Sheikh Maqbool Ahmad Salafi Hafizahullah
Sheikh Maqbool Ahmad Salafi Hafizahullah
February 26, 2025 at 11:15 AM
*آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (51)* جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ جدہ دعوہ سنٹر حی السلامہ -سعودی عرب ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *سوال: عشاء کی نماز کے بعد سے تہجد کا وقت شروع ہو جاتا ہے تو اگر عشاء کی چار فرض اور دو سنتوں کے بعد چار رکعات نفل ایک سلام سے پڑھ کر پھر وتر پڑھ کر تہجد کی نیت سے دو رکعت نفل پڑھیں تو وہ تہجد کو کفایت کرے گی۔ میں عشاء کی نماز اپنی مصروفیت کی وجہ سے بہت دیر سے پڑھتی ہوں کیونکہ تجوید کی آن لائین کلاسز کراتی ہوں؟* جواب: اس سوال کے لئے سب سے پہلے دو باتیں جاننا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت تہجد پڑھا کرتے تھے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وتر رات کی آخری نماز ہے۔ اگر کسی کو تہجد پڑھنا ہو تو تہجد پڑھنے کے بعد اسے آخر میں وتر پڑھنا ہے اور اگر تہجد نہ پڑھنا ہو تو عشاء کی فرض اور سنت کے بعد وتر پڑھ لے۔ جس کسی کو تہجد کی نماز پڑھنا ہو تو اس کا بہتر وقت رات کا آخری پہر ہے لیکن عشاء کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں اور درمیانی رات میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور قیام اللیل کرتے ہوئے گیارہ رکعت پڑھنے کا معمول بنانا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کا معمول رہا ہے۔ اگر کوئی عشاء کی نماز کے بعد یا درمیانی رات میں یا آخری پہر میں کبھی بھی قیام اللیل کے طور پر دو رکعت یا چار رکعت یا جو میسر ہو پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم افضل اور بہتر گیارہ رکعت ہے اور اگر معمول بنانا ہو تو اسی گیارہ رکعت کو معمول بنانا چاہیے۔ *سوال: بچوں کی عید کے پیسے اور جو رشتہ دار تحفے میں پیسے دے، بچوں کو بتائے بغیر، کیا وہ پیسے انہی کے کپڑوں اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کرسکتے ہیں اور چھوٹے معصوم بچوں کے پیسے جمع کئے جائیں یا بچوں پہ ہی خرچ کیا جائے؟* جواب: چھوٹے بچوں کے پیسے پر بچوں کا حق ہے تاہم بچوں کا ذمہ دار اپنی صوابدید سے بچے کی ضروریات اور اس کے مصرف میں خرچ کرسکتا ہے بلکہ بہتر بھی یہی ہے کہ بچوں کے تحفہ والے پیسے ذمہ دار اپنے پاس رکھے اور ضرورت کے بقدر بچے کو دیا کرے یا اس کے کام میں صرف کرے۔ زیادہ پیسوں سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور ماں باپ کی اطلاع کے بغیر غیر ضروری چیزیں خرید لیتے ہیں جس سے بسا اوقات نقصان بھی ہوتا ہے۔ بچوں کے تحفے پر ماں باپ کا بھی حق ہے، اگر ضرورت کے وقت اپنے لئے یا گھر کے لئے اسے استعمال کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں اتنی بات مد نظر رکھے کہ بچہ ہوش مند اور باشعور ہے تو اس کو مایوس کرکے یا اس کی مرضی کے بغیر جبرا اس کا پیسہ کسی جگہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ اس کی خوشی کے ساتھ مناسب جگہ خرچ کیا جائے۔ *سوال: ایک بہن کے والد کا انتقال ہو گیاہے، اس نے پچھلے سال بیماری کے باعث بارہ روزے نہیں رکھے تھے لیکن فدیہ ادا کر دیا تھا۔ کیا اس کی بیٹی والد کا چھوٹا ہوا روزہ رکھ سکتی ہے؟* جواب: اگر آدمی رمضان میں بیمار پڑا اور اسی بیماری میں وفات ہوگئی، چھوٹے ہوئے روزہ رکھنے کی مہلت نہ ملی تو ایسے میت کی طرف سے اس کے چھوٹے ہوئے روزہ کی نہ کوئی قضا ہے اور نہ کوئی فدیہ ہے۔ اور ایسا بیمار جو اپنی بیماری کی وجہ سے کچھ روزہ چھوڑا پھر رمضان کے بعد اسے روزہ رکھنے کی مہلت ملی مگر اس نے نہیں رکھی اور اس کا انتقال ہوگیا تو ایسی صورت میں میت کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی تاہم فدیہ دینے سے بھی فدیہ ادا ہو جائے گا۔ اگر میت کی یہ صورت ہے تو اس کی طرف سے ادا کیا گیا فدیہ کافی ہے، بیٹی کو روزہ قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ *سوال: ایک عورت کو تین بچے ہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ وہ اپنا چھوٹا بیٹا جو کہ ابھی چار مہینے کا ہے کسی کو دینا چاہ رہی ہے کیونکہ اس کے پاس وسائل نہیں ہیں اور میں اس بچے کو گود لینا چاہتی ہوں اور میرے پاس ساڑھے تین سال کی بیٹی ہے۔ میرے شوہر اس کے لئے نہیں مان رہے ہیں جبکہ مجھے اس بچے سے بہت انسیت ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟* جواب: بچہ گود لینے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلام نے کسی دوسرے کا بچہ لے کر پالنے پوسنے کی اجازت دی ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن چونکہ بچے کا خرچ مرد کو اٹھانا پڑے گا۔ آپ تو صرف بچہ گود لیں گے جبکہ اس کی معاشی کفالت اور تعلیم و تربیت اور اس کی دیگر ضروریات پورا کرنا شوہر کے ذمہ ہوگا ایسی صورت میں شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ اپنے معاملہ میں پہلے شوہر کو راضی کریں پھر بچے کو گود لیں، اگر وہ بچہ گود لینے کے لئے رضامند ہو جائیں تو ٹھیک ہے بچہ گود لے لیں اور اگر وہ اس سے انکار کر دیں تو اپنے شوہر کی اطاعت کریں اور بچہ گود نہ لیں۔ *سوال: میرے پچھلے رمضان کے سات روزے باقی ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ سردیوں میں یعنی ٹھنڈ کے موسم نومبر و دسمبر میں رکھ لوں گی مگر مجھے حمل ہوگیا، پھر پانچ ماہ میں پیٹ میں بچہ وفات پاگیا جس کے لئے بڑا آپریشن ہوا۔ ابھی طبعت کچھ بہتر ہوئی ہے تو میں روزے نہیں رکھ سکتی کیونکہ اب رمضان میں تھوڑے دن باقی ہیں۔ میں کیا کروں، کیا پچھلے سات روزوں کا فدیہ دے دوں کسی کو یا مجھے قضا کرنا پڑے گا؟* جواب: فدیہ دینے سے قضا روزے پورے نہیں ہوں گے، ان چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے آپ کو ہرحال میں روزہ ہی رکھنا پڑے گا۔ اگر اس مرتبہ رمضان سے پہلے نہیں رکھ سکے تو رمضان کے بعد جیسے سہولت ہو چھوٹے روزوں کی قضا کریں۔ اور چونکہ آپ کو روزہ رکھنے کی مہلت بھی ملی مگر آپ نے سستی دکھائی ہے اس لئے اللہ تعالی سے تاخیر کے لئے توبہ بھی کریں۔ *سوال: (لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جبکہ مالدار لوگ تفریح کے لئے حج کریں گے اور ان کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے اور غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔)کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کا حوالہ کیا ہے؟* جواب: تاریخ بغداد اور مسند الفردوس وغیرہ میں یہ روایت ہے مگر یہ ضعیف ہے، شیخ البانی نے سلسلہ ضعیف میں ضعیف کہا ہے۔ نیچے متن حدیث اور تخریج دیکھیں۔ يأتي على الناسِ زمانٌ يَحُجُّ أغنياءُ أمتي للنُّزْهةِ، وأوساطُهم للتجارةِ وقُرَّاؤُهم للرياءِ والسمعةِ، وفقراؤُهم للمسألةِ(السلسلة الضعيفة:1093) التخريج : أخرجه الخطيب في ((تاريخ بغداد)) (10/296)، وابن الجوزي في ((العلل المتناهية)) (927) واللفظ لهما، والديلمي في ((الفردوس)) (8689) باختلاف يسير. *سوال: اگر کوئی، قرآن فیمیل ٹیچر کے نمبرات دوسروں کو شیئر کرے پھر کوئی ہماری کلاسز کو جوائن کرے مگر ہمیں نہیں پتہ کہ وہ ہیڈ فون کا استعمال کر رہی ہے یا نہیں۔ ایسے میں اگر ہماری قرات کوئی مرد سنے تو درست ہوگا۔ کیا ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم طالبات کو آگاہ کریں اور کیسے آگاہ کریں جبکہ ہمیں جوائن کرنے اور ہیڈ فون لگانے کا پتہ نہیں چلے گا؟