
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
1.5K subscribers
About بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
*✍🏻ضــــروری نـــوٹ* ⬇️۔ جــــو دوســـت احــــباب زندگــــی بــدل دینــــے والــی اســــلامــــی،ســــائنســــی، تـاریخــــی،معلوماتــــی، تفریحــــی اور سبــــق آمــــوز حــــکایـات و واقــعــات پڑھنــــے کا ذوق و شــــوق رکھتــــے ھیــــں وہ ھمــــارے *"بــــے مـــثال تحــایــر"* گــــروپ کو جواٸـــن کــــریں اور اس کــےلنـک کو دوســــرے گــــروپس میــــں ســـینڈ کــــریں تاکہ ان تحــاریــر ســــے تمام دوســـت احــــباب مُستفــــید ھوسکیــــں https://chat.whatsapp.com/KIHWjTWvUCIKD0qkdExCxu تــــوجہ⬇️ *تمــــام بــــےمـــثال تحــایــر* گــــروپس میــــں روزانہ بنـــا نـــاغــــہ 05 ایک جیســــی تحــریــریں ســینڈ کــــی جاتــــی ھیــــں اس لیــــے برائــــے مہربانــــی ایک ہــــی گــــروپ جواٸــــن کــــریں. بیــــرون ممالک رہائــــش پذیر ممبــــران اور عورتوں کیلیــــے الگ الگ گــــروپ موجود ہیــــں فی مــــیل گــــروپ میں Add هونــــے کیلئیــــے وائــــس🎤 میسج لازمــــی ھــــے۔ اور ســــابقہ اقســـاط اور پـــسّندیدہ نـــاول پڑھنــــے کیلئـــے *بــــے مـــثال تحــایــر چینل* (Arham B.M.T) جوائــــن کــــریں۔ https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s *بــــے مـــثال تحــریــریں* گــــروپس میــــں اپنی پــــسّند کــــی تحــــریر ســینڈ کــــروانــــے کیلٸــــے اس نمـــبر پہ تحــــریر بھیجیــــں۔ 🪀03001122184 ────•••──── شکــــریہ *ایڈمــــن:یوســــف ارحــــم*
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/35* عمرو بن عاص کو جاسوسوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اطربون بلبیس میں موجود نہیں، وہاں دو جرنیل تھے جن میں ایک نوشی کا باپ تھا جو فرما سے شکست کھا کر بھاگا تھا ،عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ اب اور زیادہ چوکنّے رہیں۔ اس وقت مصر کا فرمانروا مقوقس اور اطربون کسی اور مقام پر تھے جس کا تاریخ میں نام نہیں آیا۔ یورپی مورخ الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ جب مقوقس اور اطربون کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا محاصرہ کر لیا ہے تو دونوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے اس وقت اتفاق سے وہ اکٹھے بیٹھے اسی پالان پر باتیں کر رہے تھے۔ جو انہوں نے مسلمانوں کو گھیر کر مارنے کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دونوں کو توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان اتنی تیزی سے ایسا دشوار گزار اور لمبا راستہ طے کر لیں گے۔ ہم ابھی تیار نہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ ہمیں کوئی ایسی چال چلنی پڑے گی کہ وقت حاصل کریں اور مسلمانوں کو بلبیس کے باہر ہی الجھائے رکھیں۔ ہم بالکل تیار ہیں۔۔۔۔ اطربون نے کہا ۔۔۔ہم اب یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ مسلمان بلبیس پر بھی قابض ہو جائیں میں اب انہیں مزید مہلت دینے کے حق میں نہیں۔ عریش اور فرما کے بعد میں انہیں بلبیس کسی قیمت پر نہیں لینے دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ ہمیں کچھ وقت حاصل کرنا پڑے گا۔ تاریخ کے مطابق ان کے درمیان جتنی بھی گفتگو ہوئی اس میں یہ تاثر بڑا ہی واضح تھا کہ ان میں اختلاف رائے ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی جھکنا نہیں چاہتا مقوقس کی حیثیت اطربون سے اونچی تھی مقوقس مصر کا فرمانروا، اور اطربون ایک جرنیل تھا۔ آخر مقوقس کی مانی گئی اس نے یہ تجویز پیش کی کہ پادریوں کا ایک وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کی طرف بھیجا جائے جو یہ مذاکرات کرے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں اور بتائیں کہ وہ کن شرائط پر مصر سے نکلیں گے۔ اطربون نے کہا کہ وہ اگر یہ شرط پیش کر بیٹھے کہ انہوں نے مصر کا جو علاقہ فتح کر لیا ہے وہ اپنی عملداری میں رکھیں گے، اور اس سے آگے پیش قدمی نہیں کریں گے تو کیا ہم مان لیں گے، اطربون نے یہ بھی کہا کہ مسلمان یہ شرط بھی پیش کرسکتے ھیں کہ بلبیس انہیں دے دیا جائے۔ میں انہیں مصر کی ایک بالشت زمین بھی نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں انہیں ایک چکر میں ڈالنا چاہتا ہوں مجھے پادریوں کا وفد ان کے پاس بھیج لینے دو تم فوج تیار کرو ،اور اطربون ان بدبخت قبطی عیسائیوں کو مت بھولو میں ان کے اسقف اعظم بنیامین کو بھی اپنے جال میں لانے کی سوچ رہا ہوں۔ آخر ان دونوں میں طے یہ پایا تھے پادریوں کا وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس بھیجا جائے اسی وقت چار یا غالباً چھے بزرگ پادریوں کی طرف آدمی دوڑا دیے گئے کہ وہ فوراً مقوقس کے پاس پہنچیں۔ ہرقل کی سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس تھا ۔اگر پادریوں کا ہی وفد بھیجنا تھا تو اس میں قیرس کی شمولیت لازم تھی لیکن قیرس کو نہ بلایا گیا تاریخ میں ایسے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ ہرقل اور قیرس میں کچھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ اس وقت قیرس اسکندریہ میں تھا ہرقل ابھی تک بذنطنیہ میں بیٹھا حکم بھیج رہا تھا جو مقوقس اور اطربون کے لیے محض بے کار اور بے بنیاد تھے۔ مقوقس کے متعلق ہم ایک بات دہرانہ چاہیں گے یہ بات پوری تفصیل سے اس داستان میں پیش کی گئی ہے۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس کو قبول اسلام کے لئے ایک پیغام بھیجا تھا جو حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ لے کر گئے تھے، مقوقس نے اس پیغام کا جواب خلاف توقع نہایت احترام سے دیا تھا اس نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو باتیں کی تھیں ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے، اس نے پیشن گوئی کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد مسلمان مصر کے میدان پر قابض ہو جائیں گے۔ یہاں یہ واقعہ دہرانہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مقوقس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو نوخیز لڑکیاں تحفے کے طور پر بھیجی تھی، ان میں سے ایک حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک روا رکھنا کیونکہ ان کے ساتھ تمہاری رشتہ داری بن گئی ہے۔ محاصرے کا ساتواں آٹھواں روز تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ مصری پادریوں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا ہے۔ عمرو بن عاص نے وفد کو اسی وقت خیمے میں بلوایا اور احترام سے وفد کا استقبال کیا چونکہ یہ وفد مذہبی پیشواؤں کا تھا اس لئے مذہب کے حوالے سے بات کی اور امن و امان اور بنی نوع انسان سے محبت کرنے کے موضوع پر واعظ دے ڈالا۔ عمرو بن عاص نے یہ واعظ تحمل اور بردباری سے سنا اور کہا کہ ان کا اپنا مذہب یہی تعلیم دیتا ہے لیکن وہ بتائیں کہ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ پادری نے وہ بات کہی جو مقوقس نے اسے بتائی تھی یعنی یہ کہ مسلمان یہیں سے واپس اپنے ملک میں چلے جائیں اور اگر ان کی کوئی شرط ہے تو وہ بتائیں۔ میری اپنی کوئی ذاتی شرط نہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ہم اپنے مذہب کے اصولوں کے پابند ہیں اس لئے میں وہ شرط پیش کروں گا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہے,,,,,,, اسلامی اصول یہ ہے کہ میں آپ کو اور آپ کے حکمرانوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں جتنے بھی لوگ اسلام قبول کرلیں گے ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا، وہ ہماری قوم کے افراد ہوں گے اسلام نے بنی نوع انسان میں مساوات قائم رکھنے کا حکم دیا ہے، اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا اور لوگ رعایا نہیں کہلاتے، آپ کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا ،لیکن ان سے ہم جزیہ وصول کریں گے ان کے ساتھ بھی ہمارا سلوک اور رویہ ویسا ہی ہوگا جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے، اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کے بھی مال و اموال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے اور ان کی تمام ضروریات ہم پوری کریں گے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ وفد نے یہ شرط قبول نہ کی اور عمرو بن عاص کو قائل کرنے لگے کہ وہ خونریزی یہی روک دیں اور واپس چلے جائیں ، مقوقس کے کہنے کے مطابق پادریوں نے کچھ زروجواہرات کی پیشکش بھی کی لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ اسلام کے جذبہ جہاد میں ہوس ملک گیری نہیں ہوتی نہ ہی شاہی خزانوں کے ہاتھ آنے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ عمرو بن عاص جانتے تھے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی بھی قیمت پر وہ مقوقس کی یہ شرط نہیں مان سکتے تھے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں۔ عمرو بن عاص نے از راہ مذاق پادریوں کے وفد سے کہا کہ ان کے مصریوں کے ساتھ رشتے داری بھی ہے اس لئے مصر پر عربوں کا خاصا حق ہے۔ پادری سمجھ گئے کہ اس مسلمان سپہ سالار کا اشارہ کس طرف ہے۔ اشارہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر گئے تھے تو مصر کے بادشاہ نے انھیں ایک لڑکی پیش کی تھی ابراہیم علیہ السلام نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی اور اس کا نام ہاجرہ رکھا تھا ۔ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے پھر اس رشتے کا اشارہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی تھا ذکر ہو چکا ہے کہ مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو لڑکیوں کا تحفہ بھیجا تھا جن میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنی۔ ہم یہ رشتے داری نہیں بھول سکتے۔۔۔ وفد کے بڑے پادری نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔لیکن اس قسم کے رشتے داری کو صرف کوئی پیغمبر ہی زندہ کرسکتا ہے۔ کیا ہم ایک دوسرے کا وقت ضائع نہیں کر رہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہماری بات چیت یہاں پر ختم ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی شرط پر مصر سے واپس نہیں جائیں گے، مسلمان جانے کے لیے نہیں آئے ایک پیغام لائے ہیں جو انہیں قبول ہے تو ٹھیک ورنہ اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا۔ عمرو بن عاص نے اس سے آگے کوئی اور بات سننے یا کہنے سے انکار کردیا ۔ مقوقس نے اس وفد سے کہا تھا کہ وہ کچھ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ پوری فوج کو تیاری کرکے مسلمانوں کو گھیرا جائے۔ ہمیں کچھ وقت دیں ۔۔۔وفد کے لیڈر نے کہا۔۔۔ میں فرمانروائے مصر کے ساتھ بات کر لوں اور پھر آپ کو جواب دینے آؤں گا۔ یہ بھی سوچ لینا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ مجھے دھوکا نہیں دے سکو گے میں صرف تین دن کی مہلت دیتا ہوں مجھے اسلام کی شرط کے مطابق جواب نہ ملا تو وہ خونریزی ہو گی جسے آپ روکنا چاہتے ہیں۔ تاریخ میں آیا ہے کہ اس گفت و شنید کے بعد پادریوں نے مہلت میں اضافے کی درخواست کی وہ زیادہ دنوں کی مہلت چاہتے تھے لیکن عمرو بن عاص نے تین کے بجائے مہلت پانچ دن کردی ،پادری پھر آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ پادریوں کا وفد واپس مقوقس سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کے ساتھ کیا مذاکرات ہوئے ہیں مقوقس بہت زیادہ دنوں کی مہلت کی توقع رکھتا تھا لیکن پادریوں نے اسے بتایا کہ سپہ سالار پانچ دنوں سے زیادہ مہلت دینے پر راضی نہیں ہوا ،تو مقوقس گہری سوچ میں کھو گیا۔ میرے لیے پانچ دن بہت ہیں۔۔۔۔ اطربون نے بڑی جوشیلی آواز میں کہا۔۔۔ میں ان پانچ دنوں میں اچھی خاصی فوج تیار کر لونگا اور مسلمانوں پر حملہ کروں گا میں ضمانت دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو پسپا کرکے ہی دم لونگا، بلبیس کے محصور لوگوں کے متعلق ایک اطلاع مقوقس کو پہنچی۔ وہ یہ تھی کہ اندر لوگ بہت پریشان ہیں ان کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتا کر لیا جائے۔ بلبیس میں وہ لوگ بھی تھے جو عریش اور فرما سے بھاگ کر یہاں پہنچے تھے، انہوں نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں نے ان کی فوج کو کس طرح کاٹا اور بھگایا تھا ،ایک طرف تو ان لوگوں پر مسلمانوں کی دہشت طاری تھی اور اس کے ساتھ ہی عریش اور فرما سے آئے ہوئے لوگ بلبیس کے لوگوں کو بتاتے تھے کہ اپنی فوج کو لڑنے نہ دیں اور اگر فوج لڑتی ہے تو اس کے ساتھ تعاون نہ کریں، وہ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ مسلمان شہریوں کے لئے ذرا سی بھی پریشانی پیدا نہیں کرتے بلکہ ان کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن شہری اگر اپنی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں اور انھیں جانی نقصان پہنچائیں تو پھر مسلمانوں کی شرائط بڑی سخت ہوتی ہے۔ مقوقس نے دو پادریوں کو یہ کہہ کر بلبیس بھیجا کہ وہ اندر جاکر لوگوں کو بتائیں کہ وہ ڈرے نہیں اور ان کے امن و امان کی ضمانت فرمانروائے مصر اپنے ذمے لیتا ہے ،اور یہ یقین دلانا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مار بھگائے گا ۔ پادری گئے اور سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملے اور شہر کے اندر جانے کی اجازت چاہی۔ عمرو بن عاص نے ان سے پوچھا کہ اندر جانے سے ان کا مقصد کیا ہے پادریوں نے یہ جھوٹ بولا کہ وہ لوگوں کو قائل کرنے جارہے ہیں کہ اسلام قبول کرلیں تو وہ عافیت سے رہیں گے۔ عمرو بن عاص نے انہیں اجازت دے دی دونوں پادری شہر کے بڑے دروازے تک گئے اور ان کے لیے دروازہ ذرا سا کھلا دونوں اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔ پادریوں کو توقع تھی کہ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو لوگ اپنی فوج کے شانہ بشانہ شہر کے دفاع میں لڑیں گے لیکن انہوں نے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے یہ بات شروع ہی کی تھی کہ لوگوں نے شوروغل بپا کردیا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا جائے ۔ بعض آوازیں ایسی بھی آئیں جن میں رومی فوج کے خلاف طنز اور ناپسندیدگی تھی، یہ آوازیں کہتی تھی کہ اپنی فوج نے مسلمانوں کو روکا ہی کہاں ہے؟،،،،،،، یہ فوج پورا ملک شام مسلمانوں کو دے آئی ہے اور اب مسلمانوں نے اس فوج کو لہولہان کر کے اس سے مصر کے دو قلعے لے لیے ہیں۔ پادریوں نے لوگوں کو یہ ذہن نشین کرانے کی بہت کوشش کی کہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی شہر چھوٹا یا بڑا بغیر لڑے دشمن کے حوالے کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی فوج کو لڑنے کا موقع دیں اور اس فوج کی پشت پناہی کریں تاکہ مسلمانوں کو مار بھگایا جائے۔ لیکن لوگوں کا شوروغل روکا نہ جاسکا۔ اور یہ بات طے شدہ سمجھ لی گئی کہ شہر کے لوگ اپنی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ پادریوں نے واپس جاکر جب مقوقس اور اطربون کو بتایا کہ بلبیس میں شہر کے لوگوں کا ردعمل اور ان کا مطالبہ کیا ہے تو اطربون بھڑک اٹھا اس نے کہا کہ وہ اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔مقوقس نے پھر اطربون روکا اور کہا کہ کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی مسلمانوں کو واپس جانے پر آمادہ کر لیا جائے گا ۔اطربون خاموش رہا لیکن اس کی خاموشی بتاتی تھی کہ وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ اطربون تاریخ کا ایک نامور جرنیل تھا اس نے مقوقس سے حکم لیے بغیر اور اسے بتائے بغیر بارہ ہزار نفری کی فوج تیار کرلی اور ایک روز بلبیس کی طرف کوچ کر گیا ۔مقوقس کو پتہ چلا لیکن اس نے اطربون کو روکنے کی جرات نہ کی بلبیس وہاں سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ایک صبح فجر کی اذان دی جا چکی تھی اور مجاہدین کا لشکر نماز کی تیاری کررہا تھا کہ ہزاروں دوڑتے گھوڑوں کا طوفان آگیا ، یہ اطربون کی بارہ ہزار گھوڑ سواروں کی فوج تھی جو مجاہدین پر عقب سے حملے کے لئے آ گئی تھی، اطربون نے وقت بڑا اچھا دیکھا تھا اسے معلوم تھا کہ اس وقت مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ہونگے یا نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے اس نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور جتنی دیر میں وہ تیار ہوتے ہیں اتنی دیر میں اس کے بارہ ہزار گھوڑسوار ان پر غالب آجائیں گے اور انہیں ان کے ہی خون میں ڈبو دیں گے۔ اطربون نے مجاہدین کو بے خبری میں آ لینے میں کوئی کسر چھوڑی تو نہیں تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں اور دیگر ذمہ دار افراد کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ عقب سے یا پہلوؤں سے ان پر حملہ ضرور ہوگا اور وہ ہر وقت چوکنّے اور تیار رہیں۔ اطربون کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مجاہدین کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا کہ نماز کے وقت اپنی تلواریں، برچھیاں، کمانیں، اور تیرکش اپنے ساتھ رکھا کریں اور گھوڑے ہر وقت تیار رہیں۔ عمرو بن عاص وہ سپہ سالار تھے جو ایسا لگتا تھا جیسے ہوا میں دشمن کی بو پا لیتے ہیں اور اس بو سے دشمن کے ارادے بھانپ لیتے ہیں۔ بدوؤں کو ملا کر مجاہدین کی تعداد پانچ ہزار سے ذرا ہی زیادہ تھی ،فرما میں مجاہدین کی شہادت کچھ زیادہ ہی ہوئی تھی اور شدید زخمیوں کی بھی کمی نہ تھی جو بلبیس میں لڑنے کے قابل نہیں تھے، اور بدو ناتجربے کاری کی وجہ سے خاصی تعداد میں مارے گئے تھے ،اتنا جانی نقصان کے بعد بدوؤں کا حوصلہ ٹوٹ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ان کے حوصلے میں پہلے سے زیادہ تازگی اور غضب پیدا ہوگیا ،فرما کے مال غنیمت میں سے ہر بدو کو اتنا حصہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خلوص اور فیاضی کے متعلق ان کے دلوں میں ذرا سا بھی شک نہیں رہا تھا۔ عمرو بن عاص نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ دشمن کی تعداد کتنی ہے اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنی ہیں، انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ رومیوں کی یہ ساری فوج گھوڑ سوار ہے اس اچانک حملے کے لئے عمرو بن عاص نے پہلے ہی ہدایات دے رکھی تھی، اور یہ بھی بتا رکھا تھا کہ حملے کی صورت میں لشکر کی ترتیب کیا ہوگی اور کونسے دستے محفوظ ہیں (ریزور) میں ہونگے اب وہ اچانک حملہ آ گیا تھا جو مجاہدین کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ ہر کوئی پلک جھپکتے اپنے اپنے ہتھیار سے مسلح ہو گیا اور گھوڑوں کی پیٹھوں پر جا چڑھے اور اس ترتیب میں ہو گئے جو انہیں پہلے ہی بتا دی گئی تھی۔ سالاروں کو اس معاملے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہ آئی۔ عمرو بن عاص نے ایک بندوبست اور بھی کررکھا تھا انہیں یہ توقع تھی کہ عقب سے حملہ ہوا تو ہوسکتا ہے شہر کے اندر سے بھی فوج باہر آجائے اور اس صورت میں مجاہدین کا لشکر گھیرے میں آ جائے اور پھر بڑی مشکل پیدا ہوجائے گی، عمرو بن عاص نے ریزور دستے کو یہ ہدایت پہلی ہی دے دی تھی کہ ایسی صورت پیدا ہو گئی تو آدھی ریزور فورس فوراً شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرے ،عمرو بن عاص کو یہ توقع تھی کہ لشکر کی کچھ ہی تعداد شہر میں چلی گی تو اندر ایسی بد امنی اور افرا تفری پیدا ہوجائے گی کہ رومی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اطربون کی بارہ ہزار سوار فوج مجاہدین پر جب آن پڑی تو وہ دیکھ نہ سکا کہ مجاہدین کی خاصی تعداد دائیں اور بائیں کی طرف نکل گئی ہے، ابھی سحر کی تاریکی تھی معرکہ تو بڑا گھمسان کا تھا اور نظر یہی آتا تھا کہ اتنی زیادہ فوج مجاہدین کو کاٹ پھینکے گی لیکن اطربون گھوڑ سواروں پر دائیں اور بائیں پہلو سے بیک وقت حملے ہوگئے اس طرح رومیوں کے حملے کی جو شدت تھی وہ وہیں ختم ہوگئی، اور سواروں کو جان کے لالے پڑ گئے تعداد کے تناسب کو دیکھا جاتا تو شکست مجاہدین کے حصے میں آتی تھی، لیکن جو جذبہ مجاہدین میں تھا وہ رومیوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا تھا ،مجاہدین کو احساس تھا کہ انہیں تعداد کی کمی جذبے اور حوصلے کے استحکام سے پوری کرنی ہے اور پھر یہ اعتقاد کے اللہ ان کے ساتھ ہے۔ عمرو بن عاص دیکھتے رہے کہ ابھی شہر کے دروازے کھلیں گے اور اندر کی فوج باہر آئے گی یا ہوسکتا ہے اطربون کی فوج اندر جانا چاہیے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ عمرو بن عاص اور دیگر سالاروں نے صورتحال کو اپنے قابو میں کر لیا اور قدم جمالیے۔ مجاہدین کے نعروں میں ایسا جوش و خروش تھا جو رومی سواروں پر بری طرح اثر انداز ہو رہا تھا دن آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے عمرو بن عاص نے فوراً اپنے ماتحت سالاروں کو پیغام بھیجا کہ پیچھے ہٹتے ہوئے رومیوں کے تعاقب میں نہ جائیں ،کچھ دیر بعد اطربون کی یہ فوج لاشوں کی اچھی خاصی تعداد اور زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور مجاہدین کو پھر ترتیب میں کر لیا گیا۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اور باقی دن لاش اٹھانے میں گزر گیا اور جو شدید زخمی تھے انھیں بھی اٹھا کر لے آئے اور لشکر کے ساتھ جو خواتین تھیں انہوں نے زخمیوں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ عمرو بن عاص نے اپنے جاسوس یہ دیکھنے کے لئے بھیج دیئے کہ اطربون کی فوج کہاں ہے ۔میدان جنگ میں صاف نظر آ رہا تھا کہ رومیوں کی اموات خاصی زیادہ ہوئی ہے۔ شام کے بعد جاسوسوں نے بتایا کہ تین چار میل دور اطربون کی فوج نے پڑاؤ کر لیا ہے اور خیمے بھی لگا لیے ہیں۔ عمرو بن عاص نے اسی رات کے لیے ایک اور بندوبست کر لیا جو یہ تھا کہ شب خون مارنے والے جانبازو کا ایک دستہ تیار کیا جس کی نفری چالیس اور پچاس کے درمیان تھی۔ آدھی رات کے بعد دن بھر کے تھکے ہوئے رونی سوار خیموں میں بڑی گہری نیند سو رہے تھے کہ ان پر آگ برسنے لگی یہ ایک طرح کی مشعلیں تھیں جو شب خون مارنے والے مجاہدین دوڑتے گھوڑوں سے رومیوں کے خیموں پر پھینک رہے تھے، یہ صرف چالیس پچاس جانبازوں کا شب خون تھا،، رومی اپنے گھوڑوں کو خشک گھاس کھلایا کرتے تھے جو وہ ساتھ لائے تھے ،کسی جانباز نے ایک مشعل گھاس کے درمیان پھینک دی اور خشک گھاس جل اٹھی یہ آگ بڑی تیزی سے پھیلنے لگی گھوڑوں نے قیامت کا شور و غل برپا کردیا، اور وہ رسیاں تھوڑا تھوڑا کر بھاگنے لگے۔ ادھر خیمے تو چند ایک ہی جلے تھے، لیکن سارے لشکر میں ادھم بپاہوگیا ،مشعلے کوئی زیادہ نہیں پھینکی گئی تھی چند ایک ہی تھی لیکن رات کو خیموں اور خشک گھاس کے اٹھتے شعلوں نے بڑا ہی دہشت ناک منظر بنا دیا تھا ۔جانبازوں نے رومیوں کو نیند سے جاگ کر خیموں سے نکلتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھا تو سرپٹ گھوڑے دوڑاتے دو دو تین تین رومیوں کو پرچھیوں اور تلواروں سے گھائل کرتے دوڑتے ہی چلے گئے، اور اس طرح رومیوں کا خاصا نقصان کر کے واپس آ گئے۔ عمرو بن عاص نے جانبازوں کا ایک پورا دستہ تیار کررکھا تھا جسے آگ پھیلانے اور شب خون مارنے کی خاص طور پر ٹریننگ دی گئی تھی۔ اگلے روز اطربون حملہ کرنے کے قابل نہ رہا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس شب خون میں رومیوں کا جانی نقصان کوئی ایسا زادہ تو نہ تھا کہ وہ اگلے روز حملے کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ اطربون کی ساری فوج پر مسلمانوں کی ایسی دہشت نظر آتی تھی جسے اطربون نے خاص طور پر محسوس کیا اور اس روز حملہ ملتوی کردیا۔ عمرو بن عاص نے بلبیس کے محاصرے کو برقرار رکھا اور نظر رکھی کہ کوئی دروازہ کھلے گا اور فوج آئے گی لیکن ایسا نہ ہوا ۔ عمرو بن عاص نے شہر پر حملے کی ذرا سی بھی کاروائی نہ کی ۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ لڑائیاں اطربون کی سوار فوج کے ساتھ جاری رہے گی۔ اور اس کے بعد شہر کی فوج باہر آئے گی یا کوئی اور صورت حال پیدا ہو گی۔ محمد يحيٰ سندھو تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بلبیس کی یہ لڑائی پورا ایک مہینہ جاری رہی۔ اس کا انداز ایسا ہی رہا جیسے پہلے روز تھا۔ اطربون اپنے سواروں سے حملہ آور ہوتا تھا اور مسلمان نہایت اچھی ترتیب میں آکر اس لشکر کا مقابلہ کرتے اور پہلوؤں سے اس پر حملہ آور ہو کر اسکا اچھا خاصا جانی نقصان کر دیتے۔ عمرو بن عاص نے دو دو چار چار راتوں کے وقفے سے رومیوں کے کیمپ پر شبخون کا سلسلہ جاری رکھا ،رومی رات کو پہرہ تو بہت کھڑا کرتے تھے لیکن شب خون مارنے والے جاں باز پھر بھی اپنا کام کر آتے تھے ، اس طرح رومیوں کو خاصا نقصان پہنچتا رہا اور ان کی تعداد کم ہوتی چلی گئی ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ رومی سواروں کے حوصلے مجروح ہوگئے اور ان میں جوش و خروش بہت ہی کم رہ گیا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* مدینہ میں کمک تیار ہو کر بمشکل چلی ہی تھی یہ کمک بلبیس کی لڑائی تک نہیں پہنچ سکتی تھی اسے پہنچتے ایک مہینہ بھی لگ سکتا تھا ۔عمرو بن عاص نے اللہ کی آس پر لڑائی جاری رکھی، رومیوں کا جانی نقصان تو بہت ہوا تھا لیکن مجاہدین کا اور بدوؤں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہ تھا ،بدوؤں کا حوصلہ قائم تھا اور مجاہدین کے جوش و خروش اور ایمان کی قوت میں ذرا سی بھی کمزوری نہ آئی تھی، ان کی کیفیت یہ تھی کہ جسم تو جیسے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے لیکن روح تروتازہ تھی، اور وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے۔ اطربون کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اسے کمک مل سکتی تھی لیکن اس سوال کا جواب کسی مؤرخ نے نہیں دیا کہ اس نے کمک کیوں نہ مانگوائی، اور مقوقس نے کمک کیوں نہ بھیجی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بلبیس شہر کے اندر فوج موجود تھی جو ابھی تک لڑائی میں شامل نہیں ہوئی تھی اور وہ تازہ دم تھی۔ مؤرخوں نے بلبیس کی اس لڑائی کو بہت ہی خونریز لڑائی لکھا ہے ۔ مجاہدین کا لشکر شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے بڑی تیزی سے خطرناک حد تک کم ہوتا جارہا تھا، لیکن عمرو بن عاص یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ مہینے کے آخر میں رومی سواروں کا جو حملہ آیا اس میں جوش وخروش بھی کم تھا اور تعداد بھی کم تھی اور اطربون اپنی فوج کے سب سے آگے تھا۔ شب خون مارنے والے مجاہدین نے اطربون کا پرچم دیکھ لیا وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اپنے گھوڑسوار محافظوں کے حصار میں تھا ۔ تاریخ میں ان جانباز مجاہدین کے نام نہیں ملتے جنہوں نے اللہ کا نام لے کر عزم کر لیا کہ آج اطربون کو گرا لیں گے، اگر وہ بچ نکلا تو اس کا پرچم تو ضرور ہی گرا آئیں گے۔ وہ چاروں اطربون کے گھوڑسوار محافظوں کے حصار تک جا پہنچے اور بڑی ہی بے جگری سے محافظوں سے لڑے اور ان میں سے تین مجاہدین شہید ہوگئے، لیکن چوتھے مجاہد نے زخمی ہو کر بھی اطربون کو جا لیا اور ایک ہی وار میں اسے گھوڑے سے گرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ خود بھی گھوڑے سے گرا اور شہید ہو گیا۔ ادھر بلبیس شہر کے دو تین دروازے کھل گئے اور اندر والی رومی فوج باہر آنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی باہر والی رومی فوج میں ایک آواز جو بڑی ہی بلند تھی ساری فوج میں گونج گئی ، اطربون مارا گیا ہے۔۔۔ اطربون کا پرچم گر پڑا ہے۔۔۔۔ رومی فوج شاید اسی آواز کے انتظار میں تھی۔ رومیوں کے قدم اکھڑ گئے اور انہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ۔ یہ آواز بلبیس سے باہر آنے والی فوج نے بھی سن لی۔ مجاہدین کے حوصلے تو اس طرح اور بلند ہوگئے۔ جیسے آگ مزید بھڑک اٹھی ہوں انہوں نے اللہ کے اور فتح کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ عمرو بن عاص نے ریزور دستے کو پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ جونہی شہر کے دروازے کھلے یہ دستہ دروازوں پر ٹوٹ پڑے اور اندر چلا جائے، اس دستے نے اس حکم پر عمل کیا اور مجاہدین کی خاصی نفری لڑتی لڑتی شہر میں داخل ہوگئی۔ ادھر رومی سوار سرپٹ بھاگ اٹھے ۔ یہ حالت دیکھ کر بلبیس کی جو فوج باہر آئی تھی وہ بھی شہر کے اندر آنے کی بجائے بڑی بری تتربتر ہو کر گھوڑ سواروں کے پیچھے دوڑتی چلی گئی۔ مجاہدین کا لشکر شہر میں داخل ہو گیا شہر کے اندر تاریخ کے مطابق تین ہزار اچھے بھلے رومی فوجیوں نے مجاہدین کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور قید قبول کرلی، باہر اطربون کی لاش اٹھانے والا بھی کوئی نہ تھا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اطربون کوئی عام سی قسم کا جرنیل نہ تھا اس کی جنگی فہم و فراست اور دشمن کو دھوکا دینے کی صلاحیت میدان جنگ میں مکاری اور چال بازی کو تاریخ آج بھی یاد کرتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی اطربون کی پُرخطر خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ جب فلسطین میں رومی اور مسلمان برسرپیکار تھے تو اس وقت بیت المقدس کو مسلمانوں سے بچائے رکھنے کی ذمہ داری اطربون کے سپرد تھی ، ہرقل کہا کرتا تھا کہ اطربون ہے تو فلسطین بھی اپنا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے عمرو بن عاص کو بھیجا تھا ،امیر المؤمنین اس سپہ سالار کی خوبیوں اور صلاحیت سے آگاہ تھے اور انھیں توقع تھی کہ اطربون کا مقابلہ صرف عمرو بن عاص کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے جب عمرو بن عاص کو اطربون کے مقابلے کے لئے بھیجا تھا تو یہ تاریخی الفاظ کہے تھے ۔ میں نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا تھا کہ عمرو بن عاص نے بیت المقدس فتح کرلیا اور اطربون بھاگ گیا تھا۔ اب روم کا وہ اطربون عمرو بن عاص کے جانبازوں کے ہاتھوں مارا گیا اور بلبیس کی فتح نے عرب کے اطربون کے قدم چومے۔ *جاری ہے۔

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتا رہا* *قسط نمبر/31* ہامون کے ٹھکانے تک پہنچتے شام ہوگئی۔ وہ بڑے جانوروں کی کھالوں کا بنا ہوا خیمہ تھا جو عام قسم کے خیموں سے دو گنا کشادہ تھا۔ خیمے کے باہر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اس کا رنگ گہرا سانولا تھا، آنکھیں لال سرخ اور دانت زردی مائل تھے، اس کے چہرے پر کراہت اور نحوست کا تاثر تھا جسے چھپایا نہیں جاسکتا تھا ،اس کے سر کے بال شانوں تک آئے ہوئے تھے، اور اس نے سر پر بڑا ہی میلہ اور بد رنگ سا کپڑا باندھ رکھا تھا، دو آدمی اس کے پاؤں میں بیٹھے اس کی ٹانگیں دبا رہے تھے۔ یہ تھا وہ شخص ہامون جو ان بدوؤں کا پیرومرشد بنا ہوا تھا۔ سیلی نوش ، نوشی، اس کا منگیتر، اور بدوّ ملازم اس کے سامنے گئے اور رک گئے۔ بدوّ ملازم نے جھک کر اسے سلام کیا ہامون نے انھیں اس طرح دیکھا جیسے وہ خود نہیں بلکہ یہ چاروں حقیر اور قابل نفرت انسان ہوں۔ اے ہامون!،،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں تیرے لیے مہمان لایا ہوں یہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ یہ شاہی خاندان کے لوگ ہیں۔ یہ لڑکی شہزادی ہے اور یہ اس کا منگیتر ہے اور یہ فوج میں عہدیدار ہے، اور یہ شخص اس کا ملازم ہے۔ ہامون نے ہاتھ سے اشارہ کیا جو یہ تھا کہ زمین پر بیٹھ جاؤ ،اس کے انداز میں شاہی خاندان کا ذرا سا بھی احترام معلوم نہیں ہوتا تھا ،چاروں زمین پر بیٹھ گئے۔ کوئی بادشاہ ہو یا بھیکاری یہاں آکر سب ایک ہوتے ہیں۔۔۔ ہامون نے جھومتی ہیں آواز نے کہا ۔۔۔ہرقل بادشاہ ہے لیکن رومی بادشاہی کا رس صحراؤں کی ریت نے چوس لیا ہے۔ کہاں ہے ہرقل اس نے اپنی شہزادی کو کیوں بھیجا ہے؟ ہم سے پوچھ ہامون۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم یہی معلوم کرنے آئے ہیں کہ رومی بادشاہی کو ریت کے ذروں نے چوس لیا ہے اور باقی جو رہ گئی ہے کیا وہ نیل کے دریا میں ڈوب تو نہ جائے گی؟ ریت کی اندھی جو عرب سے اٹھی ہے وہ نیل تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا حکم چلا رہا ہے، مقوقس اور اطربون اسکندریہ میں بیٹھے اپنی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، پھر اس کی آندھی کو کون روکے گا۔ تو روکے گا ہامون ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہم تیرے پاس ہی فریاد لے کر آئے ہیں جو بات تو نے کہی ہے کہ سب دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہی بات اس شہزادی کے دل میں ہے اور اس کے دل کو جلا رہی ہے یہ اپنی ایک فوج بنانا چاہتی ہے جس میں اس علاقے کے بدوّ شامل ہوں گے ،ذرا غیب کے پردوں کے پیچھے جھانک اور بتا کہ اس میں اس شہزادی کو کامیابی ہوگی یا نہیں ؟،،،یا سلطنت روم کے لیے ان سیاہ پردوں کے پیچھے کیا ہے؟ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔۔۔ ہامون نے مخمور سی آواز میں کہا ۔۔۔کبھی تو میرا حال ایسا ہوجاتا ہے کہ کچھ جاننا چاہتا ہوں تو کچھ سراغ نہیں ملتا ، زمین بھی چپ اور آسمان بھی چپ رہتا ہے۔ بعض پردے سفید ہوتے ہیں اٹھاؤ تو ان کے پیچھے ساری فضا اور ہر چیز سیاہ کالی ہوتی ہے ،اور بعض پردے سیاہ کالے ہوتے ہیں ہٹاؤ تو ان کے پیچھے سب کے دودھ جیسے سفید اجالے نظر آتے ہیں،،،،، اندر چلو۔ ہامون اٹھا اور خیمے کے اندر چلا گیا۔ سیلی نوش، نوشی، اور اس کا منگیتر بھی اس کے پیچھے خیلے میں چلے گئے اور سب کے بعد بدوّ ملازم بھی جھکا جھکا سا خیمے میں گیا اور اپنے آقاؤں کے پیچھے زمین پر بیٹھ گیا۔ ان چاروں نے خیمے میں نگاہیں دوڑائیں تو انہیں یوں لگا جیسے کسی بڑے ہی پراسرار اور ڈراؤنے ماحول میں آ گئے ہوں، جس کا اس زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،تاثر یہ پیدا ہوتا تھا جیسے یہ خیمہ نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر بلکہ زمین اور آسمان کے درمیان پھیلے ہوئے خلاء میں معلق ہے اور یہ ان جیسے انسانوں کا ٹھکانہ نہیں۔ یہ ہامون کی دنیا تھی خیمے میں پانچ چھ خشک انسانی کھوپڑیاں لٹک رہی تھیں، خیمے کے کچھ حصے میں ہامون نے زمین پر گدا رکھ کر اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا رکھی تھی دو انسانی کھوپڑیاں اور بازوؤں کی تین چار ہڈیاں وہاں بھی رکھی تھی اور کچھ اور سامان بھی تھا اور سب سے زیادہ خوفناک چیز ایک سیاہ کالا ناگ تھا جو کھلی ہوئی ٹوکری سے باہر نکل رہا تھا۔ ہامون اپنی جگہ بیٹھ گیا ٹوکری سے نکلتا ہوا ناگ اس کی گود میں سے گزرنے لگا لیکن آگے جانے کی بجائے اس نے پھن پھیلا دیا اور اس کی گود میں جھومنے لگا۔ ہامون کے دائیں طرف ایک کالا پردہ لٹک رہا تھا ہامون نے یہ پردہ ایک چھڑی سے دھکیل کر ہٹا دیا اور اس کے پیچھے سے جو چیز برآمد ہوئی وہ دیکھ کر نوشی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی وہ انسانی ہڈیوں کا مکمل ڈھانچہ تھا۔ مت ڈرو شہزادی!،،،،، ہامون نے کہا۔۔۔ کبھی تیرا بھی یہ حسین و جمیل جسم اسی حالت میں لوگوں کے سامنے آئے گا اور دیکھنے والے سوچیں گے کہ یہ کون تھا۔ وہ خود ہی اپنے آپ کو جواب دیں گے کہ یہ کوئ انسان ہی تھا ۔ یہ ڈھانچہ مجھے میرے استاد نے دیا تھا اور میرے استاد کو اس کے استاد نے دیا تھا اور یہ روایت چلی آرہی ہے کہ یہ کبھی مصر کی ملکہ ہوا کرتی تھی۔ اس کا شغل میلہ یہ تھا کہ ایک تو انسانوں کو قتل کروا کر ان کے تڑپنے کا خون بہنے کا اور آخری سانس نکل جانے کا تماشہ دیکھا کرتی تھی۔ پھر اس کا ایک شغل اور بھی تھا، کسی غلام کو ساری رات اپنے ساتھ رکھتی اور صبح اسے خنجر دے کر کہتی کہ اس سے اپنا پیٹ اس طرح چاک کر لو کہ سب کچھ باہر آ جائے۔ غلام اس حکم کی تعمیل کرتا اور ملکہ کی تفریح طبع کا ذریعہ بنتا تھا۔ آخر یہ اپنے ایک غلام کے ہی ہاتھوں اس انجام کو پہنچی، اس غلام نے ساری رات ملکہ کے ساتھ گزاری لطف اندوز ہوا جب ملکہ نے اسے اپنا خنجر دے کر کہا کہ اپنا پیٹ چاک کر لو تو غلام نے خنجر لیا اور ملکہ کا پیٹ چاک کر دیا اس کے پیٹ سے سب کچھ باہر آگیا اور غلام اسے تڑپتا دیکھ کر قہقہے لگاتا رہا۔ ملکہ تڑپ تڑپ کر مر گئی تو غلام نے اپنا پیٹ چاک کر لیا۔ آج اس ملک کو دیکھ لو ۔۔۔۔اس نے اس ڈھانچے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا ۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے اس کی روح کا سراغ لگایا ہے اور کبھی کبھی اس کی روح کو بلایا کرتا ہوں۔ ہامون کی یہ بات سننے والے تین آدمی اور ایک نوجوان لڑکی تھی ان پر ایسا تاثر چھا گیا جیسے ان کی روحیں ان کے جسموں سے نکل گئی ہوں اور پیچھے گوشت پوست کے اکڑے ہوئے جسم رہ گئے ہوں، ایک تو بات ایسی تھی اور دوسرے ہامون کے سنانے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والوں پر بڑا ہی عجیب تاثر پیدا ہوتا تھا۔ ایک بات بتاؤ گے ہامون !،،،،،نوشی نے دل مضبوط کرکے پوچھا۔۔۔ اس ملکہ کی روح کے ساتھ تمہاری کیا باتیں ہوتی ہیں؟ بڑی لمبی باتیں ہوتی ہیں ۔۔۔ہامون نے کہا۔۔۔ ابھی میں تمہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک روح کی باتیں تمہیں سناؤ گا ضرور۔۔۔۔ تمہارے کام آئیں گی۔ اگر تم شہزادی ہو تو ملکہ بھی بن سکتی ہو، اس ملکہ کی روح نے مجھے بتایا تھا کہ ملکہ اتنی زیادہ خوبصورت تھی کہ اس کے حکم سے اپنا پیٹ اپنے ہاتھوں چاک کرنے والے فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ اس ملکہ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں وہ تم جیسی ہی خوبصورت ہو گی کوئی عورت ملکہ بھی عورت جیسی حسین بھی ہو وہ اپنے آپ کو دیوی سمجھ کر خدا کو بھول جاتی ہے۔ لیکن خدا اپنے کسی بندے کو نہیں بھولتا اور ہر بندے کے. وہ اعمال بھی دیکھتا ہے جو بندہ اپنے آپ سے بھی چھپاتا پھرتا ہے۔ آج کا ہرقل کل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا۔ لمبی باتیں ہیں بڑی لمبی باتیں تم اپنی بات کرو۔ سیلی نوش نے نوشی کی ساری بات ہامون کو سنائیں اور پھر اسے یاد دلایا کہ وہ بتائے کہ یہ لڑکی کامیاب ہوگی یا نہیں؟،،، اور کامیابی نظر نہ آئے تو کیا کوئی ایسی صورت پیدا کی جاسکتی ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہو۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اس وقت تک اتنا لمبا کالا ناگ ہامون کے گردن کے گرد ایک چکر لگا چکا تھا اور اس کا منہ دوسرے کاندھے پر تھا۔ ناگ نے ہامون کے اشارے پر منہ اٹھاکر پھن پھیلا دیا جو اتنا ہی چوڑا ہو گیا تھا جتنا چوڑا ہامون کا چہرہ تھا ۔اب تو ہامون اور ہی زیادہ خوفناک نظر آنے لگا تھا ناگ کا باقی حصہ ہامون کی گود میں اکٹھا ہو گیا تھا اور کنڈلی مارنے کے انداز سے حرکت کر رہا تھا۔ ہامون نے ہاتھ لمبا کرکے ایک ڈنڈا اٹھایا جو کم و بیش دو فٹ لمبا اور دو اڑھائی انچ موٹا تھا اس پر مختلف رنگوں کا کپڑا لپیٹا ہوا تھا اور اس کے ایک سرے پر مختلف پرندوں کے رنگ برنگے پَر بندھے ہوئے تھے۔ ہامون نے اوپر دیکھنا شروع کردیا ذرا ہی دیر بعد اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اس نے ڈنڈا اوپر کردیا اور ڈنڈا بھی لرزنے لگا یہ لرزاں یا ریشہ بڑھتا گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا۔ وہ جب کھڑا ہو گیا تو اس کا جسم اتنی زور سے لزرنے لگا جیسے یہ شخص گر پڑے گا۔ اور شاید زندہ نہ رہ سکے اس کا سر پیچھے ہی پیچھے ہوتا جا رہا تھا اور اس طرح اس کا منہ پوری طرح آسمان کی طرف ہوگیا ناگ اس کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔ ہامون نے دوسرے ہاتھ سے ناک اپنی گردن سے الگ کرنا شروع کر دیا اور اسکا جسم پہلے سے زیادہ کانپنے لگا۔ ہامون نے اس قدر زیادہ کانپتے ہوئے ہاتھ سے نہ جانے کس طرح ناگ کو پکڑ لیا اور اسے اپنے پیچھے ایک کالے کپڑے پر رکھ دیا ناگ نے کچھ دیر ادھر ادھر رینگ کر سر اٹھایا اور پھن پھیلا دیا۔ ہٹا دے پردہ!۔۔۔۔۔ ہامون نے منہ اور زیادہ اوپر کرکے بڑی بلند آواز سے کہا ۔۔۔دکھا دے جو کچھ بھی ہے،،،،،، ہٹا دے پردہ۔ اس کے جسم نے اور ہی زیادہ تھرکنا اور لزرنا شروع کردیا اس کے ساتھ وہ اپنا سر بڑی زور زور سے کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی آگے اور پیچھے مارتا تھا۔ اس نے کچھ اور بھی کہا جو کوئی بھی نہ سمجھ سکا نہ یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ کون سی زبان ہے ، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کوئی غیر مرئی طاقت ہے جس نے اس کے بدن پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور یہ طاقت اس کے جسم کو توڑ پھوڑ کر پھینک دے گی دیکھنے والوں پر خوف طاری ہوا جا رہا تھا۔ خاصی دیر بعد ہامون کا جسم سکون میں آنے لگا تھرکنا کم ہوتا گیا پھر رعشہ سا رہ گیا اور آخر جسم ساکن ہو گیا۔ ہامون کے چہرے اور کچھ حرکت سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ابھی نارمل حالت میں نہیں آیا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دور کی کوئی چیز دیکھنے کی کوشش کررہا ہے کبھی وہ ڈنڈے کو زور زور سے ہلاتا اور اسے ہوا میں اس طرح مارتا جیسے کسی آدمی یا جانور کو مارا جاتا ہے ۔وہ بڑی تیزی سے پیچھے کو مڑا۔ اس کا ناگ سیاہ کپڑے پر ادھر ادھر رینگ رہا تھا۔ اس نے ڈنڈا سر سے اوپر کیا اور اس طرح اوپر سے نیچے کومارا جیسے وہ ناگ کو مارنا چاہتا ہو، اب ہامون کی پیٹھ ان لوگوں کی طرف تھی اس نے ڈنڈے سے سانپ کو چھیڑا تو سانپ نے پھن پھیلا لیا۔ بتا تو نے کیا دیکھا ہے۔۔۔ ہامون نے ناگ سے پوچھا۔۔۔ جلدی صحیح بول۔ سب کچھ تاریک ہے۔۔۔ یہ آواز ہامون کی نہیں تھی بلکہ کسی چھوٹے سے بچے کی تھی یا کسی بوڑھی عورت کی۔ سیلی نوش ،نوشی، اس کے منگیتر اور بدو ملازم نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر دیکھ !،،،،،ہامون نے ناگ سے کہا۔۔۔ میں نے پردے اٹھا دئیے ہیں جو تو دیکھ سکتا ہے وہ میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ پھر دیکھ۔ ہامون بار بار ڈنڈے کا وہ سرا جس پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے ناگ کے فن کے قریب لے جا کر زور زور سے ہلاتا تھا ۔اور اسی زور دار طریقے سے ناگ پھن دائیں بائیں ہلاتا اور کبھی پیچھے لے جاکر ڈنڈے پر جھپٹا تھا۔ تاریکی میں ایک مدھم سے کرن نظر آتی ہے۔۔۔ پھر اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی جو پہلے بھی سنائی دی تھی۔ ہامون نے دو تین مرتبہ پھر ناگ سے کچھ ایسے ہی سوالات پوچھے اور اسے جواب بچے یا بوڑھی عورت کی زبان سے ملے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ڈنڈا بڑی زور زور سے ہوا میں مارنے لگا وہ اچھلتا بھی تھا اور اس کی حرکتیں پاگلوں جیسی تھی۔ وہ اکڑوں بیٹھ گیا اور اب اس کا منہ ان لوگوں کی طرف تھا اس نے سر جھکا لیا اور خاصی دیر بعد سر اٹھایا اور نوشی کے چہرے پر نظریں گاڑ دی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر اٹھا اور نوشی کے سر سے ایک بال اکھاڑ لیا واپس اپنی جگہ گیا قریب پڑی ایک انسانی کھوپڑی اٹھا کر اپنے سامنے رکھی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر نوشی کے بال پر پھونک ماری اور بال کھوپڑی کے سر پر رکھ دیا۔ تمہیں دو تین دن یہاں رہنا پڑے گا۔۔۔ ہامون نے انھیں کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے ایک دو دن زیادہ رکنا پڑے پورا جواب نہیں مل رہا۔۔۔ مل جائے گا۔ کامیابی صاف طور پر نظر نہیں آ رہی میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا تمہارے رہنے کا انتظام موجود ہے میں نے مہمانوں کے لیے خیمے لگا رکھے تھے۔ تمہیں پورا آرام ملے گا اور کھانے پینے کا انتظام بھی موجود ہے۔ محمد يحيٰ سندھو شاہی محل والا آرام نہیں ملے گا زمین پر سونا پڑے گا ۔اب جاؤ باہر دو آدمی موجود ہیں انہیں کہو وہ تمہیں مہمان والے خیموں میں لے جائیں گے۔ ہامون کے خیمے میں بڑے دیئے جل رہے تھے جن کی پیلی اور لرزتی روشنی میں ہامون پہلے سے زیادہ ڈراؤنا اور پراسرار نظر آرہا تھا وہ چاروں اٹھے اور خیمے سے نکل گئے۔ باہر جو دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے وہ انھیں ایک طرف لے گئے تقریبا سو قدم دور ایک سرسبز ٹیکری تھی جس کے قریب تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔ ان آدمیوں نے انہیں بتایا کہ یہ مہمانوں کے خیمے ہیں اور ان میں اپنا ٹھکانہ بنا لیں۔ دونوں آدمی یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ وہ انکے لئے کھانا لائیں گے ۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* اگلی صبح ہاموں نے چاروں کو اپنے خیمے میں بلایا اور پھر ویسی ہی حرکتیں کی جیسی اس نے گزشتہ رات کی تھی ۔اس روز تو وہ بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا اور نظر یہ آتا تھا کہ ہوش وحواس میں نہیں آ سکے گا۔ اسی کیفیت میں اس نے اپنے ناگ سے کچھ سوال پوچھے اور اسے اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز میں جواب ملے۔ ایک بار اس نے غصے کی حالت میں ناگ کی گردن پکڑی اور اسکا منہ اپنے منہ میں ڈال کر زور زور سے جھنجوڑا اور پھر اسے منہ سے نکال لیا۔ دو اڑھائی گھنٹے بعد اس نے ان چاروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور سورج غروب ہونے کے بعد آئیں۔ وہ شام کے بعد ہامون کے خیمے میں گئے اس شام خیمے میں دو کی بجائے چار دیئے جل رہے تھے۔ ہامون نے انہیں وہیں بٹھایا جہاں پہلے بٹھایا کرتا تھا۔ ہامون خود ان کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔وہی ڈنڈا اس کے قریب پڑا تھا جس پر رنگ برنگ کپڑے لپیٹے ہوئے تھے اور ایک سرے پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی چاروں دیے بجھ گئے۔ ہامون نے کسی اجنبی زبان میں بڑے غصے میں کچھ کہا اور ڈنڈا زمین پر مارا۔ پہلے ایک دیا جلا۔ ہامون نے اسی زبان میں کوئی لفظ بولا تو دوسرا دیا جل اٹھا ۔اسی طرح باقی دو دئیے بھی باری باری جل اٹھے۔ پھر ہامون نے وہی حرکتیں شروع کر دیں لیکن اب اس کا انداز کچھ مختلف تھا۔ اس نے کہا کہ نوشی وہیں بیٹھی رہے اور باقی تینوں باہر نکل جائیں۔ تینوں آدمی خیمے سے نکل گئے اور خیمے کے پردے گر پڑے۔ کوئی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہامون نے تینوں کو پکارا اور اندر بلایا تینوں اندر چلے گئے۔ یہ سارا معاملہ اس لڑکی کا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ مجھے اشارہ بھی مل گیا ہے اور استاد کی روح نے بھی بتایا ہے کہ ایسی بات ہے ہی نہیں کہ یہ لڑکی جو چاہتی ہے اس میں فوراً کامیاب ہوجائے گی۔ میں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ میں اپنی ذمہ داری پوری کرو گا۔ لیکن اس لڑکی کو اپنے عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔ وہ میں تمہاری موجودگی میں بھی کرسکتا ہوں لیکن نہیں کروں گا ۔کیونکہ تم اس لڑکی کو اس حالت میں دیکھو گے تو کہو گے کہ یہ تو پاگل ہو گئی ہے ۔اور پھر ہو سکتا ہے کہ اس کا منگیتر لڑکی کو گھسیٹ کر باہر لے جائے ۔اگر اس کام میں کسی نے دخل اندازی کی تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگڑے گا لیکن یہ ناگ مجھے اور اس لڑکی کو بھی ڈس لے گا اور ہمیں مرنے میں ایک دو لمحے ہی لگیں گے۔ ہمیں تجھ پر اعتماد ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی دخل نہیں دے گا لیکن یہ کام ہونا چاہیے ۔یہ لڑکی اور اس کا یہ منگیتر شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان سے جو انعام مانگو گے تمھیں دے دیں گے۔ مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔میری یہ دنیا جو تم خیمے کے اندر دیکھ رہے ہو آباد رہنے دی جائے تو میرے لئے یہی انعام کافی ہے۔ اس رات نوشی کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوشی جو پہلے اتنا زیادہ بولتی تھی آج اس پر خاموشی طاری ہے اور وہ گہری سوچ میں چلی جاتی ہے۔ اسے کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی یہ سب جانتے تھے کہ وہ قومی جذبے کے معاملے میں کتنی حساس ہے۔ اور سلطنت روم کی عظمت کو وہ اپنی ذاتی عزت اور آبرو سمجھتی ہے۔ اور چونکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اس لئے پریشان رہنے لگی ہے۔ *جاری ہے۔*

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/38* ام دنین میں جو رومی فوج تھی اس نے وہی مخصوص انداز اختیار کیا جو فرما اور بلبیس کے دفاع میں دیکھا گیا تھا وہ یہ کہ دو تین دنوں کے وقفے سے شہرر کے دو تین دروازے کھلتے رومی فوج کے کچھ دستے باہر آتے اور محاصرے پر حملہ کرتے لیکن جم کر لڑنے کی بجائے واپس چلے جاتے اور شہر کے دروازے پھر بند ہو جاتے تھے۔ عمرو بن عاص نے یہاں یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام لشکر سے کہا کہ جب اندر سے فوج نکلے تو آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ نہ کیا جائے، یا یہ کہ جم کر مقابلہ نہ کیا جائے ،اور زیادہ تیراندازی کی جائے دراصل عمرو بن عاص اپنی نفری کو بچانے کی کوشش میں تھے وہ بہت بڑے خطرے میں کود تو آئے تھے لیکن انہوں نے اپنا دماغ حاضر رکھا ہوا تھا اور پوری احتیاط اور جنگی تدبیر سے کام لے رہے تھے ان کا تیر اندازی والا طریقہ خاص سا کامیاب رہا اندر سے دستے باہر آتے تو تیرانداز مجاہدین پیچھے ہٹتے ہوئے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیتے اس طرح ہر بار رومی اپنے کئی ایک سوار باہر ہی پھینک کر واپس چلے جاتے تھے۔ ایسے تین چار حملے ہی اندر سے آئے ہوں گے کہ ایک عربی گھوڑسوار آیا اور اس نے عمرو بن عاص کو اطلاع دی کہ کمک کا کچھ حصہ ایک دو دنوں تک پہنچ رہا ہے عمرو بن عاص نے یہ خبر تمام لشکر کو سنا دی کا کمک آ رہی ہے۔ یہ سن کر مجاہدین کے لشکر میں نئے حوصلے اور تروتازگی کی لہر دوڑ گئی۔ معروف مصری تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے کمک کے متعلق جو تفصیلات لکھی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کے پوری چارہزار کی کمک اکھٹی نہیں پہنچی تھی یہ دو حصوں میں آئی تھی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کمک کے دونوں حصوں میں کچھ زیادہ ہی فاصلہ تھا دوسرا حصہ بہت دنوں بعد پہنچا تھا۔ یہ پتا نہیں چلتا کہ دونوں حصوں کی الگ الگ نفری کیا تھی ساری کم کی نفری چار ہزار تھی یہ کمک تقریبا ساری گھوڑ سوار تھی۔ دو تین دنوں بعد کمک کا پہلا حصہ پہنچ گیا شہر کی دیواروں پر کھڑے رومی فوجیوں نے جب کمک کو آتے دیکھا تو ان پر مایوسی اور مرونی چھا گئی ان پر یہ اثر ہوا کہ انھوں نے باہر نکل کر حملوں کا سلسلہ بہت ہی کم کردیا۔ ان حملوں میں وہ پہلے ہی مسلمان تیر اندازوں سے خاصہ جانی نقصان اٹھا چکے تھے اور ان کے بہت سے گھوڑے مجاہدین کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ محاصرے کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا محاصرے کی صورت میں اندر سے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی کہ رسد اور پانی کی کیفیت کیا ہے ۔ یہ عمرو بن عاص کا اندازہ تھا کہ اب تک شہر میں اور فوج کے لیے رسد اور پانی کی خاصی کمی واقع ہو چکی ہو گی اور یہ رومیوں کے لئے بڑا تلخ اور پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہوگا۔ ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے کہا کہ بیک وقت قلعے پر ہلہ بول دیا جائے اور دروازے توڑنے کی کوشش کی جائے ظاہر ہے کہ ایسا خطرناک اور دلیرانہ اقدام اندھا دھن نہیں کیا جاتا تھا تیر اندازوں کو اتنے فاصلے پر جانے کو کہا گیا جہاں سے وہ دیواروں پر کھڑے رومی فوجیوں کو تیروں کی زد میں لے سکتے تھے۔ بابلیون سے فوج کے آنے کا خطرہ بھی تھا اس کی قبل از وقت اطلاع دینے کا یہ اہتمام کیا گیا کہ اپنے جاسوس بابلیون کے راستے پر بھیج دیئے گئے کہ جونہی ادھر سے دستہ آئے فوراً اطلاع دی جائے۔ اس کے علاوہ عمرو بن عاص نے تین چار چھاپہ مار ٹولیاں بھی بھیج دیں ان ٹولیوں کو گھات میں بٹھانا تھا اور اس صورت میں کے بابلیوں سے فوج آرہی ہے اس پر دائیں بائیں سے حملے کرکے نقصان پہنچانا تھا۔ ان تین چھاپہ مار ٹولیوں میں حدید، فہد ،مسعود، اور نومسلم فاروق خاص طور پر شامل تھے۔ یہ سب چھاپہ مارنے اور شب خون مارنے کا خصوصی تجربہ رکھتے تھے۔ اللہ کے نام لیواؤں کو اللہ کی مدد حاصل تھی ادھر عمرو بن عاص نے قلعے پر ہلہ بولنے کا حکم دیا ادھر شہر کے دو تین دروازے کھلے اور رومی فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح حملہ کرنے کو باہر نکلنے لگی، تمام فوج ایک ہی بار تو باہر نہیں نکل سکتی تھی دروازوں میں سے دو دو تین تین گھوڑے نکل رہے تھے عمرو بن عاص نے اپنی اسکیم کے مطابق پورے لشکر کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔ تاریخوں میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اس حملے میں عمرو بن عاص سب سے آگے تھے رومی سوار جو باہر آ چکے تھے وہ شہر کی دیوار اور مجاہدین کے تیزوتند سیلاب کی طرح بڑھتے ہوئے ریلے کے درمیان کچلے گئے، اور جو رومی ابھی باہر نکل رہے تھے وہ دروازوں میں سے ہی واپس اندر جانے لگے۔ مجاہدین نے انھیں دروازے بند کرنے کی مہلت نہ دی اور ان کے پیچھے شہر میں داخل ہوگئے لیکن وہ یقینی موت کے خطرے میں چلے گئے تھے۔ کیونکہ ان کی تعداد کم تھی تمام مجاہدین اکٹھے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ تیر اندازوں نے اپنی پوزیشنیں سنبھال لی اور دیواروں کے اوپر کھڑے رومی فوجیوں پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ سپہ سالار عمرو بن عاص خود صدر دروازے پر جا پہنچے اور کلھاڑی لے کر انہوں نے اپنے ہاتھوں دروازے پر ضرب لگائی ،کسی مجاہد نے انکے ہاتھوں سے کلہاڑا لے لیا اور مجاہدین نے دیکھتے ہی دیکھتے دروازہ توڑ ڈالا۔ اس موقع پر وہ دہشت کام آئی جو رومی فوج پر پہلے ہی طاری تھی اب مجاہدین نے جو دلیرانہ ہلّہ بولا تھا اس سے اس دہشت میں اضافہ ہو گیا ،اور شہر میں بھگدڑ مچ گئی شہریوں میں افراتفری کا باپا ہو جانا قابل فہم تھا ،فوجیوں میں بھی بھاگ نکلنے کی کیفیت پیدا ہو گی رومی فوج میں یہ پہلے ہی مشہور ہوچکا تھا کہ مسلمانوں میں کوئی ایسی پراسرار طاقت ہے کہ وہ کتنی ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں، کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن کو زیر کر لیتے ہیں اب یہ فوجی مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کو دیکھ رہے تھے۔ اگر رومی فوجی ہمت اور حوصلہ ہارنے کی بجائے دروازوں کے سامنے قدم جما کر کھڑے ہو جاتے تو وہ اندر آتے ہوئے مجاہدین کو دروازوں میں ہی کاٹ دیتے لیکن وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھے تھے۔ عمرو بن عاص نے حکم دیا کہ کسی شہری مرد اور عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا اور کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دینا۔ سپہ سالار نے ایسے الفاظ کہے تو نہیں تھے لیکن ان کا مطلب صاف تھا کہ وہ کوئی قیدی نہیں لیں گے سب کو ختم کر دیا جائے ۔ خاصا وقت رومیوں کا قتل عام جاری رہا۔ قلعہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا ۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد کئی رومی باہر نکلے یا ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے ۔ان پر عمرو بن عاص کو رحم آگیا اور حکم دیا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے۔ عمرو بن عاص نے دیوار پر جاکر ان مجاہدین کو دیکھا جنہیں باہر اس مقصد کے لئے چھوڑ آئے تھے کہ بابلیون کی طرف سے رومی فوج آجائے تو اسے باہر ہی روک لیں,,,,,,,, باہر خیر و عافیت تھی کوئی رومی دستہ حملے کے لئے نہیں آیا تھا۔ بٹلر نے چند عربی مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ یہ حملہ خود مجاہدین کے لئے اتنا خطرناک تھا کہ اسے خودکش حملہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا خطرناک بھی ایسا کہ بعض مجاہدین آگے بڑھنے سے گھبرانے لگے ان کے انداز اور رویے میں کوتاہی اور گریز صاف نظر آرہا تھا۔ بٹلر لکھتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو مجاہدین پر جبر کرنا پڑا اور سارے لشکر میں گھوم پھر کر غصے کی حالت میں حکم دیا کے آگے بڑھو ایک مجاہد نے کہا کہ ہم لوہے کے بنے ہوئے نہیں عمرو بن عاص نے اس مجاہد کو بڑے ہی سخت الفاظ کہے۔ تاریخ داں محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسی کسی روایت کا اشارہ نہیں ملتا ہو سکتا ہے کسی اور جنگ میں ایسا ہوا ہو ،ام دنین کی لڑائی میں ایسا بالکل نہیں ہوا البتہ یہ بات ضرور ہوئی تھی کہ کچھ صحابہ کرام بھی اس لشکر میں شامل تھے عمرو بن عاص کو پوری طرح احساس تھا کہ وہ اپنے لشکر کو یقینی ہلاکت میں جھونک رہے ہیں انہوں نے صحابہ کرام سے یہ الفاظ کہے آپ میرے ساتھ ہیں تو اللہ آپ کے طفیل ہمیں فتح عطا فرمائے گا۔ صحابہ اکرام نے یہ الفاظ سنے تو وہ عمرو بن عاص کے ساتھ سب سے آگے اس ہلّے کے لئے پورے جوش و خروش سے بڑھے ۔ انہیں دیکھ کر پورے لشکر میں نیا ہی جوش پیدا ہو گیا اور یہ اسی جوش کا اثر تھا کہ ام دنین جیسا مستحکم قلعہ جس میں فوج کوئی تھوڑی نہیں تھی مٹھی بھر مجاہدین نے فتح کر لیا ۔ اس وقت مقوقس بابلیون میں تھا تاریخ حیران ہے کہ ام دنین میں اسکی فوج کا قتل عام ہو رہا تھا اور وہ بابلیون میں اتنی زیادہ فوج لے کر بیٹھا رہا حالانکہ اس کی دفاعی اسکیم یہی تھی کہ ام دنین پر حملہ ہوا تو وہ بابلیون سے فوج لے کر اس حملے کو ناکام بنا دے گا۔ ام دنین سے بھاگے ہوئے کچھ رومی بابلیون پہنچے اور انھوں نے مقوقس کو بتایا کہ امدنین میں کیا ہوا ہے؟ ،،،،،، ایک تو امدنین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا اور دوسرا صدمہ یہ کہ وہاں جو فوج تھی اس کی اکثریت کٹ مری ہے ،اور وہی فوجی بچے تھے جو کہیں چھپ گئے تھے اور اب وہ جنگی قیدی ہیں اس کا مطلب یہ تھا کہ رومی فوج کی اتنی زیادہ نفری ختم ہی ہو گئی تھی۔ تاریخ میں آیا ہے کہ جب مقوقس کو یہ اطلاع پہنچی تو اس پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ منہ کچھ زیادہ کھل گیا اور آنکھیں ٹھہر سی گئی جیسے اسے توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان امدنین کو فتح کرلیں گے اس کا دماغ تو شاید سوچنے سے ہی معذور ہو گیا اگر وہ حوصلہ قائم رکھتا اور ٹھنڈے دل سے سوچتا تو اسکے پاس اتنی فوج تھی کہ وہ فوراً جاکر ام دنین کو محاصرے میں لے لیتا ،قلعہ فتح ہوتا یا نہ ہوتا اسے یہ فائدہ ضرور ملتا کہ مسلمان ام دنین میں ہی قید ہو کر بیٹھے رہتے۔ ام دنین سے کچھ اور فوجی اور شہری بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے بابلیون پہنچے تو انہوں نے وہاں کی فوج کو مجاہدین اسلام کی بے خوفی کی ایسی باتیں سنائیں جنہوں نے سب کو حیرت زدہ او دہشت زدہ بھی کردیا فوجی خوفزدہ تو یہ سن کر ہوئے کے مسلمانوں نے رومی فوج کا کوئی ایک بھی افسر اور سپاہی زندہ نہیں رہنے دیا تھا۔ وہاں سے بھاگ کر آنے والے بعض فوجیوں نے یہ الفاظ کہے کہ مسلمان جنوں اور بھوتوں کی طرح قلعے میں داخل ہوئے تھے انہیں انسانوں کے روپ میں دیکھ کر بھی کوئی رومی یقین سے نہیں کہتا تھا کہ یہ انسان ہے,,,,,,,,,, آج کے علمی نفسیات کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ مجاہدین اسلام نے رومی فوج پر نفسیاتی فتح پائی تھی اور ایسی فتح ایمان والے اور اپنے اللہ پر یقین رکھنے والے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ مقوقس ابھی ام دنین کا صدمہ برداشت کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک جاسوس نے یہ خبر سنائی کے مسلمان دریائے نیل پارکر کے اہرام کے علاقے میں سے آگے کو گزر گئے ہیں,,,,,,,,,, یہ سارا علاقہ لق و دق صحرا تھا ۔ مقوقس کو پہلی حیرت تو اس پر ہوئی کہ ان مسلمانوں نے دریا کس طرح عبور کرلیا ہے پھر وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ یہ جا کہاں رہے ہیں ؟ تاریخی تحریروں کے مطابق اس وقت مقوقس کے ساتھ اطربون کے بعد نامور جرنیل تھیوڈور تھا ویسے بھی یہ جرنیل مقوقس کا منظور نظر تھا۔ یہ دونوں اس مسئلہ پر بات کرنے لگے کہ مسلمانوں کا اگلا ہدف کیا ہے۔ کیا مسلمان اسکندریہ پر حملہ کرنے جارہے ہیں دونوں نے اس سوال پر بحث مباحثہ کیا اور اس رائے پر متفق ہوئے کہ مسلمانوں کا یہ سپہ سالار ایسی خطرناک حماقت نہیں کرے گا۔ اس وقت تک مقوقس اور تھیوڈور عمرو بن عاص کے لڑنے کا انداز اور ان کی جنگی پالیسیوں اور چالوں کو سمجھ گئے تھے۔ انھوں نے اسی وقت جاسوس دوڑا دیے کہ وہ جا کر دیکھیں کہ مسلمانوں کا رخ کس طرف ہے۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ مسلمانوں کا رخ فیوم کی طرف ہے حقیقت بھی یہی تھی کہ عمرو بن عاص کا اگلا ہدف فیوم تھا ۔ فیوم ایک بڑی بستی بھی تھی اور اس علاقے کو فیوم ہی کہتے تھے وہ تھا تو صحرا لیکن اناج اور مویشیوں کی وہاں کوئی کمی نہیں تھی۔ عمرو بن عاص کو اپنے لشکر کے لیے رسد اور گوشت کی ضرورت تھی۔ مسلمانوں کا نیل کو عبور کر جانا مقوقس کے لیے باعث حیرت تھا یہ مسلمانوں کی مستعدی اور چابکدستی کی ایک واضح مثال تھی انہوں نے فتح کیا تو دو یا تین دن شہر کا نظام بحال کرنے میں گزار اور لشکر کو ذرا سا بھی سستانے نہ دیا ۔ ام دنین ایک دریائی گھاٹ تھی جسے بعض نے پتن لکھا ہے ،اور بعض مؤرخوں نے بندرگاہ کہا ہے۔ اس بندرگاہ پر بہت سے چھوٹے اور درمیانہ درجہ بادبانی جہاز کھڑے تھے اور چھوٹی بڑی کشتیوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ام دنین کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی جب عمرو بن عاص نے مجاھدین کا ایک چھوٹا سا دستہ بندرگاہ پر بھیج دیا تھا کہ وہاں سے کوئی جہاز اور کوئی کشتی نکل نہ جائے ،اور ان کے ملاح وہاں موجود رہیں۔ اس طرح انہوں نے کشتیوں اور جہازوں کے پورے بیڑے پر قبضہ کر لیا تھا۔ دو ہی دنوں بعد لشکر کو آرام کی مہلت دیئے بغیر عمرو بن عاص نے مکمل خاموشی سے رات کے وقت کشتیوں اور جہازوں میں سوار کیا اور نیل پار کر لیا جہاز اور کشتیاں اسی کنارے پر لنگر انداز رہیں ۔ ادھر جاسوسوں نے مقوقس کو صحیح خبر دے دی کہ مسلمان فیوم کے علاقے میں جا رہے ہیں۔ مقوقس نے یہ دفاعی انتظام کیا کہ کچھ دستے اس علاقے میں بھیج دیے وہ صحرا ہموار یا میدانی قسم کا نہیں تھا اس میں گہرے اور وسیع نشیب بھی تھے ۔ٹیلے اور گھاٹیاں بھی تھیں اور اس طرح چھپنے کا بہترین قدرتی انتظام تھا کہ چھاپہ مار بڑی آسانی سے گھات لگا سکتے تھے۔ مقوقس نے اپنے دستے بھیج تو دیے لیکن انہیں سختی سے کہا کہ مسلمانوں کے آمنے سامنے صحرا میں نہ آنا، کیوں کے صحرا کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔ مقوقس کے الفاظ یہ تھے کہ عرب کے مسلمان ریگستان کی پیداوار ہیں اور جہاں کہیں یہ کسی ریگستان میں چلے جاتے ہیں وہاں ان کی جسمانی اور روحانی قوت پوری طرح بیدار ہوجاتی ہیں۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* مجاہدین کے لشکر کے ساتھ مصری بدو بھی تھے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ جب مجاہدین کے لشکر میں آئے تھے تو ان سے یہ کام لیا گیا تھا کہ بستیوں کی طرف چلے جائیں اور چھاپے اور شب خون مارکر اناج اور مویشی اکٹھا کریں اور وہ لشکر کے لئے لائیں۔ ان بدو نے بڑی خوش اسلوبی اور بڑی کامیابی سے یہ کام کیا تھا انہوں نے لشکر کے لئے اور اپنے لیے خوراک کی کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی اس کے بعد انہوں نے لڑنے کے علاوہ اپنا یہ فرض کئی بار ادا کیا اور لشکر کی ضرورت پوری کرتے رہے۔ عمرو بن عاص جب فیوم کے علاقے میں گئے اس وقت بھی لشکر کو رسد کی ضرورت تھی بدو اس کام میں مہارت حاصل کر چکے تھے اس لئے سپہ سالار نے یہ کام انہی کو سونپا،،،،، بدو ٹولیوں میں بٹ کر صحرائی بستیوں کی طرف چلے گئے یہ بستیاں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور وہاں جا کر صحرا ختم ہو جاتا تھا اور زمین زرخیز تھی وہاں گھروں میں اناج بھی تھا اور بھیڑ بکریاں اور مویشی بھی افراط سے تھے۔ بدو اب بستیوں پر چھاپے یا شبخون نہیں مارتے تھے۔ لیکن پہلے کی طرح نہیں بلکہ اب کوشش کرتے تھے کہ ان کے ہاتھوں کوئی قتل یا زخمی نہ ہو وہاں جاکر اعلان کردیتے کہ لشکر کے لئے اناج اور مویشیوں کی ضرورت ہے اگر لوگ خود ہی یہ چیزیں مہیا نہیں کریں گے تو گھر گھر کی تلاشی لے کر آخری دانہ بھی اٹھا لیا جائے گا اور کوئی ایک بھی مویشی پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔ بدو ان لوگوں کو یقین بھی دلاتے تھے کہ یہ مسلمانوں کا لشکر ہے جس اسے فتح حاصل ہوگی اور مصر کی حکومت انکے ہاتھ آگئی تو وہ ان دیہاتوں کی کایا پلٹ دیں گے ہر کسی کو پورے حقوق ملیں گے اور یہ مسلمان رومی بادشاہوں کی طرح بادشاہ نہیں کسی کا حق چھینتے نہیں بدو یہ بھی کہتے تھے کہ مسلمان ایک ایک دانے اور ایک ایک جانور کی قیمت ادا کریں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بدؤوں نے اناج اور دیگر اشیائے خوردنی کے انبار لگا دیے اور بھیڑ بکریاں اور مویشی اس قدر اکٹھے کر لیے جو بہت دنوں کے لئے کافی تھے۔ ان بدوؤں سے ایک فائدہ تو یہ پہنچا کہ وہ خوراک اکٹھی کرنے کے ماہر ہو گئے تھے اور پھر لڑتے بھی تھے اب انہیں باقاعدہ ترتیب اور تنظیم میں لڑنا آگیا تھا فیوم کے علاقے میں جاکر ان بدوؤں سے ایک فائدہ اور حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ جس علاقے سے یہ بدو خوراک اور مویشی لا رہے تھے اس علاقے میں بھی انہی جیسے مصری بدبو بھی رہتے تھے کیونکہ یہ ایک ہی نسل کے تھے اس لئے یہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے تھے۔ بدوؤں کی ایک چھاپہ مار ٹولی کسی بستی میں گئی تو وہاں کچھ بدو رہتے تھے انہوں نے ان بدوؤں سے پوچھا کہ وہ کیوں یہ ڈاکہ زنی کررہے ہیں لشکر والے بدو نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ وہ ڈاکو نہیں بلکہ عرب کے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ مسلمان مصر کو فتح کرلیں گے۔ چونکہ تم بھی ہم جیسے بدو ہو اس لئے ہم تمہیں خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ فیوم کے بدوؤں کے ایک آدمی نے انہیں کہا۔۔۔۔ اس بستی میں تو تم آگئے ہو اس سے آگے نہ جانا آگے رومی فوج آگئی ہے جس کی تعداد کچھ زیادہ ہے تمہاری یہ چند آدمی کی ٹولی ایک ہی ہلّے میں رگڑیں جائے گی۔ عمرو بن عاص کے لشکر کے بدو نے ان بدوؤں سے پوری تفصیل معلوم کرلی کہ رومی فوج یہاں سے کتنی دور ہے اور وہ آگے بڑھ رہی ہے یا اس کا انداز کیا ہے،،،،، یہ معلومات لے کر ان بدو نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا۔ عمرو بن عاص رومی فوج کی آمد سے بالکل ہی بے خبر تھے اس علاقے میں انھوں نے اپنا کوئی ایک بھی جاسوس نہیں بھیجا تھا کیوں کہ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ رومی فوج اس طرف آئے گی اب انہیں فوج کی اطلاع ملی تو انہوں نے لشکر کو وہیں سے واپسی کا حکم دے دیا وہ اس رومی فوج سے ٹکر لینا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ بے مقصد لڑائی ہوتی یہی طاقت عمرو بن عاص کسی قلعہ بند شہر پر استعمال کرنا زیادہ بہتر اور سودمند سمجھتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ مجاہدین کا لشکر ایک جگہ عارضی پڑاؤ کیے ہوئے تھا جو ضروری سمجھا گیا ۔ دو تین بدو اس پڑاؤ کے قریب سے گزرے انہوں نے مجاہدین کے لشکر کے ساتھ بدو دیکھے تو وہ بھی رک گئے لشکر والے بدو انہیں مہمان کے طور پر پڑاؤ میں لے آئے اور ان کے کچھ خاطر مدارت کی۔ ان بدوؤں نے بھی پوچھا کہ یہ لشکر کس کا ہے اور وہ یعنی بدو اس کے ساتھ کیوں ہیں؟ لشکر والوں نے انہیں وہیں تفصیل سنا دی جو وہ پہلے ایک بستی میں بدوؤں کو سنا چکے تھے. ایک بار غور سے سن لو ۔۔۔۔ایک بدو مہمان نے کہا۔۔۔۔ رومی فوج کا ایک زیادہ نفری والا دستہ تمہاری طرف آرہا ہے ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ سیدھا نہیں آ رہا بلکہ صحرا کی گہرائیوں میں چھپتا چھپاتا اور لمبے چوڑے ٹیلوں کی اوٹ سے پیچھے پیچھے آرہا ہے تاکہ تمہارے لشکر پر بے خبری میں حملہ کر سکے۔ لشکر کے بدبو ان بدو مہمانوں کو ایک سالار کے پاس لے گئے جس نے ان بدوؤں سے رومی فوج کے اس دستے کے متعلق تفصیلات معلوم کی انہوں نے یہاں تک بتا دیا کہ اس دستے کے ساتھ ایک جرنیل ہے جس کا نام حناّ ہے اور وہ علاقے کا مشہور جرنیل ہے اور لوگ اس سے بہت ڈرتے ہیں۔ سالار نے یہ اطلاع پوری تفصیل سے سپہ سالار عمرو بن عاص تک پہنچائی، عمرو بن عاص اسی وقت لشکر کو واپسی کے لئے کوچ کا حکم دیا لیکن لشکر کا ایک دستہ الگ کر لیا اسے ایک سالار کی قیادت میں دے کر کچھ خصوصی ہدایات دی، باقی لشکر واپسی کو روانہ ہوگیا اور یہ الگ کیا ہوا دستہ اس طرف چلا گیا جس طرف بدوؤں نے بتایا تھا کہ رومی دستہ چھپ چھپ کر آرہا ہے۔ اس مسلمان دستے نے ایک خاص چھپنے والی جگہ جاکر گھات لگائی سارا دستہ ایک ہی جگہ اکٹھا نہ رہا بلکہ تین چار حصوں میں بٹ کر ٹیلوں اور گہری نشیبوں میں چھپ گیا ۔ رومی دستہ جس کی نفری مسلمانوں کے دستے سے دگنی تھی اس طرف آ رہا تھا اور اس سے بے خبر کہ وہ ایک گھات میں آ رہا ہے۔ محمد يحيٰ سندھو سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے رومی دستی گھات میں آ گیا اور اس پر ہر طرف سے قیامت ٹوٹ پڑی پیشتر اس کے کہ رومی جرنیل حناّ سمجھ پاتا کہ یہ کیا ہوا ہے وہ مارا جاچکا تھا اس کے دستے کا کوئی ایک بھی فرد مجاہدین نے زندہ نہ چھوڑا وہ جو مجاہدین پر بے خبری میں شب خون مارنا چاہتے تھے مجاہدین کی گھات میں آکر مارے گئے اور فرعون کے صحرا کی ریت ان کا خون چوسنے لگی۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷* کسی قریبی بستی کے مکینوں نے بابلیون جاکر مقوقس کو اطلاع دی کہ اس کا بھیجا ہوا دستہ مارا گیا ہے اور جرنیل حنّا بھی زندہ نہیں رہا ۔مقوقس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور اسے معلوم تھا کہ ہرقل حنّا کی موت کو مشکل سے ہی برداشت کرے گا۔ کیونکہ حنّا بھی اطربون جیسا ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔ مقبو قیس کو یہ بھی معلوم تھا کہ جب ہرقل کو بزنطیہ حنّا کی موت کی اطلاع ملی تو وہ پہلا سوال یہ کرے گا کہ اس کے جواب میں کیا کارروائی کی گئی تھی۔ ہرقل کے عتاب سے بچنے کے لیے مقوقس نے مجاہدین کے لشکر پر جوابی حملہ کرنے کے لئے اچھی خاصی فوج بھیج دی، فوج جب اس مقام تک پہنچی جہاں حنّا اور اس کا دستہ مارا گیا تھا تو دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر دور نکل گیا تھا اور نیل کے کنارے پر جا پہنچا تھا۔ تاریخ میں اس رومی جرنیل کا نام نہیں ملتا جو اس رومی فوج کا کمانڈر تھا اس نے دیکھا کہ مسلمان دور نکل گئے ہیں تو وہ اپنی فوج کو وہیں سے واپس لے گیا۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ رومی مسلمانوں سے صحرا میں لڑنے سے ڈرتے تھے ان کے سامنے شام کا تجربہ تھا یہ جرنیل اسی ڈر سے اپنی فوج واپس لے گیا تھا لیکن مقوقس کو یہ جواز پیش کیا کہ مسلمان اسے دیکھتے ہی بھاگ اٹھے تھے اور نیل تک جاپہنچے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ حقیقت یہ تھی کہ یہ جرنیل اور باقی فوجی بھی بہت خوش تھے کہ صحرا میں مسلمانوں سے ٹکر نہ ہوئی اور وہ زندہ واپس آ گئے ہیں۔ مستند مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ عمرو بن عاص وہاں لڑنا ہی نہیں چاہتے تھے اور ذرا سا بھی وقت ضائع کئے بغیر نیل کے مشرقی کنارے پر ام دنین تک جا پہنچنے کی فکر میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ایک قاصد نے انھیں صحرا میں آ کر اطلاع دی تھی کہ کمک کا باقی حصہ بھی پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ کم ام دنین نہیں پہنچی بلکہ ایک اور مقام ہیلو بولیس کے مقام پر خیمہ زن ہو گئی ہے۔ عمرو بن عاص یہ سوچ کر بڑی تیزی سے کمک تک پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ ایسا نہ ہو کے کمک ان کے پیچھے فیوم کے علاقے تک پہنچنے کے لئے دریا عبور کرنے کی کوشش کرے۔ اور مقوقس بابلیون سے فوج بھیج کر اس پر حملہ کر دے مقوقس کی کوشش یہی ہونی چاہیے تھی کہ کمک لشکر تک نہ پہنچ سکے عمرو بن عاص دور اندیش اور باریک بین سپہ سالار تھے پیشتر اس کے کہ کمک ان کی طرف روانہ ہوتی وہ کمک تک پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ رومی کمک پر حملہ کردیتے تو صورتحال بڑی ہیں مخدوش ہو جاتی۔ بحری جہاز اور کشتیاں نیل کے مغربی کنارے پر موجود تھی عمرو بن عاص نے لشکر کو ان پر سوار کیا اور پورا لشکر خیر و عافیت سے دریا پار کر گیا عمرو بن عاص ام دنین جانے کی بجائے ہیلو بولیس جا پہنچے اور کمک سے مل گئے، اس کے سپہ سالار زبیر بن عوّام رضی اللہ تعالی عنہ تھے جن کا تفصیلی ذکر پہلے آچکا ہے۔ وہ مؤرخین جو جنگی امور کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے اپنی تحریروں میں حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مقوقس نے بابلیون میں اتنی زیادہ فوج رکھی ہوئی تھی لیکن نہایت اچھے موقعے ملنے کے باوجود اس فوج کو استعمال نہ کیا معروف غیر مسلم تاریخ داں ایلفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے دو مرتبہ نیل عبور کیا ایک بار ام دنین سی فیوم کی طرف گئے، اور دوسری بار اس طرف سے واپس مشرقی کنارے پر آئے، یہ موقع تھا کہ مقوقس انہیں دریا میں اس لشکر پر حملہ کر دیتا اس کی فوج دریا کے دونوں کناروں پر کھڑی ہو کر تیر اور برچھیاں پھینکتی تو مسلمانوں کے لشکر کے لئے بڑی ہی مہلک مشکل پیدا ہوجاتی۔ بٹلر نے آگے چل کر لکھا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دریا پار کرکے فیوم کے صحرا میں چلا گیا تھا اس وقت ام دنین میں مسلمانوں کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی ۔ مقوقس اس وقت ام دنین کو محاصرے میں لے کر ہلہ بول دیتا تو وہ ام دنین پر دوبارہ قبضہ کرسکتا تھا۔ بٹلر نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی کمک آئی اور بابلیون میں اس کی خبر تک نہ پہنچی۔ خبر ضرور پہنچی ہوگی لیکن مقوقس اور جرنیل تھیوڈور نے کمک پر حملہ نہ کیا اور یہ موقع ضائع کردیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ رومی فوج بابلیون شہر کی دیواروں کے اندر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی اور وہیں دبکی رہنا چاہتی تھی ، جب کہ مسلمانوں کے حوصلے اور زیادہ بڑھ گئے تھے۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کمک تک پہنچے وہاں قدیم عمارات کے کھنڈر تھے ۔عمرو بن عاص نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ سے مل کر اگلے اقدام کے متعلق سوچنے لگے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ ہرقل کو جب اطلاع پہنچی کہ اس کا منظور نظر جرنیل حنّا مارا گیا ہے تو اسے اتنا صدمہ ہوا کہ اس کے آنسو پھوٹ پڑے اس نے حکم بھیجا کہ حنّا کی لاش اس کے پاس بزنطیہ بھیجی جائے۔ یہ حکم مقوقس تک پہنچا تو اس نے تابوت سے لاش نکلوا کر اسے حنوط کیا اور بزنطیہ روانہ کردی۔ ہرقل نے جب حنّا کی لاش دیکھی تو اس نے بلند اور غصیلی آواز میں عہد کیا کہ میں مصر کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے اپنی تمام تر جنگی طاقت استعمال کروں گا اور مسلمانوں کو نیست و نابود کر کے دم لونگا۔

