علم و کتاب
علم و کتاب
February 7, 2025 at 08:12 AM
معصوم مراد آبادی ہماری نسل کے لوگوں کو اس ماحول میں لے جاتے ہیں، جو ہمارے بھی سن شعور کا ابتدائی زمانہ ہے، اللہ تعالی آپ کو شاد وآباد رکھے۔ شمع کے تذکرے میں موصوف نے ڈاکٹر اصغر کمال صاحب کا تذکرہ کیا ہے، جو اس بزم کے بھی معزز اور فعال رکن ہیں، ڈاکٹر صاحب پریس اور جلد بندی کے کاروبار سے وابستہ ہیں، اور دسمبر اور جنوری کا مہینہ ان کے یہاں کھیتی کاٹنے کا زمانہ ہوتا ہے، لہذا آج کل اس بزم سے دور ہیں۔ اللہ ان کے کاروبار میں برکت دے، اور کٹائی کے موسم کے بعد حسب سابق اس بزم میں فعال رہنے کی فرصت عنایت کرے۔ معصوم صاحب نے دہلی کے مرحوم مجلہ شمع کا تذکرہ کیا ہے، بچپن میں بھٹکل کے چوک بازارکے وسط میں کیٹ حاجی باپا کی دکان پر شمع کا نیا شمارہ آنے پر چونے کی چاک سے لکڑی کے بنے ایک لٹکتے ہوئے چوکور بورڈ پر نظر آتا تھا کہ شمع آگیا ہے، پھر یہ پرچہ ہمارے یہاں ہندو حجاموں کی دکانوں پر نظر آتا تھا، چونکہ ہم جامعہ میں پڑتے تھے اور کبھی سینما دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اور مکتب جامعہ میں پڑھنے کی وجہ سے اسے ہاتھ میں لیتے ہوئے شرم بھی معلوم ہوتی تھی۔ لہذا اس زمانے میں اس کی ادبی قدر قیمت نہ معلوم ہوسکی، فراغت کے بعد جب انجمن کالج کے پروفیسر حضرات سے روابط ہوئے تو ان میں سے ایک ہندی کے پروفیسر ڈاکٹر افضل علی صاحب سے روابط ہوئے جو بارہ بنکی سے تعلق رکھتے تھے، اور مسلمانوں میں معدودے چند ہندی میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں میں سے تھے، اور وہ اپنے دور کے مقبول ترین ناول شمیم اور انور کے مصنف فیاض علی ایڈوکیٹ کے گاؤں کے تھے، انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ شمع دہلی فلمی پرچہ ہونے کی وجہ سے بدنام ہے، ورنہ اس میں شائع ہونے والے ادبی مضامین اور افسانے سب سے زیادہ معیاری ہوا کرتے ہیں، اس زمانے میں سنا تھا کہ شمع دہلی افسانہ نگار کو ایک افسانے پر اس زمانے میں ڈیڑھ سو(۱۵۰) روپئے ملتے تھے جب کہ آٹھ گرام سونے کی گنی کی قیمت (۵۳) روپئے کے آس پاس ہوا کرتی تھی، اورخوشتر گرامی کا بیسویں صدی ایک افسانہ پر (۵۰) روپئے دیتا تھا۔ ممتاز صحافی ندیم صدیقی(ممبئ) نے واجدہ تبسم کے تذکرے میں لکھا ہے کہ " بزرگ کہتے تھے کہ اُس زمانے میں واجدہ نے شمع میں شائع ہونے والے اپنے افسانوں کیلئے پیشگی رقم کا مطالبہ کیا اور شمع کے مالک و مدیر نے بلا تردد انھیں پانچ کہانیوں کیلئے ایک بڑی رقم دی جس کا حساب لگایا جائے تو اس دور میں وہ کسی بھی طرح لاکھ کے عدد سے کم نہیں"۔ (پرسہ ۔۱۲۹) آج جس طرح لاکھ روکیں دینی مدرسوں کے طلبہ یوٹیوب اور موبائل سے نہیں رکتے، ہم لوگوں کی نظر کبھی شمع پر پڑ ہی جاتی تھی، بال کٹوانے جاتے ہوئے، ورنہ گھروں میں یہ پرچہ کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ مقبولیت میں بیسویں صدی کا نمبر اس کے بعد آتا تھا، اور جیسا کہ ڈاکٹر عبید اقبال عاصم صاحب نے بتایا ہے، خوشتر گرامی کے تیر ونشتر اور خاکوں میں ہماری بھی بڑی دلچسپی ہوا کرتی تھی، اگر یاد داشت غلطی نہیں کررہی ہے تو خوشتر گرامی کے نقش قدم پر بیسویں صدی میں تیر ونشتر اور خاکوں کا سلسلہ ظفر احمد نظامی نے جاری رکھا تھا۔ اس میں فکر تونسوی کا کالم پیاز کے چھلکے بہت مقبول تھا۔ فضیل احمد جعفری مرحوم روزنامہ انقلاب ممبئی کے بعد جب بلٹز سے وابستہ ہوئے تھے تو اس میں معروف شخصیات کی خود ساختہ طنزیہ ڈائری کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو بڑا دلچسپ تھا۔ *عبد المتین منیری (بھٹکل)*
👍 1

Comments