا میرے پروفیشن کے علاوہ میری زندگی میں فی الحال جن چیزوں کی اہمیت ہے وہ صرف ایک ہی ہے اور اگر تم اس کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہو میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جویریہ نے قدرے چونک کر اسے دیکھا ، وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی ۔ جویریہ مسکرائی میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویرہ نے اسے اپنی خواہش بتائی امامہ کا چہرہ یک دم سفید پڑگیا ۔ وہ شاکڈ تھی یا حیرت زدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ اندازہ نہیں کرسکی ۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات یہ ضرور بتا رہے تھے کہ جویریہ کے منہ سے نکلنے والے جملے اس کے ہر اندازے کے برعکس تھے میں نے تم سے کہا تھا نا تم برا مانوگی ۔ جویرہ نے جیسے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی مگر امامہ کچھ کہے بغیر اسے دیکتھی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☼☼☼۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معیز حلق کے بل چلاتا ہوا درد سے دوہرا ہوگیا، اس کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ پر تھے۔ اس کے سامنے کھڑے بارہ سالہ لڑکے نے اپنی پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کی آستین سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹینس ریکٹ ایک بار پھر پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر دے مارا ۔ معیز کے حلق سے ایک بار پھر چیخ نکلی اور وہ اس بارسیدھا ہوگیا۔ کچھ بے یقینی کے عالم میں اس نے خود سے دو سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اب بغیر کسی لحاظ اور مروت کے اسے اس ریکٹ سے پیٹ رہا تھا جو معیز کچھ دیر پہلے اسے پیٹنے کے لیے لے آیا تھا۔ اس ہفتے میں ان دونوں کے درمیاں ہونے والا یہ تیسرا جھگڑا تھا اور تینوں بار جھگڑا شروع کرنے والا اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ معیز اور اسکے تعلقات ہمیشہ ہی ناخوشگوار رہے تھے انکا جھگڑا بچپن سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک صرف زبانی کلامی باتوں اور دھمکیوں تک ہی محدود تھا ، مگر اب کچھ عرصہ سے وہ دونوں ہاتھا پائی پر بھی اتر آئے تھے ۔ آج بھی یہی ہوا تھا وہ دونوں اسکول سے اکٹھے واپس آرہے تھے اور گاڑی سے اترتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی نے بڑی درشتی کے ساتھ پیچھے ڈگی سے اس وقت اپنا بیگ کھینچ کر نکالا جب معیز اپنا بیگ نکال رہا تھا ۔ بیگ کھینچتے ہوئے معیز کے ہاتھ کو بری طرح رگڑ آئی ۔ میعز بری طرح تلملایا ۔ تم اندھے ہوچکے ہو ؟ وہ اطمینان سے اپنا بیگ اٹھائے بے نیازی سے اندر جا رہا تھا ۔ معیز کے چلانے پر اس نے پلٹ کر اس کو دیکھا اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا ۔ معیز کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ۔ وہ تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے اندر چلا آیا ۔ اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو میں تمہارا ہاتھ توڑ دوں گا ۔ اس کے قریب پہنچتے ہوئے معیز ایک بار پھر دھاڑا ۔ اس نے بیگ کندھے سے اتار کر نیچے رکھ دیا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا ۔ نکالوں گا ۔۔۔۔۔ تم کیا کرو گے ۔۔۔۔۔ ؟ ہاتھ توڑدو گے ؟ اتنی ہمت ہے ؟ یہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب تم دوبارہ یہ حرکت کرو گے ۔ معیزاپنے کمرے کی طرف بڑھا مگر اس کے بھائی نے پوری قوت سے اس کا بیگ کھینچتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کردیا ۔ نہیں تم مجھے ابھی بتاؤ ۔ اس نے معیز کا بیگ اٹھا کر دور پھینک دیا ۔ معیز کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے زمین پر پڑا ہوا اپنے بھائی کا بیگ اٹھا کر دور اچھال دیا ۔ ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر اس کے بھائی نے پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری ۔ جوابا" اس نے پوری قوت سے چھوٹے بھائی کے منہ پر مکا مارا جو اسکی ناک پر لگا ۔ اگلے ہی لمحے اسکی ناک سے خون ٹپکنے لگا ۔ اتنے شدید حملے کے باوجود اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی ۔ اس نے معیز کی ٹائی کھینچتے ہوئے اسکا گلا دبانے کی کوشش کی ۔ معیز نے جوابا" اسکی شرٹ کو کالرز سے کھینچا۔ اسے شرٹ کے پھٹنے کی آواز آئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنے چھوٹے بھائی کے پیٹ میں مکا مارا اس کے بھائی کے ہاتھ سے اسکی ٹائی نکل گئی ۔ ٹھہرو میں تمہیں اب تمہارا ہاتھ توڑ کردکھاتا ہوں ۔ معیز نے اسے گالیاں دیتے ہوئے لاؤنج کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ایک ریکٹ کو اٹھالیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مارنے کی کوشش کی ۔ مگر اگلے ہی لمحے ریکٹ اسکے بھائی کے ہاتھ میں تھا ۔ اس نے پوری وقت سے گھما کراتنی برق رفتاری کے ساتھ اس ریکٹ کو معیز کے پیٹ میں مارا کہ وہ سنبھل یا خود کو بچا بھی نہ سکا ۔ اس نے یکے بعد دیگرے معیز کی کمر اور ٹانگ پر ریکٹ برسا دیے ۔ اندر سے ان دونوں کا بڑا بھائی اشتعال کے عالم میں لاؤنج میں آگیا ۔ کیا تکلیف ہے تم دونوں کو ۔۔۔۔۔ گھر میں آتے ہی ہنگامہ شروع کردیتے ہو ۔ اس کو دیکھتے ہی چھوٹے بھائی نے اٹھا ہوا ریکٹ نیچے کرلیا ۔ اور تم ۔۔۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے بڑے بھائی کو مارتے ہو۔ اس کی نظر اب اس کے ہاتھ میں پکڑے ریکٹ پر گئی ۔ نہیں آتی ۔ اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہوئے ریکٹ ایک طرف اچھال دیا اور بڑی بے خوفی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا کر اندر جانے لگا ۔ معیز نے بلند آواز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا تم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ وہ ابھی تک اپنی ٹانگ سہلا رہا تھا ہاں کیوں نہیں ۔ ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے آخری سرے پر رک کر اس نے معیز سے کہا ۔ اگلی بار تم بیٹ لے کر آنا ۔۔۔۔۔ ٹینس ریکٹ سے کچھ مزہ نہیں آیا ۔۔۔۔۔ تمہاری کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی معیز کو اشتعال آگیا ۔ تم اپنی ناک سنبھالو ۔۔۔۔۔ وہ یقینا" ٹوٹ گئی ہے ۔ معیز غصے کے عالم میں سیڑھیوں کو دیکھتا رہا ۔ جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا ۔٭٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے) *گروپ ایڈمن: ارحم*
❤️ 1

Comments