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/36* *سلطنت* روم کا بادشاہ ہرقل جو اپنے دور میں طاقت اور دہشت کا ایک نام تھا بذنطیہ میں بیٹھا تھا (آج کا استنبول) مصر سے بہت دور تھا درمیان میں وسیع وعریض بحیرہ روم حائل تھا اور خاصا فاصلہ خشکی کا بھی تھا ۔اس مخدوش صورتحال میں جو مسلمانوں نے اس کے لیے مصر میں پیدا کر دی تھی اسے مصر میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ بزنطیہ میں بیٹھا مقوقس کے نام حکم بھیج رہا تھا۔ ابھی اسے یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ عمرو بن عاص کے لشکر نے بلبیس کا مضبوط قلعہ بھی فتح کرلیا ہے، اور روم کا نامور جرنیل اطربون مارا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی یہ اطلاع پہنچی تھی کہ مسلمان نے فرما فتح کرلیا ہے ،اس اطلاع نے اسے آگ بگولا کردیا تھا اس نے مقوقس اور اطربون کے نام ایک پیغام لکھا تھا اور اسی وقت قاصد کو روانہ کردیا تھا۔ اگر تم فیصلہ کرچکے ہو کہ مصر مسلمانوں کو دے ہی دینا ہے تو فوراً دے دو، ہرقل نے پیغام میں لکھا، اپنی فوج کو کیوں مرواتے ہو تم نے شکست قبول ہی کر لی ہے تو یہ خون خرابہ بند کردو، شاید تمہیں معلوم ہو کہ تمہارے درمیان میرے اپنے جاسوس موجود ہیں جو مجھے ہر خبر اور ہر اطلاع بھیج رہے ہیں۔ تم نے مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس پادریوں کا وقت بھیج کر کوئی اچھا اقدام نہیں کیا۔ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اب تم اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہو، تمہیں یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ مسلمان تعداد میں کتنے تھوڑے ہیں اور وہ اپنے وطن سے بہت دور ہیں جہاں سے انہیں رسد اور کمک بروقت نہیں پہنچ سکتی۔ دوسری طرف تم یہ سوچ کے بیٹھے ہو کے مسلمان اور آگے آجائیں اور تم انہیں گھیر کر ختم کردو، لیکن مسلمان قلعے فتح کرتے بڑھتے چلے آ رہے ہیں، اور انہوں نے مصر کے بدوؤں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے یہ تمہاری نااہلی ہے,,,,,,,,, میں جانتا ہوں تم قبطی عیسائی ہو اور پیرس کو اسقف اعظم نہیں مانتے، میں تمہارے اس اعتقاد کو قبول کرلیتا ہوں لیکن یہ قبول نہیں کروں گا کہ تم سلطنت روم کی عظمت کو بھول جاؤ اور اپنی ہی سلطنت سے بے وفائی کرو۔ اطربون اور تھیوڈور جیسے جرنیل تمہارے ساتھ ہیں، تمہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے لیکن تمہارا ان سے اختلاف ہے۔ اطربون لڑنا چاہتا ہے ، اور تم مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کرنے کے خواہشمند ہو۔ مجھے قیرس کی وفاداری پر بھی شک ہے میں نے اسے اسقف اعظم بنایا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دے رہا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا رویّہ اور اپنی سوچیں تبدیل کر لو ، اگر مجھے تمہاری طرف سے اطمینان نہ ہوا تو میں مصرآ جاؤں گا۔ پھر میں تمہیں یہ حق بھی نہیں دوں گا کہ اپنی صفائی میں کچھ کہو، اطربون کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرو اور اسے مسلمانوں کے مقابلے میں جانے دو اب میں کسی اچھی خبر کا انتظار کروں گا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* تاریخ یہ داستان اس طرح سناتی ہے کہ ہرقل کا یہ پیغام اس وقت مقوقس کے ہاتھ میں پہنچا جب اس کے سامنے اطربون کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ یہ لاش کچھ ہی دیر پہلے اس کے پاس پہنچی تھی اس وقت مقوقس بابلیون میں تھا جو بلبیس سے آگے ایک بڑا ہی مضبوط اور رومیوں کے دعوے کے مطابق ناقابل تسخیر قلعہ تھا،،،،، اس دور میں یہ رواج تھا کہ کوئی جرنیل لڑائی میں مارا جاتا تو سربراہ سلطنت حکم دیتا تھا کہ اس جرنیل کی لاش لائی جائے۔ جرنیل کی لاش کا میدان جنگ میں پڑا رہنا پوری سلطنت کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ مقوقس نے اپنی شکست خوردہ فوج کو ایسا حکم نہیں دیا تھا کہ اطربون کی لاش کو اٹھا کر لے آئے ۔شکست کھا کر بھاگنے والے فوجیوں کے تو ہوش ہی ٹھکانے نہیں تھے کہ وہ اپنی جرنیل کی لاش اٹھا لاتے۔ انکے تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔پھر اس رومی جرنیل کی لاش مقوقس کے پاس کس طرح پہنچ گئی؟ یہ مسلمانوں کی طنز کا ایک انداز تھا۔ مسلمانوں نے رومیوں کا مذاق اڑایا تھا،،،، بلبیس سے رومی فوج جس طرح بوکھلا کر اور تتربتر ہو کر بھاگی تھی اس حالت میں کسی کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے کہ وہ یہ بھی دیکھتے کہ روم کے اتنے نامور جرنیل کی لاش کہاں پڑی ہے۔ اور کیا وہ واقعی مارا گیا ہے، یا یہ شور و غل مسلمانوں نے دھوکا دینے کے لئے بپا کردیا تھا کہ اطربون کا پرچم گر پڑا ہے۔ اور وہ مارا گیا ہے۔ لڑائی ختم ہونے کے فوراً بعد میدان جنگ کی کیفیت اور نفسا نفسی کے عالم جیسی ہوجاتی تھی، گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں کچھ دور تک نظر کام نہیں کرتی تھی، بھاگنے والے لاشوں اور بے ہوش زخمیوں سے ٹھوکریں کھاتے اور گرتے تھے ۔زمین خون سے اس طرح لال ہو جاتی تھی جیسے خون کا مینہ برسا ہو ، زخمیوں کا کراہنا جگر پاش ہوتا تھا۔ دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہو جاتی تھی۔ شہریوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا الگ ہوتی تھی، وہ بھاگ بھی رہے ہوتے اور ان عزیزوں کو بھی ڈھونڈتے پھرتے تھے جو لڑائی میں شامل تھے۔ اطربون کی لاش اس طرح ملی کے مجاہدین کی بیویاں بہنیں یا بیٹیاں جو لشکر کے ساتھ تھیں رومی فوج کی پسپائی کے فوراً بعد میدان جنگ میں دوڑتی ہوئی پھیل گئیں زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لا نا انہیں مرہم پٹی کی جگہ تک پہنچانے اور پانی پلانے کی ذمہ داری ان خواتین نے اپنے سر لے رکھی تھی ۔ یہ مسلمانوں کا دستور بھی تھا ان خواتین میں شارینا بھی تھی جو اپنے خاوند حدید کے ساتھ تھی ۔اور اینی بھی تھی جو فہد بن سامر کی بیوی تھی۔ پہلے تفصیلی ذکر آچکا ہے کہ حدید اور فہد بن سامر تجربے کار جاسوس تھے اور آج کے کمانڈو آپریشن کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ شارینا اپنے زخمیوں کو رومیوں کی لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈتی پھر رہی تھی اسے ایک رومی کی لاش کا چہرہ شناسا معلوم ہوا لباس سے وہ کوئی سپاہی نہیں بلکہ اونچے رتبے والا جرنیل لگتا تھا۔ لاش کا چہرہ خون اور مٹی سے لتھڑا ہوا تھا شارینا کو اصل اس کے ساتھ یہ دلچسپی تھی کہ وہ ھرقل کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس لئے رومی فوج کے جرنیلوں سے واقف تھی اس نے لاش کے کپڑوں سے ہی لاش کے چہرے سے خون اور مٹی ہٹائی تو چونک کر پیچھے ہٹ گئی جیسے اسے یقین نہ آیا ہو کہ یہ رومی بھی مارا جا سکتا ہے،،،،، وہ رومی جرنیل اطربون کی لاش تھی۔ اطر بون کو شاعرینا ہی اچھی طرح جانتی اور پہچانتی تھی۔ اطربون ایسا جابر جرنیل تھا کہ ہرقل جیسا جابر اور ظالم بادشاہ بھی اس کے آگے جھکا جھکا رہتا تھا ۔اطربون عیش و عشرت کا بھی دلادہ تھا اور اپنا حق سمجھتا تھا کہ کوئی خوبصورت اور جوان عورت خواہ وہ شاہی خاندان کی ہی کیوں نہ ہوتی اسے ایک دو راتوں کے لئے اپنے ہاں لے جائے۔ شاعرینا کی ماں بڑی حسین عورت ہوا کرتی تھی۔ شارینا اس وقت تیرا چودہ برس کی کمسن لڑکی تھی جب اطربون اس کی ماں کو بھی اپنے گھر لے جایا کرتا تھا ۔ حالانکہ شارینا کی ماں ہرقل کی بیویوں میں سے ایک تھی لیکن یہ عورت اطربون کی دوستی سے بہت خوش تھی ۔شارینا کو اچھی طرح یاد تھا کہ اطربون کی نظر اس پر بھی تھی لیکن کم سنی کی وجہ سے اطربون سے بچی رہی تھی ،طربون نے کی بار اس کے گھر آکر اسے اپنی گود میں بٹھایا تھا اور شارینا اچھی طرح سمجھتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ بچی سمجھ کر پیار نہیں کرتا بلکہ یہ بڑی بری نیت سے اس پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ اب اسی اطربون کی لاش خاک و خون میں لتھڑی پڑی تھی اور کوئی اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا ۔اس کے اپنے سپاہی بھاگتے ہوئے اس کی لاش کو روند گئے تھے۔ شارینا اٹھ کھڑی ہوئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی اسے اینی نظر آئی جو ایک زخمی مجاہد کا سر اپنی گود میں رکھے اسے پانی پلا رہی تھی۔ پانی پلا کر اٹھی تو اسنے شارینا کی طرف دیکھا جو اس سے کوئی زیادہ دور نہیں تھی۔ اینی دوڑتی ہوئی شارینا کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ وہ زخمی اٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا اینی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس زخمی مجاہد کو پانی پلا چکی ہے اور اس نے دیکھ لیا ہے کہ زخم ایسا ہے کہ وہ زندہ رہے گا لیکن اسے جلدی پیچھے پہنچانا ہے۔ شارینا کو اس کام کا بہت تجربہ ہو چکا تھا وہ اطربون کی لاش سے ہٹنا نہیں چاہتی تھی اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ تو دو تین مجاہدین لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتے پھرتے نظر آئے۔ شارینا دوڑتی ان تک گئی اور انھیں وہ زخمی مجاہد دکھایا اور کہا کہ اسے اٹھا کر پیچھے لے جائیں ۔مجاہدین زخمی کی طرف گئے اور شارینا واپس اطربون کی لاش پر چلی گئی۔ شاعرینا!،،،،،، اینی نے اطربون کی لاش کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ یہ رومی فوج کا بڑا جرنیل لگتا ہے میں نے اسے دو بار دیکھا تھا ہمارے گاؤں کے قریب سے گزرا تھا اور دوسری بار گاؤں میں کچھ دیر کے لئے رکابھی اور گاؤں والوں کو ڈرا دھمکا بھی رہا تھا یہ چلا گیا تو سب کہتے تھے کہ بڑا زبردست جرنیل ہے اور اس کا نام اطربون ہے۔ یہ وہی ہے۔۔۔۔ شارینا نے کہا ۔۔۔تم دوڑ کر جاؤ حدید اور فہد کو بلا لاؤ مسعود کہی نظر آجائے تو اسے بھی ساتھ لے آنا۔ یہ مسعود سہیل مکی تھا ،جو جاسوسی اور دیگر زمین دوز کارروائیوں میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اینی تو اس مجاہد کو اپنا پیر و مرشد مانتی تھی، وہ دوڑتی گئی اور اسے حدید مل گیا اینی نے اسے بتایا کہ رومی جرنیل اطربون کی لاش ایک جگہ پڑی ہے اور شارینا اسے، فہد ،اور مسعود کو بلا رہی ہے۔ حدید نے اپنا کام چھوڑا اور فہد اور مسعود کو دوڑ دوڑ کر ڈھونڈا اور پھر تینوں شاعرینا تک پہنچے ،شاعرینا نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دیکھو روم کا وہ جرنیل جسے لوگ ہرقل سے بھی اونچا سمجھتے تھے اور جو یہ عزم لے کر آیا تھا کہ مسلمانوں کو مصر سے بھگائے گا۔ ان تینوں جاسوس مجاہدین کے لئے یہ کوئی نئی خبر نہیں تھی کہ اطربون مارا گیا ہے یہ تو وہ پہلے ہی سن چکے تھے اور رومی فوج کی پسپائی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے جرنیل کا پرچم گرپڑا اور جرنیل بھی گر کر مر گیا تھا۔ کیا ہمیں یہ لاش دکھانے کو بلایا ہے ۔۔۔حدید نے شارینا سے پوچھا۔ میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ یہ کیسا رہے گا کہ ہم یہ لاش مقوقس کو تحفے کے طور پر بھیج دیں۔ حدید نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور تینوں کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا جیسے انہیں یہ تجویز اچھی لگی ہو سوال یہ تھا کہ لاش مقوقس کے پاس کس طرح بھیجی جائے تینوں نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کیا اور ایک ترکیب سامنے آگئی۔ اس شکست میں بے شمار رومی فوجی کٹ مرے تھے بہت سے بھاگ نکلے تھے اور تین ہزار رومی فوجیوں نے قلعے کے اندر ہتھیار ڈال دیے اور جنگی قیدی بن گئے تھے ۔ حدید وغیرہ جب ان کی لاش پر کھڑے تھے اس وقت ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ جاری تھا کچھ رومی جو قلعےے میں رہ گئے تھے بھاگ نکلنے کی کوشش میں ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ حدید، فہد ، اور مسعود ایسے دو رومیوں کو پکڑ لانے کے لئے ادھر ادھر بکھر گئے انہیں کسی سپاہی کی نہیں بلکہ کسی عہدیدار کی تلاش تھی یعنی جو شخص ذمہ دار ہو،،،،،،،،، انہیں زیادہ تگ و دود نہ کرنی پڑی وہ جس طرح کے دو فوجی چاہتے تھے ویسے ہی مل گئے ایک اچھے رتبے والا عہدے دار تھا جو زخمی تھا لیکن ایسا زخمی نہیں کہ چلنے پھرنے یا گھوڑ سواری سے معذور ہوتا زخم معمولی تھی، دوسرا فوجی کم رتبہ والا تھا اور جسمانی لحاظ سے بالکل ٹھیک تھا مجاہدین اسے پکڑ کر رہے تھے وہ بھاگنے کی کوشش میں کہیں چھپا ہوا تھا۔ حدید اور اس کے ساتھیوں نے ان مجاہدین سے یہ رومی لے لیا اور کہا کہ وہ اسے قلعے میں لے جائیں گے اور چونکہ وہ تینوں جاسوس ہیں اس لئے اس سے کچھ باتیں معلوم کریں گے۔ تم دونوں ہماری بات غور سے سن لو ۔۔۔۔مسعود بن سہیل مکی نے ان رومیوں سے کہا۔۔۔۔ یہ دیکھو تمہارے سپہ سالار اطربون کی لاش ہے ہم تمہیں تین گھوڑے دیں گے دو تمہارے لیے اور ایک پر یہ لاس ڈال کر لے جانے کے لئے،،،،،،، ہم تمہیں قید سے آزاد کرتے ہیں تمہیں یہ کام کرنا ہے کہ یہ لاش مصر کے فرمانروا کو دینی ہے۔ میں تمہارے زخموں کی مرہم پٹی کروا کے بھیجوں گا۔ مقوقس کو ہمارا یہ پیغام دینا کہ جنہیں تم عرب کے بدو کہا کرتے ہو انہوں نے یہ لاش تحفے کے طور پر بھیجی ہے اور کہا ہے کہ اسے دیکھو اور عبرت حاصل کرو ۔مقوقس کو یہ بھی کہنا کہ اپنے فوجی افسروں کو بتائے کہ اس نے اطربون کو روکا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں نہ جائے لیکن اطربوں نے اس کی نہ سنی اور بڑے جوش و خروش سے بلبیس چلا گیا تھا۔ ہمارے مقابلے میں جو آئے گا وہ اسی انجام کو پہنچے گا مقوقس کو یہ بھی کہنا کہ ہرقل کو ضرور بتائیے کہ اطربون کی لاش مسلمانوں نے تحفے اور عبرت کے طور پر بھیجی ہے۔ یہ بھی سن لو۔۔۔۔ حدید نے کہا ۔۔۔ہم صرف اس کام کے لیے تمہیں قید سے آزاد کر رہے ہیں اگر تمہیں قید میں رکھیں گے تو تم غلام بنا لئے جاؤ گے اور تمہاری باقی عمر دن رات محنت اور مشقت کرتے گزرے گی اور ذلت میں پڑے رہو گے، یہ لاش سیدھی مقوقس تک لے جاؤ اور اسے ہمارے پیغام کا ایک ایک لفظ پہنچاؤ ہم تم دونوں کو اچھی طرح یاد رکھیں گے، ہم نے جس طرح یہ قلعے فتح کرلیے ہیں اسی طرح اگلے قلعے بھی فتح کر لیں گے، اور ہمیں پتہ چل گیا کہ تم نے لاش مقوقس تک نہیں پہنچائی تھی اور ہمارا پیغام نہیں دیا تھا تو تمھیں ایسی موت ماریں گے کہ دیکھنے والے کانپنے لگیں گے۔ تم لوگ شاید نہیں سمجھے ۔۔۔رومی عہدے دار نے کہا۔۔۔ یہ تو ہمارے ساتھ بہت بڑی نیکی ہے کہ تم ہمیں آزاد کرکے واپس بھیج رہے ہو لیکن یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم اپنے ایک جرنیل کی لاش ساتھ لے جارہے ہیں۔ ہم تمھارا پیغام فرمانروا مقوقس تک لفظ بلفظ پہنچائیں گے اور لاش اس کے حوالے کر کے اس سے داد و تحسین حاصل کریں گے ہو سکتا ہے وہ کوئی انعام بھی دے دے۔۔۔ ان تینوں مجاہدین نے رومی عہدیدار کی مرہم پٹی کروا دی اور دونوں رومیوں کو ایک ایک گھوڑا دیا تیسرا گھوڑا لاش کے لئے دیا جس پر دونوں نے اطربون کی لاش ڈال لی لاش کا سر ایک طرف اور ٹانگیں دوسری طرف تھی۔ وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی مرے ہوئے رومیوں کے گھوڑے ادھر ادھر کھڑے تھے اور جو گھوڑے زخمی تھے ابھی تک بھاگ دوڑ رہے تھے،،،،،،، دونوں رومی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے تینوں جاسوس مجاہدین کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے تاکہ کوئی انہیں پکڑ نہ لے۔ ایک روایت یہ ہے کہ اطربون کی لاش سپہ سالار عمرو بن عاص کی اجازت لے کر بھیجی گئی تھی۔ ایک عربی مؤرخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ لاش ایک یا دو نائب سالاروں کی تجویز کے مطابق بھیجی گئی تھی اور سپہ سالار کو بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ لاش ان تین جاسوسوں نے بھجوا دی تھی اور سپہ سالار کو بتایا ہی نہیں گیا تھا اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ عمرو بن عاص ایک عظیم سپہ سالار تھے ان کی عظمت کو دیکھتے ہوئے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے عظیم انسان نے اس طرح کی حرکت کی ہوگی۔ ایسی حرکت کوئی گناہ تو نہیں تھی لیکن اتنی بڑی شخصیت کے لئے یہ بڑی چھوٹی سی حرکت تھی بہر حال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اطربون کی لاش مقوقس کو بابلیون بھیجی گئی تھی۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷* مقوقس کی جزباتی حالت کا اندازہ اس کے سوا کون کرسکتا تھا جسے ایک اطلاع تو یہ ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا قلعہ بھی سر کرلیا ہے اور رومی فوج بڑی بری حالت میں ہزاروں سپاہی مروا کر اور قید میں دے کر پسپا ہو گی ہے۔ دوسری یہ کہ اطربون جس سے وہ اپنا دایاں بازو سمجھتا تھا مارا گیا ہے۔ مقوقس کی حکمران شخصیت پر سب سے بڑی ضرب تو اس پیغام نے لگائی جو مسلمان نے اسے بھیجا تھا اس پیغام میں بڑی ہی توہین آمیز طنز تھی جسے مقوقس نے ایک چیلنج سمجھ لیا لیکن فوری طور پر وہ کچھ بھی نہ سوچ سکا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہرقل کا قاصد بزنطیہ سے آن پہنچا اور اس نے مقوقس کو ہرقل کا تحریری پیغام دیا ایک تو یہ پیغام ہی ایسا تھا کہ مقوقس برہم ہو گیا دوسری یہ کہ اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جس میں ایسی کوئی بھی بات جلتی پر تیل کا کام کر سکتی تھی یہ کام ہرقل کے پیغام نے کر دیا اور مقوقس ہرقل کے خلاف مشتعل ہوگیا۔ اطربون کی موت مقوقس کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ اطربون کی موت نے رومی فوج کے حوصلے اور زیادہ پست اور مسلمانوں کے لشکر کے حوصلے اور زیادہ مستحکم اور تروتازہ کر دیے ہونگے۔ تاریخ میں یہ تو واضح نہیں کہ اس وقت قیرس کہاں تھا ؟،،،،،یہ پتہ ملتا ہے کہ مقوقس نے اسے اطلاع بھجوائیں اور وہ فوراً پہنچ گیا۔ مقوقس نے اسے ہرقل کا پیغام پڑھنے کو دیا۔ قیرس جو پیغام پڑھتا جا رہا تھا اس کی جذباتی کیفیت ویسی ہی ہوتی جارہی تھی جیسی مقوقس کی ہوچکی تھی۔ پیغام میں ہرقل نے قیرس کی وفاداری پر شک کا اظہار کیا تھا اس سے تو قیرس جل اٹھا۔ بعض غیر مسلم تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ مصر میں مسلمانوں کی فتح کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہرقل اور قیرس میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور قیرس نے درپردہ مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے ہرقل کا پیغام پڑھ کر مقوقس اور قیرس کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ ان تاریخ نویسوں کی تحریر کی تردید کرتی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہرقل اور قیرس میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ قیرس نے ہرقل کو مسلمانوں سے شکست دلوانے کے لئے درپردہ ہتھکنڈے شروع کر دیے ہو۔ لیکن اس نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے اپنا ایک الگ محاذ کھولنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ ہمارا بادشاہ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا باتیں بنا رہا ہے ۔۔۔۔مقوقس نے حیرت سے کہا ۔۔۔باتیں بھی یوں بنا رہا ہے جیسے اس نے کبھی مسلمانوں کو شکست فاش دی ہو اور مسلمان اس کے نام سے بھی دبکتے ہوں ۔مسلمانوں کی تعداد اس وقت بھی تھوڑی تھی جب انہوں مکل شام سے اسے دھکلنا اور لولہان کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور آخر اسے شام سے نکال ہی باہر کیا۔ آج مجھے سبق دے رہا ہے کہ ہمت نہ ہارو۔ میں جانتا ہوں حقیقت کیا ہے ۔۔۔قیرس نے کہا۔۔۔ ہرقل صرف اس وجہ سے مصر میں نہیں آتا کہ وہ مسلمانوں سے ڈرتا ہے اس نے ملک شام میں ہر محاذ پر مسلمانوں سے شکست کھائی ہے اس کے دل و دماغ پر شکست نقش ہو کر رہ گئی ہے۔ اسے مصر ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ شکشت کی سیاہی کسی اور کے منہ پر ملی جائے۔ اگر آج مسلمان پسپائی اختیار کرلیں تو ہرقل دوڑتا ہوا یہاں آ پہنچے گا اور فتح کا سہرا اپنے سر باندھ لے گا ۔اس نے عیسائیت کا چہرہ مسخ کیا اور مجھے اختیارات دے دیے کہ میں اس کی عیسائیت کو لوگوں میں رائج کرو اور جو نہیں مانتا اسے قتل کروا دوں اور اس کا خاندان ہی اجاڑ کر رکھ دوں میں نے یہ حکم مانا اور اپنی رعایا کا خون خرابہ کیا۔ میں نے بارہا اس سے کہا تھا کہ اپنی رعایا کو اپنا دشمن نہ بناؤ لیکن ہرقل بادشاہ ہے وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ جسے چاہے اسے زندگی اور جسے چاہے موت دے دے۔ جن لوگوں پر مظالم توڑے گئے اور جنہوں نے ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کی وہ آج اپنی ہی فوج کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔۔ مجھے شک ہے کہ قبطی عیسائی درپردہ مسلمانوں کی مدد کر رہے ہونگے اسقف اعظم!،،،،،، کوئی ایسا طریقہ سوچیں کہ قبطیوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے اپنے دل میں رومی فوج کی عداوت رکھ لینا کوئی بات نہیں لیکن اپنے ملک کے دشمن کی پشت پناہی کرنا بڑا ہی خطرناک اور شرمناک کام ہے اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں کہ قبطیوں کو کس طرح اپنے ساتھ ملایا جائے ہمیں مسلمانوں کو مصر سے نکالنا ہے یا ایک ایک مسلمان کو مصر میں ہی قتل کر دینا ہے ۔ انہوں نے اطربون کی لاش کے ساتھ جو پیغام بھیجا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے انہوں نے میری غیرت کو للکارا ہے میں ان سے عبرت کا انتقام لونگا۔ میں خود یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ لیکن بنیامین کو ساتھ لئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے قبطی صرف بنیامین کا حکم مانتے ہیں وہ خود تو قوس کے صحرا میں روپوش ہے لیکن اس نے ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ اس کا حکم دور دراز علاقوں کے ہر قبطی عیسائی کے گھر میں پہنچ جاتا ہے وہ سامنے آئے تو میں اس سے معافی مانگ لوں گا اور اسی کو اسقف اعظم بنا رہنے دوں گا اور خود اس رتبے سے دست بردار ہو جاؤں گا۔ میں جانتا ہوں وہ کہاں ہے۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں کسی بھی روز اسے گرفتار کروا سکتا تھا لیکن اس لیے خاموش رہا کہ ذاتی طور پر مجھے اس کے ساتھ دلچسپی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ قبطیوں کے باغی ہو جانے کا خطرہ تھا۔ مقوقس اور قیرس اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کرتے رہے اور انھوں نے اطربون کے بعد دوسرے بڑے نامور جرنیل تھیوڈور کو بھی بلا لیا اور یہ مسئلہ اس کے سامنے رکھا اور اسے کہا کہ وہ اپنی رائے دے وہ بھی ان کا ہم خیال نکلا اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہرقل کو سلطنت کی بادشاہی سے معزول کردیا جائے۔ معزول نہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔۔۔ مقوقس نے مشتعل لہجے میں کہا ۔۔۔معزول کرنے کی صورت میں خدشہ یہ ہے کہ فوج دو حصوں میں بٹ جائے گی اور خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ایسا ہوا تو مسلمان بڑے آرام سے پورے مصر پر قابض ہو جائیں گے سلطنت روم کی بقا اسی میں ہے کہ ہرقل کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ مقوقس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہرقل کو قتل کروا دیا جائے اور پھر قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملایا جائے اور پھر مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دی جاسکتی ہے بات آخر وہی پر جا رکی کے بنیامین کو ساتھ ملانا ضروری ہے۔ مقوقس نے اسی وقت اپنے ایک خاص آدمی کو بلایا اور اسے کچھ ہدایات دی اور کہا ۔۔۔کہ وہ قوس کے صحرا میں چلا جائے جہاں قبطیوں نے اپنا ایک مرکز بنا رکھا ہے یہ آدمی اپنے آپ کو قبطی عیسائی ظاہر کرے اور بنیامین تک پہنچے، بنیامین اسے مل جائے تو اپنا آپ اس پر بے نقاب کر دے اور کہے کہ مقوقس اور قیرس اس سے ملنا چاہتے ہیں اور دونوں ہرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے بنیامین کسی شک میں پڑ جائے اور بات نہ مانے۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔اسے یقین دلانا اور قائل کرنا ہے کہ وہ بے خوف و خطر آ جائے اور اگر وہ گرفتاری کا خطرہ محسوس کررہا ہے تو قیرس اس کے پاس آ جائے گا اور قیرس اکیلا ہوگا۔ اس کے ساتھ فوج نہیں ہوگی۔ اس طرح ضروری ہدایات لے کر یہ آدمی اس جگہ کو روانہ ہو گیا جہاں بنیامین روپوشی کی حالت میں رہتا تھا۔ مصر کے فرمانروا، مصر کے اسقف اعظم، اور رومی فوج کے ایک نامور جرنیل کے دلوں میں روم کے بادشاہ ہرقل کی مخالفت پیدا ہو چکی تھی جو اتنی شدید تھی کہ عداوت تک پہنچ رہی تھی، ان تینوں کی برہمی کیوجہ بڑی صاف تھی یہ وہی ہرقل تھا جو کم تعداد مسلمانوں سے شکست پر شکست کھا کر شام کا پورا ملک انہیں دے آیا تھا ،اور اب بذنطیہ سے یوں حکم بھیج رہا تھا جیسے یہ تینوں بزدل ہوں اور حوصلہ ہار بیٹھے ہوں، اسقف اعظم اور جرنیل تھیوڈور نے مقوقس سے کہا کہ وہ بھی ہرقل کے نام پیغام لکھے جس میں ایک اطلاع بلبیس کی شکست اور اطربون کی موت کی ہو گی اور اس کے بعد اس پیغام کا ایسا جواب دے جیسے اینٹ کے جواب میں پتھر پھینکا جاتا ہے۔ مقوقس تو اور ہی زیادہ مشتعل اور برہم تھا اس نے اسی وقت اپنے ہاتھ سے پیغام لکھنا شروع کردیا قیرس اور تھیوڈوراسے مشورے دیتے رہے اور اس طرح تینوں نے مل کر جو پیغام لکھا وہ کچھ یوں تھا۔ ہاں شہنشاہ روم ہرقل کے نام جس کی سلامتی اور فتح کیلئے ہم سب لوگ دعا گو رہتے ہیں۔ آپ کا پیغام اس وقت ملا جس وقت میں بابلیون میں اطربون کی لاش کے پاس کھڑا تھا ۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو صدمہ پہنچا رہا ہوں لیکن یہ بری خبر آپ سے چھپائی تو نہیں جاسکتی ۔ اطربوں نے مسلمانوں کے لشکر پر اس وقت حملہ کیا تھا جب مسلمانوں نے بلبیس کو محاصرے میں لے رکھا تھا پورا ایک مہینہ لڑائی جاری رہی اور آخر اطربون مارا گیا۔ اور اپنی فوج میں بھگدڑ مچ گئی مسلمانوں نے ہماری فوج کو بہت جانی نقصان پہنچایا ہے اور بہت سے فوجیوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اطربون کی لاش ہماری اپنی فوج کے آدمی اپنے طور پر نہیں لائے بلکہ ہوا یوں ہے کہ لاش مسلمانوں نے بڑے ہی توہین آمیز پیغام کے ساتھ بھیجی ہے میں آپ کے پیغام کا جواب اس حالت میں دے رہا ہوں کے ساتھ والے کمرے میں اطربون کی لاش پڑی ہوئی ہے،،،،،، آپ کے پیغام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مجھے بڑا ہی کمزور اور بزدل آدمی سمجھتے ہیں۔ میں نے مسلمانوں کے ساتھ جو صلح کرنی چاہی تھی وہ کسی کمزوری کے تحت نہیں چاہی تھی بلکہ اپنے احوال و کوائف دیکھے کر یہ قدم اٹھایا تھا ۔آپ نے لکھا ہے کہ میں فوج کو نہ مرواؤں اور مصر مسلمانوں کو دے دوں۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنی فوج کو خون خرابے سے بچا لوں اور مسلمان فرما سے ہی واپس چلے جائیں میں نے اطربون کو حملے سے روکا تھا بہت کچھ سوچ کر روکا تھا لیکن اطربوں نے میرا حکم نہ مانا اور مجھے بتائے بغیر فوج لے کر بلبیس چلا گیا اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا مسلمانوں نے اطربون کی فوج کا جم کر مقابلہ کیا اور پھر اطربون کی فوج کی خیمہ گاہ پر ہر دوسری تیسری رات ایسے شب خون مارے کہ ہماری فوج کا ایک نقصان تو جانی ہوا ۔اور دوسرا نقصان ذہنی تھا وہ یہ کہ ہماری فوج پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی شکست کی وجہ یہی تھی،،،،،، آپ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے اور میں اتنی زیادہ فوج ہوتے ہوئے بھی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہی تھوڑی تعداد کے مسلمان ہے جنہوں نے آپ کو اور آپ کی فوج کو شام کے ملک سے نکال باہر پھینکا تھا ۔ شام سے ہماری جو بچی کھچی فوج مصر آئی تھی اس پر مسلمانوں کی بے خوفی بےجگری آسیب کی طرح سوار ہو گئی تھی۔ ان شکست خوردہ فوجیوں نے مصر آ کر ساری فوج کو یہ تاثر دیا کہ مسلمان انسان نہیں جنات ہیں جن کے مقابلے میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ اس طرح ہماری فوج کا جذبہ مجروح ہوا اور ہماری فوج کی شکست کا باعث یہی ہے میں یہ کہنے کی گستاخی کروں گا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ آپ پر عائد ہوتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ بحیرہ روم کے اس پار جا کر سب کچھ بھول گئے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کس طرح جانوں کی بازی لگا کر لڑتے ہیں یہ جذبہ ہماری فوج میں پیدا ہو ہی نہیں سکا،،،،،، میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ اسقف اعظم قیرس کے ہاتھوں آپ کی عیسائیت کو نہ ماننے والوں پر جو ظلم و تشدد کروایا تھا آج مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ مصر میں قبطی عیسائیوں کی آبادی لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن وہ ہماری فوج میں شامل ہوتے ہیں نہیں۔ اسقف اعظم قیرس بھی اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔ آپ نے ان کی وفاداری پر جس شک کا اظہار کیا ہے وہ صحیح نہیں۔ وہ اس رعایا سے تعاون کسطرح حاصل کرسکتے ہیں جس رعایا کے لیے وہ جلاد بنا دیئے گئے تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ مصر کے بدو ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں سے جا ملے ہیں۔ غور کریں کہ وہ ہمارے ساتھ کیوں نہ ملے اور حملہ آوروں کے ساتھ کیوں چلے گئے۔ ان تک ہم نے بھی رسائی حاصل کی تھی لیکن انھوں نے ہمیں انکار دیا اور وہ کہتے تھے کہ ہم لوگ آزاد ہیں اور کسی کے حکم سے ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے مقابلے میں انہوں نے مسلمانوں کو پسند کیا اور ایک لشکر کی صورت میں مسلمانوں کے لشکر میں چلے گئے،،،،،، میں آپ کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے میں نے بنیامین کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیج دیا ہے۔ اور اسے اپنے ہاں بلوایا ہے۔ اسقف اعظم قیرس نے اپنے رویے میں لچک پیدا کر لی ہے۔ اگر بنیامین آگیا تو میں قیرس اور بنیامین کے اختلافات ختم کرا دوں گا۔ اور پھر بنیامین کوقائل کروں گا کہ وہ قبطی عیسائیوں کا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوج کے ساتھ آ جائے تاکہ عرب کے ان مسلمانوں کو مصر سے نکالا جائے ۔اگر آپ کو میری یہ الفاظ مطمئن نہ کر سکے تو ہمارے پاس آجائیں اور لڑائی کی نگرانی خود کریں میں آپ کو یہ یقین بھی دلاتا ہوں کہ ہم میں سے کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری اور ہمارے حوصلے مضبوط ہیں۔ مقوقس نے یہ پیغام سربمہر کر کے ایک قاصد کو دیا اور ہدایت یہ دی کہ جس قدر جلدی ہو سکے وہ بزنطیہ پہنچے اور یہ پیغام ہرقل کے ہاتھ میں دے دے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ہم پھر واپس بلبیس چلتے ہیں جہاں شہر کے اندر اور باہر لاشیں بکھری ہوئی تھی اور شدید زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ اور جو ہوش میں تھے وہ اپنے آپ کو گھسیٹ رہے تھے کہ عافیت کے کسی مقام تک پہنچ جائیں ۔ مسلمان خواتین زخمیوں کو پانی پلا پلا کر اٹھا رہی تھیں زمین کا وسیع وعریض خطہ خون سے سیراب ہوا جا رہا تھا۔ یہی سے اطربون کی لاش اٹھائی گئی تھی۔ اس کی لاش مقوقس کو بھجوا کر شارینا اور اینی اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھیں۔ حدید، فہد، اور مسعود وہاں سے چلے گئے تھے ۔بہت سے مسلمان خواتین زخمیوں کو اٹھا رہی تھی اور انہیں مرہم پٹی کے لیے لے جا رہی تھیں۔ ان کے ساتھ مجاہدین بھی تھے جو ان زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لے جارہے تھے جو بے ہوش تھے یا کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔ محمد يحيٰ سندھو کسی بھی خاتون کے چہرے پر ایسا نقاب نہیں تھا کہ وہ پہچانی نہ جا سکے لیکن ایک خاتون نے اپنا چہرہ اس طرح نقاب میں چھپا رکھا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ وہ زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی چلی جا رہی تھی اور اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے وہاں مجاہدین بھی اور ان کے خواتین بھی اتنی مصروف تھیں کہ انھیں ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں تھی زخمیوں کو اٹھانے کی جلدی اس لئے تھی کہ کوئی زخمی خون زیادہ بہہ جانے سے شہید نہ ہوجائے۔ شارینا اور اینی مل کر ایک زخمی کو اٹھا رہی تھی زخمی مجاہد اٹھا اور دونوں لڑکیاں اسے سہارا دے کر لے جانے لگی تو زخمی نے انہیں روک دیا اور کہا کہ وہ خود اپنے سہارے پیچھے چلا جائے گا ۔شارینا نے دیکھا کہ اس زخمی سے اچھی طرح چلا نہیں جا رہا تھا۔ شاعرینا نے اسے کہا۔۔۔ کہ وہ اپنے آپ پر جبر نہ کرے اور اس کا سہارا لے لے اینی بھی زخمی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی اور اپنا ایک بازو زخمی کے کمر میں ڈال دیا۔ نہ میری بہنو!،،،،، مجاہد نے شارینا اور اینی سے الگ ہوکر اور مسکرا کر کہا۔۔۔ ہمیں سہاروں کا عادی نہ بنائیں ہم سہاروں کے بل پر چلنے پھرنے لگے تو پھر مصر کون فتح کرےگا تم جاؤ اور بے ہوش پڑے ہوئے زخمیوں کو اٹھاؤ مجھے اللہ کا سہارا بہت ہے۔ زخمی چلا گیا شارینا اور اینی دوسرے زخمیوں کو ڈھونڈنے چل پڑی زخمیوں کی قربناک آوازوں اور زخمی گھوڑوں کے بھاگنے دوڑنے کے دھماکوں اور میدان جنگ کی دیگر آوازوں اور آہٹوں میں شارینا کو یوں لگا جیسے اسے کسی عورت نے پکارا ہو ۔شاعرینا نے روک کر دائیں بائیں دیکھا اسے ایک خاتون نظر آئی جس نے چہرہ نقاب میں ڈھانپ رکھا تھا اور صرف آنکھیں ننگی تھیں۔ شارینا!،،،، اس لڑکی نے قریب آکر کہا۔۔۔ تمہیں پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کیا تم شارینا نہیں ہو؟ ہاں میں شارینا نہ ہی ہوں۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ چہرے سے نقاب تو ہٹاؤ کہ میں بھی دیکھ سکو تم کون ہو؟ تم نے میری زبان میں بات کی ہے کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ نہیں!،،،، اس لڑکی نے کہا۔۔۔ میں اربیلا ہوں ہم دونوں ایک دوسرے کو بھول نہیں سکتے۔ او ہو۔۔۔۔ اربیلا۔۔۔ شارینا نے اربیلا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑی تیزی سے کہا ۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کس کے ساتھ آئی ہو؟ جلدی بولو تمہارا یہاں اکیلے پھرتے رہنا ٹھیک نہیں۔ وہ بدکار اطربون مجھے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔ اربیلا نے کہا ۔۔۔سنا ہے وہ مارا گیا ہے اس خبر سے میں بہت ہی خوش ہوں یہاں ایک فوجی افسر روباش کو ڈھونڈتی پھر رہی ہوں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ اطربون کی کی لاش نظر آئے تو مجھے یقین ہوجائے گا کہ میں آزاد ہو گئی ہوں اس کی لاش کے منہ پر تھوکوں گی۔ اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اسے اطربون اپنے ساتھ داشتہ بنا کر لایا تھا وہ ایک جواں سال فوجی افسر روباش کو دل وجان سے چاہتی تھی اور روباش اس پر فدا ہوا جاتا تھا ۔اس کی شادی ہو سکتی تھی اور ہو بھی جاتی۔ لیکن اطربون کی نظر پڑ گئی اور اس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اربیلا کو داشتہ بنا لیا اور اس کے ماں باپ کو کچھ نقد معاوضہ دیا اور ساتھ ہی برے نتائج کی دھمکیاں دے کر ان پر دہشت بھی طاری کردی اربیلا کے ماں باپ پہلے ہی دہشت زدہ رہتے تھے کیونکہ وہ ھرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کو نہیں مانتے تھے اور وہ قبطی عیسائی تھے۔ انہوں نے قبطیی عیسائیوں کو قتل ہوتے یا زیر اعتاب آتے دیکھا تھا دل پر پتھر رکھ کر چپ ہو رہے۔ یہ پانچ چھ مہینے پہلے کی بات تھی اربیلا اطربون کی قید میں بہت روئی تھی تھی مگر اطربون نے اس پر تشدد کرکے اپنے قبضے میں ہی رکھا پھر بھی اربیلا دو تین مرتبہ اپنے محبوب اور روباش سے ملی ایک بار اطربون کو پتہ چل گیا تو اس نے اربیلا کو مارا پیٹا اور روباش کے خلاف بھی کارروائی کی ۔ روباش چونکہ فوجی افسر تھا اور اس کا کوئی دور کا تعلق شاہی خاندان سے بھی بنتا تھا اس لیے اس کے خلاف کوئی سنگین یا شدید کارروائی نہ کر سکا۔ لیکن اسے معاف کرنے پر بھی راضی نہ ہوا اس وقت روباش اسکندریہ میں تھا ۔ اطربون اس کو اسکندریہ سے بلا کر ان فوجی دستوں میں شامل کردیا جو فرما اور بلبیس کے قلعوں میں تھے یہ اس توقع پر کیا کہ روباش لڑائی میں مارا جائے گا۔اب اطربون بارہ ہزار فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے آیا تو اربیلا کو بھی ساتھ لے آیا اربیلا کے علاوہ ایک اور لڑکی بھی اسکے ساتھ تھی۔ مسلمان تو اپنی بیویوں بہنوں یا بیٹیوں کو ساتھ رکھتے تھے لیکن رومی فوج کے افسر داشتاؤں کو محاذ پر لے جاتے تھے۔ اطربون عورت کا دلادہ تھا اربیلہ کو کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ روباش بلبیس کے قلعے میں ہے ۔اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اطربون کی دوسری داشتہ اس کا ساتھ دیتی تو شاید دونوں مل کر اطربون کو زہر پیلا دیتیں یا کسی طرح اسے قتل کر دیتیں۔ لیکن دوسری داشتہ بہت خوش تھی کہ وہ اتنے بڑے جرنیل کی داشتہ ہے۔ اربیلا یہی کر سکتی تھی کہ اطربون کے مارے جانے کی دعائیں کرتی جو وہ کرتی ہی رہتی تھی آخر اس کے کانوں میں بلبیس کے آخری معرکے کے دوران یہ آواز پڑی کہ اطربون مارا گیا ہے ۔رومی فوج کی خیمہ گاہہیں بلبیس کے میدان جنگ سے دو تین میل دور تھے وہاں جو رومی ملازمین وغیرہ تھے وہ سب وہیں سے بھاگ گئے۔ اطربون کی دوسری داشتہ بھی ان کے ساتھ چلی گئی۔ اربیلا اطربون کے خیمے میں ہی رہی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی خوش قسمت ہو گئی ہے کہ اطربون مارا گیا ہے۔ بہت دیر بعد وہ خیمے سے نکلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اتنی بڑی خیمہ گاہ میں اکیلی ہے وہاں کوئی گھوڑا بھی نہیں تھا کہ وہ اس پر سوار ہو کر بھاگ جاتی اس نے بھاگ جانے کا پکا ارادہ کیا بھی نہیں تھا۔ اطربون کی موت سے بےخبر بلبیس کی طرف چل پڑی وہ روباش کی تلاش میں جا رہی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتی پھر رہی تھی کہ اسے شارینا نظر آگئی ۔ جاری ہے

