عجیب وغریب
عجیب وغریب
February 3, 2025 at 06:04 AM
🛑 *مسلمانوں کے ترقی کا زوال کس وجہ سے؟* رات کے اندھیروں میں ستارے روشنی تو دیتے ہیں، مگر راستہ نہیں دکھا سکتے۔ یہی حال آج امت مسلمہ کا ہے—ٹکڑوں میں بٹی، ماضی کے خوابوں میں کھوئی، اور اپنی عظمت کو کہانیوں میں تلاش کرتی ہوئی۔ دنیا کی تاریخ میں امت مسلمہ کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ ایک ایسا وقت تھا جب مسلمان علم، سائنس، معیشت، اور سیاست میں دنیا کی قیادت کر رہے تھے، لیکن آج امت اختلافات میں بٹ کر کمزور ہو چکی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ سب مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ تھا، یا مغرب کی چالاکیوں اور سازشوں نے امت کو تقسیم کر دیا؟ آخر کیا ہم واقعی صلاح الدین ایوبی، ابن سینا، اور محمد الفاتح کی نسل ہیں؟ یا ہم صرف گزرے وقت کے مسافر ہیں جو اپنی تاریخ کے صفحات الٹتے رہتے ہیں مگر سبق نہیں سیکھتے؟ آئیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ امت مسلمہ نے کیسے عروج حاصل کیا، کیسے مغربی طاقتوں نے اسے کمزور کیا، اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ =============================== ساتویں صدی میں اسلام کے ظہور کے بعد، عربوں نے ایک حیران کن ترقی کی۔ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے، مسلمان نہ صرف روحانی اور اخلاقی میدان میں ترقی کر رہے تھے بلکہ سیاسی اور سائنسی سطح پر بھی دنیا کو روشنی دے رہے تھے۔ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کے ادوار میں مسلمان دنیا کی سب سے بڑی تہذیب بن چکے تھے۔ بغداد، قرطبہ، سمرقند، اور قاہرہ جیسے شہروں میں علم و حکمت کے چرچے تھے۔ مسلمان سائنس، ریاضی، فلکیات، اور طب میں مغرب سے کئی صدیوں آگے تھے۔ صلیبی جنگوں کے باوجود مسلمان مضبوط تھے اور اسلامی تہذیب اپنی بلندیوں پر تھی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، امت مسلمہ میں فرقہ واریت، عیش و عشرت، اور باہمی اختلافات نے جنم لیا۔ مغرب نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایسی سازشیں کیں جنہوں نے امت کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کیــــونکـــــہ وہ جانتے تھے کہ اگر یہ امت اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک جسم بنی رہی، تو کوئی بھی اسے شکست نہیں دے سکے گا… وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان "لا الہ الا اللہ" کے جھنڈے تلے کھڑے رہے، تو یہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن جائیں گے… اس لئے انہوں نے بہت سوچ سمجھ داری سے ایک چال چلایا، وہ ایسی چال تھی کہ انہوں نے ہم پر بندوق سے حملہ نہیں کیا… انہوں نے ہم پر میزائل نہیں برسائے… انہوں نے ہم پر ایٹم بم نہیں گرایا… بلکــــہ انہوں نے ہم پر فرقہ واریت کا زہر پھینکا! اور ہــــــم ہم نے اس زہر کو ایسے پیا جیسے یہ شہد ہو! "ہم نے خود اپنی جڑیں کاٹیں!" ہم نے فرقوں کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کیا… ہم نے مسلک کے نام پر بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا… ہم نے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو اتنا بڑا کر دیا کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے لگے… اور مغرب… وہ ہنستا رہا… وہ تماشہ دیکھتا رہا… وہ ہماری لڑائیوں سے فائدہ اٹھاتا رہا… کبھی ہمیں شیعہ اور سنی میں بانٹ دیا… کبھی بریلوی، دیوبندی، اور سلفی کے نام پر تقسیم کر دیا… کبھی عرب اور غیر عرب کے درمیان نفرت پیدا کر دی… اور ہم… ہم نے ہر چال کو قبول کر لیا… آج پوری دنیا میں مسلمان مظلوم ہے! چاہئے وہ اب ہم مسلمانوں پر کوئی میزائل برسائے یا بم دھماکہ ، ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ کبھی کہیں فلسطین جل رہا ہے، تو کہیں کشمیر لہو لہان ہے… کہیں شام میں خون بہہ رہا ہے، تو کہیں برما میں مسلمان زندہ جلا دیے جا رہے ہیں… لیکن کوئی ان کی مدد کے لیے کھڑا نہیں ہوتا! خلافت عثمانیہ سے یہی چال اور سازشیں چل رہی ہے جیسے ١.