* جواب: ضرورت کے وقت پردہ کے پیچھے سے عورت کا مرد سے اور مرد کا عورت سے بات کرنا جائز ہے مگر تعلیم دیتے وقت ایک عورت ہر طریقہ سے طالبہ کو سمجھاتی ہے بلکہ قرات کا علم ہے تو بناؤ سنگار کے ساتھ قرات کرے گی ایسی صورت میں اس کی آواز کوئی اجنبی مرد نہ سنے۔ اس لئے آن لائن تعلیم دینے والی خاتون کو یقینی بنانا ہے کہ اس کی آواز اور تعلیم صرف عورت کے لئے ہے، اگر یہ ذمہ داری نہ نبھا سکے تو آن لائن تعلیم نہ دے، آف لائن ادارہ اور نسواں مدرسہ میں پڑھائے۔ اج ویسے بھی فتنے کا زمانہ ہے اور عورت بذات خود فتنہ کا سبب ہے۔ اس کی آواز اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر عام کیا جاسکتا ہے جو کہ شرعا جائز نہیں ہے اس لئے اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔ *سوال:ایک خاتون کے پاس دو سو تولے سونا ہے اور جو جیولری ہروقت پہنی جاتی ہے وہ صرف چند انگوٹھیاں اور دو چوڑیاں ہوتی ہیں، باقی رکھا رہتا ہے، فقط شادی وغیرہ پہ پہنا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو بھی پہننے کی نیت سے سونا لیا گیا ہے صرف اس کی زکوة نہیں دینی ہے یا جو ہر وقت شب و روز پہننے والا ہے اور جو کھبی کبھار پہننے والا ہے، اس پہ زکوة دینی ہوگی؟* جواب: عورت کے پاس جتنے زیوارت ہیں، خواہ وہ اسے پہنتی ہو یا وہ زیورات رکھے ہوئے ہوں۔ اگر نصاب تک پہنچتے ہیں تو ہرسال ان کی زکوۃ دینی ہوگی۔ *سوال: میری بہن سکول میں ٹیچر ہے، سکول کے بعد وہ آفس میں کام کرنے جاتی ہے۔ سکول میں اس کی جس دن بچوں کی چھٹی کے وقت ڈیوٹی ہوتی ہے وہ اُس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتی، آفس میں بھی پہنچتی ہے تو قضا ہوچکی ہوتی ہے۔ مغرب کے وقت گھر آکر ظہر کی نماز قضا پڑھتی ہے۔ کیا سکول سے آفس کے راستے میں چلتی گاڑی میں نماز پڑھ سکتی ہے جبکہ گاڑی میں قبلہ کا بھی پتہ نہیں چلتا؟* جواب:اس میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر وہ اسی کلومیٹر یا اس سے زیادہ دوری طے کرکے تعلیم دینے جاتی ہے تو بغیر محرم کے اتنی دور تعلیم دینے کے لئے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر سفر اسی کلومیٹر سے کم کا ہے تو بغیر محرم کے سفر کرنا جائز ہے پھر بھی آج کا زمانہ نہایت پر فتن ہے اس لئے احتیاط کرنا بہتر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اصل میں فرض نماز سواری پر نہیں ادا کرنا ہے کیونکہ اس میں قبلہ کا ہی اصل مسئلہ ہے۔ مذکورہ بالا صورت میں آفس میں پہنچ کر پہلی فرصت میں چھوٹی ہوئی نماز ادا کرلے۔ اگر وہاں نماز ادا نہ کرسکے تو گھر آکر قضا کرلے اور کچھ دیر کے سفر میں سواری پر فرض نماز نہ ادا کرے۔ *سوال: میں پاکستان سے ہوں، مجھے آپ سے معلوم کرنا ہے کہ اپنی جیب خرچ سے 50،000 ہزار کے قریب رقم سنبھال کر رکھی ہوں جو سال بھر گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ کیا اس پر زکوۃ بنتی ہے؟* جواب: 595 گرام چاندی کی آپ کے یہاں اپنے شہر میں کتنی قیمت ہے، معلوم کریں کیونکہ اس کے برابر پیسہ ہوجائے اور وہ ایک سال تک رہے تب زکوۃ دینی ہوتی ہے۔ اگر اس کی قیمت کے برابر پیسہ نہ ہو تو زکوۃ نہیں ہے۔ 595 گرام چاندی کی قیمت اس وقت پاکستان میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ یا اس سے زیادہ بنتی ہے اس لئے پچاس ہزار میں آپ کو زکوۃ نہیں دینا ہے۔ *سوال: ہومیوپیتھی میں استعمال ہونے والے الکوحل عموماً ایتھنول (ethanol) ہوتا ہے جو کہ ایک قسم کا نشہ آور الکوحل ہے لیکن ہومیوپیتھک ادویات میں اس کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔ یہ الکوحل صرف دوا کے اجزاء کو حل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر اسے بہت زیادہ گھٹا کر مختلف dilutions میں دیا جاتا ہے۔ چونکہ ان ادویات میں الکوحل کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اس لئے یہ نشہ آور اثرات پیدا نہیں کرتی یعنی آپ کو ہومیوپیتھک ادویات سے کوئی نشہ نہیں ہوگا کیونکہ ان میں اصل فعال اجزاء کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ جسم پر کوئی فوری اثر نہیں ڈالتے۔ کیا ایسے میں ہومیوپیتھی کا استعمال ناجائز ہوگا؟* جواب: الکوحل خواہ کسی چیز سے بھی تیار ہو، اس میں نشہ ہونے کے سبب اسلامی نقطہ نظر سے حرام ہے۔ عام شراب جو انگور اور دیگر پھلوں سے بنائی جاتی ہے، یہ پھل کھانے والی چیز ہے مگر اس سے ایسی چیز بنانا جس میں نشہ پیدا ہوجائے وہ حرام ہوجاتی ہے۔ نبیذ پینا جائز ہے، یہ کھجور سے تیار ہوتی ہے مگر اسی نبیذ میں نشہ پیدا ہوجائے تو وہ حرام ہے۔ آپ یہ مانتے ہیں کہ ہومیوپیتھی میں الکوحل کی ملاوٹ ہے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ الکوحل نشہ آور ہے پھر اس کا جواب یہی ہے کہ ہومیوپیتھی جس میں نشہ آور الکوحل مکس ہے وہ حرام ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ الکوحل کی مقدار کم ہوتی ہے، اس سے نشہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں آپ کو اسلام کا ضابطہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر وہ چیز جس میں نشہ ہو، اگر اس کی زیادہ مقدار سے نشہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے، اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان دیکھیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ(سنن ابي داؤد:3681وقال الشيخ الألباني: حسن صحيح) ترجمہ:جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خالص الکوحل جس کی کثیر مقدار استعمال کرنے سے نشہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی کم مقدار بھی استعمال کرنا جائز ہے لہذا الکوحل کی کم مقدار کو کسی چیز میں مکس کرکے استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ *سوال: ایک شخص تجارت کرتا ہے، کیا وہ اپنی تجارت میں نفع کمانے کے لئے ذخیرہ اندوزی کرسکتا ہے مثلا وہ سبزی کا کاروبار کرتا ہے تو وہ آلو کو ذخیرہ کرلے پھر تین مہینے کے بعد اس کو فروخت کرے اور زیادہ نفع کمائے تو کیا دینی نقطہ نظر سے یہ کام درست ہے؟* جواب: اسلام نے متعدد طریقے سے روزی کمانے سے منع فرمایا ہے، ان میں ایک طریقہ ذخیرہ اندوزی بھی ہے۔ انسانی ضرورت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے زیادہ نفع کمانا حرام ذریعہ آمدنی میں سے ہے اس وجہ سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزیں یا انسان کے روز مرہ کی بنیادی ضروریات کی چیزوں کو لوگوں سے روک کر رکھے اور جب قیمت زیادہ ہوجائے اس کے بعد فروخت کرے، اس طرح روزی کمانا حرام ہے اور ایسا آدمی گنہگار ہوگا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لا يحتكر الا خاطي (مسلم: 1605) ترجمہ: ذخیرہ اندوزی کرنے والا گنہگار ہے۔ لہذا تاجر کے لئے آلو روک کر رکھنا اور اس کی قیمت بڑھنے پر بیچنا جائز نہیں ہے۔ *سوال: ایک خاتون نے اسلام اپنایا اور اس کی امی نے بھی لیکن اس کی امی اس کے ابو سے ابھی تک الگ نہیں ہوئی، اگر ابو ساتھ میں کھانے کے لیے بلاتے ہیں تو کیا ان کے ساتھ بیٹھنا چاہیے جبکہ امی وہاں پر صحیح سے حجاب بھی نہیں کرتی۔ اگر امی ابو کے ساتھ کھانے کے لئے نہ بیٹھے تو ابو ناراض ہو جائیں گے، رہنمائی کریں کہ کیا کرنا چاہیے؟* جواب: جب بیوی مسلمان ہوجائے تو وہ اسلام لانے کی وجہ سے اسی وقت سے اپنے شوہر سے الگ ہوجائے گی اور عدت کا انتظار کرے گی۔ اگر عدت میں شوہر نے اسلام قبول کر لیا تو نکاح باقی رہے گا اور اگر عدت میں اسلام نہیں قبول کیا تو پھر دونوں میں جدائی حاصل ہوجائے گی۔ اگر عورت کے اسلام لانے کے بعد عدت کا مرحلہ گزر گیا ہے تو پھر اس کا سابق شوہر سے تعلق ختم ہوگیا ہے اس وجہ سے اس سے پردہ کرنا ہے اور اس کے پاس نہ سونا ہے، نہ بیٹھنا ہے، نہ کھانا ہے۔ جب ایک عورت نے اللہ کی رضا کے لئے اسلام قبول کرلیا پھر اسے کافر مرد سے کیسی محبت اور اس کی ناراضگی کی کیا پرواہ ہے؟ اگر مرد کو پرواہ ہوتی تو بیوی کی محبت میں وہ بھی مسلمان ہوجاتا لیکن ایسی محبت تو اس میں نہیں ہے پھر بیوی اس مرد سے کیسے محبت کر رہی ہے۔ بہرکیف! بیوی کو سابق شوہر سے تعلق نہیں رکھنا ہے، وہ اس سے الگ رہے گی۔ *سوال:ہم نے تین سال پہلے تجارتی قسم کی ایک زمین لی تھی پھر اس پر کلینک بنایا، اب کچھ ماہ پہلے وہ کلینک مکمل ہوگیا ہے اور شروع بھی کر دیا ہے۔ ملازموں کی تنخواہیں جاری ہیں، کمائی ابھی کچھ خاص نہیں ہوئی۔ اگر ہم اس کو بیچ دیں تو ہمیں قیمت مل جائے گی تو کیا زکوٰۃ اسکی بنیادی قیمت پر ہوگی یا کس طریقے سے دی جائے گی بتا دیں؟* جواب: اگر زمین بیچنے کی نیت سے نہیں لی گئی تھی بلکہ اس پر کچھ بنانے یا اپنے استعمال کے لئے خریدی گئی تھی تو ایسی زمین پر زکوۃ نہیں ہوتی ہے۔ اب جبکہ اس پر کلینک بنایا گیا ہے تو زمین اور کلینک پر بھی کوئی زکوۃ نہیں ہے بلکہ اس سے جو آمدنی ہوگی اگر وہ نصاب تک پہنچے اور ایک سال تک رہے پھر اس میں ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہے۔ ہاں اگر اس کلینک کو بیچنے کی نیت کرلی جائے تو پھر یہ سامان تجارت ہے، اس پر جب ایک سال گزر جائے اس وقت موجودہ قیمت کے حساب سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی لیکن اگر بیچنے کی نیت نہ ہو یا بیچنے کی نیت حتمی نہ ہو بلکہ تذبذب والی ہو تو ایسی صورت میں اس عمارت پر زکوۃ نہیں ہوگی۔ *سوال: اہل کتاب عورت سے اگر نکاح جائز ہے تو پھر اسے وراثت کیوں نہیں ملتی ہے؟* جواب: کتابیہ کو وراثت اس لئے نہیں ملتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وراثت سے منع فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے بعد کیا کسی کو یہ حق ہے کہ وہ اعتراض کرے اور کہے کہ مسلم کی وراثت سے کتابیہ کو کیوں محروم کیا گیا ہے یا کیوں نہیں وراثت دی جائے گی۔ دین نام ہے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو بلا چوں چرا تسلیم کرلینے کا۔ وراثت سے محرومی کی ایک وجہ صاف ہے کہ وہ کافر جماعت سے ہے اس لئے وراثت سے محروم ہے تاہم کتابیہ ہونے کے سبب مسلمان مرد سے بس نکاح کی اجازت ہے۔ *سوال:جن لوگوں نے تجوید نہ پڑھی ہو اور سیکھ بھی نہیں رہے ہوں تو کیا ان کو غلطیوں کے ساتھ تلاوت کرنی چاہیے اور اسی طرح جن لوگوں نے تجوید نہ پڑھی ہو لیکن سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوں اور ابھی ان کی تلاوت میں غلطیاں موجود ہوں تو کیا انہیں تلاوت قرآن کرنا چاہیے یا نہیں؟* جواب: اپنے ملکوں میں تجوید سے لوگوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے اور بغیر تجوید کے قرآن پڑھنے پر گناہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے ایسے لوگ تجوید کے شرعی حکم سے نابلد ہوتے ہیں۔ قرآن کو تجوید سے پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ قرآن کا متن یعنی عربی عبارت جسے پڑھنا آگیا وہ قرآن پڑھے اور جسے عربی عبارت پڑھنا نہ آئے، بھلا وہ قرآن کیسے پڑھے گا اور کیوں کر پڑھے۔ ایسے آدمی پر ضروری ہے کہ پہلے وہ قرآن پڑھنا سیکھے پھر قرآن کی تلاوت کرے۔ قرآن کی تلاوت کے وقت دو باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ جو حروف ہیں، ان حروف کو اسی طرح ادا کئے جائیں مثلا دال ہے تو دال پڑھنا ہے، اس کو ذال نہیں پڑھنا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حرکات کو نہ بدلا جائے یعنی زبر زیر پیش کو صحیح سے پڑھا جائے۔ تاہم کوشش یہ بھی ہو کہ تجوید کے علم کو بھی جانا جائے مگر یہ ضروری نہیں ہے یعنی بغیر تجوید کے بھی قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ *سوال: عدت کے دن اسلامی مہینے کے حساب سے چار ماہ دس دن ہیں یا ایک سو تیس دن پورے کرنے ہیں؟* جواب: عدت کے ایام قمری مہینے کے اعتبار سے چار ماہ دس دن گزارنا ہے تاہم جسے عربی مہینے کے اعتبار سے شمار کرنا مشکل ہو وہ اپنی آسانی کے لئے ایک سو تیس دن گنتی کے پورے کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ *سوال: کسی گاؤں میں ماں اور بیٹی ایک ساتھ رہتے ہیں جبکہ شادی شدہ بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ الگ جگہ رہتا ہے۔ وہ اپنی ماں اور بہن کو کبھی کبھار کچھ خرچہ دیتا ہے۔ ماں کافی بیمار رہنے لگی ہے۔ بیٹی نے ماں کی وجہ سے شادی نہیں کی۔ اب ان کے لئے مہینہ گزارنا اور علاج کرانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ کیا ایسی خواتین کو زکاۃ دے سکتے ہیں، یہ مصارف زکاۃ میں شامل ہیں اور وہ کوئی نوکری بھی نہیں کرتیں؟* جواب: اگر بیٹا اپنی والدہ کو مکمل خرچ نہ دیتا ہو اور کوئی روزگار یا ذریعہ آمدنی نہ ہونے کے سبب اس خاتون کی بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو پاتی ہو تو زکوۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے یعنی کھانے پینے، رہائش اور علاج و معالجہ کے طور پر اسے زکوۃ دے سکتے ہیں۔ *سوال: میری دادی جو اسی سال سے زیادہ عمر کی ہے، جسمانی طور پر بہت کمزور ہو چکی ہے، بیت الخلا جانے میں بھی مشکل ہے۔ کبھی کبھی ان کو ڈائپر کی ضرورت بھی رہتی ہے اور زیادہ تر اس کے ساتھ کسی عورت کا رہنا لازم ہوتا ہے۔ نیند سے اٹھنے کے بعد تھوڑی دیر تک ذہنی طور پر مشکل میں رہتی ہے۔ ان کو عمرہ کرنے کی بہت سال سے نیت ہے لیکن آدھار کارڈ میں پرابلم تھا جو اب اسے درست کر لیا گیا ہے پھر پاسپورٹ بھی بنانے کی کاروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس میں ہمارا سوال ہے کہ کیا اس کو عمرہ جانا ضروری ہے جبکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہاں کچھ اس کے ساتھ مشکل نہ ہو جائے یا ان کی صحت میں کچھ دقت نہ آجائے؟* جواب: حج و عمرہ کے لئے جسمانی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اسی صورت میں اسی سالہ معمر خاتون کو عمرہ پر جانا مناسب نہیں ہے کیونکہ وہ بوڑھی اور ضعیف ہے۔ جو عورت اپنے گھر میں کسی سہارے کی ضرورت مند ہے، اسے گھر سے باہر اور سفر پر لے جانا قطعا مناسب نہیں ہے۔ کسی دوسرے کو اس کی طرف سے بھیج کر عمرہ بدل کرایا جاسکتا ہے مگر اس کو عمرہ کے سفر پر لے کر نہ جایا جائے۔ *سوال: دینی مدرسہ اور بچوں کو پڑھانے والے حافظ صاحب کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے اور گھر میں کام کرنے والے ملازم کو بھی دے سکتے ہیں؟* جواب: دینی مدرسہ میں پڑھانے والے کو اس شرط پر زکوۃ دے سکتے ہیں کہ وہ غریب و مسکین ہو ۔ اگر پڑھانے والا غریب و مسکین نہ ہو تو اسے زکوۃ نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح گھر میں کام کرنے والا ملازم غریب و مسکین کے زمرے میں آتا ہو تو اسے زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن اگر غریب و مسکین کے زمرے میں نہیں آتا ہو تو اسے زکوۃ نہیں دیں گے۔ *سوال:ایک شخص جو حاسد اور بغض رکھنے والا ہو، میاں بیوی میں جھگڑا فساد کرانے والا ہو، بہن بھائیوں میں تفرقہ ڈالتا ہو، ہر کسی کے کردار پر انگلی اٹھاتا ہو، رشتہ داروں میں لگائی بجھائی کرکے جھگڑے کرواتا ہو، ہر کسی کے ساتھ منافقت رکھتا ہو، اس کی بدزبانی سے مسجد والے، ہمسائے اور دوست و احباب بھی تنگ ہوں، ایسے شخص کے ساتھ ہمارے لئے قطع تعلقی کا کیا حکم ہے؟* جواب: جس محلے میں مذکورہ بالا اوصاف کا حامل کوئی آدمی رہتا ہو، اس جگہ پر موجود سارے لوگوں کی پہلی کاروائی یہ ہو کہ محلے والے بیٹھ کر ایسے آدمی کی پنچایت کرے اور جس کے ساتھ اب تک جو کچھ کیا ہے ان تمام لوگوں کی موجودگی میں اس کی حقیقت کو ثبوتوں کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ اگر یہ شخص ان لوگوں کی گواہی اور ثبوت کی بنیاد پر مجرم ٹھہرتا ہے تو اس سے توبہ کرائی جائے اور تمام لوگوں سے معافی مانگنے کے لئے کہا جائے جس کے حق میں زیادتی کی ہے۔ اگر وہ آئندہ کے لیے توبہ کرلیتا ہے اور لوگوں سے معافی بھی مانگ لیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ سماج والے اس شخص کا سوشل بائیکاٹ کریں یعنی اس سے کوئی فرد رشتہ اور تعلق نہ رکھے۔ *سوال: ایک ایسا مدرسہ جس میں کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے کیونکہ اس میں نادار بچے دینی علم حاصل کرتے ہیں۔ اس مدرسہ میں زکوۃ کے پیسے سے سولر سسٹم لگا سکتے ہیں؟* جواب: ایسا مدرسہ جس میں غریب و نادار بچے علم حاصل کرتے ہیں اس مدرسہ میں بچوں اور مدرسہ کی ضروریات کے طور پر زکوۃ دے سکتے ہیں جیسے وہاں سولر کی ضرورت ہو تو اس کو سامنے رکھتے ہوئے مدرسہ کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔ زکوۃ دینے والے کا کام زکوۃ دینا ہے، باقی ادارہ والے اپنی ضرورت کے اعتبار سے زکوۃ کی رقم ادارے پر لگا سکتے ہیں۔ *سوال:کسی عورت کے پچھلے رمضان کے کچھ روزے حمل کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے اور اب وہ دودھ پلا رہی ہے جبکہ دوبارہ رمضان بھی آگیا تو کیا وہ اس طرح رمضان کے بعد پچھلے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے رکھے گی اس کے علاوہ اسے فدیہ بھی دینا ہوگا۔ پچھلے رمضان میں وہ حاملہ تھی اور اب بھی دودھ پلا رہی ہے جس کی وجہ سے اس سے چھوٹے ہوئے روزہ رکھنے کا موقع نہیں مل سکا تو صرف روزہ رکھنا ہے یا فدیہ بھی دینا پڑے گا؟* جواب: جو عورت گزشتہ رمضان کے روزے حمل کی وجہ سے چھوڑی تھی یہاں تک کہ اگلا رمضان بھی آگیا مگر روزہ قضا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ اس رمضان کے بعد اپنے چھوٹے ہوئے روزے رکھ سکتی ہے اور اسے فدیہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، صرف روزہ قضا کرنا ہے۔ *سوال: دس سے پندرہ سال کے بچوں اور لڑکوں کو گھر سے پیسے چرانے کی عادت ہونے لگے جبکہ سب ضرورت پوری کی جاتی ہو۔ بچے کو سمجھایا بھی جاتا ہو، ڈانٹنے پر گھر سے چلا جاتا ہو تو کیسے اسے درست راستہ پر لایا جائے؟* جواب: یہ آدمی کی اپنی اپنی حکمت پر مبنی ہے کہ وہ کیسے اپنے بچے کو چوری سے روکتا ہے۔ کوئی آدمی مار مار کر ایسے بچے کو روک سکتا ہے تو کوئی اس کی خواہش و ضرورت پوری کرکے یا دوسرے انداز میں من پسند مناسب چیز دے کر حوصلہ افزائی کرکے روک سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں دو چیزوں میں احتیاط برتی جائے تو ممکن ہے کہ کچھ فائدہ ہو۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا ماحول بہتر بنائیں یعنی اگر اس کے تعلقات غلط لڑکوں سے ہیں تو فورا اس پر بندش لگائیں، ان سے ملنا جلنا بند کرائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے گھر سے باہر جانے کی نہ دیں، جبرا اور سختی کے ساتھ گھر پر روک کر رکھیں کیونکہ جب وہ گھر سے باہر جایا کرے گا تو پیسے کا غلط استعمال کرے گا۔ عموماً بچہ پیسے کے اسی غلط استعمال کی وجہ سے چوری کرتا ہے کیونکہ اسے گھر سے نکل کر آزادی سے مرضی کے مطابق چیزیں خریدنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کو جس چیز کی ضرورت ہو، کتاب ، کاپی، قلم، کھانے پینے کی اشیاء خود خرید کر دیں مگر اسے باہر نہ بھیجیں۔ جب بھی باہر جائے ذمہ دار کے ساتھ جائے۔ اسی میں یہ بھی ہے کہ پاس پڑوس کی دکان جانے سے بھی روک دیں۔ *سوال: ایک عورت، ایک غریب بچی (جس کے والدین کے پاس مالی تنگی تھی) کو تقریبا چھ سال کی عمر میں اپنے گھر لے آئی۔ تب سے اس کے لئے شادی کی نیت سے کچھ پیسے بنک میں جمع کر رہی تھی۔ اب بچی بڑی ہوگئی ہے۔ جب بھی کوئی اس کو بچی کے لئے پیسہ دیتا تو وہ بنک میں جمع کر دیتی۔ باقی اس کا کھانا پینا اور اسکول وغیرہ کا سارا خرچ اپنے پاس سے دیا کرتی۔ اب بنک میں اس کے نام سے تین لاکھ روپے جمع ہوگئے ہیں، کیا اس بچی کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ کچھ لوگ اس کو زکوۃ دینے سے منع کررہے ہیں۔ شادی کے مقصد سے بچی کے لئے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کئے جارہے ہیں، کیا اب اس لڑکی کے لئے زکوۃ نہیں دی جاسکتی ہے یا اتنے ہی پیسے میں شادی کرنی ہوگی جبکہ شادی میں زیادہ خرچ آتا ہے؟* جواب: جو بچی کسی عورت کی کفالت میں ہے یعنی کسی عورت نے اسے اپنی کفالت میں لے رکھا ہے اور وہ عورت اسے کھلا پلا رہی ہے اور اس کی ضرورت پوری کر رہی ہے ایسی صورت میں اس بچی کا خرچ اس عورت کے ذمہ ہے جس نے اسے اپنے پاس رکھا ہے۔ اگر اس بچی کی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس عورت کے پاس پیسے کی کمی ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں بچی کے لیے لوگ زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن اگر اس بچی کی ضرورت خود وہ عورت پوری کر لیتی ہے تو پھر بچی کے لئے زکوۃ کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک اس بچی کی شادی کا معاملہ ہے اور وہ بڑی بھی ہوگئی ہے، شادی کا وقت قریب ہے تو اس کی شادی کے خرچ کے لیے لوگوں سے زکوۃ لی جاسکتی ہے گرچہ اس کے نام سے بنک میں تین لاکھ روپئے کیوں نہ ہو کیونکہ شادی کے لئے تین لاکھ روپے اس وقت بالکل ناکافی ہیں۔ *سوال:ہم لوگ غیر مسلم کے یہاں مزدوری کرتے ہیں وہ مالک سود کا کاروبار زیادہ کرتا ہے اور مزدوری میں سود کا پیسہ دیتا ہے تو یہاں کام کرنا کیسا ہے؟* جواب: ایسے آدمی کے پاس کام کرنا جائز نہیں ہے جو آدمی مزدور کو مزدوری کے طور پر سودی پیسہ ادا کرے کیونکہ سود کا پیسہ حرام پیسہ ہے اور حرام پیسہ مزدوری میں لینا جائز نہیں ہے، نہ ہی حرام پیسے سے کسی کی دعوت کھانا یا کسی کا تحفہ لینا جائز ہے۔ *سوال: اگر نرینہ اولاد چھڑک کر پیشاب کردے اور جسم کے مختلف حصوں پر لگ جائے تو کپڑے بدلنا لازم ہے یا کوئی اور طریقہ ہے؟* جواب: اگر لڑکا دو سال کے اندر کا ہو تو اس کا پیشاب لگنے پر دھلنا ضروری نہیں ہے، صرف پانی کا چھینٹا مار دینا کافی ہے اس وجہ سے اگر لڑکے نے جس طرح بھی کپڑے پر پیشاب کیا ہو پیشاب کے ان ساری جگہوں پر پانی کے چھینٹے مار لیتے ہیں تو یہ کافی ہے اور اگر دل کی تسلی کے لئے پورا کپڑا دھلنا چاہیں یا بدلنا چاہیں تو اور بھی بہتر ہے تاکہ دل سے نجاست کا وسوسہ زائل ہوجائے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ نوٹ: اس قسم کے روز مرہ کے شرعی مسائل کی مزید جانکاری کے لئے آپ شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ کے واٹس ایپ چینل کو فالو کرسکتے ہیں۔ https://whatsapp.com/channel/0029Va9mdWs6xCSG2iHfsW2P
👍 ❤️ 3

Comments