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/33* کوئی بات کرو سیلی نوش!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ چپ نہ رہو تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے۔ میں تو تمہیں بہت ہی دلیر اور نڈر لڑکی سمجھا تھا نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تمہیں جس کا ڈر تھا اسے تمہارے سامنے قتل کر آیا ہوں اس سے تم بچ کر نکل آئی ہو، اپنے منگیتر کا تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے وہ تمہارا منگیتر ہے دشمن نہیں ،جتنی دیر میں اسے پتا چل آتا ہے کہ تم لاپتہ ہو ہم بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، اسے یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکے گا کہ ہم کس طرف نکل گئے ہیں ،ہوسکتا ہے اسے یہ شک ہو کہ میں تمھیں زبردستی یا ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہوں، اگر ایسا ہوا تو وہ بدوؤں کے خیموں اور جھنوپڑوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھرے گا۔ پہلے تو وہ ہامون جادوگر کے خیمے میں جائے گا ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔خون میں ڈوبی ہوئی اس کی لاش دیکھے گا تو اسے شک نہیں یقین ہوجائے گا کہ تم ہامون کو قتل کرکے مجھے اپنے ساتھ لے گئے ہو۔ وہ ہمارے پیچھے نہیں آئے گا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ویسے بھی اس سے نہ ڈرو، باقی رہا میں مجھ سے تمہارا ڈرنا بجا ہے ،میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے تمہارے دل سے اپنا ڈر نکال سکوں۔ یہ ڈر اس وقت تمہارے دل سے نکلے گا جب میں تمہیں تمہارے ماں باپ تک پہنچادوں گا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا سیلی نوش !،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ اب پھر کہتی ہوں کہ مجھے میرے ماں باپ کے پاس پہنچا دو گے تو بے بہا انعام دلاؤں گی ، ایک کام اور کرنا میرے ماں باپ کو یہ سارا واقعہ سنا نا میں نے سنایا تو شاید یقین نہ کریں، اس منگیتر کے متعلق بھی بتانا کہ یہ کس نیت کا آدمی ہے اور اس نے اپنی نیت کا اظہار کس طرح کیا تھا۔ یہ تو بتاؤں گا ہی نوشی !،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔۔لیکن بار بار انعام کا نام نہ لو مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے میں نے اپنا انعام وصول کر لیا ہے اور،،،،،، کیا کہا ؟،،،،،،نوشی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔کیا تمہارا یہ مطلب تو نہیں کہ تم نے مجھے انعام کے طور پر وصول کر لیا ہے؟،،،، کیا تم مجھے میرے باپ باپ کے پاس نہیں لے جا رہے؟ بیوقوف لڑکی!،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میری پوری بات تو سن لو میں بدّو نہیں ہوں نوشی،،،،، اور میں عیسائی بھی نہیں۔ پھر کیا ہو؟ مسلمان!،،،،،، سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔۔ میں مصری نہیں عربی ہوں اور میرا نام سیلی نوش نہیں عباس بن طلحہ ہے۔ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے میں جب تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دوں گا تو بتانا کے مسلمان کیسے ہوتے ہیں، اور ان کا کردار کیا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میں ہی ایک اچھا مسلمان ہوں میری جگہ کوئی اور مسلمان ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو میں نے کیا ہے، یہ میرے مذہب کا حکم ہے، جسے ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھتے ہیں۔ نوشی کی حیرت زدگی کا یہ عالم کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور عباس بن طلحہ کو یوں دیکھنے لگی جیسے وہ کسی اور ہی جہان کی مخلوق ہو۔ عباس کچھ آگے نکل گیا تھا اس نے دیکھا کہ نوشی اس کے ساتھ نہیں تو اس نے گھوم کر دیکھا نوشی گھوڑا روک کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر حیرت زدگی اور تذبذب کا تاثر تھا۔ اب اس کو غالباً یہ توقع تھی کہ نوشی فوراً یقین کرلے گی کے وہ مسلمان ہے، اور مسلمانوں کے متعلق اس کی رائے بدل جائے گی، اور بے اختیار کہہ اٹھے گی کہ مسلمان تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔ روک کیوں گئی نوشی؟،،،،،، عباس نے گھوڑا اس کی طرف موڑ کر کہا۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی تو کوئی بات ہی نہیں کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان بہت ہی اچھے لوگ ہوا کرتے ہیں نوشی کا ردعمل کچھ اور ہی تھا اس نے اپنے گھوڑے کی لگام اس طرح کھینچ رکھی تھی کہ گوڑا آہستہ آہستہ الٹے قدم چل رہا تھا اور نوشی اس طرح دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے بھاگ جانا چاہتی ہو۔ عباس اس سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ نوشی نے گھوڑا ایک طرف موڑ لیا۔ اب تو کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ نوشی بھاگ نکلنے کا ارادہ کر چکی ہے ۔ اب اس نے اپنے گھوڑے کو چھیڑا اور تیزی سے گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر دیا۔ نوشی کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا اس نے باگ کو زور سے ایک طرف جھٹکا دے کر گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔ میرے راستے سے ہٹ جا عرب کے بدوّ!،،،،،، نوشی نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ ہوش میں آؤ نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ ہاں کیا سمجھ بیٹھی ہو تم؟ دور رہ فریب کار!،،،،،، نوشیی نے تلوار نیام سے نکال لی اور للکار کر بولی تیرا خیال ہوگا کہ یہ شاہی خاندان کی شہزادی ہے اور شوق یہ تلوار اٹھائے پھرتی ہے، تلوار نکالو پہلے مجھے قتل کروں پھر میری لاش کے ساتھ کھیلتے رہنا لیکن مجھے آسانی سے قتل نہیں کر سکو گے۔ میں تمہیں دھوکا نہیں دے رہا نوشی!،،، میں تیرے دھوکے میں آؤں گی ہی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتی کہ مسلمان اعتماد کے قابل ہوتے ہیں؟،،،، تو مسلمان بھی نہیں عیسائی بھی نہیں تو اگر عربی ہی ہے تو صحرائی قزاق ہوگا ، تلوار نکال تجھے افسوس نہ رہے کہ میں نے تجھے مقابلے کا موقع نہیں دیا تھا۔ تمہارے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں نوشی!،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر اپنی راہ الگ لگ سکتا ہوں ،میں اپنے ایک فرض کو نظرانداز کر رہا ہوں لیکن میں ایک مسلمان ہوکر ایک نوجوان لڑکی کو اس بیان میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ہو سکتا ہے کوئی قزاق آ نکلے وہ تمہیں میری طرح نیک نیتی اور احترام سے اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔ نوشی اتنی بھپری ہوئی تھی کہ اب اس کا اثر قبول کر ہی نہیں رہی تھی، اور اسے تلوار لہرا لہرا کر للکار رہی تھی۔ عباس نے آخر تلوار نکالی اور اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی۔ پھر کمر بند سے خنجر نکالا اور وہ بھی پھینک دیا، پھر کچھ ایسی باتیں کی کہ نوشی کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا۔ میرے دو سوالوں کا جواب دونوں۔۔۔ نوشی نے پوچھا۔۔۔ تم یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم نے کونسا انعام وصول کر لیا ہے؟ میں جاسوس ہوں ۔۔۔عباس نے جواب دیا ۔۔۔میں بہت آگے جاسوسی کے لئے گیا تھا اب واپس اپنے لشکر میں جا رہا تھا، انعام یہ وصول کیا ہے کہ تم سے اور تمہارے منگیتر سے مجھے بڑی قیمتی معلومات ملی ہے ،یہ تو میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تمہاری فوج کیوں پیچھے ہٹتی جارہی ہے، اب تم نے اس کی تصدیق کردی ہے ،جو مجھے معلوم ہوا تھا اور تم سے اور تمہارے منگیتر سے دو تین نئی باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ اسے میں اپنے لئے اور اپنے لشکر کے لئے بہت بڑا انعام سمجھتا ہوں ۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بھی بہت بڑا انعام ہے کہ اس ہامون جادوگر کو قتل کردیا ہے۔ اسلام اس توہم پرستی اور پیشنگوئیوں کو نہیں مانتا ۔آنے والے وقت کے راز صرف اللہ جانتا ہے۔ اور وہی ہے جو بگڑے کام سنوارتا ہے ۔ہامون نے سیدھے سادے اور پسماندہ لوگوں کو محض فریب کاری سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ مجھے اس کے سوا کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ایک شیطان تمہیں دھوکہ دے کر بے آبرو کرنا چاہتا تھا، اور مسلمان کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ تمھیں اس سے بچاؤں۔ تم مجھے میرے باپ تک پہنچانے چلے ہو ۔۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔کیا تم میرے باپ کو یہ بتانا چاہوں گے کہ تم اصل میں کون ہو، اور کیا ہو؟،،،،،،، میرا خیال ہے تم ایسا نہیں کرو گے، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری اصلیت اپنے باپ سے چھپائے رکھوں گی، کیا یہ انعام نہیں ہوگا؟،،، میرا باپ تمہیں گرفتار کر لے گا قتل بھی کروا سکتا ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ میں تمہارے باپ تک پہنچوں گا ہی نہیں نوشی!،،،، عباس نے کہا ۔۔۔مجھے کوئی لالچ اور کوئی ترغیب نہ دو نہ مجھے ڈرانے کی کوشش کرو ،تمہیں بلبیس شہر کے باہر چھوڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دوں گا اور جب تک تم اپنے باپ تک پہنچوں گی میں بڑی دور نکل گیا ہوں گا،،،، میں تمہیں پھر کہتا ہوں ہوش میں آؤ تمہارے وہم نے ہمارے درمیان ایسی صورت پیدا کر دی ہے جیسے تم مجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہو،اور میں تمہیں ورغلا کر اغوا کرنا چاہتا ہوں ،تو یہ میرا راستہ ہے اور وہ تمہارا راستہ ہے۔ روم کے شاہی خاندان کی اس لڑکی پر اب ایسی خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو، یا وہم سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہو۔ گھوڑے سے اترو!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میری تلوار اور خنجر اٹھاؤ اور اپنے پاس رکھو اور میرے ساتھ چل پڑو۔ نوشی عباس کے چہرے پر نظریں جمائے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر گھوڑے سے اتری عباس کی تلوار اور اس کا خنجر اٹھایا اور یہ دونوں ہتھیار کسی کو پیش کرنے کے انداز سے ہاتھوں پر رکھے اب اس کے پاس گئی اور دونوں ہتھیار اس کی طرف کر دیے ۔عباس نے اسے کہا کہ وہ تلوار اور خنجر اپنے پاس رکھے لیکن نوشی نے کچھ کہنے کے بجائے سر ہلایا کہ وہ اپنے پاس نہیں رکھے گی۔ عباس نے ہتھیار لے لیے اور نوشی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس نے عباس کو سر سے اشارہ کیا کہ چلو دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو بلبیس کی طرف چل پڑے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* تمہارے شاہی خاندان میں شارینا نام کی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔۔۔ عباس نے پوچھا۔۔۔ تم اسے جانتی ہوگی؟ جانتی ہوں !،،،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ وہ ھرقل کی بیٹی تھی وہ تو کچھ عرصہ ہوا ایسی غائب ہوئی کہ اس کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تم اسے کس طرح جانتے ہو؟ اس طرح کہ وہ ہمارے پاس ہے۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔ہم میں سے کسی نے اسے اغوا نہیں کیا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ایک دوست کے ساتھ آ گئی تھی، اور اب اس کی بیوی ہے میرا یہ دوست میری طرح جاسوس ہے، وہ جاسوسی کے لیے گیا تھا شارینا سے ملاقات ہوئی اور دلی محبت نے دونوں کو ایک کر دیا۔ میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھی ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ تو میری گہری دوستی تھی بڑی اچھی لڑکی تھی کیا وہ تمہارے یہاں خوش رہتی ہے؟ میں تمہیں بتاؤں گا تو تم مانو گی نہیں۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔۔ خود جاکر دیکھو تو یہ تمہیں یقین آئے گا کہ وہ کتنی خوش ہے وہ واقعی بہت اچھی خاتون ہیں، میں اتنا ہی کہوں گا کہ وہ تو بھول ہی گئی ہے کہ روم کے بادشاہ کی بیٹی ہے ، ہمارے ہاں فضاء ہی کچھ ایسی ہے، اور ماحول ایسا جس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں محبت اور خلوص ہے۔ کچھ دیر تک شارینا کی باتیں ہوتی رہیں ،اور نوشی بڑی دلچسپی سے پوچھتی رہی کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کے لئے معاشرتی اور دیگر حالات کیسے ہیں؟ عباس اسے بتاتا گیا۔ معلوم نہیں دل میں یہ بات کیوں آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کچھ دیر خاموش رہے کر کہا ۔۔۔کچھ ایسی خواہش ابھر رہی ہے کہ تمہارے ساتھ ہی چلی چلو ،کچھ ایسا لگتا ہے جیسے تم سے جدا ہو کر مجھے دلی افسوس ہوگا ،اس بدبخت منگیتر نے میرا دل مسل ڈالا ہے ،اور میں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں، یہ بات بھی دل میں کھٹکنے لگی ہے کہ میرے شاہی خاندان میں عزت و غیرت اور حمیت ختم ہوتی جارہی ہے شاہی خاندان میں بدکاری ایک جائز رواج کی طرح چلتی ہے۔ مجھے تم نے دیکھ لیا اور اب تمہارے مقابلے میں تلوار نکال لی تھی۔ میں نے تمہارے متعلق ایسی کوئی بات سوچی ہی نہیں۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ اور میں ایسی بات سوچوں گا بھی نہیں تم جو سوچنا چاہتی ہوں سوچتی رہو میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ ایک سوچ اور آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ تمہارے ساتھ تو چلے چلو لیکن معلوم نہیں تمہارا خاندان کیسا ہے؟،،،، میرا مطلب یہ ہے کہ,,,,,,,,,,, میں تمہارا مطلب جان گیا ہوں عباس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ تم یہ معلوم کرنا چاہتی ہو کہ میں تم بھی تمہاری طرح شاہی خاندان کا فرد ہوں، یا میرے خاندان کی حیثیت کیا ہے ؟،،،،اگر میں کہہ دوں کہ میں بہت ہی امیر کبیر خاندان کا فرد ہوں تو تم میرے ساتھ چل پڑوں گی ورنہ نہیں۔ نوشی ہنس پڑی اس کی ہنسی کا مطلب یہی ہوسکتا تھا کہ عباس بن طلحہ ٹھیک سمجھا۔ تم سن کر شاید حیران ہوگی نوشی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔اسلام میں کوئی شاہی خاندان نہیں ہوتا ہم جنہیں اپنا حکمران بناتے ہیں وہ بھی شاہی خاندان کے نہیں ہوتے ،ہم سب ایک ہیں اور سب کے حقوق اور سب کی حیثیت مساوی ہے ،اگر ہمارے خلیفہ ہمارے لشکر میں آ جائیں تو تم مانو گی ہی نہیں کہ یہ شخص ایک فاتح قوم کا سب سے بڑا سردار ہے، تم کہو گی کہ یہ تو بالکل عام سا آدمی ہے، اسلام میں بادشاہ اور رعایا کا کوئی تصور نہیں، بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی ہمارا ایمان ہے، میں نے تمہیں اس لئے اس شیطان سے نہیں بچایا کہ تم بڑی خوبصورت اور شاہی خاندان کی لڑکی ہو، بلکہ اس لئے کہ تم مجبور اور بے سہارا لڑکی ہو، اور جذبات میں آکر غلط اور پرخطر راستے پر چل نکلی تھی۔ تو کیا مسلمانوں کے متعلق جو کچھ سنتی رہی ہوں وہ غلط ہے؟،،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔میں نے سنا ہے کہ مسلمان لوٹیرے اور وحشی لوگ ہیں۔ مجھ سے نہ پوچھو ۔۔۔عباس نے کہا ۔۔۔ہم نے مصر کے دو بڑے شہر عریش اور فرما فتح کئے ہیں، اس کے درمیان اور اردگرد بے شمار گاؤں ہیں وہاں جاکر عیسائیوں سے پوچھنا کہ مسلمانوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے، تمہیں اپنے سوال کا جواب مل جائے گا,,,,,,,,,, میں شاہی خاندان کا ہی فرد ہوں اور تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا ، کیونکہ تم میرے ہاتھ میں ایک امانت ہو,,,,,,,, اپنے ماں باپ کی امانت,,,,,,, میرے مذہب کا حکم ہے کہ امانت ان تک پہنچاؤ جن کی ملکیت ہے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷* ٹھہرو!،،،،،، عباس نے گھوڑے کی باگ کھینچ کر کہا۔۔۔ گھوڑے کی ٹاپ سن رہی ہو۔ نوشی نے بھی اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کان کھڑے کیے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ بڑی ہی دور کی آواز کی طرح سنائی دے رہے تھے ،وہ گھوڑسوار کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ان دونوں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ نوشی کے منگیتر کو جب پتہ چلے گا کہ نوشی اور سیلی نوش غائب ہیں تو وہ ان کے تعاقب میں ضرور آئے گا، یہ گھوڑسوار نوشی کا منگیتر ہوسکتا تھا ،اور وہ کوئی بدو بھی ہو سکتا تھا ،کسی نے دیکھ لیا ہوگا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور سیلی نوش نوشی کے ساتھ لاپتہ ہے ،قتل کا شک بلکہ یقین انہیں پر ہوسکتا تھا۔ لہذا کوئی بدو ان کے تعاقب میں آرہا ہوگا۔ گھوڑے کے ٹاپ اب واضح ہوگئے تھے اور لگتا تھا جیسے گھوڑا انہی کی طرف آرہا ہے۔ اور دونوں مڑ مڑ کر دیکھتے چلتے ہی گئے۔ گھوڑا خاصی تیز دوڑتا آ رہا تھا ان دونوں کی رفتار معمولی تھی پورا چاند اوپر آگیا تھا اور جنگل کی چاندنی پہلے سے زیادہ شفاف ہو گئی تھی ۔اب جو انہوں نے پیچھے دیکھا تو انھیں گھوڑا نظر آنے لگا وہ رک گئے ۔ وہ گھوڑسوار کوئی عام مسافر ہوتا تو معمول کی چال چلتا لیکن وہ سرپٹ گھوڑا دوڑاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بالکل قریب آ گیا۔ نوشی!،،،،، گھوڑسوار نے للکار کر کہا۔۔۔ اتنی آسانی سے نہیں جا سکوں گی ، تلوار نکال لے او بدو پھر نہ کہنا کہ میں نے تجھے مقابلے کی مہلت نہ دی تھی۔ وہ نوشی کا منگیتر ہی تھا۔ وہ تلوار لہراتا رہا تھا ۔ اس نے گھوڑا روکا اور عباس کو للکار کر گھوڑا عباس اور نوشی کے اردگرد آہستہ آہستہ دوڑانے لگا۔ میں تجھے موقع دیتا ہوں اے رومی !،،،،،عباس بن طلحہ نے کہا۔۔۔ میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں لے جا رہا اسے اس کے ماں باپ کے پاس لے جا رہا ہوں۔ جھوٹے بدو!،،،،، منگیتر نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تو اسے کہاں لے جا رہا ہے۔ نوشی نے عباس سے کہا کہ وہ تلوار نکال لے اور اس کے ساتھ کوئی بات نہ کرے۔ نوشی نے اپنی تلوار نکال لی منگیتر نے کچھ ایسے ناروا باتیں کہہ دی کے عباس کو تلوار نکال نی ہی پڑی ۔ ورنہ عباس کی کوشش یہ تھی کہ لڑنے تک نوبت نہ آئے، مگر منگیتر غصے سے باؤلا ہوا جا رہا تھا اور بڑھ بڑھ کر تلوار عباس کے آگے لہراتا تھا۔ آخر عباس اور نوشی کے منگیتر میں تیغ زنی شروع ہوگئی دونوں اپنے گھوڑوں کو گھما پھرا کر اور پینترے بدل بدل کر ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے۔وار روک بھی رہے تھے، دونوں ماہر تیغ زن تھے۔ تلوار ٹکراتی اور جسموں سے دور رہتی تھی۔ نوشی بھی تلوار لہرا کر منگیتر پر حملہ آور ہوئی لیکن عباس نے اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیا اور کہا کہ ایک کے مقابلے میں دو تلواروں کا آنا بزدلی ہے،،،،،،، ان کی لڑائی تیز اور تیز تر ہوتی چلی گئی نوشی اس قدر غصے میں بپھری ہوئی تھی کہ وہ اس لڑائی سے الگ رہ نہ سکی باربار درمیان میں آتی تھی لیکن دو مردوں کی لڑائی میں اس کی دخل اندازی کامیاب نہیں ہوتی تھی۔ عباس بار بار اسے پیچھے رہنے کو کہتا تھا۔ آنے دے آگے اسے ۔۔۔۔منگیتر نے غضب ناک آواز میں کہا۔۔۔ اسے میری ہی تلوار سے مرنا ہے تم دونوں زندہ نہیں جاسکوگے۔ تم پیچھے ہٹ جاؤ عباس!،،،، نوشی نے کہا۔۔ یہ میرے ہاتھوں مرنا چاہتا ہے۔ پیچھے رہ نوشی !،،،،،عباس نے گرج کر کہا۔۔۔ میں اسے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ منگیتر گھوڑا ایک طرف لے گیا اور ان دونوں کے اردگرد دوڑانے لگا۔ کیا نام لیا ہے اس کا؟،،،، منگیتر نے پوچھا عباس بن طلحہ۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ میرا نام سیلی نوش نہیں، میں مسلمان ہوں۔ ہاہا ۔۔۔۔منگیتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ اب منگیتر قہر اور غضب سے عباس پر حملہ آور ہوا لیکن عباس کی تلوار منگیتر کے پہلو میں اتر گئی عباس نے تلوار کھینچ کر اس کی گردن پر ایسا وار کیا کہ آدھی گردن کاٹ دی منگیتر گھوڑے سے ایک طرف گر پڑا۔ چلو نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے اسے زندہ رہنے کا بہت موقع دیا تھا لیکن اسے اسی انجام کو پہنچنا تھا۔ نوشی کی طرف سے عباس کو کوئی جواب نہ ملا جیسے نوشی وہاں تھی ہی نہیں۔ عباس نے ادھر دیکھا جدھر نوشی کو ہونا چاہیے تھا لیکن ادھر نوشی کا گھوڑا کھڑا تھا اور نوشی گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں تھی۔ عباس کو نوشی زمین پر گری نظر آئی، عباس کود کر گھوڑے سے اترا اور نوشی تک پہنچا نوشی کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے۔ عباس نوشی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟،،،،، نوشی درد سے کراہتی اتنا ہی کہہ سکی کہ بدبخت مرتے مرتے تلوار میرے سینے میں اتار گیا ہے، یہ نوشی کے آخری الفاظ تھے اور اس کا سر ایک طرف ڈھک گیا۔ عباس کو پتا ہی نہیں چل سکا تھا کہ نوشی کو اس کے منگیتر نے کس وقت اور کس طرح تلوار ماری تھی اس لیے عباس بار بار نوشی سے کہتا تھا کہ وہ دور رہے نوشی کسی وقت اتنی قریب آگئی تھی کہ اس کا منگیتر اس پر وار کر گیا۔ عباس بن طلحہ نے دونوں کی لاشیں وہیں چھوڑی، ان کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھی اور چل پڑا وہ اتنی اچھی نسل کے گھوڑے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسے ذرا سا بھی افسوس نہ ہوا کہ اتنی خوبصورت لڑکی ماری گئی ہے، اسے اطمینان ہوا کہ اللہ نے اسے اس فرض سے سے جو اس نے خود ہی اپنے لئے پیدا کرلیا تھا جلد ہی سبکدوش کر دیا ہے اور اس نے امانت میں خیانت نہیں کی۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اسی رات کی بات ہے کہ سیلی نوش اور نوشی ،بدوّ کے جادوگر ہامون کو قتل کرکے بدو ملازم اور منگیتر کو سوتا چھوڑ کر وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ مطمئن تھے کہ منگیتر اور ملازم کو پتہ نہیں چلا کہ یہ دونوں یہاں سے چلے گئے ہیں دونوں کچھ دور نکل آئے تھے۔ منگیتر کو موت اس طرف لے آئی تھی ورنہ نوشی اور عباس کو خیمے سے غائب پا کر وہ ان کی تلاش میں کسی اور طرف چل پڑا تھا۔ پھر وہ اس طرف کیوں آگیا؟،،،،، اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ منگیتر کو عباس کے ہاتھوں ہی قتل ہونا تھا اور اصل جواب بھی مل گیا وہ اس طرح کہ جب عباس نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں وہیں چھوڑ کر اور ان کے گھوڑے ساتھ لے کر ذرا ہی دور گیا تھا کہ اسے اسی طرف سے جس طرف سے منگیتر آیا تھا دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگے، عباس نے یوں نہ کیا کہ ادھر ادھر ہو کر یا کہیں چھپ کر دیکھتا کہ اب کون آرہا ہے ،اس نے گھوڑا وہیں روک لیا اور آنے والے گھوڑسوار کا انتظار کرنے لگا۔ گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز قریب تر آتے گئ، کچھ ہی دیر بعد شفّاف چاندنی میں اسے گھوڑا اور گھوڑسوار کا ہیولہ نظر آنے لگا وہ کوئی اکیلا آدمی تھا صاف نظر آتا تھا کے اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہے۔ عباس نے اپنا ایک ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھ لیا وہ کوئی بدوّ ہی ہوسکتا تھا۔ وہ گھوڑسوار اس جگہ رک گیا جہاں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ گھوڑے سے اترا اور دونوں لاشوں کے پاس بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا چاندنی تو بڑی صاف تھی لیکن اتنی دور سے چہرہ نہیں پہچانا جاتا تھا ۔ عباس کو یوں لگا جیسے وہ نوشی کا بدو ملازم ہے۔ عباس اس کی طرف چل پڑا وہ بدو ملازم ہی تھا۔ جو عباس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ عباس گھوڑے سے اترا اور اس کے پاس چلا گیا اس ملازم سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے کہ وہ ملازم تھا اور دوسرے اس لیے کہ وہ بدو تھا۔ یہ کیا ہوا ہے؟،،،، بدوّ ملازم نے ڈھیلی سی آواز سے پوچھا۔ اس بدقسمت کو موت ادھر لے آئی تھی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔۔اور تمہاری یہ شہزادی اسی منگیتر کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے یہ شخص میری تلوار سے مارا گیا ہے کیا تم انکے پیچھے آئے ہو۔ میں شہزادی کے پیچھے آیا تھا۔۔۔ ملازم نے جواب دیا ۔۔۔بڑی اچھی شہزادی تھی مجھے ملازم سمجھتی ہی نہیں تھی اس کے آنسو نکل آئے۔ بدو ملازم نے عباس بن طلحہ کو بتایا کہ منگیتر کس طرح اس طرف آگیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ جب عباس اپنے خیمے سے زینیں لےکر نکل رہا تھا تو اس ملازم کی آنکھ کھل گئی تھی وہ چونکہ چھوٹی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے عباس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کی کہ وہ زینیں کہا لے جا رہا ہے۔ لیکن یوں کیا کہ جب عباس نکل گیا تو ملازم نے اٹھ کر اسے دیکھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ ملازم نے عباس کو گھوڑوں پر زین کستے دیکھا پھر عباس اور نوشی کو گھوڑوں پر سوار ہوتے دیکھا ،اور پھر یہ دیکھا کہ وہ کس طرف گئے ہیں اس نے یہ جرات بھی نہ کی کہ نوشی کے منگیتر کو بتاتا کہ عباس اور نوشی کہیں چلے گئے ہیں وہ اپنے خیمے میں جا کر بیٹھ گیا۔ خاصا وقت گزر گیا تو بدو ملازم نے نوشی کے منگیتر کو دیکھا کہ وہ خیمے سے نکل کر چند قدم آگے جا روکا تھا اور ہامون کے خیمے کی طرف دیکھ رہا تھا ذرا دیر وہاں رک کر منگیتر ہامون کے خیمے کی طرف چلا گیا، اس وقت ملازم اپنے خیمے سے باہر آیا اور منگیتر کو دیکھنے لگا اس وقت بھی اس نے یہ ہمت نہ کی کے منگیتر کو بتا دے کہ وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں؟ کچھ وقت بعد منگیتر دوڑتا ہوا اپنے خیمے کی طرف آیا اس وقت ملازم آگے ہوا اور پوچھا کہ وہ کیوں دوڑا رہا ہے ؟،،،،منگیتر نے اسے بتایا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور وہ بدو (عباس )اور نوشی کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ تم ضرور جانتے ہو گے کہ بدو کہاں رہتے ہیں؟،،،، نوشی کے منگیتر نے ملازم سے کہا۔۔۔ وہ بدو ہامون کو قتل کرکے نوشی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے وہ یقیناً اسے اپنے گھر لے گیا ہے تم آؤ اور میرے ساتھ چلو اور مجھے بتاؤ کہ یہ بدوّ کہاں کہاں رہتے ہیں ،ان کے سردار سے مجھے ملاؤ۔ ملازم ابھی اسے کچھ بتا ہی نہیں سکا تھا کہ منگیتر دوڑتا اپنے خیمے میں گیا اور زین اٹھا لایا اس نے ملازم سے کہا کہ فوراً اپنی زین اٹھا لایا اور گھوڑا تیار کرے۔ ملازم نے اسے بتایا کہ سیلی نوش اور نوشی اس طرف نہیں گئے جدھر بدو رہتے ہیں ۔وہ فرما یا بلبیس کی طرف گئے ہیں۔ یہ بدوّ سیلی نوش نہ فرما جائے گا نہ بلبیس نوشی کے منگیتر نے بھپری آواز میں کہا ۔۔۔تم یہ بتاؤ کیا اس طرف بھی بدوؤں کے کوئی قبیلے رہتے ہیں؟ بہت دور جا کر راستہ دائیں کو مڑتا ہے۔۔۔ ملازم نے جواب دیا۔۔۔ یہ راستہ خاصہ آگے جا کر پھر دائیں کو مڑتا ہے اور کچھ اور آگے جا کر ایک علاقہ آتا ہے جس میں بدووں کے دو قبیلے رہتے ہیں۔ کیا تم سیلی نوش کو جانتے ہو ؟،،،،منگیتر نے پوچھا۔۔۔ وہ کون سے قبیلے کا سردار ہے۔ نہیں!،،،، ملازم نے جواب دیا۔۔۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا مجھے کچھ ایسا شک بھی ہوتا ہے کہ یہ شخص بدو ہے ہی نہیں۔ مجھے بھی یہی شک ہے۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ وہ لڑکی کو لے اڑا ہے تم بھی میرے ساتھ چلو۔ ملازم نے غلامانہ سے انداز سے بات کرتے ہوئے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ گھوڑا اتنی تیز نہیں توڑا سکتا اور اگر کہیں لڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ لڑ بھی نہیں سکے گا،،،،،،،، نوشی کا منگیتر اس قدر غصے اور ایسی جلدی میں تھا کہ ملازم کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کیا اور گھوڑا دوڑ دیا۔ ملازم نے عباس کو بتایا کہ نوشی کا منگیتر تو چل پڑا لیکن وہ خود وہاں زیادہ دیر رک نہ سکا اس نے سوچا کہ اب اپنے ہی گھر چلا جائے اور واپس بلبیس نہ جائے وہ شاہی محل کی سیاست سے تنگ آ گیا تھا یہ سوچ کر وہ اپنے قبیلے کی طرف چلنے لگا تو اسے نوشی کا خیال آگیا اس نے سوچا کہ ایسا نہ ہو نوشی واپس بلبیس چلی جائے تو پھر وہ اپنے دو چار فوجی اس کے قبیلے میں بھیج کر اسے گرفتار کروا کے بلا لے گی۔ اصل بات یہ تھی کہ بدو ملازم کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکا اور بلبیس کی طرف چل پڑا۔ اس نے راستے میں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں دیکھی تو وہ وہیں رک گیا۔ عباس نے اسے سنایا کہ یہ دونوں کس طرح مرے ہیں پھر اسے کہا کہ وہ بلبیس جائے تو نو شی کے ماں باپ کو بتائے کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ لیکن ملازم نے کہا کہ اب تو وہ اپنے قبیلے میں ہی جائے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ وہ بلبیس گیا تو نوشی کا جرنیل باپ غصے میں اسے ہی قتل کر دے گا۔ یہ مسئلہ عباس بن طلحہ کا نہیں تھا ۔نوشی کے والدین کو اطلاع ملتی نہ ملتی۔بدوّ ملازم وہاں جاتا یا اپنے قبیلے میں چلا جاتا۔ عباس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ عباس فرما کی طرف چل پڑا۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* عباس بن طلحہ ڈیڑھ یا دو دنوں کی مسافت کے بعد فرما پہنچا اور سیدھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس گیا۔ عباس عمرو بن عاص کے جاسوسی کے اس نظام کا ایک بڑا ہی قابل اور دانشمند فرد تھا جو انہوں نے سارے مصر میں ایک جال کی طرح پھیلا دیا تھا۔ عباس ایک مہینے اور کچھ دن بعد جاسوسی کا مشن پورا کرکے واپس آیا تھا کوئی نئی خبر لائے ہو؟،،، عمرو بن عاص نے عباس سے پوچھا۔۔۔ عباس نے اپنی جاسوسی کی پوری رپورٹ سپہ سالار کو پیش کی اور آخر میں نوشی اور ہامون کا واقعہ سنایا کوئی ایک بھی بات چھپائی نہیں اور ذرا ذرا سی تفصیل سنا ڈالی۔ سپہ سالار نے عباس کو ہلکی سی سرزنش کی کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ لڑکی کے منگیتر کی بجائے وہ منگیتر کے ہاتھوں قتل ہو جاتا۔ میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا سپہ سالار!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے جب لڑکی کی زبانی سنا کے وہ ان بدوؤں کو رومی فوج میں شامل کرنے کے لئے آئی ہے، اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ بدوؤں کا جو لشکر مسلمانوں سے جا ملا ہے اسے ورغلا کر مسلمانوں سے ہٹایا جائے تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اپنی شناخت بدل کر ان کے ساتھ ھو لوں۔ یہ دیکھنا بہت ہی ضروری تھا کہ یہ لوگ کیا کاروائی کرتے ہیں اور انھیں کچھ کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہمارے لیے یہ معاملہ بڑا ہی اہم اور نازک تھا،،،،،،، اس ہامون جادوگر کو میں نے ایک تو اس وجہ سے قتل کیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی کی آبروریزی کرنا چاہتا تھا جو اس کے لیے رضامند نہیں تھی، اور اس سے نفرت کرتی تھی، اسے قتل کرنے کا دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے پتہ چلا کہ بدووں کے سرداروں پر اس کا ایسا اثر ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر چلتے ہیں میں نے سوچا کہ ایسا نہ ہوجائے کہ یہ شخص اس لڑکی کو حاصل کرنے کی خاطر سرداروں سے کہہ دے کہ وہ اپنا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوجی کو دے دیں، میں نے ہامون کو قتل کرکے یہ خطرہ ہی ختم کردیا۔ پھر شاہی خاندان کی یہ لڑکی بھی ماری گئی اور اس کا منگیتر بھی اب ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اس علاقے کے بدو رومیوں سے جا ملیں گے اور ہمارے پاس آئے ہوئے بدوّ ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے،،،،،، یہ بھی دیکھیں سپہ سالار!،،،، ان دونوں سے کتنی اہم معلومات مل گئی ہے بعض معلومات کی تصدیق ہو گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ مقوقس اور اطربون آپس میں متفق نہیں کہ وہ مصر کا دفاع کس طرح کریں۔ مقوقس محتاط رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اور اطربون لڑنے کے حق میں ہے۔ اس رومی لڑکی نے مجھے بتایا تھا کہ ہرقل نے ان دونوں کو پورے اختیارات دے دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ قبطی عیسائیوں پر نظر رکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بغاوت کردیں اس صورت میں مصر کو مسلمانوں سے بچانا ممکن نہیں رہے گا،،،،، لڑکی شاہی خاندان کی تھی اس لیے میں نے اس کی ہر بات قابل اعتماد سمجھی، وہ ہرقل کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی اور کہتی تھی کہ وہ ہمت ہار بیٹھا ہے، شام کی شکست نے اس کی کمر توڑ دی ہے، اس لئے مصر سے دور رہنا چاہتا ہے کہ ایک اور شکست کا داغ اس کے ماتھے پر نہ لگے۔ یہ بدوّ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔انہیں ہم نے فرما کا مال غنیمت اسی حساب سے دیا ہے جس حساب سے ہم نے اپنے لشکر میں تقسیم کیا ہے وہ بہت ہی خوش ہیں۔ آخری فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے سپہ سالار!،،،، عباس بن طلحہ نے مشورہ دیا۔۔۔ میں جو کچھ دیکھ آیا ہوں اس کے پیش نظر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کو کمک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور فوراً پیش قدمی کرکے بلبیس پہنچنا چاہیے رومیوں کو سنبھلنے اور دم لینے کا موقعہ نہ دیں انہیں سوچنے کی مہلت نہ دیں۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی وہ غیر معمولی طور پر دانشمند اور جرات مند تھے ان میں خالد بن ولید والی صفات پائی جاتی تھی ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا کہ عمرو بن عاص کو مصر پر حملے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ خالد بن ولید کی طرح بے خطر اور بےدھڑک ایسے خطروں میں کود جاتے ہیں ،جہاں مجاہدین کے پورے لشکر کی ہلاکت صاف نظر آنے لگتی ہے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار عمروبن عاص کمک کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھے انہوں نے پہلے ہی لشکر کو تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا اور اپنے ماتحت سالاروں اور کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ وہ دشمن کے تعاقب میں رھیں اور اسے دم نہ لینے دیں۔ *جاری ہے۔*

