
Mufti Abdul Samad Abdullah
February 13, 2025 at 01:15 PM
*"شبِ برأت"*
شعبان کی پندرہویں شب "شبِ برأت" کہلاتی ہے، یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں سے بری کر دیا جاتا ہے۔ تقریباً دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں:
1- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "شعبان کی پندرہویں شب میں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آرام گاہ پر موجود نہ پایا تو تلاش میں نکلی، دیکھا کہ آپ ﷺ جنت البقیع یعنی قبرستان میں ہیں، پھر مجھ سے فرمایا کہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے۔"
2- دوسری حدیث میں ہے: "اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے ہر بچے کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اس رات میں اس سال مرنے والے ہر آدمی کا نام لکھ لیا جاتا ہے، اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور تمہارا رزق اتارا جاتا ہے۔"
3- ایک روایت میں ہے کہ "اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے، وہ یہ ہیں: مشرک، والدین کا نافرمان، کینہ پرور، شرابی، قاتل، شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور چغل خور۔ ان سات افراد کی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کر لیں۔"
4- حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ "اس رات میں عبادت کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو، اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے: 'کون ہے جو گناہوں کی بخشش کروائے؟ کون ہے جو رزق میں وسعت طلب کرے؟ کون مصیبت زدہ ہے جو مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہو؟'"
ان احادیثِ کریمہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین رحمہم اللہ کے عمل سے اس رات میں تین کام کرنا ثابت ہے:
1- قبرستان جا کر مردوں کے لیے ایصالِ ثواب اور مغفرت کی دعا کی جائے، لیکن یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شبِ برأت میں جنت البقیع جانا ثابت ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے چلا جائے تو اجر و ثواب کا باعث ہے، لیکن پھول پتیاں، چادر چڑھاوے، اور چراغاں کا اہتمام کرنا اور ہر سال جانے کو لازم سمجھنا، اس کو شبِ برأت کے ارکان میں داخل کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے، اس کو اسی درجہ میں رکھنا چاہیے، اس کا نام اتباع اور دین ہے۔
2- اس رات میں نوافل، تلاوت، ذکر و اذکار کا اہتمام کرنا۔ اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے، یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، لہذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھر میں ادا کر کے اس موقع کو غنیمت جانیں۔ نوافل کی جماعت اور مخصوص طریقہ اپنانا درست نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شور و شغب اور میلے، اجتماع منعقد کرنے کی راتیں نہیں ہیں، بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ سے تعلقات استوار کرنے کے قیمتی لمحات ہیں، ان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
3- دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، ایک تو اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ ایامِ بیض (۱۳، ۱۴، ۱۵) کے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے، لہذا اس نیت سے روزہ رکھا جائے تو موجبِ اجر و ثواب ہوگا۔
باقی اس رات میں پٹاخے بجانا، آتش بازی کرنا اور حلوے کی رسم کا اہتمام کرنا یہ سب خرافات اور اسراف میں شامل ہیں۔ شیطان ان فضولیات میں انسان کو مشغول کر کے اللہ کی مغفرت اور عبادت سے محروم کر دینا چاہتا ہے، اور یہی شیطان کا اصل مقصد ہے۔
❤️
2