
Mufti Abdul Samad Abdullah
742 subscribers
About Mufti Abdul Samad Abdullah
*Darulifta Madrasa Madina Tul Uloom Karachi* *For Islamic Question & Answer* 👇👇 https://chat.whatsapp.com/HYUSdv3ZA0p0nBs1b7ogyH *Instagram* 👇👇 https://instagram.com/madinatululom?igshid=MzNlNGNkZWQ4Mg== *Facebook Page* 👇👇 https://www.facebook.com/profile.php?id=100087574544416&mibextid=ZbWKwL... *Telegram* 👇👇 https://t.me/madinatululom *Twitter* 👇👇 https://www.twitter.com/madinatululom
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*عید غدیر کی شرعی حیثیت* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری سفرحج سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اور اس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا''من کنت مولاہ فعلی مولاہ''جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کادوست ہے،اس خطبہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں، ان سے اورمیرے اہل بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے، اور ان سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیرخُم میں ''من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' ارشاد فرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لئے نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لئے تھا، اور الحمدللہ! اہل سنت والجماعت اتباع سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کاجزء سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا، اس لیے ایک فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے، اور ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اوراسے عید غدیر کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دن عید کی ابتداء کرنے والا ایک حاکم معزالدولۃ گزرا ہے ،اس شخص نے 18 ذوالحجہ 351 ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اور اس کا نام ''عید خُم غدیر'' رکھا۔ جب کہ دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ جس کاتقاضہ یہ ہے کہ اس دن اس طرح کی خرافات سے مسلمان دور رہیں۔ 🔅 الغرض !دین اسلام میں صرف دوعیدیں اور دو ہی تہوارہیں، ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ، ان دو کے علاوہ دیگر تہواروں اور عیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں، اس لئے نہ منانا جائز ہے اور نہ ان میں شرکت درست ہے۔

*➖ خلیفہ سوم، جنتی صحابی، جامع القرآن ➖* 🌟 *حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ذُوالنُّورَین* 🌟 🔹 *نبی کریم ﷺ نے فرمایا:* *"أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ"* *"میں اس شخص سے کیوں نہ حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں!"* (مسلم 2401) 🔹 *نبی کریم ﷺ نے فرمایا:* *"عثمان جنت میں جائے گا"* (ترمذی 3747) 🔹 *نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جس نے رُومہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا، اُس کے لیے جنت ہے!"* *اور یہ حضرت عثمان تھے جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔* (بخاری: 2778) 🔹 *غزوہ تبوک میں، حضرت عثمان نے 950 اونٹ، 50 گھوڑے اور 1000 دینار راہِ خدا میں دیے۔* *نبی کریم ﷺ نے فرمایا:* *"ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم"* *"عثمان کو آج کے بعد جو بھی عمل کرے، کوئی نقصان نہ ہوگا!"* (ترمذی: 3700) 📘 *حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمیں حیا، سخاوت، تقویٰ اور خدمتِ دین کا پیغام دیتی ہے۔ دین کے لیے مال خرچ کرنا، صبر و تحمل سے امت کی خدمت کرنا اور نرمی سے امت کو جوڑنا – یہ سب ہمیں ان کی زندگی سے سیکھنے کو ملتا ہے۔*

*کھانا کھانے کی سنتیں: ہاتھ دھونا*


🌿 *آج کا انسان بے شمار آپشنز اور سہولتوں میں گھر کر الجھن کا شکار ہو چکا ہے۔ اب مسئلہ چیزوں کی کمی نہیں، بلکہ انتخاب کی بھرمار ہے جو ذہنی انتشار پیدا کرتی ہے۔ راستوں کی کثرت انسان کو کسی ایک سمت میں آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ ہر فیصلہ نئے تردد کو جنم دیتا ہے، اور انسان سکون سے محروم رہتا ہے۔* 🔅 *سکون اس کثرت میں نہیں، بلکہ سادگی، قناعت اور اصولوں پر ثابت قدمی میں ہے۔ کامیابی ہر دروازہ کھولنے میں نہیں، بلکہ غیر ضروری دروازے بند کرنے میں ہے۔*