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/37* بڑی مضبوط چوڑی اور اونچی دیواروں کے حصار میں بلبیس کا شہر آباد تھا۔ ان دیواروں کے اندر بھی جگہ جگہ لاشیں پڑی تھیں ان میں بے ہوش، زخمی بھی تھے۔ شارینا کو معلوم تھا کہ ہتھیار کہاں ڈلوائے جا رہے ہونگے۔ اندر ایک بڑا وسیع و عریض میدان تھا شارینا سب سے پہلے قیدیوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔ شارینا اور اربیلا اس میدان سے ابھی کچھ دور ہی تھی کہ انھیں رومی فوجیوں کی ایک ٹولی آتی نظر آئی تعداد میں وہ پچیس تیس ہونگے۔ تین چار مجاہدین انہیں ہانک کر میدان کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ٹولی ان دونوں کے قریب سے گزری تو اچانک اربیلا چلائی روباش ۔۔۔وہ اس ٹولی کی طرف دوڑ پڑی تھی، شارینا بھی اس کے پیچھے دوڑی، روباش نے اربیلا کو دیکھا تو ٹولی سے نکل آیا۔ اوئے رومی۔۔۔۔ ایک مجاہد نے روباش کو ڈانٹ کر کہا ۔۔۔کدھر چل پڑے!،،،،،،، اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہو، تم قیدی ہو۔ اگر یہ مجاہد روباش کو دھکیل کر پھر ٹولی میں شامل نہ کردیتا تو روباش کو پتا ہی نہ چلتا کہ مجاہد نے کیا کہا تھا کیونکہ مجاہد عربی بول رہا تھا اور روباش یہ زبان نہیں سمجھتا تھا ۔ شارینا نے اربیلا کو وہیں روک لیا اور کہا کہ وہ چہرے پر پہلے کی طرح نقاب ڈال لیے۔ تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔مجاہد نے ان دونوں سے کہا۔۔۔ دوسری عورتوں کے ساتھ جا کر اپنا کام کرو یہاں تماشہ دیکھنے کے لئے مت روکو۔ شارینا نے اربیلا کو ساتھ لیا اور فوراً وہاں سے چل پڑی اور بڑی تیزی سے چلتی ہوئی شہر سے نکل گئی معلوم نہیں اس مجاہد نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رومی فوج کا ایک افسر انہیں دیکھ کر ان کی طرف کیوں چل پڑا تھا؟ شارینا یہ خطرہ محسوس کرتی ہی رہی کے روباش سے پوچھا جائے گا کہ وہ ان لڑکیوں کی طرف کیوں جا رہا تھا؟ شارینا اربیلا کو ساتھ لئے بڑی ہی تیز چلتی اپنے خاوند حدید کے پاس پہنچی۔ اس نے اربیلا کو حدید سے متعارف کروایا اور وہ ساری بات سنائی جو اربیلا نے اسے سنائی تھی یہ بھی بتایا کہ انہوں نے روباش کو قیدیوں میں دیکھا ہے اگر اسے رہائی مل جائے تو یہ دونوں اسلام قبول کرلیں گے،،،،، حدید نے اپنے ساتھیوں کو بتایا حدید اور اس کے ساتھی جاسوسی کے نظام کے مجاہدین تھے ان کا سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ براہ راست تعلق تھا یہ مسئلہ سپہ سالار کا تھا اور وہی اس کا آخری فیصلہ دے سکتے تھے۔ اس وقت سپہ سالار کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شہر ابھی ابھی فتح ہوا تھا سپہ سالار نہ جانے کہاں کہاں گھوم پھر رہے تھے۔ انہیں شہر کا نظم ونسق کو بحال کرنا تھا اور ہر طرف کی رپورٹ لینی تھی اور سب سے زیادہ نازک اور اہم کام سرکاری مال غنیمت اکٹھا کرنے کا تھا۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہ ہو اور لوٹ مار بھی نہ ہو ۔مجاہدین تو لوٹ مار کو گناہ سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ مصری بدو تھے جو اس افرا تفریح اور نفسانفسی میں اسلامی اصولوں کے خلاف ورزی کا موقع نکال سکتے تھے۔ حدید ، شارینا اور اربیلا کو ساتھ لئے سپہ سالار کی تلاش میں چل پڑا تلاش بسیار کے بعد سپہ سالار مل گئے لیکن ایسی حالت میں کہ وہ شہر کے چند ایک سرکردہ افراد اور اپنے دو نائب سالاروں کے ساتھ مصروف تھے۔ انتظار میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا وہاں کوئی مسجد تو تھی نہیں ایک مجاہد نے باہر کھڑے ہوکر اذان دی اور وہی سب باجماعت نماز کے لیے اکٹھا ہو گئے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنی سرگرمیاں ملتوی کردی اور امامت کے لیے آ گئے۔ یہ موقع اچھا تھا نماز سے فارغ ہوتے ہی حدید سپہ سالار سے ملا اور انہیں اربیلا اور روباش کے متعلق ساری بات سنائی سپہ سالار نے حکم دے دیا کہ روباش نام کے رومی افسر کو قیدیوں سے نکال کر انکے خیمے میں پیش کیا جائے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷* عمرو بن عاص نماز کے بہت دیر بعد اپنے خیمے میں آئے تو روباش وہاں موجود تھا ۔حدید، شارینا، اور اربیلا بھی تھے۔ عمرو بن عاص نے چاروں کو خیمے میں بٹھایا اور پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے سب سے پہلے اربیلا نے بولنا شروع کیا اور وہ ایسی روئی کہ بولنے کے لیے دشوار ہو گیا اپنے آپ کو سنبھال کر اس نے وہی بات سنائی جو وہ شاعینا کو سناچکی تھی۔ اب تم کیا چاہتی ہو؟،،،،، عمرو بن عاص نے پوچھا اس سوال کا جواب مجھ سے سنیں۔۔۔۔ روباش نے کہا۔۔۔۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں مظلوم انسان ہوں اور مجھے رہائی چاہیے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا میں اس ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا جس ملک میں کسی کی عزت اور آبرو ہی محفوظ نہ ہو اور ایک جرنیل اپنا قانون چلاتا پھرے۔ ہرقل وہ بادشاہ ہے جس نے اپنا ہی مذہب رائج کردیا ہے اور بزور شمشیر لوگوں کو اپنے مذہب میں لا رہا ہے۔ میں نے مسلمانوں کے متعلق بہت کچھ سنا ہے اگر یہ سب صحیح ہے تو میں آپ کا مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں ۔ اربیلا کی بھی یہی خواہش ہے میں تجربے کار فوجی افسر ہوں میری خدمات آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔ اگر آپ نے مجھے قید میں ہی رکھنا ہے تو سوچ لیں کہ آپ ایک قیمتی انسان کو ضائع کر رہے ہیں ۔ میں عیسائی ہو لیکن رومی حکمرانوں سے انتقام لینے کو بے تاب ہوں۔ عمرو بن عاص اتنی آسانی سے کسی غیر کی باتوں میں آنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ انہوں نے روباش کے ساتھ ایسی گفتگو کی جس سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ یہ رومی افسر قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ شارینا نے سپہ سالار کو یہ بتایا کہ وہ اربیلا کو بچپن سے جانتی ہے اور اخلاقی لحاظ سے قابل تعریف ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ خاصی لمبی اور بامقصد گفتگو کے بعد عمرو بن عاص نے فیصلہ دے دیا کہ روبا ش اور اربیلا کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا جائے اس طرح روباش اور اربیلا نے عمرو بن عاص کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اس کے ساتھ ہی عمرو بن عاص نے اسلامی اصول کے مطابق دونوں کا نکاح پڑھوا دیا ۔ سپہ سالار نے یہ حکم بھی دیا کہ ان دونوں کو اسلامی اصولوں سے پوری طرح آگاہ کردیا جائے اور انہیں نماز پڑھنی سکھا دی جائے،،،،،،،، ایسا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ نظام موجود تھا جو نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کرتا تھا۔ مسلمان جس بستی کو فتح کرتے تھے وہاں کئی لوگ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے فوراً ہی ان کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق شروع ہوجاتی تھی۔ سپہ سالار عمرو بن عاص مصر سے تو واقف تھے ،لیکن وہ اس وقت مصر کئی بار آئے تھے جب انہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور وہ تجارت کے سلسلے میں آیا کرتے تھے وہ سب سے زیادہ اسکندریہ سے متاثر تھے اس کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اب عمرو بن عاص جس خطے میں پیش قدمی کر رہے تھے اس سے بھی وہ واقف تھے ،لیکن اتنا نہیں جتنا اب ضرورت محسوس ہو رہی تھی، انہوں نے اس وقت مصر کو کسی اور نگاہ سے دیکھا تھا اب وہ اس علاقے کو جنگی نگاہ سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے جاسوس انہیں معلومات فراہم کر رہے تھے لیکن انہیں وہ غالباً کافی نہیں سمجھتے تھے۔ اب رومی فوج کا ایک افسر ان کے ہاتھ آگیا تھا صحیح اور مکمل معلومات تو اس سے مل سکتی تھی انہوں نے روباش کا نام فاروق اور اربیلا کا نام فاطمہ رکھا تھا۔ تم فوج کے افسر ہو فاروق!،،،،،، عمر بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تم ایک اس دستے کی قیادت کرنے والے ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہوں لیکن ابھی میں تمہیں کسی دستے کی کمان نہیں دوں گا۔ تم تھوڑا ہی عرصہ میری جاسوسی نظام میں رہو گے تمہیں شب خون مارنے کے لیے بھی بھیجا جائے گا میں تمہیں نہایت اہم فرد سمجھتا ہوں، ابھی میری ضرورت یہ ہے کہ مجھے دریا نیل تک اور اس سے کچھ آگے کی معلومات مل جائے، یہ تو میں جانتا ہوں کہ آگے دو تین اور قلعے ہیں لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے میں ان قلعوں کے احوال و کوائف معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ سے بہتر اور کون آپ کو یہ باتیں بتا سکتا ہے۔۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہاں سے آپ پشقدمی کریں گے تو تھوڑی دور جاکر صحرا آجائے گا اس سے آگے اس قدر سرسبزوشاداب اور خوشنما علاقہ آجائے گا جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا ۔نیل کے کنارے پر ایک شہر ام دنین آباد ہے جو بڑا مضبوط قلعہ بند شہر ہے اس کے بالکل قریب دریا کا گھاٹ ہے جہاں کشتیاں بھی کھڑی رہتی ہیں اور درمیانہ درجے کے بادبانی جہاز بھی ہیں ،فرعونوں نے اپنے زمانے میں اس شہر کو اپنا دارلحکومت بھی بنایا تھا دراصل مصر کا دفاعی نظام یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ کی جرات اور آپ کے جذبے کا بڑا ہی سخت امتحان انہیں قلعوں پر ہوگا جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو میں یہ کہنے کی جرات کرونگا کہ آپ کے ساتھ جو لشکر ہے اس کی تعداد بہت کم ہے اس قلعے کے اندر جو رومی فوج ہے اس کی تعداد آپ کے لشکر سے بہت زیادہ ہے،،،،،،، اس قلعے میں اور آگے آنے والے ہر قلعے میں جو رومی فوج ہے اس میں ایک ایسی کمزوری ہے جو آپ کو فائدہ دے سکتی ہے، وہ یہ کہ اس فوج پر آپ کا ایسا رعب طاری ہے کہ جب آپکی فوج سے نعرے بلند ہوتے ہیں تو رومی فوج کے ہر سپاہی کے چہرے پر خوف اور بزدلی کا تاثر آجاتا ہے۔ آپ نے بلبیس فتح کیا ہے ۔اس فتح میں آپ ہاتھ ایک اتنا بڑا قلعہ بند شہر اور بے شمار مال غنیمت ہی نہیں آیا بلکہ آپ کی فوج ایک دہشت بن کر رومی فوج پر طاری ہو گئی ہے ۔وہ جو رومی فوجی بلبیس سے بھاگ گئ ہے وہ جہاں بھی جائی گی وہاں آپ کا رعب طاری کرتے جائی گ مختصر یہ کہ جو جذبہ آپ کے لشکر میں ہے وہ رومی فوج میں نہیں،،،،،،،، ام دنین کے جنوب میں چند میل دور بابلیون کا بہت بڑا قلعہ بند شہر ہے میں آپ کو پورے خلوص سے مشورہ دیتا ہوں کے اس قلعے کو سر کرنے کے لیے یہ لشکر نہ لے جائیں۔ کیونکہ یہ بہت ہی کم ہے اور شہر کے اندر اتنی زیادہ فوج ہے کہ اس نے باہر آکر آپ کے لشکر پر حملہ کردیا تو آپ کے قدم اکھڑ جائیں گے ۔اس قلعے کی دیواروں پر پتھر پھینکنے والی منجیقیں بھی نصب ہیں یہ آپ کے لشکر کو بہت نقصان پہنچائے گی، اس قلعے کی دیواریں بہت ہی چوڑی اور پتھریلی ہے ان میں آپ شگاف نہیں ڈال سکیں گے ۔یہ فرعونوں کا تعمیر کیا ہوا قلعہ ہے جسے رومیوں نے آکر اور زیادہ مضبوط کردیا ہے رومی اسے ناقابل تسخیر قرار دیتے ہیں جو غلط نہیں،،،،، دریا کے پار فیوم ایک اور قلعہ بند شہر ہے یہ بھی مضبوطی کے لحاظ سے کچھ کم نہیں جب تک آپ ام دنین اور بابلیون کوفتح نہ کرلیں آپ فیوم تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے ،کیونکہ آپ سیدھے چلے جائیں گے تو بابلیون کے اندر کتنی فوج ہے جس کا کچھ حصہ فیوم کا محاصرہ توڑنے کے لیے آپ پر عقب سے حملہ کردے گی ،اگر آپ کو کمک مل جائے تو پھر آپ بابلیون تک کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ ان تمام علاقے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کریں کہ فرعونوں کے احرام اسی علاقے میں ہے اور ابوالہول کا مجسمہ بھی اسی علاقے میں ہے۔ یوں سمجھ لیں کے جس نے یہ وسیع و عریض علاقہ لے لیا اس نے پورا مصر فتح کر لیا ۔ہمیں مقوقس اور اطربوں نے اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا تھا کہ امدنین، بابلیون اور فیوم تک اگر مسلمان پہنچ گئے تو یہ رومیوں کے لئے زندگی اور موت کی جنگ ہوگی، اگر رومی ہار گئے تو ان کا مصر میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا ۔ اور ہرقل نے شام سے نکلتے وقت کہا تھا اے ملک شام الوداع اب ہم کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ اگر آپ یہ جنگ جیت گئے تو ہرقل مصر کے ساحل پر کھڑا ہو کر یہی الفاظ کہے گا الوداع مصر اب ہم کبھی یہاں نہیں آ سکیں گے۔ عمر بن عاص فاروق کی یہ تفصیلات غور سے سنتے رہے اور کچھ سوال بھی کرتے گئے اس طرح اس علاقے کا بڑا ہی واضح اور شفاف نقشہ ان کے سامنے آگیا۔ پھر انہوں نے فاروق سے پوچھا کہ قبطی عیسائیوں کا رویہ کیا ہے؟،،،،،، اور کیا ایسا امکان موجود ہے کہ وہ ھرقل کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ کبھی ان پر بھروسہ نہ کریں۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ قبطی عیسائی جنگ کے دوران رومی فوج کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے لیکن بنیامین بڑا دانشمند اور دوراندیش آدمی ہے وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اس نے ہرقل کو ناراض کردیا اور فاتح اسی کی ہوئی تو مصر میں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس کے علاوہ ہرقل کا بنایا ہوا اسفق اعظم قیرس بھی بڑا دانشمند اور ہوشیار آدمی ہے وہ ایسی چال چلے گا کہ قبطی عیسائیوں کو اپنا گرویدہ بنا لے گا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ قیرس اور بنیامین کی سیاست بازی کو سمجھیں اور قبطیوں پر بھروسہ نہ کریں بھروسہ اسی لشکر پر کریں جو اس وقت آپ کے پاس ہے یہ تھوڑا ہے خواہ زیادہ ہے یہ آپ کی اپنی طاقت ہے یہی آپ کے کام آئے گی۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔ مدینہ سے چلی ہوئی کمک ابھی تک عمرو بن عاص تک نہیں پہنچی تھی۔ عمروبن عاص نے بلبیس کی فتح کی پہلی ہی رات امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوا کر کہ انھوں نے ایک اورقلعہ فتح کرلیا ہے۔ اوراب کمک کے بغیر آگے ایک قدم بھی اٹھانا ایسے خطرے میں کود جانے کے مترادف ہوگا جس میں پورے لشکر کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے۔ قاصد کو مدینہ کے لیے دوڑا دیا تھا۔ ان کو ابھی یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ کمک مدینہ سے چل پڑی ہے۔ اگلے روز نماز فجر کے بعد عمرو بن عاص نے اپنے نائب سالاروں اور ان سے چھوٹے عہدیداروں کو بلایا یہ ایک اہم اجلاس تھا۔ میرے رفیقو!،،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ میں تم سب کو بڑے امتحان میں ڈال رہا ہوں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اپنے لشکر کی جسمانی حالت کو میں دیکھ رہا ہوں اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہاں سے ہمیں فوراً پیش قدمی کرنی چاہیئے اور ہم آگے آنے والے کسی قلعے کو محاصرے میں لے لیں ،ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ مصر پر فوج کشی کے مخالفین نے جن میں بزرگ صحابی عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کہا تھا کہ میں اندھا دھند خطروں میں کود پڑتا ہوں اور میں پورے لشکر کو کسی انجان خطرے میں ڈال کر مروا دوں گا۔ میرے مخالفین نے غلط نہیں کہا تھا لیکن میں اندھا دھند کوئی خطرہ قبول نہیں کرتا۔ میں سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر خطرے میں داخل ہوا کرتا ہوں۔ ائے سپہ سالار!،،،،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔۔اس وقت ہمارا سامنا ان مخالفین سے نہیں جو مصر پر حملے کے خلاف تھے ،ہمارا سامنا رومی فوج سے ہے جو آگے آنے والے قلعوں میں موجود ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ اس دشمن کی بات کریں۔ تو نے میرے دل سے بوجھ اتار دیا ہے میرے رفیق۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ رومی فوج کو دم لینے اور سستانے کی مہلت نہ دی جائے اگر ہم یہی بیٹھے کمک کا انتظار کرتے رہے تو رومیوں کو یہ تاثر ملے گا کہ ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہے ۔ اور ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد رومی فوج سے خائف ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم یہاں بیٹھے رہے تو کسی بھی وقت رومی فوج آکر بلبیس کو محاصرے میں لے لے گی اور ہمارے لئے رسد رک جائے گی۔ یہ سوچ لو کہ رومی فوج کے لئے پیچھے ہٹنے کو پورا مصر پڑا ہے مگر ہم مات کھا گئے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا نہ کہیں پناہ ملے گی۔ میں رومی فوج پر اپنے لشکر کی دہشت اور اس کا رعب برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ میں اتنا بھی تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم تھک گئے ہیں اور کچھ دن سستا کر اگلا قدم اٹھائیں گے۔ کیا ہمیں کمک کی توقع رکھنی چاہیے یا نہیں۔۔۔۔ ایک سالار نے پوچھا۔ کمک آرہی ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ایسا سوچو ہی نہیں کہ کمک نہیں آئے گی کیا تم سب امیرالمومنین سے واقف نہیں وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے،،،،، میرا ارادہ اور فیصلہ یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر ام دنین کو محاصرے میں لے لیں گے۔ اور اپنی پوری طاقت صرف کرکے یہ قلعہ سر کریں گے اگر ہم اللہ کی مدد سے کامیاب ہوگئے تو اس گھاٹ پر کھڑے تمام جہاز اور کشتیاں ہماری ہوگی پھر ہمیں دریائے نیل پار کرنے کی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ حالات کا اور احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ عمرو بن عاص پیش قدمی کا خطرہ مول نہ لیتے اور کمک کا انتظار کرتے لیکن وہ اللہ تعالی کی ذات باری پر بھروسہ رکھنے والے اور خطروں میں کود جانے والے سپہ سالار تھے۔ انہیں اپنے آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے فیصلوں کے خلاف کسی کی کوئی بات نہیں سنتے تھے۔ سالاروں اور عہدے داروں نے کچھ مشورے دیے عمرو بن عاص نے کچھ مشورے قبول کئے اور کچھ رد کئے اور آخر یہ پلان بنا کے فوری طور پر پیش قدمی کی جائے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷* ادھر مقوقس نے ام دنین اور بابلیون میں مزید فوج بھیج دی تھی، اس سے پہلے مقوقس اس خوش فہمی میں مبتلا رہا تھا کہ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے اور اتنی تھوڑی نفری کسی بھی قلعے کو فتح کرنے کے لیے کافی نہیں ،اس خوش فہمی کے زیر اثر اس نے یہ پھندا تیار کیا تھا کہ مسلمانوں کو اور آگے آنے دیا جائے اور پھر انہیں نرغے میں لے کر بالکل ہی نیست و نابود کردیا جائے گا۔ لیکن جو ہوا وہ اس کی توقعات کے بالکل الٹ تھا مسلمانوں نے بلبیس جیسا ہر لحاظ سے مضبوط قلعہ بھی لے لیا اور جرنیل اطربون کو مار بھی ڈالا۔ اطربون کی لاش نے اور ہرقل کے پیغام نے مقوقس کو خوش فہمیوں سے نکال دیا تھا۔ ہرقل کا بنایا ہوا اسقف آعظم قیرس بھی اس کے ساتھ مل گیا تھا ،اور قیرس نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بنیامین کو بھی راضی کر لے آئے گا ۔ اور اب کیا سایوں کو اپنے محاذ پر لے جائے گا۔ اب مقوقس کی سوچیں بدل گئی تھیں اس نے ان دو قلعہ بند شہروں کو نا قابل تسخیر بنانے کے لئے نئی تیار کی ہوئی فوج استعمال کی، ام دنین میں بھی اس نے فوج میں اضافہ کردیا لیکن اس کی زیادہ توجہ بابلیون پر تھی اسے احساس تھا کہ بابلیون ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مصر کو مسلمانوں سے بچانا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔ اس نے بابلیون میں فوج میں جو اضافہ کیا تھا وہ صرف اس شہر کے دفاع کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ مقوقس کا پلان یہ تھا کہ مسلمان جدھر بھی حملہ کریں گے وہ بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرے گا۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کو نومسلم فاروق نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آگے دفاعی نظام کیسا ہے۔ اس نے عمروبن عاص کو بابلیون سے خبردار کر دیا تھا اس کے باوجود عمرو بن عاص اسی علاقے میں جا رہے تھے۔ عمرو بن عاص نے صرف ایک دن انتظار کیا اور وہ بھی اس لیے کہ بلبیس شہر کا نظم و نسق اور دیگر امور بحال کرنے کے انتظامات کرنے تھے ۔ اگلے ہی روز نماز فجر کے بعد انہوں نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا پیش قدمی سے پہلے انہوں نے لشکر سے انتہائی مختصر خطاب کیا اس خطاب کے الفاظ کچھ مختلف ہوں گے اس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تمہارے دین کا دشمن جب بھاگ اٹھے تو اس کے تعقب میں جاؤ اور اس کا ٹھکانہ بھی تباہ کر دو مجھے احساس ہے کہ ہماری نفری بہت تھوڑی ہے لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ کمک آرہی ہے۔ مدینہ سے کمک شاید کچھ دیر سے پہنچے لیکن اللہ نے فرشتوں کی کمک تمہارے ساتھ کردی ہے۔ میں تمہیں جس خطرے میں لے جا رہا ہو وہاں تم میرے حکم سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لڑو گے، یاد رکھنا اسلام کے مجاہدوں کہ ہم یہاں پیٹ گئے تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی، یہاں کی زمین یہاں کے پیڑ اور پتھر اور یہاں کے ریت کے ذرے بھی تمہارے دشمن ہیں اللہ کا نام لیکر آگے بڑھو۔ مقوقس بابلیون میں آگیا تھا اسے مسلمانوں کی پیشقدمی کی اطلاعات تواتر سے مل رہی تھیں مجاہدین جب ام دنین کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے توجہ نہیں کی تھی کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دو ایک مسافر آ جا رہے تھے۔ ظاہری طور پر وہ بے ضرر لوگ معلوم ہوتے تھے لیکن وہ مقوقس کے جاسوس تھے جو مجاہدین کے لشکر کو دیکھ رہے تھے کے اس کا رخ کس طرف ہے اور اس کی نفری کتنی کچھ ہے۔ مجاہدین کی نفری تو اور ہی زیادہ کم ہو گئی تھی بلبیس کی لڑائی میں مجاہدین شہید بھی ہوئے اور شدید زخمی بھی ہوئے تھے ، معمولی طور پر زخمی ہونے والے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ وہ ابھی لشکر کے ساتھ نہ جائیں، اور اس وقت آگے آئے جب ان کے زخم ٹھیک ہو جائیں گے لیکن انہوں نے لشکر کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ لڑنے کے قابل ہیں اور پیچھے نہیں رہیں گے۔ نفری میں مزید کمی اس لیے بھی ہوئی تھی کہ مجاہدین کی کچھ تعداد بلبیس میں رکھنی تھی شہریوں میں نظم ونسق بحال کرنے کے علاوہ کئی اور سرکاری امور تھے جن کی دیکھ بھال ضروری تھی وہاں تین ہزار قیدی بھی تھے ان پر بھی کچھ نفری مقرر کر دی گئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ مجاہدین کا لشکر کتنے دنوں بعد ام دنین پہنچا یہ شہر کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا کہ کئی دن لگ جاتے بہرحال لشکر پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ مسلمانوں کے دو چار جاسوس پہلے ہی اس شہر میں موجود تھے لشکر ابھی شہر کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ یہ جاسوس شہر سے نکل آئے کیونکہ محاصرے کی صورت میں دروازے بند ہوجانے کی وجہ سے وہ باہر نہیں آ سکتے تھے۔ انھیں سپہ سالار کو ضروری اطلاعات کی معلومات دینی تھی ،عمرو بن عاص کو بتایا کہ شہر میں رسد اور پانی کی کمی ہے اور یہ دونوں چیزیں باہر سے اندر جاتی ہیں ۔ عمرو بن عاص کے لیے یہ اطلاع بڑی ہی اہم تھی انہوں نے رسد کے راستے بند کردیئے اور پانی بھی روک لیا۔ عمرو بن عاص کو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ جب ام دنین کو محاصرے میں لے گے تو بابلیون سے فوج نکل کر محاصرے پر حملہ کرے گی، عمرو بن عاص کے ساتھ لشکر پہلے ہی کم تھا جو محاصرے کے لیے بھی کافی نہیں تھا ۔ لیکن اسی کم لشکر میں سے انہیں ایسا انتظام بھی کرنا تھا کہ عقب سے حملہ آئے تو اس کا مقابلہ کیا جا سکے اس طرح انہیں محاصرہ کر کے دونوں طرف نظر رکھنی پڑھی۔ تقریباً تمام مستند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ہر وقت توقع تھی کہ مقوقس بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرے گا۔ لیکن وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ اس نے یہ کاروائی کیوں نہ کی ۔ بابلیون ام دنین کے جنوب میں چند میل دور تھا تاریخ میں صحیح فاصلہ نہیں لکھا غالبا دس اور پندرہ میل کے درمیان تھا۔ مشہور غیر مسلم مورخ ایلفریڈ بٹلر نے لکھا ہے کہ بابلیون سے مقوقس نے فوج نہیں نکالی تھی جس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس کے پیش نظر اطربون کا انجام تھا اگر اطربون نے بلبیس کے محاصرے کے دوران عقب سے جا کر مسلمانوں پر حملے کیے تھے لیکن مارا گیا، مقوقس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کھلے میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی اسے اپنی فوج کے مورال کا بھی اندازہ تھا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ رومی فوج اسی پر حیران رہ گئی تھی کہ مسلمانوں نے اتنی تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ام دنین کو آ کر محاصرے میں لے لیا ہے۔ *جاری ہے۔*

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/40* دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے فیصلہ سنا دیا کہ کل صبح بعد نماز فجر بابلیون کی طرف کوچ ہوگا ،اور اس شہر کو محاصرے میں لیا جائے گا ۔ یہ توقع ہی نہیں تھی کہ رومی قلعہ سے باہر آ کر لڑیں گے،،،،، ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک جاسوس بابلیون سے آیا اس نے عمرو بن عاص کو یہ خبر سنائی کہ رومی باہر آ کر لڑیں گے جاسوس نے بابلیون کی فوج کو کھلی لڑائی کی مشق کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔اور پھر وہاں بنائے ہوئے اپنے ذرائع سے معلوم کر لیا تھا کہ اب مقوقس اور تھیوڈور محاصرے میں نہیں آئیں گے بلکہ بابلیون سے دور آ کر مجاہدین اسلام کو للکاریں گے۔ عمرو بن عاص نے اسی وقت اپنے سالاروں کو طلب کیا اور خوشخبری کے انداز سے یہ خبر سنائی، تمام سالار یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے انہیں پوری امید تھی کہ رومیوں کو میدان کی کھلی جنگ میں ٹکنے نہیں دیں گے۔ عمروبن عاص نے سب سے پہلے تو اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں انہوں نے رومیوں کو لا کر لڑانا تھا۔ پھر انہوں نے سالاروں کو لڑائی کی ترتیب سمجھا دیں۔ یہ بھی کہا کہ پیشتر اس کے کہ رومی شہر سے نکل کر کسی اور جگہ للکاریں فوراً کوچ کر کے اپنی پسند کے میدان میں پہنچ جائیں۔ رومی مجبور ہو جائیں گے کہ وہاں آئیں۔ عشاء کی نماز کے وقت بابلیون سے ایک اور جاسوس آگیا جس نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ اطلاع دی کہ آج دوپہر رومی فوج شہر سے نکل آئی ہے، اور اس کا رخ عین شمش کی طرف ہے، اس جاسوس نے رومی فوج کی تعداد بھی بتائیں جو مجاہدین کی تعداد سے کئی گناہ زیادہ تھی۔ عشاء کی نماز کی امامت کروا کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجاہدین سے یوں خطاب کیا کہ پہلی بار رومی کھلے میدان میں آ رہے ہیں ،اور ان کی تعداد ہم سے بہت ہی زیادہ ہے تم نے کبھی تعداد کی پرواہ نہیں کی، کیا یہ ہمارا ایمان نہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، جس نے اتنی کم تعداد کے باوجود ہمیں نیل تک پہنچا دیا ہے؟ اسلام کے مجاہدوں میں ایک بات پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں وہی بات اب بھی کہوں گا ،اگر میدان جنگ سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں جاسکے گا، ہمارا تو نام و نشان مٹ ہی جائےگا، مصر میں اسلام کے لیے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔ اس خطاب کے بعد عمرو بن عاص نے کہا کہ صبح نماز فجر کے فوراً بعد کوچ ہوگا۔ یہ تو انہوں نے رات کو ہی لشکر کو بتا دیا تھا کہ رومی فوج باہر نکل آئی ہے اور اب اس کا ارادہ کھلے میدان میں لڑنے کا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عمرو بن عاص کی جنگی پالیسی اور چالیں خالد بن ولید کے عین مطابق تھی، انتہائی خوفناک خطرہ مول لینے میں یہ دونوں تاریخ ساز سپہ سالار ایک جیسے تھے۔ عمرو بن عاص نے فوج کی ترتیب سالاروں کو سمجھا دینے کے علاوہ ایک اقدام یہ کیا کہ پانچ پانچ سو جانبازوں کے دو دستے الگ کر دیئے، ایک دستے کے قائد خارجہ بن حذافہ، اور دوسرے کے مقداد بن اسود تھے، یہ صحابی تھے اور کمک کے ساتھ ایک ایک دستے کے سالار کی حیثیت سے آئے تھے۔ عین شمس اور بابلیون کے درمیانی علاقے میں کچھ علاقہ پہاڑی تھا جس میں بڑے بڑے کشادہ غار بھی تھے، اس علاقے کو بنو وائل کہتے تھے۔ ایک جانباز دستے کو بن وائل کے غاروں کی طرف روانہ کردیا گیا ،اور دوسرے کو ام دین کے قریب ایک پہاڑی سلسلے میں جا کر چھپ جانے کو بھیج دیا گیا۔ ان دونوں دستوں کو رات کو ہی روانہ کر دیا گیا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے۔ نماز فجر کے فوراً بعد باقی لشکر نے کوچ کیا۔ آج اس علاقے کو عباسیہ کہتے ہیں جہاں یہ لشکر جا پہنچا اس دور میں یہ وسیع و عریض میدان ریگستانی ہوا کرتا تھا ۔حسب معمول جاسوس مختلف بہروپوں میں آگے بھیج دیئے گئے تھے۔ ادھر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے جنہوں نے تھیوڈور کو جا کر اطلاع دی کہ مسلمانوں کا لشکر عباسیہ کی طرف آرہا ہے۔ تھیوڈور یہ خبر سن کر بہت ہی خوش ہوا اس نے اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ اسے توقع یہ تھی کہ مسلمان عین شمس کے کھنڈروں سے باہر نہیں آئیں گے اور انہیں مار بھگانے میں مشکل پیش آئے گی، تھیوڈور نے اپنی فوج کو وہیں روک لیا۔ سلطنت روم کے جانبازوں!،،،،، تھیوڈور نے بڑی بلند اور جوشیلی آواز میں اپنی فوج سے خطاب کیا ۔۔۔۔تمہارا دشمن آج تک تمہیں بزدل اور کمزور سمجھتا رہا ہے آج وہ تمہارے سامنے آ کر لڑنے آرہا ہے۔ اس کی تعداد تمہاری تعداد کے نصف بھی نہیں ہے، آج ثابت کرکے دیکھا دو کہ بزدل کون ہے ،اگر تم اس میدان سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر اتنے زرخیز اور خزانوں سے بھرے ہوئے ملک سے محروم کر دیئے جاؤ گے، سلطنت روم بحیرہ روم کے پار سکڑ جائے گی، پھر تمہاری قسمت میں مسلمانوں کی غلامی یا بحیرہ روم میں ڈوب مرنا لکھ دیا جائے گا۔ آج قسم کھا لو کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کو کاٹ کر اس ریگستان میں پھینک دو گے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ تمام فوج نے بلند آواز میں خدا کے نام پر قسم کھائی کہ وہ فتح حاصل کریں گے ورنہ جانیں دے دیں گے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* میدان جنگ عین شمس اور بابلیون سے دور نہ تھا ۔ سورج جب سر پر آیا اس وقت دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہو چکی تھیں۔ عمرو بن عاص درمیان والے دستوں کے سامنے گھوڑے پر سوار تھے ۔ ادھر تھیوڈور بھی اپنی درمیانی والی فوج کے سامنے گھوڑے پر سوار تھا۔ عمرو بن عاص کے کہنے پر ان کا ایک محافظ سوار آگے بڑھا اور بلند آواز سے رومیوں سے کہا کہ حملے میں پہل تم کرو تا کہ تمہیں افسوس نہ رہے کہ عرب کے مسلمانوں نے تمہیں موقع نہیں دیا تھا۔ عمرو بن عاص کے اس محافظ نے اپنا اعلان ختم کیا ہی تھا کہ تھیوڈور نے حملے کا حکم دے دیا۔ عمرو بن عاص کی پہلے دی ہوئی ہدایت کے مطابق پہلو والے دستے اور زیادہ دائیں اور بائیں کو چلے گئے ،سپہ سالار نے دیکھ لیا تھا کہ رومی ایک ہجوم کے مانند ہلہ بول رہے ہیں، یہ انہیں پہلے ہی توقع تھی اس کے مطابق انہوں نے مجاہدین کو ہدایت دے رکھی تھی۔ جب مجاہدین کے پہلو والے دستے اور زیادہ باہر کو ہوگئے تو اس کے مطابق رومی سواروں کو بھی پھیلنا پڑا ۔ عمرو بن عاص یہی چاہتے تھے۔ عمرو بن عاص نے بڑھتے ہوئے رومیوں کا سامنا کیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دستوں سے کہا کہ لڑتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا تاکہ دشمن اور آگے آجائے۔ تاریخ میں اس لڑائی کو معرکہ عین شمس کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ مصر کی لڑائیوں میں یہ معرکہ سب سے زیادہ خونریز اور تیز تھا۔ کیونکہ وہ ایسا ریگزار تھا جس میں ریت کے ساتھ مٹی بھی تھی اس لیے اس قدر زیادہ گرد اٹھی کے دونوں طرف کے آدمی اس میں چھپ گئے اور دوست اور دشمن کی پہچان محال ہو گئی۔ مجاہدین کے جو دستے دائیں اور بائیں پھیل گئے تھے انہیں انکے سالار دشمن کے پہلوؤں میں لے گئے، اور پہلوؤں سے حملہ کیا جس سے دشمن کے سپاہی کٹنے لگے ،اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ رومی دونوں پہلوؤں کے دباؤ سے اندر کو اکٹھے ہونے لگے جس سے ان کے لیے پینترے بدلنے کی جگہ نہ رہی، ان کے گھوڑے آگے پیچھے سے اور دائیں بائیں سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے تھے۔ کثیر تعداد دشمن کو ایسی ہی چال سے بے بس کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو عمرو بن عاص کی جنگی فہم و فراست نے کر دیا۔ لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ مجاہدین پر حاوی ہوتے نظر آنے لگے تھے۔ تھیوڈور بڑی اچھی چالیں چل رہا تھا اور اس کے احکام بڑی تیزی سے دوسرے جرنیلوں تک پہنچ رہے تھے۔ اپنی فوج کو یوں سکڑتا اور بے بس ہوتا دیکھ کر تھیوڈور نے فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور پھر پھیلا دیا ،معلوم ہوتا تھا کہ رومی فوجیوں نے جو قسم کھائی تھی وہ پوری کرکے ہی رہیں گے۔ تھیوڈور نے فوج کو پیچھے ہٹا کر پھر جو حملہ کیا وہ کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا ۔اس نے مجاہدین کے پھیلاؤ کے مطابق اپنے دستے کو پھیلا دیا تھا۔ گردوغبار میں چھپا ہوا سورج آگے چلا گیا، اور مغرب کی طرف نیچے جانے لگا اس وقت مجاہدین نے اپنے سالاروں کی قیادت میں پھر وہ پوزیشن حاصل کر لی تھی کہ رومی فوج پھر اندر کی طرف سُکڑ و سمٹ گئی اس وقت اس فوج پر عقب سے قیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ بنو وائل کے غاروں میں چھپا ہوا منتخب جانبازوں کا پانچ سو کا دستہ تھا ،جو وہاں اشارے کا منتظر تھا سپہ سالار نے ان کی طرف قاصد دوڑا دیا اور اس دستے کے سردار نے پیغام ملتے ہیں ان سے رومیوں پر حملہ کر دیا۔ رومی یہ سمجھے کہ یہ مسلمانوں کا کوئی اور لشکر ہے جو عقب سے آگیا ہے ۔ رومی فوجیوں پر جو دہشت پہلے ہی طاری تھی اور جسے تھیوڈور کے خطاب نے اور قسم نے دبا لیا تھا وہ پھر ابھر آئی، اور فوجیوں کے دلوں کو گرفت میں لے لیا۔ رومی فوجی بوکھلا اٹھے اور ہجوم کی صورت میں لڑائی سے نکل کر ام دنین کی طرف بھاگنے لگے ،رومی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا تھا اور ان کی ترتیب ٹوٹ گئی تھی وہ ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح ام دنین کی طرف نکلے۔ جونہی وہ پہاڑی کے قریب سے گزرے تو اس پہاڑی کے غاروں میں سے جاں باز مجاہدین کا دوسرا پانچ سو کا دستہ نکلا اور ان رومیوں پر ٹوٹ پڑا ۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اب رومیوں کو یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کا ایک نہیں بلکہ تین لشکر ہیں۔ رومیوں کی کوئ ترتیب رہی نہیں تھی، اور وہ جرنیلوں کے قابو سے نکل گئے تھے، وہ ایسے خوفزدہ ہوئے کے اپنے دفاع میں بھی نہ لڑے وہ صرف پسپا ہونے اور زندہ نکل جانے کی کوشش میں تھے۔ جانباز مجاہدین نے ان کا ایسا قتل عام کیا کہ شاید ہی کوئی رومی زندہ نکلا ہوگا۔ یہ خالد بن ولید کی ایک خصوصی چال تھی جس سے وہ اس رومی فوج سے زیادہ تعداد کی فوج کو بھی بے بس کر کے ختم کر دیا کرتے تھے۔ بھاگنے والے بہت سے فوجی واپس بابلیون میں جا پناہ گزین ہوئے، لیکن بابلیون کے اندر جو فوج تھی اس نے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا پھر سنا کے مجاہدین نے کس طرح رومی فوجیوں کو کاٹا ہے تو وہ قلعہ بابلیون سے بھاگ اٹھے ،دریائے نیل کے کنارے بے شمار کشتیاں فوج کے استعمال کے لیے بندھی رہتی تھی بھگوڑے فوجی ان کشتیوں پر جا چڑھے اور ملاحوں کو ڈرا کر کشتیاں کھلوا لی اور دریا پار کر گئے۔ مقوقس بابلیون میں تھا وہ اپنی فوج کا یہ حشر دیکھ رہا تھا لیکن اس کی بے بسی اور کسمپرسی کا یہ عالم کے اس نفسانفسی اور کھلبلی پر قابو نہیں پایا جا سکتا تھا۔ اگر وہ فوجیوں کی اس ذہنی کیفیت میں انہیں روکتا تو وہ فوجیوں کے ہاتھوں بھی قتل ہو سکتا تھا۔ عمرو بن عاص بابلیون پر حملہ کرتے تو شاید یہ قلعہ بھی لے لیتے لیکن جاسوسوں نے انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فوج باہر بھیج کر خاصے دستے بابلیون میں ہی تیار رکھے گئے تھے۔ یہ مقوقس اور تھیوڈور کی احتیاطی تدبیر تھی انہیں احساس تھا کہ ان کی فوج پسپا بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مسلمانوں کا بابلیون پر حملہ متوقع ہو سکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے بابلیون میں اچھی خاصی فوج دفاع میں رکھی ہوئی تھی۔ عمرو بن عاص نے بہتر سمجھا کے بابلیون پر طاقت صرف کرنے کی بجائے باہر جو رومی فوج خوفزدگی کے عالم میں بھاگتی اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہے اسے ختم کر لیا جائے۔ کئی ایک مؤرخوں نے لکھا ہے کہ متعدد فوجی افسر اسکندریا کو بھاگ گئے تھے، رومی فوج جو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مری تھی اس کی تعداد کسی بھی مؤرخ نے نہیں لکھی۔ صرف یہ لکھا ہے کہ جانی نقصان کا کوئی شمار نہ تھا مجاہدین اسلام نے ایک دو اور قلعے بغیر لڑے لے لیے ۔ لیکن ان کی اصل فتح یہ تھی کہ رومیوں کی تمام تر فوج پر مجاہدین کی دہشت طاری ہو گئی تھی ۔ اور اب یہ فوج کچھ عرصے کے لئے لڑنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ *=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اب تو ہرقل نے مقوقس کو بخشا ہی نہیں تھا، شہروں اور قلعوں کی بات الگ تھی مسلمانوں نے اب جو فتح حاصل کی تھی اس سے انہیں نیل کے دونوں کناروں کا قبضہ مل گیا تھا۔ مقوقس نے تو ہرقل کو یقین دلا رکھا تھا کہ وہ عرب کے ان بدوؤں کو نیل تک پہنچنے ہی نہیں دے گا ۔ معرکہ عین شمس سے رومی فوج جس طرح تتر بتر ہو کر بھاگ گئی اس سے فیوم کا تمام علاقہ خالی رہ گیا تھا ۔عمروبن عاص نے آگے بڑھ کر اس تمام علاقے پر قبضہ کرلیا۔ فیوم کا ذکر پہلے آ چکا ہے یہ علاقہ اس قدر وسیع و عریض تھا کہ اسے مصر کے ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ عمروبن عاص کے حکم سے اس صوبے کے بڑے شہروں میں مسلمانوں کے عمال پہنچ گئے اور انہوں نے ان لوگوں سے وہ ٹیکس وصول کرنے شروع کر دیے جو ان پر عائد ہوتے تھے ۔ تاریخوں میں آیا ہے کہ ان لوگوں پر بھی مسلمانوں کا ایسا رعب بیٹھ گیا تھا کہ انہوں نے بلا چوں وچرا ٹیکس ادا کرنے شروع کردیے ۔ تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ فاتح مسلمان رومی فوج کے افسروں اور دیگر حاکموں کو پکڑ کر زنجیروں میں باندھ دیتے اور پھر اپنے سپہ سالار کے سامنے لے جاتے ہیں اور سپہ سالار انہیں سزا دیتا ہے۔ اس صوبے میں جو مسلمان عمال حاکم مقرر کیے گئے انہیں عمرو بن عاص نے بڑی سختی سے حکم دیا تھا کہ لوگوں کی حیثیت دیکھ کر اس کے مطابق ٹیکس وصول کرے اور کسی کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملے۔ ہرقل تک اس شکست کی خبر پہنچانا مقوقس کا فرض تھا اور مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل بڑا ہی شدید ہوگا۔ یہ تو مقوقس دیکھ چکا تھا کہ ہرقل اپنی شام کی شکست اور وہاں سے پسپائی پر پردہ ڈالنے کے لئے تمام تر الزام مقوقس کے منہ پر تھوپ رہا ہے۔ مقوقس نے ہرقل کے نام پیغام لکھوایا اور ایک قاصد کو دے کر بزنطیہ کو روانہ کر دیا۔ مقوقس کو اب ہرقل کا کوئی ڈر نہیں تھا اس نے ہرقل کے قتل کا بڑا پکا انتظام کردیا تھا۔ اسے امید تھی کہ اس پیغام سے پہلے ہرقل اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہوگا۔ اس کے تیار کیے ہوئے دو آدمی لڑکی کو ساتھ لے کر روانہ ہو گئے تھے۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=* یہ دو آدمی لڑکی کو ساتھ لئے اسکندریہ پہنچے انہیں بحری جہاز وہاں سے ہی مل سکتا تھا۔ انہوں نے معمولی سی آدمیوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے ،اور لڑکی کو غریبانہ اور میلا سا لباس پہنا دیا گیا تھا ۔اس کا سر اور چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ اسکندریہ پہنچے تو پتہ چلا کہ بحری جہاز دو دنوں بعد روانہ ہو رہا ہے وہ ایک سرائے میں رک گئے۔ یہ سرائے بندرگاہ کے بالکل قریب تھی اور یہاں عام طور پر وہی لوگ ٹھرا کرتے تھے جنہیں بحری جہاز کی روانگی کا انتظار ہوتا تھا۔ جب ایک جہاز تیار ہوجاتا تھا تو بحری جہاز کا کپتان خود یا اس کا کوئی آدمی سرائے میں آکر اعلان کرتا تھا کہ جہاز کل فلاں وقت روانہ ہو رہا ہے۔ جہازوں کے کپتان اور عملے کے آدمی اسی سرائے میں آ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔ بزنطیہ کی طرف والے بحر روم کے ساحل تک جانے والا بحری جہاز تیار ہو رہا تھا ایک دن پہلے اس جہاز کا کپتان سرائے میں آیا وہ دیکھنے آیا تھا کہ یہاں کتنے مسافر ہیں۔ مسافروں کو پتہ چلا کہ جہاز کا کپتان آیا ہے تو سب باہر نکل آئے۔ اتفاق سے کپتان نے اس لڑکی کو دیکھ لیا، معلوم نہیں اس نے لڑکی کو کیسے اور کہاں دیکھا اس وقت لڑکی کے چہرے پر نقاب نہیں تھا۔ کپتان لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گیا اسے پتہ چلا کہ یہ لڑکی بھی جا رہی ہے۔ اس زمانے میں جہازوں کے کپتان جہازوں میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھا کرتے تھے۔ اور عموماً یہ لوگ بڑے ہی بدکار بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے ہوتے تھے ۔ اس کپتان نے اس لڑکی پر بری نظر رکھ لی۔ کپتان چلا گیا تو کچھ دیر بعد اس جہاز ایک کا ایک اور آدمی سرائے میں آیا اور جانے والے مسافروں میں گھومنے پھرنے لگا وہ ان دو آدمیوں سے ملا جو لڑکی کو لے جا رہے تھے۔ ان کے پاس ویسے ہی رک گیا اور اس طرح باتیں کیں جیسے یہ ملاقات ویسے ہی ہو گئی ہو۔ لیکن وہ کپتان کا بھیجا ہوا آدمی تھا اور یہ اہتمام اس لڑکی کو پھسانے کے لیے تھا۔ جہاز کے اس آدمی نے ان دونوں سے پوچھا کہ ان کے ساتھ یہ لڑکی کون ہے اور کیوں آئی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے ساتھ جہاز میں جائے گی، جہاز کے آدمی نے کہا کہ اس عمر کی لڑکی جہاز میں نہیں جا سکتی یا یہ کہ وہ اس جہاز میں نہیں جاسکتی، کسی اور جہاز میں جاسکتی ہے لیکن اگلا جہاز ایک مہینے سے زیادہ دنوں بعد جائے گا۔ یہ سن کر دونوں آدمی پریشان ہوگئے انھیں تو بہت جلدی جانا تھا، انھیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ فرمانروائے مصر مقوقس کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں نہ ہی انہیں ہرقل کے ساتھ دشمنی تھی کہ اسے قتل کرنا ہی تھا ،بلکہ ان کی دلچسپی اس کثیر رقم اور بیش بہا انعام پر تھی جو مقوقس نے انہیں پیش کیا تھا۔ وہ اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتے تھے کرنا چاہتے ہی نہیں تھے ،انہیں خدشہ نظر آتا تھا کہ دیر ہو گئی تو مقوقس اپنا یہ ارادہ بدل سکتا ہے،،،،،، انہوں نے جہاز کے اس آدمی کو رشوت پیش کی اور کہا کہ کسی طرح وہ اس لڑکی کو جہاز میں لے چلے۔ بہت ہی مشکل کام ہے ۔۔۔جہاز کے آدمی نے اپنی رشوت کا بھاؤ چڑھانے کے لئے کہا ۔۔۔اسے مردانہ لباس پہنا کر لے جایا تو جا سکتا ہے لیکن اتنے لمبے سفر میں اسے کپتان سے چھپا کر رکھنا بڑا ہی خطرناک ہو گا، کپتان اتنا سخت اور ظالم آدمی ہے کہ لڑکی کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گا۔ ان آدمیوں نے رشوت میں اضافہ کردیا اور منت سماجت الگ کی اور کہا کہ جہاز میں اسے چھپائے رکھنے کا کام بھی وہی کرے۔ ان دونوں آدمیوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ کسی سے پوچھ ہی لیتے کہ یہ لڑکی کیوں نہیں جا سکتی یا یہ کہ یہ کس کا حکم ہے، ان کی عقل پر وہ خزانہ سوار تھا جو مقوقس نے انہیں پیش کیا تھا۔ آخر جہاز کے اس آدمی نے منہ مانگی رشوت لے کر ان آدمیوں سے کہا کہ اپنا کوئی لباس نکالو کمرے کا دروازہ بند کر کے لباس لڑکی کو پہنایا، پھر اس کا سر اور چہرے کا کچھ حصہ اس طرح ڈھانپ دیا جس طرح لوگ صحرائی سفر میں یا ویسے ہی ڈھانپا کرتے تھے ،اچھی طرح جائزہ لے کر جہاز کے آدمی نے فیصلہ سنایا کہ اب یہ نہیں پہچانی جا سکے گی۔ لیکن میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔۔۔ جہاز کے آدمی نے کہا ۔۔۔میں لڑکی کو جہاز میں چھپائے رکھنے کی پوری کوشش کروں گا لیکن کپتان کو پتہ چل گیا، اس نے لڑکی کو دیکھ لیا تو پھر میں ذمہ دار نہیں ہو نگا ،کپتان کو راضی کرنا اور اس کی سزا سے بچنا تمہارا کام ہو گا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=* اگلے روز مسافر بندرگاہ پر جاکر جہاز میں سوار ہونے لگے یہ دونوں آدمی لڑکی کو مردانہ لباس میں ساتھ لئے سوار ہوگئے جہاز کے کسی آدمی نے دیکھا تک نہیں ،کرایہ وصول کرنے والے نے کرایہ وصول کر لیا یہ خاصا بڑا جہاز تھا مسافروں کے لیے دو منزلہ جگہ تھی ایک طرف جہاز کا سامان پڑا تھا اور اضافی بادبان بھی لپٹے رکھے تھے۔ جب مسافر اپنا اپنا ٹھکانہ کر رہے تھے اور اپنا سامان بھی رکھ رہے تھے اس وقت جہاز کے اس آدمی نے جس نے رشوت لی تھی آ کر لڑکی کو ساتھ لیا اور جہاں بادبان رکھے تھے وہاں ایک ذرا گہری جگہ بٹھا دیا اور ایک بادبان کا کچھ حصہ اس کے اوپر کردیا۔ وہ کوئی سیدھی سادی دیہاتی لڑکی نہیں تھی کہ بھیڑ بکری بنی رہتی کہ جہاں باندھ دیا وہی بندھی رہے، وہ بڑی ہی عیار اور مکار طوائف زادی تھی اس کم عمری میں ہی کایاں اور گھاگ مردوں کو انگلیوں پر نچا سکتی تھی۔ اس کا کارگر ہتھیار حسن تھا اور کم عمری اور پھر وہ تربیت تھی جو ماں نے اسے دی تھی، اس نے جہاز کے اس آدمی سے پوچھا کہ جہاز کتنے دنوں بعد منزل پر پہنچے گا۔ دس بارہ دن لگنا چاہیے۔۔۔ اس آدمی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن اس کا انحصار ہواؤں پر ہے، ہوا موافق اور تیز ملی تو جہاز بھی تیز جائے گا۔ اگر ہوا میں زور ہی نہ ہوا تو پندرہ سے بیس دن بھی لگ سکتے ہیں ،اور اگر طوفان آگیا تو پھر جہاز کو طوفان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا دے۔ تو کیا میں اتنے دن یہی چھپی بیٹھی رہوگی؟۔۔۔ لڑکی نے پوچھا. نہیں!،،،،، جہاز کے آدمی نے کہا۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم پہچان ہی نہ جا سکوں گی اس لئے تمہیں ہر وقت چھپے رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ تو تمہیں جگہ بتانے کے لئے بٹھایا ہے کہ چھپنے کی صورت میں یہاں چھپنا ہے ،دوسری بات یہ کہ کپتان ہر وقت باہر تو نہیں پھرتا رہتا دن کے وقت کچھ دیر سو جاتا ہے، اس وقت میں تمہیں یہاں سے نکال کر عرشے پر بھیج دیا کروں گا بے خطر گھومتی پھرتی رہنا۔ لڑکی کو وہاں بیٹھا کر یہ آدمی سیدھا کپتان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس کا شکار آگیا ہے، پھر کپتان کو وہ جگہ بتائی جہاں اس نے لڑکی کو چھپایا تھا ،کپتان نے خوش ہو کر اس آدمی کو کچھ انعام دیا۔ جہاز کا لنگر اٹھا دیا گیا اور عملے نے بادبان کھول دیے کپتان جہاز کو کنٹرول کرنے والی جگہ جا کھڑا ہوا اور پہیے کو پکڑ لیا جہاز بندرگاہ سے ہٹ کر کھلے سمندر کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب سورج سارا دن گزر جانے کے بعد سمندر میں ڈوب رہا تھا اس وقت خشکی کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا ، جدھر نگاہ جاتی سمندر ہی سمندر نظر آتا تھا۔ لڑکی دن بھر کے دوران تین مرتبہ باہر نکلی اور عرشے پر سمندر کے نظارے سے لطف اندوز ہوتی رہی تھی، یہ اس کا پہلا سمندری سفر تھا ،وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ بھی جا کر بیٹھی رہی تھی۔ جہاز کا وہ آدمی آ گیا اور لڑکی سے کہا کہ کھانا کھا کر وہ فوراً اپنے چھپنے کی جگہ چلی جائے اور رات وہیں گزارے اس آدمی نے تسلی دی کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ اپنے آدمیوں کے ساتھ کھانا کھا کر لڑکی چھپنے والی جگہ چلی گئی اور کچھ دیر بعد سو گئی۔ *جاری ہے۔*

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/39* *ہیلو بولیس* کے جن کھنڈرات میں عمرو بن عاص مدینہ سے آئے ہوۓ کمک سے جا ملے تھے وہ کھنڈرات کا ہی شہر تھا کوئی ایک بھی مقام صحیح و سلامت کھڑا نظر نہیں آتا تھا وہاں صحرائی لومڑیوں سانپ بچھوؤں اور چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔ کھنڈرات بتاتے تھے کہ یہ عالیشان عمارتوں اور پرسکوں مکانوں کا شہر ہوا کرتا تھا ۔ اس شہر کا شمار مصر کے چند ایک عظیم شہروں میں ہوتا تھا۔ ہیلو بولیس یونانی لفظ ہے اس شہر کا یہ نام کسی قدیم دور میں یونانیوں نے رکھا تھا۔ اس کے بعد مصر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بادشاہ کی جھولی میں گرتا چلا آیا اور ان فاتحین میں سے کسی نے ہیلو پولیس کا نام عین الشمس رکھ دیا جو آگے چل کر عین شمس بن گیا ۔اب اس شہر میں کوئی آبادی نہیں تھی صدیوں بعد جن انسانوں نے ان ہیبت ناک کھنڈرات میں جا ڈیرے ڈالے وہ عرب کے مجاہدین تھے۔ اور ان کے ساتھ مصری بدو تھے انھیں بھی وہاں عارضی قیام کرنا تھا ۔ پہلی رات جب لشکر گہری نیند سویا ہوا تھا تو گستی پہرے پر پھرنے والے ایک مجاہد نے ایک کھنڈر سے ہلکی ہلکی روشنی آتی دیکھی۔ اسے معلوم تھا کہ اپنا کوئی مجاہد اندر نہیں ہوگا ،ہوتا بھی تو آدھی رات کے وقت روشنی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جنگ کے دوران سب سے زیادہ خطرہ دشمن کے جاسوسوں کا ہوتا تھا جاسوس ان کسانوں کے روپ میں اور کچھ اپاہیج فقیروں کے روپ میں بھی لشکر کے کیمپ میں آ جاتے اور جو دیکھنا ہوتا وہ دیکھ لیا کرتے تھے، اسی شک کی بنا پر اس مجاہد نے اندر جا کر دیکھنا ضروری سمجھا۔ صحرا کی شفّاف چاندنی میں کھنڈر کچھ زیادہ ہی ہے ہیبت ناک لگ رہا تھا مجاہد سنتری نے ہر طرف گھوم پھر کر اندر جانے کا ایک راستہ دیکھ لیا یہ غلام گردش سی تھی جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھی اس لئے اندر تاریکی تھی۔ مجاہد آہستہ آہستہ اندر گیا تو اسے محسوس ہونے لگا جیسے چھت میں کوئی انسان بیٹھے بیٹھے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے ہو، یہ بد روحیں ہو سکتی تھیں، ایک خوف سا تھا جو مجاہد کے دل پر چھا گیا لیکن مجاہدین اسلام کی فتح مندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ خوف پر چھا جایا کرتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا گیا اس کی رہنمائی بڑی ہی مدھم سی روشنی کر رہی تھی جو اندر سے آرہی تھی۔ کسی ایسی چیز سے مجاہد کو ٹھوکر لگی کہ اچانک تیز ہوا آندھی سی آ گئی اتنی بلند اور ہیبت ناک پھڑپھڑاہٹ سنائی دی کہ مجاہد دیوار کے ساتھ لگا اب وہ خوف پر قابو نہ پا سکا یہ آندھیاں طوفان نہیں ہوسکتا تھا یہ یقینا بدروحیں تھی جنہوں نے یہ دھماکہ خیر طوفانی آوازیں پیدا کی تھیں مجاہد نے ہوا کے جھونکے بھی محسوس کیے اس نے باہر کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو بڑے پروں والے چمگادڑ ہیں جو چھت اور دیواروں کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور یہ ان کا مسکن ہے۔ ان کے پروں نے اتنی ہوا دی کے مجاہد اسے طوفانی ہوا کے تھپیڑے سمجھتا رہا۔ وہ اٹھا اور جھکا جھکا آگے بڑھا اس نے اندر کی روشنی کا بھید معلوم کرنے کو اپنا فرض سمجھ لیا تھا۔ ایک جگہ سے چھت گری ہوئی تھی اور وہاں سے چاندنی کی کرنیں اندر آرہی تھی لیکن اور آگے سے جو روشنی آرہی تھی وہ چاندنی کی سفیدی میں گڈمڈ نہیں ہوسکتی تھی ۔ مجاہد گری چھت کے ملبے پر چڑھا اور جب آگے گیا تو ایک دروازہ نظر آیا جس کے کواڑ نہیں تھے۔ مجاہد اس دروازے میں داخل ہوا تو یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جس کی دیواریں بتا رہی تھی کہ یہ کبھی شاہانہ عمارت ہوا کرتی تھی اور یہاں کسی بادشاہ نے عمر گزاری ہے۔ کمرہ زرد پیلی روشنی میں ٹھیک طرح نظر آ رہا تھا ایک کونے میں کوئی شخص ہاتھ جوڑے بیٹھا کچھ بڑبڑا رہا تھا اس کے سامنے چھوٹی سی مشعل جل رہی تھی اس کے قریب کچھ سامان جو روزمرہ کی زندگی کے لیئے ضروری تھا پڑا تھا۔ اس شخص کے کپڑے میلے سے رنگ کے تھے ۔اور وہ سر سے ننگا تھا اس کے دودھ جیسے سفید بال کندھوں پر آ گئے تھے ۔اور سر کی چوٹی پر کوئی بال نہیں تھا چوٹی ہتھیلی کی طرح صاف تھی۔ مجاہد دبے پاؤں چلتا اس کے قریب جا پہنچا۔ اس شخص نے آہستہ آہستہ سر مجاہد کی طرف گھمایا اور سر سے اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائے۔ مجھے معلوم تھا تم آؤ گے۔۔۔ اس بوڑھے نے بڑھاپے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں عرب کے ان مہمانوں کے انتظار میں تھا تم آ گئے تمہیں آنا ہی تھا۔ پہلے یہ بتا میرے بزرگ محترم!،،،، مجاہد نے پوچھا ۔۔۔کیا تو زندہ ہے یا جو اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ان میں سے کسی کی روح ہے ؟ میں تجھے بدروح نہیں روح کہہ رہا ہوں اور وہ پاک ہوتی ہے اور تیرا چہرہ بتا رہا ہے کہ تیرا وجود بدی سے پاک ہے۔ ابھی زندہ ہوں ۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ بڑی مدت بعد میری زبان حرکت میں آئی ہے میں کسی سے نہیں بولتا کوئی میرے ساتھ بات نہیں کرتا۔ کیا یہاں کوئی اور آیا کرتا ہے ؟،،،،،مجاہد نے پوچھا۔ ہاں!،،،،، بوڑھے نے رعشہ گیر آواز میں جواب دیا ۔۔۔۔یہاں سے تھوڑی تھوڑی دور دو گاؤں ہیں وہاں سے تیسرے چوتھے روز ایک دو آدمی آتے ہیں اور کچھ کھانے پینے کے لئے دئے جاتے ہیں۔ اے بزرگ!،،،،،، مجاھد نے کہا۔۔۔۔ تو ان کے پاس ہی کیوں نہیں چلا جاتا یہاں اکیلے پڑا کیا کر رہا ہے؟ عبادت !،،،،،،بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ خاک و خون کی دنیا سے تعلق توڑ کر یہاں بیٹھا ہوں بہت آئے سب رخصت ہو گئے اب تیرا لشکر آیا ہے ۔ کیا میرا لشکر بھی رخصت ہو جائے گا ؟،،،،مجاہد نے پوچھا۔ نہیں !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔۔ تیرا لشکر رخصت ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ انہیں رخصت کرنے کے لئے آیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو انسانوں کا بادشاہ سمجھ لیا تھا فرعون خدا بن گئے تھے، کہاں ہیں وہ سب رخصت ہو گئے۔ کمرے میں ہلکی ہلکی چڑ چڑ اور دھیمی دھیمی پھڑپھڑاہٹ سنائی دینے لگی مجاہد نے اوپر اور ہر طرف دیکھا چمگادڑ واپس آکر چھتوں میں بیٹھ رہے تھے ۔کچھ آواز غلام گردش سے بھی آ رہی تھی فضا بڑی ہی پراسرار تھی اور بار بار یہی خیال آتا تھا کہ یہاں مرے ہوئے لوگوں کی روحیں رہتی ہیں۔ مجاہد سفید ریش ضعیف العمر سے کوئی اور بات کرنی ہی والا تھا کہ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی وہ اس لئے کہ اسے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک سیاہ کالا سانپ رینگتا نظر آیا جس کا رخ ان کی طرف نہیں بلکہ دوسری طرف تھا۔ وہ دیکھو سانپ ۔۔۔ مجاہد نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔ میں ہر روز دیکھتا ہوں۔۔۔ بوڑھے نے لاتعلق سے لہجے میں کہا۔۔۔ ہم اکٹھے رہتے ہیں سانپ صرف اس انسان کو ڈستا ہے جو انسان خود سانہ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک ہی نہیں تین چار سانپ رہتے ہیں میں نے ان پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میں انسان ہوں اور انسان کسی کو ڈسا نہیں کرتے۔ ہر انسان اپنے وجود میں سانپ کا زہر لیے پھرتا ہے۔ پیار کر پیار ملے گا۔ اب بتا تیرے لشکر کا سردار کہاں ہے؟ کیا تو اسے ملنا چاہے گا؟،،،،، مجاہد نے پوچھا اور کچھ سوچ کر کہا۔۔۔ تجھے اس سے ملنا ہی ہوگا ہمارے لشکر کا سردار نہیں سپہ سالار ہوتا ہے میرا یہ فرض ہے کہ میں تجھے اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں ، ہمارا لشکر یہاں قیام کیے ہوئے ہے ہم کسی پر شک تو نہیں کیا کرتے لیکن شک رفع کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں تجھ جیسے بزرگ پر بھی شک نہیں کروں گا لیکن بظاہر بے ضرر اور بے کار سے آدمی دراصل دشمن کی آنکھ اور کان ہوا کرتی ہیں کیا تو میرے سپہ سالار کے پاس جائے گا؟،،، میری ایک بات سمجھنے کی کوشش کر بیٹا!،،،، بوڑھے نے کہا ۔۔۔اگر تیرا سپہ سالار فرعون جیسا ہے یا فارس کے آتش پرست بادشاہوں جیسا ہے یا رومی ہرقل جیسا بادشاہ ہے تو وہ تجھے حکم دے گا کہ اس بوڑھے کو گھسیٹ کر پیش کرو ،وہ یہاں ہمارے درمیان بیٹھا کیا کر رہا ہے۔ اور اگر وہ اس جیسا سردار ہے جس کا مجھے ایک صدی سے انتظار ہے تو جا اسے بتا اور وہ خود میرے پاس آئے گا یا اسے بتا کہ وہ تیرے ہی انتظار میں بیٹھا ہے۔ بوڑھے کی اس بات سے اور یہ بات کہنے کے انداز سے مجاہد کچھ ایسا مرعوب ہوا کہ اس کے دل میں تقدس سا پیدا ہو گیا۔ اسے شک پھر بھی رہا۔ لیکن اس کا تقدس اس شک پر حاوی ہوگیا ۔ وہ اٹھا اور باہر کو چل پڑا۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* مجاہد جب باہر شفّاف چاندنی میں نکلا تو اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ روحوں کے دیس میں چلا گیا تھا۔ اس ہیبت ناک کھنڈر کا اس پر جو خوف طاری ہوا تھا وہ کھنڈر کے اندر ہی نکل گیا تھا اس نے یہ بھی محسوس کیا جیسے یہ سفید ریش جھریوں بھرے چہرے والا بزرگ اس دنیا کا زندہ انسان نہیں، کیونکہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے اندر گیا تھا اس لئے اس نے اس شک کو فراموش نہ کیا کہ اس بوڑھے کے پاس گاؤں کے جو آدمی آتے ہیں ان میں کوئی جاسوس ہوسکتا ہے ۔ بہرحال اس نے اپنی گشت کا وقت پورا کیا اور اپنے کماندار کو جگا کر بتایا کہ اس کھنڈر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا ہے اور اس کے پاس گاؤں کے کچھ لوگ آتے ہیں۔ مجاہد نے کماندار کو بوڑھے کی کچھ باتیں بھی سنائی۔ فجر کی نماز کا وقت ہو گیا کھنڈرات کے اس شہر میں اذان کی مقدس آواز اٹھی اور کھنڈروں میں سے صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اللہ کی آواز کھنڈروں میں سے گھوم پھر کر روحوں کو بھی بیدار کر رہی ہوں اور مصر کے اس صحرا میں پھیلتی جا رہی ہو۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے امامت کے فرائض ادا کئے نماز کے بعد کماندار نے اپنے دستے کے سالار کو رات کے مجاہد کی رپورٹ سنائی اور سالار نے عمرو بن عاص تک یہ بات پہنچا دی۔ اتنی دور پردیس میں ذرا ذرا سا شک بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عمرو بن عاص نے رات کی ڈیوٹی والے مجاہد کو طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ پوری بات سنائے۔ مجاہد نے بوڑھے کا ایک ایک لفظ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کو سنایا اور اس وقت اس کے جو اپنے تاثرات تھے وہ بھی بیان کیے۔ عمرو بن عاص نے جب بوڑھے کہ یہ الفاظ سنے کے تیرہ سردار فرعون ہرقل جیسا بادشاہ نہ ہوا تو وہ خود میرے پاس آئے گا۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ میں ابھی اس کے پاس چلوں گا۔ مجھے وہاں لے چل ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے رات والے مجاہد سے کہا ۔۔۔اور سالار سے کہا۔۔۔ اس بوڑھے کے لئے کچھ کھانے کا سامان ساتھ لے چلو۔ کچھ ہی دیر بعد عمرو بن عاص کمک کے سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجاہد کی رہنمائی میں اس کھنڈر میں داخل ہورہے تھے جس میں وہ بوڑھا بیٹھا عبادت کر رہا تھا۔ ان کے پیچھے دو مجاہد بوڑھے کے لئے دودھ اور کھانے کی کچھ اشیاء اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ جب سپہ سالار بوڑھے کے کمرے میں داخل ہوئے اس وقت بوڑھا لاٹھی کے سہارے کمرے میں یوں ٹہل رہا تھا کہ بڑی مشکل سے پاؤں گھسیٹتا اور آگے رکھتا تھا ۔ صبح کا اجالا دو بے کواڑ کھڑکیوں میں سے اندر آ رہا تھا لیکن چھوٹی سی مشعل پھر بھی چل رہی تھی ۔ بوڑھا اس پارٹی کو دیکھ کر رک گیا۔ تجھ پر اللہ کی سلامتی ہو ۔۔۔عمرو بن عاص نے بوڑھے سے کہا۔۔۔ تو نہ کہتا تو بھی میں تیرے پاس آ جاتا۔ تو بادشاہ معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ بوڑھے نے روک کر کہا۔۔۔ مصری کی مٹی تیرے قدموں کی منتظر تھی آجا میرے پاس اس زمین پر بیٹھ جا۔۔۔۔بوڑھا قدم گھسیٹا وہاں تک جا پہنچا جہاں وہ رات بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنے پاس زمین پر ہاتھ مارا جو عمرو بن عاص کے لیے اشارہ تھا کہ یہاں بیٹھ جاؤ ۔ عمرو بن عاص نے اشارہ کیا تو مجاہدین آگے بڑھے اور دودھ اور کھانے پینے کی چیزیں بوڑھے کے آگے رکھ دی، پھر عمرو بن عاص، اور زبیر بن العوام اس کے پاس بیٹھ گئے، مجاہدین پیچھے ہٹ کر کچھ دور جا بیٹھے، پہلے اپنے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تو کب سے یہاں پڑا ہے؟ اور کیا کر رہا ہے؟ اور تیرے پاس کون آتا ہے؟ پہلے مجھے اس کا شکر ادا کرنے دے جس نے مجھے زندہ رکھنے کے لئے یہ نعمتیں تیرے ہاتھ بھیجی ہے۔۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ پھر تجھے پہلے اس شہر کے عروج و زوال کی بات سناؤں گا کہ تو عبرت حاصل کرے کہ ایک طاقت اور ہے جو نظر نہیں آتی اور وہی طاقت انسان کو بلندیوں تک پہنچا کر پستیوں میں پھینک دیتی ہے، لیکن ہر کسی کو نہیں میں نے رات تیرے اس آدمی سے کہا تھا کہ وہ فرعون کہاں ہے جو خدا بن بیٹھے تھے، سن سپہ سالار تو نے اس زمین کا احترام کیا تو آسمان کی بلندی تک پہنچے گا اور اگر تو نے یہ کہا کہ تو خود ہی آسمان کی بلندی تک پہنچ گیا ہے تو اس زمین کے نیچے جاکر گم ہوجائے گا۔ تو عبادت کس کی کرتا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے بوڑھے کا مذہب اور عقیدے معلوم کرنے کے لئے پوچھا۔ اپنی ۔۔۔۔بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میں اپنی ذات کی عبادت کرتا ہوں حیران مت ہو سپہ سالار تو اسے خدا کہہ لے، کچھ کہہ لے، جو کچھ بھی ہے وہ میری اپنی ذات میں ہے اپنی ذات سے یہ مراد نہیں کہ سب مجھے لائق عبادت سمجھیں ۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں ۔کیا تو میرے اس عقیدے کو پسند نہیں کرے گا کہ میں کسی بت کی عبادت نہیں کرتا؟ میں آگ کی عبادت نہیں کرتا ۔اور میں نے اپنا کوئی خدا نہیں بنا رکھا ۔لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ مذہب ابھی تک میرے سامنے نہیں آیا جو مجھے یہ بتائیے کہ عبادت کے لائق کون ہے؟ اتنا جانتا ہوں کہ وہ خدا ہے یا جو کوئی بھی ہے وہ بندوں کو نظر نہیں آتا۔ نظر آنا بھی نہیں چاہیے۔ مجھ سے سن وہ کون ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہمیں ایسے ہی نظر نہ آنے والے خدا نے بھیجا ہے کہ جاؤ میرے بندوں کو گمراہی سے نکالو اور انہیں بتاؤ کہ میں اپنے ہر بندے کی ذات میں موجود رہتا ہوں، اور یہ بھی بتاؤں کہ سدا بادشاہی میری ہے کسی بندے کی نہیں اور بندہ بندوں کو غلام نہیں بنا سکتا۔ یقین ہو چلا ہے کہ میں تیرے ہی انتظار میں زندہ ہوں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں نہیں مصری کی مٹی تیرے انتظار میں تھی۔ لیکن مت سوچنا کہ تیری ذات کا انتظار تھا ۔اپنے آپ کو اس خدا کا قاصد سمجھ اور اس نے جو پیغام دے کر تجھے بھیجا ہے اس پر دھیان رکھ اور گمان میں نہ رہنا کہ اب کوئی موسٰی نہیں آئے گا ۔فرعون کو موسٰی نے نیل میں ڈبو دیا فرعون کو نہیں بلکہ فرعونیت کو اپنے آپ کو موسٰی سمجھ کہ مصر سے فرعونیت ابھی گئی نہیں۔ تیری عمر کتنی ہوگی آئے بزرگ !،،،عمرو بن عاص نے پوچھا ۔۔۔عمر کی مت پوچھ بوڑھے نے جواب دیا لگتا ہے یہ دنیا وجود میں آئی تھی تو میں بھی اس کے ساتھ آ گیا تھا اور اس وقت دنیا سے رخصت ہونگا جب یہ دنیا رخصت ہو جائے گی جہاں تک یاد کام آتی ہے میری عمر ایک سو سے بیس پچیس سال اوپر ہو گی بڑی بڑی بستیاں بستے اور اجڑتے دیکھی ہے۔ عمرو بن عاص اور تمام مسلمان جوتش اور نجوم یا کسی بھی ایسے علم کے پیشنگوئیوں کے قائل نہیں تھے ،عقیدہ یہ تھا کہ غیب کا حال احوال صرف اللہ جانتا ہے پھر بھی کسی خیال سے عمرو بن عاص نے اس بوڑھے سے پوچھا کیا وہ پیشن گوئی کرنے کا علم رکھتا ہے۔ نہیں اے سپہ سالار۔۔۔ بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایسا کوئی علم نہیں دنیا دیکھی ہے اور وہی کہتا ہوں جو دیکھا ہے، اور دیکھ رہا ہوں، گمراہ کو دیکھ کر کون پیشنگوئی نہیں کرسکتا کہ یہ شخص تباہی کے گڑھے میں گرے گا، اور جن کے اعمال نیک اور بنی نوع انسان کی محبت کے حامل ہوتے ہیں ان کے متعلق کوئی بھی شخص پیشن گوئی کرسکتا ہے کہ یہ سب سے بلندیوں کی طرف جا رہا ہے،،،،،،،،میں سمجھتا ہوں تو نے یہ کیوں پوچھا ہے،،،،، میں تجھے پہلے ہی اس سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ تیرا یہاں میرے پاس آنا اور اس مٹی پر میرے ساتھ بیٹھنا اس امر کی دلیل ہے کہ فتح تیری ہوگی۔ اور تونے اسے اپنی ذاتی فتح سمجھ کر خود ہی انعام حاصل کرنے کی کوشش کی تو پھر پیشنگوئی الٹ جائے گی۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* اس شہر کے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے پوچھا ۔ آہ یہ شہر ۔۔۔۔بوڑھے نے کہا یہ شہر عظمت کی یادگار بھی ہے اور عبرت کا نشان بھی، لگتا ہے جیسے یہ شہر فرعونوں نے میری آنکھوں کے سامنے آباد کیا تھا اور اس کی عمارتوں اور شاہانہ مکانوں میں اپنی پوری شہنشاہیت اور قدرت کا تمام تر حسن سمو دیا تھا۔ انہوں نے اس شہر کا نام مدینۃ الشمس رکھا تھا ۔ مجھے اس شہر کے جو بن اور عروج کا قصہ میرے آباء و اجداد نے اورانہیں ان کے آباؤ اجداد نے سنایا تھا ۔میرے باپ دادا مذہبی پیشوا تھے اور مذہبی پیشوائی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن آگے چل کر میں عقیدوں میں الجھ گیا اور کچھ عرصہ تو یوں گزرا کے سمجھ نہ سکا کہ عبادت کرو تو کس کی کروں،،،،،،یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میں تجھے اس شہر کی داستان سنا رہا ہوں،،،،،، جانے دے اس بات کو کہ یونانی یہاں کب اور کیسے آیے میں صرف یہ بتاتا ہوں کہ یہ شہر مختلف علوم کا مرکز بن گیا تھا۔ یونان کے مشہور فلسفی افلاطون، ارسطو ،اور سقراط اسی شہر میں آکر علم و فضل سے فیضیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے فلسفے اور ہیئت کی تعلیم یہیں سے حاصل کی تھی۔ عجیب بات سن فرعونوں کا زوال شروع ہوا تو اس شہر کا عروج شروع ہو گیا فرعونیت پر نزع کا عالم طاری ہوا تو اس شہر میں مختلف مذہبوں اور مذہبی عقیدوں کی عبادت گاہیں ابھرنے لگی، مینار اور گنبد نظر آنے لگے اور ان سے شہر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ،مختلف مذہبی شخصیتوں نے یہاں کے مدرسوں سے تعلیم پائی تھی اور سارے مصر میں اور اردگرد کے ممالک میں پھیلائی،،،،، فارس کے آتش پرستوں نے یہاں اپنے آتشکدے بنائے لیکن رومیوں نے آکر انہیں مصر سے بے دخل کردیا اور اپنے ساتھ عیسائیت لائے، اہل مصر نے عیسائیت قبول کرنی شروع کردی اور آتشکدوں اور دیگر عبادت گاہوں کی جگہ گرجے ابھرنے لگے،،،،، یہاں سے اس شہر کی تقدیر الٹے پاؤں چل پڑی، وجہ یہ ہو گئی کہ یہاں جو بھی عقیدہ پھیلا وہ لوگوں نے متاثر ہو کر قبول کر لیا تھا ،لیکن رومیوں نے یہاں بزور شمشیر عیسائیت پھیلائی آج بھی دیکھ لے۔ یہ مت سمجھ کہ میں یہاں اس کھنڈر میں بیٹھا ہوں اور مجھے باہر کی کوئی خبر نہیں پل پل کی خبر مجھ تک پہنچتی ہے،،،،، آج بھی دیکھ لے رومی بادشاہ ہرقل نے اپنی ہی عیسائیت کا چہرہ مسخ کرڈالا ہے اور ایسے ظلم و ستم سے اسے پھیلا رہا ہے کہ سنو تو جگر کانپ اٹھتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہ کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں،،،،،،، رومیوں نے یہاں آتے ہیں اس شہر سے عبادتگاہوں کو اجاڑنا شروع کردیا تھا۔ بڑے خوبصورت بت اور حسین مرتیاں اٹھا کر لے گئے ،کیا تو مانے گا کہ انھیں کوئی مینار اچھا لگا تو وہ سالم کا سالم اکھاڑ کر لے گئے ۔ بے انداز کتابیں جو علوم کا خزانہ تھیں یہاں سے اٹھا لیں کچھ جلائی اور کچھ روم بھیج دیں ۔مختصر یہ کہ انہیں یہاں جو کچھ بھی اچھا لگا وہ اٹھایا اور بحرہ روم سے پار روم بھیج دیا ۔ یوں کہہ لیں کہ رومیوں نے اس اتنے حسین اور عظیم شہر کا وہی حال کردیا جو گدھ اور لومڑیاں مردار کا کیا کرتی ہیں،،،،،، انہوں نے علوم کا یہ سرچشمہ بند کردیا تو اس شہر کی رونقیں ہیں مانند پڑ گئی۔ باہر سے علم کے شیدائیوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ یونانیوں نے اس شہر کا نام پہلے ہیلو بولیس رکھا تھا لیکن رومیوں نے اس کا نام بدل کر عین الشمس رکھ دیا ۔ اب لوگ اسے عین شمس کے کھنڈر کہتے ہیں۔ آج دیکھ اس شہر کی زنگ آلود دیواریں جھکی ہوئی چھتیں، اور دیمک کے کھا ہوئے کواڑ والے دروازے، اس شہر کی عظمت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ میں تجھے اس شہر کی نہیں بلکہ بادشاہوں کے عروج و زوال کی بات سنا رہا ہوں،،،،،،،،،، اس داستان سے میں نے عرق نکالا ہے اور اس کے زیر اثر کبھی کا پیش گوئی کر رہا ہوں کہ ایک لشکر آ رہا ہے جو طوفان بادوباراں کی طرح سب کچھ اڑا اور بہا لے جائے گا۔ اور ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔عروج اسی کو حاصل ہوگا جو ایک ایسا عقیدہ لائے گا جو کسی انسان کی تخلیق نہیں ہو گا بلکہ اس کی تخلیق ہو گا جو انسان کا خالق ہے۔ تیرا لشکر طوفان بادوباراں کی طرح یہاں پہنچا ہے میں سب کچھ سن چکا ہوں یہ بھی معلوم ہے کہ رومیوں کے مقابلے میں تیرے پاس طاقت ہے ہی نہیں لیکن سوچ ، تو نے شاید سوچا بھی ہوگا کہ تیرے ساتھ کوئی ایسی قوت ہے جو رومیوں کی جنگی قوت کو روندتی تجھے یہاں تک لے آئی ہے۔ لیکن ان کامیابیوں سے اس خوش فہمی میں نہ پڑ جانا کہ اب تو فتح ہی فتح ہے ۔کسی بھی قلعے کو اپنا سمجھ جب تو اپنا جھنڈا اس پر گاڑ دے گا ۔ یہ مت سوچ کے یہ قلعہ تو بس اپنے ہاتھ آ یا کے آیا۔ یہ بھی یاد رکھ کہ تو آیا نہیں بھیجا گیا ہے۔ جس نے مجھے بھیجا ہے اسے ہم اللہ کہتے ہیں۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کی جاہ و حشمت کے لیے نہیں لڑتے ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے اوراسکاپیغام ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے لڑتے ہیں ہمارا نصب العین ہ بنی نوع انسان کی نجات ہے ۔ جا فتح تیری ہے۔ سپہ سالار عمرو بن عاص اور سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہا وہاں سے اٹھے سپہ سالار نے حکم دیا کہ جب تک ان کا لشکر ان کھنڈرات میں ہے اس بزرگ کا کھانا ہمارے ذمے ہوگا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ادھر بابلیون میں مقوقس کے یہاں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ اس نے تو یہ پلان بنایا تھا کہ مسلمان اور آگے آ جائیں تو انھیں گھیرے میں لے کر ختم کردیا جائے لیکن اس کا یہ پلان بری طرح ناکام ہوا اور اطربون جیسا جرنیل مارا گیا ۔سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ رومی فوج کو اتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا جس کی مقوقس کو توقع نہیں تھی، اور اس کے ساتھ نقصان یہ کہ جو فوج زندہ تھی اس کا لڑنے کا جذبہ بری طرح مجروح ہو گیا تھا۔ اس فوج میں وہ دستے بھی تھے جو شام میں مسلمانوں سے نہیں لڑے تھے شام سے بھاگ کر آنے والے فوجیوں نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمان کس بے جگری اور بے خوفی سے لڑتے ہیں اب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا تو انہیں یقین آیا کہ مسلمان تو اس سے زیادہ نڈر اور بے خوف ہے جتنا انہیں بتایا گیا تھا۔ ذہنی طور پر یہ فوج شکست قبول کرچکی تھی۔ مقوقس پر دوسری چوٹ یہ پڑی تھی کہ ہرقل نے اسے مسلمانوں کی فتوحات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے بڑا سخت پیغام بھیجا اس پیغام کے جواب میں مقوقس نے ہرقل کو ایسا ہی پیغام بھیجا اور اس پر شام کی شکست کی طنز بھی کی تھی، اس کا اثر یہ ہوا کہ مورخوں کے مطابق ہرقل اور مقوقس کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مقوقس نے ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف اعظم قیرس کے مشورے سے اپنا ایک خاص آدمی قبطی عیسائیوں کے اسقف اعظم بنیامین کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھیجا تھا کہ بنیامین قیرس سے ملے اور مسلمانوں کی پسپائی کا کوئی بندوبست کیا جائے۔ مقوقس کا یہ آدمی بنیامین تک پہنچ گیا تھا اس نے مقوقس اور قیرس کی ہدایت کے مطابق بنیامین کو تفصیل سے سنایا کہ ہرقل نے مقوقس اور قیرس پر کیا الزام عائد کیے ہیں۔ اور یہ دونوں ہرقل کے خلاف ہوگئے ہیں پھر اس آدمی نے بنیامین کو یقین دلایا کہ قیرس نے اسے نیک نیتی سے بلایا ہے اور ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اسے گرفتار کر لیا جائے گا ۔ یہ بھی بتایا کہ ان کی ملاقات کی خبر ہرقل کو نہیں ملے گی کیونکہ اس ملاقات کا واحد مقصد عیسائیت کا تحفظ اور فروغ ہے۔ اور مسلمانوں کا راستہ روکنا بھی مقصود ہے۔ بنیامین اصل عیسائیت پر قربان ہوا جا رہا تھا اور اصل عسائیت کو ہی بحال کرنا چاہتا تھا۔ اصل عیسائیت پر اس نے اپنا ایک بھائی قربان کردیا تھا۔ بنیامین مقوقس کے اس آدمی کے ساتھ ہی آ گیا اور جب مسلمانوں کا لشکر ام دنین کی طرف بڑھ رہا تھا بنیامین بابلیون میں قیرس اور مقوقس کے پاس پہنچ گیا۔ مقوقس اور قیرس نے اس کا استقبال بڑے ہی خلوص سے کیا۔ اور اسے پہلا یقین یہ دلایا کہ یہ ملاقات خفیہ ہوگی اور اگر بنیامین نے اس ملاقات کو ناکام کیا تو بھی اسے بحفاظت واپس بھیج دیا جائے گا۔ بنیامین اور قیرس کی یہ ملاقات تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ بعض یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتح کا باعث یہ تھا کہ قبطی عیسائی ان کے ساتھ مل گئے تھے اور انہوں نے رومی فوج کو زمین دوز طریقوں سے بھی نقصان پہنچایا تھا ۔ یہ محض بے بنیاد بات ہے مصر میں مجاہدین اسلام کو اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہیں تھی۔ بنیامین جب بابلیون پہنچا تو مقوقس نے قیرس سے کہا کہ وہ دونوں الگ بیٹھ کر بات کریں اور اس میں وہ خود دخل انداز نہیں ہو گا۔ مقوقس اور قیرس کا مقصد یہ تھا کہ قبطی عیسائی رومی فوج کے ساتھ ہو جائیں قیرس نے بنیامین کے آگے یہی مقصد رکھا اور کہا کہ عیسائیت کو بچانا اور اسلام کا راستہ روکنا ہے۔ بنیامین زیادہ زور اس بات پر دیتا تھا کہ جب تک ہرقل زندہ ہے وہ اپنی عیسائیت سے دستبردار نہیں ہو گا نہ کسی کو دستبردار ہونے دے گا۔ قیرس نے اسے بتایا کہ ہرقل اب اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔ مقوقس نے یہاں تک کہا کہ ہرقل نے بے جا دخل اندازی کی تو اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ مصر سے دستبردار ہو جائے۔ اور اپنی عیسائیت کو سنبھال کر رکھے۔ مقوقس نے ان دونوں مذہبی پیشواؤں کو الگ بیٹھ کر بات کرنے کو کہہ دیا لیکن انہیں یہ نہ بتایا کہ وہ خود کیا سوچ رہا ہے۔ اس نے ہرقل کو بلبیس کے قلعے کی فتح کی خبر سنا دی تھی ،اور پھر یہ خبر سنائی کہ مسلمان نیل تک پہنچ گئے ہیں۔ اور اطربون کے بعد اس کا ایک اور منظورنظر جرنیل حنّابھی مارا گیا ہے۔ مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل کیا ہو گا۔ مقوقس کو یہ بھی شکایت تھی کہ ہرقل بزنطیہ سے مصر کے لیے امدادی فوج نہیں بھیج رہا اتنی شکستوں کے بعد مقوقس کو یہ توقع تھی کہ ہرقل اسے مصر کی فرمانروائی سے معزول کر دے گا ۔ اس کے علاوہ مقوقس کو ہرقل سے توقع تھی کہ قبطیوں کو اپنا دشمن بنائے رکھے گا اور اپنی عیسائیت کو نہیں چھوڑے گا ۔ اور اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ کسی بھی وقت قبطی بنیامین کے اشارے پر بغاوت کر دیں گے۔ بنیامین اور قیرس الگ بیٹھے گفت و شنید کر رہے تھے مقوقس نے اپنے جرنیل تھیوڈور کو بلایا اور اپنے خاص کمرے میں جابیٹھا ،تھیوڈور کے ساتھ مقوقس کی رازداری تھی ،اب بازی تھیوڈور کے سر تھی، وہ اور مقوقس مزید شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ تھیوڈور !،،،،،مقوقس نے کہا ۔۔۔بنیامین اور قیرس کو میں نے الگ بیٹھا دیا ہے لیکن میں سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہرقل ہمارے سروں پر موجود ہے ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ،اور ایک روز مسلمان سارے مصر پر چھا جائیں گے اور ہرقل اس کا الزام ہمارے منہ پر تھوپ دے گا۔ میں ساری صورتحال سے واقف ہوں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔یہ بتائیں کہ اس کا حل کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہرقل کو معزول کر دیں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن یہاں اس کے حامی فوج میں موجود ہیں وہ ہم دونوں کو یا مجھے قتل کروا دیں گے، دوسری صورت زیادہ بہتر ہے وہ یہ کہ ہم ہرقل کو قتل کروا دیں۔ جرنیل تھیوڈور نے سر جھکا لیا جیسے گہری سوچ میں کھو گیا ہوں مقوقس اسے کچھ دیر دیکھتا رہا آخر تھیوڈور نے سر اٹھایا اور آہستہ آہستہ سر اوپر نیچے ہیلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مقوقس سے اتفاق کرتا ہے۔ کام خطرناک تو ہے لیکن آسان نہیں۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ کیا اس کا انتظام کیا ہوگا؟ میں انتظام کر چکا ہوں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ دو آدمی تیار کرلیے ہیں ان کے ساتھ ایک ایسی خوبصورت اور ہوشیار لڑکی جائے گی کہ اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہرقل نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی یہ لڑکی میں تحفے کے طور پر ہرقل کو بھیج رہا ہوں اسے میرے اپنے دو قابل اعتماد آدمی لے جائیں گے اس کام کے لئے میں نے انہیں ایک خزانہ پیش کیا ہے۔ محمد يحيٰ سندھو کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ تھیوڈور نے پوچھا۔۔۔۔ ظاہر ہے لڑکی کم عمر ہو گی وہاں جاکر ڈر ہی نہ جائے۔ قتل خنجر یا تلوار سے تو نہیں کرنا ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔۔ ہرقل کی شراب میں زہر ملانا ہے جو یہ لڑکی آسانی سے ملا دے گی میں نے لڑکی کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ ہرقل کس طرح شراب پیتا ہے۔ اور اس دوران کیا کرتا ہے اور لڑکی کس طرح موقع پیدا کرکے ذرا سا زہر اس کے گلاس میں ڈال دے ، زہر اتنا تیز ہے کہ اس کے چند ذرے شراب میں پڑ گئے تو کام کر دیں گے۔ احتیاط تو آپ کرینگے ہی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ ایک احتیاط سب سے زیادہ ضروری ہے، یہ جو دو آدمی ساتھ جا رہے ہیں انھیں کوئی پہچان نہ سکے۔ مقوقس نے اسے بتایا کہ اس نے یہ احتیاط خاص طور پر پیش نظر رکھی ہے انہیں وہ نہایت معمولی قسم کے لوگوں کے لباس میں بھیج رہا تھا ،لڑکی کو بھی کسی غریب آدمی کی بیٹی کے لباس میں بھیجنا تھا اور چہرے پر نقاب رکھنا تھا،،،،،، مقوقس نہ جانے کب سے ہرقل کے قتل کا پلان بنا رہا تھا اور اب اس نے عملدرآمد کا پکا فیصلہ کر لیا تھا ۔ اس نے تھیوڈور کو بتایا کہ دونوں آدمیوں اور اس لڑکی کو وہ دو بار ریہرسل کروا چکا ہے۔ تھیوڈور نے اس کی تائید ہی نہ کی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ اس کے بعد دونوں نے بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا کہ وہ اس راز کو راز ہی رکھیں گے اور ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ ادھر بنیامین اور قیرس عیسائیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف متفق ہوگئے۔ بنیامین صرف ہرقل کی ضمانت چاہتا تھا مقوقس نے اسے یقین دلایا کہ ہرقل اس اقدام کو پسند کرے گا ۔ مقوقس نے یہ بھی کہا کہ ہرقل کو عیسائیت سے زیادہ اپنی سلطنت پیاری ہے۔ اسے مصر چاہیے مذہب نہیں۔ قیرس نے تو پہلے ہی بنیامین کو یقین دلا چکا تھا ۔ تھیوڈور کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ مقوقس کس بنیاد پر ہرقل کی ضمانت دے رہا ہے، وہ تو ہرقل کو اس دنیا سے ہی اٹھا رہا تھا۔ بنیامین یہ وعدہ کرکے رخصت ہوا کہ وہ اپنے مشیروں کو اس فیصلے سے آگاہ کر دے گا۔ اور پھر قبطی فوج میں شامل ہو جائیں گے وہ فوج میں شامل ہو یا نہ ہو بغاوت نہیں کریں گے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ذرا سا بھی تعاون نہیں کریں گے۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* مجاہدین اسلام کا لشکر عین شمس کے کھنڈرات میں قیام کئے ہوئے تھا کمک پہنچ گئی تھی اور اب سپہ سالار عمرو بن عاص کو آگے بڑھنا تھا وہ زیادہ دیر انتظار کرنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ لیکن لشکر میں زخمیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی تھی ان کی مرہم پٹی ہو رہی تھی اور توقع تھی کہ کچھ دنوں تک یہ لڑنے کے قابل ہو جائیں گے غوروخوص کرکے یہ بھی طے کرنا تھا کہ اگلا قدم کدھر اٹھایا جائے۔ عین شمس کے کھنڈرات کا شہر ذرا بلندی پر تھا اور دفاعی لحاظ سے یہ موزوں تھا دشمن اچانک حملہ کر دیتا تو اس شہر کی بلندی فائدہ دے سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پانی کثرت سے موجود تھا جس کے ختم ہونے کا امکان نہیں تھا اشیائے خوردنی کی ایسی افراط کے خوراک کی قلت کا خطرہ تھا ہی نہیں۔ ایک روز عمرو بن عاص نے زبیر بن عوام اور دوسرے تمام سالاروں کو طلب کیا۔ میرے رفیقو !،،،،،عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا۔۔۔۔ اب بابلیون کا قلعہ بند شہر ہمارے سامنے ہے لیکن وہاں جو رومی فوج ہے اس کا کوئی شمار ہی نہیں ایک تو مفتوحہ قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجی بابلیون میں جا پہنچے ہیں، اور دوسرے یہ کہ مقوقس اپنی زیادہ سے زیادہ فوج شہر میں لے آیا ہے ظاہر ہے اس شہر کا محاصرہ کرنا ہوگا،،،،،،،، اگر اللہ میری دعا قبول فرما لے تو رومی باہر آکر کھلے صحرا میں لڑائی کریں، دعا کرو میرے بھائیوں اللہ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ رومیوں کو قلعے سے باہر لے آئے، اللہ نے ہمیں مایوس تو کہیں بھی نہیں کیا۔۔۔ زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ اگر ہمارے لیے رومیوں کا باہر آ کر لڑنا بہتر ہوا تو اللہ یہ صورت بھی پیدا کر دے گا۔ یہ بات بھی دل میں بٹھا لو میرے رفیقو!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔۔اب ہم مصر کی فتح و شکست کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اب ہم کہیں بھی ہار گئے تو ہماری منزل اگلے جہان ہوگی یا ملک شام،،،،،،،،،، میں اپنے اسی اصول کا پابند رہوں گا کہ کہیں بیٹھے دشمن کا انتظار نہ کرتے رہیں ،دشمن کے سر پر سوار رہیں ،اس اصول نے ہمیں ہر معرکے میں کامیاب کیا ہے۔ ادھر بابلیون میں مقوقس اور تھیوڈور دو تین جرنیلوں کو بٹھائے مسلمانوں کو پسپا کرنے کی اسکیم بنا رہے تھے ۔ مقوقس کہہ رہا تھا کہ ان عربوں نے بابلیون بھی لے لیا تو پھر ان کے کہیں بھی پاؤں نہیں جم سکیں گے۔ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کسی جگہ کہا تھا کہ ہم کہیں سے پسپا ہوئے تو یاد رکھو دشمن ملک میں ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی ،اور بھاگنے کی کوئی جگہ بھی نہیں ہوگی۔ لیکن بابلیون میں مقوقس یہی الفاظ اپنے جرنیلوں سے کہہ رہا تھا کہ ہم بابلیون سے اکھڑ گئے تو پھر سارے مصر میں ہمیں کہیں بھی جم کر لڑنے کی مہلت نہیں ملے گی، خود اپنے لوگ ہمیں اپنے گھروں میں پناہ نہیں دیں گے۔ میں مسلمانوں کی چال سمجھ گیا ہوں ۔۔۔جرنیل تھیوڈور نے کہا ۔۔۔افسوس ہے اطربون جیسا تجربہ کار جرنیل نہ سمجھ سکا،،،،،، عربوں کا سپہ سالار پہلے حملے سے ہیں اس اصول کا کاربند چلا آرہا ہے کہ اپنی تعداد کو نہ دیکھوں، اور حملہ کرنے میں زیادہ دیر نہ کرو ،ایک جگہ بیٹھے نہ رہو، اور دشمن پر اس طرح ٹوٹ پڑو کہ وہ اس حملے کو غیرمتوقع سمجھے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ہر معرکے میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ قلعہ بند ہو کر دشمن کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ،محاصرے میں ہمارا طریقہ جنگی رہا ہے کہ ایک ایک دو دو دستے باہر نکال کر عربوں پر حملہ کرتے ہیں ،عرب ہماری یہ چال سمجھ گئے ہیں اور انہوں نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ تم جو چاہتے ہو وہ بیان کرو ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم قلعہ بند ہو کر نہ لڑیں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔۔ہم عربوں کو اتنی مہلت دے ہی نہیں کہ وہ آکر بابلیون کا محاصرہ کر لیں ان کے سپہ سالار کا ایک اصول یہ ہے کہ دشمن کے سر چڑھے رہو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ دل چھوڑ بیٹھے، اور حوصلہ ہار بیٹھے، یہی اصول میں آپ کو دینا چاہتا ہوں آپ نے شاید سنا نہیں کہ مصر کے لوگ ہمیں بزدل اور کمزور کہنے لگے ہیں۔ جو قلعوں کی دیواروں کی پناہ میں بیٹھ کر اپنا دفاع کرتت ہیں،،،،،، اب ہمیں باہر جا کر مسلمانوں کو للکارنا چاہیے۔ یہی دعا سپہ سالار عمرو بن عاص مانگ رہے تھے انہوں نے اپنے دو تین جاسوس بابلیون بھیج رکھے تھے۔ جو دوسرے مفتوح شہروں سے بھاگے ہوئے شہریوں کے بہروپ میں وہاں گئے تھے، اللہ ان کی دعا قبول کر رہا تھا۔ مقوقس نے کہا کہ فوج کو شہر سے باہر کھلی جنگ کے لئے تیار کیا جائے اور کوئی پہلو کمزور نہ رہ جائے۔ *جاری ہے*

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/34* جب نوشی بدوؤں کے علاقے میں چلی گئی تھی، اس کا شکست خوردہ جرنیل باپ بلبیس پہنچا اور فرما کی شکست کی خبر سنائی تو وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا ۔ اس کی فوج کے بکھرے ہوئے سپاہی جب ایک ایک دو دو کر کے بلبیس پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کی شجاعت اور بہادری کی ایسی باتیں سنائی کہ بلبیس میں جو فوج تھی اس پر دہشت سی طاری ہو گئی ۔ دو یوروپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج میں یہ بات پھیل گئی اور سپاہیوں کی زبان پر چڑھ گئی کے مسلمانوں کی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی نظر آتی ہے لیکن جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ،اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار اور غیبی طاقت ہے ورنہ انسان اس طرح نہیں لڑ سکتے۔ جاسوسوں نے سپہ سالار عمر بن عاص کو رومی فوج کی یہ کیفیت بھی بتا رکھی تھی، یہ اس جذبہ جہاد کا کرشمہ تھا جس سے مجاہدین سرشار تھے اور انہوں نے اپنا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا۔ فتح اور شکست کے فیصلے میدان جنگ میں ہی ہوا کرتے ہیں اور تاریخ ان فوجوں اور ان کے جرنیلوں کی ہی کہانیاں سناتی ہے جو میدان جنگ میں لڑتے ہیں ،لیکن جنگ کے پس پردہ کچھ اور ڈرامے بھی ہوتے ہیں جو آنے والے نسلوں تک کم ہی پہنچتے ہیں یہ ان لوگوں کی انفرادی کہانیاں ہوتی ہیں جو میدان جنگ سے دور ایسا کردار ادا کرتے ہیں جو فتح یا شکست پر اثرانداز ہوتا ہے، لیکن ایسے کردار تاریخ سے متعارف نہیں ہوتے کبھی کوئی اس دور کا وقائع نگار تاریخی نوعیت کے احوال و کوائف اکٹھے کرتے ہوئے کسی ایسے گمنام کردار سے متعارف ہو گیا تو اس نے پردوں کے پیچھے ایک کہانی تاریخ کے دامن میں پوری تفصیل سے ڈال دی، ان میں غدار بھی ہوتے ہیں اور نوشی اور عباس بن طلحہ جیسے وہ کردار بھی جو جذبوں سے سرشار ہو کر کسی دنیاوی لالچ کے طلبگار نہیں ہوتے، نوشی ایسی ہی ایک لڑکی تھی جسے قومی جذبے نے دیوانہ بنا ڈالا تھا لیکن وہ آخر انسان تھی اور نوجوان۔ ایسی کہانیاں اگلی نسلوں تک سینہ بسینہ پہنچتی ہے یا کوئی وقائع نگار تفصیل سے ایسے واقعات بیان کر کے نئی روایت آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر جاتا ہے۔ آئیے مدینہ چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں سے ابھی تک سپہ سالار عمرو بن عاص کو کمک کیوں نہیں بھیجی گئی تھی،،،،،، عمرو بن عاص امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جنگی صورتحال سے قاصدوں کے ذریعے آگاہ رکھتے تھے ،اور ہر بدلتی صورت تفصیل سے لکھوا کر بھیجتے تھے ۔تیز رفتار اور بڑی ہی سخت جان قسم کے قاصد تھے جنہیں اس کام کی خصوصی تربیت دی گئی تھی۔ نقشے پر مصر اور مدینہ کا نقشہ دیکھیں بڑا ہی زیادہ فاصلہ ہے ،وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس دور میں گھوڑے کی پیٹھ پر یہ فاصلہ ایک مہینے میں طے ہوتا تھا ، یا اس سے زیادہ دن لگتے تھے لیکن تیز رفتار قاصد چند دنوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔ یہ راستہ ان علاقوں میں سے گزرتا تھا جو مجاہدین اسلام نے سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیے تھے، قاصد خشکی کے راستے سے بحیرہ قلزوم پھر بحر احمر کے کنارے کنارے مدینہ تک آتے جاتے تھے۔ تمام راستے میں چوکیاں بنا دی گئی تھی جن میں نہایت اعلی نسل کے تازہ دم گھوڑے تیار رکھے جاتے تھے۔ قاصد تھکے ہوئے گھوڑوں کو چوکی پر چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑے پر سفر جاری رکھتے تھے۔ کہیں کہیں وہ کھانے پینے اور ذرا سا سستانے کے لئے رک جاتے تھے لیکن کیا دن اور کیا رات وہ گھوڑے کی پیٹھ پر مسلسل سفر میں رہتے تھے اس طرح پیغام رسانی کا نظام صحیح معنوں میں برق رفتار بنادیا گیا تھا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ہر چند روز کے بعد عمرو بن عاص کا قاصد مدینہ پہنچتا اور تازہ صورتحال کا پیغام امیرالمومنین تک پہنچاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق ہر پیغام میں عمرو بن عاص کمک کے لیے لکھتے تھے لیکن انہوں نے ایسی بات کبھی نہیں لکھی تھی کہ انہیں کمک نہ ملی تو وہ پیش قدمی روک دیں گے اور یہ جنگی مہم آگے نہیں بڑھ سکے گی، ان کا ہر پیغام حوصلہ افزا ہوتا تھا جیسے انہیں کسی بھی قسم کی مایوسی نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کے حوصلہ افزا پیغامات کو دیکھ کر کمک کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے، ان کی زیادہ تر توجہ مصر پر ہی مرکوز تھی کیونکہ عمرو بن عاص بہت ہی تھوڑی نفری لے کر ایسی صورتحال میں مصر چلے گئے تھے کہ امیرالمؤمنین کے اہم ترین اور بزرگ مشیر اس مہم جوئی کے خلاف تھے۔ خود حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بہت ہی سوچ بچار کے بعد عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت دی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقیناً سوچتے ہونگے کہ مصر میں ناکامی ہوئی تو انہیں مصاحبوں اور مشیروں کے آگے سرمشار ہونا پڑے گا کہ منع کرنے کے باوجود مجاہدین کے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیا گیا تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصر پر لشکر کشی کے سب سے بڑے مخالف بزرگ صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تھے اس مخالفت میں وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراضگی تک بھی پہنچ گئے تھے ،لیکن اب وہی حضرت عمر پر زور دے رہے تھے کہ عمرو بن عاص کو کمک بھیجی جائے پھر کیا وجہ تھی کہ کمک میں تاخیر ہورہی تھی ۔ تاریخ نویسوں نے اس سوال پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور اس طرح کچھ وجوہات سامنے آگئی ہے۔ یہ خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ اس دور کے مشیر اور دیگر سرکردہ افراد جن سے امیرالمومنین مشورے طلب کیا کرتے تھے ہمارے آج کے سیاسی لیڈروں جیسے نہیں تھے، ان کے یہاں اپنی انا کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، ان کے پیش نظر دین اور ملت کا سودوزیاں رہتا تھا ،ایسا نہیں ہوتا تھا کہ معلوم کرلیتے کے امیرالمومنین کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے، ایسا بھی نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین اپنی مخالفت کو برحق ثابت کرنے کے لئے اس کام میں بھی روڑے اٹکاتے جو دین اور سلطنت اسلامیہ کے لیے بہتر ہوتا تھا ،وہ سب اپنے آپ کو سربراہ مملکت کے آگے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی کے آگے جواب دہ سمجھتے تھے، پہلے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کمک بھیجنے پر زور دے رہے تھے پھر دوسرے مخالفین نے بھی کہنا شروع کردیا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو یوں تنہا نہ چھوڑاجائے سب جانتے تھے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی طرح خطرہ مول لینے والے سپہ سالار ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پورے لشکر کو جانوں کے خطرے میں ڈال دیں۔ آخر ایک روز امیرالمؤمنین نے فجر کی نماز کے بعد سب کو روک لیا اور کمک کے مسئلہ پر بات شروع کی حضرت عمر بڑے ہی اثر انگیز انداز سے اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ میں بات کیا کرتے تھے ،انہوں نے ایسا نہ کہا کہ آج مخالفین بھی کمک بھیجنے پر زور دے رہے ہیں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اچھی نیتوں کا اجر بہت اچھا دیا کرتا ہے ،پھر انہوں نے کمک کی تاخیر کی وجوہات بیان کی جو مختصراً یوں ہے کہ عراق سے کسریٰ ایران کو بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن اس کی حالت اس شیر جیسی تھی جو بری طرح زخمی ہو چکا ہو لیکن ابھی مرا نہ ہو خطرہ تھا کہ زخمی شیر آخری حملہ ضرور کرے گا اس خطرے کے پیش نظر عراق کے محاذ سے کوئی نفری نکالی نہیں جاسکتی تھی۔ ادھر پورے کا پورا ملک شام سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن طاعون کی وباء مجاہدین کے لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ چاٹ گئی تھی، اور بہت سے نامور سپہ سالار دنیا سے اٹھ گئے تھے ،اس قدرتی آفت کی پیدا کردہ کمی کو پورا کرنا تھا اس میں مزید کمی نہیں کی جاسکتی تھی۔ پھر حضرت عمر نے ایک وجہ یہ بتائی کہ انھیں یقین ہے کہ عمرو بن عاص عریش کو فتح کر چکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ آگے بڑھے تو فرما تک جائیں گے اور وہاں کمک کا انتظار کر کے آگے بڑھیں گے۔ حضرت عمر کو پہلے عمرو بن عاص نے یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ بدوؤں کا ایک لشکر ان کے ساتھ آن ملا ہے۔ جس نے رسد کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور اب یہ لشکر لڑائی میں بھی شامل ہو گا۔ حضرت عمر کو اس پیغام سے تسلی ہوگئی تھی کہ کمک کی ضرورت پوری ہو گئی ہے اس روز انہوں نے اور سب نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو تو اللہ کس طرح مدد کرتا ہے ،کسی کو توقع تھی ہی نہیں کہ غیرمسلم بدوؤں کی اتنی زیادہ نفری مجاہدین سے آن ملے گی اور رسد اور کچھ اور ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ پھر فرما کی فتح کی اطلاع بھی آگئی امیرالمومنین نے کہا کہ اسی کمک سے اتنا بڑا شہر فتح کرلیا گیا ہے اور اب عمرو بن عاص مدینہ کی کمک کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔ مسجد میں جو حضرات موجود تھے ان میں سے بعض نے کچھ مشورے دیے اور اس مسئلہ پر کچھ باتیں ہوئیں آخر سب مطمئن ہوگئے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=* چند ہی دن گزرے تھے کہ فرما سے عمرو بن عاص کا ایک اور پیغام آ گیا، پچھلے پیغام میں انہوں نے صرف فتح کی اطلاع دی تھی، اب انہوں نے تفصیلات لکھ کر بھیجی تھی جس میں یہ بتایا کہ اپنا کتنا جانی نقصان ہوا ہے اور بدو کتنے مارے گئے ہیں، ان تفصیلات میں ایسے شدید زخمیوں کا بھی ذکر تھا جو ہمیشہ کے لئے یا کچھ عرصے کیلئے لڑائی کے قابل نہیں رہے تھے ۔فرما کی فتح نے جانوں کی قربانی خاصی زیادہ لی تھی۔ بدو اس لیے زیادہ مارے گئے تھے کہ انھیں کسی منظم لشکر کے ساتھ رہ کر لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ عمرو بن عاص نے لکھا کہ اللہ کی طرف سے انہیں کمک مل گئی تھی لیکن اب اپنے لشکر اور بدوؤں کی اس کمک کی تعداد اتنی رہ گئی ہے کہ کمک کی شدید ضرورت ہے۔ عمرو بن عاص نے یہ بھی لکھا کہ وہ اگلی صبح بلبیس کی طرف کوچ کر رہے ہیں ۔ اس اطلاع نے امیرالمومنین کو پریشان کردیا انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اتنے تھوڑے لشکر کے ساتھ بلبیس کو محاصرے میں لینا کس قدر بڑا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص نے اتنی جلدی پیش قدمی کے فیصلے کا جواز بھی لکھا تھا ہم یہ جواز پہلے بیان کرچکے ہیں ، یعنی رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے اور انہیں یہ تاثر بھی نہ ملے کہ مسلمان کمزور ہوگئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس جواز سے بڑی اچھی طرح واقف تھے ، وہ جانتے تھے کہ رومیوں کی چال یہ ہے کہ مسلمان مصر میں اور زیادہ اندر آ جائیں اور پھر انہیں گھیرے میں لے لیا جائے، اور اسکے رسد کمک کے راستے بند کردیئے جائیں، لیکن دشمن کی چالوں سے صرف واقف ہو جانا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ ان چالوں کو بے کار کرنے کے لئے کوئی نئی چال سوچنی پڑتی ہے۔ عمرو بن عاص انکی چال اور نیت کو سمجھ کر ہی فرما سے کوچ کر رہے تھے، اور جلدی سے جلدی بلبیس پہنچنا چاہتے تھے، لیکن سوال یہ تھا کہ ان کے ساتھ مجاہدین کی جو تعداد تھی کیا وہ بلبیس کو فتح کرنے کے لئے کافی تھی؟،،،، مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو لشکر تھا اس کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی، بعض مؤرخوں نے یہ تعداد چار ہزار لکھی ہے بعض نے کچھ کم بعض نے ذرا زیادہ لکھی ہے، ان سب کی بتائی ہوئی تعداد پر غور کیا جائے تو اندازہ یہ ہے کہ بدوؤں کو ملا کر لشکر کی تعداد پانچ ہزار سے چند سو زیادہ تھی۔ لشکروں کو باقاعدہ فوج کی حیثیت حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی ،باقاعدہ تنخواہ اور مراعات مقرر کی تھی لیکن مصر پر فوج کشی کے وقت تک یہ تبدیلی نہیں لائی گئی تھی۔ لوگ رضاکارانہ طور پر لشکروں میں شامل ہوتے تھے۔ اب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے شدت سے محسوس کیا کہ عمرو بن عاص کیلئے کمک بھیجوانا ہے۔ تو انہوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس وقت رائج تھا وہ یہ کہ مسجد میں اعلان کیا گیا کہ مصری کیلئے کم از کم چار ہزار تعداد کا لشکر بھیجنا ہے اور لوگ آگے آئیں ۔ مشہور ومعروف مؤرخ ابن الحکم نے چند ایک مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر پہلے ہی ایک صحابی پر تھی جن کا نام گرامی زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھا ،جنگ کا بہت تجربہ رکھتے تھے اور قیادت کی مہارت میں خاصے مشہور تھے زبیر بن العوام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین کی نظر ان پر تھی لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سے عمرو بن عاص مصر میں داخل ہوئے تھے زبیر رضی اللہ عنہ نے چند مرتبہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں مصر عمرو بن عاص کے لشکر میں بھیجا جائے ۔ تاریخ میں یہ ذکر نہیں کہ انھیں کیوں نہ بھیجا گیا ، قرین قیاس یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں ریزور میں رکھا ہوگا کہ جہاں صورتحال بہت ہی مخصوص ہو جائے زبیر کو وہاں بھیجا جائے بہرحال اب حضرت عمر نے انہیں بلایا۔ ابوعبداللہ ۔۔۔۔امیرالمومنین نے زبیر کو ان کے دوسرے نام سے مخاطب ہوکر پوچھا ۔۔۔کیا تو مصر کی عمارت کا خواہشمند ہے؟ نہیں امیرالمومنین!،،،،، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔۔۔ مجھے عمارت کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ اگر آپ مجھے کسی محاذ پر بھیجنا چاہتے ہیں تو میں جہاد اور مجاہدین کی اعانت کے لیے جاؤں گا ،دل میں کوئی لالچ لے کر نہیں، میں جانتا ہوں آپ مجھے مصر بھیجنا چاہتے ہیں میں سن چکا ہوں کہ مصر کے لیے کمک تیار ہو رہی ہے ،میں جاؤں گا اور جب دیکھوں گا کہ عمرو بن عاص نے مصر فتح کر لیا ہے تو اس کے کسی کام میں دخل نہیں دوں گا اور اسے عمارت کے رتبے پر دیکھ کر روحانی مسرت کا اظہار کروں گا۔ اس وقت کے عربی معاشرے میں زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو جو حیثیت حاصل تھی اس کا مختصر سا ذکر ہو جائے تو بے محل نہ ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد بھائی اور صحابی ہونا ہی ان کی عظمت کی بہت بڑی دلیل تھی۔ لیکن انھیں اس سے زیادہ عظمت عطا ہوئی تھی ،انہوں نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا، حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے، اور جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت ہوئی تو اس میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،یہ شرف زبیر کو ہی حاصل تھا کہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اور ہر بار جان کی بازی لگا کر لڑے۔ جنگ خندق میں ضرورت محسوس ہوئی کے عیسائیوں کے دو قبیلوں کے متعلق معلوم کیا جائے کہ وہ اہل قریش کا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں اور اگر ان کا ساتھ دے رہے ہیں تو ان کی کتنی نفری ہے اور کب کمک کے طور پر آرہی ہے، یہ بڑا ہی خطرناک کام تھا جس کے لیے زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور دشمن کے اندر جاکر صحیح خبر لے آئے، پھر ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کی ضرورت محسوس کی تو آپ کو رضاکار ڈھونڈنے پڑے یہ بھی بڑا ہی پرخطر کام تھا اس کے لئے بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کی بستیوں میں گئے اور صحیح خبریں لے آئے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے زبیر بن العوام میرا حواری ہے۔ اس سے زیادہ عظیم اور مقدس خراج تحسین اور کیا ہوسکتا ہے۔ فتح مکہ کے دن مجاہدین کے لشکر میں تین علم تھے جن میں سے ایک زبیر بن العوّام رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ، بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ سے خصوصی عقیدت اور محبت رکھتے تھے ،ان میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ کوئی ایک بار ان سے متعارف ہو جاتا تو ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا ،اور جس لشکر کی قیادت انہیں دی جاتی وہ لشکر ان کے اشاروں پر جان قربان کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ زبیر بن العوام کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مصر کے لیے کمک تیار کریں۔ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ پہلے ہی بے تاب تھے کہ انہیں جہاد کی کوئی ذمہ داری سونپی جائے، انہوں نے اسی روز سے کام کی ابتدا کردی یہ کام ایک یا دو دنوں میں ہونے والا نہیں تھا ،زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے دن رات ایک کر دیا اور لوگوں کو اکٹھا کرنے لگے یہ بتانا ممکن نہیں کہ انہوں نے کمک کتنے دنوں میں اکٹھا کر لیا، البتہ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ جو کمک انھوں نے تیار کیا اس کی تعداد چار ہزار تھی۔ یہ کمک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کی گئ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس چار ہزار نفری کی ایک ایک مجاہد کو دیکھا اور پھر اسے چار حصوں میں تقسیم کیا پھر ہر حصّے کا الگ سالار مقرر کیا، ہر سالار کے ماتحت ایک ایک ہزار مجاہدین تھے، ان میں ایک تھے زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، دوسرے عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، تیسرے تھے مقداد بن اسود سلمی رضی اللہ عنہ، اور چوتھے تے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ، ان چاروں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری زبیر بن العوام کو دی گئی۔ کمک کی تعداد کے متعلق تاریخ میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی، وہ تاریخ لکھنے والے مؤرخوں نے جن میں بٹلر بھی شامل ہے صحیح بات لکھی ہے اور بتایا ہے کہ یہ غلط فہمیاں کیوں کر پیدا ہوئیں۔ یہ غلط فہمی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کمک کے ساتھ جو تحریری پیغام عمرو بن عاص کو بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔ میں تمہارے لئے چار ہزار مجاہدین بھیج رہا ہوں ایک ایک ہزار مجاہدین پر ایک ایک سالار مقرر کر دیا ہے، یہ سالار جنگ لڑنے اور لڑانے کی اتنی مہارت اور اتنا جذبہ رکھتے ہیں کہ یوں سمجھو کہ ایک ایک سالار ایک ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے ،تم یوں سمجھ لو کہ میں تمہیں بارہ ہزار سرفروش مجاہدین بھیج رہا ہوں ،اور مجھے پوری امید ہے کہ بارہ ہزار جاں باز دشمن سے مغلوب نہیں ہوسکتے دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس تحریر سے کچھ تاریخ نویس یہ سمجھ بیٹھے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی ، صحیح تعداد چار ہزار تھی، صحیح طور پر نہیں لکھا جاسکتا کہ یہ کمک کتنے دنوں بعد عمرو بن عاص تک پہنچی، وہ تو تیز رفتار قاصد تھے جو حیران کن رفتار سے اتنا زیادہ فاصلہ چار پانچ دنوں میں طے کر لیا کرتے تھے، یہ پورا لشکر تھا جو اتنی تیز رفتاری سے سفر نہیں کرسکتا تھا ۔ جب یہ کمک نماز فجر کے بعد مدینہ سے روانہ ہوئی تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، اور تقریباً تمام بزرگ صحابہ اکرام اس کمک کے ساتھ مدینے سے دور تک گئے اور پھر ایک جگہ رک کر مجاہدین کو الوداع کہی، سب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے مدینہ کی منڈیروں پر عورتیں دامن پھیلائے کھڑی مجاہدین کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں۔ *=÷=÷=÷=÷=÷÷=÷۔=÷=÷* آخر ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے کمک کا انتظار کیے بغیر لشکر کو بلبیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیدیا۔ کوچ فجر کی نماز کے بعد ہوا تھا اور یہ فروری 640 عیسوی کا پہلا ہفتہ تھا۔ ایک روز پہلے عمرو بن عاص نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا تھا جس میں انہوں نے ایک تو بلبیس کی طرف پیش قدمی کی اطلاع لکھی اور دیگر امور کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ کمک کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے،،،، ہم اس پیغام کا ذکر پہلے کر چکے ہیں۔ عمرو بن عاص نے ایک روز پہلے لشکر سے خطاب کیا تھا اس سے پہلے بھی ایک بار انہوں نے لشکر سے خطاب کیا اور بتایا تھا کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے لیے مصر کتنا اہم ہے۔ مصر کو انہوں نے پیغمبروں کی سرزمین کہا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس راستے پر وہ مصر فتح کرنے جارہے ہیں یہ پیغمبروں کا راستہ ہے ۔اس راستے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ،اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام، جا چکے ہیں اس راستے سے حضرت عیسی علیہ السلام، اور حضرت موسی علیہ السلام بھی گئے تھے۔ اب عمرو بن عاص نے جو لشکر سے خطاب کیا اس میں انہوں نے کہا کہ ہم جس شہر بلبیس کو فتح کرنے جا رہے ہیں وہ فرما سے زیادہ اہم اور قیمتی شہر ہے۔ اور رومی یہ شہر ہم سے بچانے کے لیے بے دریغ جانوں کی قربانیاں دیں گے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ ہم یہ شہر ہر قیمت پر فتح کریں۔ انہوں نے لشکر کو جذباتی الفاظ سے بھڑکایا نہیں اور انہیں سبز باغ نہیں دکھائے نہ ایسا تاثر دیا کہ رومی بلبیس کو پلیٹ پر رکھ کر انہیں پیش کر دیں گے، انہوں نے حقیقت بیان کی اور جن دشواریوں کا سامنا تھا وہ من و عن بیان کر دی، انہوں نے بتایا کہ اپنی تعداد بہت تھوڑی ہے اور دشمن کی جنگی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عریش اور فرما ہمارے لئے صرف اس لئے آسان تھی کہ رومی ہمیں دھوکہ دے کر مصر میں کچھ اور آگے لانا چاہتے تھے، ہم اور آگے آگئے ہیں اور مزید آگے جا رہے ہیں یوں سمجھ لو کہ بلبیس ایک پھندہ ہے جس میں رومی ہمیں پھنسا کر ہمیشہ کے لئے بیکار کر دینا چاہتے ہیں۔ مت بھولو کہ تمہارا براہ راست تعلق اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ ہے، سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم اللہ کے حکم سے اللہ کے راستے پر جا رہے ہو یہ ہمارا ایمان ہے، اور ہمارا دشمن ہمیں شکست دے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان غلط ہے، اور یہ کسی انسان نے خود ہی گھڑ لیا ہے، ہمیں کفار پر ثابت کرنا ہے کہ ہم دین الہی کے پیروکار ہیں۔ اور اپنے ساتھ یہی دین لائے ہیں جو ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ اور اس کے ساتھ اللہ کا یہ حکم کہ یہ دین اللہ کے ہر بندے تک پہنچانا ہمارا فرض ہے ،اس فرض کی ادائیگی کے لئے ہمیں سمندروں کا سینہ چیرنا ہے پہاڑوں کے جگر چاک کرنے ہیں اور دشت و جبل کو اپنے قدموں تلے روندنا ہے۔ اس کے بعد عمرو بن عاص نے لشکر کو تمام حقائق سے آگاہ کیا اور انہیں ٹھوس قسم کی ہدایات دیں، انھوں نے لشکر کو پیش قدمی کے دوران جس طرح تقسیم کیا اور جس ترتیب سے لشکر کو پیش قدمی کرنی تھی وہ سب لشکر کو بتایا اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کہ یہ تقسیم اور یہ ترتیب کیوں کی گئی ہے۔ پیش قدمی کے دوران لشکر کی تقسیم اور ترتیب یہ تھی کہ سب سے آگے ہر اول دستہ تھا اور اس دستے سے بہت آگے چند ایک مجاہدین مقامی کسانوں اور محنت کشوں کے بھیس میں بکھرے ہوئے جارہے تھے ۔ وہ جاسوس تھے اور دیکھ بھال کرتے جا رہے تھے کچھ دستہ ہراول سے دور پیچھے تھے ان کے دائیں اور بائیں خاصے فاصلے پر ایک دستہ جا رہا تھا اور ایک دو دستے عقب میں آرہے تھے ،مطلب یہ کہ لشکر ایک مسلح قافلے کی صورت میں نہیں جا رہا تھا۔ یہ ترتیب یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رومی جرنیل انہیں اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں وہ کسی بھی وقت لشکر پر پیش قدمی کے دوران بہت زیادہ نفری سے دائیں اور بائیں سے یا عقب سے حملہ کر سکتے ہیں۔ جاسوسوں نے سپہ سالار کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ رومی مجاہدین کے لشکر کو پہلے آگے لا کر اور پھر گھیرے میں لے کر مارنا چاہتے ہیں۔ عمرو بن عاص روایتی لڑائیاں لڑنے والے سپہ سالار نہیں تھے وہ دشمن کی شاطرانہ چالوں کو سمجھتے تھے اور ایسی ہی چال چلنے کی مہارت رکھتے تھے ،دشمن کی نیت کو اوران چالوں کا توڑ کرنے کو جو ابھی دشمن کے ذہن میں ہوتی تھی۔ عمرو بن عاص نے جاسوسی کا اتنا کارگر نظام قائم کردیا تھا کہ ان کے جاسوس تو جیسے دشمن کے پیٹ میں اتر کر خبر لے آتے تھے۔ یہ مسافت بڑی طویل تھی اور دشوار گذار بھی دشوار گزار اس لئے کہ اس علاقے میں آ کر دریائے نیل کئی ایک شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا ، بعض نہریں تو زیادہ چوڑی نہیں تھی اور یہ عام نہروں جیسی ہی تھی، لیکن بعض شاخیں دریاؤں جیسی تھی پانی کی افراد کی وجہ سے علاقے میں دلدل تھی اور درختوں کی بہتات تھی اور کچھ علاقہ پہاڑی اور غیر ہموار بھی تھا نیل کی ان شاخوں کو عبور کرنا بھی ایک مسئلہ تھا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ تو یہ تھا کہ رومی فوج کسی بھی علاقے میں انھیں گھیرے میں لے سکتے تھے۔ تاریخ کے مطابق راستے میں ایک بڑا ھی قدیم قصبہ آیا جس کا نام مجدل ہوا کرتا تھا ۔ اس قصبے میں جاکر دیکھا رومی فوج کا کوئی ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا عمرو بن عاص نے اس قصبے کے قریب پڑاؤ کیا اور قصبے کے سرکردہ افراد کو بلا کر پوری تفتیش کی کہ یہاں کبھی رومی فوج کی کچھ نفری رہی ہے یا نہیں، اور رومیوں نے شہر کے لوگوں کو کوئی فوجی اور جنگی نوعیت کی بات بتائی ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ اس قصبے میں کبھی فوج نہیں آئی اور کبھی انہیں فوج کی طرف سے کوئی ہدایت یا کوئی حکم دیا بھی نہیں گیا۔ ان سرکردہ افراد نے عمرو بن عاص کو یقین دلایا کہ وہ رومی فوج کے ساتھ تعاون سے انکار کی جرات تو نہیں کر سکتے لیکن تعاون سے گریز ضرور کریں گے۔ عمرو بن عاص نے انہیں کہا کہ قصبے کا کوئی آدمی قصبے سے باہر نہ جائے اور کوئی آدمی بلبیس کی طرف جاتا نظر آیا تو دور سے اسے تیر کا نشانہ بنا لیا جائے گا۔ عمرو بن عاص کا مطلب یہ تھا کہ رومیوں کو قبل از وقت اطلاع نہ پہنچ سکے کہ اسلامی لشکر آ رہا ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے۔ عمرو بن عاص نے ان سرکردہ افراد سے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو یقین دلا دیں کہ اب اس شہر کو اور اپنے آپ کو مسلمانوں کی عملداری میں سمجھیں اور انہیں بتائیں کہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور اس لشکر کا کوئی ایک بھی فرد کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا۔ تاریخ میں عمرو بن عاص کے لشکر کی اس پیش قدمی کا پورا راستہ بتایا گیا ہے جو دیکھو تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مجاہدین صحیح معنوں میں اللہ کے سرفروش تھے۔ وہ تو اتنی تھوڑی تعداد میں بڑے ہی طاقتور دشمن کے گھر میں داخل ہو چکے تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دشمن کی تلواروں سے کٹتے دیکھا تھا ،لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے چہرے پر گھبراہٹ یا خوف کا ذرا سا بھی تاثر ہو۔ مجدل سے بہت دور جا کر ایک اور بستی آئی جو ابھی بلبیس شہر سے دور ہے اور اس کا نام قنترہ ہے۔ ہراول سے بہت آگے آنے جانے والے جاسوس بہت پہلے اس بستی تک پہنچ گئے اور ان میں سے ایک واپس آیا اور ہر اول دستے کو بتایا کہ اس شہر جیسی بستی میں رومی فوج کی کچھ تعداد موجود ہے جو اتنی تھوڑی نہیں کے بھاگ جائے گی۔ ہراول دستے کے سالار نے سپہ سالار کو اطلاع بھیجوا دی اور خود اپنے دستے کو ساتھ لے کر بستی کو گھیرے میں لینے کے لئے چلا گیا۔ عمرو بن عاص کو اطلاع پہنچی تو انہوں نے درمیان والے دستوں میں سے ایک دستہ آگے بھیج دیا یہ کوئی قلعہ بند شہر نہیں تھا۔ رومی فوجی شہر سے باہر آگئ مجاہدین ان پر حملہ آور ہوئے اور رومی فوجی کچھ تو کٹ مرے اور باقی بستی کے اندر چلے گئے۔ مجاہدین نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور سب کو ختم کردیا تاریخ میں اسے معمولی سی مزاحمت لکھا گیا ہے۔ لیکن ہم اسے معمولی مزاحمت نہیں کہیں گے کیونکہ عمرو بن عاص نے کمک کے بغیر وہاں تک جا کر بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا ،لشکر کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور وہ یوں سمجھیں کہ ایک شیر کے جبڑوں میں چلے گئے تھے۔ بزرگ صحابہ اکرام اسی لئے امیرالمومنین سے کہتے تھے کہ عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ یقینی ہلاکت کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتے ہیں۔ عمرو بن عاص اس مقام تک پہنچ گئے تھے بلکہ آگے نکل گئے تھے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو خطرہ مول لے لیا کرتے تھے، لیکن ہر پہلو پر غور کرلیتے اور ایک خطرے کے اندر چھپے ہوئے خطروں کو بھانپ اور ناپ تول لیا کرتے تھے ۔ اب وہ جو بلبیس کی طرف جا رہے تھے تو ان کی نظر صرف بلبیس پر یا ان کے ذہن میں بلبیس کا محاصرہ ہی نہیں تھا ،بلکہ انہوں نے اور بھی بہت کچھ سوچ لیا تھا جو اپنے ماتحت سالاروں کو کچھ پہلے بتا دیا تھا ،اور باقی اب بتایا۔ آگے کی بجائے اپنی نظریں پیچھے زیادہ رکھنا عمرو بن عاص نے بلبیس کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے اپنے سالاروں سے کہا تھا رومی اتنے بھی کم عقل نہیں کہ ایک شہر میں محصور ہو کر ہی لڑتے رہیں گے۔ وہ عقب سے یقینا حملہ کریں گے ۔ مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ بلبیس کے اندر کی فوج ہمارا مقابلہ اس طرح نہیں کرے گی جس طرح فرما میں کیا تھا۔ ایسی ہی کچھ اور ہدایات دے کر عمرو بن عاص نے پیش قدمی کا حکم دیدیا اور اسی شام بلبیس تک جاپہنچے، اور رات ہی رات شہر کو محاصرے میں لے لیا ۔ عمرو بن عاص جب شہر کے اردگرد محاصرے کو دیکھ رہے تھے تو وہ ہر سالار عہدے دار اور ہر کمانڈر سے یہ کہتے گئے کہ یہ مت بھولنا کے اب تمہارا مقابلہ روم کے بڑے ہی چالاک اور شاطر جرنیل اطربون سے ہے۔ *جاری ہے۔*

Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/32* ایک اور دن گزر گیا اور پھر ایک رات آئی وہ رات آدھی گزر گئی چاند نے زمین پر چاندنی بکھیر رکھی تھی۔ سیلی نوش کی ویسے ہی آنکھ کھلی اور وہ خیمے سے نکلا کیونکہ کچھ گھبراہٹ سے محسوس کر رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ باہر ذرا بیٹھ کر پھر آ کر سو جائے گا۔ وہ باہر نکلا تو اسے یوں نظر آیا جیسے کچھ دور درخت کے ساتھ کوئی بیٹھا ہوا ہے۔ سیلی نوش کی فطرت میں تجسس کچھ زیادہ پایا جاتا تھا اس کا ایک مظاہرہ تو اس نے یہ کیا تھا کہ نوشی کے منگیتر اور ملازم کو اس نے نوشی سے گتھم گتھا دیکھا تو اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور جب نوشی نے ساری بات واضح کی تو اس کے ساتھ چل پڑا کہ دیکھیں ہامون کیا کرتا ہے۔ اس رات اس نے کسی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر بیٹھے دیکھا تو اس کی طرف چل پڑا حالانکہ وہ گہری نیند سے اٹھا تھا اور نیند اس پر غالب آ رہی تھی۔ وہاں جا کر دیکھا تو وہ نوشی تھی جو اکیلی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ سیلی نوش کو اپنے پاس دے کر وہ چونکی نہیں بلکہ اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ سیلی نوش اس کے پاس آ گیا ہے۔ اس نے سیلی نوش کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔سیلی نوش نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آ بیٹھی ہے؟ میں نہیں جانتی تم کیسے آدمی ہو؟،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ میرے لئے یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ میں تمہیں اعتماد میں لوں یا نہ لوں۔ میرے ماتھے پر کچھ بھی نہیں لکھا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔۔ اتنا تو سوچ سکتی ہو کہ میں کہیں اور جا رہا تھا اور تمہاری باتیں سنیں تو تمہارے ساتھ یہاں تک آ گیا۔ میرے گھر والے ڈھونڈ رہے ہوں گے کہ میں کہاں غائب ہو گیا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی لالچ نہیں کیا یہ کافی نہیں کہ تم مجھے اعتماد میں لو؟ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا منگیتر تمہارے اعتماد کا آدمی ہے؟ نہیں!،،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اس سے اعتماد اٹھ گیا ہے اب میں تنہا ہوں میرے پاس گھوڑا ہے خیال آتا ہے یہاں سے بھاگ جاؤ۔ نوشی !،،،،،سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اب تو میں پوچھ کر ہی رہوں گا کہ وہ کیا بات ہے جس نے تمہیں اپنے منگیتر سے بدظن کر دیا ہے۔ پھر ایک وعدہ کرو۔۔۔ نوشی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ساتھ جو بات بھی کرو گی وہ میرے منگیتر کو نہیں بتاؤ گے اور میرے ملازم کو بھی اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ سیلی نوش نے اسے یقین دلانے کے لیے کہ وہ اس کی بات کو اپنے دل میں دفن کر دے گا بہت کچھ کہا اور اسے بات کرنے پر آمادہ کر لیا۔ مجھے اس ہامون جادوگر سے بچاؤ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے اپنے پاس تنہا بیٹھا کر تم تینوں کو باہر نکال دیا تھا اس نے اپنے اوپر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرلی کبھی میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر میری آنکھوں میں جھانکتا اور ایک بار یہ اپنا منہ میرے منہ کے اتنے قریب لے آیا کہ اس کی پیشانی میرے پیشانی کے ساتھ لگ گئی اس کے منہ سے مجھے جو بدبو آئی اس سے معلوم نہیں میں بیہوش کیوں نہ ہو گئی ۔اس کی سانسیں اتنی گرم کے میرے چہرے پر جلن محسوس ہونے لگی اچھا ہوا کہ اس نے اپنا منہ جلدی پیچھے کر لیا پھر اس میں کچھ عجیب و غریب حرکتیں کی جو میری سمجھ سے باہر تھی۔ پھر یہ اپنے ناگ کے پاس جا بیٹھا اور میری طرف پیٹھ کر لی اس نے ناگ سے کچھ پوچھنا شروع کردیا مجھے تو یوں پتہ چل رہا تھا جیسے ناگ اسے جواب دے رہا ہے آواز ایسی ہی تھی جو تم نے بھی سنی ہے آخر ناگ نے اسی باریکی اور کانپتی سی آواز میں کہا کہ یہ لڑکی تھوڑی سی قربانی دے دے تو یہ ملکہ بنے گی اور وہ سب کچھ پائے گی جو یہ چاہتی ہے۔ ناگ سے کچھ اور باتیں کر کے اس نے منہ میری طرف کیا اور مجھے اپنے قریب بلایا میں اس کے سامنے بالکل قریب جا بیٹھی اس نے اپنے ہی انداز اور لہجے میں کچھ اور باتیں کی اور آخر بات کو یہاں پر لے آیا کہ میں اس کے ساتھ بالکل برہنہ ہو کر ایک رات گزاروں تو میرا عزم تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے تمہارے اس حسن اور دلکش جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن اس غیبی طاقت کا جس کے قبضہ میں میں ہوں حکم ہے کہ تم دونوں کے جسم ایک ہو جائیں اور دونوں کی روحیں اوپر جائیں پھر ہر مشکل آسان ہو جائے گی اور ہر ارادہ پورا ہوگا۔ میں جان گیا ہوں۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ شخص جو چاہتا ہے وہ میں سمجھ گیا ہوں تم یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال اور کیا ارادہ ہے؟ تمہیں یاد ہو گا میں پہلے کیا کہتی رہی ہوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میں یہ کہتی رہی اور اب بھی کہوں گی کہ میں سلطنت روم کی عظمت پر اپنی جان قربان کر دوں گی لیکن سیلی نوش میں عصمت قربان نہیں کر سکتی، میں اپنی آبرو کو اپنے منگیتر کی امانت سمجھتی ہوں میرا مذہب اجازت نہیں دیتا کہ اپنی عصمت کسی کو دے دو خواہ وہ میر امام ملک ہی کیوں نہ ہو اگر گناہ ہی کرنا ہے تو کیا اس بدو اورمنحوس اور مکروہ آدمی کے ساتھ کیا جائے؟ کیا تم نے اپنے منگیتر کو نہیں بتایا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔ بتایا ہے ۔۔۔ نوشی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن وہ بے غیرت اور لالچی نکلا اس نے کہا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں کوئی حرج نہیں اس شخص کے ساتھ ایک رات بسر کر لو پھر تم ملکہ ہو گی اور میں بادشاہ ہوں گا ۔ میں نے منگیتر کو بتایا تھا کہ ہامون نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے ہرقل مصر کا بہت بڑا حصہ دے دے گا جہاں میری بادشاہی ہو گی۔ یہ بات منگیتر کو بتائی تو وہ میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں ہامون کی یہ بات پوری کر دوں۔ آج شام جب ہم ہامون کے خیمے سے یہاں آئی تو منگیتر کے ساتھ میری لڑائی ہوگئی ہم دونوں نے اپنا خیمہ الگ رکھا تھا کہ راز و نیاز اور پیار و محبت کی باتیں کیا کریں گے، لیکن وہ بالکل ہی کچھ اور نکلا،،،، تم بتاؤ سیلی نوش میں بھاگ جاؤں یا اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لوں! ۔ اپنی جان کیوں لے لو ؟۔۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ دنیا اس منگیتر پر ختم نہیں ہوجاتی ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں جو میں تین چار روز پہلے سے محسوس کر رہا ہوں۔ کسی وقت میں بھی ہامون کی کرامت کو مانتا تھا لیکن اب نہیں۔ میں دیکھتا رہا ہوں کے اس کی نظر صرف تم پر رہتی تھی تم ہو بھی اتنی زیادہ خوبصورت اور اتنی دلکش کہ پروہت اور پیشوا بھی اپنی حیثیت اور اپنا مذہب بھول جائیں۔ یہ شخص ہامون مجھے صرف شعبدہ بازی لگتا ہے۔ وہ جو دیئے اپنے آپ ہی بجھ گئے اور جل اٹھے تھے یہ ایک شعبدہ بازی ہے۔ اب تم نے اس سے سارا پردہ ہی اٹھا دیا ہے تم نے کہا ہے کہ میں تمھیں ہامون سے بچاؤ میں تمہیں بچاؤں گا۔ کیا کرو گے؟،،،، نوشی نے پوچھا۔ یہ مت پوچھو!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ بتا دیتا ہوں کہ تم اپنی جان نہیں لوں گی بلکہ ہامون کی جان لی جائے گی اس کی جان کسی طرح لی جائے گی یہ میں تمہیں بتاؤں گا۔ اور تم نے وہی کرنا ہے جو میں کہوں گا۔ مجھے ابھی بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔ نوشی نے بے تابی سے کہا۔۔۔ تم شاید نہیں سمجھ سکے کہ میں کیسی پریشان کن صورتحال میں پھنس گئی ہوں۔ میں نے تمہیں اپنے منگیتر کی ذہنی حالت نہیں بتائی وہ تو مرنے مارنے پر اترا ہوا ہے کہتا ہے کہ ہامون کی فرمائش پوری کرو۔ کرنا یہ ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ آج رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کے تم رضامند نہیں ہو۔ مجھے مشکل میں نہ ڈالو سیلی نوش!،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔۔۔وہ فوراً مجھے برہنہ ہو جانے کو کہے گا وہ پہلے ہی مجھے بتا چکا ہے کہ میں اس کے پاس جاؤ گی تو وہ کیا کرے گا۔ وہ کہے بھی تو برہنہ نہ ہونا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے وہ زبردستی تمہارے کپڑے اتارے گا لیکن گھبرانا نہیں تمہارا جسم ننگا نہیں ہوگا۔ ایک طرف تو نوشی اس قدر جرات مند اور جوش و جذبے والی تھی کہ صرف ایک ملازم کو ساتھ لے کر فرما سے چل پڑیں اور دشت و جبل سے گزرتی ان دیکھے اجنبی بدوؤں کے علاقے میں جا پہنچی تھی۔ اور اب اس کا یہ حال کے دل پر خوف طاری تھا اور وہ مدد اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ سیلی نوش کو اس نے اپنا ہمراز اور ہمدرد تو بنا لیا تھا لیکن اسے پوری طرح یقین نہیں آیا تھا کہ سیلی نوش اس کے حق میں مخلص ہے۔ لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ڈھونڈنے والی بات تھی اس نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ ایک ایسے شخص کو اعتماد میں لے لیا جو بدوّ تھا اور ہامون کی جادوگری کو مانتا تھا۔ یہ شخص سیلی نوش اسے دھوکہ دے سکتا تھا اور یہ خطرہ بھی کہ نوشی پر اس کی بھی نیت خراب ہوسکتی تھی۔ مختصر یہ کہ نوشی کا لاپتہ ہو جانا صاف نظر آ رہا تھا۔ نوشی وہاں سے اٹھی اور اپنے خیمے کی طرف چل دی نوشی اور اس کے منگیتر کا خیمہ سیلی نوش کے خیمے کے قریب ہی تھا۔ لیکن نوشی ذرا چکر کاٹ کر اپنے خیمے کی طرف جا رہی تھی سیلی نوش سیدھا اپنے خیمے میں آگیا۔ نوشی نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک اس کا منگیتر اس کے سامنے آگیا ۔ اس کی آنکھ کھلی تو نوشی کو غائب پایا اور اس کے پیچھے خیمے سے نکل گیا تھا ۔رات چاندنی تھی اس لئے اس نے نوشی کو سیلی نوشکے ساتھ دیکھ لیا تھا۔ آدھی رات کے وقت اس بدوّ کے پاس کیوں گئی تھی؟،،،، منگیتر نے حکم کے لہجے میں پوچھا۔ نوشی نے اسے صحیح بات بتا دی اور کہا کہ وہ اپنی آبرو قربان نہیں کرے گی۔ یہ بات تم دن کے وقت بھی اس کے ساتھ کر سکتی تھی۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ تم ان بدوؤں کی ملکہ بننا چاہتی ہو اور اس کے لئے یہ بدوّ سیلی نوش تمہیں موزوں آدمی نظر آیا ہے۔ نوشی پہلے ہی پریشان اور تذبذب میں مبتلا تھی۔ منگیتر کی یہ بات سن کر اور اس کا تحکمانہ انداز دیکھ کر جل اٹھی اور اس کے دل سے اس منگیتر کی محبت نکلنے لگی۔ میں جہاں جاؤں گی وہاں شہزادی اور ملکہ ہی ہوں گی ۔۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کا خاندان میری پہچان ہے اس خاندان کے ساتھ تمھارا تعلق بہت دور کا ہے ۔میں چاہوں تو تمہیں دھتکار بھی سکتی ہوں لیکن یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنا رویہ درست کرلو اور مجھ پر گھٹیا الزام نہ لگاؤ۔ دونوں کی جزباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کرکے صلح جوئی کی بات کریں۔ نوشی کے الفاظ سن کر اور اس کا انداز دیکھ کر منگیتر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اس قسم کی دھمکی دیدی کے وہ سیلی نوش کو قتل کر دے گا ۔ وہ کہتا تھا کہ یہ بدوّ ان کی رعایا ہیں ۔ نوشی خودسر اور باغی فطرت کی شہزادی تھی ،اس نے منگیتر کی دھمکی کو چیلنج سمجھ لیا اور کہا کہ وہ سیلی نوش کو قتل نہیں کرے گا البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ سیلی نوش کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔ نوشی نے منگیتر کو اس سے آگے بولنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہاں سے تیز قدم چل پڑی۔ اپنے خیمے تک پہنچی تو سیلی نوش باہر کھڑا تھا اس نے نوشی سے پوچھا کہ وہ اتنی دیر بعد کیوں آئی ہے؟ نوشی نے اسے بتا دیا کہ وہ کیوں دیر سے آئی ہے اور منگیتر کے ساتھ اس کی جو باتیں ہوئی تھی سنادی۔ تم دو بڑے وزنی پتھروں کے درمیان آگئی ہو نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا کل رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا باقی کام میرا ہے۔ نوشی ابھی سیلی نوش کے ساتھ باتیں کر رہی تھی کہ اس کا منگیتر آگیا اور نوشی کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیمے میں آئے وہ شاید بھول گیا تھا کہ نوشی کس قدر سرکش اور خود سر لڑکی ہے۔ میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔اپنی ذات کے متعلق فیصلے خود کرنے کی عقل اور ہمت رکھتی ہوں میں اس خیمے میں نہیں جاؤں گی میں سیلی نوش کے خیمے میں جا رہی ہوں۔ نہیں نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں یہ صورتحال قبول نہیں کروں گا پھر سیلی نوش نے نوشی کے منگیتر سے کہا ۔۔۔غلط فہمی میں نہ پڑو شہزادے یہ دیکھو تم کہاں ہو اور یہاں کیوں آئے ہو اپنے مقصد کو سامنے رکھو یہ وقت ذاتی اور جذباتی باتوں کا نہیں۔ تو خاموش رہ بدوّ۔۔۔۔ منگیتر نے شاہی رعب سے کہا ۔۔۔اسے اپنے پاس رکھ لے پھر اس کا نتیجہ دیکھ لینا۔ آ جاؤ نوشی!،،،،،،، سیلی نوش نے نوشی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔ اس لڑکے کا دماغ چل گیا ہے تم ہوش میں ہو میرے خیمے میں آجاؤ ورنہ تم دونوں باقی رات لڑتے جھگڑتے گزار دو گے۔ نوشی سیلی نوش کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی۔ اس کا منگیتر جلتا بھڑکتا اپنے خیمے میں گیا اور بستر پر جا بیٹھا، وہ سیلی نوش کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔ میں اب اس شخص کو اپنا منگیتر نہیں سمجھوں گی ۔۔۔۔خیمے میں نوشی سے سیلی نوش سے کہہ رہی تھی ۔۔۔میں سلطنت روم کی عظمت کو بحال کرنا چاہتی ہوں اور مسلمانوں کو شکست دے کر ان کا نام و نشان مٹا دینا میری زندگی کا مقصد ہے۔ لیکن یہ جسے میں منگیتر بنا بیٹھی تھی صرف میرے ہو حسن اور نوجوانی اور اس جسم کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہے۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں کہ میں کتنی خوبصورت اور دلکش ہوں ،اپنے اس جسم کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگلا روز اس طرح گزرا کے کچھ وقت ہامون کے خیمے میں گئے اور اس کا وہی پاگل پن تھرکنا، تڑپنا، اور ناگ کے ساتھ باتیں کرنا دیکھا ۔ سیلی نوش نوشی اور اس کے منگیتر میں صلح صفائی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن منگیتر پہلے سے زیادہ بھڑکا اور بھپرا ہوا تھا۔ نوشی نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ رات ہامون کے خیمے میں جائے گی یہ سن کر اس کا منگیتر کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷* رات گہری ہوئی تو نوشی ہامون کے خیمے کی طرف چل پڑی، ہامون نے سب کو بتایا تھا کہ صرف نوشی اس کے پاس آئے گی اور باقی سب لوگ اپنے اپنے خیموں میں رہیں گے۔ نوشی ہامون کے خیمے میں پہنچی تو اس نے نوشی کو اپنے سامنے بیٹھا لیا سامنے بھی ایسا بیٹھایا کہ دونوں کے گھٹنے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ ہامون نے نوشی کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنے چہرے کے قریب کیا نوشی نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش تو نہ کی لیکن نفرت کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔ صاف پتا چلتا تھا کہ ہامون بری طرح نشے میں ہے، اس نے کھڑے ہو کر وہ ڈنڈا جو اس نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا اٹھایا اور ناچنے کھودنے لگا پھر اس نے نوشی کو کھڑا ہونے کو کہا نوشی اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام کپڑے اتار دو۔۔۔ ہامون نے نوشی سے کہا۔۔۔ اس طرح برہنہ ہو جاؤ جس طرح تم پیدا ہوئی تھی یہ جسم کچھ بھی نہیں مجھے تمہاری روح چاہیے اپنی روح مجھے دے دو۔۔۔۔ اتار دو یہ کپڑے۔ نہیں!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اگر تمہیں صرف روح چاہیے تو یہ جسم کو ننگا کیے بغیر لے سکتے ہو میں کپڑے نہیں اتارونگی۔ ہامون نے نوشی پر اپنا طلسم طاری کرنے کے لئے ایک اوٹ پٹانگ سی حرکتیں کی اور کچھ شعبدہ بھی آزمایا لیکن نوشی نے کپڑے اتارنے سے صاف انکار کردیا۔ ہامون نے پہلے کی طرح ڈنڈا ہاتھ میں لے کر ناچنا کودنا اور عجیب عجیب حرکتیں کرنا شروع کردیا ۔نوشی کھڑی دیکھتی رہی۔ ناچتے کودتے ہوئے ہامون نوشی کے قریب گیا اور گریبان سے اس کی قمیض پر ہاتھ رکھا اور اتنی زور کا جھٹکا دیا کہ قمیض گریبان سے دامن تک پھٹ گئی ،نوشی نے مزاحمت کی اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ہامون آخر مرد تھا اس نے نوشی کے کپڑے نوچنے شروع کردیئے جیسے کوئی درندہ اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر رہا ہوں۔ نوشی ابھی نیم برہنہ ہی ہوئی تھی کہ ہامون کے پاؤں زمین سے اوپر اٹھے اور دوسرے لمحے وہ فرش پر پیٹ کے بل گرا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سر پر سیلی نوش کھڑا تھا۔ سیلی نوش نے بڑی تیزی سے خیمے میں داخل ہوکر ہامون کو دبوچا اوپر اٹھایا اور زمین پر بڑی زور سے پٹخ دیا۔ سیلی نوش نے ہامون کو اتنی زور سے پٹخا تھا کہ وہ فوراً اٹھ نہ سکا۔ سیلی نوش نے اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر رکھ کر دبایا اور بجلی کی سرعت سے نیام سے تلوار نکالی اور اس کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر ذرا سا دباؤ ڈالا ۔ ہامون نے پہلے تو سیلی نوش کو ڈرایا کہ وہ اپنے جنون بھوتوں کو بلا کر اس کی بوٹی بوٹی باہر پھینک دے گا۔ لیکن سیلی نوش پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہی آکر تمہیں مجھ سے چھوڑ آئیں گے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔اور اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر اور زیادہ دبایا اور تلوار کی نوک اس کے شہ رگ میں چبھو دی ہامون تڑپ رہا تھا۔ اب دیکھ کون کسے قتل کرتا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تیرے زندہ رہنے کی ایک ہی صورت ہے اپنی اصلیت بتا دے اور اپنی زبان سے کہہ دے کہ یہ سب شعبدہ بازی اور فریب کاری ہے۔ ہامون نے پھر بھی سیلی نوش کو ڈرانے کے لئے کچھ باتیں کیں جو بڑی خوفناک دھمکیاں تھیں لیکن سیلی نوش اس کا کوئی اثر قبول کر ہی نہیں رہا تھا۔ اپنی غیبی طاقت استعمال کر۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تیرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہوتی تو تو اب تک مجھ پر جوابی وار کر چکا ہوتا تو اس لڑکی کی عزت کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔۔۔ فوراً بول۔ سیلی نوش نے تلوار کی نوک اتنی سی اور دبادیں کے ہامون کی شہ رگ سے ذرا سا خون پھوٹ آیا۔ تلوار ہٹالے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ کرکے کسی اور کو نہیں بتائے گا اس لڑکی سے بھی کہہ دے کہ زبان بند رکھے۔ سیلی نوش نے تلوار کی نوک اس کے شہ رگ سے اٹھا لی لیکن وہاں سے تلوار ہٹائی نہیں اپنا ایک پاؤں اس کے پیٹ پر ہی رکھا ذرا سا دباؤ کم کردیا پھر سیلی نوش نے اسے یقین دلایا کہ اس کا راز کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔ اور یہ لڑکی تو یہاں سے چلی ہی جائے گی یہ بھی سوچ لے کے یہ شاہی خاندان کی لڑکی ہے اگر تو نے جھوٹ بولا تو یہ تجھے بہت ہی بری موت مروائے گی لیکن اس سے پہلے میری تلوار تیرے شہ رگکاٹ چکی ہو گی۔ تو ٹھیک سمجھا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ میں صرف جادو کے کرتب دکھا سکتا ہوں اور یہ صرف شعبدہ بازی ہے میں جو اچھل کود اور دوسری حرکتیں کرتا ہوں ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھ سے متاثر بھی ہو اور خوف زدہ بھی، مجھے کیا ملتا ہے قبیلوں کے سردار بھی یہاں آکر میرے قدموں بیٹھتے ہیں مجھے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتے ہیں، جب بھی میں ایک لڑکی کی فرمائش کرتا ہوں تو کوئی نہ کوئی سردار چن کر ایک خوبصورت لڑکی میرے پاس بھیج دیتا ہے۔ محمد يحيٰ سندھو تو ناگ سے سوال پوچھتا تھا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔۔۔ کیا ناگ جواب دیتا تھا یا وہ باریک اور کانپتی ہوئی آواز کس کی تھی؟ وہ میری ہی بدلی ہوئی آواز تھی۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔۔ یہ کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ اس وقت میری پیٹ خیمے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف ہوتی ہے اور منہ ناگ کی طرف کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ باریک اور کانپتی ہیں آواز میری ہوتی ہے۔ اور وہ جو دیے بجھ کر اپنے آپ ہی جل اٹھے تھے؟ یہ میری شعبدہ بازی ہے۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔ میں ایسے کئی اور کرتب دکھا سکتا ہوں۔ میں خوبصورت لڑکیوں کا شکاری ہوں یہ لڑکی ایسی ہے کہ میں سب کچھ بھول گیا اور اس لڑکی کو حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ،تم نہ آجاتے تو میرا ارادہ پورا ہوجاتا۔ تو غلط سمجھا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی نے مجھے کل بتا دیا تھا کہ تو کیا چاہتا ہے یہ لڑکی اپنی آبرو دینے پر کسی قیمت پر رضامند نہیں تھی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اسے تجھ سے بچا لوں، اسے آج میں نے بھیجا اور خیمے کے پاس کھڑا رہا اور پردے سے اندر دیکھتا رہا اور عین موقع پر تجھے پکڑ لیا۔ میں حیران ہوں تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔۔ اس کی عزت کا خیال تو اس کے منگیتر کو ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے تم سے الگ ہو کر اور میرے پاس آکر کہا تھا کہ اس لڑکی کو ایک چھوڑو دو راتیں اپنے پاس رکھو اپنا یہ وعدہ پورا کرو کہ تم اسے ملکہ اور مجھے بادشاہ بنا دو گے ،اور شہنشاہ ہرقل ہمیں مصر کا کچھ حصہ دے دے گا جہاں ہماری بادشاہی ہو گی۔ سیلی نوش نے لڑکی کی طرف اور لڑکی نے سیلی نوش کی طرف دیکھا۔ میں تجھے جینے کا حق نہیں دے سکتا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تو سیدھے اور بے سمجھ لوگوں کے ساتھ فریب کاری کر رہا ہے اور ان کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ یہ کہہ کر سیلی نوش نے تلوار کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر اتنا دباؤ ڈالا کہ تلوار ہامون کی گردن میں سے گزر کر زمین میں چلی گئی، سیلی نوش نے تلوار نکالی اور ایک بار پھر شہ رگ میں اتار کر تلوار اپنی طرف کھینچی اور گردن میں لمبا کاٹ دے دیا، اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ سے ہٹایا اور پیچھے ہٹا، ہامون ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگا اور اس کی گردن سے خون کا فوارہ پھوٹ آیا۔ چلو نوشی! ۔۔۔۔سیلی نوش نے تلوار نیام میں ڈال کر کہا۔۔۔ اسے تڑپ تڑپ کر مرنے دو۔ سیلی نوش اور نوشی خیمے سے نکل آئے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷* میں منگیتر کے پاس نہیں جانا چاہتی۔ باہر آکر نوشی نے کہا۔۔۔ تم بتاؤ میں کیا کروں یہ تو تم جانتے ہو میں اس طرف کیوں آئی تھی یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا، تم تو میرے ساتھ رہ نہیں سکتے ملازم میری کوئی مدد نہیں کرسکتا، منگیتر کو میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے میرے عزم اور میرے جذبے کا کوئی احساس نہیں ،اسے میرے حسن اور جسم کے ساتھ دلچسپی ہے یہ مجھے گمراہ اور خراب کرسکتا ہے میرا ساتھ نہیں دے سکتا۔ میری بات مانو! ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ جو عزم لے کر آئی تھی اس میں تم کامیاب نہیں ہو سکو گی وہ بدوّ جو مسلمان کے ساتھ جاملے ہیں وہ کچھ اور قسم کے لوگ ہیں ،یہ ان سے مختلف ہیں ان سے دور ہی رہو تو اچھا ہے تم واپس چلی جاؤ۔ کیا تم میرے ساتھ چل سکتے ہو؟ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ میں اتنا ڈر گئی ہوں کہ اکیلے جاتے خوف آتا ہے تم چلو میں تمہیں اتنا انعام دلاؤں گی کہ حیران رہ جاؤ گے۔ میں نے تمہیں اس شیطان سے کسی لالچ میں آکر نہیں بچایا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ میرا ذاتی اخلاق ہے اور اسے میں اپنا فرض سمجھتا تھا ،تمہیں تمہارے باپ تک پہنچانے جاؤں گا تو بھی اپنا فرض سمجھ کر جاؤں گا۔ تو پھر ابھی چلے چلتے ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میرے منگیتر کو بھی پتہ نہ چلے اور میرے ملازم کو بھی، میں ذرا ادھر جا کر رک جاتی ہو تم اپنا اور میرا گھوڑا لے آؤ۔۔۔ سیلی نوش واپس ہامون کے خیمے میں گیا ہامون بے حس و حرکت پڑا تھا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان آنکھوں سے زندگی کی چمک ختم ہو چکی تھی، سیلی نوش نے اسے حقارت سے دیکھا اور خیمے سے نکل آیا ۔ اس نے نوشی سے کہا کہ وہ کچھ دور جاکر اس کا انتظار کرے اور خود اپنے خیمے میں چلا گیا۔ سیلی نوش اور بدوّ ملازم ایک ہی خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے گھوڑے خیموں سے کچھ دور بندھے رہتے تھے، اور ان کی ذینیں خیموں میں رکھی ہوئی تھیں۔ سیلی نوش نے اپنے خیمے میں جا کر ملازم کو دیکھا وہ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔سیلی نوش نے اپنی اور ملازم کی زین اٹھائی دو زینوں کا وزن زیادہ تھا ، لیکن سیلی نوش نے یہ وزن اٹھا لیا اور دبے پاؤں خیمے سے نکل گیا گھوڑوں تک پہنچا اپنے اور ایک اور گھوڑے پر زین کسی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور دوسرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور اس جگہ جا پہنچا جہاں نوشی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ نوشی گھوڑے پرسوار ہوئی اور دونوں چل پڑے۔ *جاری ہے۔*