خلافت عثمانیہ کا خاتمہ: سب سے بڑی چال 19ویں اور 20ویں صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب آیا، جبکہ مسلم دنیا اندرونی لڑائیوں میں مصروف تھی۔ برطانیہ، فرانس، اور دیگر مغربی طاقتوں نے خلافت کے خلاف بغاوتوں کو ہوا دی۔ عربوں کو ترکوں کے خلاف کھڑا کیا گیا، اور خلافت عثمانیہ کو 1924 میں ختم کر دیا گیا۔ ٢. قوم پرستی اور فرقہ واریت کی آگ مغرب نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی اپنائی۔ مصنوعی سرحدیں کھینچ کر مسلم ممالک کو آپس میں لڑایا گیا۔ شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، بریلوی جیسے فرقہ وارانہ مسائل کو ہوا دی گئی۔ ٣. تعلیمی اور فکری انحطاط مسلمانوں کو علم و تحقیق سے دور کیا گیا، جبکہ مغرب نے ترقی کر لی۔ اسلامی تعلیمات کی بجائے مغربی فلسفے کو فروغ دیا گیا۔ میڈیا اور پروپیگنڈا کے ذریعے مسلمانوں کی ذہنیت بدل دی گئی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یہ امت قرآن اور حدیث پر متحد رہی، تو دنیا پر حکمرانی کرے گی… آج امت مسلمہ انتشار، جنگ، اور بدنامی کا شکار ہے۔ مغربی میڈیا مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کے طور پر پیش کر رہا ہے، جبکہ اصل دہشت گردی اور سامراجی پالیسیاں وہ خود نافذ کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک آپس میں دست و گریبان ہیں۔ مغربی معیشت پر انحصار بڑھ چکا ہے۔ مسلم نوجوان اپنی تاریخ اور شناخت سے ناآشنا ہو چکے ہیں۔ اسرائیل اور مغربی طاقتیں فلسطین، شام، عراق، اور افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں، لیکن امت خاموش ہے۔ آخــــر یـہ خــاموشــی، بـــزدلــی ، کیــــــوں؟ کیونکہ ہم خود ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں! کیونکہ ہمیں سکھایا جا چکا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن کوئی دوسرا فرقہ ہے، کوئی دوسرا مسلمان ہے! اور مغرب… وہ آج بھی ہنستا ہے… کیونکہ اس کی سب سے بڑی جیت یہی ہے! کیــا حــل ممکــن ہے؟ شاید ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ شاید اگر ہم جاگ جائیں، اگر ہم سنبھل جائیں، تو تاریخ ایک بار پھر ہمارے قدموں کے نشان چومنے کو تیار ہو جائے۔ مگر اس کے لیے ہمیں یاد کرنا ہوگا کہ ہماری اصل طاقت کیا تھی، اور ہم نے وہ کہاں کھو دی۔ اگر امت مسلمہ کو دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس حاصل کرنی ہے، تو یہ چند اقدامات ناگزیر ہیں: _*١. قرآن و سنت: وہ روشنی جسے ہم نے طاق میں رکھ دیا*_ تاریخ چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے کہ جب بھی امت مسلمہ نے قرآن و سنت کو اپنا محور بنایا، وہ دنیا کی سب سے طاقتور قوم بنی۔ وہ وقت یاد کرو جب صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کو آزاد کروانے نکلا تھا۔ اس کے لشکر میں کوئی جدید ہتھیار نہ تھے، کوئی بڑی سلطنت اس کے پیچھے نہ تھی، مگر اس کے پاس ایک چیز تھی—ایمان کی طاقت۔ وہ کہا کرتا تھا: *"اگر قرآن ہماری تلوار کی دھار نہ بنا، تو ہم بکھر جائیں گے۔"* اور آج؟ آج ہم نے قرآن کو طاق پر رکھ دیا ہے، اسے تعویذوں میں لپیٹ کر دیواروں پر سجا دیا ہے۔ ہم نے دین کو صرف مسجد کے محراب تک محدود کر دیا، اور زندگی کے باقی میدانوں میں مغرب کے فلسفوں کو اپنا رہنما بنا لیا۔ مغربی تاریخ دان آرنلڈ جے ٹوینبی نے شاید اسی لمحے کے لیے کہا تھا: { "اگر مسلمان قرآن کو سمجھ کر اپنانے لگے، تو دنیا پر ان کا راج ہوگا۔ انہیں اس سے دور رکھو!" } ہمیں اپنی اصل کو پھر سے پانے کی ضرورت ہے۔ وہ امت جو کبھی علم و حکمت، انصاف اور بہادری میں بے مثال تھی، آج خود کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ ہمیں پھر سے وہی بننا ہوگا جو ہم کبھی تھے—قرآن کی روشنی میں چلنے والی امت، جسے نہ مغربی سازشیں گرا سکتی تھیں، نہ داخلی انتشار۔ _*٢. جدید علوم میں مہارت: وہ خزانہ جو ہم نے لُٹا دیا*_ یاد کرو وہ وقت جب دنیا میں اندھیرا تھا، اور مسلمان علم کے چراغ جلا رہے تھے۔ بغداد، قرطبہ، اور قاہرہ کی درسگاہوں میں ایسے دماغ پیدا ہو رہے تھے جنہوں نے دنیا کو نئی راہیں دکھائیں۔ ابن سینا، الرازی، الخوارزمی، ابن الہیثم—یہ سب ہمارے ہیرو تھے۔ مگر پھر… ہم نے یہ خزانہ کھو دیا۔ آج ہم جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں، اور مغرب نے اس خلا کو بھر دیا ہے۔ ہم دوسروں کی بنائی ہوئی دوائیں کھاتے ہیں، دوسروں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں، دوسروں کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلتے ہیں۔ کیا یہی وہ امت تھی جس نے کبھی صفر ایجاد کیا تھا؟ علامہ اقبال نے شاید ہماری ہی حالت کو دیکھ کر کہا تھا: { "وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں، جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو!" } اور مغربی مفکر گسٹاف لی بان نے ایک حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا: { "اگر مسلمان اپنی علمی روایات کو دوبارہ زندہ کر لیں، تو وہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائیں گے!" } یہ وقت ہے کہ ہم خوابوں سے جاگیں۔ ہمیں اپنی یونیورسٹیاں، اپنی ریسرچ سینٹرز، اپنی انڈسٹریز، اپنی ٹیکنالوجی کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ اگر ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، تو علم کے میدان میں خود کفیل بننا ہوگا۔ ورنہ ہمیشہ دوسروں کی غلامی میں زندگی گزارنی پڑے گی۔ _*٣. اتحاد اور خودمختاری: بکھرے ہوئے شیروں کو پھر سے یکجا کرنا ہوگا*_ سلطنت عثمانیہ کے وقت مسلمان ایک پرچم تلے متحد تھے۔ دنیا ہماری طرف دیکھ کر لرزتی تھی، یورپ کے بادشاہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ مگر پھر ہم نے خود ہی اپنی طاقت کو توڑ دیا۔ آج عرب الگ، عجم الگ، شیعہ الگ، سنی الگ، اور ہر کوئی اپنے اپنے قلعے میں قید ہے۔ مغرب نے ہماری تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔ کیا یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا: { "اگر مسلم دنیا ایک قیادت کے تحت متحد ہوگئی، تو یورپ کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے گا!" } ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنی ہوں گی۔ ہمیں اپنے ذاتی، قومی، اور فرقہ وارانہ مفادات کو چھوڑ کر امت کی وحدت کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی معیشت کو مغرب کے شکنجے سے آزاد کرنا ہوگا، اپنی خارجہ پالیسی خود بنانی ہوگی، اور اپنی عسکری طاقت کو اتنا مضبوط کرنا ہوگا کہ کوئی ہمیں ترنوالہ نہ سمجھ سکے۔ امت مسلمہ کا زوال اتفاقیہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک منظم سازش اور ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن مایوسی گناہ ہے۔ اگر آج بھی ہم متحد ہو جائیں، علم و تحقیق کو اپنائیں، اور قرآن و سنت کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں، تو امت مسلمہ دوبارہ عروج حاصل کر سکتی ہے۔ تاریخ نے ہمیں بارہا سکھایا ہے کہ زوال کے بعد عروج ممکن ہے—بس شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچانیں اور مغرب کی چالوں کو ناکام بنائیں۔ قرآن کی آیت ہے کہ *"اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔" (القرآن، 13:11)* ہمارے واٹس ایپ چینل ↓ *🇸🇩 خلافت کے وارث* https://whatsapp.com/channel/0029Vao2l6h1noz6wglxaG2x
❤️ 🙏 2

Comments