📜 *سورۃ الإسراء کی آیت 23–24* 🌿 *﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾* 🔅 *ترجمہ: اور تمہارے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو، اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔* 🌿 *(1) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بناؤ۔* 📌 *یہ سب سے پہلا اور بنیادی حکم ہے۔ اس کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کو جوڑ دیا گیا — اس کی عظمت کا اندازہ لگائیں!* 🌿 *(2) اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے ساتھ نرمی، ادب اور شفقت کا برتاؤ کرو۔* 💎 *﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا﴾* 🔅 *اگر ان میں سے ایک یا دونوں تیرے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔* 💎 *(الف) ﴿فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ﴾* 🔅 *انھیں "اُف" تک نہ کہو — یعنی جھنجھلانے کا ادنیٰ سا اظہار بھی نہ کرو۔* 💎 *(ب) ﴿وَلَا تَنْهَرْهُمَا﴾* 🔅 *ان پر سختی نہ کرو، نہ ہی جھڑک کر بات کرو۔* 💎 *(ج) ﴿وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾* 🔅 *ان سے نرمی، عزت، محبت اور ادب سے بات کرو۔* 💎 *(د) ﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾* 🔅 *ان کے لیے عاجزی و انکساری کے بازو جھکاؤ — یعنی ان کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرو۔* 💎 *(ھ) ﴿وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾* 🔅 *یہ دعا مانگا کرو: “اے میرے رب! ان پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔”* 🔹 *اللہ کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا سب سے بڑا فریضہ ہے۔* 🔹 *ان کے ساتھ بدتمیزی، سخت لہجہ، یا ناگواری کا اظہار—even "اُف" کہنا بھی—قرآن نے منع فرمایا۔* 🔹 *حسنِ کلام، عاجزی، اور دعا کے ذریعے ان کی خدمت کرو۔*


⚖️ *مہنگائی بڑھی، منافع بڑھا… مگر تنخواہیں وہیں کی وہیں!* ▪️ *چھ سال قبل اگر کسی ملازم کی تنخواہ 30,000 روپے تھی، تو وہ کسی حد تک اپنے گھر کا خرچ چلا لیتا تھا۔ آج اسی معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اسے کم از کم 90,000 روپے درکار ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی کئی لوگ 30 یا 40 ہزار میں گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ کی کمائی دوگنی ہوئی، مگر اس کی زندگی آدھی کیوں ہو گئی؟* ▪️ *مہنگائی بڑھی تو اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی گئیں، مگر صرف قیمتیں نہیں بڑھیں، بلکہ چیزوں کی مقدار اور معیار (Quantity & Quality) بھی گھٹا دی گئی۔ گویا دوہرا منافع: ایک چیز مہنگی بھی، اور کم بھی!* ▪️ *ایسے میں وہ تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقہ جو اشیاء بیچتے ہیں، انہیں تو مہنگائی سے فائدہ ہوا، مگر وہ مزدور، کلرک، سیلز مین، گودام والے یا خانساماں…؟ وہ تو آج بھی اسی پرانے معاوضے پر پسینے بہا رہے ہیں۔* ▪️ *بڑے بڑے ادارے اور کاروبار آج بھی اپنے ملازمین کو وہی تنخواہ دے رہے ہیں جو چھ سال پہلے دی جاتی تھی، یا معمولی اضافہ ہوا ہے جو مہنگائی کے طوفان میں نقطے کے برابر ہے۔* ▪️ *بڑے بڑے ادارے، فیکٹریاں، دکانیں اور کمپنیز والے جو کروڑوں کما رہا ہے آج بھی اپنے ملازمین کو ناانصافی کے ساتھ کم تنخواہیں دے رہے ہیں۔* 🔅 *یہ صرف دنیاوی ظلم نہیں، بلکہ دینی جرم ہے!* 🌿 *رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو" (سنن ابن ماجہ)* 🌿 *ایک اور حدیث میں فرمایا: "تین افراد ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خود دشمن ہوں… اُن میں سے ایک وہ ہے جو کسی کو کام پر رکھے، اُس سے پورا کام لے، اور اُسے اجرت نہ دے۔"*(بخاری) ⚖️ *آج اگر کوئی تاجر یا مالک مہنگائی کے باوجود تنخواہ نہ بڑھائے، اور صرف خود منافع کمائے، تو وہ صرف ظلم نہیں کر رہا بلکہ قیامت کے دن نبی کریم ﷺ کے دشمنوں میں شمار ہو سکتا ہے۔* 📌 *سوچیے! کیا آپ کا کاروبار صرف نفع کا ذریعہ ہے، یا آخرت کی جواب دہی کا مقام بھی؟* ▪️ *اگر آپ کی دولت ملازموں کے حق چھین کر بڑھ رہی ہے، تو یاد رکھیے! وہ دولت آپ کے لیے بوجھ بن جائے گی۔* ✒️ *عبدالصمد عبداللہ*